Surat Younus

Surah: 10

Verse: 3

سورة يونس

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾

Indeed, your Lord is Allah , who created the heavens and the earth in six days and then established Himself above the Throne, arranging the matter [of His creation]. There is no intercessor except after His permission. That is Allah , your Lord, so worship Him. Then will you not remember?

بلا شبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کر دیا پھر عرش پرقائم ہوا وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah is the Creator Who arranges the Affairs of the Universe Allah says; إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ... "Surely, your Lord is Allah Who created the heavens and the earth in six Days, Allah tells us that He is the Lord of the entire existence. He tells us that He created the heavens and the earth in six days. It was said: "Like these days (meaning our worldly days)." It was also said: "Every day is like a thousand years of what we reckon." Later, this will be discussed further. ... ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ... and then rose over (Istawa) the Throne." The Throne is the greatest of the creatures and is like a ceiling for them. Allah's statement: ... يُدَبِّرُ الاَمْرَ ... arranging the affair (of all things). means that He controls the affairs of the creatures. لااَ يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِى السَّمَـوَتِ وَلااَ فِى الااٌّرْضِ Not even the weight of a speck of dust escapes His Knowledge in the heavens or in the earth. (34:3) No affair distract' Him from other affairs. No matter troubles Him. The persistent requests of His creatures do not annoy Him. He governs big things as He governs small things everywhere, on the mountains, in the oceans, in populated areas, or in wastelands. وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الاٌّرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا And no moving creature is there on earth but its provision is due from Allah. (11:6) وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِى ظُلُمَـتِ الاٌّرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِى كِتَـبٍ مُّبِينٍ Not a leaf falls, but He knows it. There is not a grain in the darkness of the earth nor anything fresh or dry, but is written in a Clear Record. (6:59) Ad-Darawardi narrated from Sa`d bin Ishaq bin Ka`b bin Ujrah that he said: "When this Ayah was revealed, إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ (Surely, your Lord is Allah Who created the heavens and the earth), they met a great caravan whom they thought should be Arabs. They said to them: `Who are you?' They replied: `We are Jinns. We left Al-Madinah because of this Ayah."' This was recorded by Ibn Abi Hatim. Allah said: ... مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ... No intercessor (can plead with Him) except after He permits. This is similar to what is in the following Ayat: مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ Who is he that can intercede with Him except with His permission. (2:255) and, وَكَمْ مِّن مَّلَكٍ فِى السَّمَـوَتِ لاَ تُغْنِى شَفَـعَتُهُمْ شَيْياً إِلاَّ مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَأءُ وَيَرْضَى And there are many angels in the heavens, whose intercession will avail nothing except after Allah has given leave for whom He wills and is pleased with. (53:26) and; وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَـعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ Intercession with Him profits not except for him whom He permits. (34:23) Allah then said: ... ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَفَلَ تَذَكَّرُونَ That is Allah, your Lord; so worship Him (alone). Then, will you not remember! meaning worship Him alone with no partners. أَفَلَ تَذَكَّرُونَ (Then will you not remember), meaning "O idolators, you worship gods with Allah while you know that He alone is the Creator," as He said: وَلَيِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ And if you ask them who created them, they will surely say: "Allah." (43:87) قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَـوَتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَ تَتَّقُونَ "Say: "Who is (the) Lord of the seven heavens, and (the) Lord of the Great Throne They will say: "Allah." Say: "Will you not then have Taqwa." (23:86-87) Similar is mentioned in the Ayah before this Ayah and after it.

تخلیق کائنات کی قرآنی روداد تمام عالم کا رب وہی ہے ۔ آسمان و زمین کو صرف چھ دن میں پیدا کر دیا ہے ۔ یا تو ایسے ہی معمولی دن یا ہر دن یہاں کی گنتی سے ایک ہزار دن کے برابر کا ۔ پھر عرش پر وہ مستوی ہو گیا ۔ جو سب سے بڑی مخلوق ہے اور ساری مخلوق کی چھت ہے ۔ جو سرخ یاقوت کا ہے ۔ جو نور سے پیدا شدہ ہے ۔ یہ قول غریب ہے ۔ وہی تمام مخلوق کا انتظام کرتا ہے اس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ۔ اسے کوئی کام مشغول نہیں کر لیتا ۔ وہ سوالات سے اکتا نہیں سکتا ۔ مانگنے والوں کی پکار اسے حیران نہیں کر سکتی ۔ ہر چھوٹے بڑے کا ، ہر کھلے چھپے کا ، ہر ظاہر باہر کا ، پہاڑوں میں سمندروں میں ، آبادیوں میں ، ویرانوں میں وہی بندوبست کر رہا ہے ۔ ہر جاندار کا روزی رساں وہی ہے ۔ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے ، زمین کے اندھیروں کے دانوں کی اس کو خبر ہے ، ہر تر و خشک چیز کھلی کتاب میں موجود ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے وقت لشکر کا لشکر مثل عربوں کے جاتا دیکھا گیا ۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم جنات ہیں ۔ ہمیں مدینے سے ان آیتوں نے نکالا ہے ۔ کوئی نہیں جو اس کی اجازت بغیر سفارش کر سکے ۔ آسمان کے فرشتے بھی اس کی اجازت کے بغیر زبان نہیں کھولتے ۔ اسی کو شفاعت نفع دیتی ہے جس کے لیے اجازت ہو ۔ یہی اللہ تم سب مخلوق کا پالنہار ہے ۔ تم اسی کی عبادت میں لگے رہو ۔ اسے واحد اور لاشریک مانو ۔ مشرکو! اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے؟ جو اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہو حالانکہ جانتے ہو کہ خالق مالک وہی اکیلا ہے ۔ اس کے وہ خود قائل تھے ۔ زمین آسمان اور عرش عظیم کا رب اسی کو مانتے تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اس کی وضاحت کے لئے دیکھئے سورة اعراف آیت 54 کا حاشیہ۔ 3۔ 2 یعنی آسمان و زمین کی تخلیق کرکے اس نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ساری کائنات کا نظم و تدبیر وہ اس طرح کر رہا ہے کہ کبھی کسی کا آپس میں تصادم نہیں ہوا، ہر چیز اس کے حکم پر اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔ 3۔ 3 مشرکین و کفار، جو اصل ' مخاطب تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ یہ بت، جن کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے چھڑوائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور یہ اجازت بھی صرف انہی لوگوں کے لئے ہوگی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔ 3۔ 4 یعنی ایسا اللہ، جو کائنات کا خالق بھی ہے اس کا مدبر و منتطم بھی علاوہ ازیں تمام اختیارات کا بھی کلی طرح پر وہی مالک ہے، وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] عبادت کا مستحق صرف وہ ہے جو پروردگار ہو :۔ اس آیت سے ربوبیت کے دلائل اور ان کے نتائج کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارض و سماوات کو چھ ایام (ادوار) میں پیدا کیا یعنی یہ کائنات از خود ہی وجود میں نہیں آگئی جیسا کہ دہریوں کا خیال ہے پھر عرش پر قرار پکڑا (تشریح کے لیے دیکھئے سورة اعراف کی آیت نمبر ٥٤) پھر وہ کائنات کو پیدا کرکے بیٹھ نہیں گیا جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا خیال ہے۔ بلکہ اس کا پورا انتظام چلارہا ہے۔ شمس و قمر اور ستارے سب اسی کے حکم کے مطابق گردش کر رہے ہیں اس کا رعب و داب اور اس کا تصرف اتنا زیادہ ہے کہ کوئی اس کے سامنے کسی دوسرے کی سفارش بھی کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا الا یہ کہ وہ خود ہی کسی کو سفارش کی اجازت دے لہذا ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اسی بااختیار اور مقتدر ہستی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، کیونکہ وہی تمہارا پروردگار ہے۔ رب اور عبادت دونوں الفاظ بڑے وسیع معنی رکھتے ہیں جو سورة فاتحہ میں بتلائے جاچکے ہیں۔ یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ اللہ کو فی الواقع رب تسلیم کرلینے کا نتیجہ ہی یہ نکلتا ہے کہ عبادت کی تمام اقسام صرف اسی کے لیے مختص کردی جائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ ۔۔ : نبوت کے اثبات کے بعد توحید و قیامت کے دلائل شروع ہوتے ہیں۔ توحید کی پہلی اور اظہر من الشمس دلیل جو قرآن بار بار بیان کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا آسمان و زمین اور ہر چیز کا خالق ومالک، رب اور مدبر ہونا ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢١، ٢٢) یہ بات مکہ کے مشرک بھی مانتے تھے۔ دیکھیے سورة مومنون (٨٤ تا ٨٩) جب رب وہی ہے تو عبادت کسی اور کی کیوں کی جائے۔ اس آیت میں اور دوسرے بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور دوسری صفات کو اس کے واحد معبود برحق ہونے کی دلیل بنایا ہے۔ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ : اس آیت میں دہر یہ کا بھی رد ہے جو رب تعالیٰ کے وجود ہی کے منکر ہیں، جب معمولی سے معمولی چیز بنانے والے کے بغیر نہیں بنتی تو سمجھ لو کہ اتنی بڑی کائنات اور اس کا عظیم الشان نظام، جس میں کوئی حادثہ یا تصادم نہیں، اسے بنانے والا تمہارا رب ہی ہے۔ چھ دنوں سے مراد یا تو وہ دن ہیں جن میں سے ایک دن ہمارے ہزار سال کے برابر ہے، فرمایا : (وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) [ الحج : ٤٧ ] ” اور بیشک ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار سال کے برابر ہے، اس گنتی سے جو تم شمار کرتے ہو۔ “ یا ہمارے چھ دنوں کے برابر مدت مراد ہے، کیونکہ یہ دن رات تو سورج کی پیدائش کے بعد وجود میں آئے۔ (واللہ اعلم) اس سے اللہ تعالیٰ کی حکمت تدریج بھی ظاہر ہو رہی ہے، کیونکہ وہ چاہتا تو سب کچھ ایک لمحے میں ” کُنْ “ کہہ کر پیدا فرما لیتا، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ زمین و آسمان کو مرحلہ وار پیدا فرمائے۔ اس میں ہمارے لیے بھی ہر کام آرام و اطمینان کے ساتھ کرنے کا سبق ہے۔ کائنات کی اکثر اشیاء پر غور کریں تو وہ چھ مرحلوں سے گزر کر مکمل ہوئی ہیں، مثلاً انسان کی پیدائش کے لیے دیکھیے سورة مومنون (١٢ تا ١٤) ۔ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ۔۔ : پھر عر ش پر بلند ہوا اور وہاں رہ کر اسے کائنات کی تدبیر کا مرکز بنایا۔ نیز دیکھیے سورة اعراف (٥٤) ” يُدَبِّرُ الْاَمْرَ “ سے معلوم ہوا کہ پیدا کرنے کے بعد اس کا سارا اختیار اور تدبیر و انتظام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ مشرکین نے اختیار کچھ اور ہستیوں کے پاس سمجھ لیا، بھلا پیدا کرنے کے بعد اپنی ملکیت و اختیار کسی دوسرے کو کون دیتا ہے، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ملکیت و اختیار بےبس مخلوق کو دے دے جو اپنا آپ نہیں سنبھال سکتی، حقیقت یہی ہے کہ مشرک سے بڑھ کر بےعقل کوئی نہیں ہوسکتا۔ دیکھیے سورة روم (٢٨) ۔ مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ : کفار اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا خیال تھا اور ہے کہ کچھ ہستیاں ایسی ہیں جو مالک تو نہیں، مگر وہ اللہ تعالیٰ سے جو چاہیں کروا سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ان کی محبت کے ہاتھوں یا ان کی غیبی قوت سے مجبور ہو کر ان کی بات اور سفارش ماننا پڑتی ہے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے بجائے ان سے التجائیں کرتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صاف نفی فرما دی۔ ہاں، خود اللہ تعالیٰ کسی کو عزت بخشنے کے لیے اسے سفارش کی اجازت دے دے تو وہ سفارش کرسکے گا، مگر صرف اس کے لیے جس کے حق میں اجازت ملے گی۔ اس میں اس کا اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہوگا۔ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کرسکے گا قرآن مجید کی متعدد آیات میں بیان ہوا ہے، مثلاً دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٥) ، طہ (١٠٩) ، سبا (٢٣) اور نجم (٢٦) بعض مقامات پر اللہ تعالیٰ نے سرے سے شفاعت ہی کی نفی کی ہے، جیسے فرمایا : (؀ۭفَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ ) [ المدثر : ٤٨ ] ” پس انھیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی۔ “ اور فرمایا : (وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ) [ البقرۃ : ٤٨، ١٢٣] ” اور کسی جان سے کوئی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔ “ وہاں یا تو کفار کا ذکر ہے کہ ان کی سفارش فائدہ نہیں دے گی، یا اجازت کے بغیر سفارش مراد ہے، ورنہ امت کے گناہ گاروں کے حق میں شفاعت تو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور یہ بھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ ” اِلَّا بِاِذْنِہٖ “ والی آیات سے بھی یہ شفاعت ثابت ہو رہی ہے، مگر یہ شفاعت اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی ہوگی۔ فَاعْبٗدٗوْہ : عبادت کا معنی ” پوجا کرنا “ بھی ہے اور پوری زندگی ” عبد “ یعنی اس کا فرماں بردار غلام (بندہ) بن کر گزارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے اور حاجت روائی کے لیے کسی غیبی قوت کے پکارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے ہر قسم کی عبادت کو اللہ کے ساتھ خاص کیا ہے، پس ” فَاعْبٗدٗوْہ “ کے معنی ہیں اسی کی پوجا کرو، اسی کو مشکلات دور کرنے کے لیے پکارو اور پوری زندگی اسی کی بندگی (غلامی) میں بسر کرو۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اگر تم کسی اور کی بندگی اختیار کرو گے تو گویا اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک ٹھہراؤ گے۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : یہ اصل میں ” تَتَذَکَّرُوْنَ “ تھا، یہاں فکر کے بجائے ذکر کی دعوت دی ہے۔ ذکر یاد کرنے کو کہتے ہیں، نصیحت کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مقصد ہے کہ اللہ واحد ہی کو عبادت کے لائق سمجھنے کے لیے لمبی چوڑی فکر اور سوچ کی ضرورت نہیں، جو کچھ تمہارے گردوپیش ہے اور جو کچھ تمہارے ذہن میں موجود ہے اسی کو یاد کرو، نصیحت کے لیے وہی کافی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the third verse, the Oneness of Allah (Tauhid) has been proved through the undeniable reality that there is no associate or partner to Allah Ta` ala when it comes to the creation of the heavens and the earth and then to the management and operation of this entire univer¬sal system. When this reality stands established, how could someone else be made an associate or partner in His pristine Divinity or in wor¬ship for Him and in obedience to Him? In fact, doing so is the highest conceivable injustice. It was said in this verse that Allah Ta&ala has created the heavens and the earth in six days. But, the day as we know it denotes the time from sunrise to sunset - and it is obvious that the sun did not exist be-fore the creation of the heavens, earth and stars. How then could sunrise and sunset be calculated? Therefore, intended here is the measure of time utilized in between sunrise and sunset. Making this huge world composed of the heavens, the Earth, the planets and the universe as a whole, ready and functional (a virtual turn-key job, so to say), can only be attributed to the Being who is the purest of the pure and exercises power that is absolute. When He in-tends to create, He needs no raw materials in advance or any staff to assist. Such is the station and degree of His perfect power that He, as and when He intends to create what He wills, creates instantly, with-out any raw materials or personnel or technical support. The time duration of these six days has only been chosen in consideration of His particular wisdom. Otherwise, it was also within His power that He could have created the heavens and the Earth and what it contained in a single instant. After that it was said: ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ (then He took a straight posi¬tion on the Throne). That which stands proved from the Qur&an, and Hadith is that the Arsh عَرش (Throne) of the Rahman رَحمٰن (the All-Merciful Al¬lah) is some created object which encompasses the entire heavens and the Earth and the whole universe thereof. Thus, seen conversely, all that there is fits into the room inside it. Knowing anymore about its reality is beyond any human effort. No doubt, scientific knowledge in our time is at its zenith. Man is getting ready to reach planets compar¬atively nearer with mixed measures of success. However, scientists still confess that the distant planets are so far away from us that information about these through available instrumentation cannot be relied upon as a mirror of reality. Then, there are stars in the firma¬ment even light from where has not yet reached our Earth - even though, as we know, the speed of light is 1, 86, 000 miles per second. When this is the graph of human limitations in scaling planets and stars, how could human efforts to find out what we know as the heavens farther and higher from stars and planets be taken as credible (or even reasonable). And finally, what is believed to be the ` Arsh of the Rahman - encompassing all there is, even above what is termed as the seventh heaven - is a reality seeking access to which through technical ingenuity needs no comment. So, up to this point, the third verse has told us that Allah Ta` ala created the heavens and the earth and the whole system of the uni¬verse in six days, and ` after that He took a position on the Throne&. (The last sentence is a word arrangement in English for the words of the text: ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ [ thumma &s-tawa ala &l-&arsh ] which should be understood in the light of the comments appearing below). This is certain, and evident enough that Allah, the high and the true, is above and beyond the human concepts of body and mass and of all attributes and characteristics they may have. Neither does His ex¬istence relate to any direction or form, nor is His stay in a place like the staying of the things of the world where they belong. Now then, how are we to explain the nature, mode or manner of His staying, es¬tablishing or positioning on the ` Arsh or Throne? This can be explained only by saying that these are from what is called ` mutashabihat& (statements of hidden meaning) in the terminology of Qur&an, a phe¬nomena that cannot be comprehended by human reason. Therefore, about it, says the Qur&an: وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّ‌اسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ (no one knows its interpretation except Allah. And those [ who are ] well-grounded in knowledge say: |"We believe therein; - 3: 7) - and just do not bother to go digging out its reality. Therefore, there is a standard approach in all such matters where the attribution of Allah Ta` ala has been made to a place or form, or where words, such as hand, face and shank, have appeared in the Qur&an for Allah Ta` ala. The ` Aqidah (belief) of the majority of the ` Ulama of the Muslim Ummah is that one believes these words to be true in their place, and believes what Allah Ta` ala means by them is correct, and believes that the concern to know about its nature and reality should be set aside as being beyond one&s ability to comprehend it. As for the later day ` Ulama who have suggested some meanings to these things, they have done it only in a degree of probability, even in their own sight. They simply suggest - perhaps, it may mean this. They never say that the meanings they have given are certain. As obvious, probabilities disclose no reality. Therefore, the only simple and straight creed (maslak مَسلَک) is that of the Sababah (Companions), the Tabi` in (Successors to Companions) and the Salaf (the righteous and worthy forebears and elders of the Faith). They were satisfied to live with the approach of entrusting the reality of such matters with Di-vine Knowledge. This brings us to the next statement: يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ (He manages all mat¬ters). It means that, positioned on the Throne, He Himself manages all universes by virtue of His power. Then, comes the succeeding sen¬tence: مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ translated as: ` There is no intercessor except after His permission.& It tells us that such is the majesty of Allah Ta&ala that even a Prophet and Messenger cannot intercede on behalf of anyone, on their own, before Him - unless Allah Ta` ala Himself grants them the permission to intercede, without which even they could not do that.

تیسری آیت میں توحید کو اس ناقابل انکار حقیقت کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہے کہ آسمان اور زمین کو پیدا کرنے میں اور پھر پورے عالم کے کاموں کی تدبیر کرنے اور چلانے میں جب اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں تو پھر عبادت و اطاعت میں کوئی دوسرا کیسے شریک ہوسکتا ہے، بلکہ کسی دوسرے کو اس میں شریک کرنا بڑی بےانصافی اور ظلم عظیم ہے۔ اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا ہے، لیکن ہمارے عرف میں دن اس وقت کو کہا جاتا ہے جو آفتاب کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک ہوتا ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ آسمان و زمین اور ستاروں کے پیدا ہونے سے پہلے آفتاب ہی کا وجود نہیں تو طلوع، غروب کا حساب کیسے ہو اس لئے مراد یہاں وہ مقدار وقت ہے جو آفتاب کے طلوع و غروب کے درمیان اس جہان میں ہونے والی تھی۔ چھ دن کے تھوڑے سے وقت میں اتنے بڑے جہان کو جو آسمانوں اور زمین اور سیارات اور تمام کائنات عالم پر مشتمل ہے، بنا کر تیار کردینا اسی ذات قدوس کا مقام ہے جو قادر مطلق ہے اس کی تخلیق کے لئے نہ پہلے سے خام اجناس کا موجود ہونا ضروری ہے اور نہ بنانے کے لئے کسی عملہ اور خدام کی ضرورت ہے بلکہ اس کی قدرت کاملہ کا یہ مقام ہے کہ جب وہ کسی چیز کو پیدا فرمانا چاہیں تو بغیر کسی سامان اور کسی کی امداد کے ایک آن میں پیدا فرما دیں، یہ چھ دن کی مہلت بھی خاص حکمت و مصلحت کی بناء پر اختیار کی گئی ہے ورنہ ان کی قدرت میں یہ بھی تھا کہ تمام آسمان و زمین اور اس کی کائنات کو ایک آن میں پیدا فرما دیتے۔ اس کے بعد فرمایا (آیت) ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ، یعنی پھر قائم ہوا عرش پر۔ اتنی بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ عرش رحمن کوئی ایسی مخلوق ہے جو تمام آسمانوں اور زمین اور تمام کائنات عالم پر محیط ہے سارا جہاں اس کے اندر سمایا ہوا ہے، اس سے زائد اس کی حقیقت کا معلوم کرنا انسان کے بس کی بات نہیں، جو انسان اپنی سائنس کی انتہائی ترقی کے زمانہ میں بھی صرف نیچے کے سیاروں تک پہنچنے کی تیاری میں ہے اور وہ بھی ابھی نصیب نہیں اور اس کا یہ اقرار ہے کہ اوپر کے سیارے ہم سے اتنے دور ہیں کہ آلات رصدیہ کے ذریعہ بھی ان کی معلومات تخمینہ اور اندازہ سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور بہت سے ستارے ایسے بھی ہیں جن کی شعاعیں ابھی تک زمین پر نہیں پہنچیں، حالانکہ شعاع نوری کی حرکت ایک منٹ میں لاکھوں میل بتائی جاتی ہے، جب سیاروں اور ستاروں تک انسان کی رسائی کا یہ حال ہے تو آسمان جو ان سب ستاروں اور سیاروں سے اوپر ہے اس کا یہ مسکین انسان کیا حال معلوم کرسکتا ہے، اور پھر جو ساتوں آسمانوں سے بھی اوپر اور سب پر حاوی اور محیط عرش رحمن ہے اس کی حقیقت تک انسان کی رسائی معلوم ! آیت مذکورہ سے اتنا معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ نے چھ دن میں آسمان و زمین اور تمام کائنات بنائی اور اس کے بعد عرش پر قیام فرمایا۔ یہ یقینی اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ جسم اور جسمانیت اور اس کی تمام صفات و خصوصیات سے بالا و برتر ہے نہ اس کا وجود کسی خاص سمت اور جہت سے تعلق رکھتا ہے نہ اس کا کسی مکان میں قیام اس طرح کا ہے جس طرح دنیا کی چیزوں کا قیام اپنی اپنی جگہ میں ہوتا ہے، پھر عرش پر قیام فرمانا کس طرح اور کس کیفیت کے ساتھ ہے، یہ ان متشابہات میں سے ہے جن کو انسان کی عقل و فہم نہیں پاسکتی اسی لئے قرآن حکیم کا ارشاد ان کے بارے میں یہ ہے کہ (آیت) وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ، یعنی ان کے سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، اور مضبوط اور صحیح علم والے اس پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں مگر اس کی حقیقت جاننے کی فکر میں نہیں پڑتے، اس لئے اس قسم کے تمام معاملات میں جن میں حق تعالیٰ کی نسبت کسی مکان یا جہت کی طرف کی گئی ہے یا جن میں حق تعالیٰ کے لئے اعضاء ید، وجہ ساق وغیرہ کے الفاظ قرآن میں وارد ہوئے، عقیدہ جمہور علمائے امت کا یہ ہے کہ اس بات پر ایمان لایا جائے کہ یہ کلمات اپنی جگہ پر حق جاننے کی فکر کو اپنی عقل سے بالاتر ہونے کی بناء پر چھوڑ دیا جائے۔ نہ ہر جائے مرکب تو ان تاختن کہ جاہا سپر باید انداختن اور جن متاخرین علماء نے ان چیزوں کے کوئی معنی بیان فرمائے ہیں ان کے نزدیک بھی وہ محض ایک احتمال کے درجہ میں ہیں کہ شاید یہ معنی ہوں، اس معنی کو یقینی وہ نہیں فرماتے اور نرے احتمالات ظاہر ہے کہ کسی حقیقت کا انکشاف نہیں کرسکتے، اس لئے صاف اور سیدھا مسلک سلف صالحین اور صحابہ وتابعین ہی کا ہے جنہوں نے ان چیزوں کی حقیقت کو علم الہٰی کے سپرد کرنے پر قناعت فرمائی، اس کے بعد فرمایا يُدَبِّرُ الْاَمْرَ یعنی عرش پر مستوی ہو کر وہ تمام عالموں کا انتظام خود دست قدرت سے انجام دیتا ہے۔ (آیت) مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ ، یعنی کسی نبی و رسول کو بھی اس کی بارگاہ میں سفارش کرنے کی بذات خود کوئی مجال نہیں، جب تک حق تعالیٰ ہی ان کو سفارش کرنے کی اجازت عطا نہ فرماویں وہ بھی کسی کی سفارش نہیں کرسکتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ۝ ٠ ۭ مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِہٖ۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۝ ٠ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝ ٣ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل/ 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ دبر والتدبیرُ : التفکّر في دبر الأمور، قال تعالی: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] ، يعني : ملائكة موكّلة بتدبیر أمور، ( د ب ر ) دبر ۔ التدبیر ( تفعیل ) کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا قرآن میں ہے :۔ فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] پھر دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ یعنی وہ فرشتے جو امور دینوی کے انتظام کیلئے مقرر ہیں ۔ شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ تذکرون ۔ ای تفکرون۔ تم کیوں نہیں غور و فکر کرتے۔ تم کیوں نہیں سوچتے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣) بلاشبہ تمہارے رب حقیقی نے دنیا کے پہلے چھ دنوں میں جس کا پہلا دن اتوار اور آخری دن جمعۃ المبارک ہے جن میں سے ہر ایک دن کی لمبائی ایک ہزار سال کے برابر ہے، آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر قائم ہوا یا یہ کہ پھر عرش پر غالب اور متمکن ہوا۔ اور وہ بندوں کے ہر ایک کام کی تدبیر کرتا ہے یا یہ کہ بندوں کے ہر کام میں غور فرماتا ہے یا یہ کہ وہ فرشتوں کو وحی تنزیل اور مصیبت کے ساتھ بھیجتا ہے۔ اس کے سامنے کوئی قریبی فرشتہ اور نہ کوئی نبی مرسل کسی کی سفارش کرسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ، جو ان تمام امور کو انجام دیتا ہے وہ تمہارا پروردگار ہے سو تم اسی کی توحید بجا لاؤ کیا تم پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ) ” یقیناً تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی چھ دنوں میں “ (ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ط) ” پھر وہ عرش پر متمکن ہوگیا ‘ (اور) وہ تدبیر کرتا ہے ہر معاملہ کی۔ “ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور منصوبہ بندی کے مطابق پوری کائنات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ” حجۃ اللہ البالغہ “ کے باب اول میں اللہ تعالیٰ کے تین افعال کے بارے میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے : (١) ابداع (creation ex nehilo) یعنی کسی چیز کو عدم محض سے وجود بخشنا ‘ (٢) خلق ‘ یعنی کسی چیز سے کوئی دوسری چیز بنانا ‘ اور (٣) تدبیر ‘ یعنی اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق کائناتی نظام کی منصوبہ بندی (planning) فرمانا۔ (مَا مِنْ شَفِیْعٍ الاَّ مِنْم بَعْدِ اِذْنِہٖ ط) ” نہیں ہے کوئی بھی شفاعت کرنے والا مگر اس کی اجازت کے بعد۔ “ کوئی اس کا اذن حاصل کیے بغیر اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتا۔ اس سے پہلے آیت الکرسی (سورۃ البقرۃ) میں بھی شفاعت کے بارے میں اسی نوعیت کا استثناء آچکا ہے۔ (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ) ” وہ ہے اللہ تمہارا رب ‘ پس تم اسی کی بندگی کرو۔ تو کیا تم نصیحت اخذ نہیں کرتے ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4. There is no reason to believe that after having created everything God chose to consign Himself to the limbo of unconcern. On the contrary, after His great act of creation He established Himself on the Throne and holds the reins of the entire universe so that He not only reigns but in fact also effectively rules over the universe. The Qur'an considers it a colossal error - an error to which the ignorant have succumbed - to believe that after creating the universe God either left it to run on its own, or entrusted its affairs to others to govern it as they please. On the contrary, the Qur'an emphasizes that it is God Who is directing all the affairs of His creation; that all power effectively rests with Him alone. The Qur'an constantly drives home the point that God alone has all authority so that all that takes place in the universe or in any part of it takes place by His command or His leave. God's relationship with the universe is not simply that He created it; rather the reins of the universe are with Him and He is in effective and continual control of its affairs. It is He alone Who keeps the universe in existence and it is He alone Who directs it as He pleases. {See Towards Understanding the Qur'an, vol. III, al-A'raf, nn. 41-2, pp. 33-4.) 5. No one is in a position to interfere with God in His governance of the universe, or has the power to effectively intercede with God on anyone else's behalf and to prevail upon Him to change any of His decisions. Nor is anyone in such a position of power with God that his intercession would make or unmake anyone else's destiny. The utmost that a person can do is to pray to God. However, the acceptance or non-acceptance of such prayers rests solely with Him. No one is so powerful that his desire will, of necessity, always prevail with God, nor does anyone's intercession bind God to act according to the former's desire. 6. After emphasizing the given fact of God's lordship in the first part of the verse, man is now informed of its logical consequences. Since all authority rests solely with God, it is incumbent upon man to serve Him exclusively. God's lordship embraces the three-fold attributes of His being (i) the Sustainer, (ii) the Master, and (iii) the Sovereign. In like manner, the term 'ibadah embraces the three-fold corresponding implications that man should (i)worship, (ii) serve, and (iii) obey God. 7. Since man has been informed of the fundamental truths and has been shown the right way, there is no justification for him to remain engrossed in those false conceptions which have caused him to act in a manner altogether inconsistent with the reality.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :4 یعنی پیدا کر کے وہ معطل نہیں ہو گیا بلکہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کے تخت سلطنت پر وہ خود جلوہ فرما ہوا اور اب سارے جہان کا انتظام عملا اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں خدا نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ دیا ہے کہ خود جس طرح چاہے چلتی رہے ، یا دوسروں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس میں جیسا چاہیں تصرف کریں ۔ قرآن اس کے برعکس یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کی اس پوری کار گاہ پر آپ ہی حکمرانی کر رہا ہے ، تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں ، ساری زمام اقتدار پر وہ خود قابض ہے ، کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہ راست اس کے حکم یا اذن سے ہو رہا ہے ، اس جہان ہستی کے ساتھ اس کا تعلق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی اسے وجود میں لایا تھا ، بلکہ ہمہ وقت وہی اس کا مدبر و منتظم ہے ، اسی کے قائم رکھنے سے یہ قائم ہے اور اسی کے چلانے سے یہ چل رہا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ اعراف ، حاشیہ نمبر٤۰ ، ٤۱ ) ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :5 یعنی دنیا کی تدبیر و انتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ خدا سے سفارش کر کے اس کا کوئی فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے ۔ زیادہ سے زیادہ کوئی جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ خدا سے دعا کرے ، مگر اس کی دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے ۔ خدا کی خدائی میں اتنا زور دار کوئی نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :6 اوپر کے تین فقروں میں حقیقت نفس الامری کا بیان تھا کہ فی الواقع خد ا ہی تمہارا رب ہے ۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس امر واقعی کی موجودگی میں تمہارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے ۔ جب واقعہ یہ ہے کہ ربوبیت بالکلیہ خدا کی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو ۔ پھر جس طرح ربوبیت کا لفظ تین مفہومات پر مشتمل ہے ، یعنی پروردگار ، مالی و آقائی ، اور فرماں روائی ، اسی طرح اس کے بالمقابل عبادت کا لفظ بھی تین مفہومات پر مشتمل ہے ۔ یعنی پرستش ، غلامی اور اطاعت ۔ خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو ، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے محبت و عقیدت سے سر جھکائے ۔ یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے ۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کا بندہ و غلام بن کر رہے اور اس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویہ نہ اختیار کرے اور اس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے ۔ یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے ۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کے حلم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپنا حکمران بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے ۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :7 یعنی جب یہ حقیقت تمہارے سامنے کھول دی گئی ہے اور تم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اس حقیقت کی موجودگی میں تمہارے لیے صحیح طرز عمل کیا ہے تو کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں گی اور انہی غلط فہمیوں میں پڑے رہو گے جن کی بنا پر تمہاری زندگی کا پورا رویہ اب تک حقیقت کے خلاف رہا ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: ’’استواء‘‘ کے لفظی معنیٰ سیدھا ہونے، قابو پانے اور بیٹھ جانے کے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ مخلوقات کی طرح نہیں ہیں، اس لئے اُن کا اِستواء بھی مخلوقات جیسا نہیں۔ اس کی ٹھیک ٹھیک کیفیت اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے ہم نے اس لفظ کا اُردو میں ترجمہ کرنے کے بجائے اسی لفظ کو برقرار رکھا ہے، کیونکہ ہمارے لئے اتنا ایمان رکھنا کافی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عرش پر اس طرح اِستواء فرمایا جو ان کی شان کے لائق ہے۔ اس سے زیادہ کسی بحث میں پڑنے کی نہ ضرورت ہے، نہ ہماری محدود عقل اس کا احاطہ کرسکتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣۔ اللہ پاک نے چھ دن کی مدت میں زمین و آسمان بنایا اگر وہ چاہتا تو ایک لمحہ میں بنا دیتا لیکن چھ دن کی مدت میں آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں یہ حکمت ہے کہ انسان اس عادت الٰہی کو سیکھ کر ہر کام کو سہولت سے کرے کسی کام میں عادت سے بڑھ کر جلدی نہ کرے کہ اس طرح کی جلدی شیطان کی عادت میں داخل ہے۔ چناچہ مسند ابی یعلی میں انس بن مالک (رض) کی صحیح روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر ایک کام میں سہولت عادت الٰہی ہے اور حد سے زیادہ جلدی عادت شیطانی ١ ؎ ہے۔ کفار بھی اس بات کے تو قائل تھے کہ خدا نے زمین و آسمان کو بنایا ہے مگر بتوں کی تعظیم کرتے اور رسول کو نہیں مانتے تھے اس لئے فرمایا کہ جس کو اتنی بڑی قدرت حاصل ہے جس کے سمجھنے سے انسان کی عقل عاجز ہے اگر اس نے رسول تمہاری طرف تمہیں میں سے بھیجا تو پھر تمہیں کیوں تعجب ہے اور جب انسان اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو پھر بتوں کو قابل تعظیم ٹھہرانے کا کیا حق ہے عرش خدا کی ساری مخلوق سے بڑا ہے بعضوں کا قول ہے کہ عرش یاقوت سرخ کا ہے اللہ پاک وہیں سے کل کاموں کی تدیر کرتا ہے پھر اس آیت میں کفار کی طرف خطاب کر کے فرمایا کہ تم جو بتوں کو پوجتے ہو اور یہ اعتقاد رکھتے ہو کہ یہی بت تمہاری شفاعت کریں گے تو یہ یاد رکھو کہ تمہارا رب اگر ہے تو وہی خدا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کی عبادت کرنی زیبا ہے ان بتوں کی کیا طاقت ہے جو شفاعت کریں گے۔ اولیائ، غوث۔ قطب ٢ ؎ یہاں کہ انبیاء بھی بغیر مرضی اللہ کے کسی کی شفاعت نہیں کرسکیں گے۔ مسند امام احمد اور ترمذی میں ابی رزین عقیلی کی روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے پانی کو پیدا کیا پھر عرش معلی کو اور پھر سب مخلوقات کو پیدا کیا۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ٣ ؎ مسند امام احمد اور صحیح مسلم میں ابوذر انصاری (رض) کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز صبح کی نماز کے بعد سے منبر پر چڑھ کر پیدائش دنیا کا حال ظہر کی نماز تک بیان فرمایا اور ظہر کی نماز سے عصر اور عصر سے شام تک ایک دن میں تمام دنیا کا حال بیان کردینا ٤ ؎ یہ اللہ کے رسول کا ایک معجزہ تھا۔ اس لئے خاص کسی صحابی کی روایت میں تو یہ پورا حال سلسلہ وار نہیں ہے لیکن متفرق طور پر اکثر صحابہ کی روایتیں اس باب میں ہیں جن کا ذکر حسب موقع ہر ایک آیت کی تفسیر میں کیا گیا ہے۔ ( استواء علی العرش) اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے جس پر ایمان لانا اور اس کی تفصیلی کیفیت کو علم الٰہی پر منحصر رکھنا سلف کا طریقہ ہے چناچہ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ صحابہ اور تابعین کے زمانہ تک اس طرح متشابہ آیتوں کی کیفیت کو علم الٰہی پر منحصر رکھا جاتا تھا اور یہ بھی گزر چکا ہے کہ صفات الٰہی اور قیامت کے حال کی آیتیں اور حروف مقطعات یہ سب متشابہات ہیں۔ (یدبرالامر) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب چیزوں کو پیدا کر کے پھر ان کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے مثلاً یوں تو سورج مشرق سے نکلتا ہے لیکن اس کا مغرب سے نکلنا انتظام الٰہی میں دنیا کے ختم ہونے کی ایک نشانی قرار پائی ہے چناچہ صحیح بخاری و مسلم کی ابوذر (رض) کی روایت میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ١٣٨ ج ٢ تفسیر سورة ہود و تفسیر ابن کثیر ص ٤٣٧ ج ٢۔ ( ٢ ؎ صحیح مسلم ص۔ ٣٩ ج ٢ کتاب الفتن۔ ) ٣ ؎ یعنی آیات صفات الٰہیہ باعتبار کیفیت متشابہات ہیں۔ ٤ ؎ صحیح بخاری ٤٥٤ ج ١ باب صفۃ الشمس الخ و مشکوۃ ص ٤٧٢ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:3) استوی علی۔ اس نے قرار پکڑا۔ وہ قائم ہوا۔ وہ متمکن ہوا۔ نیز ملاحظہ ہو 2:29 اور 7:54 ۔ العرش۔ عرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع عروش ہے قرآن میں ہے : وہی خاویۃ علی عروشھا (2: 259) اور اس مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے اسی سے عرشت الکرم وعرشتہ (باب نصر) کا محاورہ ہے۔ جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹیٹاں بنانا ہے اور ٹٹیوں پر چڑھائی بیل کو معرش بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن میں آیا ہے : معروشت وغیر معروشت (6:141) ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور ٹیٹوں پر نہ چڑھائے ہوئے اور وما کانوا یعرشون (7:137) اور جو وہ ٹیٹوں پر چڑھاتے تھے۔ یا بقول حضرت ابن عباس و مجاہد ما کانوا یبنون من القصور وغیرھا۔ محل وغیرہ جو وہ تعمیر کرتے تھے۔ اس بلندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بادشاہ کے تخت کو بھی عرش کہا جاتا ہے۔ جیسے ورفع ابویہ علی العرش (12:100) اور اپنے والدین کو تخت پر بتھایا۔ اور بطور کنایہ عرش کا لفظ عزت۔ غلبہ۔ سلطنت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے فلان ثل عرشہ (یعنی فلاں کی عزت جاتی رہی) ۔ عرش الٰہی سے ہم صرف نام کی حد تک واقف ہیں اور اس کی حقیقت ہمارے فہم سے بالاتر ہے وہ عام بادشاہ کے تخت کی مانند نہیں کیونکہ ذات الٰہی اس سے بالاتر ہے کہ کوئی چیز اسے اٹھائے ۔ بعض کے نزدیک عرش سے مراد فلک الاعلیٰ (فلک الافلاک) ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ یدبر۔ مضارع واحد مذکر غائب دبر یدبر تدبیر (تفعیل) وہ انتطام کرتا ہے۔ تدبیر کرتا ہے۔ الامر ہر کام کی۔ شفیع۔ شفاعت کرنے والا۔ سفارش کرنے والا۔ بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ تذکرون۔ ای تفکرون۔ تم کیوں نہیں غور و فکر کرتے۔ تم کیوں نہیں سوچتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2۔ یعنی چھ دن کی مدت میں آسمان و زمین بنائے۔ (نیز دیکھئے اعراف 145) ۔ 3۔ یعنی اس ملک کا دربار ٹھہرا یا عرش پر، سب (ہر) کام کی تدبیر وہاں سے ہو۔ (موضح) نیز دیکھئے۔ (اعراف : 45) ۔ 4۔ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر قناعت نہیں کرسکے گا قرآن کی متعددآیات میں بیان ہوا ہے مثلاً دیکھئے سورة بقرہ آیت 552، سورة طہ آیت 901، السبا : 32، سورة النجم : 62۔ (قرطبی۔۔۔۔ ) قرآن نے جہاں مطلق شفاعت کے فائدہ مند ہونے کی نفی کی ہے وہاں یا تو کفار کا ذکر ہے اور یا بلا اذن شفاعت کی نفی ہے۔ ورنہ امت کے گنہگار مسلمانوں کے حق میں شفاعت صحیح احادیث سے ثابت ہے اور یہ بھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت قبول کی جائے گی مگر یہ شفاعت بھی اللہ تعالیٰ سے اجازت کے بعد ہوگی۔ (کبیر۔ ابن کثیر) کفار جن بتوں کی پوجا کرتے تھے انکو اپنا سفارشتی سمجھتے۔ قرآن نے انہی کا رد کیا۔ (قرطبی) ۔ 5۔ ’ عبادت کے معنی ” پوجا کرنا “ بھی ہیں اور پوری زندگی ” عہد “ یعنی اس کا فرمانبردار بندہ بن کر گزارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے اور حاجت روائی کے لئے کسی غائبانہ طاقت کے پکارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے ہر قسم کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا ہے۔ پس ” فاعبدوا “ کے معنی ہیں اس کو پوجا کرو۔ اسی کو مشکلات دور کرنے کے لئے پکارو اور پوری زندگی اسی کی بندگی میں بسر کرو۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اگر تم کسی اور کی بندگی اختیار کرو گے تو گویا اسے خدا کی خدائی میں شریک ٹھہرائو گے۔ 6۔ اگر تم ذرا بھی غور و فکر سے کام لو تو تمہیں یقینا معلوم ہوجائے گا کہ صرف خدا کی ہستی ہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے علاوہ جن کی بندگی کرتے ہو یا جن کے سامنے ماتھے رگڑتے ہو یا نذر نیازیں پیش کرتے ہو وہ یا تو تم ہی جیسے بےکس و لاچار انسان ہیں یا وہ بت ہیں جنہیں اگر کوئی توڑ دے تو اپنی حفاظت تک نہیں کرسکتے۔ کیا تمہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 3 تا 4 خلق (اس نے پیدا کیا) ستہ ایام (چھ دن، اس سے چھ دن مراد ہیں، ممکن ہے چھ زمانے اور پیریڈ مراد ہوں) استوی (وہ برابر ہوا، یعنی اس نے نظام کائنات کا آغاز کردیا) یدبر (وہ تدبیر کرتا ہے، فیصلے کرتا ہے) شفیع (سفارش کرنے والا) افلاتذکرون (کیا پھر بھی وہ اس حقیقت پر غور و فکر نہیں کرتے) حق سچ بالکل درست اور صحیح) یبدا (وہ شکر کرتا ہے) یعید (وہ لوٹاتا ہے، واپس لاتا ہے) لیجزی (تاکہ وہ بدلہ اور جزا دے) القسط (انصاف، عدل و انصاف) شراب (ہر پینے کی چیز کو شراب کہتے ہیں) حمیم (گرم ، کھولتا ہوا پانی) تشریح :- آیت نمبر 3 تا 4 سورئہ یونس کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کے ان غلط اور باطل عقیدوں کی پرزور تردید فرمائی ہے جن میں وہ ایک اللہ کے قائل ہونے کے باوجود بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ بت اللہ کی بارگاہ میں ان کی سفارش نہیں کریں گے تو ان کی بات قبول نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ انسان کا اپنا من گھڑت خیال ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں سے دور نہیں ہے بلکہ ان کی رگ جان سے بھی قریب ہے۔ اس اللہ کو اس کائنات میں ہر طرح کی قدرتیں حاصل ہیں اسی نے اس کائنات کے ذرے ذرے کو پیدا کیا اور وہی ہر چیز کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور وہی سب کا معبود ہے۔ اس نے اپنی قدرت سے آسمانوں اور زمین کو چھ دن کی مقدار میں پیدا کیا ہے۔ عرش سے لے کر فرش تک پورے نظام کو وہ اپنی تدبیر و حکمت سے چلا رہا ہے۔ اس کے اختیار اور قدرت میں کوئی شریک نہیں ہے وہ اس کائنات کے رہ معاملے کا کسی کی شرکت اور مداخلت کے بغیر تدبیر و انتظام کر رہا ہے۔ اس کے انتظام میں شرکت تو بڑی بات ہے اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر لب ہلانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا وہی ایک ذات ہے جو عبادت و بندگی کی مستحق ہے۔ سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ پھر وہ اپنے عدل و انصاف سے نیک چلن اور اعمال صالح کے پیکر ایمان والوں کو اجر عظیم عطا فرمائے گا اور جنہوں نے کفر و انکار کی روش اختیار کر رکھی ہوگی وہ ان کو نہ صرف ایک درد ناک عذاب دے گا بلکہ میدان حشر میں اور جہنم میں شدید پیاس کو بجھانے کے لئے کھولتا ہوا پانی دے گا جو ان کے لئے مزید اذیت ناک سزا ہوگی۔ زمین و آسمان کو اچانک بنا کر کھڑا نہیں کردیا گیا۔ حالانکہ اس کی بارگاہ میں ” کن “ کہنے کی دیر ہوتی ہے اور ہر چیز وجود اختیار کرلیتی ہے لیکن زمین و آسمان کو چھ دن میں بنایا اس کا مقصد یہ ہے کہ اس نے اس کائنات کو بتدریج بنایا ہے کیونکہ اس کا قانون ہی یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو بتدریج پیدا کرتا ہے۔ ایک گٹھلی کو درخت بننے میں ایک وقت لگتا ہے اگر وہ چاہتا تو یہی کام ایک لمحہ میں بھی ہو سکتا تھا مگر اس کے قانون کے خل اف ہے۔ یہی قانون پوری کائنات میں رائج فرما دیا ہے کہ ہر چیز اپنے وقت پر آہستہ آہستہ تکمیل تک پہنچ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد چھ دن کو لیا ہے۔ لیکن بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس دنیا کے ماہ و سال اور دن اللہ کے ماہ وسال اور دنوں سے مختلف ہیں مثلاً سورة حج کے چھٹے رکوع میں فرمایا گیا ہے : ” وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون “ ترجمہ :- اور بیشک آپ کے رب کے نزدیک ایک دن ایسا ہے جیسا کہ تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال۔ اگر اس آیت کو سامنے رکھا جائے تو چھ دن سے مراد چھ ہزار سال بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے بعض مفسرین نے چھ دن سے مراد چھ ہزار سال یا چھ مدتیں قرار دی ہیں۔ بہرحال اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے چھ دن چھ ہزار سال یا چھ مدتیں۔ بہرکیف اللہ نے اس کائنات کو ایک تدریج اور حسن انتظام سے پیدا فرمایا ہے۔ چھ دن سے ممکن ہے اس غلط عقیدہ کی طرف اشارہ ہو جو یہودیوں نے گھڑ رکھا تھا۔ یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور پھر وہ اللہ اس قدر تھک چکا تھا کہ اس نے ساتویں دن آرام کیا۔ (نعوذ باللہ) اللہ نے فرمایا کہ اس نے بیشک کائنات کو چھ دن میں پیدا کیا لیکن ساتویں دن آرام نہیں کیا کیونکہ نیند، اونگھ اور آرام سے وہ اللہ بےنیاز ہے بلکہ چھ دن یا چھ مدتوں میں کائنات کو پیدا کر کے اس نے پوری کائنات میں اپنی قدرت کے حسن انتظام کو جاری فرما دیا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی زمین و آسمان میں احکام جاری کرنے لگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کرام (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرنے کی سب سے بڑی وجہ عقیدہ توحید تھا اس لیے نبی کی بشریت کا ذکر کرنے کے بعد توحید کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ اے لوگو ! تم نبی کے انسان ہونے پر تعجب کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ معمولی بات ہے کہ کسی شخص کو اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرمائے۔ اس کی ذات اتنی عظیم ہے کہ اس نے زمین و آسمان صرف چھ دن میں پیدا فرمائے اور پھر ذات کبریا عرش عظیم پر متمکن ہوئی جس طرح اس کی شان ہے۔ البتہ ہمارے لیے یہ سوچنا عظیم تر گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں وقت کس حالت میں ہوگا ایسی سوچ آنے پر اعوذ باللہ۔۔ پڑھنا چاہیے جہاں تک زمین و آسمان پیدا کرنے کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بغیر کسی Sample کے چھ دن میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو وہ ایک لمحہ میں بھی زمین و آسمان پیدا کرسکتے تھے۔ لیکن اس میں یہ حکمت ہے کہ ہر کام کو مناسب وقت دینا فطری امر ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ ہر چیز یا کام اپنے فطرتی تقاضوں کے مطابق کما حقہ سر انجام پائے۔ وہی زمین و آسمان اور پوری کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے۔ زمین و آسمانوں کی پیدائش اور کائنات کا نظام سنبھالنے میں اس کا کوئی ساجھی، شریک اور مشیر نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا اور نہ اس نے کسی کو ذرہ برابر اختیار دے رکھا ہے۔ جب کائنات کی تخلیق اور نظام چلانے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک، معاون اور مشیر نہیں تو اس کے سامنے اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے کی جرأت کیسے کرسکتا ہے ؟ لوگو اللہ ہی تمہارا رب ہے لہٰذا صرف اور صرف اسی ایک کی عبادت کیا کرو۔ اتنے بڑے حقائق اور ناقابل تردید دلائل کی موجودگی میں کیا تم نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو ؟ نصیحت سے مراد یہاں توحید کا عقیدہ اور خالصتاً اللہ کی عبادت کرنا ہے جو شخص اس کو نہیں مانتا وہ ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا۔ اس آیت مبارکہ میں تخلیقِ کائنات کا ثبوت دینے کے بعد اس بات کی پرزور تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی سفارش کا محتاج اور اسے ماننے پر مجبور نہیں ہیجب کہ مشرک کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی ریاضت و عبادت سے خوش ہو کر انہیں کچھ اختیار دے رکھے ہیں جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی سفارش مسترد نہیں کرتا۔ یہ باطل عقیدہ انسان کو اللہ سے بےخوف، بدعمل اور اپنے رب سے دور کردیتا ہے جس سے معاشرتی، معاشی اور دینی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے ہر نبی نے اس عقیدہ کی تردید کی۔ (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ قَالَ قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ السُّلَمِیُّ کُنْتُ وَأَنَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَظُنُّ أَنَّ النَّاسَ عَلَی ضَلاَلَۃٍ وَأَنَّہُمْ لَیْسُوْا عَلٰی شَیْءٍ وَہُمْ یَعْبُدُوْنَ الأَوْثَانَ فَسَمِعْتُ بِرَجُلٍ بِمَکَّۃَ یُخْبِرُ أَخْبَارًا فَقَعَدْتُ عَلٰی رَاحِلَتِی فَقَدِمْتُ عَلَیْہِ فَإِذَا رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُسْتَخْفِیًا جُرَءَ آءُ عَلَیْہِ قَوْمُہٗ فَتَلَطَّفْتُ حَتّٰی دَخَلْتُ عَلَیْہِ بِمَکَّۃَ فَقُلْتُ لَہٗ مَآ أَنْتَ قَالَ أَنَا نَبِیٌّ فَقُلْتُ وَمَا نَبِیٌّ قَالَ أَرْسَلَنِی اللَّہُ فَقُلْتُ وَبِأَیِّ شَیْءٍ أَرْسَلَکَ قَالَ أَرْسَلَنِیْ بِصِلَۃِ الأَرْحَامِ وَکَسْرِ الأَوْثَانِ وَأَنْ یُوَحَّدَ اللَّہُ لاَ یُشْرَکُ بِہِ شَیْءٌ قُلْتُ لَہٗ فَمَنْ مَّعَکَ عَلٰی ہَذَا قَالَ حُرٌّ وَعَبْدٌ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب اسلام عمرو بن عبسۃ ] ” حضرت ابو امامۃ کہتے ہیں کہ عمرو بن عبسہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں جاہلیت میں لوگوں کو گمراہی پر تصور کیا کرتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ کسی مذہب پر بھی نہیں ہیں کیونکہ وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ میں نے سنا کہ ایک آدمی مکہ میں ہے جن کے متعلق خبریں مشہورتھیں۔ میں سواری پر بیٹھا اور آپ کے پاس آیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کے سرپھروں سے چھپ کر رہتے تھے۔ میں نے احتیاط برتی حتی کہ مکہ میں آپ کے پاس حاضر ہوا۔ میں نے کہا آپ کون ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میں نبی ہوں، میں نے کہا نبی کون ہوتا ہے آپ نے فرمایا۔ اللہ نے مجھے اپنے پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ میں نے کہا کس چیز کے ساتھ آپ نے فرمایا صلہ رحمی اور بتوں کو توڑنے کے لیے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ایک جانا جائے اور اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرایا جائے میں نے کہا آپ کے ساتھ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا آزاد اور غلام۔ “ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ وَقَالَ یَدُ اللَّہِ مَلأَی لاَ تَغِیْضُہَا نَفَقَۃٌ، سَحَّاء اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَقَالَ أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَآءَ وَالأَرْضَ فَإِنَّہٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِیْ یَدِہِ ، وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ ، وَبِیَدِہِ الْمِیْزَانُ یَخْفِضُ وَیَرْفَعُ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ وکان عرشہ علی الماء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں انسان خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ اس میں سے رات دن خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی، آپ نے فرمایا کیا خیال ہے تمہارا کس قدر اللہ نے خرچ کیا ہوگا ؟ جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین بنائے ہیں یقیناً اس میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ترازو ہے وہ اسے اوپر کرتا اور نیچے کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں و زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں کرسکے گا۔ ٥۔ ایک اللہ کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن سفارش کے دلائل : ١۔ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کا حقدار نہ ہوگا۔ (یونس : ٣) ٢۔ اللہ کی اجازت سے سفارش ہو سکے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٥) ٣۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمٰن اجازت دے گا۔ (مریم : ٨٧) ٤۔ شفاعت اسی کے کام آئے گی جس پر رحمٰن راضی ہوا۔ (طٰہٰ : ١٠٩) ٥۔ اگر رحمٰن نقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی۔ (یٰس : ٢٣) ٦۔ سفارشیوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ (المدثر : ٤٨) ٧۔ وہی سفارش کرسکے گا جس کی سفارش پر رب راضی ہوگا۔ (الانبیاء : ٢٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض حقیقت ناقابل شک یہ ہے کہ تمہارا مالک وہ اللہ ہے جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ آسمان و زمین تمام ممکنات (مخلوقات) کے اصول ہیں (تمام چیزیں بقول فلاسفۂ یونان انہی کی تائید و تأثر سے بنی ہیں۔ فی ستۃ ایام چھ دن میں ‘ یعنی دنیا کے چھ روز کے بقدر مدت میں۔ یوں تو اللہ آن کی آن میں سارے جہان کو پیدا کرسکتا تھا مگر مخلوق کو آہستہ روی اور تدریج کی تعلیم دینے کیلئے اس نے چھ روز میں آسمان و زمین بنائے۔ ثم استوی علی العرش پھر عرش (تخت شاہی) پر وہ قائم ہوا۔ سلف سے خلف تک تمام اہل سنت کا باتفاق عقیدہ ہے کہ اللہ تمام جسمانی صفات اور حدوث کے عوارض سے پاک ہے ‘ لیکن آیت مذکورۃ الصدر اور اسی جیسی دوسری آیات (جن میں صفات جسم کے ساتھ اللہ کا انصاف ظاہر کیا گیا ہے) بظاہر اہل سنت کے مسلک و عقیدے کے خلاف نظر آتی ہیں۔ اس شبہ کو دور کرنے کیلئے دو جواب دئیے گئے ہیں : (١) تاویل کا مسلک اختیار کیا گیا ہے ‘ یعنی ظاہری الفاظ کے وہ (مجازی) معنی لئے گئے ہیں جو شان خداوندی کے مناسب ہیں کیونکہ آیت وَمَا یَعْلَمُ تَأوِیْلَہٗٓ الاَّ اَللّٰہُ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ میں الراسخوان کا عطف اللّٰہُ پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ متشابہات کا صحیح علم اللہ کو اور مضبوط علم رکھنے والوں کو ہی ہے (اس سے معلوم ہوا کہ متشابہات کی حقیقی مراد اور تاویل سے علماء ربانیین بھی واقف ہیں) اس کی تفصیلی بحث سورة آل عمران میں گذر چکی ہے۔ اس توجیہ کی روشنی میں آیت مذکور میں استَوٰی کو بمعنی اِسْتَولٰیقرار دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عرش جو سب سے اعلیٰ اور بالا مخلوق ہے ‘ جب اللہ اس پر غلبہ رکھتا ہے تو دوسری مخلوق پر اللہ کا تسلط بدرجۂ اولیٰ ظاہر ہے۔ پس ساری مخلوق اس کے زیرتسلط ہے۔ (١) [ استویٰکا معنی استولٰی اور تَسَلَّطَ عربی کلام میں بکثرت آیا ہے۔ کسی شاعر کا ایک شعر ہے ؂ قَدِ اسْتَویٰ بَشَرٌ عَلَی الْعِرَقِ مِنْ غَیْرِ سَیْفٍ وَدَمٍ مُّھْراقٍ ۔۔ یعنی بشر نے بغیر تلوار چلائے اور خون بہائے عراق پر تسلط کرلیا (مترجم)] لیکن بغوی نے کہا : استواء کو بمعنی استیلاء وتسلُّط قرار دینا معتزلہ کا قول ہے۔ (٢) سلف صالحین کا مسلک ‘ اہل تاویل کے مسلک کے خلاف ہے۔ تمام علماء سلف کا قول ہے کہ اس قسم کی آیات کے ظاہر پر ایمان لانا واجب ہے۔ ان کی تنقیح اور موشگافیوں سے اجتناب لازم ہے۔ ان کی حقیقت کے علم کو اللہ کے سپرد کردینا ضروری ہے۔ اسی بناء پر امام محمد بن حسن نے فرمایا تھا کہ پورب سے پچھم تک تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ قرآن اور صحیح احادیث میں اللہ کی جو صفات آئی ہیں ‘ ان کو (یونہی) بغیر تشریح و تنقیح و توضیح کے ماننا اور ان پر ایمان لانا واجب ہے۔ جو شخص ان کی توضیح کرتا ہے ‘ وہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اور اجماع سلف کے خلاف عمل کرتا ہے۔ اس کا رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے لائے ہوئے دین اور جماعت مسلمین کے اختیار کردہ مسلک سے تعلق نہیں۔ امام مالک بن انس نے فرمایا : استواء (کا حقیقی ترجمہ) مجہول نہیں (استواء کی) کیفیت معلوم نہیں اور کیفیت استواء کو دریافت کرنا بدعت ہے۔ سلف صالحین ‘ تنزیہ باری تعالیٰ کے قائل تھے ‘ اسی کے ساتھ استواء علی العرش کو (بغیر تاویل کے) مانتے تھے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : اللہ آسمان میں یقیناً ہے ‘ زمین میں نہیں۔ رواہ البیہقی۔ اس قول کی نسبت بھی امام ابوحنیفہ کی طرف کی گئی ہے کہ جس نے کہا : مجھے نہیں معلوم کہ میرا رب آسمان میں ہے یا زمین میں ‘ وہ کافر ہوگیا کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرَشِ استَوٰی۔ اور عرش آسمانوں کے ادھر ہے۔ امام ابوحنیفہ کا ایک قول یہ بھی آیا ہے کہ جس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا ‘ وہ کافر ہوگیا۔ امام شافعی نے فرمایا : اللہ اپنے عرش پر اپنے آسمان میں ہے۔ وہ جیسا چاہتا ہے ‘ اپنی مخلوق کے قریب بھی ہوتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ‘ اترتا ہے (یعنی اللہ کا عرش پر ہونا مخلوق کے قریب ہونا اور نیچے اترنا ‘ تینوں قول صحیح ہیں لیکن عرش پر موجود ہونے ‘ مخلوق کے قریب ہونے اور نیچے اترنے کی کیفیت معلوم نہیں) ایسا ہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی مروی ہے۔ اسحاق بن راہویہ کا بیان ہے : تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اللہ عرش کے اوپر مستوی ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ مزنی ‘ ذہبی ‘ بخاری ‘ ابو داؤد و ترمذی ‘ ابن ماجہ ‘ ابن ابی شیبہ ‘ ابو یعلی ‘ بیہقی اور دوسرے ائمۂ حدیث کا یہی قول ہے۔ ابو زرعہ رازی کے قول سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسی قول پر اہل سنت کا اجماع ہے۔ حافظ عثمان بن سعید دارمی نے لکھا ہے کہ تمام مسلمان اس قول پر متفق ہیں کہ اللہ اپنے عرش پر آسمانوں کے اوپر ہے۔ سہل بن عبد اللہ تستری نے فرمایا : یہ کہنا جائز نہیں کہ جس نے استواء کو پیدا کیا ‘ وہ کیسے مستوی ہو سکتا ہے۔ ہمارے لئے (استواء کو) ماننا اور تسلیم کرنا لازم ہے ‘ کیونکہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے۔ محمد بن جریر طبری نے لکھا ہے : مسلمان کیلئے اتنا جان لینا کافی ہے کہ اس کا رب عرش پر مستوی ہے۔ جو اس سے آگے بڑھے گا ‘ وہ نامراد اور خسران مآب ہوگا۔ محمد بن خزیمہ نے کہا : جو شخص اللہ کو عرش پر ساتوں آسمانوں کے اوپر مستوی اور سب مخلوق سے جدا نہیں کہتا وہ کافر ہے ‘ اس سے توبہ کرائی جائے توبہ کرلے تو خیر ‘ ورنہ اس کی گردن مار دی جائے۔ طحاوی نے لکھا ہے کہ عرش و کرسی ویسے ہی ہیں جیسے اللہ نے اپنی کتاب میں ان کو بیان کیا ہے۔ اللہ عرش سے بےنیاز ہے اور عرش کے نیچے والی چیزوں سے بھی۔ وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر چیز سے اوپر ہے۔ شیخ ابو الحسن اشعری بصری نے کتاب ” اختلاف المضلین و مقالات الاسلامیین “ میں اہل سنت اور اصحاب حدیث کا ایک قول لکھا ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا ‘ اللہ کے فرشتوں ‘ کتابوں اور پیغمبروں کا ماننا اور جو کلام اللہ کی طرف سے آیا ہے اور جو رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی صحیح حدیثوں میں مذکور ہے ‘ سب کا اقرار کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے کسی چیز کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی ماننا لازم ہے کہ اللہ اپنے عرش پر ہے ‘ جیسا کہ اس نے خود آیت الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرَشِ استَوٰی میں فرمایا ہے اور اللہ کے دو ہاتھ بھی ہیں مگر بغیر کیفیت (مخلوقیہ) کے۔ اس نے خود فرمایا ہے : خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۔ ابو نعیم نے حلیہ میں لکھا ہے : ہمارا طریقہ سلف کے طریقے کے موافق ہے جو کتاب اللہ ‘ احادیث رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اور اجماع کے پیرو تھے اور اس بات کا اعتقاد رکھتے تھے کہ اللہ ہمیشہ سے اپنی تمام صفات میں کامل ہے ...... آخر میں ابو نعیم نے کہا : جن احادیث میں اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے ‘ سلف ان کو مانتے تھے اور اللہ کو عرش پر بغیر کسی (مخلوقی) کیفیت اور تشبیہ کے مستوی مانتے تھے اور اس امر کے بھی قائل تھے کہ اللہ اپنی مخلوق سے جدا ہے۔ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ اللہ آسمان میں عرش پر سات آسمانوں کے اوپر ہے ‘ جیسا کہ اہل سنت کا قول ہے۔ خطیب نے کہا : سلف کا مسلک یہ ہے کہ ایسی (متشابہ) آیات کا اقرار کیا جائے اور ان کے ظاہری معنی پر ہی الفاظ کو محمول کیا جائے اور کیفیت و تشبیہ کی نفی کی جائے (یعنی کوئی کیفیت اور تمثیل و تشبیہ نہ بیان کی جائے کہ معنی معلوم ہے مگر معنی کی کیفیت مجہول ہے اور وجہ اللہ یا ید اللہ یا استواء علی العرش کو ہم مخلوق کے چہرے ‘ ہاتھ اور استواء سے تشبیہ نہیں دے سکتے۔ یہ چیزیں اللہ کی صفات ہیں مگر ویسی ہیں جیسی اس کی شان کے مناسب ہیں) امام الحرمین نے کہا : عقیدۂ سلف کا اتباع ہی پسندیدہ اعتقاد اور دین اللہ ہے۔ ائمۂ سلف نے تاویل سے اجتناب کیا ہے ‘ الفاظ کے ظاہری معنی کو اختیار کیا ہے اور معانی (کی وضاحت و تفصیل) کو اللہ کے سپرد کیا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : اہل سنت قائل ہیں کہ استواء علی العرش اللہ کی صفت ہے بلاکیف۔ اس پر ایمان واجب ہے۔ بیضاوی نے لکھا : اس کا مطلب یہ ہے کہ استواء علی العرش اللہ کیلئے ویسا ہے جیسا اس کے مناسب ہے۔ استقرار اور مکانیت کی آمیزش سے پاک ہے۔ ابوبکرعلی بن عیسیٰ شبلی جو اپنے زمانہ کے صوفیاء میں سب سے بڑے عالم تھے ‘ کہتے ہیں : رب آسمان میں ہے ‘ حکم دیتا ہے اور فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ شیخ الاسلام عبد اللہ انصاری نے اخبار شتّٰی میں لکھا ہے کہ اللہ ساتویں آسمان میں عرش پر ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی نے غنیۃ الطالبین میں لکھا ہے اور اس موضوع پر بہت تفصیلی بحث کی ہے (جس کا خلاصہ وہی ہے جو علمائے سلف سے منقول ہے کہ معانی معلوم ہیں ‘ کیفیت نامعلوم اور ہر تشبیہ سے پاک) ۔ یہ تمام اقوال ذہبی نے ” کتاب العلو “ میں نقل کئے ہیں۔ صحابہ ‘ تابعین ‘ محدثین ‘ فقہاء اور صوفیہ کی کثیر جماعت (تقریباً کل) کا یہی مسلک ہے۔ میں نے مختصراً سورة الاعراف کی آیت ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّھَارَاور سورة البقرہ کی آیت یَأتِیَھُمُ اللّٰہُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِکی تفسیر میں بیان کردیا ہے کہ اصحاب قلوب کے نزدیک ذات باری تعالیٰ کی خصوصی تجلی اور خاص پرتو بعض مخلوق پر پڑتا ہے ‘ وہ مخلوق نورانی لہروں سے نور چیں ہوتی ہے۔ اس سے ذات باری محل حوادث نہیں بن جاتی ‘ نہ خالص مرتبۂ تنزیہ سے اس کا (تشبیہ کی طرف) تنزل ہوتا ہے ‘ بلکہ ممکنات میں ایسا جوہر پیدا ہوجاتا ہے جو پرتو اندوزی کے قابل بن جاتا ہے (امکان و حدوث کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ اس میں جلوہ پزیری کی قابلیت بڑھ جاتی ہے اور بڑھتی رہتی ہے۔ اس جلوہ پاشی سے وجوب و قدم میں کوئی تغیر نہیں آتا۔ وجوب سے امکان اور قدم سے حدوث کی طرف ذات واجب و قدیم کا تنزل نہیں جاتا) میں نے سورة البقرہ میں آیت ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوَّاھُنَّ سَبْعَ سَّمٰوٰتٍ کی تفسیر کے ذیل میں اس جلوہ پاشی کی تنقیح کردی ہے جو مؤمن کے دل پر ‘ کعبہ پر اور عرش عظیم پر خصوصیت کے ساتھ ہوتی ہے (یعنی بعض مخلوق تجلئ الٰہی کی خصوصی جو لانگاہ ہے ‘ خصوصیت کے ساتھ وہ جلوۂ خداوندی سے نورچیں ہوتی ہے ‘ اس پر خاص چمکار ١ اور پرتو پڑتا ہے ‘ اس سے جلوہ ریزی اور نور پاشی کرنے والی ذات کا محتاج مکان و زمان اور حامل کیف و کم ہونا لازم نہیں آتا ہے۔ وہ جلوۂ قدیم بےکیف ہے ........ بےمکان ہے ‘ بےزمان ہے اور ہر حادث مقدار و عوارض سے پاک ہے۔ یدبر الامر ہر کام کی (مناسب) تدبیر کرتا ہے۔ یعنی حسب تقاضائے حکمت وہ کائنات کے تمام امور کا فیصلہ کرتا ہے۔ تدبیر کا معنی ہے تمام امور کے ادبار (یعنی انجام) پر نظر رکھ کر کام کرنا تاکہ نتیجہ اچھا نکلے۔ ما من شفیع الا من بعد اذنہ کوئی (کسی کا) سفارشی نہ ہوگا مگر اس کے اذن کے بعد۔ اللہ کی عظمت کا اظہار اس فقرہ میں کیا گیا ہے۔ اس آیت کا نزول نضر بن حارث کے متعلق ہوا جس نے کہا تھا کہ اگر قیامت کا دن ہوا تو لات و عزّٰی میری سفارش کردیں گے (لات و عزّٰی عورت کی شکل کے دو بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی) آیت میں اشارہ ہے کہ قیامت کے دن شفاعت ضرور ہوگی مگر اللہ کی اجازت کے بعد ہوگی۔ ذلکم اللہ یہ اللہ ہے۔ یعنی وہ ذات جو صفات مذکورہ کا مجموعہ ہے اور صفات مذکورہ کا تقاضۂ الوہیت ہے ‘ وہی ذات اللہ ہے۔ ربکم تمہارا رب ہے۔ یعنی وہی تمہارا رب ہے ‘ اس کے سوا کوئی رب نہیں۔ یا اس کی صفات میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ فاعبدوہ پس تم اس کی پوجا کرو۔ یعنی اس کے سوا کسی کی پوجا نہ کرو۔ جماد تو الگ رہے ‘ ان میں تو نفع و نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہی نہیں ‘ کسی انسان اور فرشتے کی بھی پوجا نہ کرو۔ افلا تذکرون۔ کیا تم بالکل غور نہیں کرتے کہ غور کرنے سے اتنا سمجھ لو کہ اللہ ہی معبودیت کا مستحق ہے۔ جن کی تم پوجا کرتے ہو ‘ ان میں سے کوئی بھی معبود بننے کے قابل نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ) (پھر عرش پر مستوی ہوا) استواء علی العرش کے بارے میں سورة اعراف کی آیت (اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ ) (رکوع ٧) میں ضروری مضمون لکھ دیا گیا ہے۔ وہاں ملاحظہ فرمالیں۔ (انوار البیان ص ٤٤٠ ج ٣) پھر فرمایا (یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ) (اللہ تعالیٰ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے) سورة الم سجدہ میں فرمایا (یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ ) (وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر امر کی تدبیر کرتا ہے) یعنی تمام امور اس کی تدبیر کے مطابق اور حکمت کے موافق اور اسی کی قضاء وقدر کے مطابق وجود میں آتے ہیں۔ قال صاحب الروح والمراد بہ ھاھنا التقدیر الجاری علی وفق الحکمۃ والوجہ الاتم الاکمل ‘ اخرج ابو الشیخ وغیرہ عن مجاھد ان المعنی یقضی الامر والمراد بالامر امر الکائنات علویھا وسفلیھا حتی العرش الی آخر قال (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں یہاں مراد وہ تقدیر الٰہی ہے جو کہ حکمت الٰہی کے موافق تمام و کامل طور پر جاری ہے۔ ابو الشیخ وغیرہ نے حضرت مجاہد (رح) سے نقل کیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امور کا فیصلہ فرماتے ہیں اور امر سے مراد کائنات کا معاملہ ہے خواہ آسمانوں کے یا زمینوں کے معاملات حتیٰ کہ عرش بھی) (ص ٦٥ ج ١١) (مَا مِنْ شَفِیْعِ اِلَّا مِنْ م بَعْدِ اِذْنِہٖ ) (اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی سفارش کرنے والا نہیں ہے) اس کے حضور میں کسی کو سفارش کرنے کی جرأت وہمت نہیں ‘ ہاں وہ جسے اجازت دے دے وہی سفارش کرسکے گا اور یہ سفارش صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی۔ سورة مومن میں فرمایا (مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُ ) (ظالموں کے لئے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ہوگا جس کی بات مانی جائے) ۔ پھر فرمایا (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ) (وہ اللہ تمہارا رب ہے سو تم اسی کی عبادت کرو۔ ) (اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ) (کیا تم نصیحت نہیں حاصل کرتے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:“ اِنَّ رَبَّکُمْ الخ ”۔ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشر رسول ہونے پر وہ اس قدر حیران اور متعجب ہیں آخر وہ کہتا کیا ہے اور اللہ کے پاس سے پیغام کیا لایا ہے اس کی بات تو غور سے سنو وہ جو کچھ کہتا ہے عقل و فطرت کے عین مطابق اور حکمت و دانائی پر مبنی ہے۔ یہ توحید (نفی شرک فی التصرف) پر پہلی دلیل عقلی ہے۔ یعنی تمہارا کارساز تو وہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر سارے عالم کا نظام کار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ زمین و آسمان کی حکومت تنہا اسی کے قبضہ میں ہے اور وہی سارے عالم میں متصرف و مختار ہے۔ اس نے نظام عالم کا کوئی شعبہ کسی کے اختیار و تصرف میں نہیں دے رکھا۔ 8:“ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ” زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کرنے کی تفصیل سورة حم سجدہ رکوع 2 میں مذکور ہے۔ “ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ ” دو دن میں زمین پیدا کی “ وَ جَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَ بٰرَکَ فِیْھَا وَ قَدَّرَ فِیْھَا اَقْوَاتَھَا فِیْ اَرْبَعَةِ اَیَّامٍ ” اور دو دن میں پہاڑ پیدا کیے اور زمین میں مختلف خاصیتیں اور قوتیں ودیعت فرمائیں۔ اس طرح زمین کی پیدائش ہر لحاظ سے چار دن میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ “ فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ ” ساتوں آسمانوں اور پورے نظام شمسی کی تخلیق دو دن میں مکمل ہوئی اس طرح زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ سارے عالم کو آنِ واحد میں بھی پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ سارے عالم کو آنِ واحد میں بھی پیدا کرسکتا تھا۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ بالتدریج پیدا کیا تاکہ ہر ہر چیز کی تخلیق میں اس کی قدرت کاملہ اور صنعت بےمثال کا اظہار ہو۔ 9:“ ثُمَّ اسْتَوٰي الخ ” حضرت شیخ قدس سرہٗ نے فرمایا کہ استواء علی العرش حکومت وسلطنت سے کنایہ ہے یعنی زمین و آسمان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور اس کی حکومت و سلطنت اور سارا نظام عالم اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس نے نظام عالم کا کوئی اختیار کسی کے حوالے نہیں کیا۔ تفصیل سورة اعراف کی تفسیر میں گذر چکی ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ 63 ص 366 ۔ 10:“ مَا مِنْ شَفِیْعٍ الخ ” یہ دعائے سورت یعنی نفی شفاعت قہری کی بالاجمال صراحت ہے۔ جب زمین و آسمان کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے اور سب کچھ اسی کے اختیار و تصرف میں ہے تو پھر کون ہے جو اس کے سامنے دم مار سکے اور اس سے اپنی بات منوا سکے۔ یہاں دنیا اور آخرت میں شفاعت قہری کی نفی ہے اور آخرت میں شفاعت بالاذن کا ثبات ہے۔ مشرکین کا خیال تھا کہ وہ جن بزرگان خدا کو پکارتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے تمام کام کرادیں گے تو اللہ تعالیٰ نے یہاں اس شفاعت کی نفی فرما دی البتہ آخرت میں اللہ کے اذن سے شفاعت ہوگی اور وہ صرف ان گناہ گاروں کے لیے ہوگی جو دنیا سے ایمان لے کر رخصت ہوئے۔ مشرکوں کے حق میں کوئی شفاعت نہیں ہوگی۔ مسئلہ شفاعت کی مزید تحقیق سورة بقرہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے حاشیہ 501 ص 125 ۔ 11:“ ذٰلِکُمُ اللّٰهُ الخ ” یہ دلیل مذکور کا ثمرہ اور نتیجہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو مذکورہ بالا صفات سے متصف ہے وہی تمہارا کارساز ہے اس لیے صرف اسی کی عبادت کرو اور صرف اسی کو پکارو۔ اس کی پکار اور عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو۔ “ ذلکم العظیم الموصوف بما وصف به (فَاعْبُدُوْہ) وحدوہ ولا تشرکوا به بعض خلقه من انسان او ملک فضلاً عن جماد لا یضر و لا ینفع ” (مدارک ج 2 ص 117) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

3 بلاشبہ تمہارا رب تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آسمان و زمین کو تدریجاً چھ روز میں پیدا کیا پھر عرش پر اپنی شان کے لائق قائم اور جلوہ گر ہوا وہی ہر کام کی مناسب تدبیر کرتا ہے کوئی شخص اس سے سفارش کرنے والا نہیں مگر اس کی اجازت کے بعد یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو یا تم اس بات پر غور اور سچ بچار نہیں کرتے۔ یعنی چھ روز کی جس عرصہ میں مقدار پوری ہو اتنے عرصے میں تدریجاً پیدا کیا ہوسکتا ہے کہ ہزار برس کا ایک دن ہو اور ہوسکتا ہے یہی معمولی دن ہوں۔ اس کے روبرو کسی کو بدون اس کی اجازت کے شفاعت کا بھی حق نہیں۔ چہ جائے کہ تم عبادت میں شریک کرلو۔ یہ دلائل توحید و رسالت سننے کے بعد بھی تم نہ سمجھتے ہو نہ سوچتے ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جتنی دیر لگے چھ دن کو اتنے وقت میں بنائے آسمان اور زمین اور اس ملک کا دربار بنوایا عرش پر۔ سب کام کی تدبیر وہاں سے ہو۔ 12