Surat Younus

Surah: 10

Verse: 68

سورة يونس

قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبۡحٰنَہٗ ؕ ہُوَ الۡغَنِیُّ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اِنۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍۭ بِہٰذَا ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۸﴾

They have said, " Allah has taken a son." Exalted is He; He is the [one] Free of need. To Him belongs whatever is in the heavens and whatever is in the earth. You have no authority for this [claim]. Do you say about Allah that which you do not know?

وہ کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ۔ سبحان اللہ! وہ تو کسی کا محتاج نہیں اس کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ۔ تمہارے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں ۔ کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah is Far Above taking a Wife or having Children Allah tells; قَالُواْ اتَّخَذَ اللّهُ وَلَدًا ... They say: "Allah has begotten a son." Allah criticizes those who claim that He has, ... وَلَدًا سُبْحَانَهُ هُوَ الْغَنِيُّ ... ...begotten a son. Glory is to Him! He is Rich (Free of all needs). He is Greater than that and above it. He is Self-Sufficient, free of want or need of anything. Everything else is in desperate need of Him, ... لَهُ مَا فِي السَّمَاوَات وَمَا فِي الاَرْضِ ... His is all that is in the heavens and all that is in the earth. So how can He have a son from what He has created! Everything and everyone belongs to Him and is His servant. ... إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَـذَا ... No warrant have you for this, Meaning, you have no proof for the lies and falsehood that you claim, ... أَتقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ Do you say against Allah what you know not. This is a severe threat and a firm warning. Similarly, Allah threatened and said: وَقَالُواْ اتَّخَذَ الرَّحْمَـنُ وَلَداً لَقَدْ جِيْتُمْ شَيْياً إِدّاً تَكَادُ السَّمَـوَتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الاٌّرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدّاً أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَـنِ وَلَداً وَمَا يَنبَغِى لِلرَّحْمَـنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَداً إِن كُلُّ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ إِلاَّ اتِى الرَّحْمَـنِ عَبْداً لَّقَدْ أَحْصَـهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدّاً وَكُلُّهُمْ ءَاتِيهِ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ فَرْداً And they say: "The Most Gracious has begotten a son." Indeed you have brought forth a terribly evil thing. Whereby the heavens are almost torn, and the earth is split asunder, and the mountains fall in ruins, that they ascribe a son to the Most Gracious. But it is not suitable for the Most Gracious that He should beget a son. There is none in the heavens and the earth but comes unto the Most Gracious as a servant. Verily, He knows each one of them, and has counted them a full counting. And everyone of them will come to Him alone on the Day of Resurrection. (19:88-95)

ساری مخلوق صرف اس کی ملکیت ہے جو لوگ اللہ کی اولاد مانتے تھے ، ان کے عقیدے کا بطلان بیان ہو رہا ہے کہ اللہ اس سے پاک ہے ، وہ سب سے بےنیاز ہے ، سب اس کے محتاج ہیں ، زمین و آسمان کی ساری مخلوق اس کی ملکیت ہے ، اس کی غلام ہے ، پھر ان میں سے کوئی اس کی اولاد کیسے ہو جائے تمہارے اس جھوٹ اور بہتان کی خود تمہارے پاس بھی کوئی دلیل نہیں ۔ تم تو اللہ پر بھی اپنی جہالت سے باتیں بنانے لگے ۔ تمہارے اس کلمے سے تو ممکن ہے کہ آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہو جائے ، پہاڑ ٹوٹ جائیں کہ تم اللہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہو؟ بھلا اس کی اولاد کیسے ہوگی؟ اسے تو یہ لائق نہیں زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی غلامی میں حاضر ہو نے والی ہے ۔ سب اس کی شمار میں ہیں ۔ سب کی گنتی اس کے پاس ہے ۔ ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے پیش ہو نے والا ہے ۔ یہ افترا پرداز گروہ ہر کامیابی سے محروم ہے ۔ دنیا میں انہیں کچھ مل جائے تو وہ عذاب کا پیش خیمہ اور سزاؤں کی زیادت کا باعث ہے ۔ آخر ایک وقت آئے گا جب عذاب میں گرفتار ہو جائیں گے ۔ سب کا لوٹنا اور سب کا اصلی ٹھکانا تو ہمارے ہاں ہے ۔ یہ کہتے تھے اللہ کا بیٹا ہے ان کے اس کفر کا ہم اس وقت ان کو بدلہ چکھائیں گے جو نہایت سخت اور بہت بدترین ہوگا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 اور جو کسی کا محتاج نہ ہو، اسے اولاد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اولاد تو سہارے کے لئے ہوتی ہے اور جب وہ سہارے کا محتاج نہیں تو پھر اسے اولاد کی کیا ضرورت ؟ 68۔ 2 جب آسمان اور زمین کی ہر چیز اسی کی ہے تو ہر چیز اسی کی مملوک اور غلام ہوئی۔ پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اولاد کی ضرورت تو اسے ہوتی ہے، جسے کچھ مدد اور سہارے کی ضرورت ہو، علاوہ ازیں اولاد کی ضرورت وہ شخص بھی محسوس کرتا ہے جو اپنے بعد مملوکات کا وارث دیکھنا یا پسند کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو تو فنا ہی نہیں اس لئے اللہ کے لئے اولاد قرار دینا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (تَكَاد السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا 90 ۝ ۙ اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا 91۝ۚ ) 19 ۔ مریم :90) ' اس بات سے کہ وہ کہتے ہیں رحمٰن کی اولاد ہے، قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] کیا اللہ کو بیٹے کی ضرورت ہے ؟ اولاد بنانے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ وہ اولاد صلبی ہو اس سے لازم آتا ہے کہ اس کی بیوی بھی ہو اور وہ اس کا محتاج بھی ہو اور جو محتاج ہو وہ معبود حقیقی نہیں ہوسکتا۔ معبود حقیقی کی شان ہی یہ ہے کہ وہ کسی چیز کا بھی محتاج نہیں ہوتا اور ہر چیز سے بےنیاز ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کو متبنّٰی بنالے اور دنیا میں متبنیٰ عموماً وہ لوگ بناتے ہیں جو بےاولاد ہوں اور متبنّٰی بنانے سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ متبنّٰی اس کا وارث بن سکے لیکن اللہ تعالیٰ کو اس کی بھی احتیاج نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ گویا اس لحاظ سے بھی وہ بےنیاز ہے لہذا جو لوگ ایسی باتیں بناتے ہیں سب بےبنیاد ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے تمام عیوب سے پاک ہے۔ [٨٣] بیٹا نہ ہونے کی عقلی دلیل :۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہ ہونے پر دوسری دلیل ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ اس کائنات میں جو چیز بھی موجود ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے اور اولاد اپنے والد کی ملکیت نہیں ہوتی لہذا اللہ کی اولاد ہونا محال ہوا لہذا جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں بلادلیل کہتے ہیں اور ایسی بات اللہ کے ذمہ لگاتے ہیں جن کی انھیں سزا مل کر رہے گی دنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ جو کچھ کہتے ہیں یا کرتے ہیں کرلیں بالآخر انھیں ہمارے پاس ہی آنا ہے ہم انھیں ان کے اس شرکیہ عقیدہ کی پوری پوری سزا دیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا : یہاں ان کے ایک اور غلط عقیدے اور باطل خیال کی تردید کی ہے۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے، یہود عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، ان کے اس عقیدے کی بنیاد بھی چونکہ محض ظن وتخمین پر تھی، اس لیے یہاں ” اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ‘ کے تحت اس کی بھی تردید فرما دی۔ سُبْحٰنَهٗ ۭ ھُوَ الْغَنِيُّ : یہ ان کے شرک کو رد کرنے اور صرف اکیلے اللہ کے غنی ہونے کی دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی کا محتاج نہیں کہ اسے بیٹے یا بیٹی کی ضرورت ہو، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، آسمان و زمین کی ہر چیز اس کی ملکیت ہے، جبکہ بیٹا ملکیت نہیں بلکہ جانشین ہوتا ہے، پھر اولاد کا حاصل کرنا شہوت و لذت کو چاہتا ہے جو دونوں چیزیں بیوی کا محتاج بناتی ہیں، جبکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں، وہ اکیلی ذات ہی تو غنی اور ہر ایک سے بےپروا ہے۔ ” ھو الغنی “ میں ” ھو “ کے بعد ” الغنی “ پر الف لام کا معنی ہی یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی غنی، کوئی بےپروا ہے ہی نہیں، سب محتاج ہیں۔ اولاد وہی حاصل کرتا ہے جو فانی ہو، تاکہ اس کے فنا ہونے کے بعد اولاد اس کی قائم مقام ہوجائے، اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی اور ابدی ہے، شہوت و لذت اور فقر و احتیاج سے پاک اور بالا ہے، لہٰذا اس کی طرف اولاد کی نسبت سرے سے محال ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١١١) ، کہف (٤، ٥) اور مریم (٨٨ تا ٩٠) ۔ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۢ بِهٰذَا : ان کے عقیدے کو دلیل سے رد کرنے کے بعد مزید رد اور انکار کے لیے فرمایا کہ ان کے پاس اس کی قطعاً کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ بات جس کے ساتھ اس کی دلیل نہ ہو توجہ کے قابل نہیں ہوتی۔ (شوکانی) اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : یہ نہایت مبالغہ کے ساتھ ان کے گمان کی تردید ہے، یعنی تم وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں، کیا تم سب سے عظیم اور ہر چیز کی مالک ہستی اللہ تعالیٰ پر وہ بات کہتے ہو جس کی نہ تمہارے پاس کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی علم۔ محض جہل کی بنیاد پر بہتان باندھ رہے ہو۔ آلوسی نے فرمایا : ” اس آیت میں دلیل ہے کہ ہر وہ بات جس کی دلیل نہ ہو علم نہیں بلکہ جہل ہے، جب کہ عقیدے کے لیے قطعی یقینی علم ضروری ہے اور یہ کہ تقلید کا ہدایت سے کوئی تعلق نہیں۔ “ قرآن مجید نے کئی جگہ اہل باطل سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے، فرمایا : (قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ البقرۃ : ١١١ ] ” کہہ دے لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔ “ مزید دیکھیے سورة انبیاء (٢٤) ، نمل (٦٤) اور قصص (٧٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ۝ ٠ ۭ ھُوَالْغَنِيُّ۝ ٠ ۭ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍؚبِہٰذَا۝ ٠ ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝ ٦٨ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٨) اہل مکہ کہتے ہیں کہ فرشتے (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کی لڑکیاں میں، سبحان اللہ اس کی ذات بابرکات تو ولد اور شریک سے ماورا اور پاک ہے اور وہ دلدو شریک کسی کا محتاج نہیں تمام مخلوقات اور عجائبات قدرت اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں تمہارے پاس تمہارے اس دعوے پر جو کہ تم اللہ تعالیٰ پر افتراء پر دازی کرتے ہو کوئی دلیل اور حجت نہیں بلکہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبْحَنٰہٗط ہُوَ الْغَنِیُّ ) اللہ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اسے اولاد کی حاجت ہو۔ یہاں ” غنی “ کا لفظ اس لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اولاد کی تمنا آدمی اس لیے کرتا ہے کہ اس کا سہارا بنے اور مرنے کے بعد اس کے ذریعے دنیا میں اس کا نام باقی رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسی حاجتوں سے پاک ہے۔ وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ‘ وہ ہر حاجت سے غنی اور بےنیاز ہے ‘ اسے اولاد سمیت کسی چیز کی ضرورت اور حاجت نہیں ہے۔ (اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ ) تمہارے پاس کوئی علمی سند یا عقلی دلیل اس بات کے حق میں نہیں ہے جو تم اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66. In the preceding verses, the polytheists were reproached for basing their religious doctrines on guesswork and conjecture, and then failing to examine, on scientific grounds, whether those doctrines were backed up by any supporting proof or not. In this verse, the Christians and followers of some other religions are being taken to task for another error - for their designating someone, again by resort to sheer conjecture, as God's son. 67. This Arabic expression is used both in its literal sense and also by way of exclamation. As an exclamatory expression it emphasizes one's utter amazement about God. In its literal sense, it signifies that God is free of every defect and flaw. The above verse in question employs both meanings. For, apart from expressing amazement at the notion that God took someone as His son, it also stresses the perfection, the absolute flawlessness of God. Since God is perfect and flawless, how does it make any sense to say that He took someone as His son? 68. In refuting the notion that God took anyone as His son, three arguments are advanced: (i) God is free of all defects; (ii) God is All-Sufficient; and (iii) all that is in the heavens and in the earth belongs to Him. A brief elucidation of these statements will enable one to appreciate the meaning and significance of what is being said here. To be a son can have only two meanings: either he has sprung from his father's loins, that is, he is his father's son in the true sense of the term, and thus of his father's loins, or that he is not a son in the literal sense of the word but has merely been adopted as such. Now, if someone is considered to be a son of God in its true, literal sense, that would obviously amount to considering God akin to a mortal. Like any other mortal, God is conceived to belong to one gender or the other, and to stand in need of a spouse, and of some sort of conjugal relationship to enable the birth of offspring, and thus to ensure the continuity of his progeny. Alternatively, God is believed to have adopted someone as His son. Such a statement could either mean that God is akin to that issueless human who resorts to adoption in order that the adopted son might inherit Him and thus secure Him against the loss that would ensue from his being issueless, or at least partially offset that loss. The other possibility is that God also has certain emotional predilections and it is for this reason that He has fallen in love with one of His creatures to the extent of adopting him as His son. In each of the above-mentioned cases, the concept of God is marred by investing Him with several flaws, defects and weaknesses, and He is conceived as One lacking self-sufficiency, as One Who perforce must depend on others. Hence, the opening part of the verse clearly proclaims God to be free of all defects, deficiencies and weaknesses which people ascribe to Him. This is followed by saying that God is All-Sufficient, that is, He is free of all those needs which impel an issueless mortal to adopt someone as his son. This is further followed by the assertion that all that is in the heavens and in the earth belongs to God and hence all human beings, without any exception, are His servants and bondsmen. This makes ii clear that there is no personal relationship between God and any of His creatures that would prompt Him to choose any, to the exclusion of others, for elevation to the level of godhead. For sure, He holds certain people, on grounds of their merit, to be dearer than others. But God's love for someone does not mean that he is lifted up from the rank of being God's servant to becoming His associate and partner in godhead. What God's special love for some person means can be gauged from the following verse of the Qur'an: 'Oh, surely the friends of Allah have nothing to fear, nor shall they grieve - the ones who believe and are God-fearing. For them are glad tidings in this world and in the Hereafter' (see verses 62-4 above).

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :66 اوپر کی آیات میں لوگوں کی اس جاہلیت پر ٹوکا گیا تھا کہ اپنے مذہب کی بنا علم کے بجائے قیاس و گمان پر رکھتے ہیں ، اور پھر کسی علمی طریقہ سے یہ تحقیق کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ ہم جس مذہب پر چلے جا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں ۔ اب اسی سلسلہ میں عیسائیوں اور بعض دوسرے اہل مذاہب کی اس نادانی پر ٹوکا گیا ہے کہ انہوں نے محض گمان سے کسی کو خدا کا بیٹا ٹھیرا لیا ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :67 سبحان اللہ کلمہ تعجب کے طور پر کبھی اظہار حیرت کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، اور کبھی اس کے واقعی معنی ہی مراد ہوتے ہیں ، یعنی یہ کہ ” اللہ تعالیٰ ہر عیب سے منزہ ہے“ ۔ یہاں یہ کلمہ دونوں معنی دے رہا ہے ۔ لوگوں کے اس قول پر اظہار حیرت بھی مقصود ہے اور ان کی بات کے جواب میں یہ کہنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تو بے عیب ہے ، اس کی طرف بیٹے کی نسبت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :68 یہاں ان کے اس قول کی تردید میں تین باتیں کہی گئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ بے عیب ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بے نیاز ہے ۔ تیسرے یہ کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات اس کی ملک ہیں ۔ یہ مختصر جوابات تھوڑی سی تشریح سے بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں: ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا تو صلبی ہو سکتا ہے یا متبنّٰی ۔ اگر یہ لوگ کسی کو خدا کا بیٹا صُلبی معنوں میں قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو اس حیوان پر قیاس کرتے ہیں جو شخصی حیثیت سے فانی ہوتا ہے اور جس کے وجود کا تسلسل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا کہ اس کی کوئی جنس ہو اور اس جنس سے کوئی اس کا جوڑا ہو اور ان دونوں کے صنفی تعلق سے اس کی اولاد ہو جس کے ذریعہ سے اس کا نوعی وجود اور اس کا کام باقی رہے ۔ اور اگر یہ لوگ اس معنی میں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ اس نے کسی کو متبنّٰی بنایا ہے تو یہ دو حال سے خالی نہیں ۔ یا تو انہوں نے خدا کو اس انسان پر قیاس کیا ہے جو لاولد ہونے کی وجہ سے اپنی جنس کے کسی فرد کو اس لیے بیٹا بناتا ہے کہ وہ اس کا وارث ہو اور اس نقصان کی ، جو اسے بے اولاد رہ جانے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے ، برائے نام ہی سہی ، کچھ تو تلافی کر دے ۔ یا پھر ان کا گمان یہ ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح جذباتی میلانات رکھتا ہے اور اپنے بے شمار بندوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کو کچھ ایسی محبت ہو گئی ہے کہ اس نے اسے بیٹا بنا لیا ہے ۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ، بہرحال اس عقیدے کے بنیادی تصورات میں خدا پرست بہت سے عیوب ، بہت سی کمزوریوں ، بہت سے نقائص اور بہت سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے ۔ اسی بنا پر پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب ، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کر رہے ہو ۔ دوسرے فقرے میں ارشاد ہوا کہ وہ ان حاجتوں سے بھی بے نیاز ہے جن کی وجہ سے فانی انسانوں کو اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ اور تیسرے فقرے میں صاف کہہ دیا گیا کہ زمین و آسمان میں سب اللہ کے بندے اور اس کی مملوک ہیں ، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا ایسا کوئی مخصوص ذاتی تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنا بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے لے ۔ صفات کی بنا پر بے شک اللہ بعض بندوں کو بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے ، مگر اس محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی بندے کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی میں شرکت کا مقام دے دیا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس سے پہلے کی ایک آیت میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ”جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ، دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: یعنی اولاد کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ یا تو وہ زندگی کے کاموں میں باپ کی مدد کرے، یا کم از کم اسے نفسیاتی طور پر صاحب اولاد ہونے کی خواہش ہو، اللہ تعالیٰ ان دونوں باتوں سے بے نیاز ہے، اس لیے اسے کسی اولاد کی ضرورت نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٨۔ ٧٠۔ ان آیتوں میں ان مشرکوں اور الہ کتاب کے عقیدہ کو اللہ پاک نے غلط ٹھہرایا ہے جو کہتے ہیں کہ خدا کا بیٹا یا بیٹی ہے جیسے مثلاً مشرکین عرب کہتے تھے کہ فرشتے خدا کی لڑکیاں ہیں اسی طرح نصاریٰ کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں اور یہود بھی حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا کہتے تھے اسی لئے فرمایا کہ خدا کی ذات باپ یا بیٹے ہونے کی تہمت سے بری ہے وہ بےنیاز اور بےپروا ہے دنیا میں اولاد کی خواہش اس غرض سے ہوتی ہے کہ بیٹا باپ کے بعد اس کی جگہ جانشین ہو اور سلسلہ نسل کا قائم رہے اور اللہ پاک ازل سے ابد تک قائم ہے پھر اس کو اولاد کی کیا پروا ہے دوسری دلیل یہ بیان فرمائی کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب کا وہی مالک ہے کیوں کہ اسی نے سب کچھ پیدا کیا ہے مطلب یہ ہے کہ سارے جہاں کی ساری چیزیں اس کی مخلوق ہیں پھر مخلوق کس طرح اولاد ہوسکتی ہے پھر یہ دلیلیں بیان کر کے فرمایا کہ تم بھی اپنے دعویٰ کی کوئی دلیل پیش کرو کہ تم کس سند سے یہ بات کہتے ہو کہ خدا صاحب اولاد ہے یا اس نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے کیوں کہ دعویٰ بلا دلیل صحیح نہیں ہوتا اور جب کوئی دلیل اور سند مشرکوں نے نہیں پیش کی تو فرمایا کہ کیا تم خدا پر ایسی بات کا بہتان باندھتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں گویا تم جھوٹ بولتے ہو پھر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم ان سے کہہ دو کہ جو لوگ خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کو فلاحیت نہیں ہوگی اور اگر وہ یہ سمجھیں کہ اب دنیا میں آرام سے گزرتی ہے تو یہ دنیا کی زندگی اور مال و متاع بہت ہی حقیر شے ہے جس کی کچھ ہستی نہیں آخر ایک دن ان سب کو اللہ کے پاس آنا ہے اس وقت سخت سے سخت عذاب کا مزہ ان کو چکھنا پڑے گا دنیا میں خدا کی وہی نعمتوں کا شکر یہ نہیں ادا کرتے الٹا بہتان اور الزام لگاتے ہیں سزا کے بعد ان سب باتوں سے یہ لوگ پچھتاویں گے مگر بےوقت کا پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آوے گا۔ شداد بن اوس (رض) کی معتبر سند کی حدیث ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ آدمی ہے جو موت سے پہلے موت کے بعد کا کچھ سامان کرلیوے اور بالکل عقل سے عاجز وہ شخص ہے جو عمر بھر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں لگا رہے اور پھر عقبیٰ میں اللہ تعالیٰ سے نجات کی توقع رکھے ١ ؎ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث ایک جگہ گرز چکی ہے کہ دنیا میں بڑی راحت سے گزران کرنے والے نافرمان لوگ دوزخ کے پہلے ہی جھونکے میں دنیا کی تمام راحت کو بالکل بھول جاویں گے۔ ٢ ؎ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ نافرمان لوگ دنیا کی جس راحت کی زندگی کے نشہ میں عقبیٰ کو بھولے ہوئے ہیں دوزخ کے پہلے ہی جھونکے میں دنیا کی یہ راحت تو ان کو یاد بھی نہ رہے گی اور اللہ اس کے رسول اور اس کے کلام کی شان میں یہ لوگ بےٹھکانے باتیں جو منہ سے نکالتے تھے اور اپنی نادانی سے یہ نہیں جانتے تھے کہ ایسے لوگ انتظام الٰہی میں فلاح کو نہیں پہنچنے والے اس لئے ان کی بداعمالی کی سزا میں وہ سخت عذاب ان کو بھگتنا پڑے گا جو انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ ١ ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص ٢٩ ۃ، ١٢٣، ٢٧٨۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٢ باب صفۃ النار واہلہا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:68) ان نافیہ ہے من زائدہ ہے تاکید نفی کے لئے آیا ہے۔ سلطان۔ حجت۔ دلیل۔ برہان۔ سند۔ زور۔ قوت۔ حکومت۔ یہاں بمعنی دلیل اور سند کے مستعمل ہے۔ بھذا۔ یعنی اس بیہودہ اور باطل قول کی اتخذ اللہ ولدا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یہاں ان کے ایک اور غلط عقیدہ اور باطل خیال کی تردید کی ہے۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے۔ ان کے اس عقیدہ کی بنیاد بھی چونکہ محض ظن وتخمین پر تھی اس لئے یہاں ” ان یتبعون الالظن “ کے تحت اس کی بھی تردید فرمادی۔ (سید احمد حسن) ۔ 5 ۔ یہ اس تردید کی دلیل ہے کہ اللہ کسی کا محتاج نہیں کہ اس کو بیٹے بیٹی کی ضرورت ہو۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ پھر اولاد کا حاصل کرنا، شہوت و لذت کو چاہتا ہے اور اولاد نہیں حاصل کرتا ہے جو فانی ہو تاکہ اس کے فنا ہونے کے بعد اولاد اس کی قائم مقام ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی اور ابدی ہے اور شہوت و لذت سے پاک اور بالا۔ لہٰذا اس کی طرف اولاد کی نسبت سرے سے محال ہے۔ (رازی۔ شوکانی) ۔ 6 ۔ دلیل سے ان کے عقیدہ کو رد کرنے کے بعد مزید انکار و توبیخ کے طور پر فرمایا کہ ان کے پاس اس کا قطعاً کوئی دلیل نہیں ہے۔ (کبیر) اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ بات جس کے ساتھ اس کی دلیل نہ ہوقابلِ التفات نہیں ہوتی۔ (شوکانی) ۔ 7 ۔ نہایت مبالغہ کے ستھ ان کے زعم کی تردید ہے یعنی محض جہالت سے اللہ تعالیٰ پر بہتان تراشی کر رہے ہیں۔ (از شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دے کر اس کے ہاں سفارشی بنا لیا ہے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی حیات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی نانی کے نذر ماننے سے لے کر ان کی والدہ حضرت مریم کی پیدائش حضرت مریم کا نذر کرنا، حضرت مریم کا جوان ہونا، بغیر خاوند کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جنم دینا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت قوم کا حضرت مریم پر تہمت لگانا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا گود میں اپنی والدہ کی صفائی پیش کرنا اور اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہوئے کہنا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں خدا نہیں ہوں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بڑے ہو کر رسالت کا فریضہ سرانجام دینا، دشمنوں کا آپ کو تختہ دار پر لٹکانے کی کوشش کرنا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مجبور ہو کر اپنے حواریوں کو مدد کے لیے بلانا، اللہ تعالیٰ کا انہیں صحیح سالم آسمانوں پر اٹھا لینا، قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ بھیجنا اور پھر انہیں موت دینا، ان میں سے ایک ایک بات ان کی عاجزی، بےبسی اور ان کے عاجز بندہ ہونے کی شہادت دیتی ہے۔ یہی یہودیوں کا حال ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سو سال تک مارے رکھا۔ جب انہیں سو سال کے بعد زندہ کیا اور پوچھا کہ آپ کتنی دیر ٹھہرے رہے۔ انہیں خبر نہ تھی کہ میں ایک سو سال مردہ پڑا رہا ہوں۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کہنے لگے کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سو سال تک ٹھہرے رہے ہو۔ تفصیل کے لیے البقرۃ آیت (٢٥٩) کی تلاوت کریں۔ جو لوگ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں ان کا دامن بھی دلیل سے خالی ہے۔ اس کے باوجود عیسائی اپنی جہالت اور یہودی اپنی ضد ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں قرار دینے اپنی بےعلمی پر اڑے ہوئے ہیں، حالانکہ ان کے پاس کوئی عقلی اور نقلی دلیل نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر فرمایا ہے۔ (اِنْ عِنْدَکُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِہٰذَا اَ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللَّہ مَالَا تَعْلَمُوْنَ )[ یونس : ٦٨] ” تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہے یا تم اللہ پر وہ کہتے ہو جو تم نہیں جانتے۔ “ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم اور گناہ ہے : (وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا۔ لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا إِدًّا۔ تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا۔ أَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَمَا یَنْبَغِی للرَّحْمٰنِ أَنْ یَتَّخِذَ وَلَدًا۔ )[ مریم : ٨٨۔ ٩٢] ” اور انہوں نے کہا رحمن کی اولاد ہے۔ یہ تو اتنی بری بات تم گھڑ لائے ہو جس سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے، پہاڑ گرپڑیں۔ انہوں نے رحمن کے لیے اولاد کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ رحمن کے لیے لائق نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت نہیں۔ ٤۔ مشرک کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ٥۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اولاد کی محتاجی سے پاک ہے : ١۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے اللہ اولاد سے بےنیاز ہے۔ (یونس : ٦٨) ٢۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنائی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (البقرۃ : ١١٦) ٣۔ مشرکین نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ سارے اسی کے بندے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٦) ٤۔ اللہ کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ ہے۔ (المومنون : ٩١) ٥۔ ہمارے پروردگار کی شان بڑی ہے اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا ہے نہ اس کی اولاد ہے۔ (الجن : ٣) ” فرما دیں بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے۔ “ (٦٩) ” دنیا میں تھوڑا سا فائدہ ہے پھر ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہے پھر ہم انھیں بہت سخت عذاب چکھائیں گے، اس وجہ سے جو وہ کفر کرتے ہیں۔ “ (٧٠) فہم القرآن ربط کلام : زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز پر اللہ کا اختیار اور اقتدار ہے۔ سب کچھ اس کی ملکیت میں ہونے کے باوجود مشرک نہ صرف اللہ تعالیٰ کی خدائی میں دوسروں کو شریک کرتا ہے بلکہ کچھ شخصیات کو اللہ کی اولاد قرار دیتا ہے۔ جو سب سے بڑا گناہ ہے۔ مشرک اپنے بلاثبوت اور من گھڑت عقیدہ میں اس قدر اندھا ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ شخصیات کی محبت اور اپنے مفادات کی خاطر کسی کو اللہ کی اولاد قرار دینے سے بھی نہیں چوکتا۔ عرب کے کچھ لوگ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ جس کے لیے وہ یہ بات کہتے تھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نور ہے اسی طرح ہی ملائکہ بھی نوری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو کھانے پینے اور شادی بیاہ کی ضرورت نہیں اسی طرح ملائکہ بھی ان باتوں سے بےنیاز ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کے سو سال بعد زندہ ہونے کی بنا پر انہیں خدا کا بیٹا اور جز قرار دیا۔ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کے بےمثال معجزات اور حضرت مریم کی پاک دامنی سے متاثر ہو کر اس قدر عقیدت میں آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے یہ عقیدہ بنایا اور پھیلایا ہے کہ رب کی خدائی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اسی بنیاد پر تثلیث ان کے مذہب کی نشانی ٹھہری۔ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ اور باطل نظریات کی تردید کرتے ہوئے ناقابل تردید تین دلائل دیتے ہوئے اسے بےبنیاد، جھوٹ اور جہالت قرار دے کر فرمایا ہے۔ کہ ان لوگوں کو دو ٹوک بتلا دیا جائے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹے لوگ کبھی فلاح نہیں پائیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی حقیقی اور ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ اس جھوٹ اور باطل عقیدہ کے پیچھے ان کے دنیا کے مفادات ہیں جس نے بالآخر ختم ہونا ہے ان مفتروں اور مجرموں کی ہر صورت ہمارے پاس حاضری ہوگی۔ جھوٹے عقیدے اور حقائق کا انکار کرنے کی وجہ سے انہیں شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ شرک کرنا اللہ تعالیٰ کو گالی دینے کے مترادف ہے : (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہٗ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہٗ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِےْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لَنْ یُّعِےْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَےْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقََوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ ےَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ : ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہٗ اِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا)[ رواہ البخاری : باب قولہ قل ھواللہ احد ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اس کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ یہ اس کا مجھے جھٹلانا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا جیسا کہ اس نے پہلی بار پیدا کیا۔ حالانکہ میرے لیے دوسری بار پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بےنیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی میری برابری کرنے والا نہیں۔ بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں نہ میری بیوی ہے نہ اولاد۔ “ تین دلائل : ١۔ اللہ تعالیٰ ان کے خود ساختہ عقیدہ اور من گھڑت شریکوں سے پاک ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے : ” کہو وہ پاک ذات جس کا نام اللہ ہے ایک ہے، وہ بےنیاز ہے، نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں “ [ الاخلاص ] سبحان کا لفظ تعجب اور پاکیزگی کے لیے آتا ہے یہاں لفظ سبحان بیک وقت دونوں معنوں کا احاطہ کررہا ہے۔ ١: اولاد کے لیے نفسانی خواہش اور بیوی کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ اس سے مبرا ہے۔ ٢: اولاد باپ کی معاون اور بڑھاپے میں اس کے کام آتی ہے اللہ تعالیٰ ہر قسم کی محتاجی سے پاک ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ غنی کا معنی صرف دولت مند نہیں بلکہ غنی کا جامع معنی ہے ذاتی اور صفاتی اعتبار سے ہر چیز سے بےنیاز، ہے۔ باقی سب اس کے محتاج اور اس کے در کے فقیر ہیں۔ بیشک انبیاء ہوں یا اولیاء، فوت شدہ ہوں یا زندہ سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ اس کا ارشاد ہے اے لوگو ! تم تمام کے تمام اس کے در کے فقیر ہو۔ اللہ غنی اور ہر حوالے سے تعریف کے لائق ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم سب کو ختم کرکے نئی مخلوق لے آئے تم اس کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔ وہ ہر اعتبار سے غالب ہے۔ (فاطر : ١٥۔ ١٧) پھر ارشاد فرمایا کہ جن کو تم پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی نہیں پیدا کرسکتے مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ طالب اور مطلوب سب کے سب کمزور ہیں۔ در حقیقت ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر ہی نہیں جانی۔ (الحج آیت ٧٣۔ ٧٤) ٣۔ بیٹا باپ کا وارث ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کا مالک ہے جب سب کچھ اسی کا ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا تو وارث کی کیا ضرروت ہے۔ اس کا ارشاد ہے۔ (وَلِلّٰہ مِیْرَاث السَّمَوَاتِ وَالَارْضِ )[ الحدید : ١٠] ” اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا وارث ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر افترا کرنے والے فلاح نہیں پائیں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کو دنیا میں مہلت دے رکھی ہے۔ ٣۔ افتراء بازی کرنے والوں کے لیے شدید ترین عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن دنیا کی زندگی عارضی ہے : ١۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے پھر تمہاری واپسی ہوگی۔ (یونس : ٧٠) ٢۔ کیا تم آخرت کے بدلے دنیا پر خوش ہوگئے ہو جب کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا بالکل قلیل ہے۔ (التوبۃ : ٣٨) ٣۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں مگر نہایت تھوڑا فائدہ۔ (الرعد : ٢٦) ٤۔ دنیا کی زندگی کھیل تماشا ہے۔ (العنکبوت : ٦٤) ٥۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (الحدید : ٢٠) ٦۔ تم آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ (الاعلیٰ : ١٦) ٧۔ آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ : ١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالا اتخذ اللہ ولدًا مشرکوں کا کہنا ہے کہ اللہ اولاد رکھتا ہے۔ یعنی فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ سبحٰنہ اللہ (اس تہمت سے) پاک ہے۔ یعنی کسی کا باپ بننے سے منزہ ہے۔ یہ فقرہ تنزیہیہ بھی ہے اور احمقوں کے کلام پر تعجب کا اظہار بھی ہے کہ یہ لوگ ایسی بات کہہ رہے ہیں جس کا وقوع بھی ناممکن اور تصور بھی (یعنی سبحان اللہ ! کیسی سخت بات کہہ رہے ہیں) ۔ ھو الغنی وہی بےنیاز ہے ‘ کسی چیز کا حاجتمند نہیں۔ کسی کی اس کو احتیاج نہیں ‘ اس کے سوا ہر چیز ممکن ہے۔ اپنے وجود ‘ بقائے وجود اور تمام حالات وصفات میں اسی کی محتاج ہے۔ بےنیاز اللہ اور محتاج ممکن میں کوئی مناسبت نہیں ‘ پھر کس طرح اللہ والد اور کوئی مخلوق اس کی اولاد ہو سکتی ہے ؟ اولاد کو تو اپنے والد کا ہم جنس ہونا چاہئے۔ یا یوں کہا جائے کہ اولاد کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں باپ کمزور ہو اور بیٹے کی وجہ سے طاقت حاصل کرنا چاہتا ہو ‘ یا مفلس ہو اور بیٹے سے مالی مدد کا خواستگارہو ‘ یا اس کو عزت حاصل نہ ہو اور قابل بیٹا اس کیلئے باعث عزت ہوجائے ‘ یا باپ مر جانے والا ہو اور اپنی نسل قائم رکھنا چاہتا ہو (بہرحال باپ کو بیٹے کی ضرورت کسی غرض اور حاجت کے زیر اثر ہوتی ہے) اور مذکورۂ بالا کسی قسم کی حاجتمندی سے اللہ بےنیاز ہے ‘ وہ غنی اور قدیم ہے۔ لہ ما فی السموت وما فی الارض اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ یعنی اسی کی مخلوق و ملک ہے ‘ پھر کس طرح اس میں سے کوئی چیز اللہ کی اولاد ہو سکتی ہے (اولاد نہ والد کی ملک ہوتی ہے نہ مخلوق) ۔ ان عند کم من سلطن بھدا تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ یعنی نفی ولد کی دلیل کے مقابل کوئی دلیل نہیں ہے۔ اتقولون علی اللہ ما لا تعلمون۔ کیا تم اللہ پر ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کا علم (کسی دلیل کی روشنی میں) تم کو خود نہیں ہے۔ اس جملہ میں مشرکوں کو ان کی جہالت پر زجر ہے اور اس امر پر تنبیہ ہے کہ بےدلیل کوئی بات کہنی درست نہیں۔ عقائد کیلئے تو ناقابل شک قطعی دلیل کی ضرورت ہے۔ دوسروں کے مفروضات فکریہ کی تقلید کسی طرح جائز نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ) (ان لوگوں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے وہ اس سے پاک ہے۔ ) (ھُوَ الْغَنِیُّ ) (وہ بےنیاز ہے) (لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ) (اسی کیلئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے) اول تو وہ بےنیاز ہے اسے کسی کی حاجت نہیں کسی معاون ومدد گار کی ضرورت نہیں پھر یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ کی مخلوق ہے اور اس کی مملوک ہے خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی نسبی رشتہ نہیں ہوسکتا۔ رشتہ کے لئے ہم جنس ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا اللہ جل شانہ کے لئے اولاد ہونا ہی محال ہے۔ اس کے لئے اولاد تجویز کرنا اس کے لئے عیب کی بات تجویز کرنا ہے۔ اور اس کی ذات کو محتاج بتانا ہے ‘ حالانکہ وہ ان سب باتوں سے پاک ہے اور بلند وبالا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ یوں کہتا ہے کہ اللہ صاحب اولاد ہوگیا حالانکہ میں بےنیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ میں جنا گیا اور نہ کوئی میرے برابر ہے۔ (صحیح بخاری ص ٧٤٤ ج ٢) پھر فرمایا (اِنْ عِنْدَکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ م بِھٰذَا) (تمہارے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں ہے) بےسند باتیں ہیں خود تراشیدہ خیالات ہیں (اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) (کیا تم اللہ کے ذمہ ایسی باتیں لگاتے ہو جن کا تم علم نہیں رکھتے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

88: یہ شکویٰ ہے۔ “ وَلَدٌ ” سے مراد حقیق بیٹا نہیں بلکہ اس سے مراد نائب و متصرف ہے جیسا کہ “ اِتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ” کی تعبیر سے ظاہر ہے یعنی اللہ نے بیٹا بنا لیا “ والاتخاذ صریح فی التبنی ” (روح ج 11 ص 155) ۔ یہود و نصاری حضرت مسیح و عزیر (علیہما السلام) کو خدا کے بیٹے اور مشرکین فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بایں معنی نہیں کہتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صلبی اولاد ہیں بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو اس طرح محبوب ہیں جس طرح بیٹے باپ کو محبوب ہوتے ہیں، جس طرح باپ اپنے پیارے بیٹوں اور اپنی چہیتی بیٹیوں کی ہر بات مانتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں کی کوئی بات رد نہیں فرماتا نیز اللہ کے نیک بندے اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں اللہ تعالیٰ نے بعض مافوق الاسباب امور میں ان کو اختیارات عطا فرما دئیے ہیں۔ 89: جواب شکویٰ ہے مشرکین کے مذکورہ بالا قول باطل کو پانچ عنوانوں سے رد کیا گیا ہے (1) “ سُبْحٰنَهٗ ” یعنی اللہ تعالیٰ پاک ہے اور اس عیب سے مبرا ہے کہ اسے بیٹے کی ضرورت ہو۔ (2) “ ھُوَ الْغَنِیُّ ” وہ بےنیاز ہے اور بیٹے کی ضرورت احتیاج کی دلیل ہے۔ (3) “ لَهٗ مَا فِیْ السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِیْ الْاَرْضِ ” وہ ساری کائنات کا مالک و مختار ہے اس لیے اسے بیٹے اور نائب کی حاجت نہیں۔ (4) اس قول باطل پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں اس لیے یہ دعوی بلا دلیل باطل اور ناقابل تسلیم ہے۔ (5) “ اَ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰهِ مَا لَاتَعْلَمُوْنَ ” تم اللہ تعالیٰ کی طرف ایک ایسی بےدلیل بات منسوب کرتے ہو جو سراسر تمہاری جہالت اور نادانی پر مبنی ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو اپنا نائب متصرف نہیں بنا رکھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

68 مشرک یوں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے وہ تمام عیوب سے پاک ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کی ملک ہے اور سب اس کے مملوک ہیں اس بےجا دعوے پر تمہارے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ہے کیا تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کو تم نہیں جانتے اولاد احتیاج کی دلیل ہے اور اللہ تعالیٰ محتاج نہیں ہے اگر اولاد مجانس ہو تو مجانست کا باطل ہونا ظاہر ہوچکا ہے اور اگر اولاد غیر مجانس اور ناجنس ہو تو یہ عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے جو کچھ ہے وہ مملوک ہے اولاد برابر کی ہوتی ہے پھر اس لغو دعوے پر تمہارے پاس کوئی دلیل بھی نہیں تو پھر تم اللہ تعالیٰ پر ایسی افترا پردازی اور بہتان طرازی کیوں کرتے ہو جس کا تم کو علم بھی نہیں۔