Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 22

سورة الرعد

وَ الَّذِیۡنَ صَبَرُوا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً وَّ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عُقۡبَی الدَّارِ ﴿ۙ۲۲﴾

And those who are patient, seeking the countenance of their Lord, and establish prayer and spend from what We have provided for them secretly and publicly and prevent evil with good - those will have the good consequence of [this] home -

اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ صَبَرُواْ ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِمْ ... And those who remain patient, seeking their Lord's Face, They observe patience while staying away from sins and evil deeds, doing so while dedicating themselves to the service of their Lord the Exalted and Most Honored and seeking His pleasure and generous reward, ... وَأَقَامُواْ الصَّلَةَ ... and perform the Salah, preserving its limits, times, bowing, prostration and humbleness, according to the established limits and rulings of the religion, ... وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ... and spend out of that which We have bestowed on them, They spend on those whom they are obliged to spend on them, such as their spouses, relatives and the poor and needy in general, ... سِرًّا وَعَلَنِيَةً ... secretly and openly, They spend during all conditions and times, whether during the night or the day, secretly and openly, ... وَيَدْرَوُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّيَةَ ... and repel evil with good, they resist evil with good conduct. When the people harm them they face their harm with good patience, forbearing, forgiveness and pardon. Allah said in another Ayah, وَلاَ تَسْتَوِى الْحَسَنَةُ وَلاَ السَّيِّيَةُ ادْفَعْ بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ وَمَا يُلَقَّاهَأ إِلاَّ ذُو حَظِّ عَظِيمٍ Repel (the evil) with one which is better, then verily he, between whom and you there was enmity, (will become) as though he was a close friend. But none is granted it except those who are patient - and none is granted it except the owner of the great portion in this world. (41:34-35) This is why Allah states here that those who have these good qualities, the blessed ones, will earn the final home, ... أُوْلَيِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ for such there is a good end. which He explained next,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچتے ہیں۔ یہ صبر کی ایک قسم ہے۔ تکلیفوں اور آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، یہ دوسری قسم ہے۔ اہل دانش دونوں قسم کا صبر کرتے ہیں۔ 22۔ 2 ان کی حدود و مواقیت، خشوع و خضوع اور اعتدال ارکان کے ساتھ۔ نہ کہ اپنے من مانے طریقے سے۔ 22۔ 3 یعنی جہاں جہاں اور جب بھی، خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، اپنوں اور بیگانوں میں اور خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ 22۔ 4 یعنی ان کے ساتھ کوئی برائی سے پیش آتا ہے تو وہ اس کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں، یا عفو و درگزر اور صبر جمیل سے کام لیتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' (اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ) 41 ۔ حم السجدۃ :34 ۔ برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو اچھا ہو (اگر تم ایسا کرو گے) تو وہ شخص جو تمہارا دشمن ہے، ایسا ہوجائے گا گویا وہ تمہارا گہرا دوست ہے '۔ 22۔ 5 یعنی جو اعلٰی اخلاق کے حامل اور مزکورہ خوبیوں سے متصف ہوں گے، ان کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] یعنی راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات کو ثابت قدمی کے ساتھ برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام و حدود میں اللہ کی رضا کی خاطر اپنے نفس کی خواہشات پر کنٹرول کیا۔ اس لحاظ سے ایک مومن کی ساری زندگی ہی دراصل صبر کی زندگی ہوتی ہے۔ [٣١] یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب ہو۔ خوشحال ہو یا تنگ دست ہو۔ ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ قرآن کی بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ پوشیدہ طور پر صدقہ کرنا علانیہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ غالباً اسی لیے پہلے پوشیدہ صدقہ کا ذکر کیا گیا۔ پھر صدقہ کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک فرضی یعنی زکوٰۃ دوسرے نفلی۔ علماء کہتے ہیں کہ فرضی صدقہ علانیہ کرنا بہتر ہے۔ تاکہ دوسروں کو بھی رغبت پیدا ہو اور نفلی صدقات پوشیدہ طور پر کرنے چاہئیں پھر رزق سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں اللہ کی ہر نعمت رزق ہے جو انسان کی جسمانی یا روحانی تربیت میں کارآمد ہو۔ اس لحاظ سے علم دین، پاکیزہ فنون اور صحت وغیرہ سب رزق میں شامل ہیں اور اللہ کی راہ میں ان میں سے بھی خرچ کرنا ضروری ہے یہ مضمون بہت طویل ہے اور قرآن میں جابجا مذکور ہے۔ اس لیے یہاں اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ [٣٢] یَدْرَءُ وْنَ کا لغوی معنی دور ہٹانا اور پرے کرنا ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جب ان سے کوئی برا کام ہوجاتا ہے تو بعد میں اچھے کام کرکے تلافی مافات کردیتے ہیں۔ کیونکہ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب ان سے کوئی برائی کرے تو اس کا جواب برائی سے نہیں بلکہ بھلائی سے دیتے ہیں اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں اور اس بارے میں بھی بہت سی احادیث وارد ہیں۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بھلائی کا بدلہ بھلائی سے دے بلکہ وہ ہے کہ اگر دوسرا اسے برے سلوک سے قطع کرنے کی کوشش کرے تو وہ اچھا سلوک کرکے اسے جوڑے رکھنے کی کوشش کرے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافیئ) اور یہ بات صرف رشتہ داروں سے مختص نہیں بلکہ ہر شخص کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ : یعنی ہر اس مقام پر جہاں صبر قابل تعریف ہے وہ محض اللہ کے چہرے کی خاطر صبر کرتے ہیں، تاکہ وہ راضی ہوجائے۔ نہ ریا (دکھاوے) کے لیے، نہ سمعہ (شہرت) کے لیے کہ لوگ کہیں واہ کیا صابر شخص ہے۔ صبر کا معنی روکنا، باندھنا ہے۔ اپنے آپ کو اللہ کے احکام کی پابندی پر قائم رکھنا ” صَبْرٌ عَلَی الطَّاعَۃِ “ ہے، اس کی نافرمانی سے رکنا ” صَبْرٌ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ “ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی مصیبت، مثلاً بیماری، فاقہ، خوف یا اموات وغیرہ پر اپنے آپ کو جزع فزع سے روکنا اور اسے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی تقدیر سمجھ کر کسی شکوہ و شکایت کے بغیر برداشت کرنا ” صَبْرٌ عَلَی الْمُصِیْبَۃِ “ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کی یہ تمام صورتیں ” اُوْلُوْا الْبَاب “ کی صفت ہیں۔ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ : اس کی تفسیر کے لیے سورة بقرہ کی آیت (٣) ملاحظہ فرمائیں۔ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً : فرض زکوٰۃ علانیہ دینا افضل ہے، تاکہ کفر کی تہمت سے بچے، نفل صدقہ دوسروں کو ترغیب دلانے کے لیے علانیہ ہو اور ریا سے پاک ہو تو بہت ہی اچھا ہے، مگر علانیہ صدقے میں ریا کا امکان ہے، اس لیے پوشیدہ صدقے کا جواب ہی نہیں ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٧١) قیامت کے دن عرش کا سایہ پانے والوں میں سے ایک وہ بھی ہے جو دائیں ہاتھ سے صدقہ کرے تو بائیں کو خبر بھی نہ ہو۔ [ بخاري، الأذان، باب من جلس فی المسجد۔۔ : ٦٦٠ ] وَّيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ : ” دَرَءَ یَدْرَءُ دَرْءً ا “ (ف) ہٹانا، دفع کرنا، دور کرنا، یعنی ” اُوْلُوْا الْبَاب “ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ برائی کو نیکی کے ساتھ ہٹاتے ہیں، یعنی برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ 34؀ وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا ۚ وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ ) [ حٰآ السجدۃ : ٣٤، ٣٥ ] ” اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) سے ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔ اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کریں اور یہ نہیں دی جاتی مگر اسی کو جو بہت بڑے نصیب والا ہے۔ “ یہ طریقہ ذاتی عداوتوں اور زیادتیوں کے جواب کا ہے کہ زیادتی کے جواب میں صبر کرے اور معاف کر دے۔ رہا اللہ کے دین پر زیادتی اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں سرکشی اور عناد کا جواب بہترین طریقے سے دینا تو اس کی صورت دوسری ہے۔ وہاں برائی کو نیکی کے ساتھ ہٹانے کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی کافر یا اللہ کا باغی دین پر زیادتی کر رہا ہو تو آپ اسے برداشت کریں اور صبر کریں، بلکہ اس برائی کو بہترین طریقے سے ہٹانا نہ اسے آزاد چھوڑنا ہے نہ معاف کرنا، بلکہ یہاں اسے ہٹانے کا بہترین طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار کیا اور اس کا حکم دیا کہ جو شخص تم میں سے کوئی منکر (برائی) دیکھے اسے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کام کی قوت نہیں تو زبان سے روکے اور اگر اتنی بھی قوت نہیں تو (کم از کم) اسے دل میں برا سمجھے۔ [ مسلم، الإیمان، باب بیان کون النہی ۔۔ : ٤٩ ] یہاں سب سے اچھا طریقہ (بِالَّتِی ھِیَ اَحْسَن) جہاد فی سبیل اللہ ہے اور اس کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ یک لخت ہی جانی دشمن دلی دوست بن جاتے ہیں۔ دیکھیے ثمامہ بن اثال، ہندہ، عکرمہ بن ابی جہل، خالد بن ولید (رض) اور عرب کے وہ سردار جو کسی صورت ایمان قبول کرنے والے نظر نہ آتے تھے، جہاد کی نیکی کی برکت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثار دوست بن گئے۔ ” برائی کو نیکی کے ساتھ ہٹاتے ہیں “ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ نیک عمل کرکے برے عمل کو مٹا دیتے ہیں، جیسے فرمایا : (اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ) [ ھود : ١١٤ ] ” بیشک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ “ اور ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا عَمِلْتَ سَیِّءَۃً فَأَتْبِعْھَا حَسَنَۃً تَمْحُھَا ) [ أحمد : ٥؍١٦٩، ح : ٢١٥٤٣، صحیح ] ” جب تم کوئی برائی کرو تو اس کے بعد کوئی نیکی کرو، وہ اسے مٹا دے گی۔ “ اور فرمایا : ( وَ إِذَا عَمِلْتَ سَیِّءَۃً فَاعْمَلْ بِجَنْبِہَا حَسَنَۃً السِّرُّ بالسِّرِّ وَالْعَلاَنِیَۃُ بالْعَلاَنِیَۃِ ) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٣؍ ٤٦٢، ح : ١٤٧٥ ] ” جب تم کوئی برائی کرو تو اس کے ساتھ ہی نیکی کرلو، وہ اسے مٹا دے گی، پوشیدہ برائی کو پوشیدہ نیکی کے ساتھ اور علانیہ برائی کو علانیہ نیکی کے ساتھ مٹاؤ۔ “ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ : ” عُقْبَى الدَّارِ “ ” عَاقِبَۃٌ“ کی طرح مصدر ہے، وہ چیز جو کسی چیز کے پیچھے آئے، عام طور پر یہ لفظ اچھے انجام کے معنی میں آتا ہے۔ ” الدَّارِ “ میں الف لام عہد کا ہے، یہ گھر یعنی دنیا، یعنی ان صفات والوں کے لیے دنیا کے گھر کے بعد کا انجام بہت اچھا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The sixth attribute has been stated as: وَالَّذِينَ صَبَرُ‌وا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَ‌بِّهِمْ (and those who observe patience in order to seek the pleasure of their Lord). The meaning of: صَبر (Sabr) in the Arabic language is fairly general as compared with the sense which has become popular in the Urdu lan¬guage (in which this Commentary was originally written). There it means to be patient under distress. (Regretfully, the common counterpart, pa¬tience, used for صَبر &Sabr& in English is also not free of its limitations, and does not carry the full and rich sense of the original Arabic). The reason is that the real meaning of صَبر Sabr is that one does not become upset under the stress of what is temperamentally unpalatable and, in fact, keeps doing what must be done resolutely and steadfastly. Therefore, it is di¬vided into two kinds. One of them is Perseverance with Obedience صَبر عَلَی اَلطَّاعَۃ ، that is, being steadfast while observing and implementing the injunctions of Allah Ta’ ala. The other kind is Perseverance against Dis¬obedience and Sin صَبر علٰی الَمعصِیَۃِ , that is, being steadfast in refraining from and staying safe against sins. The restriction of: اِبتِغَآءِ وَجہِ رَبِّھِم (in order to seek the pleasure of their Lord) tells us that Sabr or patience, in its general sense, is no matter of merit by itself because there comes a time when even the most impatient person somehow gets to become reconciled with his or her lot after all. So, Sabr or patience which is not willful has no worth or merit, nor does Allah Ta` ala ever obligate anyone with something which is beyond his control. Therefore, in Hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: اَلصَّبر عِندَ الصَّمَدۃِ , that is, &the real and trustworthy Sabr is none but the one which is taken to immediately at the initial stage of shock. Otherwise, later on, sooner or later, one is left with no choice but to become reconciled and patient. As against this, the Sabr which is worthy of all praise is the Sabr under which one elects, by choice, to tolerate and be patient about what is contrary to his or her liking - whether it is the fulfillment of what one is obligated with, or is the abstinence from what is unlawful or reprehen¬sible. Therefore, if someone entered the house of somebody else with the in¬tention of theft, but did not find the opportunity to do so, thus, having been left with no other choice but to observe patience, he returned back. Now, this Sabr or patience, non-voluntary as it is, is no act deserving praise or reward. It brings Thawab or reward only when one abstains from sin because of the fear of Allah and the desire to seek His pleasure. The seventh attribute is: أَقَامُوا الصَّلَاةَ (establish Salah). The Qur’ anic ex¬pression for &establish Sa1ah means to perform Sa1ah with all its attend¬ing conditions and rules of etiquette and the essential humbleness of heart. It is not just the &saying& of prayers as a matter of routine. Therefore, speaking generally, the command to perform, offer, or make prayers appearing in the Holy Qur&an has been given with the specific word: Iqamah, usually rendered as &establish& in English, though still wanting. The eighth attribute is: وَأَنفَقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً (and spend from what We have given to them secretly and openly). The hint given here is that the amount of Zakah prescribed by Allah Ta` ala is not something He is asking of you, in fact, what He is asking for is a certain portion of what He has given to you, and that too is limited to the insignificant measure of 2-1/2 percent. Naturally, giving this much should naturally be no cause of reluctance for you. The adverb of: سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً (secretly and openly) with the command to spend wealth in the way of Allah tells us that concealment is not always the only Sunnah method in charities - instead, on occasions, doing it openly is also correct and sound. Therefore, religious scholars have said that the giving of obligatory Zakah and charities openly is better and more merit-worthy. Doing it secretly is not appropriate so that other peo¬ple could be pursuaded and prompted to do the same. However, the giv¬ing of voluntary charities (Sadaqat) secretly is certainly better and more merit-worthy. Ahadith in which giving secretly has been commended are concerned with such optional and voluntary charities. The ninth attributes stated here is: وَيَدْرَ‌ءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ (and repel evil with good). The sense is that these people repel evil with good, enmity with friendship and injustice with forgiveness, and do not retaliate by doing what is evil in return for evil done. Some commentators have ex¬plained the meaning by saying that these people repel sin by acting righteously, that is, if some sin gets to be committed by them, they follow it up by repentance, obedience and worship so punctually and abundantly that the past sin is obliterated. According to Hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) advised Sayyidna Mu’ adh (رض) : If, after evil, you do good, it will obliter¬ate evil. It means that should a person reflect, feel ashamed of having committed a sin, repent and make amends by following it up with a good deed, then, this good deed will wash off his or her past sin. Just going ahead and doing something good without first having felt ashamed and having repented after the commitment of sin is not sufficient for the for¬giveness of that sin. After having recounted these nine attributes of the obedient servants of Allah Ta` ala, the reward promised for them is: أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (Those are the ones for whom there is the ultimate abode). The word: الدَّارِ (ad-dar: abode, home) refers to the abode of the &Akhirah or Hereafter, that it, the prosperity and success of the &Akhirah is for them. Some com-mentators have said that &abode& at this place means the abode of the mortal world the sense of which is that good people, though they have to face hardships too in this mortal world, but, finally, they are the ones who succeed in this mortal world as well.

چھٹی صفت یہ بیان فرمائی (آیت) وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ ۔ یعنی وہ لوگ جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضائی جوئی کے لئے صبر کرتے ہیں صبر کے معنی عربی زبان میں اس مفہوم سے بہت عام ہیں جو اردو زبان میں سمجھا جاتا ہے کہ کسی مصیبت اور تکلیف پر صبر کریں کیونکہ اس کے اصلی معنی خلاف طبع چیزوں سے پریشان نہ ہونا بلکہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنے کام پر لگے رہنا ہے اسی لئے اس کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں ایک صبر اعلی الطاعۃ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل پر ثابت قدم رہنا دوسرے صبر میں عن المعصیۃ یعنی گناہوں سے بچنے پر ثابت قدم رہنا صبر کے ساتھ اِبْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ کی قید میں یہ بتلایا کہ متعلقہ صبر کوئی فضیلت کی چیز نہیں کیونکہ کبھی نہ کبھی تو بےصبرے انسان کو بھی انجام کار ایک مدت کے بعد صبر آ ہی جاتا ہے جو صبر غیر اختیاری ہو اس کی کوئی خاص فضیلت نہیں نہ ایسی غیر اختیاری کفیت کا اللہ تعالیٰ کسی کو حکم دیتے ہیں اسی لئے حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یعنی اصلی اور معتبر صبر تو وہی ہے جو ابتدائے صدمہ کے وقت اختیار کرلیا جائے ورنہ بعد میں تو کبھی نہ کبھی جبری طور پر انسان کو صبر آ ہی جاتا ہے بلکہ قابل مدح وثناء وہ صبر ہے کہ اپنے اختیار سے خلاف طبع امر کو برداشت کرے خواہ وہ فرائض و واجبات کی ادائیگی ہو یا محرمات و مکروہات سے بچنا ہو اسی لئے اگر کوئی شخص چوری کی نیت سے کسی مکان میں داخل ہوگیا مگر وہاں چوری کا موقع نہ ملا صبر کر کے واپس آ گیا تو یہ غیر اختیاری صبر کوئی مدح وثواب کی چیز نہیں ثواب جب ہے کہ گناہ سے بچنا خدا کے خوف اور اس کی رضائی جوئی کے سبب سے ہو۔ ساتویں صفت : وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۔ اقامت صلوۃ کے معنی نماز کو اس کے پورے آداب و شرائط اور خشوع کے ساتھ ادا کرنا ہے محض نماز پڑھنا نہیں اسی لئے قرآن کریم میں عموما نماز کا حکم اقامت صلوۃ کے الفاظ سے دیا گیا ہے۔ آٹھویں صفت : (آیت) وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً یعنی وہ لوگ جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے کچھ اللہ کے نام پر بھی خرچ کرتے ہیں اس میں اشارہ کیا گیا کہ تم سے جس مال زکوٰۃ وغیرہ کا مطالبہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے وہ کچھ تم سے نہیں مانگتا بلکہ اپنے ہی دیئے ہوئے رزق کا کچھ حصہ وہ بھی صرف ڈھائی فی صد قلیل و حقیر مقدار میں آپ سے مانگا جاتا ہے جس کے دینے میں آپ کو طبعا کوئی پس و پیش نہ ہونی چاہئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے ساتھ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً کی قید سے معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات میں ہر جگہ اخفاء ہی مسنون نہیں بلکہ بعض اوقات اس کا اظہار درست و صحیح ہوتا ہے اسی لئے علماء نے فرمایا زکوٰۃ اور صدقات واجبہ اعلان و اظہار ہی افضل و بہتر ہے اس کا اخفاء مناسب نہیں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی تلقین اور ترغیب ہو البتہ نفلی صدقات کا خفیہ دینا افضل و بہتر ہے جن احادیث میں خفیہ دینے کی فضیلت آئی ہے وہ نفلی صدقات ہی کے متعلق ہے نویں صفت ہے يَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ یعنی یہ لوگ برائی کو بھلائی سے دشمنی سے ظلم کو عفو و درگذر سے دفع کرتے ہیں، برائی کے جواب میں برائی سے پیش نہیں آتے، اور بعض حضرات نے اس کے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ گناہ کو نیکی سے دفع کرتے ہیں یعنی اگر کسی وقت کوئی خطاء و گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو اس کے بعد اطاعت و عبادت کی کثرت اور اہتمام اتنا کرتے ہیں کہ اس سے پچھلا گناہ محو ہوجاتا ہے حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو وصیت فرمائی کہ بدی کے بعد نیکی کرلو تو وہ بدی کو مٹا دے گی مراد یہ ہے کہ جب اس بدی اور گناہ پر نادم ہو کر توبہ کرلی اور اس کے پیچھے نیک عمل پیچھلے گناہ کو مٹا دے گا بغیر ندامت اور توبہ کے گناہ کے بعد کوئی نیک عمل کرلینا گناہ کی معافی کے لئے کافی نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں کی یہ نو صفتیں بیان کرنے کے بعد ان کی جزا یہ بیان فرمائی اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّار دار سے دار آخرت ہے یعنی انہی لوگوں کے لئے دار آخرت کی فلاح اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ دار سے مراد دار دنیا ہے اور مراد یہ ہے کہ نیک لوگوں کو اگرچہ اس دنیا میں تکلیفیں بھی پیش آتی ہیں مگر انجام کار دنیا میں بھی فلاح و کامیابی انھی کا حصہ ہوتا ہے آگے اسی عُقْبَى الدَّار یعنی دار آخرت کی فلاح کا بیان ہے ٣ وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ سے معلوم ہوا کہ صبر کے جو فضائل قرآن و حدیث میں آئے ہیں کہ صبر کرنے والے کو اللہ جل شانہ کی معیت اور نصرت و امداد حاصل ہوتی ہے اور بےحساب اجر وثواب ملتا ہے وہ سب اسی وقت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے صبر اختیار کیا ہو ورنہ یوں تو ہر شخص کو کبھی نہ کبھی صبر آہی جاتا ہے صبر کے اصلی معنی اپنے نفس کو قابو میں رکھنے اور ثابت قدم رہنے کے ہیں جس کی مختلف صورتیں ہیں ایک مصیبت اور تکلیف پر صبر کہ گھبرائے نہیں اور مایوس نہ ہو اللہ تعالیٰ پر نظر رکھے اور امیدوار رہے دوسرے اطاعت پر صبر کہ احکام الہیہ کی پابندی اگرچہ نفس کو دشوار معلوم ہو اس پر قائم رہے تیسرے معصیت اور برائیوں سے صبر کہ اگرچہ نفس کا تقاضا برائی کی طرف چلنے کا ہو لیکن خدا تعالیٰ کے خوف سے اس طرف نہ چلے۔ ٤ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا خفیہ اور علانیہ دونوں طرح سے درست ہے البتہ افضل یہ ہے کہ صدقات واجبہ زکوٰۃ صدقہ الفطر وغیرہ کو علانیہ ادا کرے تاکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ادائیگی کی ترغیب ہو اور صدقات نافلہ جو واجب نہیں ان کو خفیہ ادا کرے تاکہ ریا کاری اور نام ونمود کے شبہ سے نجات ہو۔ ٥ يَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ سے معلوم ہوا کہ ہر برائی کو دفع کرنا جو عقلی اور طبعی تقاضا ہے اسلام میں اس کا طریقہ یہ نہیں کہ برائی کا جواب برائی سے دے کر دفع کیا جائے بلکہ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ برائی کو بھلائی کے ذریعہ دفع کرو جس نے تم پر ظلم کیا ہے تم اس کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو جس نے تمہارے تعلق کا حق ادا نہیں کیا تم اس کا حق ادا کرو جس نے تم پر غصہ کیا تم اس کا جواب حلم و بردباری سے دو جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن بھی دوست ہوجائے گا اور شریر بھی آپ کے سامنے نیک بن جائے گا۔ اور اس جملہ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ گناہ کا بدلہ اطاعت سے ادا کرو کہ اگر کبھی کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو فورا توبہ کرو اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگ جاؤ تو اس سے تمہارا پچھلا گناہ بھی معاف ہوجائے گا۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) نے فرمایا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب تم سے کوئی برائی یا گناہ سرزد ہوجائے تو اس کے بعد تم نیک عمل کرلو اس سے وہ گناہ مٹ جائے گا (رواہ احمد بسند صحیح، مظہری) اس نیک عمل کی شرط یہ ہے کہ پچھلے گناہ سے توبہ کر کے نیک عمل اختیار کرے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً وَّيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ 22۝ۙ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو درأ الدَّرْءُ : المیل إلى أحد الجانبین، يقال : قوّمت دَرْأَهُ ، ودَرَأْتُ عنه : دفعت عن جانبه، وفلان ذو تَدَرُّؤٍ ، أي : قويّ علی دفع أعدائه، ودَارَأْتُهُ : دافعته . قال تعالی: وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ [ الرعد/ 22] ، وقال : وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذابَ [ النور/ 8] ، وفي الحدیث : «ادْرَءُوا الحدود بالشّبهات» ( د ر ء ) الدواء ( ف ) کے معنی ونیزہ وغیرہ کے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس کی کجی کو درست کردیا میں نے اس سے دفع کیا قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ [ الرعد/ 22] اور نیکی کے ذریعہ برائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذابَ [ النور/ 8] اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے ۔ حدیث میں ہے ۔«ادْرَءُوا الحدود بالشّبهات» شرعی حدود کو شہبات سے دفع کرو حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیتکریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے عقبي والعُقْبُ والعُقْبَى يختصّان بالثّواب نحو : خَيْرٌ ثَواباً وَخَيْرٌ عُقْباً [ الكهف/ 44] ، وقال تعالی: أُولئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ [ الرعد/ 22] ، والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ( ع ق ب ) العقب والعقیب العقب والعقبی خاص کر ثواب یعنی اچھے بدلے پر بولے جاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ خَيْرٌ ثَواباً وَخَيْرٌ عُقْباً [ الكهف/ 44] اس کا صلہ بہتر اور ( اس کا ) بدلہ اچھا ہے ۔ أُولئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ [ الرعد/ 22] یہی لوگ ہیں جن کے لئے عافیت کا گھر ہے ۔ ۔ اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) اور یہ لوگ ایسے ہیں کہ اپنے رب کی رضا مندی کے خواہش مند رہ کر اس کے احکامات پر پوری طرح قائم رہتے ہیں اور پانچوں نمازوں کے پابند رہتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے چھپ کر بھی اور لوگوں کے سامنے ظاہر کرکے بھی صدقہ و خیرات کرتے رہتے ہیں اور جب کوئی ان کے ساتھ برائی کرتا ہے تو اچھی بات اور حسن سلوک سے اس کو ٹال دیتے ہیں، مذکورہ صفات والے حضرات کے لیے جنت ہے اور ان حضرات کو کون سی جنت ملے گی اب اس کی تفصیل یہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَّيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ) وہ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے بلکہ کوئی شخص اگر ان کے ساتھ برائی کرتا ہے تو وہ جواباً اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہیں تاکہ اس کے اندر اگر نیکی کا جذبہ موجود ہے تو وہ جاگ جائے۔ (اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39. “Those who are patient”: They remain self possessed and keep under control all their desires and lusts and do not transgress the bounds, and they do not yield to temptations to disobey their Lord in order to gain advantages and gratify their desires. Nay, they bear with calm courage and endurance losses and afflictions that are inevitable in the obedience of Allah. If we consider the life of a believer from this point of view, we shall find that his entire life is the life of endurance and fortitude, for he keeps himself under control in very trying circumstances in this world in the hope of winning the approval of his Lord and in the expectation of gaining permanent benefits in the Hereafter: so he fights with fortitude every temptation to sin. 40. That is, if others do evil to them, they do not do evil in return but do good instead. They do not fight mischief with mischief but with virtue. Howsoever unjust one may be to them, they do justice in every case. Likewise, they remain truthful and honest even in the case of those who tell lies against them and show dishonesty towards them. There is a tradition of the Prophet (peace be upon him) to the same effect: You should not imitate others in your conduct towards other people, for it is wrong to say: We will do goodness to others, if they do goodness to us and we will do injustice to them if they are unjust to us. On the other hand, you should follow this principle: If others do goodness to you, you should do goodness to them, but if they do evil to you, you should not be unjust to them. There is another tradition, which begins with the words: My Lord has bidden me to do nine things. Four of these things are, I should behave justly towards everyone whether I am pleased or offended with him. I should render the right even of the one who violates my rights. I should pay the dues even of the one who depraves me of my due. I should forgive the one who has been unjust to me. There is yet another tradition to the same effect: Don’t be faithless even to the one who has been faithless to you. There is also a saying of Umar that amounts to the same thing: The best way of punishing the one, who does not fear God in his dealings with you, is that you should fear God in your dealings with him.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :39 یعنی اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے ہیں ، اپنے جذبات اور میلانات کو حدود کا پابند بناتے ہیں ، خدا کی نافرمانی میں جن جن فائدوں اور لذتوں کا لالچ نظر آتا ہے انہیں دیکھ کر پھسل نہیں جاتے ، اور خدا کی فرمانبرداری میں جن جن نقصانات اور تکلیفوں کا اندیشہ ہوتا ہے انہیں برداشت کرتے جاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے مومن کی پوری زندگی درحقیقت صبر کی زندگی ہے ، کیونکہ وہ رضائے الہی کی امید پر اور آخرت کے پائدار نتائج کی توقع پر اس دنیا میں ضبط نفس سے کام لیتا ہے اور گناہ کی جانب نفس کے ہر میلان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :40 یعنی وہ بدی کے مقابلے میں بدی نہیں بلکہ نیکی کرتے ہیں ۔ وہ شر کا مقابلہ شر سے نہیں بلکہ خیر ہی سے کرتے ہیں ۔ کوئی ان پر خواہ کتنا ہی ظلم کرے ، وہ جواب میں ظلم نہیں بلکہ انصاف ہی کرتے ہیں ۔ کوئی ان کے خلاف کتنا ہی جھوٹ بولے ، وہ جواب میں سچ ہی بولتے ہیں ۔ کوئی ان سے خواہ کتنی ہی خیانت کرے ، وہ جواب میں دیانت ہی سے کام لیتے ہیں ۔ اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لا تکونو ا امعۃ تقولون ان احسن الناس احسنا و ان ظلمونا ظلمنا ۔ و لٰکن وطّنوا انفسکم ، ان احسن الناس ان تحسنوا و ان اساؤا فلا تظلموا ۔ ”تم اپنے طرز عمل کو لوگوں کے طرز عمل کا تابع بنا کر نہ رکھو ۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے ۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بناؤ ۔ اگر لوگ نیکی کریں تو نیکی کرو ۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو ۔ “ اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے ۔ اور ان میں سے چار باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں ، جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں ، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں ، اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کر دوں ۔ اور اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لا تخن من خانک ” جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر“ ۔ اور اسی معنی میں ہے حضرت عمر رضی للہ عنہ کا یہ قول کہ ” جو شخص تیرے ساتھ معاملہ کرنے میں خدا سے نہیں ڈرتا اس کی سزا دینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ تو اس کے ساتھ خدا سے ڈرتے ہوئے معاملہ کر“ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: قرآنِ کریم کی اصطلاح میں ’’صبر‘‘ کا مفہوم بہت عام ہے۔ اِنسان اپنی نفسانی خواہشات کے تقاضوں کو جب بھی اﷲ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے دبا لے تو یہ صبر ہے۔ مثلاً نفس کی خواہش یہ ہورہی ہے کہ اس وقت کی نماز چھوڑ دی جائے۔ ایسے موقع پر اس خواہش کی خلاف ورزی کر کے نماز پڑھنا صبر ہے۔ یا اگر کسی گناہ کی خواہش دِل میں پیدا ہورہی ہے تو اس کو دبا کر گناہ سے بچ جانا صبر ہے۔ اِسی طرح اگر کسی تکلیف کے موقع پر اگر نفس کا تقاضا یہ ہو کہ اﷲ تعالیٰ کے فیصلے پر شکوہ اور غیر ضروری واویلا کیا جائے، تو ایسے موقع پر اﷲ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہ کر اختیاری واویلا نہ کرنا بھی صبر ہے۔ اس طرح صبر کا لفظ دِین کے تمام احکام پر عمل کو حاوی ہے۔ یہی معنیٰ آیت نمبر 24 میں بھی مراد ہیں۔ 23: یعنی بُرائی کا بدلہ اچھائی سے دیتے ہیں، اور ’’دفاع‘‘ کا لفظ استعمال فرما کر قرآنِ کریم نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ اچھائی کرنے کا انجام بالآخر یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کی بد سلوکی کے بُرے اثرات مٹ جاتے ہیں۔ 24: اس آیت میں اصل الفاظ یہ ہے: ’’لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ‘‘۔ اس میں الدار کے لفظی معنیٰ ’’گھر‘‘ کے ہیں۔ بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد آخرت کا عالم ہے۔ یہ لفظ بکثرت وطن کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے ،اور یہاں آخرت کے بجائے اِس لفظ کو اِستعمال کرنے سے بظاہر اشارہ اس طرف ہے کہ اِنسان کا اصلی گھر اور وطن آخرت ہے، اِس لئے کہ دُنیا کی زندگی تو فنا ہوجانے والی ہے۔ اِنسان کو ہمیشہ ہمیشہ جہاں رہنا ہے، وہ آخرت کا عالم ہے۔ اس لئے یہاں ’’الدار‘‘ کا ترجمہ ’’اصلی وطن‘‘ سے کیا گیا ہے۔ یہی بات آگے آیت 24 و 25 میں بھی ملحوظ رہنی چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢۔ ٢٤۔ ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ جو لوگ برے کاموں سے صرف خدا کی خوشنودی کے واسطے الگ رہے اور جن لوگوں نے پنجگانہ نماز قائم کی اور جو کچھ خدا نے ان کو دیا اس میں سے حق دار کو بال بچوں رشتہ داروں کو فقرا اور مساکین کو دیا غرض کہ جو جو موقع خرچ کا خدا نے بتلایا ہے اس کے مطابق کھلم کھلا یا چھپ کر خرچ کیا اور برائی کے عوض بھلائی کرتے رہے اگر کسی نے ان کو تکلیف دی یا ستایا تو صبر کر کے چپ ہو رہے اس کے بدلے کے پیچھے نہ پڑے تو آخرت کا گھر انہیں نیک بختوں کے واسطے بنایا گیا ہے مفسروں نے یہ بیان کیا ہے عدن ایک محلہ ہے جنت کا اور بعضوں نے کہا ہے ایک شہر ہے جنت میں غرض کہ یہ خود بھی وہاں جائیں گے اور ان کے بال بچے باپ ماں بھی اگر نیک بخت ہیں تو انہیں کے ساتھ رہیں گے اور فرشتے ہر ہر دروازہ سے آکر ان کو سلام کریں گے اور کہیں گے کیا اچھا آخرت کا گھر تمہارے صبر کے بدلہ میں ملا ہے۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی ایک حدیث ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم لوگ جانتے ہو کہ سب سے پہلے کون جنت میں داخل ہوگا لوگوں نے کہا خدا اور خدا کا رسول جانتا ہے آپ نے فرمایا فقرا مہاجرین کہ ان میں سے کسی کی کوئی حاجت بھی ہوتی ہے تو مرتے وقت وہ اپنے دل میں لے جاتا ہے اللہ پاک اپنے فرشتوں سے کہے گا تم جا کر اس بندے سے سلام کہو وہ کہیں گے ہم تیری بہتر مخلوق ہیں آسمان کے رہنے والے ہیں تو ہم کو ان کے پاس جا کر سلام کہنے کا حکم فرماتا ہے اللہ پاک فرمائے گا یہ مرے وہ بندے ہیں جنہوں نے خاص میری عبادت کی ہے اور کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرایا ان کی کوئی حاجت بھی ہوئی تو وہ پوری نہیں ہوتی تھی مرتے وقت اس کو اپنے دل میں لے کر آئے ہیں۔ اس کے بعد فرشتے ان کے پاس جنت میں ہر دروازہ سے جائیں گے اور کہیں گے۔ { سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار } ١ ؎ معتبر سند سے تفسیر ابن منذر اور تفسیر ابن مردویہ میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر سال کے شروع میں شہیدوں کی قبروں پر جاتے تھے اور یہ کہتے تھے۔ ( سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار) ٢ ؎ ایک صبر تو احکام شرع کی تکلیفوں پر آدمی کو کرنا پڑتا ہے جیسے مثلاً روزہ میں بھوک پیاس کی تکلیف پر صبر کرنا جاڑے میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کی تکلیف پر صبر کرنا۔ ایک صبر جانی یا مالی مصیبت پر کرنا پڑتا ہے غرض ہر طرح کا صبر اللہ تعالیٰ کی خوشی اور عقبیٰ کے ثواب کی نیت سے ہونا چاہیے۔ دنیا کی کسی غرض کا لگاؤ اس میں نہ ہوں { صبروا ابتغآء وجہ ربھم } کا یہی مطلب ہے { وانفقوا مما رزقناھم } کی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے صحیح قول کے موافق زکوٰۃ کی ہے۔ اس سے ان علماء کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ مکہ میں فرض ہوئی ہے اور اس کے وصل کا انتظام مدینہ میں آنے کے بعد شروع ہوا ہے۔ معتبر سند سے ترمذی اور مسند امام احمد میں ابوذر (رض) اور معاذ بن جبل (رض) کی روایتیں ہیں جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی سے کوئی گناہ ہوجاوے تو اس کو اس گناہ کے کفارہ کے لئے کچھ نیک کام کرنا چاہیے۔ ٣ ؎ مسند امام احمد میں عقبہ بن عامر (رض) کی معتبر حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص پر کوئی زیادتی کرے اور وہ در گزر کرے تو اس کا بڑا اجر ہے ٤ ؎ { ویدرءون بالحسنۃ السیئۃ } کی یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں سے خود کوئی برائی ہوجاوے تو اس کے کفارہ کے لئے یہ لوگ نیک کام کرتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا شخص ان کے ساتھ برائی سے پیش آوے تو یہ لوگ در گزر سے کام لیتے ہں۔ ١ ؎ تفسیر فتح البیان ص ٥٨٧ ج ٢ و تفسیر ابن کثیر ص۔ ٥١ ج ٢۔ ٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٥٨ ج ٤۔ ٣ ؎ الترغب ص ١٣١ ج ٢ باب الترغیب فی صلۃ الرحم و مجمع الزوائد ص ١٨٨ ج ٨ باب حکارم الاخلاق والعفو عن ظلم۔ ٤ ؎ الترغیب ص۔ ١٥ ج ٢ باب الترغیب فی الخلق الحسن الخ نیز دیکھئے شرح خمسین (از حافظ ابن رجب) ص ١١١ طبع امر تسر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:22) ابتغائ۔ (باب افتعال) بغی سے۔ البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں میانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ۔ بغی دوقسم پر ہے۔ (1) محمود یعنی حد اعتدال سے تجاوز کر کے مرتبہ احسان حاصل کرنا۔ اور فرض سے تجاوز کر کے تطوع بجالانا۔ (2) مذموم ۔ حق سے تجاوز کر کے باطل یا شبہات میں واقع ہونا۔ ابتغائ۔ خاص کر کوشش کر کے کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش محمود ہوگی۔ مثلاً آیۃ ہذا۔ ابتغاء وجہ ربہم۔ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اور ابتغاء رحمۃ من ربک۔ (17:28) اپنے پروردگار کی رحمت حاصل کرنے کے لئے۔ یدرء ون۔ مضارع جمع مذکر غائب درء مصدر باب فتح ، دور کرتے ہیں دفع کرتے ہیں (نیکی کے ذریعے برائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ) الدرء (فتح) کے معنی (نیزہ وغیرہ کے) ایک طرف مائل ہوجانے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے۔ قومت درء ۃ۔ میں نے اس کی کجی کو درست کردیا۔ اور درءت عنہ میں نے اس سے دفع کیا (دور کیا ہٹایا) عقبی۔ عاقبت، انجام، بدلہ۔ بھلائی۔ جزاء عمل ۔ کیونکہ یہ بھی فعل کی انجام دہی کے بعد ہی ملتی ہے قاضی ثناء اللہ پانی پتی صاحب تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں۔ عقبی وعاقبۃ۔ کا استعمال ثواب اور نیکی کی بہتر جزاء کے لئے مخصوص ہے۔ جس طرح کہ عقوبۃ ومعاقبۃ اور عقاب کا استعمال عذاب اور برائی کی سخت سزا کے ساتھ خاص ہے۔ جیسے ھنالک الولایۃ للہ الحق ھو خیر ثوابا وخیر عقبا۔ (18:44) ایسے موقعہ پر کارسازی اللہ برحق ہی کا کام ہے ثواب کے لحاظ سے بھی اور انجام کے لحاظ سے بھی بہتر۔ اور والعاقبۃ للمتقین۔ (28: 83) اور نیک انجام تو متقیوں کے لئے ہے۔ اور عقاب کے بارے میں ارشاد ہے ان کل الا کذب الرسل فحق عقاب۔ (38:14) ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تھا۔ سو میرا عذاب (ان پر) واقع ہوگیا۔ لیکن اضافت کے ساتھ عاقبت کا استعمال عقوبۃ کے معنی میں ہوتا ہے۔ مثلاً ثم کان عاقبۃ الذین اساء وا السوای (30:10) پھر برا کام کرنے والوں کا انجام برا ہی ہوا۔ علاوہ ازیں ذیل کی آیت میں عقبی کا استعمال ثواب اور عذاب دونوں کے لئے ہوا ہے۔ تلک عقبنی الذین اتقوا وعقبی الکفرین النار۔ (13:35) یہ انجام ہوگا اہل تقویٰ کا اور کافروں کا انجام آتش (دوزخ) ہے۔ عقبی الدار یہاں مضاف مضاف الیہ استعمال ہوا ہے۔ عقبی سے مراد نیک انجام اور الدار سے مراد دنیا ہے۔ لھم عقبی الدار ان کے لئے دنیا (کے نیک کاموں کا) نیک انجام ہوگا۔ صاحب کشاف لکھتے ہیں عقبی الدار ای عاقبۃ الدنیا وھی الجنۃ۔ دنیا میں نیک کام کرنے کا نیک انجام یعنی جنت ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی ریاکاری یا شہرت کے لئے نہیں بلکہ محض رضائے الٰہی کی طلب کے لئے۔ ” صبر کیا “۔ اور نیک اعمال پر ثابت قدمی دکھائی۔ 3 ۔ اگر ریاکاری کا اندیشہ نہ ہو تو پوشیدہ طور پر صدقہ دینا افضل ہے اور حدیث میں ” سرا “ صدقہ دینے والے کو ان لوگوں میں شمار کیا گیا ہے جن کو قیامت کے دن عرش کے سایہ میں جگہ ملے گی۔ (روح) ۔ 4 ۔ یعنی کوئی ان پر کتنا ہی ظلم کرے وہ اس کے جواب میں عدل و انصاف ہی کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے : تم اپنے عمل کو لوگوں کے تابع نہ بنائو اور یوں نہ کہو : اگر وہ ہم سے بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے بلکہ اس طریقہ پر کاربند ہوجائو کہ اگر لوگ بھلائی کریں، تب تو تم بھلائی کرو اور اگر وہ برائی کریں تب بھی تم ظلم و زیادتی نہ کرو یا اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نیک عمل کرکے برے عمل کو مٹادیتے ہیں جیسے فرمایا : ان الحسنات یذھبن السیات۔ کہ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اذ عملت سیئۃ اعمل بعجبھا حسنہ لمعھا السر بالسرا والعلابۃ بالعلانیۃ۔ جب تم کوئی برا کام کرو تو اس کے بعد نیک کام کرو وہ اسے مٹا دے گا، پوشیدہ گناہ کو پوشیدہ نیکی سے اور ظاہری گناہ کو ظاہری نیکی سے مٹائو۔ (معالم، روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی کوئی ان کے ساتھ بدسلوکی کرے تو کچھ خیال نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کے مزید چار اوصاف۔ مومن وہ ہیں جو مشکلات اور پریشانیوں کے وقت اپنے رب کی رضا کی خاطر صبر کرتے ہیں اس کے حضور پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ جو کچھ ان کے رب نے انہیں عطا فرمایا ہے، اس میں سے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی بجائے اچھائی اور خیر خواہی سے دیتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا گھرتیار کیا گیا ہے۔ ان اوصاف حمیدہ کی فرضیت اور فضلیت کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔ صبر : صبر کا معنی ہے مشکل اور پریشانی کے وقت حوصلہ قائم رکھنا اور شریعت کی حدود وقیود کا مستقل مزاجی کے ساتھ اتباع کرنا۔ اس سے پہلے مومنوں کی یہ صفات ذکر ہوئی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد یعنی عقیدۂ توحید پر پکے رہتے ہیں اور آپس کی رشتے داریوں کو جوڑے رکھتے ہیں۔ یہ دونوں کام ایسے ہیں جو مشکلات کا سامنا کیے بغیر کما حقہ پورے نہیں ہوسکتے۔ صبر کس وقت کرنا چاہیے : (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِاِمْرَاَۃٍ تَبْکِیْ عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ اتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ قَالَتْ اِلَےْکَ عَنِّی فَاِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِےْبَتِیْ وَلَمْ تَعْرِفْہٗ فَقِےْلَ لَھَا اِنَّہُ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَاَتَتْ بَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہُ بَوَّابِےْنَ فَقَالَتْ لَمْ اَعْرِفْکَ فَقَالَ اِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَالصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی) [ رواہ البخاری : کتاب الجنا ئز، باب زیارۃ القبور ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک عورت کے پاس ہوا جو ایک قبر پر آہ و بکا کر رہی تھی۔ آپ نے اسے تلقین فرمائی ‘ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ وہ کہنے لگی یہاں سے چلے جاؤ۔ تمہیں ایسی مصیبت نہیں پہنچی جس مصیبت میں میں مبتلا ہوں۔ وہ آپ کو پہچانتی نہیں تھی۔ جب اسے بتایا گیا کہ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ وہ آپ کے دروازے پر آئی جس پر کوئی چوکیدار نہ تھا وہ معذرت خواہانہ عرض کرنے لگی میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا ‘ صبر تو وہ ہے جو صدمہ پہنچنے کے وقت کیا جائے۔ “ مسائل ١۔ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صبر اختیار کرنا چاہیے۔ ٢۔ نماز قائم کرنا فرض ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اعلانیہ اور خفیہ طور پر خرچ کرنا چاہیے۔ ٤۔ برائی کو نیکی سے ٹالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٥۔ نیک لوگوں کا اچھا انجام ہوگا۔ تفسیر بالقرآن ایمانداروں کے مختصر اوصاف : ١۔ وہ لوگ جو اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتے، نماز قائم کرتے اور اللہ کی راہ میں اعلانیہ اور خفیہ طور پر خرچ کرتے ہیں۔ اور بدسلو کی کو حسن سلوک سے ٹالتے ہیں ان کا انجام بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٢) ٢۔ ایمانداروں کے دل اللہ کے ذکر سے سہم جاتے ہیں جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے ایمان والے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (الانفال : ٢) ٣۔ ایماندار نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کے عطا کیے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں۔ (الانفال : ٣) ٤۔ مومن اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ (الحجرات : ١٥) ٥۔ مومن ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے، زکوٰۃ ادا کرتے مومن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (التوبۃ : ٧١) ٦۔ اللہ اور اس کے رسول اور مومن آپس میں دوست ہیں۔ (المائدۃ : ٥٥) ٧۔ ایمان والے نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔ (المومنون : ١۔ ٢) ٨۔ ایماندار دنیا کے لاؤ لشکر کو خاطر میں نہیں لاتے۔ (الاحزاب : ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ یہ بشارت اخروی اکا اعادہ ہے۔ وَمَنْ صَلَحَ الخ مذکورہ بالا اتقیاء کے جو رشتہ دار بحالت ایمان دنیا سے رخصت ہوئے مگر تقویٰ کے اس مقام پر نہ پہنچ سکے ان کی وجہ سے ان کو بھی اللہ تعالیٰ بلند درجات عطا فرمائے گا۔ ” صَلَاحٌ“ سے ایمان و تصدیق مراد ہے ” قَالَ ابن عباس ھذا الصلاح الایمان باللہ والرسول (قرطبی ج 9 ص 312) معنی صلح صدق و اٰمن ووحد “ (خازن ج 4 ص 19) ۔ ” سَلَامٌ عَلَیْکُمْ “ سے پہلے ” یَقُوْلُوْنَ “ مقدر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22 ۔ اور نیز اہل خرد و ہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی توجہ اور اس کی رضا جوئی کی غرض سے مصائب اور تکالیف پر صبر کرتے اور دین حق پر مضبوط رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں اور برائی کی مدافعت بھلائی سے کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں نیک انجام ہے اور آخرت کا گھر ان کے لئے ہے۔ یعنی دین کی راہ میں جو دشواریاں اور تکالیف پیش آتی ہیں ان کو برداشت کرتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حضرت حق تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا تلاش کریں۔ برائی کے مقابلہ میں بھلائی کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ بد سلوکی کا جواب حسن سلوک سے دیتے ہیں ظلم کا مقابلہ معافی سے کرتے ہیں اور گناہ کا دفعیہ توبہ اور استغفار سے کرتے ہیں پوشیدہ اور علانیہ یعنی جیسا موقع محل ہوتا ہے خیرات کرتے ہیں آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لئے ہے آگے نیک انجامی اور آخرت کے گھر کا بیان ہے۔