Surat Younus

Surah: 10

Verse: 18

سورة يونس

وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ اَتُنَبِّئُوۡنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعۡلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۱۸﴾

And they worship other than Allah that which neither harms them nor benefits them, and they say, "These are our intercessors with Allah " Say, "Do you inform Allah of something He does not know in the heavens or on the earth?" Exalted is He and high above what they associate with Him

اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالٰی کو معلوم نہیں ، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

What do the Idolators believe about Their Gods Allah says; وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـوُلاء شُفَعَاوُنَا عِندَ اللّهِ ... And they worship besides Allah things that harm them not, nor profit them, and they say: "These are our intercessors with Allah." Allah reproaches the idolators that worshipped others beside Allah, thinking that those gods would intercede for them before Allah. Allah states that these gods do not harm or benefit. They don't have any authority over anything, nor do they own anything. These gods can never do what the idolators had claimed about them. That is why Allah said: ... قُلْ أَتُنَبِّيُونَ اللّهَ بِمَا لاَ يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلاَ فِي الاَرْضِ ... Say: `Do you inform Allah of that which He knows not in the heavens and on the earth!' Ibn Jarir said: "This means, `Are you telling Allah about what may not happen in the heavens and earth.' Allah then announced that His Glorious Self is far above their Shirk and Kufr by saying: ... سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ Glorified and Exalted is He above all that which they associate as partners (with Him)! Shirk is New Allah tells; وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلاَّ أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُواْ وَلَوْلاَ كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

شرک کے آغاز کی روداد مشرکوں کا خیال تھا کہ جن کو ہم پوجتے ہیں یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہوں گے اس غلط عقیدے کی قرآن کریم تردید فرماتا ہے کہ وہ کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ان کی شفاعت تمہارے کچھ کام نہ آئے گی ۔ تم تو اللہ کو بھی سکھانا چاہتے ہو گویا جو چیز زمین آسمان میں وہ نہیں جانتا تم اس کی خبر اسے دینا چاہتے ہو ۔ یعنی یہ خیال غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک و کفر سے پاک ہے وہ برتر و بری ہے ۔ سنو پہلے سب کے سب لوگ اسلام پر تھے ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نوح علیہ السلام تک دس صدیاں وہ سب لوگ مسلمان تھے ۔ پھر اختلاف رونما ہوا اور لوگوں نے تیری میری پرستش شروع کر دی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے سلسلوں کو جاری کیا تاکہ ثبوت و دلیل کے بعد جس کا جی چاہے زندہ رہے جس کا جی چاہے مر جائے ۔ چونکہ اللہ کی طرف سے فیصلے کا دن مقرر ہے ۔ حجت تمام کرنے سے پہلے عذاب نہیں ہوتا اس لیے موت موخر ہے ۔ ورنہ ابھی ہی حساب چکا دیا جاتا ۔ مومن کامیاب رہتے اور کافر ناکام ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یعنی اللہ کی عبادت سے تجاوز کرکے نہ کہ اللہ کی عبادت ترک کرکے۔ کیونکہ مشرکین اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ اور غیر اللہ کی بھی۔ 18۔ 2 جب کہ معبود کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے اطاعت گزاروں کو بدلہ اور اپنے نافرمانوں کو سزا دینے پر قادر ہے۔ 18۔ 3 یعنی ان کی سفارش سے اللہ ہماری ضرورتیں پوری کردیتا ہے ہماری بگڑی بنا دیتا ہے یا ہمارے دشمن کی بنائی ہوئی بگاڑ دیتا ہے۔ یعنی مشرکین بھی اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے تھے ان کو نفع اور ضر میں مستقل نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ اور وسیلہ سمجھتے تھے۔ 18۔ 4 یعنی اللہ کو تو اس بات کا علم نہیں کہ اس کا کوئی شریک بھی ہے یا اس کی بارگاہ میں سفارشی بھی ہونگے، گویا یہ مشرکین اللہ کو خبر دیتے ہیں کہ تجھے خبر نہیں۔ لیکن ہم تجھے بتلاتے ہیں کہ تیرے شریک بھی ہیں اور سفارشی بھی ہیں جو اپنے عقیدت مندوں کی سفارش کریں گے۔ 18۔ 5 اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین کی باتیں بےاصل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک اور برتر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] من دون اللہ کی سفارش ؟ یعنی اللہ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو کسی کی بگڑی کو بناسکے یا اسے کوئی فائدہ پہنچا سکے لہذا ایسا عقیدہ رکھ کر کسی دوسرے کی پرستش کرنا عبث ہے اور اس لحاظ سے کہ اس نے اللہ کی صفات میں دوسروں کو شریک کیا، بہت بڑا جرم بھی ہوتا ہے۔ اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کی پرستش کیوں کرتے ہو ؟ تو کہتے ہیں کہ بیشک بڑا خدا تو ایک ہی ہے مگر ان دیوی دیوتاؤں کی پرستش اور انہیں خوش رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ جو تھوڑے بہت اختیار انہیں حاصل ہیں ان کے مطابق ہمارے کام درست کردیں اور جو نہیں ان کی سفارش کردیں اور اگر موت کے بعد دوسری زندگی کا سلسلہ ہوا تو وہاں بھی یہ ہماری سفارش کریں گے۔ [٢٩] عقیدہ سفارش مروجہ کی کوئی سند نہیں :۔ مشرکوں کا بتوں یا دیوی دیوتاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہونے یا ان کی تعظیم بجا لانے کے متعلق عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دراصل ان پتھر کے مجسموں کی عبادت یا تعظیم نہیں کرتے بلکہ ان مجسموں کی ارواح کی تعظیم بجا لاتے ہیں جو ان کے عقیدہ کے مطابق ان مجسموں پر موجود رہتی ہیں اور یہ مجسمے بزرگوں کے بھی ہوتے ہیں۔ اللہ کی بیٹیوں اور بیٹوں کے بھی اور بعض فرشتوں کے بھی اور آج کا مسلمان یہی عقیدہ اپنے بزرگوں کی قبروں سے وابستہ کردیتا ہے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے جواب میں فرمایا کہ بتوں کا شفیع ہونا اور کسی شفیع کا مستحق عبادت ہونا یہ دونوں دعوے غلط اور بےاصل ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ کسی چیز کی اصل تو موجود ہو لیکن اللہ کو اس کا علم نہ ہو پھر کیا یہ مشرک اللہ کو ایسی خود تراشیدہ باتوں کی خبر دینا چاہتے ہیں جن کا زمین و آسمان میں کہیں وجود ہی نہیں پھر یہ کن سفارشیوں کی اللہ کو خبر دینے لگے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : مکہ کے مشرک اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرتے تھے اور کچھ اور ہستیوں کو بھی غائبانہ پکارتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم انھیں اللہ تعالیٰ نہیں مانتے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ سے ہمارے کام کروا دیتے ہیں (دیکھیے زمر : ٣) اللہ تعالیٰ ان کی سفارش رد نہیں کرتا، حالانکہ وہ نہ انھیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے تھے نہ نقصان (دیکھیے مائدہ : ٧٦۔ فرقان : ٣) بلکہ ان کو خبر بھی نہ ہوتی تھی کہ کوئی ہمیں پکار رہا ہے یا ہماری پوجا کر رہا ہے۔ یہی حال ہمارے زمانے کے ان لوگوں کا ہے جو پیروں فقیروں کو حاجت روا اور مشکل کشا مانتے ہیں اور مردہ اولیاء اللہ کی قبروں کو سجدہ کرتے، ان کا طواف کرتے، ان پر چڑھاوے چڑھاتے اور ان کے سامنے عاجزی سے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ انھیں سمجھانے کے لیے جب کوئی بات کی جاتی ہے تو وہ یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ ہم ان بزرگوں کو یہ سمجھ کر تو سجدہ نہیں کرتے اور نہ ان سے مرادیں مانگتے ہیں کہ یہ خود اللہ تعالیٰ ہیں، بلکہ انھیں صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنا سفارشی سمجھتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ان کا اتنا زور ہے اور ان کی محبت میں وہ ایسا مجبور ہے کہ وہ ان کی کوئی سفارش رد نہیں کرسکتا۔ اسی چیز کا جواب اگلے جملے میں دیا جا رہا ہے۔ قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی ہر بات اور ہر چیز کو جانتا ہے، بلکہ وہی انھیں پیدا کرنے والا اور ہر لمحہ پالنے والا ہے، تو وہ کیسے بیخبر ہوسکتا ہے۔ اگر معاذ اللہ، تمہارے یہ بت یا زندہ و مردہ معبود اس کے شریک یا سفارشی ہوتے تو وہ انھیں بھی ضرور جانتا ہوتا، جب وہ ان میں سے کسی کے بھی شریک یا سفارشی ہونے سے انکار کر رہا ہے تو معلوم ہوا کہ ان کا کوئی وجود یا حقیقت نہیں، اب تمہارے ان کو شریک یا سفارشی اور نفع و نقصان پہنچانے والے ماننے پر اصرار کا مطلب یہی ہے کہ اللہ کو تو آسمان و زمین میں کوئی ایسی ہستی معلوم نہیں ہے مگر تم اسے وہ چیز بتا رہے ہو جو اس کے علم ہی میں نہیں۔ معلوم ہوا تمہارا یہ کہنا اور اس کی بنیاد پر کیے جانے والے تمہارے سب افعال بالکل بےہودہ اور لغو ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے شرک سے ہر طرح سے پاک اور بیحد بلند ہے، وہ نہ کسی مددگار کا محتاج ہے نہ کسی سفارشی کے ہاتھوں مجبور۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور یہ لوگ اللہ ( کی توحید) کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو ( عبادت نہ کرنے کی صورت میں) نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ( عبادت کرنے کی صورت میں) ان کو نفع پہنچا سکیں اور ( اپنی طرف سے بلا دلیل ایک نفع تراش کر) کہتے ہیں کہ یہ ( معبود) اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ( اس لئے ہم ان کی عبادت کرتے ہیں) آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم خدا تعالیٰ کو ایسی چیز بتلاتے ہو جو خدا تعالیٰ کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں نہ زمین میں ( یعنی جو چیز اللہ کے علم میں نہ ہو، اس کا وجود اور وقوع محال ہے تو تم ایک محال چیز کے پیچھے لگے ہو) اللہ تعالیٰ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے اور ( پہلے) تمام آدمی ایک ہی طریقہ کے تھے ( یعنی سب موحد تھے، کیونکہ آدم (علیہ السلام) عقیدہ توحید لے کر آئے، ان کی اولاد بھی ایک زمانے تک انہیں کے عقیدہ اور طریقے پر رہی) پھر ( اپنی کجرائی سے) انہوں نے ( یعنی بعض نے) اختلاف پیدا کرلیا ( یعنی توحید سے پھرگئے، مشرک ہوگئے اور یہ مشرک لوگ ایسے مستحق عذاب ہیں کہ) اگر ایک بات نہ ہوتی جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے ٹھہر چکی ہے ( کہ پورا عذاب ان کو ابھی نہیں بلکہ آخرت میں دیا جائے گا) تو جس چیز میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ان کا قطعی فیصلہ ( دنیا ہی میں) ہوچکا ہوتا اور یہ لوگ ( براہ عناد سینکڑوں معجزات ظاہر ہوجانے کے باوجود خصوصاً معجزہ قرآن دیکھنے اور اس کی مثال سے عاجز ہونے کے باوجود) یوں کہتے ہیں کہ ان پر ( یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہمارے فرمائشی معجزات میں سے) کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل ہوا ؟ تو آپ فرما دیجئے کہ ( معجزہ کا اصل مقصد رسول کے صدق و حقانیت کو ثابت کرنا ہے، وہ تو بہت سے معجزات کے ذریعہ ہوچکا ہے، اب فرمائشی معجزات کی ضرورت تو ہے نہیں، ہاں امکان ہے کہ ظاہر ہوں یا نہ ہوں اس کا تعلق علم غیب سے ہے اور) غیب کا علم صرف خدا کو ہے ( مجھ کو نہیں) اس لئے تم بھی منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ( کہ تمہاری ہر فرمائش پوری ہوتی ہے یا نہیں، اور فرمائشی معجزات کے ظاہر نہ کرنے کی حکمت قرآن کریم میں کئی جگہ بتلا دی گئی ہے کہ ان کے ظہور کے بعد عادۃ اللہ یہ ہے کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لائیں تو ساری قوم ہلاک کردی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کو اس امت کے لئے ایسا عذاب عام منظور نہیں بلکہ اس کو تا قیامت باقی رکھنا مقدر ہوچکا ہے) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۝ ٠ ۭ قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللہَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝ ١٨ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ ها هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران/ 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو . ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔ شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) یہ کفار مکہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کی عبادت کرتے ہیں کہ عبادت نہ کرنے کی صورت میں نہ ان کو دنیا وآخرت میں نقصان پہنچا سکیں، اور نہ عبادت کرنے کی صورت میں دنیا وا آخرت میں ان کو کوئی نفع پہنچا سکیں اور اپنی طرف سے بلادلیل کہتے ہیں کہ یہ معبود ہمارے سفارشی ہیں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ کیا تم لوگ اللہ تعالیٰ کو ایسی چیز کی خبردیتے ہیں ہو جو اس کو معلوم نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں کہ کوئی معبود اور بھی ہے جو نفع ونقصان کا مالک بھی ہو، اس کی ذات اولا، شریک اور ان لوگوں کے شرک سے پاک اور بالا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ط) ” اور یہ لوگ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا یسی چیزوں کی جو نہ انہیں کوئی نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ نفع دے سکتی ہیں ‘ اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے ہاں۔ “ اس سے مشرکین مکہ کا بنیادی عقیدہ ظاہر ہو رہا ہے۔ وہ لوگ مانتے تھے کہ اس کائنات کا خالق اور مالک اللہ ہے۔ وہ اپنے بتوں کو کائنات کا خالق ومالک نہیں بلکہ اللہ کے قرب کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ جن ہستیوں کے نام پر یہ بت بنائے گئے ہیں وہ ہستیاں اللہ کے ہاں بہت مقرب اور محبوب ہونے کے باعث اس کے ہاں ہماری سفارش کریں گی۔ (قُلْ اَتُنَبِّءُوْنَ اللّٰہَ بِمَا لاَ یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلاَ فِی الْاَرْضِ ط) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ کیا تم اللہ کو بتانا چاہتے ہو وہ شے جو وہ نہیں جانتا ‘ نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ؟ “ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دینا چاہتے ہو جس کا اس کو خود پتا نہیں ؟ یہ وہی بات ہے جو آیۃ الکرسی کی تشریح کے ضمن میں بیان ہوچکی ہے کہ ایسی کسی شفاعت کا آخر جواز کیا ہوگا ؟ اللہ تو غائب اور حاضر سب کچھ جاننے والا ہے : (یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْج وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ الاَّ بِمَاشَآءَ ج) ۔ تو پھر آخر کوئی سفارشی اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر کیا کہے گا ؟ کس بنیاد پر وہ کسی کی سفارش کرے گا ؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ اے اللہ ! تو اس آدمی کو ٹھیک سے نہیں جانتا ‘ میں اسے بہت اچھی طرح جانتا ہوں ‘ یہ بہت اچھا اور نیک آدمی ہے ! تو کیا وہ اللہ کو وہ کچھ بتانا چاہے گا (معاذ اللہ) جس کو وہ خود نہیں جانتا ؟ (سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) ” وہ بہت پاک اور بلند ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24. To say that something is not known to God amounts to saying that it does not exist. For, quite obviously, all that exists is known to God. The above verse thus subtly points out the non-existence of any intercessors on behalf of unbelievers insofar as God does not know that there exist any in the heavens, or on the earth who would intercede on behalf of the unbelievers. That being so, who are those intercessors about whose existence and whose power of intercession with God the unbelievers wanted to inform the Prophet (peace be on him)?

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :24 کسی چیز کا اللہ کے علم میں نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں ، اس لیے کہ سب کچھ جو موجود ہے اللہ کے علم میں ہے ۔ پس سفارشیوں کے معدوم ہونے کے لیے یہ ایک نہایت لطیف انداز بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا نہیں کہ زمین یا آسمان میں کوئی اس کے حضور تمہاری سفارش کرنے والا ہے ، پھر یہ تم کن سفارشیوں کی اس کو خبر دے رہے ہو؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٨۔ ١٩۔ مطلب یہ ہے کہ خدائے وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر یہ لوگ بتوں کو پوجتے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن یہ بت خدا سے ان کی شفاعت کریں گے یہ ان کی انتہا درجہ کی گمراہی ہے کہ جو دنیا میں ذرہ برابر بھی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا وہ آخرت میں کیا شفاعت کرے گا پھر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ ان سے کہو کہ تم لوگ ایسی بات خدا کو جتلا رہے ہو جس کا سر نہ پاؤں بغیر حکم خدا کے کس کی مجال ہے جو کسی کی کوئی شفاعت کرے پھر خدا نے اپنی پاکی بیان فرمائی کہ وہ شرک سے بالکل پاک صاف ہے اور اگر مشرک شاید یہ کہیں تمہارے دین میں یہ منع ہوگا ہمارے دین میں تو یہ منع نہیں ہے تو فرمایا کہ یہ عقیدہ تم لوگوں نے گھڑ لیا ہے۔ پہلے تو اس کا نام و نشان بھی نہ تھا سب کے سب ایک دین پر تھے جس کا نام اسلام ہے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں حضرت آدم (علیہ السلام) سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک دس قرن گزرے ہیں اس وقت تک سارے لوگوں کا مذہب دین اسلام تھا اس کے بعد لوگوں کے عقیدوں میں خلل واقع ہونے لگا اور اختلاف پڑا کوئی بتوں کو پوجنے لگا اور کوئی سورج چاند اور ستاروں کو اور بہتیرے خدا کے سچے دین اسلام پر بھی قائم رہے پھر خدا نے اپنی حجت تمام کرنی چاہی کیوں کہ وہ کسی کو بےحجت نہیں پکڑتا اس لئے رسولوں کو بھیجنا شروع کیا تاکہ وہ مخلوق کی ہدایت کریں حق و ناحق ان پر کھول دیں اگر حجت نہ تمام کرنی ہوتی تو اب تک کب کا فیصلہ کرچکا ہوتا یا قیامت قائم کردیتا یا ان مشرکوں کو اک دم ہلاک کردیتا۔ سورة ابراہیم اور سورة سبا میں آوے گا کہ مشرکین مکہ جن بتوں کی پوجا کرتے اور ان کی شفاعت کی امید رکھتے تھے قیامت کے دن بجائے شفاعت کے ان مشرکوں کے وہ جھوٹے معبود اور سب جھوٹے معبودوں کا سردار شیطان ان مشرکوں سے بڑی بیزاری ظاہر کریں گے جن سے اس غلط شفاعت کی امید پر ان مشرکوں کو بڑا پچتاوا ہوگا لیکن اس دن کا پچتاوا ان کے کچھ کام نہ آوے گا سورة ابراہیم اور سورة سبا کی دو آیتیں اس غلط شفاعت کی بےٹھکانے امید کی گویا تفسیر ہیں صحیح بخاری و مسلم کے حوالے سے مغیرہ بن شعبہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں کی انجانی کے عذر کو رفع کردینا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اسی واسطے آسمانی کتابیں دے کر اس نے رسول بھیجے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کے آخری ٹکڑے کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ علم الٰہی میں اگر یہ بات نہ ٹھہر چکی ہوتی کہ بغیر انجانی کے عذر کو رفع ہوجانے کے کسی قوم کو ہلاک نہ کیا جاوے گا تو ان مشرکوں نے جس سرکشی پر کمر باندھ رکھی ہے اس کے وبال میں یہ لوگ اب تک ہلاک ہوچکے ہوتے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:18) اتنبئون۔ الف استفہام کے لئے ہے تنبئون جمع مذکر حضر۔ تنبئۃ اور تنبئی سے۔ کیا تم خبر دیتے ہو۔ کیا تم آگاہ کرتے ہو۔ اتنبئون اللہ بما لا یعلم فی السموت ولا فی الارض کیا تم اللہ کو ایسی بات بتا رہے ہو جو زمین و آسمان میں اس کے علم میں نہیں۔ یعنی زمین و آسمان کی ہر بات تو اس کے علم میں ہے پھر تم یہ کیا بات اس کو بتا رہے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری اس بات کا وجود ہی نہیں اور تم محض ایک بےبنیاد ۔ من گھڑت بات بنا رہے ہو (اس سے کفار کی بتوں سے شفاعت کی امید کی حقیقت کی نفی قطعی طور پر مقصود ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6۔ یہی حال ہمارے زمانہ کے ان لوگوں کا ہے جو پیروں فقیروں کو مانتے ہیں اور مردہ اولیا اللہ کی قبروں کو سجدہ کرتے اور ان پر چڑھا وے چڑھاتے ہیں۔ انہیں سمجھانے کے لئے جب کوئی بات کی جاتی ہے تو وہ یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ ہم ان بزرگوں کو یہ سمجھ کر تو سجدہ نہیں کرتے اور نہ ان سے مرادیں مانگتے ہیں کہ یہ خود خدا ہیں بلکہ انہیں صرف خدا کے ہاں اپنا سفارشی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا خدا پر اتنا زور ہے کہ وہ ان کی کوئی سفارش سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا خدا پر اتنا زور ہے کہ وہ ان کی کوئی سفارش رد نہیں کرسکتا۔ اسی چیز کا جواب اگلے جملہ میں دیا جا رہا ہے۔ (وحیدی) ۔ 7۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پہنچانتا ہے۔ اگر معاذ اللہ تمہارے یہ بت یا زندہ و مردہ معبود اس کے شریک یا اس کے سفارشی ہوتے تو وہ انہیں بھی ضرور پہنچانتا اور جب وہ ان کے سفارشی ہونے سے انکار کر رہا ہے تو معلوم ہوا کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں اور تمہارا نہیں ماننا، انہیں سجدہ کرنا، ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھانا اور ان سے مرادیں طلب کرنا قطعی بےہودہ اور لغو فعل ہے۔ 8۔ اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی شریک ہے اور نہ اسے کسی شریک کی ضرورت ہے کیونکہ وہ خود اتنا حلیم و حکیم اور عزیز و غالب ہے کہ پوری کائنات کا نظام محض اس کے اشارے اور حکم پر چل رہا ہے۔ کسی دوسری ہستی کی اس کے سامنے کوئی مجال نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 18 یعبدون (وہ عبادت و بندگی کرتے ہیں) لایضر (وہ نقصان نہیں پہنچاتا ہے) لاینفع (وہ نفع نہیں دیتا ہے) شفعآء (شفیع) سفارش کرنے والے اتنبئون (کیا تم خبر دیتے ہو ؟ ) تعالیٰ (بلندو برتر) تشریح :- آیت نمبر 18 کفار مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا کرتے تھے کہ یا تو اس قرآن کو بدل دو یا اس میں ایسی ترمیم کر دو جس سے ہمارے بتوں کی عبادت و بندگی کی گنجئاش نکل آئے اور ہمارے درمیان کے اختلافات دور ہوجائیں۔ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات کا بھرپور انداز میں جواب ارشاد فرمایا تھا اس آیت میں اللہ نے ان ناسمجھ پتھروں کے پجاریوں سے یہ فرمایا ہے کہ بےعقلی کی انتہا یہ ہے کہ وہ بت جو اپنے وجود کے لئے بھی انسانی ہاتھوں کے محتاج ہیں کہ اگر وہ ان پتھروں کو تراشنا چھوڑ دیں تو دنیا میں ان کے معبودوں کا وجود تک ختم ہو کر رہ جائے۔ ایسے بےبس اور لاچار پتھروں کے یہ بت انسان کو نا تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ان سے کسی طرح کا نفع پہنچانے کی امید کی جاسکتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم اس کائنات کے خلاق اور مالک پر ایمان رکھتے ہیں وہی سب کھچ کرتا ہے لیکن یہ بات جب تک ہماری سفارش نہ کردیں وہ خالق ومالک بھی ہماری دعاؤں کو نہیں سنتا۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے لطیف انداز میں اس کا یہ جواب عنایت فرمایا کہ اللہ جو کائنات کی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے جو ہر شخص کی پکار کو براہ راست سنتا ہے اور ان کی فریادوں کو پہنچتا ہے اس کی بار گاہ میں بات پہنچانے کے لئے وہ دنیاوی وسیلوں کا محتاج نہیں ہے وہ تو انسانوں سے اتنا قریب ہے کہ رگ جاں بھی انسان سے اتنی فریب نہیں ہے۔ پھر وہ کون سے سفارشی تلاش کر کے لا رہے ہیں جنس کی وہ اصلاع اس علیم وخبیر ذات کو دے رہے ہیں جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ اس آیت میں ان بت پرستوں پر ایک گہرا طنز بھی ہے کہ اللہ کو اس کائنات کی ہر چیز کا علم ہے جن بتوں کو تم اللہ کی بارگاہ میں سفارشی سمجھتے ہو انہیں تو اللہ جانتا تک نہیں ہے یعنی اللہ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے پھر تم ان سے امیدیں لگائے کیسے بیٹھے ہو درحقیقت امید تو اس اللہ سے باندھنی چاہئے جو طرح کی قدرت و طاقت رکھتا ہے اور کسی کی سفارش کا محتاج نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ویعبدون من دون اللہ ما لا یضرھم ولا ینفعھم اور مکہ کے کافر اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی پوجا کرتے ہیں کہ اگر ان کی پوجا نہ کریں تو وہ ان پجاریوں کو نقصان نہیں دے سکتیں اور اگر ان کی پوجا کریں تو پجاریوں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔ یعنی بتوں کی پوجا کرتے ہیں جو بالکل بےجان ہیں ‘ نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور معبود میں نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت ہونی چاہئے تاکہ پوجا کرنے والے کو پوجا کا ثواب دے سکے ‘ فائدہ پہنچا سکے یا ضرر کو دفع کرسکے۔ ویقولون ھؤلآ شفعاؤنا عند اللہ اور کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں یہ (معبود) ہمارے سفارشی ہیں۔ دنیوی امور میں بھی ہماری سفارش کرتے ہیں اور اگر قیامت ہوئی تو وہاں بھی یہ شفاعت کریں گے۔ قل اتنبؤن اللہ بما لا یعلم فی السموت ولا فی الارض آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی بات کی اطلاع دے رہے ہو جس کو وہ نہیں جانتا اور آسمان و زمین میں کہیں اس کا وجود نہیں۔ یعنی اللہ کا شریک قرار دے رہے ہو اور بتا رہے ہو کہ اللہ کے علاوہ بھی دوسرے معبود ہیں۔ اس آیت میں کافروں کو رجز بھی ہے اور استہزاء بھی (کہ آپ بڑے عالم ہیں کہ جو چیز اللہ کو بھی معلوم نہیں اس کی اطلاع آپ دے رہے ہیں) فِی السَّمٰوٰتِ والْاَرْضِ کے الفاظ سے اسی طرف اشارہ ہے کہ جس کو یہ لوگ اللہ کا شریک قرار دے رہے ہیں ‘ وہ آسمانی موجودات میں سے ہوگا مثلاً فرشتہ ہوگا یا زمین کی موجودات میں سے مثلاً پتھر وغیرہ اور کائنات سماوی و ارضی سب کی سب حادث ہے ‘ مغلوب ہے ‘ اس کو شریک الوہیت قرار دینے کیسے درست ہو سکتا ہے۔ سبحٰنہ وتعلیٰ عما یشرکون۔ وہ پاک ہے اور ان کے شرک کرنے یا مشرکوں سے برتر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کی گمراہی ‘ اور ان کے قول وعمل کی تردید ان آیات میں اول تو مشرکین کی گمراہی کا تذکرہ فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ شانہ ‘ کی توحید کو چھوڑ کر غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کرتے ہیں ان میں بعض جاندار بھی ہیں جیسے بعض حیوانات اور بےجان بھی ہیں جیسے اصنام واوثان یعنی بت اور یہ ان کے معبود ان باطل نفع اور ضرر پہنچانے سے بالکل ہی عاجز ہیں ‘ جو نفع ضرر کچھ بھی نہ پہنچا سکے اس کی عبادت کرنا اور اپنے خالق کو چھوڑنا بہت بڑی حماقت ہے اور بہت دور کی گمراہی ہے۔ جب مشرکین کو ان کی گمراہی پر متنبہ کیا گیا تو انہوں نے اپنی جہالت سے یہ نکتہ نکالا کہ ہمارا اصل مقصود تو اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرنا ہے۔ ہم ان چیزوں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کردیں گے ‘ گمراہی پر جمنے اور شرک پر باقی رہنے کے لئے شیطان نے مشرکین کو یہ نکتہ سمجھایا تاکہ مشرکین یوں سمجھتے رہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو بھی مانتے ہیں اور شرک کرنے سے اس لئے گناہگار نہیں کہ ان معبود ان باطلہ کو اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ہی پوجتے ہیں۔ حالانکہ سمجھداری کا تقاضا یہ ہے کہ جسے راضی کیا جائے اسے ان اعمال کے ذریعہ راضی کریں جن سے وہ راضی ہوتا ہو اور جن کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہو ‘ اللہ تعالیٰ شانہ ‘ شرک سے بیزار ہے اس نے اپنے رسولوں کے ذریعہ شرک سے منع فرمایا ہے اور اسے سب سے بڑی نافرمانی قرار دیا ہے اور جن لوگوں کے بارے میں مشرکین نے سفارشی ہونے کا عقیدہ بنایا ہے یہ عقیدہ انہوں نے اپنے پاس سے تجویز کیا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر عقیدہ اور ہر عمل اسی سے معلوم کرے جو اس کی کتابوں اور رسولوں کے واسطہ سے معلوم ہوگا ‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس کی مخلوق کو شریک بھی کردیا پھر ان کے بارے میں سفارشی ہونے کا عقیدہ بھی تراشا ‘ یہ سب سراسر گمراہی ہے۔ جن لوگوں نے باطل معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے یہاں سفارش کرنے والا مانا اور اپنے پاس سے اس عقیدہ کو تجویز کیا ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا (قُلْ اَتُنَبِّءُوْنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضْ ) (آپ فرما دیجئے کیا تم اللہ کو وہ بات بتا رہے ہو جسے وہ آسمانوں میں اور زمین میں نہیں جانتا) اللہ تعالیٰ نے تو تمہارے تجویز کردہ معبودوں کو سفارشی نہیں بنایا اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے اسے اس سب کا علم ہے اس کے علم میں تو ان چیزوں کا سفارشی ہونا نہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ یہ سفارشی ہیں۔ جو چیز اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے نہ زمین میں ہے اور جس کا وجود اس کے علم میں نہیں ہے تم اس کے وجود کے کیسے قائل ہوئے۔ کوئی چیز وجود میں ہو اور اسے اس کا علم نہ ہو یہ تو محال ہے تم محال کے پیچھے لگے ہو۔ مطلب یہ کہ تم جن لوگوں کو اللہ کے یہاں سفارشی مانتے ہو اللہ تعالیٰ نے تو ان کو سفارشی نہیں بنایا ان کے سفارشی ہونے کا عقیدہ تمہاری اپنی اپج اور اپنی تجویز ہے کسی عقیدہ کسی عمل کو خود سے تجویز کرلینا اور اسے اللہ کی رضا مندی کا سبب سمجھ لینا یہ جرم ہے اور گناہ ہے جو عذاب کا سبب ہے یہ چیز نجات دینے والی نہیں دوزخ میں داخل کرانے والی ہے۔ پھر فرمایا (سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) (وہ ذات پاک ہے اور اس سے برتر ہے جو وہ شرک کرتے ہیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31: یہ زجر ہے بطور شکویٰ اور توحید پر تیسری عقلی دلیل ہے۔ عقلِ سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ عبادت اور پکار صرف ایسی ذات کے لیے جائز ہے جس کے اختیار و تصرف میں مخلوق کا نفع ونقصان ہو اور ایسی ذات سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں۔ مشرکین جن کو نافع وضار سمجھ کر پکارتے ہیں وہ بالکل عاجز و بےبس ہیں۔ نفع و ضرر ان کے اختیار میں نہیں۔ لہذا ان کی عبادت و پکار بھی جائز نہیں۔ یہاں دعوائے سورت بھی ضمنًا مذکور ہے یعنی مشرکین اپنے معبودانِ باطلہ کو عنداللہ شفیعِ غالب سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ اختیار نہیں دیا۔ 32: یہ مشرکین کی طرف سے اپنے فعلِ شرک کے ارتکاب کے لیے معذرت ہے۔ یعنی ہم اللہ کے جن نیک اور برگزیدہ بندوں کو پکارتے ہیں انہیں مستقل بالذات نافع وضر یا متصرف ومختار نہیں سمجھتے بلکہ ان کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ چونکہ وہ اللہ کے محبوب اور پیارے ہیں اور اللہ سے ہمارے کام کرا دیتے ہیں اس لیے ہم ان کو پکارتے ہیں “ اي تشفع لنا عند اللہ فی اصلاح معاشنا فی الدنیا ” (قرطبی ج 8 ص 322) ۔ یعنی دنیا میں خوشحالی اور معاشی فارغ البالی ہمیں انہی معبودوں کی سفارش کے صدقے حاصل ہوتی ہے۔ سفارش سے دنیوی سفارش مراد ہے کیونکہ مشرکین آخرت کے قائل ہی نہ تھے۔ بعض کے نزدیک آخرت میں شفاعت مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر بفرضِ محال قیامت آگئی تو ہمارے معبود ہمیں اللہ کے عذاب سے چھڑا لیں گے جیسا کہ نضر بن حارث نے کہا تھا قیامت کے دن میرا معبود لات میری سفارش کرے گا۔ “ عن النضر بن الحارث اذا کان یوم القیامة یشفع لی اللات ” (ابو السعود ج 4 ص 806) ۔ مشرکین عرب اللہ کے جن برگزیدہ اور نیک بندوں کو پوجتے اور پکارتے تھے ان میں کچھ تو اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے اور کچھ اولیاء کرام۔ انہوں ان بزرگوں کے بت بنا کر عبادت خانوں میں نصب کر رکھے تھے اور بظاہر عبادت کا برتاؤ انہی بتوں سے کرتے تھے۔ انہی کے آگے سجدے کرتے۔ انہی کے سامنے نذریں نیازیں رکھتے۔ اور انہی کے روبرو کھڑے ہو کر اور گڑ گڑا کر حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے دعائیں کرتے مگر اس اس سے ان کا مقصد یہ تھا جب وہ ان انبیاء واولیاء (علیہم السلام) کے بتوں کی عبادت و تعظیم بجا لائیں تھے تو وہ اکابر ان سے خوش ہو کر خدا کے یہاں ان کی سفارش کرینگے۔ “ انھم وضعوا ھذه الاصنام علی صور انبیاء ھم واکابرھم وزعموا انھم متی اشتغلوا بعبادة ھذه التماثیل فان اولئک الاکابر یشفون لھم عند اللہ تعالیٰ ” (ابو السعود ج 4 ص 807) ۔ مشرکین کا بتوں سے برتاؤ بعینہ ایسا ہی تھا جیسا کہ آجکل کے قبر پرستوں کا قبروں سے ہے۔ آج کل بہت سے لوگ قبروں کی عبادت و تعظیم بجالاتے ہیں قبروں کو سجدے کرتے اور ان پر نذریں منتیں چڑھاتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصود قبروں کی عبادت و تعظیم نہیں ہوتا بلکہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس طرح قبروں والے ہم سے خوش ہو کر اللہ کے یہاں ہماری سفارش کرینگے۔ امام رازی نے مشرکین عرب اور اپنے زمانے (ساتویں صدی) کے مشرکین کے فعل کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ “ انھم وضعوا ھذه الاصنام والاوثان علی صور انبیائھم واکابرھم و زعموا انھم متی اشتغلوا بعبادة ھذه التماثیل فان اولئک الاکابر تکون شفاء لھم ونظیرہ فی ھذا الزمان اشتغال کثیر من الخلق بتعظیم قبور الاکابر علی اعتقاد انهم اذا عظموا قبورھم فانھم یکونون شفعاء لھم عند اللہ ” (کبیر ج 4 ص 819) ۔ امام ابو السعود حنفی اور امام رازی شافعی کے اقوال سے معلوم ہوا کہ یہ آیت پتھر کے بےجان ٹھاکروں کے بارے میں نہیں بلکہ انبیاء واولیاء اور ملائکہ (علیہم السلام) کے بارے میں ہے۔ 33: یہ مشرکین کے مذکورہ دعویٰ کا جواب ہے۔ یعنی زمین و آسمان میں اللہ کے یہاں کوئی شفیع غالب نہیں۔ اگر ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا اور کتب سابقہ میں اس بات کا ذکر ہوتا مگر تم (اے مشرکین عرب) اللہ تعالیٰ کو ایک ایسی بات بتانا چاہتے ہو جس کو وہ نہیں جانتا کیونکہ سرے سے اس کا وجود ہی نہیں۔ “ اَ تخبرون اللہ ان له شریکا فی ملکه او شفیعا بغیر اذنه والله لا یعلم لنفسه شفیعا فی السمٰوٰت والا فی الارض لانه لا شریک له فلذلک لا یعلمه ” (قرطبی ج 8 ص 322) ۔ “ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعَالیٰ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ”۔ ان شرکاء اور شفعاء سے پاک ہے جن کو وہ اللہ کے شریک اور اس کے یہاں سفارشی ٹھہراتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18 اور یہ مشرک اللہ کی عبادت اور توحید کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو کوئی نقصان پہونچا سکتی ہیں نہ ان کا کچھ بھلا کرسکتی ہیں اور یہ مشرک یوں کہتے ہیں کہ یہ معبود اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ تعالیٰ کو ایسی چیز سے آگاہ کرنا چاہتے ہو جس کے موجود ہونیکا علم نہ آسمانوں میں ہے نہ زمین میں۔ خدا تعالیٰ ان لوگوں کے شرک سے پاک اور بالاتر ہے۔ یعنی ان کی عبادت نہ کرو تو کچھ تمہارا بگاڑ نہ کرسکیں اور ان کی عبادت کرو تو کچھ فائدہ نہ پہونچا سکیں اور یہ سفارشی والی بات ایسی ہے کہ اول تو سفارشی کی عبادت لازم نہیں پھر اللہ تعالیٰ نے کسی کو مقرر نہیں کیا بلکہ اس کے امکان اور و قوع کا اللہ تعالیٰ کو علم نہیں تم اس کو بتانا چاہتے ہو تو ایسے شرک سے اللہ تعالیٰ پاک ہے جس کا یہ مشرک ارتکاب کرر ہے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جو مشرک ہے سو یہی کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور یہ شریک اسکی طرف سے ہم پر مختار ہیں سو فرمایا اگر اس نے مختار کئے ہوتے تو آپ ان سے کیوں منع کرتا اور جو کہیں ہمارے دین میں منع نہیں کیا تم کو منع کیا ہوگا تو اگلی آیت میں اس کا جواب ہے کہ دین اللہ کا ایک ہے جب لوگ بچل گئے پھر ان کو بتادیا ہے اعتقاد میں کچھ فرق نہیں اور جو کہیں اگر تم سچے ہو تو ہم پر دنیا میں عذاب آتا اور اس کا جواب بھی آگے ہے کہ فیصلے کا دن آتا ہے۔ 12