Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 192

سورة الشعراء

وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۹۲﴾ؕ

And indeed, the Qur'an is the revelation of the Lord of the worlds.

اور بیشک و شبہ یہ ( قرآن ) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an was revealed by Allah Here Allah tells us about the Book which He revealed to His servant and Messenger Muhammad. وَإِنَّهُ ... And truly, this refers to the Qur'an, which at the beginning of the Surah was described as وَمَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمَنِ مُحْدَثٍ (and never comes there unto them a Reminder as a recent revelation from the Most Gracious...) (26:5) ... لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ is a revelation from the Lord of Al-`Alamin. means, Allah has sent it down to you and revealed it to you. نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الاَْمِينُ

مبارک کتاب سورت کی ابتدا میں قرآن کریم کا ذکر آیا تھا وہی ذکر پھر تفصیلاً بیان ہو رہا ہے کہ یہ مبارک کتاب قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے ۔ روح الامین سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں جن کے واسطے سے یہ وحی سرور رسل علیہ السلام پر اتری ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ 97؀ ) 2- البقرة:97 ) یعنی اس قرآن کو بحکم الٰہی حضرت جبرائیل علیہ السلام نے تیرے دل پر نازل فرمایا ہے ۔ یہ قرآن اگلی تمام الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ۔ یہ فرشتہ ہمارے ہاں ایسا مکرم ہے کہ اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس سے روح الامین بولے اسے زمین نہیں کھاتی ۔ اس بزرگ بامرتبہ فرشتے نے جو فرشتوں کا سردار ہے تیرے دل پر اس پاک اور بہتر کلام اللہ کو نازل فرمایا ہے جو ہر طرح کے میل کچیل سے کمی زیادتی سے نقصان اور کجی سے پاک ہے ۔ تاکہ تو اللہ کے مخالفین کو گہنگاروں کو اللہ کی سزا سے بچاؤ کرنے کی رہبری کر سکے ۔ اور تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی مغفرت ورضوان کی خوشخبری پہنچاسکے ۔ یہ کھلی فصیح عربی زبان میں ہے ۔ تاکہ ہر شخص سمجھ سکے پڑھ سکے ۔ کسی کا عذر باقی نہ رہے اور ہر ایک پر قرآن کریم اللہ کی حجت بن جائے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے نہایت فصاحت سے ابر کے اوصاف بیان کئے جسے سن کر صحابہ کہہ اٹھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو کمال درجے کے فصیح وبلیغ زبان بولتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا بھلا میری زبان ایسی پاکیزہ کیوں نہ ہوگی ، قرآن بھی تو میری زبان میں اترا ہے فرمان ہے آیت ( بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ ١٩٥؀ۭ ) 26- الشعراء:195 ) امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وحی عربی میں اتری ہے یہ اور بات ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کے لئے ان کی زبان میں ترجمہ کردیا ۔ قیامت کے دن سریانی زبان ہوگی ہاں جنتیوں کی زبان عربی ہوگی ( ابن ابی حاتم )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : شروع سورت میں تمہیداً قرآن کے ذکر سے مقصود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و نبوت کو ثابت کرنا تھا، پھر جھٹلانے والوں کو دھمکی دی اور اس سلسلہ میں انبیاء کے سات قصے بیان فرمائے، تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو اور آپ کو جھٹلانے والے عبرت حاصل کریں۔ اب یہاں سے پھر رسالت کا اثبات شروع کیا اور آپ کی نبوت کے حق ہونے کے دلائل اور کفار کے شبہات کے جواب آخر سورت تک چلے گئے ہیں۔ (کبیر، قرطبی) ” تَنْزِیْلٌ“ مصدر ہے جو اسم مفعول کے معنی میں ہے، نازل کیا ہوا۔ کفار قرآن کے وحی الٰہی ہونے کا انکار کرتے تھے، اس لیے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بھی منکر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا آغاز یہ کہہ کر فرمایا کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں، اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے اور کفار کو کفر کے انجام بد سے ڈرانے کے لیے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سات قصّے بیان فرمائے، جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ یہ قرآن یقیناً وحی الٰہی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ رسول، جو نہ پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے، گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کیسے بیان کرسکتا تھا۔ بلاغت کا قاعدہ ہے کہ انکار جتنا شدید ہو بات اتنی ہی تاکید سے کی جاتی ہے۔ اس لیے نہایت تاکید کے ساتھ فرمایا کہ بیشک یہ یقیناً رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے، نہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے خود تصنیف کیا ہے، نہ کسی اور انسان یا جن کا گھڑا ہوا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور یہ قرآن رب العالمین کا بھیجا ہوا ہے اس کو امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے آپ کے قلب پر صاف عربی زبان میں تاکہ آپ (بھی) منجملہ ڈرانے والوں کے ہوجاویں (یعنی جس طرح اور پیغمبروں نے اپنی امت کو احکام الہیہ پہنچائے آپ بھی پہنچائیں) اور اس (قرآن) کا ذکر پہلی امتوں کی (آسمانی) کتابوں میں (بھی) ہے (کہ ایک ایسی شان کا پیغمبر ہوگا اور اس پر ایسا کلام نازل ہوگا۔ چناچہ تفسیر حقانی کے اس مقام کے حواشی میں چند بشارتیں کتب سابقہ تورات و انجیل کی نقل کی ہیں۔ آگے اس مضمون وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ کی توضیح ہے یعنی) کیا ان لوگوں کے لئے (اس پر) یہ بات دلیل نہیں ہے کہ اس (پیشین گوئی) کو علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں (چنانچہ ان میں جو لوگ اسلام لے آئے ہیں وہ تو علی الاعلان اس کا اعتراف کرتے ہیں اور جو اسلام نہیں لائے وہ بھی خاص خاص لوگوں کے سامنے اس کا اقرار کرتے ہیں جیسے کہ پارہ اول کے ربع پر آیت اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ کی تفسیر میں اس کا بیان آ چکا ہے اور ان اقرار کرنے والوں کی تعداد اور کثرت اس وقت اگر خبر واحد تک بھی مان لی جاوے تاہم قرائن کی وجہ سے معنوی تواتر حاصل تھا اور یہ دلیل قائم کرنا ان پڑھ غریبوں کے لئے ہے ورنہ لکھے پڑھے لوگ خود اصل کتاب سے دیکھ سکتے تھے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کتب سابقہ میں تحریف نہیں ہوئی، کیونکہ باوجود تحریف کے ایسے مضامین کا باقی رہ جانا اور زیادہ حجت ہے اور یہ احتمال کہ یہ مضامین ہی تحریف کا نتیجہ ہوں اس لئے غلط ہے کہ اپنے نقصان کے لئے کوئی تحریف نہیں کیا کرتا۔ یہ مضامین تو تحریف کرنے والوں کے لئے نقصان دہ ہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔ یہاں تک تو دعویٰ وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ کی دو نقلی دلیلیں بیان فرمائی ہیں یعنی پہلی کتابوں میں ذکر اور بنی اسرائیل کا جاننا کہ ان میں بھی ثانی اول کی دلیل ہے اور آگے انکار کرنے والوں کے عناد کے بیان کے ضمن میں اسی دعویٰ کی عقلی دلیل کی طرف اشارہ ہے یعنی اعجاز قرآن، مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ایسے معاند ہیں کہ) اگر (بالفرض) ہم اس (قرآن) کو کسی عجمی (غیر عربی) پر نازل کردیتے پھر وہ (عجمی) ان کے سامنے اس کو پڑھ بھی دیتا ( اس کا معجزہ ہونا اور زیادہ ظاہر ہوتا ہے کیونکہ جس پر نازل ہوا اس کو عرب زبان پر بالکل قدرت نہ ہوتی، لیکن) یہ لوگ (بوجہ انتہائی ضد کے) تب بھی اس کو نہ مانتے (آگے حضور کی تسلی کے واسطے ان کے ایمان لانے سے ناامید دلاتے ہیں یعنی) ہم نے اسی طرح (شدت و اصرار کے ساتھ) اس ایمان نہ لانے کو ان نافرمانوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے (یعنی کفر میں، اور اس پر مصر ہیں اور اس شدت و اصرار کی وجہ سے) یہ لوگ اس (قرآن) پر ایمان نہ لاویں گے جب تک کہ سخت عذاب کو (مرنے کے وقت یا برزخ میں یا آخرت میں) نہ دیکھ لیں گے جو اچانک ان کے سامنے آکھڑا ہوگا اور ان کو (پہلے سے) خبر بھی نہ ہوگی پھر (اس وقت جان کو بنے گی تو) کہیں گے کہ کیا (کسی طور پر) ہم کو (کچھ) مہلت مل سکتی ہے (لیکن وہ وقت نہ ملہت کا ہے نہ قبول ایمان کا اور وہ کفار ایسے مضامین و عید و عذاب کے سن کر براہ انکار عذاب کا تقاضا کیا کرتے تھے مثلاً کہتے تھے عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا اور اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً یعنی اے اللہ اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا اور مہلت کو، جو درحقیقت ڈھیل ہے، عذاب نہ واقع ہونے کی دلیل ٹھہراتے تھے، آگے اس کا جواب ہے کہ) کیا (ہماری وعیدوں کو سن کر) یہ لوگ ہمارے عذاب کی تعجیل چاہتے ہیں (جس کا منشاء انکار ہے یعنی باوجود قیام دلیل یعنی ایک سچے بزرگ کی خبر کے پھر بھی انکار کرتے ہیں ؟ رہا مہلت کو بناء انکار قرار دینا سو یہ سخت غلطی ہے کیونکہ) اے مخاطب ذرا بتلاؤ تو اگر ہم ان کو (چند سال تک) عیش میں رہنے دیں پھر جس (عذاب) کا ان سے وعدہ ہے وہ ان کے سر آ پڑے تو ان کا وہ عیش کس کام آسکتا ہے (یعنی یہ عیش کی جو مہلت دی گئی اس سے ان کے عذاب میں کوئی خفت یا کمی نہیں ہو سکتی) اور (مہلت دینا حکمت کی وجہ سے چند روز تک خواہ کم یا زیادہ کچھ ان ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ امم سابقہ کو بھی مہلتیں ملی ہیں چنانچہ) جتنی بستیاں (منکرین کی) ہم نے (عذاب سے) غارت کی ہیں سب میں نصیحت کے واسطے ڈرانے والے (پیغمبر) آئے (جب نہ مانے تو عذاب نازل ہوا) اور (صورة بھی) ظالم نہیں ہیں (مطلب یہ کہ مہلت دینے سے جو مقصود ہے یعنی حجت پورا کرنا اور عذر کو ختم کرنا وہ سب کے لئے رہا، پیغمبروں کا آنا سمجھانا خود یہ بھی ایک مہلت ہی دینا ہے مگر پھر بھی ہلاکت کا عذاب آ کر رہا۔ ان واقعات سے مہلت دینے کی حکمت بھی معلوم ہوگئی اور مہلت دینے اور عذاب میں تضاد نہ ہونا بھی ثابت ہوگیا اور صورة اس لئے کہا گیا کہ حقیقتہ تو کسی حالت میں بھی ظلم نہ ہوتا۔ آگے پھر مقصود اوّل یعنی مضمون وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ الخ کی طرف رجوع ہے اور درمیان میں یہ مضامین منکرین کی حالت کے مناسب ہونے کی وجہ سے مذکور ہوئے تھے اور حاصل مضمون آئندہ آیات کا ان شبہات کا دفع کرنا ہے جو قرآن کی حقانیت کے متعلق تھے پس ایک شبہ تو قرآن کے اللہ کا کلام اور اس کی طرف بھیجا ہوا ماننے پر اس لئے تھا کہ عرب میں پہلے سے کاہن ہوتے آئے تھے وہ بھی کچھ مختلف قسم کے جملے بولا کرتے تھے نعوذ باللہ آپ کی نسبت بھی بعضے کفار یہی کہتے تھے (کما فی الدر عن ابن زید) اور بخاری میں ایک عورت کا قول نقل کیا ہے جس زمانہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہونے میں کچھ دیر ہوئی تو اس عورت نے کہا کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ کاہنوں کو شیطان ہی کی تعلیم و تلقین سے کچھ حاصل ہوا کرتا تھا اس کا جواب ہے کہ یہ رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے) اور اس کو شیاطین (جو کاہنوں کے پاس آیا کرتے تھے) لے کر نہیں آئے (کیونکہ اس کے دو مانع قوی موجود ہیں ایک اس کی صفت شیطنت جس کے سبب) یہ (قرآن) ان (کی حالت) کے مناسب ہی نہیں (کیونکہ قرآن سب کا سب ہدایت اور شیطان سب کا سب گمراہی ہے نہ ان کو ایسے مضامین کی آمد ہو سکتی ہے اور نہ ایسے مضامین شائع کرنے سے ان کی غرض یعنی مخلوق کو گمراہ کرنا پورا ہوسکتا ہے ایک مانع تو یہ ہوا) اور (دوسرا مانع یہ کہ وہ) اس پر قادر بھی نہیں کیونکہ وہ شیاطین (وحی آسمانی) سننے سے روک دیئے گئے ہیں (چنانچہ کاہنوں اور مشرکوں سے ان کے جنات نے اپنی ناکامی کا خود اعتراف کیا جس کی انہوں نے اوروں کو بھی خبر دی۔ چناچہ بخاری میں ایسے قصے باب اسلام عمر میں مذکور ہیں پس شیطانوں کی تلقین کا کسی طرح احتمال نہ رہا اور اس جواب کا پورا ہونا اور ایک دوسرے شبہ کا جواب ختم سورت کے قریب آوے گا درمیان میں تنزیل من اللہ ہونے پر بطور تفریع کے ایک مضمون ہے یعنی جب اس کا منزل من اللہ ہونا ثابت ہے تو اس کی تعلیم واجب العمل ہوئی اور منجملہ اس کے اہم امر اور اعظم توحید ہے) سو (اے پیغمبر ہم اس کے وجوب کی ایک خاص طریق سے تاکید کرتے ہیں کہ ہم آپ کو مخاطب بنا کر کہتے ہیں کہ) تم خدا کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت مت کرنا کبھی تم کو سزا ہونے لگے (حالانکہ آپ میں نعوذ باللہ نہ احتمال شرک کا ہی نہ تعذیب کا مگر لوگوں کو یہ بات جتلانا مقصود ہے کہ جب غیر اللہ کی عبادت پر آپ کے لئے بھی سزا کا حکم ہے تو اور بیچارے تو کسی شمار میں ہیں ؟ شرک سے ان کو کیسے منع نہ کیا جاوے اور شرک کر کے عذاب سے کیونکر بچیں گے) اور (اسی مضمون سے) آپ (سب سے پہلے) اپنے نزدیک کے کنبہ کو ڈرایئے (چنانچہ آپ نے سب کو پکار کر جمع کیا اور شرک پر عذاب الہی سے ڈرایا جیسا حدیثوں میں ہے) اور (آگے انداز یعنی دعوت نبوت کو قبول کرنے والے اور رد کرنے والوں کے ساتھ معاملہ کا طرز بتلاتے ہیں یعنی) ان لوگوں کے ساتھ (تو مشفقانہ) فروتنی سے پیش آیئے جو مسلمانوں میں داخل ہو کر آپ کی راہ پر چلیں (خواہ کنبہ کے ہوں یا غیر کنبہ کے) اور اگر یہ لوگ (جن کو آپ نے ڈرایا ہے) آپ کا کہنا نہ مانیں (اور کفر پر اڑے رہیں) تو آپ (صاف کہہ دیجئے کہ میں تمہارے افعال سے بیزار ہوں (ان دونوں امر یعنی اخفص وقل الخ میں حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کی پوری تعلیم ہے اور کبھی ان مخالفین کی طرف سے ایذا اور نقصان دینے کا خطرہ نہ لایئے) اور خدائے رحیم پر توکل رکھئے جو آپ کو جس وقت کہ آپ (نماز کے لئے) کھڑے ہوتے ہیں اور (نیز نماز شروع کرنے کے بعد) نمازیوں کے ساتھ آپ کی نشست و برخاست کو دیکھتا ہے (اور نماز کے علاوہ بھی وہ دیکھتا بھالتا ہے کیونکہ) وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے (پس جب اس کو علم بھی کامل ہے جیسے یراک اور سمیع، علیم اس پر دال ہیں اور وہ آپ پر مہربان بھی ہے، جیسا الرحیم اس پر دال ہے اور اس کو سب قدرت ہے جیسا العزیز سے مفہوم ہوتا ہے تو ضرور وہ لائق توکل ہے وہ آپ کو ضرر حقیقی سے بچاوے گا اور جو متوکل کو ضرر پہنچتا ہے وہ صرف ظاہر کے اعتبار سے ضرر ہوتا ہے جس کے تحت میں ہزاروں منافع ہوتے ہیں جن کا کبھی دنیا میں کبھی آخرت میں ظہور ہوتا ہے آگے کہانت کے شبہ کے جواب کا تتمہ ہے کہ اے پیغمبر لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) کیا میں تم کو بتلاؤں کس پر شیطان اترا کرتے ہیں (سنو) ایسے شخصوں پر اترا کرتے ہیں جو (پہلے سے) دروغ گفتار بڑے بدکردار ہوں اور جو (اخبار شیاطین کے وقت ان شیطانوں کی طرف) کان لگا دیتے ہیں اور (لوگوں سے ان چیزوں کے بیان کرنے کے وقت) وہ بکثرت جھوٹ بولتے ہیں (چنانچہ سفلی عاملوں کو اب بھی اسی حالت میں دیکھا جاتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ فائدہ لینے والے اور فائدہ دینے والے کے درمیان مناسبت ضروری ہے تو شیطان کا شاگرد بھی وہ ہوگا جو جھوٹا اور گنہگار ہوگا، نیز شیطان کی طرف قلب سے متوجہ بھی ہو کہ بغیر توجہ سے استفادہ نہیں ہوتا اور چونکہ اکثر یہ علوم شیطانی ناتمام ہوتے ہیں اس لئے ان کو رنگین اور باوقعت کرنے کے لئے کچھ حاشیہ بھی ظن وتخمین سے چڑھانا پڑتا ہے جو کہ کہانت کے لئے عادةً ضروری ہیں اور یہ ساری باتیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہونے کا کوئی دور کا بھی احتمال نہیں کیونکہ آپ کا سچا ہونا سب کو معلوم ہے۔ آپ کا پرہیزگار ہونا اور شیاطین سے بغض رکھنے والا ہونا دشمن کو بھی مسلم تھا اور مشہور و معروف تھا تو پھر کہانت کا احتمال کہاں رہا) اور آگے شبہ شاعریت کا جواب ہے کہ آپ شاعر بھی نہیں ہیں جیسا کفار کہتے تھے بَلْ هُوَ شَاعِرٌ یعنی ان کے مضامین خیالی غیر واقعی ہیں گو منظوم نہ ہوں سو یہ احتمال اس لئے غلط ہے کہ) شاعروں کی راہ تو بےراہ لوگ چلا کرتے ہیں (مراد راہ سے شعر گوئی ہے۔ یعنی مضامین خیالی شاعرانہ نثر میں یا نظم میں کہنا ان لوگوں کا طریقہ ہے جو مسلک تحقیق سے دور ہوں آگے اس دعویٰ کی وضاحت ہے کہ) اے مخاطب کیا تم کو معلوم نہیں کہ وہ (شاعر) لوگ (خیالی مضامین) کے ہر میدان میں حیران (ٹکریں مارتے تلاش مضامین میں) پھرا کرتے ہیں اور (جب مضمون مل جاتا ہے تو چونکہ اکثر خلاف واقعہ ہوتا ہے اس لئے) زبان سے وہ باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں (چنانچہ شاعروں کی گپوں کا ایک نمونہ لکھا جاتا ہے۔ اے رشک مسیحا تری رفتار کے قرباں ٹھوکر سے مری لاش کئی بار جلا دی اے باد صبا ہم تجھے کیا یاد کریں گے اس گل کی خبر تو نے کبھی ہم کو نہ لا دی صبا نے اس کے کوچہ سے اڑا کر خدا جانے ہماری خاک کیا کی، وغیرہ وغیرہ، حتی کہ کبھی کفریات بکنے لگتے ہیں۔ حاصل جواب کا یہ ہوا کہ مضامین شعریہ کے لئے خیالی اور غیر متحقق ہونا لازمی ہے اور مضامین قرآنیہ جس باب سے بھی متعلق ہیں سب کے سب تحقیقی، غیر خیالی ہیں اس لئے آپ کو شاعر کہنا سوائے جنن شاعرانہ کے اور کیا ہے حتی کہ اکثر چونکہ نظم میں ایسے ہی مضامین ہوا کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظم پر قدرت بھی نہیں دی اور اوپر چونکہ شعراء کی مذمت ارشاد ہوئی ہے جس کے عموم میں بظاہر سب نظم کہنے والے آگئے، گو ان کے مضامین عین حکمت اور تحقیق ہوں اس لئے آگے ان کا استثناء فرماتے ہیں کہ) ہاں مگر جو لوگ (ان شاعروں میں سے) ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کئے (یعنی شرع کے خلاف نہ ان کا قول ہے نہ فعل، یعنی ان کے اشعار میں بیہودہ مضامین نہیں ہیں) اور انہوں نے (اپنے اشعار میں) کثرت سے اللہ کا ذکر کیا (یعنی تائید دین اور اشاعت علم میں ان کے اشعار ہیں کہ یہ سب ذکر اللہ میں داخل ہیں) اور (اگر کسی شعر میں بظاہر کوئی نامناسب مضمون بھی ہے جیسے کسی کی ہجو اور مذمت جو بظاہر اخلاق حسنہ کے خلاف ہے تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ) انہوں نے بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوچکا ہے (اس کا) بدلہ لیا (ہے یعنی کفار یا فساق نے اول ان کو زبانی تکلیف پہنچائی، مثلاً ان کی ہجو کی یا دین کی توہین کی جو اپنی ہجو سے بھی بڑھ کر تکلیف کا سبب ہے، یا ان کے مال کو یا جان کو ضرر پہنچایا، یعنی یہ لوگ مستثنی ہیں کیونکہ ا نتقامی طور پر جو شعر کہے گئے ہیں ان میں بعض تو مباح ہیں اور بعضے اطاعت و کار ثواب ہیں) اور (یہاں تک رسالت کے متعلق شبہات کے جوابات پورے ہوئے اور اس سے پہلے رسالت دلائل سے ثابت ہوچکی تھی اب آگے ان لوگوں کی وعید ہے جو اس کے باوجود منکر نبوت رہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاتے ہیں یعنی) عنقریب ان لوگوں کو معلوم ہوجاوے گا جنہوں نے (حقوق اللہ، حقوق الرسول یا حقوق العباد میں) ظلم کر رکھا ہے کہ کیسی (بری اور مصیبت کی) جگہ ان کو لوٹ کر جانا ہے (مراد اس سے جہنم ہے۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ١٩٢ۭ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : (وانہ لتنزیل رب العالمین۔ اور یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے۔ ) تا قول باری (وانہ لفی زبر الاولین۔ اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے۔ ) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں بتادیا کہ رب العالمین کی نازل کردہ ہے اور پھر یہ خبر دی کہ یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اب یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ قرآن اگلے لوگوں کی کتابوں میں عربی زبان کے اندر موجود نہیں تھا۔ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کو کسی اور زبان میں منتقل کرنے سے اس کی قرآنیت ختم نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علی الاطلاق یہ فرمادیا کہ قرآن اگلے لوگوں کی کتابوں میں موجود تھا حالانکہ ان کتابوں میں اس کا وجود عربی زبان کے سوا اور زبانوں میں ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩٢ تا ١٩٤) اور یہ قرآن رب العالمین کا بھیجا ہوا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے امانت دار فرشتہ جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے آپ کے قلب مبارک پر اتارا جس قدر آپ اس کو محفوظ رکھ سکیں۔ یا یہ کہ جس وقت آپ کے سامنے اس کی تلاوت کی جائے صاف عربی زبان میں کہ آپ ان لوگوں کو ان کی زبان میں یہ کلام پہنچا دیں تاکہ آپ بھی منجملہ اور ڈرانے والوں کے ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

118 At the end of the historical account, the same theme, with which the Surah began, is resumed. For reference, see vv. 1-9. 119 That is, "This lucid Book whose verses are being recited to you, and this 'Admonition' from which the people are turning away, is not the product of the whims of a man; it has not been written and compiled by Muhammad (upon whom be Allah's peace) himself, but it consists of the Revelations of the Lord of this universe."

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :118 تاریخی بیان ختم کر کے اب سلسلہ کلام اسی مضمون کی طرف پھرتا ہے جس سے سورۃ کا آغاز فرمایا گیا تھا ۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک دفعہ پھر پلٹ کر پہلے رکوع کو دیکھ لینا چاہیے ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :119 یعنی یہ کتاب مبین جس کی آیات یہاں سنائی جا رہی ہیں ، اور یہ ذکر جس سے لوگ منہ موڑ رہے ہیں کسی انسان کی من گھڑت چیز نہیں ہے ، اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصنیف نہیں کر لیا ہے ، بلکہ یہ رب العالمین کی نازل کردہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(١٩٢ تا ٢٠٣) حکم الٰہی کی مخالفت کے سبب سے پچھلے چند قومیں جو ہلاک ہوئیں ان کے ذکر کے بعد قریش کو قرآن کی مخالفت سے ڈرانے کے لیے ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے یہ قرآن اللہ رب العالمین نے تم پر اتارا ہے اور جبرئیل (علیہ السلام) اس کو لے کر اترے ہیں جو بڑے معتبر فرشتے ہیں عبداللہ بن عباس (رض) اور قتادہ وسدی کا یہ قول ہے کہ روح الامین سے یہاں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ عزت والے فرشتے نے قرآن کو اتارا ہے جو خدا کے نزدیک معتبر ہے اس نے قرآن میں کچھ بڑھایا گھٹایا نہیں ہے جوں کا توں ہے اور یہ قرآن اس واسطے اتارا ہے کہ ڈرا اسے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اس کو کہ جس نے حکم الٰہی کو جھٹلایا اور اس کا خلاف کیا پھر فرمایا اتارا قرآن شریف کو عربی زبان میں جو نہایت فصیح ہے اور اس قرآن شریف کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے پھر فرمایا مکہ کے کافروں کو کیا یہ گواہی کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے عالم اس قرآن شریف کو اپنی کتابوں میں لکھا ہوا پاتے ہیں جن کو وہ رات دن پڑھا کرتے ہیں پھر قریش کے سخت نافرمان ہونے کا ذکر فرمایا کہ اگر قرآن شریف کو ہم کسی ایسے آدمی پر نازل کرتے کہ جس کی زبان عربی نہ ہوتی اور وہ ان کے سامنے قرآن پڑھتا تو بھی یہ کافر مکہ اس پر ایمان نہ لاتے اب آگے فرمایا کہ اسی طرح کے جھٹلانے پر مجرموں کے دل مائل ہوگئے ہیں اس لیے یہ لوگ حق بات کو اس قوت تک نہیں مانتے جب تک دیکھیں عذاب دردناک اور جب دیکھیں گے عذاب تو اس وقت ان کا عذر کچھ فائدہ نہ دے گا بلکہ خدا کا عذاب ان پر اچانک آجائے گا کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی پھر اس وقت کہیں گے کہ اگر تھوڑی سی بھی ہم کو مہلت دی جاوے تو ہم اللہ تعالیٰ کی فرما نبرداری اور بندگی کرلیں جیسا کہ سورة ابراہیم میں فرمایا وانذ دالناس یوم تایتھم العذاب فیقول الذین ظلمولولا اخد تنا الی اجل قریب نجب دعوتک ونتبع الرسل جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ہر کافر جب خدا کا عذاب دیکھے گا تو بہت پچھتاوے گا اور اس پچتاوے کے وقت حکم الٰہی کے موافق دنیا نیک وبد کے متحان کے لیے پیدا کی گئی ہے ایسی بےبسی کے وقت وہ امتحان کا موقع نہیں رہتا چناچہ سورة یونس میں گزر چکا ہے کہ ڈوبنے کے وقت فرعون نے راہ راست پر آنے کا اقرار کیا اور اس کا وہ اقرار بےمحل قرار بےمحل قرار پایا صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ١ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر شخص کو اس وقت تک نیک عمل کی کوشش کرنی چاہیے کہ موت بالکل سامنے نہ آجائے یا مثلا سورج مغرب سے نہ نکلے حاصل یہ ہے کہ سورة یونس کا فرعون کا قصہ اور حدیث بےبسی کے وقت نیک عمل کے قبول نہ ہونے کی تفسیر ہے جن کے حاصل یہ ہے کہ ایسی بےبسی کے وقت شریعت کا کوئی حکم انسان کے ذمہ باقی نہیں رہتا اس واسطے اس وقت کا کوئی نیک کام مقبول نہیں سورة بقر میں گزر چکا ہے کہ جو اوصاف دین محمدی کے قرآن میں ہیں وہی اوصاف پہلی کتابوں میں تفصیل سے تھے اس لیے اہل کتاب نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے تھے غرض سورة بقر کی آیت الذین آیتنا ھم الکتاب یعر فونہ کما یعرفون ابناء ھم آیت وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِالْاَ وَّلِیْنَ کی گویا تفسیر ہے علمائے بنی اسرائیل سے مطلب عبد اللہ ١ بن سلام ابن یامین ٢ ثعلبہ ٣ اسد ٤ اور راسید ٥ ہیں ١ ؎ جنہوں نے قرآن کو کتاب آسمانی جانا اور اسلام اختیار کیا۔ صحیح بخاری ومسلم ٢ ؎ میں یعلی (رض) بن امیہ کا جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یعلی بن امیہ (رض) حضرت عمر (رض) سے کہا کرتے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جس وقت وحی نازل ہوتی ہے اب وقت کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حالت کبھی مجھ کو دکھاؤ یعلی بن امیہ (رض) کی اس خواہش کے موافق سند میں جعرانہ مقام کی وحی کی حالت جو حضرت عمر (رض) نے یعلی بن امیہ (رض) کو دکھائی تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر وحی کا ایسا اثر پڑا تھا کہ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حالت غش کی سی ہوگئی تھی حاصل کلام یہ ہے کہ وحی کے نازل ہونے کے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر جو اثر پڑا کرتا تھا اس جتلانے کے لیے ان آیتوں میں علیٰ قلبک کا لفظ فرمایا ہے مشرکین مکہ کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان بھی عربی ہے اور قرآن بھی عربی میں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خو دبنا لیتے ہیں اس کے جواب میں فرمایا کہ قرآن عربی زبان میں اس لیے اتارا گیا ہے کہ اس کا مطلب لوگوں کی سمجھ میں آجاوے لیکن جن لوگوں کے دل میں علم الٰہی کے موافق اصلی گمراہی لکھی ہوئی ہے وہ لوگ کسی دوسری زبان کا قرآن سن کر بھی راہ راست پر آنے والے نہیں چناچہ سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ ان ازلی گمراہوں کی آنکھوں کے سامنے آسمان سے فرشتے اتر آویں یا زمین کے مردے قبروں میں سے اٹھ کر ان کو سمجھاویں جب بھی یہ ازلی گمراہ راہ راست پر نہ آویں گے۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٩٥ ج ٧٥ ) (٢ ؎ صحیح بخاری ص ٢٠٨ ج ١ باب غسل الخلوق ثلاث مرات من الثیاب )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:192) انہ۔ ضمیر ہ واحد مذکر غائب کا مرجع القرآن ہے۔ (الکتاب المبین سورة ہذا کی آیت 2) صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں سورة کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ کفار قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کا کلام ماننے کے لئے تیار نہیں تھے جس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت دکھ پہنچتا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو مطمئن فرمانے کے لئے متعدد انبیاء اور ان کی قوموں کے حالات بیان فرمائے اب پھر سلسلہ کلام کفار کے انہی اعتراضات کی طرف لوٹتا ہے کہ یہ کلام کسی انسان کا وضع کردہ نہیں بلکہ اسے اس خدا نے اتارا ہے جو رب العالمین ہے۔ تنزیل۔ اتارنا۔ بروزن تفعیل مصدر ہے تنزیل اور انزال میں فرق یہ ہے کہ تنزیل میں ترتیب اور یکے بعد دیگرے تفریق کے ساتھ اتارنا ملحوظ ہوتا ہے اور انزال عام ہے ایک دم کسی شے کے اتارنے کے لئے بھی اور یکے بعد دیگرے ترتیب سے اتارنے کیلئے بھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ شروع سورت میں تمہیداً قرآن کے ذکر سے مقصود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و نبوت کا اثبات تھا پھر مکذبین کو دھمکی دی اور اس سلسلہ میں انبیا ( علیہ السلام) کے سات قصے بیان فرمائے تاکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنے والے عبرت حاصل کریں۔ اب یہاں سے پھر رسالت کا اثبات شروع کیا اور صحت نبوت کے دلائل اور کفار کے شبہات کے جواب آخر سورت تک چلے گئے۔ (کبیر۔ قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات نمبر 192 تا 227: اسرار و معارف اسی طرح انسانیت کی ہدایت کے لیے پروردگار عالمین نے یہ قرآن اتارا ہے جسے نہایت ایماندار فرشتہ لے کر نازل ہوا ایسا کوئی احتمال نہیں کہ دورانِ نزول کوئی کمی بیشی ہوئی ہو پھر اس کا نزول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قلب اطہر پہ ہوا کہ مضامین عقل محض تعمیر و اصلاح بدن کے لیے ہوتے ہیں جو کفار اور بدکاروں کی عقول میں بھی آتے ہیں اور انہیں کے بل پر وہ مادی مشینیں ایجاد کرتے ہیں تجارت کاروبار اور عالمی سیاست چلاتے ہیں مگر اس کتاب کے مضامین تو قلب میں وارد ہوئے جو کافر یا بدکار کو نصیب نہیں کہ اس کا قلب تو مردہ ہوتا ہے نیز اس میں صرف دنیا کے کمالات نہیں بلکہ امور دنیا میں اللہ کی معرفت و عظمت اور کاروبار حیات میں آخرت کی فلاح اور دارین کی کامیابی سمو دی گئی ہے اس سے ثابت ہے کہ معرف الہی کا محل قلب ہے جب تک قلب ذاکر نہ ہوگا محض باتیں ہوتی رہیں گی ان پر اللہ کی معرفت مرتب نہ ہوگی اور نہ ہی ان خوبصورت باتوں سے اصلاح احوال ہوسکے گی یہ کلام آپ کے قلب پر اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ آپ بھی پہلے انبیاء کی طرح لوگوں کو برے اعمال کے برے انجام سے خبردار کریں اور اسے واضح عربی نازل کیا گیا ہے اس سے علماء نے استدلال فرمایا ہے کہ : قرآن صرف عربی متن کا نام ہے : قرآن صرف متن کا نام ہے اردو انگریزی یا دوسری زبانوں کے تراجم نہ تو قرآن کہلائیں گے نہ وہ قرآن کی جگہ نماز میں پڑے جاسکیں گے سوائے اس کے کہ کوئی نومسلم ہو اور قرآن کا حرف بھی نہ پڑھ سکتا ہو تو چند روز سیکھنے تک کسی زبان کا سہارا لے پھر اس کے مضامین مثلاً توحید و رسالت حشر نشر وغیرہ وہی تو ہیں جو پہلی کتابوں میں بھی تھے اور خود اس عظیم الشان نبی کی بعثت اور قرآن کے نزول کی خبر بھی پہلی کتابوں میں موجود ہے یا یہ بجائے خود بہت بڑی دلیل نہیں کہ بنی اسرائیل کا ہر پڑھا لکھا بندہ اس سے واقف ہے۔ یہ تو محض عناد کے باعث نہیں مان رہے جو اس قدر سخت ہے کہ اگر یہ قرآن کسی غیر عرب پر بھی نازل ہوتا اور وہ ان کے سامنے پڑھ دیتا جس کا عربی بولنا بھی معجزہ ہوتا تو بھی یہ نہ مانتے اس لیے کہ ان کی بدکاری اور گناہ کی شامت کے طور پر ہم نے ان کے دلوں میں انکار کو دھنسا دیا ہے ۔ مسلسل گناہ قلب سے قبولیت کی استعداد ختم کردیتا ہے : ثابت ہے کہ مسلسل گناہ آلود زندگی قلب سے قبولیت کی استعداد ضائع کردیتی ہے اور حق کا انکار اس میں جم جاتا ہے۔ ہاں یہ مجبور ہو کر مانیں گے جب عند الموت یا آخرت میں عذاب ان کے سامنے آجائے گا در آں حال کہ یہ اس کی امید نہ کرتے ہوں گے اچانک دیکھ کر چیخ اٹھیں گے کہ اگر اب مہلت مل جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے مگر تب مہلت نہ ملے گی۔ یہ اب تو کہتے ہیں آپ عذاب لائیے مگر انہیں عذاب کی جلدی کیا ہے وہ تو انہیں اگر برسوں بھی مہلت ملتی رہی تب بھی آخر واقع ہو کر رہے گا اور مہلت بھی کفر میں ضائع کردی تو محض لمبی عمر انہیں فائدہ دے گی نہ دولت دنیا عذاب کو ٹال سکے گی اور یہ تو قانون قدرت ہے کہ ہر قوم کو مہلت دی جاتی رہی جو قومیں تباہ ہوئیں انہیں مہلت بھی ملی اور ان کے پاس نصیحت کرنے والے یعنی انبیاء بھی آئے کہ اللہ اس سے پاک ہیں کہ کسی کو گمان گزرے کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ نیز کفار کا یہ الزام کہ یہ باتیں ان کو شیطان پڑھاتا ہے بھی کسی طور قابل غور نہیں ہوسکتا کہ شیطان برائی اور کفر و شرک کی تعلیم دیتا ہے جس پر وہ خود عمل کر رہے ہیں بھلا توحید اور اخلاق عالیہ کی تعلیم شیطان کیونکر دے گا یہ تو اس کا کام ہی نہیں اور قرآن تو ایسا کلام ہے کہ شیطان تو اس کے سننے تک کی تاب نہیں لاسکتا اس کی آواز سے بھاگتا ہے لہذا اے مخاطب کبھی بھی اللہ کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کر کہ ایسا کرنے والا آخر عذاب میں گرفتار ہوتا ہے کہ یہ شیطانی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اور آپ اپنے قریبی اعزہ کو کفر و شرک کے انجام بد سے ڈرائیں کہ قریبی عزیز دوسروں سے زیادہ مستحق ہیں پھر دوسروں تک بات پہنچائیں اور جو بھی قبول کرلے اس پر شفقت فرمائیں جو قبول نہ کرے اسے واضح کردیجیے کہ میں تمہارے اعمال و کردار سے بیزار ہوں صرف ان لوگوں کو ساتھ رکھیے جو صدق دل سے ایمان لائیں محض کثرت کی ضرورت نہیں بلکہ افراد کی بجائے اللہ پر بھروسہ کیجیے جو زبردست قوت والا اور رحم کرنے والا ہے وہ آپ کو ہر حال میں نگاہ میں رکھتا ہے جب آپ اس کی عبادت کرتے ہیں تب بھی اور جب دوسرے عبادت گزاروں ہوتے ہیں تب بھی وہ سننے والا بھی ہے اور ہر حال سے واقف بھی۔ دنیا داروں کے نزدیک امیر اور غریب دو الگ قومیں ہیں اور سب بھلائیاں امارت میں اور ساری رذالت غربت میں نظرآتی ہے جبکہ اللہ کے نزدیک بھلائی اور خوبی اطاعت میں ہے خواہ غریب کرے یا امیر اور رذالت نافرمانی میں ہے چناچہ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہارا یہ خیال درست نہیں کہ اعمال کا حساب تو اللہ کو لینا ہے اور وہ ہی دلوں کے حال سے بھی واقف ہے رہی یہ بات کہ میں انہیں نکال باہر کروں تب تم ایمان لاؤ گے تو میں ایسا نہیں کرسکتا کہ ایمان لا چکے تم بھی چاہو تو ان کے ساتھ شامل ہوجاؤ ورنہ تمہاری مرضی کہ میرا منصب برے کاموں اور غلط عقائد کے انجام بد کی خبر دینا ہے جو میں تم سب کو پہنچا رہا ہوں اس سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرنا تمہارا کام ہے ۔ ان کھری کھری باتوں پہ وہ اور بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ آپ یہ سب کچھ کہنا اور کرنا بند کیجیے اور ہمارے معاشرے کے خلاف کوئی نئی راہ مت کھولیے ورنہ ہم بطور سزا آپ کو سنگسار کردیں گے ایک بہت لمبے عرصے بعد ان سے ناامید ہو کر آپ نے دعا کی بار الہا اب میری قوم نے میری اور مومنین کی ہلاکت کا فیصلہ کرلیا ہے اور میں اپنی بات منوانے سے ناامید ہوچکا ہوں اب میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردیجیے کہ یہ تباہ و برباد ہو کر مٹ جائیں اور مجھے اور میرے ساتھ ایمان لانے والوں کو ان سے اور عذاب الہی سے بھی نجات دیجیے۔ چناچہ اللہ کا عذاب نازل ہوا جس میں صرف نوح (علیہ السلام) اور ان کی کشتی میں سوار لوگ تو محفوظ رہے باقی سب کے سب غرق ہو کر تباہ ہوگئے۔ یہ سب قصہ بھی اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ اس میں بہت بڑی عبرت ہے اور انبیاء کی نافرمانی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے یہ بات سامنے آجاتی ہے مگر اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان سے محروم رہتے ہیں جبکہ اللہ ان سب کی ہلاکت پہ بھی قادر ہے مگر وہ رحیم ہے کہ مہلت دے رکھی ہے۔ عامل کس طرح کے لوگ ہوتے ہیں : آپ کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ شیطانی اعمال کرنے والے لوگ کیسے ہوتے ہیں جن پر شیطان اور اس کے مضامین نازل ہوتے ہیں وہ لوگ سخت جھوٹے اور بدکار ہوتے ہیں کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے ویسی ہی صفات ضروری ہوتی ہیں جیسی دینے والے میں ہوں شیطان بھی سنی سنائی اور جھوٹی بات ان سے کہتا ہے اس میں پھر وہ اپنے پاس سے جھوٹ ملاتے ہیں اور یوں کوئی ایک ادھ بات اتفاقاً سچ اور باقی فسانہ جھوٹ ہوتا ہے جبکہ آپ کا کردار اور گفتار دونوں اس سے پاکیزہ تر ہیں۔ شعر کی اصطلاحی تعریف : کفار کا یہ کہنا کہ یہ باتیں شاعرانہ ہیں ، بھی درست نہیں۔ اصطلاح میں شعر محض خیالی باتوں کو کہا جاتا ہے مسجع و مقفی عبارت کو نہیں اگر غزل و نظم کو بھی شعر کہا جانے لگا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اکثر کلام محض خیالی اور عملی دنیا میں ناممکن و غلط باتوں پر مبنی ہوتا ہے اور شاعروں کی باتوں میں آ کر ان کے پیچھے چلنے والے گمراہ لوگ ہوتے ہیں نیز شاعر محض خیالی وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں جبکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ نہ کرتے ہیں اور نہ کرنا ممکن ہوتا ہے سوائے ان شاعروں کے جو ایمان سے مالا مال ہوئے اور نیک اعمال اپنائے یعنی شعروں میں بھی نیکی اللہ کی تعریف اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت اور اطاعت کی بات کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے ہیں قلبی ، عملی اور زبانی ہر طرح سے کہ ان کا شعر بھی اللہ کی یاد دلاتا ہے اور کفار کے مقابلہ میں ظلم کا جواب دینے کے لیے جنہوں نے شعر کہے یہ ان کا حق تھا کہ ان پر ظلم کیا گیا تھا لہذا آپ کے متبع تو دنیا کے مثالی انسان ہیں۔ بھلا آپ کو شاعر یا آپ کے ارشادات کو شاعرانہ کہنا ہرگز درست نہیں اور ایسا کہنے والے ظالم بہت جلد دیکھ لیں گے کہ وہ کس انجام سے دو چار ہوتے ہیں۔ الحمد للہ سورة شعراء تمام ہوئی اللہ کریم قبول فرما کر تکمیل تفسیر کی توفیق بخشیں آمین۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 192 تا 213 : روح الامین (حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) ) ‘ لسان (زبان) ‘ زبر (صحیفے۔ کتابیں) ‘ اعجمین (عجمی لوگ۔ گونگے) ‘ سلکنا (ہم نے چلایا (داخل کیا) ‘۔ حتی یروا (جب تک وہ دیکھ نہ لیں) ‘ بغتۃ (اچانک) ‘ منظرون (مہلت دیئے گئے) یستعجلون (وہ جلدی کرتے ہیں) ‘ متعنا ( ہم نے فائدہ پہنچایا) ‘ ما اغنی (کام نہ آیا) یمتعون ( وہ فائدہ اٹھاتے ہیں) ‘ منذرون (ڈرانے والے) ‘ ذکری (نصیحت۔ یاددھانی) ‘ ماینبغی (مناسب نہیں ہے۔ شان نہیں ہے) ‘ یستطیعون (وہ طاقت رکھتے ہیں) ‘ معزولون (دور کردیئے گئے) ‘ لاتدع (نہ پکار) ‘ المعذبین (عذاب میں مبتلا کئے گئے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 192 تا 213 : اللہ تعالیٰ نے سورة الشعراء میں سات انبیاء کرام کا ذکر فرمایا ہے تاکہ ان کی قوم کی مسلسل نافرمانیوں اور ان پر جو عذاب سے تباہی و بربادی آئی تھی اس سے عبرت و نصیحت حاصل کی جاسکے۔ اب فرمایا جارہا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انبیاء کرام (علیہ السلام) کی اسی سلسلہ کی آخری کڑی ہیں۔ اللہ نے جو قرآن کریم نازل فرمایا ہے وہ ایک معتبر اور امانت دار فرشتے جبرئیل کے ذریعہ قلب مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے جو نہایت صاف اور واضح عربی زبان میں ہے ۔ شیطانوں کی یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اتنے عظیم قرآن کریم کو لے کر نازل ہوتے یا انپے کاہنوں کو بتاتے کیونکہ یہ وحی اس قدر محترم ہے کہ شیطانوں کو اس سے روک دیا گیا ہے کہ وہ اسکلام کی سن گن بھی لے سکیں۔ یہ قرآن کریم ایک ایسی سچائی ہے جسکو سارے نبی کہتے چلے آئے ہیں ان کی کتابیں اس پر گواہ ہیں۔ اس کی سب سے روشن اور واضح دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے اہل علم اس سے اچھی طرح واقف ہیں مگر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور وقتی مفادات کی وجہ سے وہ بہانے کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ قرآن کریم جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے اگر کسی ایسے شخص پر اس کو نازل کردیا جاتا جو عربی سے واقف تک نہ ہوتا عجمی ہوتا پھر وہ اسکو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھ کر ان کو سنا دیتا تو پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ نہ ماننے کے سو بہانے ہو کرتے ہیں۔ فرمایا کہ اب تو انکو اس وقت ہی یقین آسکتا ہے جب اچانک ان کی بیخبر ی میں ایسا شدید عذاب آجائے جس سے ان کی بنیادیں تک ہل جائیں۔ اس وقت یہ رو کر چلا کر فریاد کریں گے کہ اگر ان کو کچھ اور مہلت مل جاتی تو وہ اپنے اعمال کی اصلاح کرلیتے۔ فرمایا کہ اگر اللہ ان کو کچھ اور مہلت دے کر عیش و عشرت کی زندگی عطا کردیتا تو یہ ان کے کسی کام نہ آتی کیونکہ جو لوگ ایک طویل عرصہ رہنے کے باوجود اپنی اصلاح کی فکر نہ کرسکے چند دنوں میں وہ اپنی اصلاح کا کیا کام کریں گے۔ یہ تو کہنے کی باتیں اور بہانے ہیں۔ ماننے والوں کو کسی مہلت اور بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس بات کو ان آیات میں بیان فرمایا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ قرآن مجید جسے اللہ رب العالمین نے آپ کے قلب مبارک پر ایک امانت دار اور معتبر فرشتے (جبرئیل امین) کے ذریعہ صاف اور واضح عربی میں نازل کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے برے اعما کے برے نتائج سے آگاہ فرمادیں۔ یہ وہ عظیم کتاب ہے جس کی سچائیوں کا ذکر ہر آسمانی کتاب میں موجود ہے۔ اس سے بڑھکر اور کیا دلیل ہوگی کہ علماء بنی اسرائیل اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ فرمایا کہ اگر ہم اس قرآن کریم کو کسی ایسے شخص پر نازل کرتے جو عربی زبان سے ناواقف ہوتا۔ پھر وہ اسکو پڑھ کر سناتا تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے (تاریخ انسانی گواہ ہے کہ) ایسے مجرم لوگ اسی طرح کا طرز عمل اختیار کیا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت تک اس پر ایمان نہ لائیں گے جب تک یہ لوگ دردناک عذاب کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے جو عذاب اچانک انکے سروں پر آکر کھڑا ہوجائے گا جس کی انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ اس وقت یہ لوگ کیں گے کہ کیا ہمیں کچھ اور مہلت مل سکتی ہے۔ (تاکہ ہم اپنی اصلاح کرسکیں) فرمایا کہ کیا یہ لوگ وہی نہیں ہیں جو اس بات کا مطالبہ کرتی تھے کہ ان پر جس عذاب کو آنا ہے جلد ہی آجائے۔ فرمایا کہ اگر ہم ان کو کچھ برسوں تک کچھ اور مہلت دے بھی دیں تاکہ وہ عیش و عشرت سے زندگی گزار سکیں اور پھر ان وہی عذاب آجائے جس سے ڈرایا گیا تھا تو کیا یہ مہلت ان کے کسی کام آسکے گی ؟ فرمایا کہ ہم اپنے بندوں پر ظلم و زیادتی نہیں کرتے بلکہ کسی بستی پر اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتے جب تک ان میں کوئی برے اعمال کے برے نتائج سے آگاہ کرنے والا (ڈرانے والا) نہ بھیج دیں چناچہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے نیک بندوں کو بھیجتا رہا ہے اور اس نے آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت تک آنے والے لوگوں کی ہدایت کیلئے بھیج دیا ہے اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کو امت کے سینوں اور ذہنوں میں محفوظ کردیا ہے تاکہ ہر شخص اس سے اچھی طرح آگاہی حاصل کرتا رہے۔ فرمایا کہ یہ قرآن کریم جس کو جبرئیل قلب مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لے کر نازل ہوتے ہیں یہ ایک محفوظ کلام ہے۔ شیطانوں کی یہ مجال اور طاقت نہیں ہے کہ وہ اس کلام کو لاسکیں ‘ یا اس کے پاس بھی پھٹک سکیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ قرآن کریم قیامت تک کے لئے محفوظ ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت بھی قیامت تک کے لئے محفوظ ہے۔ جس طرح قرآن کریم کو شیطانوں سے محفوظ کیا گیا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان ختم نبوت کو بھی محفوظ کردیا ہے آپ کے بعد کوئی شیطان ہی نبوت کا دعوی کرسکتا ہے ورنہ کسی انسان کی مجال نہیں ہے۔ کہ وہ آپ جیسے عظیم نبی و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی طرح کی نبوت کا اعلان کرسکے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے سات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی اقوام کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ ساتوں اقوام کا بنیادی جرم یہ تھا کہ انھوں نے اپنے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تکذیب کی جس کے سبب انھیں تباہی کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سرورِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کو سات قوموں کی تباہی کے واقعات سنانے کے بعد سمجھایا گیا کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور آپ پر نازل ہونے والے قرآن مجید کی تکذیب کرتے ہو حالانکہ اس قرآن کو رب العالمین نے جبرئیل امین کے ذریعے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر نازل فرمایا ہے جو فصیح عربی زبان میں ہے۔ یقیناً اس نبی اور قرآن مجید کا ذکر پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ اس کے نزول کا مقصد یہ ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برے لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرائیں۔ اگر اہل مکہ قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں تو یہ بنی اسرائیل کے منصف مزاج علماء سے پوچھ لیں۔ کیا قرآن مجید اور صاحب قرآن کا تذکرہ توراۃ، انجیل اور زبور میں موجود نہیں ہے ؟ یقیناً اہل کتاب کے حق گو علماء اس کی تصدیق کرتے ہیں اور کریں گے کہ واقعی قرآن مجید اور صاحب قرآن کا تذکرہ تورات، انجیل اور زبور میں پایا جاتا ہے۔ علماء بنی اسرائیل سے بالخصوص وہ حضرات مقصود ہیں جو سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں آپ پر ایمان لائے۔ یقیناً بنی اسرائیل میں ایسے اہل علم ہر دور میں موجود رہیں گے جو قرآن مجید کی تائید اور تصدیق کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ملائکہ کے سردار جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر نازل فرمایا۔ دل پر اس لیے اتارا گیا کہ جو بات دل پر اتر جائے دل اس کی تصدیق کرتا ہے اور ہمیشہ کے لیے وہ بات دل پر ثبت ہوجاتی ہے۔ جو بات انسان کے دل پر ثبت ہوجائے انسان اسی کے مطابق سوچتا، بولتا اور عمل کرتا ہے یہی وجہ ہے۔ کہ اہل علم نے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجسم کہا ہے اس بات کی تائید ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ جب ایک صحابی نے ان سے سوال کیا کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخلاق کیسا تھا ؟ اُم المومنین (رض) نے فرمایا کیا آپ نے قرآن مجید نہیں پڑھا ؟ سائل نے کہا کیوں نہیں قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں۔ اُم المومنین (رض) نے فرمایا جو کچھ قرآن مجید میں موجود ہے وہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخلاق تھا۔ (رواہ احمد : مسند سیدہ عائشہ (رض) جہاں تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہونے کی کیفیت ہے اس کی کئی صورتیں تھیں۔ جن میں سے ایک صورت وحی جلی کی ہے یہ وحی کی سب سے معروف صورت ہے۔ قرآن کریم سارے کا سارا وحی جلی کی صورت میں نازل ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ساری وحی قرآن کریم میں محصور ہے بلکہ کئی احادیث کے الفاظ بھی وحی کے ذریعے آپ پر نازل کیے گئے۔ وحی جلی کی صورت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق عالم دنیا سے کٹ کر عالم بالا سے جڑ جاتا تھا۔ ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا یا رسول اللہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ کبھی تو ایسے آتی ہے جیسے گھنٹی کی آواز ہوتی ہے اور یہ وحی مجھ پر بہت گراں گزرتی ہے جب فرشتے کا کہا ہوا مجھے یاد ہوجاتا ہے تو یہ حالت ختم ہوجاتی ہے اور کبھی فرشتہ انسان کی صورت میں میرے پاس آتا ہے میرے سامنے پڑھتا ہے میں اس کا پڑھا ہوا یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آپ کو اس حال میں دیکھا کہ سخت سردی کے دن میں آپ پر وحی نازل ہوتی جب ختم ہوجاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا۔ “ [ رواہ البخاری : باب کیف بدء الوحی ] مسائل ١۔ قرآن مجید رب العالمین کی طرف سے جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ ٣۔ اہل کتاب کے منصف مزاج علماء ہر دور میں قرآن مجید کی تصدیق کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) کے نام اور القاب : ١۔ قرآن مجید کو روح الامین (جبریل) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا ہے۔ (الشعراء : ١٩٣) ٢۔ روح الامین ( جبرائیل (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (التکویر : ٢١) ٣۔ شب قدر کی رات فرشتے اور جبریل اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ (القدر : ٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح القدس ( جبرائیل (علیہ السلام) سے مدد فرمائی۔ (البقرۃ : ٨٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١٦٩ ایک نظر میں یہاں آ کر قصص کا اتختام ہوگیا ۔ یہ تمام قصص رسولوں اور ان کی رسالت کی مختصر کہانی پر مشتمل تھے۔ قوموں کی طر سے رسولوں کی تکذیب ہوتی رہی ، اقوام منہ موڑتی رہیں۔ انہوں نے چیلنج کیا۔ معجزات بھی آئے اور جب تکذیب پر تل گئے تو پھر اللہ کا عذاب آگیا۔ اس سورت کا پہلا سبق ایک افتتاحیہ تھا ، اس میں مشرکین مکہ کے حوالے سے حضور اکرم کو کہا گیا تھا۔ لعلک باخع ……بہ یستھزء ون (٦) (٢٦ : ٣-٦) ” اے محمد شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کرسکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔ ان لوگوں کے پاس رحمٰن کی طرف سے جو نئی نصیحت آتی ہے۔ یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اب یہ جھٹلا چکے ہیں۔ عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ “ اس کے بعد قصص پیش کئے گئے اور یہ نمونہ تھے ان خبروں کے جن کے بارے میں مکذبین ہمیشہ مذاق کرتے چلے آئے تھے۔ جب قصص ختم ہوئے تو سیاق کلام پھر اپنے موضوع کی طرف آگیا۔ یعنی سورت کے محور کی طرف۔ یہ آخری سبق گویا پوری سو پر تبصرہ ہے اس میں تاکید کی جاتی ہے کہ یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے ہے۔ ان قصص پر تو مدتیں گزر گئیں لیکن قرآن کریم میں ان واقعات کو پیش کیا جا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے علماء رسول اللہ کو بھی جانتے ہیں اور رسول اللہ پر نازل ہونے والے قرآن کو بھی جانتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے کیونکہ یہ وہی واقعات اور وہی رسول ہے جس کا ذکر پہلے نبیوں کی کتابوں میں مذکور ہے۔ لیکن مشرکین مکہ واضح دلائل دیکھتے ہوئے بھی ازروائے عناد تسلیم نہیں کرتے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ سحر ہے یا شعر ہے۔ اگر یہ قرآن کسی عجمی پر نازل ہوتا اور وہ ان کے سامنے ان کی زبان میں اسے پیش کرتا تو پھر بھی یہ ایمان نہ لاتے کیونکہ یہ انکار اس لئے نہیں کرتے کہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے بلکہ محض عناد کی وجہ سے یہ ایمان سے محروم ہیں۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ اخبار کا بنوں کی طرف شیطانی القاء کی طرح نہیں ہیں۔ نہ یہ قرآن شعر کی کوئی قسم ہے ، کیونکہ اشعار کا ایک منہاج ہے جسے شعراء اچھی طرح جانتے ہیں اور شعرا تو ایک ایسا طبقہ ہے جو ہر وادی میں گھومتا ہے۔ یہ کسی خیال ، کسی جذبے اور سی بھی میلان کو موزوں کردیتے ہیں۔ کبھی اچھا ، کبھی برا رہا یہ کلام تو یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ مشرکین عرب کی نصیحت کے لئے اور یاد دہانی کے لئے کہ سنبھل جائیں قبل اس کے کہ کوئی عذاب ان کو آ لے اور قبل اس کے کہ وہ باتیں حقیقت ہو کر ان کے سامنے آجائیں جن کا یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون (٢٦ : ٢٢٨) ” اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوگا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ “ ، صاف صاف عربی زبان میں۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

67:۔ یہ ابتدائے سورت میں ” وما یاتیہم من ذکر من الرحمن الخ “ سے متعلق ہے اور ” انہ “ میں ضمیر منصوب دعوی ” تبارک “ سے کنایہ ہے اور یہ دعوی ” تبارک “ پر دلیل وحی ہے یا ضمیر سے قرآن مراد ہے۔ مشرکین اس دعوے کی تکذیب اور اس سے استہزاء کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ دعوی تو رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ” نزل بہ الروح الخ “ جسے روح امین حضرت جبریل (علیہ السلام) نے آپ کے قلب مبارک پر اتارا ہے تاکہ آپ اس دعوے کی تبلیغ فرمائیں اور نہ ماننے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔ آپ کے اولین مخاطب چونکہ عرب ہیں اس لیے اسے فصیح عربی زبان کے الفاظ کا جامہ پہنا کر نازل کیا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(192) یہاں تک کہ مختلف لوگوں کے سات واقعات بیا ن ہوئے یہ واقعات اوپر مفصلاً مذکور ہوچکے ہیں یہاں مختصراً ذکر ہوئے عاد کی قوم جس طرح تکبر اور تفاخر کی خوگر تھی اسی طرح قوم ثمود کھانے پینے اور مکان تراشنے کی خوگر اور عادی تھی یہ واقعات بھی سورة اعراف میں گزر چکے ہیں اب آگے مکہ والوں کو توجہ دلاتے ہیں اور سابقہ مضمون پھر بیان ہوتا ہے چناچہ ارشاد فرماتے ہیں اور بلاشبہ یہ قرآن کریم رب العالمین کا بھیجا ہوا ہے یعنی اس قرآن ک ریم کو اس پروردگار نے اتارا ہے جو تمام اقوام عالم کا پروردگار ہے۔