Surat Younus

Surah: 10

Verse: 39

سورة يونس

بَلۡ کَذَّبُوۡا بِمَا لَمۡ یُحِیۡطُوۡا بِعِلۡمِہٖ وَ لَمَّا یَاۡتِہِمۡ تَاۡوِیۡلُہٗ ؕ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۹﴾

Rather, they have denied that which they encompass not in knowledge and whose interpretation has not yet come to them. Thus did those before them deny. Then observe how was the end of the wrongdoers.

بلکہ ایسی چیز کی تکذ یب کر نے لگے جس کو اپنے احاطہ ، علمی میں نہیں لائے اور ہنوز ان کو اس کا اخیر نتیجہ نہیں ملا جو لوگ ان سے پہلے ہوئے ہیں اسی طرح انہوں نے بھی جھٹلایا تھا ، سو دیکھ لیجئے ان ظالموں کا انجام کیسا ہوا ؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

بَلْ كَذَّبُواْ بِمَا لَمْ يُحِيطُواْ بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ... Nay, they have belied the knowledge whereof they could not comprehend and what has not yet been fulfilled. They did not believe in the Qur'an and they have not yet grasped it or comprehended it. وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ (And what has not yet been fulfilled), They have not attained the guidance and the true religion. So they belied it out of ignorance and foolishness. ... كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ... Those before them did belie. meaning, the past nations, ... فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ Then see what was the end of the wrongdoers! Look at how we Destroyed them because they denied Our Messengers in their wickedness, pride, stubbornness and ignorance. So beware you who deny the message that the same end will befall you. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 یعنی قرآن میں تدبر اور اس کے معنی پر غور کئے بغیر، اسکو جھٹلانے پر تل گئے۔ 39۔ 2 یعنی قرآن نے جو پچھلے واقعات اور مستقبل کے امکانات بیان کئے ہیں، اس کی پوری سچائی اور حقیقت بھی ان پر واضح نہیں ہوئی، اس کے بغیر جھٹلانا شروع کردیا، یا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے قرآن پر کما حقہ تدبر کئے بغیر ہی اس کو جھٹلایا حالانکہ اگر وہ صحیح معنوں میں اس پر تدبر کرتے اور ان امور پر غور کرتے، جو اسکے کلام الٰہی ہونے پر دلالت کرتے ہیں تو یقیناً اس کے فہم اور معانی کے دروازے ان پر کھل جاتے۔ اس صورت میں تاویل کے معنی۔ قرآن کریم کے اسرار و معارف اور لطائف و معانی کے واضح ہوجانے کے ہونگے۔ 39۔ 3 یہ ان کفار و مشرکین کو تنبیہ و سرزنش ہے، کہ تمہاری طرح پچھلی قوموں نے بھی آیات الٰہی کو جھٹلایا تو دیکھ لو ان کا کیا انجام ہوا ؟ اگر تم اس کو جھٹلانے سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] قرآن کے منزل من اللہ ہونے کے داخلی اور خارجی ثبوت :۔ کسی چیز کو جھٹلانے کے لیے دو طرح کے ثبوت درکار ہوتے ہیں ایک خارجی شہادت یا شہادات اور دوسرے داخلی شہادت یا شہادات۔ خارجی شہادت کی نفی تو اس طرح ہوتی ہے کہ کسی معترض نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کوئی شخص آپ کو آکر قرآن سکھلا جاتا تھا یا آپ قرآن سیکھنے کے لیے کبھی کسی کے پاس گئے ہوں یا یہ کام خط و کتابت یا قاصدوں کے ذریعہ سر انجام پاتا ہو اور داخلی شہادات کی نفی اس طرح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے جو بھی خبر دی یا پیشین گوئی کی وہ کبھی جھوٹی ثابت نہیں ہوئی بلکہ تاریخ اور وقوع کے اعتبار سے درست ہی ثابت ہوئی ان دو وجوہ کو علمی یا یقینی قرار دیا جاسکتا ہے ان کے علاوہ اور کوئی معقول وجہ نہیں ہوسکتی جس کی بنا پر قرآن کو جھٹلایا جاسکے۔ [٥٦] تاویل کا مطلب اور اس کی مثالیں :۔ تاویل سے مراد کسی دی ہوئی خبر کے وقوع پذیر ہونے کا وقت ہے پھر جب وہ خبر وقوع پذیر ہوجاتی ہے تو اس وقت سب لوگوں کو اس کی پوری طرح سمجھ آجاتی ہے خواہ اس سے پیشتر اس آیت کی سمجھ لاعلمی کی وجہ سے نہ آرہی ہو یا ذہول و نسیان کی وجہ سے اور ایسی مثالیں بھی قرآن میں بہت ہیں جن میں سے یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کیا گیا ہے۔ جب رسول اللہ اس دار فانی سے رحلت فرما گئے تو یہ صدمہ صحابہ کرام کے لیے ایسا جانکاہ تھا کہ بعض صحابہ کے اوسان خطا ہوگئے دوسروں کا کیا ذکر سیدنا عمر جیسے زیرک اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے کہ && جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ وفات پاگئے ہیں، میں اس کی گردن اڑا دوں گا && اتنے میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) تشریف لائے اور لوگوں کو مخاطب کرکے یہ آیت پڑھی ( وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ ١٤٤۔ ) 3 ۔ آل عمران :144) (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں جن سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں اگر وہ فوت ہوجائیں یا مارے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ صحابہ کہتے ہیں کہ جب ابوبکر صدیق (رض) یہ آیت سنائی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے پھر جسے دیکھو یہی آیت پڑھ رہا تھا۔ حالانکہ یہ آیت مدتوں پہلے نازل ہوچکی تھی اور صحابہ سینکڑوں مرتبہ اسے پڑھتے بھی رہے مگر اس کی سمجھ اس وقت آئی جب آپ فی الواقع وفات پاگئے۔ مندرجہ بالا مثال ذہول سے متعلق ہے اور لاعلمی کی مثالیں وہ تمام سائنسی نظریات ہیں جو وحی سے متصادم ہیں مثلاً کائنات کا آغاز کیسے ہوا آدم کی تخلیق کیونکر ہوئی۔ زمین، سورج اور چاند کیسے وجود میں آئے۔ کائنات کا انجام کیا ہوگا ؟ ان باتوں کے متعلق ہئیت دانوں نے جو نظریات قائم کیے ہیں وہ محض ظن وتخمین پر مبنی ہیں اور ان کا علم بھی محدود ہے جبکہ وحی یقینی چیز ہے جو ایسی علیم وبصیر ہستی سے نازل ہوئی ہے جس کا علم لا محدود ہے اور بعض ایسے امور ہیں جن کی تاویل کا وقت آچکا ہے اور سائنس نے وحی کے آگے سرتسلیم خم کردیا ہے مثلاً سورج کو ساکن قرار دیا جاتا رہا مگر آج اسے متحرک سمجھا جاتا ہے آج یہ بھی تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ تمام انسانوں کی آوازیں فضا میں محفوظ ہیں اور یہ بھی کہ انسان کے اعمال کے اثرات اس کے جسم پر مترتب ہوتے ہیں یہی وہ بات ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ فرشتے انسان کے تمام اعمال لکھتے جاتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا پورا ریکارڈ موجود ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ يُحِيْطُوْا بِعِلْمِهٖ : یعنی یہ لوگ جو قرآن کو جھٹلا رہے ہیں اور اس پر ایمان نہیں لا رہے، ان کے جھٹلانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے نہ اسے پوری طرح جانا اور نہ اس کے مطالب و مضامین سمجھنے کی کوشش کی، ان کی بنیاد جہالت، ہٹ دھرمی اور باپ دادا کی اندھی تقلید پر ہے، انھوں نے محض یہ دیکھ کر کہ قرآن ان کے موروثی عقائد و خیالات کی تردید کرتا ہے، جھٹ سے اس کا انکار کردیا، ورنہ قرآن کا ایسے حقائق کے بیان پر مشتمل ہونا جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں اور جن کی تہ تک یہ نہیں پہنچ سکتے کسی طرح بھی جھٹلانے کی وجہ نہیں بن سکتا۔ قصور ان کے فہم کا ہے قرآن کا نہیں۔ (روح المعانی، کبیر) یہی حال ان حضرات کا بھی ہے جو محض اپنے بزرگوں اور اماموں کی تقلید کے چکر میں پھنس کر صحیح حدیث سے انکار کردیتے ہیں، حالانکہ اگر وہ ان صحیح احادیث پر غور کرتے اور انھیں سمجھنے کی کوشش کرتے تو کبھی صحیح حدیث کو رد نہیں کرسکتے تھے۔ وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ : یعنی ان کے قرآن کو جھٹلانے کی اگر کوئی بنیاد ہے تو وہ یہ کہ وہ اس کی تاویل و تفسیر سمجھنے سے قاصر ہیں اور قرآن جن غیبی چیزوں پر مشتمل ہے ان کا وقوع ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہے، ورنہ اگر وہ غور و فکر کرتے اور جن امور کی پیش گوئی قرآن مجید میں کی گئی ہے ان کے واقع ہونے کا انتظار کرتے تو ان کا انکار از خود ہی زائل ہوجاتا۔ (روح المعانی) ” وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ “ کے متعلق شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یعنی جو وعدہ ہے اس قرآن میں وہ ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ “ (موضح) فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ : یعنی وہ ظالم سب کے سب برباد ہوگئے، فرمایا : (فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَان اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ) [ العنکبوت : ٤٠ ] ” تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کردیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔ “ اسی طرح اب یہ بھی اپنی تباہی و بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل (آیت) وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ ، تاویل سے مراد اس جگہ مال اور انجام ہے، مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی غفلت اور بےفکری سے قرآن میں غور نہیں کیا اور اس کی تکذیب کے انجام بد کو نہیں پہچانا، اس لئے تکذیب میں لگے ہوئے ہیں مگر موت کے بعد ہی سب حقائق کھل جاویں گے اور اپنے کئے کا مآل بد ہمیشہ کے لئے گلے کا ہار ہوجائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ يُحِيْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا يَاْتِہِمْ تَاْوِيْلُہٗ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٣٩ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ اول ( تاویل) التأويل من الأول، أي : الرجوع إلى الأصل، ومنه : المَوْئِلُ للموضع الذي يرجع إليه، وذلک هو ردّ الشیء إلى الغاية المرادة منه، علما کان أو فعلا، ففي العلم نحو : وَما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ [ آل عمران/ 7] ، وفي الفعل کقول الشاعر : وللنّوى قبل يوم البین تأويل وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ [ الأعراف/ 53] أي : بيانه الذي غایته المقصودة منه . وقوله تعالی: ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [ النساء/ 59] قيل : أحسن معنی وترجمة، وقیل : أحسن ثوابا في الآخرة . التاویل ۔ یہ بھی اول سے مشتق ہے جس کے معنی چیز کے اصل کی طرف رجوع ہونے کے ہیں اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اسے موئل ( جائے بازگشت) کہا جاتا ہے ۔ پس تاویل کسی چیز کو اس غایت کی طرف لوٹانا کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے ۔ چناچہ غایت علمیٰ کے متعلق فرمایا :۔ { وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ } ( سورة آل عمران 7) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا گے سوا کوئی نہیں جانتا یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور غایت عملی کے متعلق شاعر نے کہا ہے ۔ ، ، وللنوی ٰ قبل یوم البین تاویل ، ، اور جدائی کے دن سے پہلے جدائی کا انجام کا ( اور اس کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ اور قرآن میں ہے { هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ } ( سورة الأَعراف 53) اب صرف وہ اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے انجام کار کا انتظار کر رہے ہیں جس دن اس وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے ۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وعملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا } ( سورة النساء 59) میں بعض نے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے ( احسن تاویلا ہونا مراد لیا ہے اور بعض نے آخرت میں بلحاظ ثواب کے احسن ہونا مراد لیا ہے ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩) بلکہ یہ کافر ایک ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس کو اپنے احاطہ علمی میں نہیں لائے اور ابھی تک انکو اس قرآن حکیم کی تکذیب کا جس سے انکو قرآن حکیم میں ڈرایا گیا ہے، آخری نتیجہ نہیں پہنچا جو کافر ان سے پہلے ہوئے انہوں نے بھی اسی طرح آسمانی کتب اور رسولوں کو جھٹلایا تھا، جیسا کہ آپ کی قوم، آپ اور قرآن کریم کو جھٹلا رہے ہیں سو دیکھ لیجیے کہ ان مشرکین کا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا، کیسا برا انجام ہو ایا یہ کہ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے تاکہ کفار کی ایذا رسانی پر آپ صبر کریں اور اس کی وجہ سے غمگین اور پریشان نہ ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ ) یعنی یہ لوگ قرآن کے علوم کا ادراک اور اس کے پیغام کا شعور حاصل نہیں کرسکے۔ اس کے علاوہ عذاب کے بارے میں ان کو دی گئی دھمکیوں کا مصداق خارجی بھی ابھی ان پر ظاہر نہیں ہوا ‘ اس لیے وہ اس سب کچھ کو محض ڈراوا اور جھوٹ سمجھ رہے ہیں۔ قرآن میں ان لوگوں کو بار بار دھمکیاں دی گئی تھیں کہ اللہ کا انکار کرو گے تو اس کی پکڑ میں آجاؤ گے ‘ اس کی طرف سے بہت سخت عذاب تم پر آئے گا۔ یہ عذاب موعود چونکہ ابھی ظاہری طور پر ان پر نہیں آیا ‘ اسی لیے وہ قرآن کو بھی جھٹلا رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47. There can only be two justifiable grounds for those who wish to reject the Qur'an as a false scripture: either they should have definite knowledge to the effect that it is a fabrication or they should be able to demonstrate that the statements made by, or the information contained in it, are false. But as things stand, neither of these two reasons is available. For none can contend, on the basis of definite knowledge, that the Book had been authored by someone who, in his turn, falsely attributed it to God. Nor has anyone been able to penetrate the realms of the suprasensory world and claim, on that basis, that they know for sure that this Book contains false information; that whereas in fact there are several gods, this Book claims that there is none other than the One God; that all its statements about matters such as the existence of God and angels are counter to reality. Nor has anyone returned to life after having suffered death to contend that the Qur'anic statement about the reckoning and reward and punishment in the Next Life is false. Those who continue to decry the Qur'an as false are in fact doing so merely on grounds of conjecture, even though they do this with an air of confidence which at times creates the impression that statements about the fakeness and falsity of the Qur'anic teachings are scientifically established facts.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :47 تکذیب یا تو اس بنیاد پر کی جا سکتی تھی کہ ان لوگوں کو اس کتاب کا ایک جعلی کتاب ہونا تحقیقی طور پر معلوم ہوتا ۔ یا پھر اس بنا پر وہ معقول ہو سکتی تھی کہ جو حقیقتیں اس میں بیان کی گئی ہیں اور جو خبریں اس میں دی گئی ہیں وہ غلط ثابت ہو جاتیں ۔ لیکن ان دونوں وجوہ تکذیب میں سے کوئی وجہ بھی یہاں موجود نہیں ہے ۔ نہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ کہ وہ از روئے علم جانتا ہے کہ یہ کتاب گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کی گئی ہے ۔ نہ کسی نے پردہ غیب کے پیچھے جھانک کر یہ دیکھ لیا ہے کہ واقعی بہت سے خدا موجود ہیں اور یہ کتاب خواہ مخواہ ایک خدا کی خبر سنا رہی ہے ، یا فی الواقع خدا اور فرشتوں اور وحی وغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کتاب میں خواہ مخواہ یہ افسانہ بنا لیا گیا ہے ۔ نہ کسی نے مر کر یہ دیکھ لیا ہے کہ دوسری زندگی اور اس کے حساب کتاب اور جزا و سزا کی ساری خبریں جو اس کتاب میں دی گئی ہیں غلط ہیں ۔ لیکن اس کے با وجود نرے شک اور گمان کی بنیاد پر اس شان سے اس کی تکذیب کی جا رہی ہے کہ گویا علمی طور پر اس کے جعلی اور غلط ہونے کی تحقیق کر لی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: یعنی ان کے جھٹلانے کا انجام جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی صورت میں ظاہر ہونے والا۔ ابھی تک ان کے سامنے نہیں آیا، لیکن پچھلی قوموں کے انجام سے ان کو عبرت حاصل کرنی چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:39) بل۔ بلکہ (ملاحظہ ہو 2:135) آیۃ ہذا میں اس کا استعمال ماقبل کے ابطال کے لئے ہے کہ ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ یہ کلام من گھڑت اور خود ساختہ ہے (ام یقولون افترہ) اور مابعد کے اثبات کے لئے کہ (حقیقت یہ ہے) وہ اس کلام کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے اور نہ ہی اس کلام کا انجام (جس کی وہ خبر دیتا ہے) ابھی تک ان کے سامنے آیا ہے۔ کذبوا بما لم یحیطوا بعلم۔ کذبوا۔ ماضی جمع مذکر غائب انہوں نے جھٹلایا (باب تفعیل) ب تعدیہ کے لئے ہے اس صورت میں مطلب ہوگا۔ کذبوا ب انہوں نے جھٹلایا اور اس سے اگلا جملہ مالم یحیطوا بعلم مفعول ہوگا۔ انہوں نے جھٹلایا (اس کلام کو) جس کے علم کو وہ احاطہ ادراک میں نہ لاسکے (ہ ضمیر القرآن کے لئے ہے) ما موصولہ ہے لم یحیطوا مضارع نفی جحد بلم بمعنی ماضی۔ انہوں نے احاطہ نہ کیا۔ وہ حاوی نہ ہوئے۔ انہوں نے پوری طرح نہ جانا۔ علمہ مضاف ۔ مضاف الیہ۔ اس کے علم کو (یعنی قرآن حکیم کے جملہ علوم کو) یعنی اس چیز (قرآن حکیم) کو جسے وہ پوری طرح نہ جان سکے۔ انہوں نے جھٹلادیا۔ اس کا انکار کردیا۔ یا انہوں نے تکذیب کی اس چیز کی جس کے معارف پر وہ مکمل آگہی ھاصل نہ کرسکے۔ لما۔ حرف نفی۔ لما سے جس نفی کا حصول ہوتا ہے وہ زمانہ حال تک ممتد۔ مسلسل ہوتی ہے۔ (ابھی تک نہیں) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو (2:214) ۔ تاویلہ۔ تاویل (تفعیل) اول سے مشتق ہے جس کا معنی کسی چیز کا اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے کے ہیں۔ اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اسے موئل کہتے ہیں (یعنی جائے باز گشت) کہا جاتا ہے۔ لوٹ آنے کی جگہ۔ جائے پناہ۔ بل لہم موعد لن یجدوا من دونہ موئلا (18:58) بلکہ ان کے لئے ایک مقررہ وقت ہے بدوں جس کے وہ کوئی پناہ گاہ نہ پائیں گے۔ پس تاویل کسی چیز کو اس کی غایت کی طرف لوٹانا کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے۔ چناچہ غایت علمی کے متعلق فرمایا۔ وما یعلم تاویلہ الا اللہ (3:6) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ غایت عمل کے متعلق ہے ہل ینظرون الا تاویلہ یوم یاتی تاویلہ (7:53) کیا اب صرف وہ اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے انجام کار کا انتظار کر رہے ہیں جس دن اس وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وہ عملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی۔ آیۃ ہذا میں اسی عملی غایت کی طرف اشارہ ہے یعنی ابھی تک وہ اجر و ثواب یا سزا و عذاب جس کا ذکر قرآن حکیم میں ہوا ہے پردہ غیب میں مستور ہے اور ابھی تک اس کا وقوع نہیں ہوا۔ اور ترجمہ آیت ہذا کا ہوگا جس کی حقیقت یا انجام کار ابھی تک ان پر ظاہر بھی نہیں ہوا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ تو پڑھے لکھ ہیں اور نہ انہوں نے کسی عالم کی صحبت پائی ہے۔ ان کے مقابلے میں تم میں بڑے بڑے شاعر اور نامور ادیب موجود ہیں۔ جنہیں اپنی زبانی دانی اور فصاحت و بلاغت پر غرہ ہے۔ ان سب کو ہلا کر ایک ہی ایسی صورت بنا کر پیش کردو جس میں قرآن کی سی فصاحت و بلاغت اور دوسری کو خوبیاں پائی جاتی ہوں۔ اگر تم ایسا کرسکو تو تمہارا یہ گمان صحیح ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے از خود یا دوسرے کی مدد سے تصنیف کرلیا ہے۔ لیکن اگر تم ایسا نہ کرسکو اور یقینا تم ایسا نہ کرسکے گے تو معلوم ہوا کہ تمہارا یہ گمان سراسر بےبنیاد اور فسدو عناد اور تعصب پر مبنی ہے۔ نیز دیکھئے بقرہ آیت 32) ۔ 7 ۔ یعنی یہ لوگ جو قرآن کو جھٹلا رہے اور اس پر ایمان لانے سے انکار کرر ہے ہیں، اس کی بنیا دجہالت، ہٹ دھرمی اور باپ دادا کی اندھی تقلید پر ہے۔ انہوں نے نہ اس پر کبھی غور کیا اور نہ اس کے مضامین و مطالب سمجھنے کی کوشش کی۔ محض یہ دیکھ کر کہ قرآن ان کے موروثی عقائد و خیالات کی تردید کرتا ہے۔ انہوں نے جھٹ سے اس کا انکار کردیا۔ ورنہ قرآن کا ایسے حقائق کے بیان پر مشتمل ہونا جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں اور ان کے ہدف ادراک سے باہر ہیں کسی طور وجہ تکذیب نہیں بن سکتا۔ (روح۔ کبیر) ۔ یہی حال ان حضرات کاتبی ہے جو محض اپنے گزرگوں اور اماموں کی تقلید کے چکر میں پھنس کر صحیح سے صحیح حدیث سے انکار کردیتے ہیں حالانکہ اگر وہ ان صحیح احادیث پر غور کرتے اور انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے تو کبھی کسی صحیح حدیث کو رد نہیں کرسکتے تھے۔ (کذافی الوحیدی) ۔ 8 ۔ یعنی ان کے قرآن کو جھٹلانے کی اگر کوئی بنیاد ہے تو وہ یہ کہ وہ اس کی تاویل و تفسیر سمجھنے سے قاصر ہیں اور قرآن جن اخبار غیبیہ پر مشتمل ہے ان کا وقوع ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں ہے۔ ورنہ اگر وہ غور و فکر کرتے اور جن امور کی پیش گوئی قرآن میں کی گئی ہے ان کے وقوع کا انتظار کرتے تو ان کا انکار از خود ہی زائل ہوجاتا۔ (ازروح المعانی۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ یعنی جو وعدہ ہے اس قرآن میں وہ ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ (موضح) ۔ 9 ۔ سب کے سب تباہ و برباد ہوئے۔ اسی طرح اب یہ بھی اپنی تباہی و بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ (کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ لم یحیطوا کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس امر میں کلام کرے پہلے اس کی تحقیق تو کرلے بعد تحقیق جو کلام کرنا ہوکرے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مخالفین نبوت کی قرآن مجید کے بارے میں جہالت۔ قرآن مجید کے بارے میں یہ کہنا کہ نبی کا بنایا ہوا ہے۔ حقیقتاً قرآن کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ جھٹلانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت اور کم فہمی کی وجہ سے قرآن مجید کی سچائی اور عظمت کا ادراک نہیں کرسکے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے جس ہولناک عذاب سے انہیں ڈرایا ہے اس میں یہ لوگ ابھی تک مبتلا نہیں ہوئے۔ حالانکہ تاریخ کا مطالعہ کرتے اور اپنے سے پہلی اقوام کا انجام دیکھتے تو انہیں قرآن کی سچائی اور اس کی عظمت کا علم ہوجاتا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے۔ اگر ہم نے اس کا انکار کیا تو ہمارے ساتھ بھی وہ کچھ ہوگا جو ہم سے پہلے ظالموں کے ساتھ ہوا ہے۔ بہرحال ان میں کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ لوگ ہرگز نہیں مانیں گے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا رب ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اگر ان کے ظلم کے باوجود ان پر گرفت نہیں کر رہا ہے تو یہ اس کا اصول ہے کہ وہ ایک مدت تک ظالموں کو مہلت دیا کرتا ہے۔ تاکہ انہیں ظلم وتعدی کرنے میں کوئی حسرت نہ رہے۔ دوسری طرف ایمان والوں کو اچھی طرح پرکھ لیا جائے کہ وہ اپنے دعویٰ ایمان میں کس حد تک سچے اور لوگوں کے لیے کس قدر قابل عمل نمونہ ثابت ہوتے ہیں۔ (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْرٌ لِأَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِیْنٌ)[ آل عمران : ١٧٨] ” کافر لوگ ہرگز یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں یہ ان کے حق میں بہتر ہے بلاشبہ ہم انہیں صرف اس لیے ڈھیل دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ گناہ کرلیں اور ان کے لیے رسو اکن عذاب ہوگا۔ “ مسائل ١۔ اس بات کو نہیں جھٹلانا چاہیے جس بات کا علم انسان کے احاطہ معلومات سے باہر ہو۔ ٢۔ اللہ کی کتابوں کی تکذیب پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ ٣۔ قرآن مجید کی تکذیب کرنے والوں کو پہلے لوگوں کا انجام سامنے رکھنا چاہیے۔ ٤۔ کتاب اللہ پر ایمان لانے اور نہ لانے والے دونوں ہی ہمیشہ سے موجود ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ مفسدین کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن فساد کرنے والے لوگ اور ان کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ (یونس : ٤٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کی اصلاح نہیں فرماتا۔ (یونس : ٨١) ٣۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (القصص : ٧٧) ٤۔ فساد کرنے والوں کا انجام دیکھیے۔ (النمل : ٤١) ٥۔ فساد کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے اور آخرت میں ان کا بد ترین ٹھکانہ ہے۔ (الرعد : ٢٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (البقرۃ : ٢٠٥) ٧۔ فساد پھیلانے والوں کو قتل کردیا جائے یا سولی پر لٹکا دیا جائے۔ (المائدۃ : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بل کذبوا بما لم یحیطوا بعلمہ ولا بانھم تاویلہ بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس کے علم کا احاطہ انہوں نے نہیں کیا اور ابھی اس کی حقیقت ان کے سامنے نہیں آئی۔ یعنی ان کا کلام اور قرآن کی حقانیت سے انکار کسی غور و تحقیق پر مبنی نہیں ہے بلکہ قرآن کی حقیقت کو جانے بغیر اور بلا غور و فکر کے فقط سنتے ہی انہوں نے قرآن کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار کردیا۔ انہوں نے ابھی سوچا ہی نہیں کہ یہ کلام انسانی طاقت سے باہر ہے۔ قرآن نے جو غیب کی خبریں بتائی ہیں ‘ مبدء اور معاد سے آگاہی اور ثواب و عذاب کی اطلاع دی ہے ‘ ابھی تک اس کے ظہور کا موقع ہی نہیں آیا ہے۔ ان پر لازم تھا کہ کتب سابقہ کے عالموں سے پوچھتے کہ یہ باتیں جو قرآن بیان کر رہا ہے ‘ ان کی کتابوں میں بھی ہیں یا نہیں۔ اس تحقیق سے یقیناً قرآن کی سچائی ان پر واضح ہوجاتی۔ قرآن کی عبارت اور تعلیم و معانی کا معجز ہونا ان لوگوں پر ظاہر ہو سکتا ہے جو غور کریں ‘ سوچیں اور قرآنی علوم کی تحقیق کریں۔ انہوں نے تو نہ الفاظ قرآن پر غور کیا نہ معانی کی تفتیش کی اور لگے فوراً انکار کرنے۔ لَمَّا یَأتِھِمْابھی تک اس کی حقیقت سامنے نہیں آئی۔ لَمَّا اس جگہ توقع کا لفظ ہے جو قرآن کے اعجاز کے ظاہر ہونے کی امید دلا رہا ہے۔ چناچہ جب بار بار ان کو دعوت مقابلہ دی گئی اور پوری طاقتیں انہوں نے قرآن کے مقابلہ میں صرف کردیں اور تجربہ کرلیا اور مقابلہ کی طاقتوں نے کچھ کام نہ دیا تو قرآن کا معجز ہونا ان پر ظاہر ہوگیا۔ اسی طرح قرآن کی دی ہوئی خبریں بار بار سامنے آگئیں اور سچی ثابت ہوگئیں ‘ جیسے غُلِبَتِ الرُّوْمُ الخ میں ہے کہ رومی مغلوب ہوگئے لیکن عنقریب غالب ہوجائیں گے۔ چناچہ آئندہ رومی ‘ ایرانیوں پر غالب ہوگئے۔ یا جیسے تَبَّتْ یَدآ اَبِی لَھَبِ وَّتَبَّ میں ابولہب کی ہلاکت کی پیشین گوئی کی گئی اور وہ پوری ہو کر رہی۔ اس تجربہ کے بعد کچھ لوگ ایمان لے آے اور کچھ جذبۂ عناد کے زیر اثر کافر رہے۔ حقیقت ‘ معاندین کے سامنے بھی آگئی تھی ‘ وہ حقانیت کو پہچان چکے تھے۔ یَعْرِفُوْنَّہُ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَھُمْ ۔ دلوں سے ان کو بھی قرآن کی صداقت کا یقین ہوچکا تھا مگر عناداً ماننے سے انکار کردیا۔ وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُھُمْ ۔ کذلک کذب الذین من قبلھم اسی طرح (پیغمبروں اور اللہ کی کتابوں کی) تکذیب کی تھی ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے۔ یعنی ان لوگوں نے قرآن کی جس طرح تکذیب کی ‘ اسی طرح ان سے پہلے کے کافروں نے اپنی اپنی الٰہی کتابوں اور خدائی فرستادوں کی تکذیب کی تھی۔ فانظر کیف کان عاقبۃ الظلمین۔ لیکن دیکھ لو کہ ان ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔ یہ تنبیہ ہے قرآن کے منکروں کو کہ اگر یہ باز نہ آئے تو ان کا بھی وہی نتیجہ ہوگا جو گزشتہ منکرین کا ہوا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55: انہوں نے قرآن کے مضامین میں غور و فکر نہیں کیا نہ ان کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ان کی تکذیب کسی معقول سبب پر مبنی ہو اور انہوں نے قرآنی مضامین میں کوئی شبہ پایا ہو بلکہ وہ محض ضد وعناد کی بنا پر تکذیب کر رہے ہیں۔ یعنی “ کلامھم و انکارھم للقراٰن لیس مبتنیا علی التحقیق والتفکر ” (مظہری ج 5 ص 28) ۔ 56: یہ جملہ حالیہ ہے یعنی ابھی تک ان کو وعید کا مصداق (عذاب) نہیں آیا۔ حاصل یہ کہ قرآن کے مقابلہ میں سورت بنا کر لانا تو درکنار ان میں اتنا عقل و فہم کہاں وہ تو ایک ایسی بات کی تکذیب کر رہے ہیں جس کے بطلان کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور ابھی ان کو اس تکذیب کی سزا نہیں ملی وہ پہلے لوگوں کا حال نہیں دیکھتے کہ تکذیب کی ان کو کیا سزا ملی۔ “ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ الخ ” مشرکین امم سابقہ نے بھی یہی کیا تھا۔ فکر و تدبر کے بغیر ہی محض عنادًا پیغام خداوندی کی تکذیب کردی “ کذبوا رسلھم قبل النظر فی معجزاتھم و قبل تدبرھا عنادًا و تقلیدًا للاٰباء ” (مارک ج 2 ص 126) ۔ پھر ان کا جو انجام ہوا وہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

39 بلکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس چیز کو جھٹلانے لگے جس کے سمجھنے پر قابو نہ پاسکے اور جس کی حقیقت کا پوری طرح احاطہ بھی نہ کرسکے اور ابھی تکذیب کا مال و انجام بھی ان کے سامنے نہیں آیا اسی طرح جو منکر ان سے پہلے گزرے ہیں انہوں نے بھی اسی طرح تکذیب کا طریقہ اختیار کیا تھا جس طرح یہ کر رہے ہیں لہٰذا اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ دیکھ لیجئے اُن ظالموں کا انجام کیسا ہوا یعنی مطالب قرآنی اور مفاہیم قرآنی پر غور نہیں کرتے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور جب قرآن کریم کے مطالب و مفاہیم پر قابو نہیں پاسکتے تو جھٹلانا شروع کردیتے ہیں یہ لوگ ان مواعید کا انتظار کر رہے ہیں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ وہ انجام بھی ان کے سامنے نہیں آیا اس لئے جھٹلانا شروع کردیا۔ بہرحال ! ہر زمانے کے کفار کی جو ذہنیت رہی ہے وہی ان کی بھی ہے اور جو ان ظالموں کا حشر ہوا وہی ان کا بھی ہونے والا ہے خواہ سب کانہ ہو کیونکہ بعض ایمان بھی لے آئیں گے جیسا کہ آگے کی آیت میں ارشاد ہوا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ اس کی حقیقت نہیں آئی یعنی جو وعدہ ہے اس قرآن کریم میں وہ ظاہر نہیں ہوا۔ خلاصہ یہ کہ مفسرین نے تاویل کے کئی معنی کئے ہیں ان کی رعایت رکھی گئی ہے۔