Surat Younus

Surah: 10

Verse: 49

سورة يونس

قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ؕ اِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ فَلَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ ﴿۴۹﴾

Say, "I possess not for myself any harm or benefit except what Allah should will. For every nation is a [specified] term. When their time has come, then they will not remain behind an hour, nor will they precede [it]."

آپ فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے تو کسی نفع کا اور کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہی نہیں مگر جتنا اللہ کو منظور ہو ، ہر امت کے لئے ایک معین وقت ہے جب ان کا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلاَ نَفْعًا ... Say: "I have no power over any harm or profit to myself." I will not say except what He has taught me. I also have no authority over anything that Allah has not shown to me. I am Allah's servant and His Messenger to you. I was told that the Hour is going to come, but He has not told me when it will occur. ... إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ ... except what Allah may will. ... لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ... For every Ummah, there is a term appointed; meaning that for every generation or community there is a set term appointed for them. ... إِذَا جَاء أَجَلُهُمْ ... when their term comes, When the end of that term approaches, ... فَلَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ neither can they delay it nor can they advance it an hour (or a moment). This is similar to what Allah said in another Ayah: وَلَن يُوَخِّرَ اللَّهُ نَفْساً إِذَا جَأءَ أَجَلُهَأ And Allah grants respite to none when his appointed time (death) comes. (63:11) Allah instructed His Messenger to tell the people that His punishment would come suddenly. He said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یہ مشرکین کے عذاب الٰہی مانگنے پر کہا جا رہا ہے کہ میں تو اپنے نفس کے لئے بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ چہ جائیکہ کہ میں کسی دوسرے کو نقصان یا نفع پہنچا سکوں، ہاں سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی مشیت کے مطابق ہی کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ نے ہر امت کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، اس وقت تک مہلت دیتا ہے۔ لیکن جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر وہ ایک گھڑی پیچھے ہوسکتے ہیں نہ آگے سرک سکتے ہیں۔ تنبیہ : یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ جب افضل الخلائق سید الرسل حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں، تو آپ کے بعد انسانوں میں اور کون سی ہستی ایسی ہوسکتی ہے جو کسی کی حاجت برآری اور مشکل کشائی پر قادر ہو ؟ اسی طرح خود اللہ کے پیغمبر سے مدد مانگنا، ان سے فریاد کرنا " یا رسول اللہ مدد " اور اغثنی یارسول اللہ " وغیرہ الفاظ سے استغاثہ واستعانت کرنا، کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کی اس آیت اور اس قسم کی دیگر واضح تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ یہ شرک کے ذیل میں آتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ : یعنی یہ تعیین میرے اختیار میں نہیں، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ہر امت کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وقت مقرر ہے، جب وہ آجائے گا پھر ایک لمحے کا آگا پیچھا نہیں ہوگا۔ قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ۔۔ : یعنی تمہاری موت کا وقت یا عذاب آنے کا وقت سب اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت اور مرضی پر موقوف ہے، جب چاہے گا تم پر عذاب بھیجے گا اور جب تک نہیں چاہے گا نہیں بھیجے گا۔ رہا تمہارا مجھ سے اصرار تو میں تمہیں کیا بتاؤں، میں تو خود اپنی ذات کے لیے نہ کسی نقصان کا مالک ہوں اور نہ کسی نفع کا، مگر جو اللہ چاہے، میرے اختیار میں ہوتا تو تم پر کبھی کا عذاب آچکا ہوتا۔ دیکھیے سورة انعام (٥٧، ٥٨) قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں کو سخت تنبیہ ہے جو مصیبتوں اور مشکل کی گھڑیوں میں، جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدد طلب کرتے ہیں، یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی چیزیں چاہتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پورا نہیں کرسکتا۔ یہ مقام صرف رب العالمین کا ہے جس نے تمام انبیاء، صالحین اور مخلوقات کو پیدا فرمایا، وہی انھیں روزی اور زندگی بخشتا ہے اور جب چاہتا ہے اس دنیا سے اٹھا لیتا ہے، پھر کسی نبی یا فرشتے یا کسی نیک سے نیک بندے سے کسی ایسی چیز کی درخواست کیونکر کی جاسکتی ہے جس پر اسے قدرت ہی حاصل نہیں ؟ اس آیت میں نصیحت کا خاص پہلو یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں جو تمام بنی آدم کے سردار اور تمام انبیاء سے افضل ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے کسی نقصان یا نفع کا مالک نہ ہونے کی صراحت فرما دی ہے تو کوئی ولی یا امام یا پیر اپنے یا کسی دوسرے کے نفع نقصان کا مالک کیونکر ہوسکتا ہے ؟ سخت تعجب کا مقام ہے کہ پھر بھی کچھ لوگ، جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں، مردوں کی قبروں پر جھکتے اور ان سے ایسی ایسی مرادیں طلب کرتے ہیں جنھیں پورا کرنے کی قدرت اللہ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ یہ صریحاً شرک اور کلمہ ” لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ “ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور اس سے بڑھ کر افسوس ان کے علماء و مشائخ پر ہے جو انھیں اس کام سے منع نہیں کرتے۔ یہ وہی جاہلیت ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے عربوں میں پائی جاتی تھی، بلکہ اس کا معاملہ اس جاہلیت سے بھی زیادہ سخت ہے، کیونکہ عرب مشرکین نفع نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھتے تھے اور بتوں کو صرف اپنا سفارشی خیال کرتے تھے، مگر یہ لوگ تو قبروں والوں کو نفع نقصان کا مالک سمجھتے ہیں اور کبھی ان کو علیحدہ اور کبھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکارتے ہیں۔ اس امت میں کتنے ہی لوگ ہیں جنھیں شیطان مردود نے اس ذریعے سے کفر کی راہ پر ڈال دیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہوئے اس پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں کہ (اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا) [ الکہف : ١٠٤ ] ” وہ بڑا نیک کام کر رہے ہیں۔ “ [ فَإنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے۔ آمین ! (مختصر از شوکانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝ ٠ ۭ لِكُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ۝ ٠ ۭ اِذَا جَاۗءَ اَجَلُھُمْ فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۝ ٤٩ ملك المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، وذلک لقوله : لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [ غافر/ 16] ( م ل ک ) الملک ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ جسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [ غافر/ 16] آج کسی کی بادشاہت ہے ۔ خدا کی کو اکیلا ادر غالب ہے ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ لا یستاخرون ۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ وہ دیر نہیں کرسکتے۔ وہ تاخیر نہیں کرسکتے۔ استساخر یستاخر استئخار ( استفعال) اخر مادہ۔ لا یستقدمون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ استقدام ( استفعال) مصدر وہ اول نہیں ہوسکتے۔ وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ وہ تقدم ( تاخیر کی ضد ) نہیں کرسکتے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) سو آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کے حاصل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا مگر جتنا اختیار نفع حاصل کرنے اور ضرر کے دور کرنے کا اللہ کو منظور ہے۔ ہر ایک دین والوں کے لیے ایک وقت مقررہ اور مہلت ہے سو جب ان کی ہلاکت کا وہ وقت آپہنچتا ہے تو اس وقت ایک گھڑی بھی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ط) جیسے ہر امت کے لیے ایک رسول ( علیہ السلام) ہے ‘ اسی طرح ہر امت کے لیے اس کی اجل (مہلت کی مدت) بھی مقرر کردی گئی ہے۔ اللہ کی مشیت اور حکمت کے مطابق ان کے لیے مقرر کردہ وقت بہر حال پورا ہو کر رہتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57. In response to the unbelievers' query, the Prophet (peace be on him) makes it clear that he had never claimed that he himself would come forth with the judgement mentioned above, or that it lay in his power to afflict people with punishment. There was no point, therefore, in asking him when the final judgement against them would come to pass. The warning of punishment had been given by God rather than by the Messenger. Hence it lay only in God's power to decide when His judgement should come to pass, and in which form God would execute His warning to punish unbelievers. 58. God does not act in haste in judging a people. He does not summarily punish or reward people the very moment they reject or accept a Messenger's call. Instead, God grants a long respite both to individuals and to nations. He once that term - which has been determined by God with full justice - is over, and the individual or nation concerned does not give up its rebellious attitude, God's judgement is enforced. The time for the enforcement of such judgement can never come a moment before or after the time fixed for it by God.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :57 یعنی میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ فیصلہ میں چکاؤں گا اور نہ ماننے والوں کو میں عذاب دوں گا ۔ اس لیے مجھ سے کیا پوچھتے ہو کہ فیصلہ چکائے جانے کی دھمکی کب پوری ہوگی ۔ دھمکی تو اللہ نے دی ہے ، وہی فیصلہ چکائے گا اور اسی کے اختیار میں ہے کہ فیصلہ کب کرے اور کس صورت میں اس کو تمہارے سامنے لائے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :58 مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی جلد باز نہیں ہے ۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت رسول کی دعوت کسی شخص یا گروہ کو پہنچی اسی وقت جو ایمان لے آیا بس وہ تو رحمت کا مستحق قرار پایا اور جس کسی نے اس کو ماننے سے انکار کیا یا ماننے میں تامل کیا اس پر فورا عذاب کا فیصلہ نافذ کر دیا گیا ۔ اللہ کا قاعدہ یہ ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کے بعد وہ ہر فرد کو اس کی انفرادی حیثیت کے مطابق ، اور ہر گروہ اور قوم کو اس کی اجتماعی حیثیت کے مطابق ، سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی وقت دیتا ہے ۔ یہ مہلت کا زمانہ بسا اوقات صدیوں تک دراز ہوتا ہے اور اس بات کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی مہلت ملنی چاہیے ۔ پھر جب وہ مہلت ، جو سراسر انصاف کے ساتھ اس کے لیے رکھی گئی تھی ، پوری ہو جاتی ہے اور وہ شخص یا گروہ اپنی باغیانہ روش سے باز نہیں آتا ، تب اللہ تعالی اس پر اپنا فیصلہ نافذ کرتا ہے ۔ یہ فیصلے کا وقت اللہ کی مقرر کی ہوئی مدت سے نہ ایک گھڑی پہلے آسکتا ہے اور نہ وقت آجانے کے بعد ایک لمحہ کے لیے ٹل سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:49) اجل ۔ مدت مقررہ۔ وقت معین۔ لا یستاخرون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ وہ دیر نہیں کرسکتے۔ وہ تاخیر نہیں کرسکتے۔ استساخر یستاخر استئخار (استفعال) اخر مادہ۔ لا یستقدمون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ استقدام (استفعال) مصدر وہ اول نہیں ہوسکتے۔ وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ وہ تقدم (تاخیر کی ضد ) نہیں کرسکتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ تو دوسروں کو نفع یا نقصان پہنچانا یا ان پر اپنی مرضی سے عذاب نازل کرنا میرے اختیار میں کیونکر ہوسکتا ہے۔ (وکائی) یہ منکرین نبوت کے پانچویں شبہ کا جواب ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ان کو عذاب کی دھمکی دیتے تو وہ متی ھذا الوعد کہہ کر اعتراض کرتے۔ اگلی آیت میں اسی کا جواب ہے۔ (کبیر) ۔ 11 ۔ یعنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی پر موقوف ہے۔ وہی جب چاہے گا تم پر عذاب بھیجے گا اور جب تک نہیں چاہے گا نہیں بھیجے گا۔ قاضی شوکانی فرماتے ہیں : اس آیت میں جن لوگوں کو سخت تننبیہ ہے جو مصیبتوں اور مشکل کی گھڑیوں میں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی ٹال نہیں سکتا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدد طلب کرتے ہیں یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے چیزیں چاہتے ہیں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی پورا نہیں کرسکتا۔ یہ مقام صرف اللہ رب العالمین کا ہے جس نے تمام انبیاء، صالحین اور مخلوقات کو پیدا کیا۔ وہی انہیں روزی اور زندگی بخشتا اور جب چاہتا ہے اس دنیا سے اٹھا لیتا ہے۔ پھر کسی نبی یا کسی فرشتے یا کسی نیک سے نیک ندے سے کسی اور چیز کی درخواست کیونکر کی جاسکتی ہے جس پر اسے قدرت ہی حاصل نہیں۔ اس آیت میں نصیحت کا خاص پہلو یہ ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں جو تمام اپنی آدم کے سردار اور تمام انبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے افضل میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خود اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں تو کوئی ولی۔ امام یا پیر اپنے علاوہ کسی دوسرے کے نفع و نقصان کا مالک کیونکر ہوسکتا ہے۔ سخت تعجب کا مقام ہے کہ پھر بھی کچھ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں۔ مردوں کی قبروں پر جھکتے اور ان سے ایسی ایسی مرادیں طلب کرتے ہیں جنہیں پورا کرنے کی قدرت اللہ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ یہ صریحاً شرک اور کلمہ ” لا الہ الا اللہ “ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور اس سے بڑھ کر افسوس ان کے علما اور مشائخ پر ہے جو انہیں اس کام سے منع نہیں کرتے۔ یہی وہی جاہلیت ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے عربوں میں پائی جاتی تھی بلکہ اس کا معاملہ اس جاہلیت سے زیادہ سخت ہے کیونکہ عرب مشرکین نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھتے تھے اور بتوں کو صرف اپنا سفارشی خیال کرتے تھے مگر یہ لوگ تو قبر والوں کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہیں اور کبھی ان کو علیحدہ اور کبھی اللہ تعالیٰ کیساتھ پکارتے ہیں۔ اس امت کے کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں شیطان مردود نے اس ذریعہ سے کفر کی راہ پر ڈال دیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہوئے اس پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ انھم یعسنون صنعا کہ وہ بڑا نیک کام کر رہے ہیں۔ فانا اللہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے۔ (مختصرا شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ پس جب اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں تو دوسرے کے نفع و نقصان کا تو کیونکہ مالک ہوں گا پس عذاب واقع کرنا میرے اختیار میں نہیں۔ 3۔ اسی طرح تمہارے عذاب کا بھی وقت معین ہے اس وقت اس کا وقوع ہوجائے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کرنے پر کفار کو اس کا جواب۔ کفار اور مشرکین کا ابتدا ہی سے انبیائے کرام کے ساتھ یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ان سے ایسے مطالبات کرتے ہیں جن کا تعلق انبیاء کی نبوت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن منکرین نبوت انبیاء سے اس لیے اپنے مطالبات منوانے پر زور دیتے تھے تاکہ عوام الناس کو ذہنی طور پر الجھا کر یہ مغالطہ دیا جائے کہ اگر یہ شخص واقعی اللہ کا رسول ہوتا تو ہمارا مطالبہ پورا کردیتا۔ اگر یہ ہمارا مطالبہ پورا کر دے تو ہم اپنی قوم کے ساتھ مل کر اس کے دست وبازو بن جائیں گے۔ لیکن یہ شخص ہمارا مطالبہ پورا کر نہیں سکتا خوامخواہ نبوت کا دعویٰ کررہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ کفار کے اس پروپیگنڈہ کا مختلف انداز سے جواب دیا گیا جس کا ایک جواب یہ بھی ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے واشگاف الفاظ میں فرمائیں کہ میں نے کبھی خدا کی خدائی میں حصہ دار ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ میرا اعلان تو یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں میں وہی کچھ تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں جس کا مجھے اللہ حکم دیتا ہے۔ خدا کی خدائی کے سامنے میں اس قدر بےبس اور بےاختیار ہوں کہ میں اپنے بارے میں بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ نفع اور نقصان کے بارے میں میرے رب کے فیصلے ہیں جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے۔ جہاں تک تمہارا یہ مطالبہ ہے کہ میں اللہ کا عذاب لے آوں یہ بھی میرے رب کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ تمہارے مطالبہ کی وجہ سے اشتعال میں آکر وقت مقرر سے پہلے عذاب نہیں لاتا۔ کیونکہ وہ بندوں پر نہایت مہربان اور ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرنے والا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اس نے ہر فرد اور قوم کے فیصلے کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ بیشک کوئی فردیا قوم اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دن، رات چیلنج کرے اس کے باوجود مقررہ وقت سے پہلے اس قوم کا فیصلہ نہیں کیا جاتا البتہ جب فیصلے کا وقت آجاتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو آگے پیچھے نہیں کرسکتی۔ یہاں واضح الفاظ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا گیا ہے۔ کہ آپ خود اعلان فرمائیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ لیکن فرقہ پرستی کا برا ہو۔ یہاں بھی ایک مفسر لکھتا ہے کہ آیت کا مقصد کفار کی یا وہ گوئیوں کو ختم کرنا ہے اور یارلوگوں نے اس آیت کی آڑ لے کر حضور رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل و کمالات کا انکار شروع کردیا اور ایسی اناپ شناپ باتیں کرنے لگے جن سے دین و دانش دونوں شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ حضور کچھ نہیں دیتے، حضور کچھ نہیں کرسکتے۔ بارگاہ رسالت میں اپنے دکھ، دردوں کی فریاد کرنا شرک ہے وغیرہ۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ دَعَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قُرَیْشًا فَاحْبَتَمَعُوْا فَعَمَّ وَخَصَّ فَقَالَ یَا بَنِیْ کَعْبِ ابْنِ لُؤَیٍّ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ ‘ یَا بَنِیْ مُرَّۃََ ابْنِ کَعْبٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِیَا بَنِیْ عَبْدِ شَمْسٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُم مِّنَ النَّارِ ‘ یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ ‘ یَا بَنِیْ ہَاشِمٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلَبِ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ یَا فَاطِمَۃُ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا غَیْرَاَنَّ لَکُمْ رَحِمًا سَاَبُلُّہَا بِبِلالِھَا [ رواہمُسْلِمٌ وَ فِی الْمُتَّفَقِ عَلَیْہِ ] قَالَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَ یَا بَنِیْ عَبْدِمَنَافٍ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَا عَبَّاسُ ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَا شِءْتِ مِنْ مَالِیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو دعوت دی وہ جمع ہوگئے۔ آپ نے ان کے خاص و عام سبھی کو دعوت دی ‘ آپ نے فرمایا ‘ اے بنو کعب بن لُوْی ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ اے بنو مرہ بن کعب ! تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ اے بنو عبد شمس ! تم خود کو دوزخ سے بچاؤ اے بنی عبد مناف ‘ بنی ہاشم ‘ بنی عبدالمطلب تم اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ اے فاطمہ ! تو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا۔ میں تمہارے لیے اللہ کے ہاں کسی چیز کا مالک نہیں۔ اگرچہ تمہارے ساتھ قرابت داری ہے۔ اس رشتہ داری کا احترام رہے گا (مسلم) اور بخاری ‘ مسلم میں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ‘ اے گروہ قریش ! تم اپنے آپ کو آزاد کرلو۔ میں تم سے اللہ کے عذاب سے کچھ دور نہیں کرسکتا اے بنی عبد مناف ! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے رسول کی پھوپھی صفیہ ! میں تم سے اللہ کے عذاب سے کچھ دور نہیں کرسکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد ! تو مجھ سے جس قدر چاہے مال کا سوال کرلے لیکن میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بےبس ہو کر مکہ سے ہجرت کی : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ حَمْرَاء الزُّہْرِیِّ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَاقِفًا عَلَی الْحَزْوَرَۃِ فَقَالَ وَاللَّہِ إِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللَّہِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللَّہِ إِلَی اللَّہِ وَلَوْلاَ أَنِّی أُخْرِجْتُ مِنْکِ مَا خَرَجْتُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب، باب فی فضل مکۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عدی بن حمراء زہری کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹیلے پر کھڑے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یقیناً تو اللہ تعالیٰ کی بہترین زمین اور محبوب ترین زمین میں سے ہے اگر مجھے یہاں سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا۔ “ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں تھے۔ ٢۔ آپ اتنا ہی اختیار رکھتے تھے جتنا اللہ نے عطا کیا ہوا تھا۔ ٣۔ ہر ایک کا وقت معین ہے۔ ٤۔ جب کسی کا وقت آجاتا ہے تو اس میں کمی و بیشی نہیں کی جاتی۔ تفسیر بالقرآن انبیاء ( علیہ السلام) نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے : ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (یونس : ٤٩) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ میں تمہارے نفع و نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ (الجن : ٢١) ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی بیویوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ (التحریم : ١٠) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا مجھے اللہ کے سامنے کسی قسم کا اختیار نہیں ہے۔ (الممتحنۃ : ٤) ٧۔ کہہ دیجئے اگر اللہ عیسیٰ بن مریم اور اس کی والدہ کو ہلاک کرنا چاہے تو انہیں کون بچا سکتا ہے ؟ (المائدۃ : ١٧) ٨۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بھلائیاں جمع کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ ہوتا۔ (الاعراف : ١٨٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل لا املک لنفسی ضرًا ولا نفعًا الا ما شآء اللہ (اے محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ! ) آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی جان کے نفع نقصان کا بھی مالک نہیں ‘ سوائے اتنی مقدار کے جتنی مقدار کا (مالک بنانا) اللہ نے چاہا۔ یعنی ضرر کو دفع کرنے اور نفع و حاصل کرنے کی مجھے قدرت نہیں۔ صرف اتنی قدرت ہے جتنی اللہ نے دینی چاہی۔ یا الاَّ مَا شَآء اللّٰہُ کا یہ مطلب ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے ‘ وہی ہوتا ہے۔ مجھے اپنے نفع و ضرر پر قدرت نہیں۔ لکل امۃ اجل (ا اللہ کے علم میں) ہر امت کی ہلاکت کی ایک میعاد مقرر ہے۔ اذا جاء اجلھم فلا یستاخرون ساعۃً ولا یستقدمون۔ سو جب ان کا وہ معین وقت آ پہنچتا ہے تو (اس وقت) نہ گھڑی بھر پیچھے ہٹ سکتے ہیں نہ آگے سرک سکتے ہیں۔ اَجَلُھُمْ یعنی عذاب دینے کا مقرر وقت۔ سَاعَۃً ذرا سی دیر۔ مرادیہ ہے کہ عذاب آنے کی جلدی نہ مچاؤ ‘ عنقریب اس کا وقت آجائے گا اور وعدہ پورا ہوجائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ شانہ نے فرمایا (قُلْ لَّا اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّنَفْعًا اِلَّا مَا شَآء اللّٰہُ ) (آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع اور ضرر کا مالک نہیں ہوں مگر جو کچھ اللہ چاہے) جب اپنے بارے میں میرا یہ حال ہے تو تم پر عذاب لانا یہ میرے اختیار میں کیسے ہوسکتا ہے۔ مجھ سے تقاضا کرنا جاہلانہ بات ہے۔ (لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ اِذَا جَآءَ اَجَلُھُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ) (ہر امت کیلئے ایک وقت مقرر ہے جب ان کا مقررہ وقت آپہنچے گا تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں) ۔ عذاب کا وقت آجانے پر عذاب واقع ہوجائے گا جن امتوں کیلئے دنیا اور آخرت دونوں میں عذاب کا وقت مقرر ہے وہ دونوں میں مبتلائے عذاب ہوں گے اور جن کے لئے دنیا میں عمومی عذاب دینے کا فیصلہ نہیں کیا گیا آخرت میں تو ان کے کفر کی وجہ سے ان کو عذاب ہونا ہی ہے۔ اجل مقرر پر عذاب سامنے آ ہی جائے گا۔ یہ جو جلدی مچاتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ عذاب کب آئے گا اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ شانہ اپنی مقرر کردہ اجل سے پہلے عذاب نہیں لائے گا۔ یہ جو جلدی مچاتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ عذاب کب آئے گا اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ شانہ اپنی مقرر کردہ اجل سے پہلے عذاب نہیں لائے گا۔ ان لوگوں کے قول متی ھذا الوعد کا پہلا جواب یہ ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ اعلان کرا دیا کہ میرے بس میں عذاب لانا نہیں ‘ اور دوسرا جواب یہ دے دیا کہ عذاب اپنے مقرر وقت پر آئے گا۔ تمہارے جلدی مچانے سے اجل مقرر سے پہلے نہیں آئے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66: یہ جواب شکویٰ برسبیل ترقی ہے یعنی تم مجھ سے عذاب یا قیامت لانے کا مطالبہ کرتے ہو تو یہ بہت بڑی بات ہے میں تو اپنے نفع اور نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ ہر چیز کا مالک و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لیے عذاب لانا میرے بس کی بات نہیں “ لما استعجلوا النبی صلی اللہ علیه وسلم بالعذاب قال اللہ له قل لھم یا محمد لا املک لنفسي ضرًا و لا نفعًا اي لیس ذٰلک لی ولا لغیري ” (قرطبی) “ اي لا اقدر علی شیئ منهما بوجه من الوجوه ” (روح ج 11 ص 130) اور “ اِلَّا مَا شَاءَ ” استثناء منقطع ہے یعنی میں تو اپنے نفع اور نقصان کا بھی مختار نہیں البتہ جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے۔ “ اي ولکن ما شاء اللہ من ذلک کائن فکیف املک لکم اضر و جلب العذاب ” (مدارک ج 2 ص 127) ۔ 67: البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ جس عذاب اور قیامت کا تم سے وعدہ کیا جا چکا ہے اس کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ مقررہ وقت پر لا محالہ آکر رہے گا اس میں تخلف محال ہے اور نہ اس میں تقدم و تاخر ممکن ہے جب عذاب اپنے وقت سے نہ پہلے آسکتا ہے نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے تو پھر تمہارے مطالبے پر وقت سے پہلے میں کیسے لاسکتا ہوں ؟ “ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ” جملہ استنفافیہ ہے یا “ اِذَا جَاءَ ” پر معطوف ہے لیکن “ لَا یَسْتَاخِرُوْنَ ” پر معطوف نہیں کیونکہ جب معین وقت آجائے تو پھر اس پر تقدم ممکن نہیں اس لیے نفی تقدم کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا (روح) حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ “ اِذَا ” کی جزاء محذوف ہے “ فَاِذَ ا جَاءَ اَجَلُھُمْ یعذبون ” جب ان کے عذاب کی اجل آپہنچے گی اس وقت وہ مبتلائے عذاب ہوجائیں گے اور اس میں تقدم وتاخر نہیں ہوگا یعنی عذاب اپنے وقت معین سے نہ پہلے آئے گا نہ اس سے پیچھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49 آپ فرما دیجئے ! کہ میں تو اپنے لئے بھی کسی نقصان اور نفع کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے ہاں ! ہر قوم اور امت کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب ان کا وہ وقت مقرر آجاتا ہے تو اس وقت سے نہ گھڑی بھر پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ اس وقت سے آگے بڑھ سکتے ہیں یعنی مجھ سے کیا پوچھتے ہو کہ عذاب کا وعدہ کب پورا ہوگا مجھے تو اپنے ہی امور میں اختیار حاصل نہیں مگر جو اللہ چاہے تو تمہارے عذاب کے وقت کا مجھے اختیار کب ہے جو میں بتائوں البتہ اتنا جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہر امت کا ایک وقت متعین ہے جب وہ وقت آجائے گا تو کسی کو اس سے آگے یا پیچھے ہٹنے کی مجال نہ ہوگی