Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 79

سورة الزخرف

اَمۡ اَبۡرَمُوۡۤا اَمۡرًا فَاِنَّا مُبۡرِمُوۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾

Or have they devised [some] affair? But indeed, We are devising [a plan].

کیا انہوں نے کسی کام کا پختہ ارادہ کرلیا ہے تو یقین مانو کہ ہم بھی پختہ کام کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or have they plotted some plan? Then We too are planning. Mujahid said, "They wanted to plot some evil, but We are also planning." What Mujahid said is like the Ayah: وَمَكَرُواْ مَكْراً وَمَكَرْنَا مَكْراً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ So they plotted a plot, and We planned a plan, while they perceived not. (27:50) The idolators were trying their utmost to find ways of refuting the truth with falsehood, but Allah planned it so that the consequences of that would backfire on them. He said in refutation:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 یعنی ان جہنمیوں نے حق کو ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ یہ اس کے خلاف منظم تدبیریں اور سازشیں کرتے رہے۔ جس کے مقابلے میں پھر ہم نے بھی اپنی تدبیر کی اور ہم سے زیادہ مضبوط تدبیر کس کی ہوسکتی ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٤] کفار مکہ کا اقدام یہ تھا کہ اسلام کی دعوت کو کبھی پروان نہ چڑھنے دیں گے۔ اس دعوت کو روکنے کے لیے کبھی وہ قرآن اونچی آواز سے پڑھنے پر مسلمانوں پر پابندی لگاتے اور کبھی اپنے آپ پر اور کہتے کہ یہ ہماری ہی غفلت اور سستی کا نتیجہ ہے کہ اسلام کی دعوت پھیلتی جارہی ہے۔ کبھی باہر سے مکہ آنے والوں سے ملاقاتیں کرتے اور کہتے اس شخص کے قریب نہ جانا جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے کیونکہ یہ رشتہ داروں میں پھوٹ ڈال دیتا ہے۔ اور کبھی پیغمبر اسلام کو مار ڈالنے کی تدبیریں کرتے غرض اس جملہ میں کفار مکہ کی سب معاندانہ سرگرمیوں کا ذکر ہے۔ اور جو بھی تدبیر وہ سوچتے تھے اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر ان کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی تھی۔ تاآنکہ ان کی سب تدبیریں ناکام ہوگئیں۔ ان کے سینے جلتے رہے اور اسلام غالب ہوتا چلا گیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ام ابرموآ امراً فانا مبرمون :” ابرام “ کا معنی کسی چیز کو پختہ اور مضبوط کرنا ہے۔ اصل میں یہ رسی کو مضبوطی کے ساتھ بٹنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے :” ابرم فلان الحبل “ ” فلاں نے رسی کو خوب مضبوط کیا۔ “ یعنی یا انہوں نے کسی کام کی پختہ تدبیر اور اس کا پکا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سے مراد کفار کی خفیہ مجلسوں میں ان کے طے کردہ فیصلے میں جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرتے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قید یا قتل کرنے یا مکہ سے نکلنے کا پکا فیصلہ کرلیا۔ (دیکھیے انفال : ٣٠) فرمایا، انہوں نے ایسے کسی کا م کا پختہ ارادہ کرلیا ہے تو ہم بھی پکی تدبیر کرنے والے ہیں۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہ کس طرح ناکام و نامراد ہوئے اور اللہ کا دین کس طرح غالب رہا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ اَبْرَمُوْٓا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ۝ ٧٩ ۚ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ برم الإِبْرَام : إحكام الأمر، قال تعالی: أَمْ أَبْرَمُوا أَمْراً فَإِنَّا مُبْرِمُونَ [ الزخرف/ 79] ، وأصله من إبرام الحبل، وهو تردید فتله، قال الشاعر : علی كلّ حال من سحیل ومبرم والبرِيمُ : المُبْرَم، أي : المفتول فتلا محکما، يقال : أَبْرَمْتُهُ فبَرِمَ ، ولهذا قيل للبخیل الذي لا يدخل في المیسر : بَرَم كما يقال للبخیل : مغلول الید . والمُبْرِم : الذي يلحّ ويشدّد في الأمر تشبيها بمبرم الحبل، والبرم کذلک، ويقال لمن يأكل تمرتین تمرتین : بَرَمٌ ، لشدة ما يتناوله بعضه علی بعض، ولما کان البریم من الحبل قد يكون ذا لونین سمّي كلّ ذي لونین به من جيش مختلط أسود وأبيض، ولغنم مختلط، وغیر ذلك . والبُرْمَةُ في الأصل هي القدر المبرمة، وجمعها بِرَامٌ ، نحو حفرة وحفار، وجعل علی بناء المفعول، نحو : ضحكة وهزأة . ( ب ر م ) الابرام کے معنی کسی معاملہ کو محکم اور مضبوط کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَمْ أَبْرَمُوا أَمْراً فَإِنَّا مُبْرِمُونَ [ الزخرف/ 79] کیا انہوں نے کوئی بات ٹھہرا رکھی ہے تو ہم بھی کچھ ٹھہرانے والے ہیں ۔ یہ اصل میں ابرام الحبل سے ماخوذ ہے جس کے معنی رسی کو مضبوط بنئے کے ہیں شاعر نے کہا ی ( طویل ) یعنی ہر حالت میں ( تم قابل ستائش ہو ) البریم بمعنی مبرم یعنی مضبوط بٹی ہوئی رسی محاورہ ہے ۔ اسی بنا پر کنجوس آدمی کو جو جو انہ کھیلتا ہو برم کہا جاتا ہے جیسا کہ بخیل کو مغلول الید کہتے ہیں ۔ اور مبرم الحبل کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر اس آدمی کو جو کسی معاملہ میں مصر اور بضدر ہو اسے المبرم کہا جاتا ہے یہی معنی البرم کے ہیں اور جو آدمی دو دو کھجوریں ملا کر کھاتا ہو اسے بھی برم کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں سختی کے ساتھ کھانا کے معنی پائے جاتے ہیں اور رسی کبھی دو رنگ پر ہوتی ہے اس لئے ہر سیاہ سفید پر مشرمل لشکر ادر بکریوں کے ملے جلے ریوڑ کو بریم کہا جاتا ہے البرمۃ اصل میں پتھری کی ہنڈیا کو کہتے ہیں ج برام جیسے حضرۃ کی جمع حضار اور یہ اور یہ کی طرح مفعول کے اذران سے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا انہوں نے رسول اکرم کی شان کے بارے میں اپنا کوئی انتظام درست کیا ہے سو ہم نے بھی ان کی ہلاکت کے بارے میں ایک انتظام درست کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ { اَمْ اَبْرَمُوْٓا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ } ” کیا انہوں نے کوئی قطعی فیصلہ کرلیا ہے ؟ تو ہم بھی ایک قطعی فیصلہ کیے لیتے ہیں۔ “ حق و باطل کی اس کشمکش میں مشرکین ِمکہ ّنے اگر حق کو نہ ماننے کا ہی فیصلہ کرلیا ہے تو پھر ہم بھی ان کے بارے میں فیصلہ کرلیتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 The allusion is to the plans that the chiefs of the Quraish were devising in their secret assemblies in order to take a decisive action against the Holy Prophet.

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :63 اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو سرداران قریش اپنی خفیہ مجلسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کے لیے کر رہے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: مکہ مکرمہ کے کافر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف خفیہ منصوبے بناتے رہتے تھے، مثلاً انہوں نے آپ کو گرفتار کرنے یا قتل کرنے کے لیے سازش تیار کی تھی جس کا ذکر سورۃ انفال : 30 میں گذرا ہے۔ اسی قسم کی کسی سازش کے موقع پر یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ اگر انہوں نے آپ کے خلاف کچھ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہم نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کی سازش خود انہی کے خلاف پڑے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:79) ام ابرموا امرا فانا مبرمون : ابرموا ماضی جمع مذکر غائب۔ ابرام (افعال) مصدر کسی معاملہ کو محکم و مضبوط کرنا۔ پختہ و مضبوط ارادہکرنا۔ مبرمون اسم فاعل جمع مذکر ۔ حالت رفع۔ کسی امر کو پختہ ارادہ اور مضبوط عزم کے ساتھ کرنے والے۔ ام یہاں منقطہ اور بمعنی بل (حرف اضراب) آیا ہے یعنی پہلے حکم یا حالت کو برقرار رکھ کر اس کے مابعد کو اس حکم پر اور زیادہ کردینے کے لئے۔ پہلے ان کی کراہت کرنے کا تو ذکر ہی کیا بلکہ وہ اس کے رد کرنے میں سینکڑوں مکروتدابیر کیا کرتے تھے۔ اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مضبوط اور محکم اقدام کیا کرتے تھے۔ (یہ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جب کفار نے دار الندوہ میں مجلس مشاورت منعقد کی اور طویل بحث و تمحیص کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کردینے پر متفق ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (کہ اگر تم نے میرے محبوب کو شہید کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے تو ہم بھی غافل نہیں) ہم نے بھی بہ حتمی فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم اپنے حبیب کی حفاظت کریں گے اور تم ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے۔ فائدہ : آیت 78 میں خطاب کفار مکہ سے بصیغہ جمع مذکر حاضر کیا گیا کہ ہم نے تمہارے پاس دین حق بھیجا لیکن تم نے کراہت و نفرت سے اس سے منہ موڑ لیا۔ اب ان منکرین حق سے نفرت کے اظہار کیلئے آیات 79:80 میں التفات ضمائر بصیغہ جمع مذکر غائب استعمال کیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی کیا انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کرنے یا مکہ سے نکالنے کے لئے کوئی خفیہ منصوبہ تیار کیا ہے ؟ یعنی ضروری بنایا ہے۔ 8 یعنی کوئی بات نہیں ہم نے بھی ان کے منصوبے کو ناکام بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 79 تا 89 : ابرمو (انہوں نے ٹھان لی ، طے کرلی) یخرضوا (وہ گھستے ہیں) یلعبوا ( وہ کھیلتے ہیں) اصفح (در گزر کرلے ، منہ پھیر لے) سلام ( سلامتی ہو) ۔ تشریح : آیت نمبر 79 تا 89 : کفار مکہ اس بات سے بہت ڈرے ہوئے تھے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقناطیسی شخصیت اور کلام الٰہی سے عرب کے نوجوان بڑی تیزی سے متاثر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ جو بھی ان کی زبان سے کلام سنتا ہے تو وہ فوراً ہی اسلام کی سچائی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ کفار قریش نے نہایت خاموشی سے مکہ کے اہم لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان سے خفیہ مشورے کرنا شروع کردیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے اور اس تحریک کا مقابلہ نہ کیا تو مسلمان دندناتے پھریں گے اور سارا عرب مسلمان ہوجائے گا لہٰذا کوئی ایسی تدبیر کی جائے کہ ہم میں سے جس نے بھی اسلام قبول کرلیا ہے ہر رشتہ دار اور دوسرے رشتہ دار کو اس راستے سے روکنے کی کوشش کرے۔ اگر کسی غلام نے اس طرفقدم بڑھایا تو اس کا آقا پوری طاقت و قوت سے اس کو کچلنے اور روکنے کی کوشش کرے اور باہر سے آنے والے ہر شخص کو یہ سمجھا دیا جائے کہ ہمارے اندر ایک ایسا شخص آگیا ہے جو اپنی دیوانگی میں نئی نئی باتیں کررہا ہے لہٰذا اس کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ وہ گمراہ کر دے گا ۔ یہ اور اسی قسم کی بہت سی تدبیروں پر ایک خفیہ معاہدہ طے پا گیا اور ہر ایک نے اس معاہدے پر پوری دیانت داری سے عمل کرنے کی ٹھان لی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خفیہ تدبیروں اور اسلام کو مٹانے کی کوششوں کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ اگر کفار نے اس بات کا پکا ارادہ کرلیا ہے کہ وہ لوگوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کی طرف نہ آنے دیں گے اور دنیا سے اسلام کی ہر ممکن کوشش کریں گے تو ہم نے بھی ان کو سخت ترین سزائیں دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ فرمایا کہ ہم ان کی خفیہ تدبیروں اور رازوں سے اچھی طرح واقف ہیں ہم سب کچھ سنتے اور جانتے ہیں اور ہمارے فرشتے ہر وقت ان کے پاس ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں اسے وہ لکھتے جا رہ ہیں جو قیامت کے دن ان کے سامنے آئے گا اور یہ اپنے انجام اور سخت سزاؤں سے نہ بچ سکیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ان کفار سے کہہ دیجئے کہ میں تو تمہاری بھلائی اور خیر خواہی میں تمہارے غلط عقیدوں کی اصلاح کرتا رہوں گا اور تم نے جو اللہ کے لئے بیٹے کا تصور گھڑ رکھا ہے کہ اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا بیٹا بنایا ہوا ہے وہ بالکل غلط اور بےبنیاد ہے۔ اللہ کی ذات بیٹا ، بیٹی اور بیوی کے ہر تصور سے بےنیاز ہے اگر فرض کرلیا جائے کہ اللہ نے دنیا کے گناہوں کے کفارے کے لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بیٹا بنا کر بھیجا ہے۔ میں جو اللہ کا سب سے بڑا عبادت گزار ہوں اس کا پورا پورا احترام کرتے ہوئے میں تم سب سے پہلے اس کے سامنے اپنا سر جھکا دیتا لیکن یہ تصور بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ اللہ کے نہ تو کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی ۔ اللہ وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے۔ عراش الٰہی کا مالک و مختار ہے اس کا حکم ہر ایک پر چلتا ہے ۔ اسی کو قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس کی ذات ہر طرح کی تمام خوبیوں کا سر چشمہ ہے۔ ہر چیز اس کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہے وہی علم و حکمت والا ہے۔ قیامت میں صرف اسی کی حکمرانی ہوگی ۔ وہاں کسی کی محال نہ ہوگی کہ بغیر اجازت کسی کی سفارش بھی کی جاسکے۔ البتہ جن لوگوں نے دنیا میں حق کے کلمہ کو بلند کیا ہوگا یعنی دل اور زبان سے ایمان کا اقرار کیا ہوگا جیسے انبیاء کرام (علیہ السلام) ، صلحائے امت اور خاص خاص ممن بندے ان کو گناہگاروں کی سفارش کا اختیار دیا جائے گا کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ان کی سفارش کریں ۔ فرمایا کہ کفار کے دل بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ اس کائنات کا خالق ومالک صرف اللہ ہے اسی لئے اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو وہ بےساختہ کہہ اٹھیں گے کہ ہمیں اللہ نے پیدا کیا ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے آپ کہئے کہ جب تمہارا خالق اللہ ہے تو پھر تم یہ منہ اٹھائے کدھر جا رہے ہو ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ان کے کھیل کود اور تماشوں میں لگا رہنے یجئے بہت جلد ان پر ساری حقیقت کھل جائے گی ۔ اس وقت یہ اپنے اعمال پر شرمندہ ہوں گے۔ فرمایا کہ آپ اپنا خیر و فلاح کا مشن جاری رکھئے ۔ اگر وہ راستے کی رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجائیں تو آپ نہایت سلامتی کے ساتھ ان کے پاس سے گزر جائیے اور ان سے در گزر کیجئے ، کیونکہ قیامت کا دن جو ان سے زیادہ دور نہیں ہے اس میں ہر بات کھل کر ان کے سامنے آجائے گی۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔۔۔۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ ظاہر ہے کہ خدائی انتظام کے سامنے ان کا انتظام نہیں چل سکتا، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محفوظ رہے اور وہ لوگ ناکام اور آخر کو بدر میں ہلاک ہوئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کے سامنے باربار جنتیوں کے انعامات اور جہنّمیوں کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا تاکہ یہ اپنے انجام پر غور کریں۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب وروز اس بات پر محنت کررہے تھے کہ مکہ کے لوگ کفرو شرک سے باز آجائیں اور کلمہ حق قبول کرلیں۔ مگر ان کی حالت یہ تھی کہ وہ دن بدن کفر و شرک میں آگے ہی بڑھتے جا رہے تھے۔ وہ حق کی مخالفت میں اس قدر آگے بڑھے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں کھلے الفاظ میں چیلنچ کیا کہ اگر انہوں نے قطعی فیصلہ کرلیا ہے تو ہم نے بھی آخری فیصلہ کرلیا ہے۔ لہٰذا انہیں یہ خیال چھوڑ دینا چاہیے کہ ہم ان کی خفیہ باتوں کو نہیں سنتے۔ کیوں نہیں ہم ان کی خفیہ باتوں اور مجالس سے پوری طرح آگاہ ہیں اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں ہمارے فرشتے وہ سب کچھ لکھ رہے ہیں۔ اہل مکہ نے دار الندوہ میں منصوبہ بنایا کہ ہر خاندان کا ایک ایک آدمی مسلّح ہو کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا محاصرہ کرے۔ جب صبح کے وقت نکلے تو اس پر یکبارگی حملہ کرکے ختم کردیا جائے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں اور انہیں کھلے الفاظ میں چیلنج کیا کہ اگر تم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے تو یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نبی کی حفاظت کرے گا اور تمہیں ذلت اٹھانا پڑے گی۔ چناچہ یہی کچھ ہوا۔ (واقعہ کی تفصیل جاننے کے لیے سیرت طیبہ کا مطالعہ کیجیے ) ” جب کفر کرنے والے لوگ آپ کے خلاف تدبیریں کر رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا آپ کو قتل کردیں یا آپ کو نکال دیں وہ سازش کررہے تھے جبکہ اللہ بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سے سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ “ [ الانفال : ٣٠]

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ ” ام ابرموا امرا “ یہ زجر ہے۔ یہ مشرکین مکہ ایک کام کا پختہ فیصلہ کرچکے ہیں یعنی وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دینے اور دین اسلام کو مٹانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں، لیکن ہم ان کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملانے، پیغمبر (علیہ السلام) کو ان کے ناپاک ہاتھوں سے محفوظ رکھنے اور دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ ” ام یحسبوان الخ “ کیا ان کا خیال ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور سرگوشیوں کو نہیں جانتے اور سنتے ؟ کیوں نہیں ؟ ہم سنتے ہیں اور خوب جانتے ہیں اور اس کے علاوہ ہمارے فرشتے (کراما کاتبین) بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور ان کی ہر بات لکھ رہے ہیں۔ اس لیے ان کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا ہم نے پیغمبر (علیہ السلام) کو ان کی نظروں سے بچا کر صحیح سلامت مدینہ پہنچایا اور پھر جنگ بدر میں مسلمانوں اور فرشتوں کے ہاتھوں مشرکین کو ذلت و رسوائی سے قتل کرایا اور بعض کو قیدی بنایا۔ کچھ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور ان میں اکثر اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(79) کیا انہوں نے کوئی کاروائی اور کوئی بات طے کی ہے تو ہم نے بھی اپنی بات طے کررکھی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کافروں نے بل کر مشورہ کیا کہ تمہارے تغافل سے اس نبی کی بات بڑھی اب سے جو اس دین میں آوے اسی کے ناطے والے اس کو مار کر لٹا پھیریں اور جو شہر میں اوپری آوے اس کو پہلے سنا دو کہ اس شخص کے پاس نہ بیٹھے سو اللہ نے ٹھہرایا ان کا خراب کرنا۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کوئی سازش کی ہوگی اس کید اور سازش کی خلاف یہ فرمایا کہ تم نے اگر کوئی ایسی سازش کی ہے تو ہم نے بھی اس سازش کا توڑطے کررکھا ہے چناچہ ان کی سازش ناکام کردی جائے گی۔