Surat Younus

Surah: 10

Verse: 29

سورة يونس

فَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اِنۡ کُنَّا عَنۡ عِبَادَتِکُمۡ لَغٰفِلِیۡنَ ﴿۲۹﴾

And sufficient is Allah as a witness between us and you that we were of your worship unaware."

سو ہمارے تمہارے درمیان اللہ کافی ہے گواہ کے طور پر کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"So sufficient is Allah as a witness between us and you that we indeed knew nothing of your worship of us." They say that we did not know or think that you were worshipping us. Allah is a Witness between us and you that we never called upon you to worship us. We never ordered you to worship us; neither did we accept your worship of us. Allah said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 یہ انکار کی وجہ ہے کہ ہمیں تو کچھ پتہ ہی نہیں، تم کیا کچھ کرتے تھے اور ہم جھوٹ بول رہے ہوں تو ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور وہ کافی ہے، اس کی گواہی کے بعد کسی اور ثبوت کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی، یہ آیت اس بات پر صحیح ہے کہ مشرکین جن کو مدد کے لئے پکارتے تھے، بلکہ وہ عقل و شعور رکھنے والے افراد ہی ہوتے تھے جن کے مرنے کے بعد لوگ ان کے مجسمے اور بت بنا کر پوجنا شروع کردیتے تھے۔ جس طرح کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے طرز عمل سے ثابت ہے جس کی تصریح صحیح بخاری میں موجود ہے۔ دوسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد، انسان کتنا بھی نیک ہو، حتیٰ کہ نبی و رسول ہو۔ اسے دنیا کے حالات کا علم نہیں ہوتا، اس کے ماننے والے اور عقیدت مند اسے مدد کے لئے پکارتے ہیں اس کے نام کی نذر نیاز دیتے ہیں، اس کی قبر پر میلے ٹھیلے کا انتظام کرتے ہیں، لیکن وہ بیخبر ہوتا ہے اور ان تمام چیزوں کا انکار ایسے لوگ قیامت والے دن کریں گے۔ یہی بات سورة احقاف آیت 5، 6 میں بھی بیان کی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَكَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًۢا ۔۔ : یہ الفاظ قسم کے معنی میں بھی آتے ہیں۔ ” اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ “ میں ” اِنْ كُنَّا “ دراصل ” اِنَّا کُنَّا “ تھا، ” غَافِلِیْنَ “ پر لام کا آنا اس بات کی دلیل ہے، اس لیے اس ” اِنْ كُنَّا “ کا معنی ” اِنَّا کُنَّا “ کیا ہے، یعنی یہاں ” إِنَّ “ کا ایک نون اور جمع متکلم کی ضمیر ” نَا “ دونوں مقدر ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ۝ ٢٩ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩) پھر ان کے معبود کہیں گے سو ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے کہ ہمیں تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی اور ہم سے بیخبر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (فَکَفٰی باللّٰہِ شَہِیْدًام بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغٰفِلِیْنَ ( یعنی اگر تم ہماری پوجا کرتے بھی رہے ہو تو ہمیں بالکل اس کی خبر نہیں ‘ ہم پر اس کا کچھ الزام نہیں۔ ہم تمہارے اس گھناؤنے فعل سے بالکل بری ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37. This shows how the false gods will react to their worshippers. Angels who had been declared gods and goddesses and therefore, worshipped, the jinn, the spirits, the forefathers of yore, the Prophets, and the saints and martyrs who were considered to share with God some of His attributes, will all disavow their devotees. They will tell the latter in quite plain terms that they were not even aware that they were being worshipped; that even if they had been prayed to, called upon or cried out to, or had had offerings or sacrifices made in their name, or who had had reverence, adoration, prostration, rituals or ceremonies performed out of devotion for them, none of these had ever reached them.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٩۔ ٣٠۔ اس سے پہلے کی آیت میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ حشر کے میدان میں مشرک اور ان کے معبود ایک جگہ کھڑے کئے جائیں گے اور اللہ پاک یہ ارشاد فرمائے گا کہ تم یہیں کھڑے رہو تم سے سوال کیا جائے گا اور مشرک دنیا میں جن جن کی عبادت کرتے تھے وہ معبود ان سے بیزار ہو کر کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے اپنی خواہش کو پوجتے تھے اور انکار کریں گے کہ ہم نے کبھی تمہیں اپنی مورتوں کی پوجا کرنے کو نہیں کہا تھا اور ہمیں اس کی خبر بھی نہیں کہ تم ہم کو پوجتے تھے اگر ہم تمہاری عبادت سے رضا مند تھے یا ذرا بھی ہمیں اس کی خبر تھی تو خدا بھی جانتا ہوگا تفسیر ابن مردویہ میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود ہیں ان سب کی ایک ایک شبیہ بن کر مشرکوں کے سامنے آئے گی اور یہ اس شبیہ کے پیچھے ہوں گے یہاں تک کہ وہ انہیں دوزخ تک پہنچا دے گی پھر یہ آیت پڑہی ١ ؎ { ھنالک تبلوا } معتبر سند سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی یہ روایت طبرانی اور مستدرک حاکم میں بھی ہے۔ ٢ ؎ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ جن بتوں کی پوجا کرتے تھے قوم نوح میں یہ نیک لوگ تھے ان نیک لوگوں کے مرجانے کے بعد قوم نوح میں جو لوگ ان نیکوں کے معتقد تھے شیطان کے بہکانے سے انہوں نے ان نیک لوگوں کی مورتیں بنالیں اور رفتہ رفتہ ان مورتوں کی پوجا ہونے لگی ٣ ؎ اور آخر کو عمر و بن لحی ان ہی مورتوں کو جدہ سے مکہ میں لے آیا اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ وہ نیک ان مشرکوں کی پوجا سے بالکل بیخبر ہیں اسی لئے حشر کے دن وہ اپنی بیخبر ی پر اللہ کو گواہ قرار دیویں گے اسی واسطے آخر کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی گواہی کے بعد اس دن ان مشرکوں کو سب حال کھل جاوے گا کہ ان کی پوجا اور جھوٹے معبودوں سے شفاعت کی توقع یہ سب باتیں غلط تھیں۔ ١ ؎ تفسیر فتح البیان ص ٣٥١ ج ٢۔ ٢ ؎ الترغیب والترغیب ص ٢٩٦ فصل فی الحشر و مجمع الزوائد ص ٣٤٠ ج ١٠ باب جامع فی البعث۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٧٣٢ ج ٢ تفسیر سورة نوح۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:29) ان۔ ان سے مخفف ہے اور لغافلین میں لام ان مخففہ اور نافیہ میں فرق کے لئے آیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ جتنے مشرک ہیں وہ درحقیقت اپنے خیال اور وہم شیطان کی پرستش کرتے ہیں گونام نیک لوگوں کا لیتے ہیں۔ قیامت کے دن معلوم ہوگا کہ وہ نیک لوگ ان سے کس قدر بیزار ہوں گے۔ (از موضح) ۔ اس سے ثابت ہوا کہ قیامت کے دن ان معبودوں کا یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ تم ہماری پرستش کرتے تھے اور چونکہ ان کے ظاہری معبود بےحس بت تھے اس لئے ان کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ ہم تمہاری عبادت بالکل بیخبر تھے۔ پس ان دونوں جملوں میں تعارض یا تضاد نہیں ہے۔ (کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اگر کسی کو شبہہ ہوگیا کہ کیا بت بھی بولیں گے تو جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی محال نہیں۔ 2۔ ان کا غافل ہونا ان کی عبادت سے ظاہر ہے اس واسطے کہ بتوں کو ایسا شعور ظاہر ہے اس کہ یہاں نہیں ہے اور اگر معبودین مثل ملائکہ وغیرہم کو بھی عام لیا جائے تو بھی غافل ہونا صحیح ہے کیونکہ علم ملائکہ وغیرہم کا محیط نہیں ہے اور سب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن معبودان باطل سے سوال کرنا اور ان کا جواب : (وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللَّہِ فَیَقُوْلُ أَأَنْتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہٰؤُلَاءِ أَمْ ہُمْ ضَلُّوْا السَّبِیْلَ ۔ قَالُوْا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنْبَغِیْ لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُوْنِکَ مِنْ أَوْلِیَآءَ وَلَکِنْ مَتَّعْتَہُمْ وَاٰبَآءَ ہُمْ حَتّٰی نَسُوْا الذِّکْرَ وَکَانُوْا قَوْمًا بُوْرًا )[ الفرقان : ١٧۔ ١٨] ” اور جس دن اللہ انہیں اور جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے اکٹھا کرے گا تو ان سے سوال کرے گا کیا تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا یا خود ہی وہ راہ راست سے بھٹک گئے تھے وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے لائق نہیں تھا کہ ہم تیرے سوا کسی کو کارساز بناتے تو نے انہیں اور ان کے آباء کو فوائد عطا فرمائے یہاں تک کہ وہ تیری یاد کو بھول گئے یہ تھے ہی ہلاک ہونے کے قابل۔ “ معبودوں کی دوسری قسم : دوسرے وہ لوگ ہوں گے جو ولایت کے پردے اور بزرگی کے لبادے میں شرک کی تلقین کرتے تھے یا انہوں نے زندگی میں ایسا انداز اختیار کیا جس سے شرک و بدعت کے دروازے کھلے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے انکار کریں گے۔ لیکن انہیں ان کے مریدوں کے ساتھ جہنم رسید کیا جائے گا۔ تیسرے بےجان معبود جیسے پتھر وغیرہ کے بت انہیں بھی جہنم میں جلایا جائے گا۔ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پتھروں کو نطق کی طاقت دے گا یہ بول کر کہیں گے کہ ہم تو بےحس اور بےجان تھے تم ہماری نہیں بلکہ شیطان کی عبادت کرتے تھے۔ اس طرح ہر شخص اپنے کیے کو جان لے گا۔ ان کا معاملہ ان کے معبودوں کے حوالے ہونے کی بجائے مالک حقیقی کے سپرد ہوگا یعنی اللہ کے سوا کوئی بھی ان کی مدد نہیں کرسکے گا۔ جو دنیا میں ایک دوسرے کو جھوٹی تسلیاں دیتے تھے اور اللہ کے سوا جن کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے سب کچھ بھول جائیں گے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن اللہ سب کو جمع فرمائے گا۔ ٢۔ مشرکوں کو اپنی جگہ پر ٹھہرے رہنے کا حکم دیا جائے گا۔ ٣۔ مشرک اور ان کے معبودوں کے درمیان پھوٹ پڑجائے گی۔ ٤۔ معبودان اپنی عبادت کا انکار کردیں گے۔ ٥۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کا پتہ چل جائے گا۔ ٦۔ قیامت کے دن ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ ٧۔ قیامت کے دن معبودان باطل غائب ہوجائیں گے۔ تفسیر با لقرآن جہنمیوں کا اپنے معبودوں سے بحث و تکرار : ١۔ قیامت کے دن معبودان باطل اپنی عبادت کا انکار کردیں گے۔ (یونس : ٢٨) ٢۔ قیامت کے دن مشرک اپنے شرکاء کو دیکھ کر کہیں گے کہ ہم ان کی عبادت کرتے تھے اور معبود انکار کردیں گے۔ (النحل : ٨٦) ٣۔ قیامت کے دن مشرک اپنے معبودان کو دیکھ کر کہیں گے ہمیں یہ گمراہ کرنے والے تھے۔ (القصص : ٦٣) ٤۔ قیامت کے دن پیر اپنے مریدوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ : ١٦٦) ٥۔ اس دن اللہ مشرکوں سے فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں وہ کہیں گے ہم میں سے کوئی اس کا دعویدار نہیں۔ (حٰم السجدۃ : ٤٧) ٦۔ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جائیگا اپنے معبودوں کو پکارو لیکن ان کے معبود ان کی پکار کا کوئی جواب نہیں دیں گے۔ (الکھف : ٥٢) ٧۔ جہنم میں داخل ہونے والے اپنے سے پہلوں کو دیکھ کر کہیں گے۔ ہمیں گمراہ کرنے والے یہی لوگ تھے انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف : ٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

29 اب ہمارے تمہارے درمیان بس خدا ہی شاہد ہے کہ ہم واقعی تمہاری پرستش اور تمہاری پوجا سے بالکل باخبر تھے۔ اس تفریق اور تزئیل کا یہ اثر ہوگا کہ آپس میں جھگڑا شروع ہوجائے گا اور یہ واقعہ بھی ہے کہ مشرکین کو شیاطین بہکاتے ہیں اور وہ مشرک ان کے کہنے پر عمل کرتے ہیں تو درحقیقت شیاطین کی پوجا کیا کرتے ہیں ورنہ جن کا نام لیتے ہیں ان کو کیا خبر ؟ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جنتے مشرک ہیں اپنے خیال کو پوجتے ہیں یا شیطان کو اور نام لیتے ہیں نیکوں کا ۔ اس کام سے بیزار ہیں آخرت میں معلو ہوگا 12