Surat Younus

Surah: 10

Verse: 57

سورة يونس

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾

O mankind, there has to come to you instruction from your Lord and healing for what is in the breasts and guidance and mercy for the believers.

اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an is an Admonition, Cure, Mercy and Guidance Allah confers a great favor on His creatures in what He has sent down of the Gracious Qur'an to His Noble Messenger. He said: يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ... O mankind! There has come to you good advice from your Lord. A warning and a shield from shameful deeds. ... وَشِفَاء لِّمَا فِي الصُّدُورِ ... and a cure for that which is in your breasts, A cure from suspicion and doubts. The Qur'an removes all the filth and Shirk from the hearts. ... وَهُدًى وَرَحْمَةٌ ... a guidance and a mercy, The guidance and the mercy from Allah are attained through it. ... لِّلْمُوْمِنِينَ for the believers. This is only for those who believe in it and have firm faith in what it contains. As Allah said: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَأءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُوْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّـلِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا And We send down of the Qur'an that which is a cure and a mercy to those who believe, and it increases the wrongdoers nothing but loss. (17:82) and; قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَأءٌ Say: "It is for those who believe, a guide and a cure." (41: 44) Allah then said:

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کریم کے منصب عظیم کا تذکرہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کریم پر قرآن عظیم نازل فرمانے کے احسان کو اللہ رب العزت بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ کا وعظ تمہارے پاس آچکا جو تمہیں بدیوں سے روک رہا ہے ، جو دلوں کے شک شکوک دور کرنے والا ہے ، جس سے ہدایت حاصل ہوتی ہے ، جس سے اللہ کی رحمت ملتی ہے ۔ جو اس سچائی کی تصدیق کریں اسے مانیں ، اس پر یقین رکھیں ، اس پر ایمان لائیں وہ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں ۔ یہ ہمارا نازل کردہ قرآن مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے ، ظالم تو اپنے نقصان میں ہی بڑھتے رہتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے کہ کہہ دے کہ یہ تو ایمانداروں کے لیے ہدایت اور شفاء ہے ۔ اللہ کے فضل و رحمت یعنی اس قرآن کے ساتھ خوش ہونا چاہیے ۔ دنیائے فانی کے دھن دولت پر ریجھ جانے اور اس پر شادماں و فرحاں ہوجانے سے تو اس دولت کو حاصل کرنے اور اس ابدی خوشی اور دائمی مسرت کو پالینے سے بہت خوش ہونا چاہیے ۔ ابن ابی حاتم اور طبرانی میں ہے کہ جب عراق فتح ہو گیا اور وہاں سے خراج دربار فاروق میں پہنچا تو آپ نے اونٹوں کی گنتی کرنا چاہی لیکن وہ بیشمار تھے ۔ حضرت عمر نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ تو آپ نے مولیٰ عمرو نے کہا یہ بھی تو اللہ کا فضل و رحمت ہی ہے ۔ آپ نے فرمایا تم نے غلط کہا یہ تمھارے ہمارے حاصل کردہ ہیں جس فضل و رحمت کا بیان اس آیت میں ہے وہ یہ نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 یعنی جو قرآن کو دل کی توجہ سے پڑھے اور اس کے معنی و مطالب پر غور کرے، اس کے لئے قرآن نصیحت ہے قرآن کریم ترغیب و ترہیب دونوں طریقوں سے واعظ و نصیحت کرتا ہے اور ان کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی صورت میں دو چار ہونا پڑے گا اور ان کاموں سے روکتا ہے جن سے انسان کی اخروی زندگی برباد ہوسکتی ہے۔ 57۔ 2 یعنی دلوں میں توحید و رسالت اور عقائد حقہ کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کا ازالہ اور کفر و نفاق کی جو گندگی و پلیدی ہوتی ہے اسے صاف کرتا ہے۔ 75۔ 3 یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے ویسے تو یہ قرآن سارے جہان والوں کے لئے ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے لیکن چونکہ اس سے فیض یاب صرف اہل ایمان ہی ہوتے ہیں، اس لئے یہاں صرف انہی کے لئے اسے ہدایت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں سورة بنی اسرائیل آیت 82 اور سورة الم سجدہ آیت 44 میں بھی بیان کیا گیا ہے (نیز ھدی للمتقین کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] قرآن کی چار صفات اور ان کی ترتیب۔ موعظت & شفا & ہدایت اور رحمت :۔ اس آیت میں قرآن کریم کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔ پہلی صفت موعظت ہے موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو انسان کی توجہ کو دنیا کے انہماک سے ہٹا کر اللہ کی یاد اور روز آخرت کی طرف مبذول کرے اور اس سے دلوں میں رقت اور دنیا سے بےرغبتی اور آخرت سے لگاؤ پیدا ہو۔ دوسری صفت یہ ہے کہ یہ قرآن دلوں کی بیماریوں مثلاً شرک اور کفر کا عقیدہ، حسد، بغض، خود غرضی، بخل، لالچ وغیرہ کے لیے شفا کا کام دیتا ہے جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل کرتا ہے یہ روگ از خود اس کے دل سے دور ہوجاتے ہیں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ قرآن انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی پوری طرح رہنمائی کرتا ہے وہ ہر فرد کے الگ الگ حقوق متعین کرتا ہے اور ایسے قوانین بتلاتا ہے جس سے فرد، معاشرہ اور حکومت میں سے کسی کے حقوق مجروح بھی نہ ہوں اور کسی دوسرے پر زیادتی بھی نہ ہو۔ اور اس کی چوتھی صفت یہ ہے کہ جو شخص قرآن پر عمل پیرا ہوتا ہے یا جو معاشرہ یا حکومت اس کی اتباع کرتی ہے اس پر اس دنیا میں بھی اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ قرآن کے ذریعے سربلندی اور ذلت :۔ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن کریم) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سربلندی عطا فرمائے گا اور بہت سے لوگوں کو ذلیل کرے گا && (مسلم۔ کتاب فضائل القرآن، باب من یقوم بالقرآن ویعلمہ) ٢۔ سیدنا زید بن ارقمص کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && اللہ کی کتاب میں ہدایت ہے اور روشنی ہے جس نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا وہ ہدایت پر قائم ہوگیا اور جس نے اس سے غفلت برتی وہ گمراہ ہوگیا && اور زید بن ارقم ہی کی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : && یہ کتاب اللہ کی رسی ہے جو اس پر عمل پیرا ہوا وہ ہدایت پر ہوگا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہوگا۔ && (مسلم، کتاب الفضائل۔ باب من فضائل علی بن ابی طالب)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ ۔۔ : یہاں سے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے قرآن مجید کی برکات اور خوبیاں بیان فرمائی ہیں۔ چناچہ بنیادی خصوصیت اس کی یہ ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے تمہارے پاس آئی ہے، اب دنیا کی کسی اور کتاب کو یہ درجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ پھر اس کی چار صفات بیان فرمائیں، پہلی یہ کہ یہ ” مَوْعِظَۃٌ“ ہے، تنوین تعظیم کی وجہ سے ” عظیم نصیحت “ ترجمہ کیا ہے۔ خلیل نے فرمایا کہ اس کا معنی نیکی کی نصیحت ہے جس سے دل نرم ہوجائے۔ (مفردات) راغب نے خود اس کا معنی کیا ہے کہ کسی کام سے منع کرنا، جس کے ساتھ ڈرانا بھی شامل ہو، گویا یہ کتاب موعظت نرمی و سختی ہر طرح سے سمجھا کر انسان کی اصلاح کرتی ہے۔ دوسری صفت ہے ” وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ “ یعنی یہ کتاب دلوں میں جو کفر و نفاق، حسد و ریا اور برے اخلاق کی بیماریاں پائی جاتی ہیں ان کے لیے سراسر تندرستی کا باعث ہے۔ بعض لوگوں نے ان آیات سے یہ بات اخذ کی ہے کہ قرآن مجید جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہے، جیسا کہ ابوسعید خدری (رض) کے سورة فاتحہ پڑھ کر دم کرنے سے سانپ کا ڈسا ہوا تندرست ہوگیا اور انھوں نے اس پر تیس بکریاں لیں۔ [ بخاری، الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ علی أحیاء العرب ۔۔ : ٢٢٧٦ ] اور خارجہ بن صلت (رض) کے چچا نے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پاگل آدمی کو سورة فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا اور ان لوگوں نے انھیں ایک سو بکریاں دیں۔ [ أبوداوٗد، الطب، باب کیف الرقی : ٣٨٩٦ و صححہ الألبانی ] اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ سورة فاتحہ اور دوسری آیات پڑھ کر دم کرنے سے اللہ تعالیٰ چاہے تو شفا ہوتی ہے اور صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ کافروں پر دم کریں تو انھیں بھی ہوتی ہے، مگر ان آیات کا یہ مطلب نہیں بلکہ ان سے مراد روحانی بیماریاں کفر و شرک، نفاق اور حسد و بغض وغیرہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا) [ بنی إسرائیل : ٨٢ ] ” اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔ “ اور فرمایا : ” اور رہے وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس (سورت) نے ان کو ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی میں زیادہ کردیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے۔ “ [ التوبۃ : ١٢٥ ] اور فرمایا : ” کہہ دے یہ (قرآن) ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ ان کے حق میں اندھا ہونے کا باعث ہے۔ “ [ حٰمٓ السجدۃ : ٤٤ ] یعنی کفار کو اس سے سینے کی بیماریوں سے شفا نہیں ہوتی۔ تیسری صفت ” ھُدیً “ نرمی اور مہربانی کے ساتھ راستہ بتانا۔ (مفردات) چوتھی صفت ” رَحْمَۃٌ“ ہے، اس کا معنی ہر شخص سمجھتا ہے۔ یہاں چاروں صفات ” مَوْعِظَۃٌ، شِفاءْ ، ھُدیً ، رَحٌمَۃً “ مبالغہ کے لیے مصدر کے لفظ کے ساتھ آئی ہیں، مراد ان سے اسم فاعل کا مفہوم ہے، جیسے کہتے ہیں ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ زید انصاف ہے۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اتنا عادل ہے کہ گویا سراسر عدل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص تو سراپا حسن ہے، مراد بہت حسن والا ہوتا ہے، یعنی یہ کتاب اس قدر نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت والی ہے، گویا یہ اہل ایمان کے لیے سراسر نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Previous verses described how astray the disbelievers and polythe¬ists had gone and what punishments had become due against them in the Hereafter. Shown to them in the first two verses was the way out of their liv¬ing in error and also the source through which they would find deliver¬ance from the punishment of the Hereafter. And that source is Qur&an, the Book of Allah, and His Messenger, Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Both are great blessings for humanity, far superior to the entire blessings of the heavens and the earth. Following the injunctions of the Qur&an and the way of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) go on to make human beings human in the real sense - and when this human person becomes the perfect man in the real sense, the whole world corrects and reorders itself like a paradise on earth. The first (57) of the five verses cited above mentions four attributes of the Holy Qur&an: 1. ADVICE as in مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ (an advice from your Lord). The real meaning of the word: مَّوْعِظَةٌ (maw` izah) and: موعظ ، (wa` z) is to delineate such things as would make one&s heart soft and receptive. As a result, it would incline towards Allah Ta` ala. The barrier of heedless¬ness acquired from excessive indulgence in worldly life will stand removed. Ultimately, this advice would result in the flowering of a per¬sonal concern for what would happen in Akhirah, the life ahead. The Holy Qur&an, from the beginning to the end, is an eloquent preacher of this very good counsel. See anywhere, you will find promise with warning, reward with punishment, and prosperity and success in Dun¬ya and Akhirah with a corresponding fate due to error and straying. Appearing recurrently in varying shades and blending, it generates a powerful appeal which has the ability to make a heart stone-hard turn soft and pliable like water all ready to absorb the message. Of course, on top of everything, there is the miraculous diction of the Holy Qur&an that, by itself, has a class of its own in the matter of reversal of hearts. The complement of: مِّن رَّ‌بِّكُمْ (from your Lord) with (advice) has elevated the status of Qur&anic advice to a much higher level. It is tell¬ing us that this advice is not coming from a helpless human being that does not hold the keys to anyone&s profit and loss or reward and pun¬ishment, nor has any credibility of his own. Instead, the advice is from the merciful Lord whose Word admits of no error, and whose promise and warning too are free of any apprehension of some weakness or excuse. 2. CURE as in: شِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ‌ (a cure for what is in your hearts). The word: شِفَاءٌ (shifa& ) means the removal of disease and: صدُورِ‌ (sudur) is the plural form of: صدر (sadr) which means the chest, and it signifies the heart. The sense is that the Holy Qur&an is a successful remedy of the dis¬eases of the heart. It corrects and cures it as a prescription of legendary elixir would. The famous Hasan al-Basri (رح) said, ` from this attribute of the Qur&an, we learn that it is a cure for the diseases of the heart specifically, and not that of physical diseases. (Ruh al-Ma` ani) But, other scholars have said that the Holy Qur&an is a cure for every disease, whether spiritual or physical. However, spiritual diseas¬es are far more harmful for men and women than physical diseases. Then, the treatment of such diseases too is not in everyone&s control. Therefore, at this place, only spiritual diseases that relate to the heart have been mentioned. From this it does not necessarily follow that it is not a cure for physical diseases. Hadith reports and countless experiments of the religious scholars of the Muslim community are witnesses to the fact that the way the Holy Qur&an is a great elixir for diseases of the heart, very similarly, it is the best of treatments for physical diseases also. As narrated by Sayyidna Abu Said al-Khudri (رض) someone came to Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and complained that he felt he had a chest problem. He said, ` recite the Qur&an, for Allah Ta` ala says: شِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ‌ that is, ` the Qur&an is a cure for all such diseases as are found insides chests.& (Ruh al-Ma` ani from Ibn Marduwayh) Similarly, according to the narration of Sayyidna Wathilah ibn Asqa& (رض) someone came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and said that he had a throat problem. He told him the same thing - ` recite the Qur&an&. Scholars of the Muslim community have compiled the properties and efficacies of the Qur&anic verses in regular books by extracting these partly from narratives of Hadith and the sayings of the Sahabah, and partly from their own experiments and experience. Imam al-Ghazali&s work on ` Qur&anic Properties& is well known in this area. Maulana Ashraf ` Ali Thanavi&s (رح) |"A&mal-i-Qur&anii, an abridgement of this work, has been popular among readers of Urdu for over fifty years. Then, there are so many observations and experiments in this field which prove that different verses of the Holy Qur&an have been a total cure for physical diseases as well. Denying all of them is not pos¬sible. However, this much can be conceded that the real purpose of the revelation of the Holy Qur&an is to remove the diseases of the heart and soul while, as a corollary, it is also the most effective treatment of even physical diseases. This also tells us that those who recite the Holy Qur&an only to treat physical diseases or to seek nothing but the fulfillment of worldly needs are low in sense and high in waywardness. Such people never bother to correct spiritual diseases, nor do they pay any heed to the need of doing things in accordance with the instructions given by the Qur&an. For such people, Iqbal said: ترا حاصل زیٰس اش جزین نیست کہ ازھم خواندنش آسان بمیری Your gain from Ya Sin is but that: By reciting it, death becomes easy. Though, he is suggesting, had you pondered over its meaning and message, realities and insights, you would have gained much more of its benefits and blessings. Some research-oriented commentators who have gone deeper into the meanings of the Qur&an have said that the first attribute of the Qur&an, that is, مَّوْعِظَةٌ (maw&izah: advice, good counsel) relates to man&s obvious, outward or physically-accomplished deeds known as the Sha¬ri` ah. The Holy Qur&an is the best source of the correction and better¬ment of such deeds. Then, the second attribute: شِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ‌ (a cure for what is in your hearts) relates to man&s hidden, inward or heart-oriented deeds known as Tariqah and Tasawwuf. 3. GUIDANCE as in: وَهُدًى (and guidance). The word: هُدًى (huda) means guidance or the showing of or leading onto the way. The Holy Qur&an invites human beings to the way of truth and faith. It invites them to ponder over the great signs Allah Ta&ala has placed in the near and far ranges of the world, even inside their own person, [ staggering would certainly be the interior distances of the universe within us ] and recognize the creator and master of everything.

خلاصہ تفسیر اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی جو ( برے کاموں سے روکنے کے لئے) نصیحت ہے اور ( اگر اس پر عمل کرکے برے کاموں سے بچیں تو) دلوں میں جو ( برے کاموں سے) روگ ( ہوجاتے) ہیں ان کے لئے شفاء ہے اور ( نیک کاموں کے کرنے کے لئے) رہنمائی کرنے والی ہے اور ( اگر اس پر عمل کرکے نیک کاموں کو اختیار کریں تو) رحمت ( اور ذریعہ ثواب) ہے ( اور یہ سب برکات) ایمان والوں کے لئے ( ہیں کیونکہ عمل وہی کرتے ہیں پس قرآن کے یہ برکات سنا کر) آپ ( ان سے) کہہ دیجئے کہ ( جب قرآن ایسی چیز ہے، تو لوگوں کو خدا کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے ( اور اس کو دولت عظیمہ سمجھ کرلینا چاہئے) وہ اس ( دنیا) سے بدرجہا بہتر ہے جس کو جمع کر رہے ہیں ( کیونکہ دنیا کا نفع قلیل اور فانی ہے اور قرآن کا نفع کثیر اور باقی) آپ ( ان سے) کہئے کہ یہ تو بتلاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ( انتفاع کے) لئے جو کچھ رزق بھیجا تھا پھر تم نے ( اپنی گھڑت سے) اس کا کچھ حصہ حرام اور کچھ حلال قرار دے لیا ( حالانکہ اس کی تحریم کی کوئی دلیل نہیں تو) آپ ( ان سے) پوچھئے کہ کیا تم کو خدا نے حکم دیا ہے یا ( محض) اللہ پر ( اپنی طرف سے) افتراء ہی کرتے ہو اور جو لوگ اللہ پر جھوٹ افتراء باندھتے ہیں ان کا قیامت کی نسبت کیا گمان ہے ( جو بالکل ڈرتے نہیں کیا یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہیں آوے گی یا آوے گی مگر ہم سے باز پرس نہ ہوگی) واقعی لوگوں پر لیکن اکثر آدمی بےقدر ہیں ( ورنہ توبہ کرلیتے) اور آپ ( خواہ) کسی حال میں ہوں اور ( منجلہ ان احوال کے) آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور ( اس طرح اور لوگ بھی جتنے ہوں) تم جو کام بھی کرتے ہو ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام کو کرنا شروع کرتے ہو اور آپ کے رب (کے علم) سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی ( مقدار مذکور) سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز اس سے) بڑی مگر یہ سب ( بوجہ احاطہ علم الہٰی کے) کتاب مبین ( یعنی لوح محفوظ) میں ( مرقوم) ہے۔ معارف و مسائل پچھلی آیات میں کفار و مشرکین کی بدحالی اور آخرت میں ان پر طرح طرح کے عذابوں کا بیان تھا۔ مذکورہ آیات سے پہلی دو آیتوں میں ان کو اس بدحالی اور گمراہی سے نکلنے کا طریقہ اور عذاب آخرت سے نجات کا ذریعہ بتلایا گیا ہے اور وہ اللہ کی کتاب قرآن اور اس کے رسول محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اور انسان اور انسانیت کے لئے یہ دونوں ایسی عظیم نعمتیں ہیں کہ آسمان و زمین کی ساری نعمتوں سے اعلی و افضل ہیں، احکام قرآن اور سنت رسول کی پیروی انسان کو صحیح معنی میں انسان بناتی ہے اور جب انسان صحیح معنی میں انسان کامل بن جائے تو سارا جہان درست ہوجائے اور یہ دنیا بھی جنت بن جائے۔ پہلی آیت میں قرآن کریم کی چار خصوصیات کا ذکر ہے : اول مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ، موعظہ اور وعظ کے اصلی معنی ایسی چیزوں کا بیان کرنا ہے جن کو سن کر انسان کا دل نرم ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے، دنیا کی غفلت کا پردہ چاک ہو آخرت کی فکر آجائے، قرآن کریم اول سے آخر تک اسی موعظہ حسنہ کا نہایت بلیغ مبلغ ہے، اس میں ہر جگہ وعدہ کے ساتھ وعید، ثواب کے ساتھ عذاب، دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی کے ساتھ ناکامی اور گمراہی وغیرہ کا ایسا ملا جلا تذکرہ ہے جس کو سن کر پتھر بھی پانی ہوجائے پھر اس پر قرآن کریم کا اعجاز بیان جو دلوں کی کایا پلٹنے میں بےنظیر ہے۔ موعظہ کے ساتھ مِّنْ رَّبِّكُمْ کی قید نے قرآنی وعظ کی حیثیت کو اور بھی زیادہ بلند کردیا کہ اس سے معلوم ہوا کہ یہ وعظ کسی اپنے جیسے عاجز انسان کی طرف سے نہیں جس کے ہاتھ میں کسی کا نفع و نقصان یا عذاب وثواب کچھ نہیں، بلکہ رب کریم کی طرف سے ہے جس کے قول میں غلطی کا امکان نہیں، اور جس کے وعدے اور عید میں کسی عجز و کمزوری یا عذر کا کوئی خطرہ نہیں۔ قرآن کریم کی دوسری صفت شِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ، ارشاد فرمائی، شفاء کے معنے بیماری دور ہونے کے ہیں، اور صدور، صدر کی جمع ہے جس کے معنی سینہ کے ہیں، مراد اس سے قلب ہے۔ معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم دلوں کی بیماریوں کا کامیاب علاج اور صحت و شفاء کا نسخہ اکسیر ہے، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ قرآن کی اس صفت سے معلوم ہوا کہ وہ خاص دلوں کی بیماری کے لئے شفاء ہے، جسمانی بیماریوں کا علاج نہیں ( روح المعانی) مگر دوسرے حضرات نے فرمایا کہ درحقیقت قرآن ہر بیماری کی شفاء ہے خواہ قلبی و روحانی ہو یا بدنی اور جسمانی، مگر روحانی بیماریوں کی تباہی انسان کے لئے جسمانی بیماریوں سے زیادہ شدید ہے اور اس کا علاج بھی ہر شخص کے بس کا نہیں، اس لئے اس جگہ ذکر صرف قلبی اور روحانی بیماریوں کا کیا گیا ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ جسمانی بیماریوں کے لئے شفاء نہیں ہے۔ روایات حدیث اور علمائے امت کے بشیمار تجربات اس پر شاہد ہیں کہ قرآن کریم جیسے قلبی امراض کے لئے اکسیر اعظم ہے اسی طرح وہ جسمانی بیماریوں کا بھی بہترین علاج ہے۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے سینے میں تکلیف ہے، آپ نے فرمایا کہ قرآن پڑھا کرو کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) شِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ، یعنی قرآن شفاء ہے ان تمام بیماریوں کی جو سینوں میں ہوتی ہیں ( روح المعانی از ابن مردویہ ) ۔ اسی طرح حضرت واثلہ بن اسقع کی روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیان کیا کہ میرے حلق میں تکلیف ہے، آپ نے اس کو بھی یہی فرمایا کہ قرآن پڑھا کرو۔ علماء امت نے کچھ روایات و آثار سے اور کچھ اپنے تجربوں سے آیات قرآنی کے خواص و فوائد مستقل کتابوں میں جمع بھی کردیئے ہیں، امام غزالی کی کتاب خواص قرآنی اس کے بیان میں مشہور و معروف ہے جس کی تلخیص حضرت حیکم الامت مولانا تھانوی نے اعمال قرآنی کے نام سے فرمائی ہے، اور مشاہدات و تجربات اتنے ہیں کہ ان کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کریم کی مختلف آیتیں مختلف امراض جسمانی کے لئے بھی شفاء کلی ثابت ہوتی ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ نزول قرآن کا اصلی مقصد قلب و روح کی بیماریوں کو ہی دور کرنا ہے اور ضمنی طور پر جسمانی بیماریوں کا بھی بہترین علاج ہے۔ اس سے ان لوگوں کی بےوقوفی اور کجروی بھی ظاہر ہوگئی جو قرآن کریم کو صرف جسمانی بیماریوں کے علاج یا دنیوی حاجات ہی کے لئے پڑھتے پڑھاتے ہیں، نہ روحانی امراض کی اصلاح کی طرف دھیان دیتے ہیں نہ قرآن کی ہدایات پر عمل کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے لئے علامہ اقبال مرحوم نے فرمایا ہے : ترا حاصل ز یٰسٓ اش جزین نیست کہ از ہم خواندنش آسان بمیری یعنی تم نے قرآن کی سورة یٰس سے صرف اتنا ہی فائدہ حاصل کیا کہ اس کے پڑھنے سے موت آسان ہوجائے، حالانکہ اس سورت کے معانی اور حقائق و معارف میں غور کرتے تو اس سے کہیں زیادہ فوائد و برکات حاصل کرسکتے تھے۔ بعض اہل تحقیق مفسرین نے فرمایا کہ قرآن کی پہلی صفت یعنی موعظہ کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال کے ساتھ ہے جن کو شریعت کہا جاتا ہے، قرآن کریم ان اعمال کی اصلاح کا بہترین ذریعہ ہے، اور شِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ کا تعلق انسان کے اعمال باطنہ کے ساتھ ہے، جس کو طریقت اور تصوف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اور آیت میں تیسری صفت قرآن کریم کی هُدًى اور چو تھی رَحْمَةٌ بیان کی گئی ہے ھُدًی کے معنی ہدایت یعنی رہنمائی کے ہیں، قرآن کریم انسان کو طریق حق و یقین کی طرف دعوت دیتا ہے، اور انسان کو بتلاتا ہے کہ آفاق عالم اور خود ان کے نفوس میں اللہ تعالیٰ نے جو اپنی عظیم نشانیاں رکھی ہیں ان میں غور و فکر کرو تاکہ تم ان سب چیزوں کے خالق اور مالک کو پہچانو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۝ ٠ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٥٧ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔ شفا والشِّفَاءُ من المرض : موافاة شفا السّلامة، وصار اسما للبرء . قال في صفة العسل : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل/ 69] ، وقال في صفة القرآن : هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت/ 44] ، وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس/ 57] ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة/ 14] . ( ش ف و ) شفا الشفاء ( ض ) من المرض سلامتی سے ہمکنار ہونا یعنی بیماری سے شفا پانا یہ مرض سے صحت یاب ہونے کے لئے بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں شہد کے متعلق فرمایا : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل/ 69] اس میں لوگوں کے ( امراض کی ) شفا ہے ۔ هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت/ 44] وہ ہدایت اور شفا ہے ۔ وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس/ 57] وہ دلوں کی بیماریوں کی شفا ہے ۔ ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة/ 14] اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) اے لوگوں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو ان برے کاموں سے روکنے کے لیے نصیحت ہے جن پر تم قائم ہو اور دلوں میں جو ان کاموں سے بیماری پیدا ہوگئی ہے، ان کے لیے شفا ہے اور گمراہیوں سے نیک کاموں کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے اور عذاب کے لیے باعث رحمت ہے اور یہ سب برکات ایمان والوں کے لیے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ) اس آیت کے الفاظ کی ترتیب (موعظہ ‘ شفا ‘ ہدایت اور رحمت) بہت پر حکمت ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت ٧٤ میں انسان کے دل کی سختی کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے : (ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ ) ۔ دراصل دل کی سختی ہی وہ بنیادی مرض ہے جس کے باعث اعلیٰ سے اعلیٰ کلام بھی کسی انسان پر بےاثر ہو کر رہ جاتا ہے : ع ” مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بےاثر “۔ چناچہ قبول ہدایت کے لیے سب سے پہلے دلوں کی سختی کو دور کرنا ضروری ہے۔ جیسے بارش سے فائدہ اٹھانے کے لیے زمین کو نرم کرنا پڑتا ہے ‘ سخت زمین بارش سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتی ‘ بارش کا پانی اوپر ہی اوپر سے بہہ جاتا ہے ‘ اس کے اندر جذب نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر انسان کا معدہ ہی خراب ہو تو کوئی دوسری دوائی اپنا اثر نہیں دکھاتی۔ لہٰذا انسان کی کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے پہلے اس کے معدے کو درست کرنا ضروری ہے۔ دلوں کی سختی کو دور کرنے کے لیے مؤثر ترین نسخہ وعظ و نصیحت (موعظہ) ہے۔ جب وعظ اور نصیحت سے دلوں میں گداز پیدا ہوگا تو پھر قرآن ان پر دوائی کی مانند اثر کر کے تکبر ‘ حسد ‘ بغض ‘ حب دنیا وغیرہ تمام امراض کو دور کر دے گا۔ حبّ دنیا میں دولت ‘ اولاد ‘ بیوی ‘ شہرت وغیرہ کی تمام محبتیں شامل ہیں۔ ملاحظہ ہو سورة آل عمران کی آیت ١٤ : (زُیِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط) ۔ آیت زیر مطالعہ میں الفاظ کی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک انسان کے حق میں قرآن سب سے پہلے وعظ اور نصیحت ہے ‘ پھر تمام امراض قلب کے لیے شفا اور پھر ہدایت۔ کیونکہ جب دل سے بیماری نکل جائے گی ‘ دل شفایاب ہوگا تب ہی انسان قرآن کی ہدایت اور راہنمائی کو عملاً اختیار کرے گا ‘ اور جب انسان یہ سارے مراحل طے کر کے قرآن کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے گا تو پھر اس کو انعام خاص سے نوازا جائے گا اور وہ ہے اللہ کی خصوصی رحمت۔ کیونکہ یہ قرآن ربِّ رحمان کی رحمانیت کا مظہر اتم ہے : (اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ) ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٧۔ جس طرح آدمی کے بدن کے لئے بخار کھانسی وغیرہ طرح طرح کے مرض ہیں اسی طرح عقیدہ کے بگڑنے سے آدمی کے دل میں کفر و نفاق حسد ریا کاری یہ طرح طرح کے مرض پیدا ہوجاتے ہیں اور جس طرح طب کی کتابوں میں جسمانی مرض کے ہر طرح کے علاج لکھے ہیں قرآن شریف اور حدیث میں اس طرح ان دلی مرضوں کے ہر طرح کے علاج ہیں اس واسطے قرآن شریف اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دنیا میں آنے کو دل کی تندرستی کا سبب فرمایا اور اوپر کی آیت میں فرمایا تھا کہ تمام دنیا کے مال و متاع کے بدلا دینے پر بھی قیامت کے دن نجات میسر نہ آوے گی۔ اس لئے اس آیت میں فرمایا کہ تمام دنیا کی جمع پونجی سے اللہ تعالیٰ کی یہ رسول اور کتاب آسمانی کے بھیجنے کی رحمت بہتر ہے دنیا کا رہنا چند روزہ ہے اور یہ چند روز کی کمائی بھی یہیں رہ جاوے گی رسول اور کتاب آسمانی کی فرمانبرداری اگر تم کرو گے تو یہ کمائی تمہارے ساتھ جاوے گی اور وہ نجات آخرت تم کو نصیب ہوگی جو دنیا بھر کا مال خرچ کرنے سے اس دن نہیں مل سکتی اس لئے اس رحمت الٰہی کی خوشی کرو اور دنیا بھر کے مال و متاع سے اس رحمت الٰہی کو بہتر جانو۔ صحیح بخاری میں نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے بدن میں دل ایک ایسا ٹکڑا ہے جس کی درست حالت میں ہوجانے سے آدمی کا تمام جسم درست حالت میں ہوجاتا ہے اور اگر آدمی کا دل درست حالت میں نہ ہو تو آدمی کا ہاتھ پیر کا کوئی کام اعتبار کے قابل نہیں ١ ؎۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ نیت دلی ارادہ کا نام ہے اور ہاتھ پیر کا ہر ایک کام دلی ارادہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اس لئے ہاتھ پیر کا جو نیک کام عقبی کے ثواب کی خالص نیت سے نہ کیا جاوے وہ بالکل رائیگاں ہے چناچہ ابو داود اور نسائی کے حوالہ سے ابو امامہ (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے۔ ٢ ؎ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بغیر خالص نیت کے کوئی نیک کام بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہوسکتا یہ تو دل کے ارادہ کا خلل شریعت کی ان باتوں میں ہوا جن میں دلی ارادہ اور ہاتھ پیروں کے عمل دونوں کا دخل ہے جس طرح مثلاً نماز کا رکوع سجدہ تو سب پورا ہو مگر اس میں دلی ارادہ دنیا کے دکھاوے کا ہو تو اس طرح کی نماز نا مقبول ہے۔ شریعت میں بعضی باتیں ایسی بھی ہیں جن میں ہاتھ پیروں کے عمل کا کچھ دخل نہیں ہے بلکہ ان باتوں کا فقط دل میں یقین اور عقیدہ رکھنے کا حکم ہے مثلا ہر ایمان دار شخص کو دل میں یہ یقین اور عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اس کی ذات وصفات میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اس کے سب رسول اور سب آسمانی کتابیں برحق ہیں ان باتوں میں دل کی حالت میں نادرستی یہی ہے کہ یہ دلی یقین یا تو سرے سے ہو ہی نہیں جیسے مشرکوں کے دل کا حال ہے یا یقین ہو تو سہی مگر پورا نہ ہو جیسے کچے مسلمانوں کے دل کا حال ہے غرض اللہ تعالیٰ نے دل کی ہر طرح کی نادرست حالت کو دلی مرض قرار دے کر قرآن شریف کی نصیحت کو اس مرض کی شفاعت کا سبب قرار دیا ہے اس لئے ہر ایمان دار شخص کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنے دل کی حالت کو قرآن شریف کی نصیحت کا پابند رکھے اور جس طرح جسمانی مرض کا علاج فوراً کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دلی ہر مرض کا علاج بھی نصیحت الٰہی کے موافق وقت پر کرتا رہے تاکہ کوئی دلی مرض بڑھنے نہ پاوے۔ ١ ؎ دیکھئے تفسیر ہذا جلد دوم ص ٥٠٦۔ ٢ ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ٣٦٤۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:57) موعظۃ۔ اسم مصدر۔ نصیحت۔ یعنی قرآن ایسی جامع کتاب ہے جس میں ہر قسم کی نصیحت موعظت۔ اوامر۔ نواہی۔ توحید وغیرہ مذکور ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ اوپری آیتوں میں قرآن کے معجز ہونے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو ثابت کیا۔ اب قرآن کے کتاب ہدایت و رحمت ہونے سے آنحضرت و کی صداقت پر استدلال کی طرف اشارہ ہے۔ امام رازہ فرماتے ہیں : پہلی دلیل کی حثیت برحان انی کی ہے اور اس کی حیثیت برھان لمتی کی ہے۔ یہاں قرآن کی چار صفات بیان فرمائی ہیں جن سے انسان کے مراتب کمال کے درجات اربعہ کی طرف اشارہ ہے۔ (کبیر) قرآن کتاب موعظتہ ہے جو ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہونے کی وجہ سے انسان کی اصلاح کرتی ہے اور دل میں جو کفر و نفاق، حسد و ریا اور اخلاقی ذمیمہ کی بیماریاں ہیں ان سے شفا بخشتی ہے۔ اس لئے یہ شفاروحانی ہے۔ (خازن) ۔ 7 ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہاں فضل سے مراد قرآن اور رحمت سے مراد اسلام ہے۔ بعض تابعین نے ان سے ایمان اور قرآن مراد لیا ہے مگر بہتر یہ ہے کہ ان کو عام رکھا جائے اور قرآن و ایمان و اسلام بطریق اولیٰ مراد ہوں (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 57 تا 58 موعظۃ (نصیحت) شفآء (شفا، بہتری) الصدور (صدر) سینے ، دل) فلیفرحوا (پس انہیں خوش ہونا چاہئے) خیر (زیادہ بہتر) یجمعون (وہ جمع کرتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 57 تا 58 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے تمام انسانوں کو خطاب رکتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے لوگو ! تمہارے پروردگار نے تمہیں ایک ایسی کتاب ہدایت عطا فرما دی ہے جو قیامت تک تمام انسانوں کی رہبری اور رہنمائی کرتی رہے گی۔ اب اس کتاب کے بعد کسی اور کتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام نے اس کتاب ہدایت پر عمل کر کے ساری دنیا میں وہ انقلاب برپا کردیا جس سے بیمار دلوں کو شفا مل گئی اور شکوک و شبہات، جہالت و گمراہی، غلط عقائد، بغض و حسد، نفاق وتکبر اور اخلقا رذیلہ میں پھنسے ہوئے انسانوں کو ہدایت کی وہ روشنی مل گئی جس نے ان کے تن مردہ میں دوبارہ جان ڈال دی تھی۔ قرآن کریم کی تو لاتعداد خوبیاں ہیں لیکن اس جگہ خصوصی طور پر چار خوبیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1) موعظۃ : یعنی قرآن کریم تمام انسانوں کے لئے ایک دل نشین، دل گداز انداز میں زندگی گذارنے اور بسر کرنے کے اصولوں کی وہ کتاب ہے جو رب العالمین کی طرف سے عطا فرمائی گئی ہے جو بغیر کسی جبر و ا اکراہ کے نصیحت ہی نصیحت اور بندوں کی خیر خواہی کا ذریعہ ہے۔ 2) شفاء لما فی الصدور : یعنی ظاہر و باطن ، دل و دماغ اور کفر و شرک جیسی روحانی بیماریاں جو دلوں کی دنیا کو اجاڑ کر کھ دیتی ہیں ان سے شفا کا ذریعہ یہ کتاب ہے۔ درحقیقت قرآن کریم ہر اعتبار سے سرچشمہ ہدایت ہے۔ اس سے جس طرح بھی فائدہ اٹھایا جائے وہ سرا سر شفاہی شفا ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کو پڑھ کر سمجھنا اور عمل کرنا یہ تو اصل مقصد ہے لیکن قرآن کریم کے ہر حرف پر دس نیکیاں اور درجات کا ملنا بھی ثابت ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص محض قرآن کریم کے الفاظ و حروف کو دیکھتا ہے اس پر بھی اجر وثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیپ اس کوئی صحابی تشریف لائے اور سینے میں درد کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم پڑھو اللہ اس تکلیف سے نجات عطا فرمائے گا۔ اسی طرح ایک موقع پر حضرت واثلہ بن اسقع نے حاضر خدمت ہو کر حلق میں تکلیف کی شکایت کی آپ نے ان سے بھی فرمایا کہ قرآن کریم کی تلاوت کرو اس سے شفا عطا کی جائے گی۔ قرآن کریم تمام ظاہری اورب اطنی بیماریوں کے لئے نسخہ شفا ہے۔ اس قرآن نے ان لوگوں کی زندگیوں کی کایا پلٹ دی تھی جو کفر و شرک میں ڈوب کر انسانیت اور اخلاق کے ہر اصول کو بھول چکے تھے۔ کفر و شرک ہی جن کی زندگی بن چکی تھی۔ لیکن تاریخ انسانی کا یہ عظیم واقعہ ہے جہالت و ظلم میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ قرآن کریم کی برکت سے انسانیت کے دوست اور خیر خواہ بن گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جو راہزن تھے وہ راہبر بن گئے اور کفر و شرک اور نفاق کی تاریکیوں میں بھٹکنے والے ساری دنیا کو ہدایت کی روشنی میں لانے کا ذریعہ بن گئے قرآن کریم ڈیڑھ ہزار سال پہلے بھی یہی تاثیر رکھتا تھا۔ آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گا بات صرف عمل کرنے کی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثار صحابہ کرام نے قرآن کریم اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر عمل کیا تو وہ ساری دنیا پر چھا گئے، ہر وقت و طاقت ان کی غلام بن کر رہ گئی۔ آج بھی ہماری نجات اور کامیابی اورب یماریوں کا علاج قرآن و سنت ہی میں پوشیدہ ہے۔ 3) ھدی : یعنی یہ قرآن حکیم ہدایت ہی ہدایت ہے۔ یہی وہ کتاب ہے جس نے ان تمام اصولوں کی وضاحت فرما دی ہے جن سے انسان گمرایہ سے نکل کر راہ ہدایت اختیار کرسکتا ہے۔ ہدایت یعنی راستہ دکھانا اور منزل تک پہنچانا یہی قرآن کریم کی تعلیمات کی برکت ہے۔ قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ منزل تک پہنچنے کا راستہ کونسا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ منزل کہاں ہے۔ قرآن کریم تئیس سال (23) میں حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا نازل فرمایا گیا۔ قرآن کریم کی جو آیات بھی نازل ہوتیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان آیات کی مراد بتاتے اور ان آیات پر عمل کر کے صحابہ کرام کے سامنے زندگی کے اس نمونے کو پیش رفماتے جو بہترین نمونہ زندگی ہے۔ صحابہ کرام نے اس نمونہ زندگی کو اپنایا یہاں تک کہ بنی آخر الزماں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو یہ سند عطا فرما دی کہ ” میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کا دامن بھی تھام لو گے راہ ہدایت حاصل کرلو گے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم جو سرا سر ہدایت ہے اس کا نور اسی وقت کھل سکتا ہے جب کہ ہم اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کس آیت کا کیا مطلب بتایا اور کس طرح اس پر عمل کر کے دکھایا۔ صحابہ کرام جن کے سامنے قرآن کریم نازل ہوا اور ان آیات پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عمل کرتے دیکھا انہوں نے قرآن و سنت پر اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھال لیا تھا کہ وہ خود دنیا کے لئے ہدایت و روشنی کا ذریعہ بن گئے تھے۔ لہٰذا ہدایت کا یہ اصول سامنے آیا کہ قرآن کریم سراسر ہدایت ہے۔ لیکن اس ہدایت کا مفہوم کیا ہے اس پر کیسے عمل کیا جائے اس کے لئے ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و عمل اور احکامات کو سامنے رکھنا ہوگا۔ پھر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ صحابہ کرام نے قرآن کریم اور سنت رسول پر کس طرح عمل کیا۔ یہی راہ ہدایت ہے۔ بعض وہ لوگ جو اپنی جہالت و نادانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ بس ہمیں قرآن کافی ہے اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکابرین ملت کی تشریحات کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لوگ درحقیقت قرآن پر نہیں بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کے لئے قرآن کریم اور اس کی آیات کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہدایت نہیں بلکہ گمراہی ہے۔ مگر ان اندھیروں میں بھٹکنے والے ہر روشنی کا انکار کر کے زندگی بھر خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں۔ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ ہدایت سے بھٹکانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے۔ اس کا نور کامل نور ہے۔ کوئی چیز باہر سے لا کر اس کو مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن قرآن کریم کا نور اور اللہ کی مراد کھل کر اس وقت تک سامنے نہیں آسکتی جب تک ہم نبی کرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل اور حکم یعنی احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سامنے نہ رکھیں۔ آپ کا اسوہ حسنہ انسانیت کا کامل ترین نمونہ زندگی ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں صحابہ کرام کی زندگیوں کو سامنے رکھنا ہوگا کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تئیس سال (23) میں ہر طرح کی تکلیفیں اٹھا کر لاکھوں صحابہ کرام کے ذہن و فکر کی جو تربیت فرمائی تھی ان صحابہ کرام کی زندگی بھی آپ کے طفیل کائنات میں بہترین نمونہ زندگی ہے۔ اس کو کسی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ورنہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کو سمجھنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔ 4) قرآن کریم کی چوتھی صفت یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ یہ قرآن رحمت ہی رحمت ہے۔ قرآن کریم جس دور میں نازل ہوا اگر اس کو پیش نظر رکھا جائے تو واقعی مکہ والوں کے لئے رحمت ہی تھا ورنہ وہ ہمیشہ کفر و شرک اور جہالت کی تایرکیوں میں بھٹکتے رہتے۔ آج کا انسان بھی بہت سی ترقیات کے باوجود قرآن کریم کی رحمت کا محتاج ہے اور قرآنی اصول ہی ان کے لئے رحمت و کرم کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور قیامت تک یہ قرآن ساری انسانیت کے لئے رحمت ہی رحمت ہے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس آیت میں فضل سے مراد قرآن کریم ہے اور رحمت سے مراد اس کے پڑھنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق ہے یہی مضمون حضرت براء بن عازب اور حضرت ابو سعید خدری سے بھی نقل کیا گیا ہے۔ حضرت عباس کی ایک روایت کے مطابق فضل سے مراد قرآن کریم ہے اور رحمت سے مراد نبی کریم رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ 5) قرآن کریم ایک مکمل دستور العمل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں بعض چیزیں وہ ہیں جن سے رک جانا انسان کے حق میں بہتر ہے اور بعض وہ چیزیں ہیں جن کے کرنے سے دین و دنیا کی ساری بھلائیاں عطا کی جاتی ہیں۔ قرآن کریم کی یہ تعلیمات ایسی ہیں جو انسانوں کو راہ راست اور راہ ہدایت پر چلانے کا ذریعہ ہیں لہٰذا ایسی عظیم کتاب کے نازل ہونے پر انسان جتنی بھی خوشی کا اظہار کرسکتا ہے اس کو کرنا چاہئے۔ جتنی اس کی قدر کر سکات ہو وہ کرے اور اس کی سب سے بڑی قدر یہ ہے کہ قرآن کریم جن سچائیوں کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے نازل کیا گیا ہے ان کو قائم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمل کرنے اور صحابہ کرام کو معیار حق و صداقت ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی صورت میں لوگوں کے پاس نصیحت پہنچ چکی ہے۔ جسے روحانی بیماریوں کے لیے شفاء اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے بیشمار اوصاف اور خصائص ہیں مگر یہاں چار اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں۔ مَوْعِظَۃٌ: موعظت اس بات اور نصیحت کو کہتے ہیں جسے سن کر انسان حقیقت کی طرف متوجہ ہو اور اس پر غور کرنے پر مجبور ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں دل پر اثر انداز ہونے والی بات کو موعظۃ کہا جاتا ہے۔ جو اللہ کے کلام سے بڑھ کر کسی کی بات میں نہیں ہوسکتی۔ چناچہ قرآن کے الفاظ کی تلاوت کی جائے یا اسے سمجھ کر پڑھا جائے۔ ١۔ قرآن مجید کی تلاوت دل کے لیے رحمت، سکون اور اطمینان کا باعث ہے۔ انسان جس قدر پریشان اور غم کی حالت میں ہو۔ اگر وہ توجہ اور ذرا اونچی آواز کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرے تو قرآن مجید آدمی کے غموں کا مداوابن جاتا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر اتارا گیا ہے۔ اس کی تاثیر سب سے پہلے دل پر اثر انداز ہوتی ہے جو دل کے لیے رحمت اور سکون کا باعث بنتی ہے۔ ٣۔ قرآن مجید جس گھر میں تلاوت کیا جائے اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ملائکہ اترتے ہیں۔ اس گھر میں شیطانی اثرات کا خاتمہ ہونے کے ساتھ خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے۔ ٤۔ جس قوم میں اس کا نفاذ ہوگا۔ وہ قوم جنگ وجدال، حسد و بغض اور باہمی خلفشار سے محفوظ رہے گی۔ اس کے نفاذ سے بھائی چارہ اور مسلمانوں کی معیشت میں برکت پیدا ہوگی اور ملک خوشحال ہوگا۔ (عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ........... کِتَاب اللّٰہِ فِیْہِ بِہٖ الْھُدٰی وَالنُّوْرُ مَنِ السْتَمْسَکَ بِہٖ وَاَخذَبِہٖ کَانَ عَلَی الْھُدٰی وَمَنْ اَخْطَاَہُ ضَلَّ وَفِیْ رِوَایَۃٍ ھُوَحَبْلُ اللّٰہِ مَنِ التَّبْعَہٗ کَانَ عَلَی الْھُدیٰ وَمَنْ تَرَکَہٗ کَانَ عَلٰی ضَلاَلَۃٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الفضائل، باب من فضائل علی ابن ابی طالب ] ” حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ............. اللہ تعالیٰ کی کتاب، اس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ جس نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا وہ ہدایت پا گیا اور جس نے اس سے غفلت کی وہ گمراہ ہوگیا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : یہ اللہ تعالیٰ کی رسی ہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت یافتہ ہوگا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہ ہوجائے گا۔ “ انقلابی کتاب : (عَنْ عُمَرَابْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ ےَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّےَضَعُ بِہٖ اٰخَرِےْنَ ) [ رواہ مسلم : باب فضل من یقوم بالقرآن ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی بدولت کچھ کو عزت دے گا اور کچھ لوگوں کو ذلیل کرے گا۔ “ (لَوْ أَنْزَلْنَا ہَذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَرَأَیْتَہُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا للنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ )[ الحشر : ٢١] ” اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ اللہ کے خوف سے دباجا رہا ہے اور پھٹا جاتا ہے اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ فکر کریں۔ “ مسائل ١۔ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے۔ ٢۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ٣۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی کی طرف تمام لوگوں نے لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ اے لوگو ! بیشک تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ (یونس : ٥٧) ٢۔ قرآن مجید کی آیات محکم ہیں۔ (ھود : ١) ٣۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت، رحمت اور نصیحت ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٤۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٥۔ قرآن مجید مومنوں کے دلوں کے لیے شفا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٦۔ قرآن مجید لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے کا ذریعہ ہے۔ (ابراہیم : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا الناس قد جاء تکم موعظۃ من ربکم اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک عظیم الشان نصیحت آگئی ہے ‘ یعنی رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی زبانی قرآن مجید تم کو پہنچ گیا۔ قرآن پیام بیداری ہے اور ایک یادداشت ہے جو اچھی باتوں کی دعوت دے رہا ہے اور بری باتوں سے بازداشت کر رہا ہے کیونکہ یہ اوامرو نواہی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں اور اللہ حکیم ہے ‘ جس کام کو کرنے کا حکم دے رہا ہے وہ یقیناً اچھا ہے اور اس کا نتیجہ اچھا ہوگا اور جس کام سے روک رہا ہے وہ یقیناً برا ہے اور اس کا نتیجہ برا ہوگا۔ اچھا کام قابل رغبت اور برا کام قابل نفرت ہوتا ہے۔ و شفاء لما فی الصدور اور دلوں کی بیماریوں کیلئے شفاء بخش دوا ہے۔ امراض قلبی سے مراد ہیں غلط عقائد اور اللہ کے سوا دوسری چیزوں سے دلوں کا لگاؤ اور وابستگی۔ ابن مردویہ نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے سینہ کا دکھ ہے۔ فرمایا : قرآن پڑھا کرو۔ اللہ نے (قرآن کے متعلق) فرمایا ہے : وَشَفَآءٌ لِّمَا فِی الصَّدُوْرِلا ٥ اس حدیث کی شاہد واثلہ بن اسقع کی روایت بھی ہے جس کو بیہقی نے شعب الایمان میں بیان کیا ہے۔ وھدی اور رہنما ہے۔ صحیح عقائد و افکار کا ‘ جنت کا اور اللہ کے قرب کے درجات کا راستہ بتاتا ہے۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے ارشاد فرمایا : (قیامت کے دن) قرآن پڑھنے والوں سے کہا جائے گا : پڑھ اور چڑھتا چلا جا اور جس طرح دنیا میں ترتیل کرتا تھا ‘ اسی طرح ترتیل کر کیونکہ تیرا درجہ وہاں ہے جہاں تک تو آخری آیت پڑھنے پر پہنچے گا۔ رواہ احمد والترمذی وابو داؤد والنسائی عن عبد اللہ بن عمرو ورحمۃ للمؤمنین۔ اور ایمان والوں کیلئے یہ اللہ کی طرف سے رحمت ہے۔ ایمان والے ہی اس سے فائدہ اٹھانے والے اور اس کو پڑھ کر اور اس کی تعلیم پر چل کر اللہ کی رحمت سے بہرہ اندوز ہونے والے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قرآن موعظت ہے ‘ سینوں کیلئے شفا ہے ‘ اور ہدایت ورحمت ہے منکرین سے خطاب کرنے کے بعد مومنین کو خطاب فرمایا لیکن اسے یایھا الناس سے شروع فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنی کتاب بھیجی ہے اور ہدایت نازل فرمائی ہے وہ تمام انسانوں کیلئے ہے سب انسان اسے قبول کریں۔ جن لوگوں نے اسے قبول کرلیا ان کے لئے خوشخبری ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل وانعام اور رحمت واکرام پر خوش ہونا چاہئے کہ ہمیں اللہ نے وہ کچھ عطا فرمایا جس کے مقابلہ میں ساری دنیا ہیچ ہے ‘ دنیا میں لوگ جو کچھ جمع کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ قرآن مجید کو موعظت (نصیحت) اور سینوں کے لئے شفا اور مومنین کے لئے ہدایت اور رحمت بتایا۔ موعظت ‘ نصیحت کو کہتے ہیں جس میں برائیوں کو چھوڑنے اور حکام پر عمل کرنے اور مکارم اخلاق اور محاسن اعمال اختیار کرنے کی تلقین اور تعلیم ہو اور آخرت کے احوال اور اہوال کی تذکیر ہو۔ قرآن مجید میں بار بار ان سب امور کے اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ قرآن مجید کو (شِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ) بھی فرمایا یعنی اس کے ذریعہ دلوں کی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے اور جو شخص اس کی ہدایات پر عمل کرے اس کا دل روحانی بیماریوں سے شفا یاب ہوجاتا ہے۔ حسد ‘ کینہ ‘ تکبر ‘ بخل ‘ خود پسندی اور حب دنیا اور وہ سب امور جو انسان کے دل کو تباہ کرتے ہیں قرآن مجید میں ان سب کا علاج ہے اس علاج کو اختیار کرے تو شفا حاصل ہوگی۔ نیز قرآن مجید کو ہدایت اور رحمت بھی فرمایا اس میں لفظ لِلْمُؤْمِنِیْنَ کا اضافہ فرما دیا۔ قرآن مجید ہدایت اور رحمت تو سبھی کے لئے ہے لیکن چونکہ اس سے اہل ایمان ہی مستفید ہوتے ہیں اور اسے اپنے لئے ذریعہ ہدایت اور رحمت بنا لیتے ہیں۔ اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان کے لئے ہدایت اور رحمت ہونے کا تذکرہ فرمایا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں قرآن کے لئے (ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ) فرمایا ہے مزید فرمایا کہ اللہ کے فضل اور رحمت پر خوش ہوجائیں۔ صاحب مدارک التنزیل لکھتے ہیں کہ فضل اور رحمت سے کتاب اللہ اور دین اسلام مراد ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

74: یہ ترغیب الی القرآن ہے۔ اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسی کتاب آچکی ہے جو سراپا ہدایت و رحمت ہے، نصیحت و حکمت سے لبریز اور تمام روحانی بیماریوں کے لیے پیغام شفا ہے وہ توحید، دیگر عقائد حقہ اور احکام شرعیہ بیان کرتی اور شرک و بدعت اور اعمال جاہلیہ سے روکتی ہے، اس لیے اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کی ہدایات پر عمل کرو۔ تاکہ شرک و بدعت اور اخلاق رذیلہ سے پاک ہوجاؤ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57 اے انسانو ! تمہارے رب کی جانب سے تمہارے پاس ایک ایسی چیز آئی ہے جو برے کاموں سے بچنے کے لئے نصیحت ہے اور قلبی بیماریوں کے لئے شفا ہے اور ایمان والوں کے لئے رہنمائی اور رحمت ہے یعنی نصیحت ہے کہ برے اعمال سے بچیں اور برے کاموں کی وجہ سے جو قلب میں بیماریاں پیدا ہوجاتی ہے اس کیلئے شفا اور نیک کاموں کی خواہش رکھنے والے اہل ایمان کے واسطے رہنمائی کرنے والی ہے اور جو لوگ نیک اعمال کرتے ہیں ان کے لئے موجب رحمت اور ذریعہ ثواب ہے مراد اس چیز سے قرآن کریم ہے۔