Surat Younus

Surah: 10

Verse: 14

سورة يونس

ثُمَّ جَعَلۡنٰکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لِنَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴﴾

Then We made you successors in the land after them so that We may observe how you will do.

پھر ان کے بعد ہم نے دنیا میں بجائے ان کے تم کو جانشین کیا تاکہ ہم دیکھ لیں کہ تم کس طرح کام کرتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And indeed, We destroyed generations before you when they did wrong, while their Messengers came to them with clear proofs, but they were not such as to believe! Thus do We requite the people who are criminals. Then We made you successors after them, generations after generations in the land, that We might see how you would work. Allah tells us about what happened to past generations when they belied the Messengers and the clear signs and proofs the latter brought to them. Allah then made this nation successor after them. He sent to them a Messenger to test their obedience to Him and following His Messenger. Muslim recorded that Abu Nadrah reported from Abu Sa`id that he said: "Allah's Messenger said: إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ وَإِنَّ اللهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بِنَي إِسْرَايِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاء The world is indeed sweet and green; and verily Allah is going to install you generations after generations in it in order to see how you act. So safeguard yourselves against the world and avoid (the trial caused by) women. For the first trial of the Children of Israel was due to women." Ibn Jarir reported from Abdur-Rahman from Ibn Abi Layla that; Awf bin Malik said to Abu Bakr: "In a dream, I saw a rope hanging from the sky and Allah's Messenger was being raised. The rope was suspended again and Abu Bakr was raised. Then people were given different measurements around the Minbar, and Umar was favored with three forearm measurements." Umar said: "Keep your dream away from us, we have no need for it." When Umar succeeded, he called for Awf and said to him, "Tell me about your dream" Awf said: "Do you need to hear about my dream now! Did you not scold me before!" He then said, "Woe unto you! I hated for you to announce it to the successor of Allah's Messenger himself." So Awf related his dream until he got to the three forearms, he said: "One that he was Khalifah, second he did not -- for the sake of Allah -- fear the blame of blamers, and third he was a martyr." Allah said: ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَيِفَ فِي الاَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ Then We made you successors after them, generations after generations in the land, that We might see how you would work. Then he said: "Son of the mother of Umar, you have been appointed as Khalifah, so look at what you will do! About not fearing the blame of blamers, that is Allah's will. About becoming a martyr, how can Umar reach that when the Muslims are in support of him!"

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 خلائف، خلیفہ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں، گزشتہ امتوں کا جانشین۔ یا ایک دوسرے کا جانشین۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] یعنی اے اہل عرب ! اب تمہاری باری آچکی ہے پہلی قوموں کی جگہ تم نے لے لی ہے اور جیسی زیادتیاں اور ظلم تم سے پہلے لوگ کرتے رہے وہ تم بھی کر رہے ہو ان کے پاس بھی ہم نے رسول بھیجے تھے اور تمہارے پاس بھی بھیجا ہے اور اب ہم یہ دیکھیں گے کہ تم سابقہ اقوام کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہو یا نہیں ؟ اور رسول پر ایمان لاکر اپنی باغیانہ روش سے باز آتے ہو یا نہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ ۔۔ : یعنی ان کے بعد تمہیں زمین میں ان کے جانشین بنایا، اگر تم بھی ان کی طرح ظلم و سرکشی پر کمربستہ رہو گے تو تمہاری تباہی بھی یقینی ہے۔ یہ خطاب ان تمام لوگوں کو ہے جن کی طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 14, it was said: ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْ‌ضِ مِن بَعْدِهِمْ لِنَنظُرَ‌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ ﴿١٤﴾ (Then We made you vice-regents on the earth, in order to see how you would act), that is, ` after the destruction of past peoples, We made you suc¬cessors to them giving you the vice-regency of the earth. But, let this not give you any false idea that this vice-regency of the earth has been given to you so that you could have a good time. In fact, this honor has been bestowed on you to test you and to see how you would act - would you learn your lesson from the history of past peoples or would you lose your head drunk with power and wealth?& This tells us that worldly power is not something to be proud of or arrogant about. This is responsibility at its toughest, a charge very heavy and very fragile to handle.

چوتھی آیت میں فرمایا (آیت) ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ، یعنی پھر پچھلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے تمہیں ان کا قائم مقام بنایا اور زمین کی خلافت تمہارے حوالہ کردی مگر یہ نہ سمجھو کہ یہ زمین کی خلافت تمہارے عیش و آرام کے لئے تمہیں سپرد کی گئی ہے بلکہ اس اعزازو اکرام کا اصل مقصد یہ ہے کہ تمہارا امتحان لیا جائے کہ تم کیسا عمل کرتے ہو، پچھلی تاریخ امم سے متاثر ہو کر اپنے حالات کی اصلاح کرتے ہو یا حکومت و و دولت کے نشہ میں سرشار ہوجاتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی حکومت و اقتدار کوئی فخر و ناز کی چیز نہیں بلکہ ایک بھاری بوجھ ہے جس کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ۝ ١٤ ثمَ ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة/ 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و : ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان/ 20] فهو في موضع المفعول ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس/ 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة/ 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان/ 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ خلف والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر/ 39] ، ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) پھر اے امت محمد یہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کی ہلاکت کے بعد دنیا میں ہم نے تمہیں آباد کیا تاکہ ہم دیکھ لیں تم کس طرح نیک اعمال کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰٓءِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْم بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ) ” پھر ان کے بعد ہم نے تمہیں زمین میں جانشین بنا دیا ‘ تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیا کرتے ہو ! “ یہاں ہر شخص انفرادی طور پر بھی اپنی محدود عمر میں امتحان دے رہا ہے اور قومیں اور امتیں بھی اپنے اپنے وقفۂ مہلت میں اس امتحان گاہ سے گزر رہی ہیں۔ علامہ اقبالؔ کے بقول : ؂ قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18. One should not lose sight of the fact that the immediate addressees of the present discourse were the people of Arabia. Here they are told that all previous nations were granted the opportunity to show their potential to do good. Instead, they took to wrong-doing and rebellion and rejected the message of the Prophets who had been raised solely to guide them. Thus they failed in the test to which they were put by God and were accordingly removed from the scene of history. Now the turn of the Arabs has come and they have also been granted the opportunity to prove their worth. They have also been put to the same test to which the previous nations had been put and in which they had failed. If the people of Arabia want to avoid meeting a similarly tragic fate, they would be well advised to avail themselves of the opportunity granted them, to learn the lessons from the history of the previous nations, and to avoid the mistakes which led to the undoing of many in the past.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :18 خیال رہے کہ خطاب اہل عرب سے ہو رہا ہے ۔ اور ان سے کہا یہ جا رہا ہے کہ پچھلی قوموں کو اپنے اپنے زمانے میں کام کرنے کا موقع دیا گیا تھا ، مگر انہوں نے آخرکار ظلم و بغاوت کی روش اختیار کی اور جو انبیاء علیہم السلام ان کو راہ راست دکھانے کے لیے بھیجے گئے تھے ان کی بات انہوں نے نہ مانی ۔ اس لیے وہ ہمارے امتحان میں ناکام ہوئیں اور میدان سے ہٹا دی گئیں ۔ اب اے اہل عرب تمہاری باری آئی ہے ۔ تمہیں ان کی جگہ کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے ۔ تم اس امتحان گاہ میں کھڑے ہو جس سے تمہارے پیش رو ناکام ہو کر نکالے جا چکے ہیں ۔ اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارا انجام بھی وہی ہو جو ان کا ہوا تو اس موقع سے ، جو تمہیں دیا جا رہا ہے ، صحیح فائدہ اٹھاؤ ، پچھلی قوموں کی تاریخ سے سبق لو اور ان غلطیوں کا اعادہ نہ کرو جو ان کی تباہی کی موجب ہوئیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1۔ اوپر بتایا کسان کی بددعا اور طلب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نہ اترنے میں سراسر اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ پھر ان کا حال یہ ہے کہ تکلیف نازل ہونے پر اللہ تعالیٰ کے سامنے آہ زاری کرنے لگتے ہیں۔ اب یہاں انہیں تہدید کی تمہاری بداعمالیوں کے باوجود اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹل جائے تو تمہیں بےفکر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایک نہ ایک دن ان بداعمالیوں کی سزا تو مل کر ہی رہے گی۔ تمہیں چاہیے کہ پہلی مجرم قوموں کے حالات پر غور کرو کہ آخر ان کا انجام کیا ہوا۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ۔ 2۔ یعنی اگر تم بھی ان کی طرح ظلم و شرارت پر کمربستہ رہے گے تو تمہاری تباہی بھی یقنی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم جعلنکم خلئف فی الارض من بعدھم پھر ان کے یعنی ہلاک شدہ قوموں کے بعد ہم نے (اے اہل مکہ ! ) تم کو ان کا جانشین بنایا۔ لننظر کیف تعملون۔ تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو اچھے یا برے اور گزشتہ اقوام کے احوال سے عبرت اندوز ہو کر پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہو یا نہیں کرتے۔ یہ آیت بتا رہی ہے کہ اعمال و افعال بذات خود نہ اچھے ہوتے ہیں نہ برے۔ افعال کی اچھائی برائی ‘ کیفیت و جہت کے اختلاف پر مبنی ہے۔ ایک ہی عمل مختلف وجوہ کے تحت اچھا بھی ہوجاتا ہے اور برا بھی۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : دنیا میٹھی اور سرسبز ہے۔ اللہ تم کو یہاں (گزشتہ اقوام کا) جانشین بنائے گا اور دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلآءِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ م بَعْدِھِمْ ) ( پھر ہم نے تمہیں ان لوگوں کے بعد زمین میں خلیفہ بنایا) ۔ گزشتہ قومیں ہلاک ہوگئیں ان لوگوں کی حکومتیں ‘ سلطنتیں خاک میں مل گئیں تعمیرات برباد ہوئیں ‘ منصوبے خاک میں ملے جو دنیاوی ترقیاں کی تھیں وہ سب ختم ہوئیں ان کی جگہ اب موجودہ اقوام دنیا میں آباد ہیں۔ حکومتیں ہیں دولتیں ہیں یہ لوگ پرانی قوموں کے خلیفہ ہیں۔ یعنی ان کے بعدزمین میں بسے ہیں اور زمین میں انہیں اقتدار ملا ہے۔ یہ خلافت اس لئے نہیں ہے کہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھیں اور دنیا ہی کیلئے مریں اور جیئیں اور دنیا میں فساد کریں ‘ یہ خلافت آزمائش کے لئے دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ) تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔ اگر گزشتہ امتوں کی طرح فساد کیا اللہ کی کتاب کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلایا کفر میں اور بد اعمالیوں میں لگے تو آزمائش میں فیل ہوں گے اور عذاب کے مستحق ہوں گے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دنیا میٹھی ہے۔ ہری بھری ہے ‘ اور بلاشبہ اللہ اس میں تمہیں پہلے لوگوں کے بعد بسانے والا ہے سو وہ دیکھے گا کہ تم (دنیا میں) کیا کرتے ہو سو تم دنیا سے بچو اور عورتوں (کے فتنہ) سے بچو ‘ کیونکہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ جو ظاہر ہوا وہ عورتوں کا فتنہ تھا۔ (رواہ مسلم)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:“ قَالَ الَّذِیْنَ لَایَرْجُوْنَ ”۔ یہ شکوٰی ہے یعنی جب مشرکین کو ہمارا پیغمبر ہماری آیات بینات پڑھ کر سناتا ہے جن میں دلائل توحید اور رد شرک کا بیان ہوتا ہے اور جن میں ان کے معبودانِ باطلہ کی بےبسی اور بیچارگی کا ذکر ہوتا ہے تو وہ بول اٹھتے ہیں یہ قرآن تو ہم ماننے سے رہے البتہ اگر اس قرآن کی جگہ کوئی دوسرا قرا ان لے آؤ یا اسی میں ترمیم کر ڈالو۔ الغرض قرآن میں ہمارے معبودوں کی توہین و تحقیر کا مضمون نہ ہو اور نہ اس میں حشر ونشر کا ذکر ہو تو ہم اسے بسر وچشم قبول کرنے کو تیار ہیں۔ “ (وَاِذَا تُتْلیٰ عَلیْھِمْ اٰیٰتُنَا) الدلاة علی حقیة التوحید وبطلان الشرک ای ائت بکاتب اخر نقرءہ لیس فیه ما نستبعده من البعث والحساب والجزاء وما نکرھه من ذم اٰلھتنا و معایبھا والوعید علی عبادتھا ” (ابو السعود ج 4 ص 800) ۔ “ اَوْ بَدِّلْهُ بان تجعل مکان اٰیة عذاب اٰیة رحمة و تسقط ذکر الالھة وذم عبادتھا ” (مدارک ج 2 ص 120) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14 پھر ان قوموں کے بعد ہم نے تم کو ان کا جانشین اور نائب بنایا تاکہ ظاہری طور پر ہم دیکھ لیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔