Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 14

سورة الذاريات

ذُوۡقُوۡا فِتۡنَتَکُمۡ ؕ ہٰذَا الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ ﴿۱۴﴾

[And will be told], "Taste your torment. This is that for which you were impatient."

اپنی فتنہ پردازی کا مزہ چکھو ، یہی ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ ... Taste you your trial! Mujahid said, "Your burning" while others said, "Your punishment." ... هَذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ This is what you used to ask to be hastened! This will be said admonishing, chastising, humiliating and belittling them. Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 فِتْنَۃ بمعنی عذاب یا آگ میں جلنا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] فتنہ کا لغوی مفہوم :۔ فَتَنَ کے لغوی معنی سونا یا چاندی کو کٹھالی میں ڈال کر تپانا، گلانا اور کھوٹ معلوم کرنا ہے۔ سابقہ آیت میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور فتنۃ کا لفظ دراصل آزمائش کے معنی میں آتا ہے جس میں سختی بھی پائی جائے اور اکثر برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی آزمائش، دکھ، رنج، رسوائی، شرارت، عبرت، عذاب، مرض ہے اور فتّان بمعنی شر انگیز انسان اور شیطان ہے (منجد) اس لحاظ سے اس لفظ کا ایک وہی مطلب ہے جو ترجمہ سے واضح ہے اور دوسرا معنی عذاب لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اپنی شرارتوں کا بدلہ یا عذاب چکھو۔ [٨] عذاب کے لئے جلدی مچانا اپنے آپ سے دشمنی ہے :۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بتانے سے انسان کو پوری سمجھ آہی نہیں سکتی۔ مثلاً جس شخص نے آم نہ کھایا ہو اسے اس کا مزہ پوری طرح ذہن نشین نہیں کرایا جاسکتا۔ ہاں اسے آم کھلا کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہے آم اور یہ ہے اس کا مزا۔ ان کافروں پر کوئی اللہ کا عذاب نہیں آیا تھا اور اگر آبھی جاتا تو ہلاک ہونے والوں کو بعد میں کیا بتایا جاسکتا ہے۔ آخرت میں چونکہ موت نہیں ہوگی۔ لہذا اس دن ان کو عذاب دے کر بتایا جائے گا کہ یہ ہے اللہ کا عذاب۔ اب اس کا مزا چکھ لو۔ یہی وہ عذاب ہے جس کے لیے تم جلدی مچاتے اور مذاق اڑاتے تھے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے اسی وقت تمہیں یہ مزا نہ چکھا دیا اور مہلت دیتا رہا مگر تم تو خود اپنے دشمن تھے جو جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذوقوافتنتکم…: یہ بات انہیں ذلیل کرنے کے لئے بطور طنز کہی جائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ۝ ٠ ۭ ھٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۝ ١٤ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تب وہاں کے محافظ انہیں کہیں گے کہ اپنے جلنے بھننے کا اور عذاب کا مزہ چکھو یہ وہی عذاب ہے جس کی تم دنیا میں جلدی مچایا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤{ ذُوْقُوْا فِتْنَـتَـکُمْ ط ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ ۔ } ” (اُس دن ان سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنی شرارت کا۔ یہ ہے وہ (عذاب) جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے۔ “ تم لوگ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چیلنج کیا کرتے تھے ناکہ لے آئو ہم پر عذاب اگر لاسکتے ہو ۔ چناچہ یہ ہے آج تمہارے اس مطالبے کا جواب۔ اب چکھو اس عذاب کا مزا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 The word fitnah gives two meanings here: (1) °Taste this torment of yours ; " and (2)-"taste the mischief that you had created and spread in the world. " 12 The disbelieves' asking: "When will the Day of Retribution be?" implied: "Why is it being delayed ?" That is, "When we have denied it and have deserved the punishment for belying it, why doesn't it overtake us immediately ?" That is why when they will be burning in the Hell-fire, at that time it will be said to them: "This is that which you sought to be hastened. " This sentence by itself gives the meaning: It was Allah's kindness that He did not seize you immediately on the occurrence of disobedience from you and went on giving you respite after respite to think and understand and mend your ways. But the foolish people that you were, you did not take advantage of the respite but demanded that your doom should be hastened for you instead. Now you may see for yourself what it was that you were seeking to be hastened?"

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :11 فتنے کا لفظ یہاں دو معنی دے رہا ہے ۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اپنے اس عذاب کا مزہ چکھو ۔ دوسرے معنی یہ کہ اپنے اس فتنے کا مزہ چکھو جو تم نے دنیا میں بر پا کر رکھا تھا ۔ عربی زبان میں اس لفظ کے ان دونوں مفہوموں کی یکساں گنجائش ہے ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :12 کفار کا یہ پوچھنا کہ آخر وہ روز جزا کب آئے گا اپنے اندر خود یہ مفہوم رکھتا تھا کہ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے؟ جب ہم اس کا انکار کر رہے ہیں اور اس کے جھٹلانے کی سزا ہمارے لیے لازم ہو چکی ہے تو وہ آ کیوں نہیں جاتا ؟ اسی لیے جہنم کی آگ میں جب وہ تپ رہے ہوں گے اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ چیز جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے ۔ اس فقرے سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی تھی کہ اس نے تم سے نافرمانی کا ظہور ہوتے ہی تمہیں فوراً نہ پکڑ لیا اور سوچنے ، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے وہ تم کو ایک لمبی مہلت دیتا رہا ۔ مگر تم ایسے احمق تھے کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا یہ مطالبہ کرتے رہے کہ یہ وقت تم پر جلدی لے آیا جائے ۔ اب دیکھ لو کہ وہ کیا چیز تھی جس کے جلدی آ جانے کا مطالبہ تم کر رہے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: کافر لوگوں کو جب آخرت کے عذاب سے ڈرایا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ وہ عذاب ابھی کیوں نہیں آجاتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:14) ذوقوا فتنتکم : ذوقوا امر جمع مذکر حاضر۔ ذوق (باب نصر) مصدر۔ تم چکھو فتنتکم مضاف مضاف الیہ۔ فتن مصدر۔ اگرچہ بمعنی سونے کو آگ میں اس کا کھوٹا کھرا معلوم کرنے کے لئے گھلانا ہے۔ لیکن اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ (ملاحظہ ہو آیت نمبر 13 متذکرۃ الصدر) اور اس کا اطلاق نفس عذاب پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ آیت ہذا میں فتنتکم : تمہاری شرارت کا مزہ، یعنی عذاب کا مزہ۔ اپنے عذاب کا مزہ چکھو ۔ ھذا الذی میں ھذا کا اشارہ عذاب (فتنۃ) کی طرف اشارہ ہے۔ کنتم تستعجلون : ماضی استمراری جمع مذکر حاضر استعجال (استعفعال) مصدر ۔ کسی چیز کا جلدی ہونے کی چاہت کرنا۔ بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب اس چیز کے لئے ہے جس کا جلدی ہونا وہ چاہا کرتے تھے ، یعنی عذاب۔ ترجمہ ہوگا :۔ یہی ہے وہ جزا وسزا جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر قیامت آنے والی ہے تو اسے جلدی کیوں نہیں لے آتے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذوقوا ........ تستعجلون (٥١ : ٤١) ” اب چکھو مزا اپنے فتنے کا ، یہ وہی چیز ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے “.... اس سوال کا مناسب جواب یہی تھا اور مدہوشی اور گہری نیند میں سوئے ہوئے غافلوں کے لئے اس منظر میں یہ سختی نہایت ہی موزوں اور مطابق حال ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ان کے لئے بددعا کی ، نہایت سخت انداز میں لہٰذا مارے گئے اور آگ پر ان کو اس طرح تپایا جائے گا جس طرح کسی دھات کو تپایا جاتا ہے کہ اس سے کھوٹ نکالا جائے۔ اب ذرا فریق مقابل ، ذرا دوسرے پلیٹ فارم پر جائیں اور کتاب کا دوسرا صفحہ الٹیں ، وہاں دوسرا فریق کھڑا ہے جو وہم و گمان کی بات نہیں کرتا جس کی باتوں میں تزلزل نہیں ہے۔ یہ متقی ہیں متکبر نہیں۔ یہ جاگ رہے ہیں ، عبادت گزار ہیں ، استعفار کرنے والے ہیں اور اپنی عمر مدہوشیوں میں ضائع نہیں کرتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) کہا جائے گا اپنی تکذیب اور اپنی شرارت کا مزہ چکھو یہی تو وہ عذاب ہے جس کی تم جلدی اور شتابی کیا کرتے تھے۔ قتل بددعا کے طور پر ہے۔ یعنی لحن خراصون محض بدگمان اور اٹکل سے بےسند بات کرنے والے عمرۃ ، جمل، ضلال، غفلت، تعنت اور استہزاء اور جلدی کرنے کی غرض سے پوچھتے تھے انصاف کا دن کب ہوگا ۔ فتنت الشئی جلانا عذاب کرنا آگ پر تپانا ، آگ کے کوئلوں پر رکھ کر الٹ پلٹ کرنا اپنے فتنے کا مزہ چکھو یعنی اپنی شرارت اور شرک کا مزہ آگے پرہیزگاروں کے انجام کا ذکر فرماتے ہیں۔