Surat Younus

Surah: 10

Verse: 71

سورة يونس

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ نُوۡحٍ ۘ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکُمۡ مَّقَامِیۡ وَ تَذۡکِیۡرِیۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡتُ فَاَجۡمِعُوۡۤا اَمۡرَکُمۡ وَ شُرَکَآءَکُمۡ ثُمَّ لَا یَکُنۡ اَمۡرُکُمۡ عَلَیۡکُمۡ غُمَّۃً ثُمَّ اقۡضُوۡۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنۡظِرُوۡنِ ﴿۷۱﴾

And recite to them the news of Noah, when he said to his people, "O my people, if my residence and my reminding of the signs of Allah has become burdensome upon you - then I have relied upon Allah . So resolve upon your plan and [call upon] your associates. Then let not your plan be obscure to you. Then carry it out upon me and do not give me respite.

اور آپ ان کو نوح ( علیہ السلام ) کا قصہ پڑھ کر سنائیے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم کو میرا رہنا اور احکام الٰہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا تو اللہ ہی پربھروسہ ہے تم اپنی تدبیر مع اپنے شرکا کے پختہ کر لو پھر تمہاری تدبیر تمہاری گھٹن کا باعث نہ ہونی چاہیئے پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھ کو مہلت نہ دو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Nuh and His People Allah instructed His Prophet, saying: وَاتْلُ عَلَيْهِمْ ... And recite to them, relate to the disbelievers of the Quraysh who belied you and rejected you, ... نَبَأَ نُوحٍ ... the news of Nuh, meaning, his story and news with his people who belied him. Tell them how Allah destroyed them and caused every last one of them all to d... rown. Let this be a lesson for your people, lest they will be destroyed like them. ... إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِأيَاتِ اللّهِ فَعَلَى اللّهِ تَوَكَّلْتُ ... When he said to his people: "O my people, if my stay (with you), and my reminding (you) of the Ayat of Allah is hard on you, then I put my trust in Allah." Meaning, `if you find that it is too much of an offense that I should live among you and preach to you the revelation of Allah and His signs and proofs, then I do not care what you think, and I will not stop inviting you.' ... فَأَجْمِعُواْ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءكُمْ ... So devise your plot, you and your partners, `get together with all of your deities (idols and statues) that you call upon beside Allah,' ... ثُمَّ لاَ يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ... and let not your plot be in confusion for you, meaning, and do not be confused about this, rather come and let us settle this together if you claim that you are truthful,' ... ثُمَّ اقْضُواْ إِلَيَّ ... Then pass your sentence on me, ... وَلاَ تُنظِرُونِ and give me no respite. `Do not give me respite even for one hour. Whatever you can do, go ahead and do it. I do not care, and I do not fear you, because you are not standing on anything.' This is similar to what Hud said to his people, إِن نَّقُولُ إِلاَّ اعْتَرَاكَ بَعْضُ ءَالِهَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّى أُشْهِدُ اللَّهِ وَاشْهَدُواْ أَنِّى بَرِىءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ مِن دُونِهِ فَكِيدُونِى جَمِيعًا ثُمَّ لاَ تُنظِرُونِ إِنِّى تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّى وَرَبِّكُمْ I call Allah to witness, and you bear witness, that I am free from that which you ascribe as partners in worship with Him (Allah). So plot against me, all of you, and give me no respite. I put my trust in Allah, my Lord and your Lord! (11:54-55) Islam is the Religion of all of the Prophets Nuh said,   Show more

نوح علیہ السلام کی قوم کا کردار اے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو انہیں حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ کی خبر دے کہ ان کا اور ان کی قوم کا کیا حشر ہوا جس طرح کفار مکہ تجھے جھٹلاتے اور ستاتے ہیں ، قوم نوح نے بھی یہی وطیرہ اختیار کر رکھا تھا ۔ بالآخر سب کے سب غرق کر دیئے گئے ، سارے کافر دریا برد ... ہوگئے ۔ پس انہیں بھی خبردار رہنا چاہیے اور میری پکڑ سے بےخوف نہ ہونا چاہئے ۔ اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ایک مرتبہ ان سے صاف فرما دیا کہ اگر تم پر یہ گراں گزرتا ہے کہ میں تم میں رہتا ہوں اور تمہیں اللہ کی باتیں سنا رہا ہوں ، تم اس سے چڑتے ہو اور مجھے نقصان پہنچانے درپے ہو تو سنو میں صاف کہتا ہوں کہ میں تم سے نڈر ہوں ۔ مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں ۔ میں تمہیں کوئی چیز نہیں سمجھتا ۔ میں تم سے مطلقاً نہیں ڈرتا ۔ تم سے جو ہو سکے کر لو ۔ میرا جو بگاڑ سکو بگاڑ لو ۔ تم اپنے ساتھ اپنے شریکوں اور اپنے جھوٹے معبودوں کو بھی بلا لو اور مل جل کر مشورے کر کے بات کھول کر پوری قوت کے ساتھ مجھ پر حملہ کرو ، تمہیں قسم ہے جو میرا بگاڑ سکتے ہو اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو ، مجھے بالکل مہلت نہ دو ، اچانک گھیر لو ، میں بالکل بےخوف ہوں ، اس لیے کہ تمہاری روش کو میں باطل جانتا ہوں ۔ میں حق پر ہوں ، حق کا ساتھی اللہ ہوتا ہے ، میرا بھروسہ اسی کی عظیم الشان ذات پر ہے ، مجھے اس کی قدرت کے بڑائی معلوم ہے ۔ یہی حضرت ہود نے فرمایا تھا کہ اللہ کے سوا جس جس کی بھی تم پوجا کر رہے ہو ۔ میں تم سے اور ان سے بالکل بری ہوں ، خوب کان کھول کر سن لو ، اللہ بھی سن رہا ہے تم سب مل کر میرے خلاف کوشش کرو ، میں تو تم سے مہلت بھی نہیں مانگتا ۔ میرا بھروسہ اپنے اور تمہارے حقیقی مربی پر ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں اگر تم اب بھی مجھے جھٹلاؤ میری اطاعت سے منہ پھیر لو تو میرا اجر ضائع نہیں جائے گا ۔ کیونکہ میرا اجر دینے والا میرا مربی ہے ، مجھے تم سے کچھ نہیں لینا ۔ میری خیر خواہی ، میری تبلیغ کسی معاوضے کی بنا پر نہیں ، مجھے تو جو اللہ کا حکم ہے میں اس کی بجا آوری میں لگا ہوا ہوں ، مجھے اس کی طرف سے مسلمان ہو نے کا حکم دیا گیا ہے ۔ سو الحمد اللہ میں مسلمان ہوں ۔ اللہ کا پورا فرمان بردار ہوں ۔ تمام نبیوں کا دین اول سے آخر تک صرف اسلام ہی رہا ہے ۔ گو احکامات میں قدرے اختلاف رہا ہو ۔ جیسے فرمان ہر ایک کے لیے راہ اور طریقہ ہے دیکھئے یہ نوح علیہ السلام جو اپنے آپ کو مسلم بتاتے ہیں یہ ہیں ابراہیم علیہ السلام جو اپنے آپ کو مسلم بتاتے ہیں ۔ اللہ ان سے فرماتا ہے اسلام لا ۔ وہ جواب دیتے ہیں رب العلمین کے لیے میں اسلام لایا ۔ اسی کی وصیت آپ اور حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد کو کرتے ہیں کہ اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لیے اسی دین کو پسند فرما لیا ہے ۔ خبردار یاد رکھنا مسلم ہو نے کی حالت میں ہی موت آئے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں اللہ مجھے اسلام کی حالت میں موت دینا موسی علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ اگر تم مسلمان ہو تو اللہ پر توکل کرو ۔ آپ کے ہاتھ پر ایمان قبول کرنے والے جادوگر اللہ سے دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں تو ہمیں مسلمان اٹھانا بلقیس کہتی ہیں میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہوتی ہوں ۔ قرآن فرماتا ہے ہے کہ تورات کے مطابق وہ انبیاء حکم فرماتے ہیں جو مسلمان ہیں ۔ حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہتے ہیں آپ گواہ رہیے ہم مسلمان ہیں ۔ خاتم الرسل سید البشر صل اللہ علیہ وسلم نماز کے شروع کی دعا کے آخر میں فرماتے ہیں ۔ میں اول مسلمان ہوں یعنی اس امت میں ۔ ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہں ہم انبیاء ایسے ہیں جیسے ایک باپ کی اولاد دین ایک اور بعض بعض احکام جدا گانہ ۔ پس توحید میں سب یکساں ہیں گو فروعی احکام میں علیحدگی ہو ۔ جیسے وہ بھائی جن کا باپ ایک ہو مائیں جدا جدا ہوں ۔ پھر فرماتا ہے قوم نوح نے نوح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانا بلکہ انہیں جھوٹا کہا آخر ہم نے انہیں غرق کر دیا ۔ نوح نبی علیہ السلام کو مع ایمانداروں کے اس بدترین عذاب سے ہم نے صاف بچا لیا ۔ کشتی میں سوار کر کے انہیں طوفان سے محفوظ رکھ لیا ۔ وہی وہ زمین پر باقی رہے پس ہماری اس قدرت کو دیکھ لے کہ کس طرح ظالموں کا نام و نشان مٹا دیا اور کس طرح مومنوں کو بچا لیا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یعنی جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان کی مدد بھی حاصل کرلو (اگر وہ گمان کے مطابق تمہاری مدد کرسکتے ہیں) 71۔ 2 غُمَّۃً کے دوسرے معنی ہیں، گول مول بات اور پوشیدگی۔ یعنی میرے خلاف تمہاری تدبیر واضح اور غیر مشکوک ہونی چاہئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٤] اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی & سیدنا نوح کا اپنی قوم کو چیلنج :۔ مشرکوں کے پاس اپنے مذہب کی صداقت میں سب سے مؤثر جواب یہ ہوتا ہے کہ اگر تم لوگوں نے ان کے معبودوں یا اولیاء اللہ کی شان میں کوئی گستاخی کی بات کی یا ان کی توہین کی تو وہ تم پر فلاں فلاں مصیبت ڈھا دیں گے اور تباہ و برباد کرکے ... رکھ دیں گے ایسے عقائد کے وہ خود بھی معتقد ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ سیدنا نوح سے لے کر آج تک بدستور چلا آرہا ہے آپ آج بھی اولیائے کرام کا کوئی تذکرہ اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو اس میں ایسی تہدید اور دھمکیاں مل جائیں گی کہ فلاں بزرگ کی فلاں شخص نے یوں توہین کی اس کا ستیاناس ہوگیا وغیرہ وغیرہ اور ایسے واقعات عموماً من گھڑت ہوتے ہیں جو ان پیروں کے حواری ان کی اولیائی کی دھاک بٹھانے کے لیے گھڑتے اور پھر شائع کردیتے ہیں یہی بات جب نوح کو بھی کہی گئی تو انہوں نے اپنی قوم کے مشرکوں کو کھرا کھرا جواب دے دیا اور فرمایا : تم خود بھی اور تمہارے یہ معبود بھی سب مل کر میرا جو کچھ بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو اور مجھے مہلت بھی نہ دو کیونکہ میں اپنے اللہ پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اللہ پر پوری طرح بھروسہ رکھنے والا اللہ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتا اور اگر بالفرض تسلیم اسے کوئی تکلیف پہنچتی بھی ہے تو وہ تکلیف پہلے ہی اللہ کی مشیئت میں ہوتی ہے اس کا کسی معبود کی خدائی یا کسی بزرگ کی اولیائی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ ۔۔ : نبوت پر کفار کے شبہات اور ان کے مدلل جوابات بیان کرنے کے بعد یہاں کئی انبیاء کا ذکر فرمایا، خصوصاً تین انبیاء کے قصے کچھ تفصیل سے بیان فرمائے۔ اس میں کئی حکمتیں ہیں : 1 انداز بیان بدلنے اور نئی بات شروع کرنے سے سننے والوں میں اکتاہٹ پیدا نہیں ہوتی اور آدمی خوش د... لی اور رغبت سے بات سنتا رہتا ہے۔ ایک ہی قسم کی بات خواہ کتنی علمی ہو، لمبی ہوجائے تو رغبت کم ہوجاتی ہے۔ 2 تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے پیروکاروں کو ان واقعات کے سننے سے تسلی ہو اور وہ کفار کی ایذا رسانی سے ملول نہ ہوں، بلکہ ان انبیاء اور ان کے ساتھیوں کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ بنائیں۔ 3 کفار کو بھی تنبیہ ہو تاکہ وہ دنیا میں سب سے پہلے اور پھر سب سے آخر میں غرق ہونے والی قوموں کے انجام پر غور کریں اور اس قسم کی گستاخیوں سے باز آجائیں۔ 4 پھر ان تاریخی قصوں کو کسی قسم کی کمی بیشی کے بغیر ایک اُمّی نبی کا بیان کرنا خود اس کے صدق نبوت کی دلیل بھی ہے۔ 3 نوح (علیہ السلام) اولوالعزم رسولوں میں سے ایک ہیں۔ قرآن میں ان کا ذکر تینتالیس (٤٣) جگہ آیا ہے، ان کی قوم بت پرست تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اولین مخاطب اہل عرب بھی بت پرست تھے، ان کے بتوں کے نام بھی تقریباً ملتے جلتے تھے۔ نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر سورة اعراف، ہود، مومنون اور نوح میں زیادہ تفصیل کے ساتھ آیا ہے، یہاں مختصر ذکر ہے اور ان کی زندگی کا یہ پہلو زیادہ نمایاں کیا ہے کہ طویل مدت تک اپنی قوم میں رہنے اور ان کے ایمان نہ لانے کے باوجود ان کا اللہ تعالیٰ پر اتنا بھروسا تھا کہ انھوں نے اپنی قوم کو چیلنج کیا کہ تم سب مل کر مجھے جو نقصان پہنچا سکتے ہو پہنچا لو۔ ” فَاَجْمِعُوْا “ باب افعال سے امر ہے، ” اَجْمَعْتُ عَلَی الْاَمْرِ “ یعنی میں نے فلاں کام کا پکا ارادہ کرلیا۔ ” وَشُرَکَاءَ کُم “ مفعول معہ ہے اور واؤ بمعنی ” مَعَ “ ہے۔ ” غُمَّۃً “ پوشیدگی کے معنی میں ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے : ” غَمَّ عَلٰی فُلاَنٍ الْاَمْرُ “ ” فلاں شخص پر معاملہ مخفی اور پوشیدہ رہا۔ “ یعنی نوح (علیہ السلام) نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ پوری قوم کی اور ان کے جہالت سے بنائے ہوئے خداؤں کی ذرہ برابر وقعت نہیں سمجھتے اور ان کا اپنے رب پر اتنا توکل ہے کہ وہ ان کی کسی سازش سے نہیں ڈرتے، سب کو صاف چیلنج کیا کہ اگر میرا تم میں رہنا اور نصیحت کرنا تم پر بھاری ہے اور تم سمجھانے سے سمجھنے پر کسی طرح تیار نہیں تو اپنے بتوں کے ساتھ مل کر، جنھیں تم جہالت اور بےشرمی سے اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہو، میرے خلاف جو سازش میرے قتل یا ایذا کی کرسکتے ہو کرلو۔ ثُمَّ لَا يَكُنْ اَمْرُكُمْ ۔۔ : یعنی میرے مار ڈالنے کا جو منصوبہ تیار کرو اس پر اچھی طرح غور کرلو تاکہ اس کا کوئی پہلو تم پر ڈھکا چھپا نہ رہے، پھر میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کر گزرو اور مجھے مہلت مت دو ۔ 3 ان آیات سے نوح (علیہ السلام) کی انتہا درجے کی شجاعت، اللہ تعالیٰ پر کمال توکل، مخلوق سے کلی استغناء اور فریضۂ رسالت کی نہایت طویل مدت تک بغیر وقفے یا اکتاہٹ یا تھکاوٹ کے مسلسل ادائیگی اور اس کے دوران آنے والی ہر تکلیف، طعن اور استہزا کو کمال صبر سے برداشت کرنا ظاہر ہو رہا ہے۔ تبھی ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حکم ہوا کہ ان اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر کرو۔ ہمیں تو ان پر پیش آنے والے حالات کے تصور ہی سے پسینا آجاتا ہے اور بدن کانپ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دعوت کے کام کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور آپ ان کو نوح ( علیہ السلام) کا قصہ پڑھ کر سنایئے ( جو کہ اس وقت واقع ہوا تھا) جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم اگر تم کو میرا رہنا ( یعنی وعظ گوئی کی حالت میں رہنا) اور احکام خداوندی کی نصیحت کرنا بھاری ( اور ناگوار) معلوم ہوتا ہے تو ( ہوا کرے میں کچھ پرواہ نہیں کرت... ا کیونکہ) میرا تو خدا ہی پر بھروسہ ہے سو تم ( میرے ضرر پہنچانے کے متعلق) اپنی تدابیر ( جو کچھ کرسکو) مع اپنے شرکاء ( یعنی بتوں) کے پختہ کرلو ( یعنی تم اور تمہارے معبود سب مل کر میری ضرر رسانی میں اپنا ارمان نکال لو) پھر تمہاری وہ تدبیر تمہاری گھٹن ( اور دل تنگی) کا باعث نہ ہونا چاہئے ( یعنی اکثر خفیہ تدبیر سے طبعیت گھٹا کرتی ہے، سو خفیہ تدبیر کی ضرورت نہیں، جو کچھ تدبیر کرو دل کھول کر علانیہ کرو، میرا نہ لحاظ پاس کرو اور نہ میرے چلے جانے نکل جانے کا اندیشہ کرو کیونکہ اتنے آدمیوں کے پہرہ میں سے ایک آدمی کا نکل جانا بھی مستبعد ہے پھر اخفا کی کیا ضرورت ہے) پھر میرے ساتھ ( جو کچھ کرنا ہے) کر گزرو اور مجھ کو ( ذرا) مہلت نہ دو ( حاصل یہ کہ میں تمہاری ان باتوں سے نہ ڈرتا ہوں اور نہ تبلیغ سے رک سکتا ہوں یہاں تک تو نفی خوف کی فرمائی، آگے نفی طمع کی فرماتے ہیں یعنی) پھر بھی اگر تم اعراض ہی کئے جاؤ تو ( یہ سمجھو کہ) میں نے تم سے ( اس تبلیغ پر) کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا ( اور میں تم سے کیوں مانگتا کیونکہ) میرا معاوضہ تو صرف ( حسب وعدہ کرم) اللہ ہی کے ذمے ہے (غرض نہ تم سے ڈرتا ہوں نہ خواہش رکھتا ہوں) اور ( چونکہ) مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں اطاعت کرنے والوں میں رہوں ( اس لئے تبلیغ میں حکم کی تعمیل رکھتا ہوں اگر تم نہ مانو گے میرا کیا نقصان ہے) سو ( باوجود اس موعظہ بلیغہ کے بھی) وہ لوگ ان کو جھٹلاتے رہے پس ( اس پر عذاب طوفان کا مسلط ہوا اور) ہم نے ( اس عذاب سے) ان کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے ان کو نجات دی اور ان کو (زمین) پر آباد کیا اور (باقی لوگ رہ گئے تھے، جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو ( اس طوفان میں) غرق کردیا سو دیکھنا چاہئے کیسا ( برا) انجام ہوا ان لوگوں کا جو ( عذاب الہٰی سے) ڈرائے جاچکے تھے ( یعنی بیخبر ی میں ہلاک نہیں کئے گئے، پہلے کہہ دیا، سمجھا دیا، نہ مانا سزا پائی )   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ نُوْحٍ۝ ٠ ۘ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖ يٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِيْ وَتَذْكِيْرِيْ بِاٰيٰتِ اللہِ فَعَلَي اللہِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَكُمْ وَشُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ۝ ٧... ١ تلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس/ 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] كَبُرَ ( مشقت) وتستعمل الکبيرة فيما يشقّ ويصعب نحو : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/ 45] ، وقال : كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] ، وقال : وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] ، وقوله : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5] ففيه تنبيه علی عظم ذلک من بين الذّنوب وعظم عقوبته . ولذلک قال : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] ، وقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] إشارة إلى من أوقع حدیث الإفك . وتنبيها أنّ كلّ من سنّ سنّة قبیحة يصير مقتدی به فذنبه أكبر . وقوله : إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56] ، أي تكبّر . وقیل : أمر كَبِيرٌ من السّنّ ، کقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو ۔ چناچہ فرمایا : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے ۔ وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت کریمہ : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5]( یہ ) بڑی بات ہے ۔ میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] خدا اس بات سے سخت بیزار ہے ۔ اور آیت : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ۔ میں تولی کبرہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا ۔ اور آیت :إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56]( ارادہ ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں ۔ میں بکر کے معنی بھی تکبر ہی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے ۔ مَقامُ والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] ، وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن/ 46] ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة/ 125] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 97] ، وقوله : وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان/ 51] ، خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم/ 73] ، وقال : وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات/ 164] ، وقال : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] قال الأخفش : في قوله قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] : إنّ المَقَامَ المقعد، فهذا إن أراد أنّ المقام والمقعد بالذّات شيء واحد، وإنما يختلفان بنسبته إلى الفاعل کالصّعود والحدور فصحیح، وإن أراد أنّ معنی المقام معنی المقعد فذلک بعید، فإنه يسمی المکان الواحد مرّة مقاما إذا اعتبر بقیامه، ومقعدا إذا اعتبر بقعوده، وقیل : المَقَامَةُ : الجماعة، قال الشاعر : 379- وفيهم مَقَامَاتٌ حسان وجوههم «1» وإنما ذلک في الحقیقة اسم للمکان وإن جعل اسما لأصحابه . نحو قول الشاعر : 380- واستبّ بعدک يا كليب المجلس فسمّى المستبّين المجلس . المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے ۔ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن/ 46] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة/ 125] کی جگہ بنا لو ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراھیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان/ 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم/ 73] مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں ۔ وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات/ 164] ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل/ 39] قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں ۔ کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مقعد یعنی نشستگاہ کے ہیں اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقصد بالزات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت ( لی ) الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا ( یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے ہاں اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صعود اور حدور کے الفاظ ہیں ( کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حدود کہا جاتا ہے ) تو بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی نے المقامتہ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 322 ) ونیھم مقامات حسان وجوھم اور ان میں خوڈ لوگوں کی جماعتیں ہیں مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ ( مجازا ) اصھاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ ا ( الکامل ) ؎( 327 ) واستب بعدک یاکلیب المجلس اے کلیب تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔ میں مجلس سے اہل مجلس مراد ہیں ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے شرك ( شريك) الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] . ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ غم الغَمُّ : ستر الشیء، ومنه : الغَمَامُ لکونه ساترا لضوء الشمس . قال تعالی: يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة/ 210] . والغَمَّى مثله، ومنه : غُمَّ الهلالُ ، ويوم غَمٌّ ، ولیلة غَمَّةٌ وغُمَّى، قال : ليلة غمّى طامس هلالها وغُمَّةُ الأمر . قال : ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس/ 71] ، أي : كربة . يقال : غَمٌ وغُمَّةٌ. أي : كرب وکربة، والغَمَامَةُ : خرقة تشدّ علی أنف النّاقة وعینها، وناصية غَمَّاءُ : تستر الوجه . ( غ م م ) الغم ( ن ) کے بنیادی معنی کسی چیز کو چھپا لینے کی ہیں اسی سے الغمیٰ ہے جس کے معنی غبار اور تاریکی کے ہیں ۔ نیز الغمیٰ جنگ کی شدت الغمام کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة/ 210] کہ خدا کا عذاب بادلوں کے سائبانوں میں آنازل ہوا ۔ اسی سے غم الھلال ( چاند ابر کے نیچے آگیا اور دیکھا نہ جاسکا ۔ ویوم غم ( سخت گرم دن ولیلۃ غمۃ وغمی ٰ ( تاریک اور سخت گرم رات ) وغیرہ ہا محاورات ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( جز ) ( 329) لیلۃ غمی ٰ طامس ھلالھا تاریک رات جس کا چاند بےنور ہو ۔ اور غمۃ الامر کے معنی کسی معاملہ کا پیچدہ اور مشتبہ ہونا ہیں ، قرآن پاک میں ہے : ۔ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس/ 71] پھر تمہارا معاملہ تم پر مشتبہ نہ رہے ۔ یعنی پھر وہ معاملہ تمہارے لئے قلق و اضطراب کا موجب نہ ہو اور غم وغمۃ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی حزن وکرب جیسے کرب وکربۃ اور غمامۃ اس چیتھڑے کو کہتے ہیں جو اونٹنی کی ناک اور آنکھوں پر باندھ دیا جاتا ہے تاکہ کسی چیز کو دیکھ یاسونگھ نہ سکے ) اور ناصیۃ غماء پیشانی کے لمبے بال جو چہرے کو چھالیں ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) اور آپ ان کو بذریعہ قرآن کریم نوح (علیہ السلام) کا واقعہ پڑھ کر سنائیے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اگر تمہیں میرا رہنا اور میرا زیادہ قیام اور عذاب الہی سے میرا تمہیں ڈرانا بھاری اور ناگوار معلوم ہوتا ہے تو میرا تو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا ہے اور میں نے اپنے تمام کام اس کے سپرد کردیے ہ... یں، سو تم اپنی تدبیر اور اپنا معاملہ مع اپنے شرکاء کی مدد کے پختہ کرلو پھر تمہارا معاملہ تمہاری تنگی کا باعث نہ ہو اور تمہاری وہ تدبیر تمہارے نقصان کا باعث نہ ہو اور میرے ساتھ جو کچھ کرنا ہے وہ کر کزرو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب انباء الرسل کے سلسلے میں دو رکوع آ رہے ہیں ‘ جن کا آغاز سورت میں ذکر ہوا تھا کہ ان میں پہلے حضرت نوح کا ذکر بہت اختصار کے ساتھ (آدھے رکوع میں) ہے اور بعد میں حضرت موسیٰ کا ذکر قدرے تفصیل سے (ڈیڑھ رکوع میں) آیا ہے۔ درمیان میں صرف حوالہ دیا گیا ہے کہ ہم نے مختلف قوموں کی طرف رسولوں کو بھیجا ‘ اس س... لسلے میں کسی رسول ( علیہ السلام) کا نام نہیں لیا گیا۔ (اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ) میرا دعوت حق کے ساتھ کھڑا ہونا اور تبلیغ و تذکیر کا میرا یہ عمل اگر تم پر بہت شاق گزر رہا ہے کہ تم میرا مذاق اڑاتے ہو اور مجھ پر آوازے کستے ہو تو مجھے تمہاری مخالفت کی کوئی پروا نہیں۔ (ثُمَّ لاَ یَکُنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَیَّ وَلاَ تُنْظِرُوْنِ ) اس طرز تخاطب سے اندازہ ہو رہا ہے کہ حضرت نوح کا دل اپنی قوم کے رویے کی وجہ سے کس قدر دکھا ہوا تھا ‘ اور ایسا ہونا بالکل فطری عمل تھا۔ اللہ کے اس بندے نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو سمجھانے اور نصیحت کرنے میں دن رات ایک کردیا تھا ‘ اپنا آرام و سکون تک قربان کردیا تھا ‘ مگر وہ قوم تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔ بہر حال ان الفاظ میں اللہ کے رسول ( علیہ السلام) کی طرف سے ایک آخری بات چیلنج کے انداز میں کہی جا رہی ہے کہ تم لوگ اپنی ساری قوتیں مجتمع کرلو ‘ تمام وسائل اکٹھے کرلو اور پھر میرے ساتھ جو کرسکتے ہو کر گزرو !   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

69. In the preceding verses a combination of convincing arguments and persuasive instruction was employed to drive home to the people that their intellectual outlook and way of life were faulty. As opposed to that, the right way for mankind was highlighted and it was shown why that way was right. Thereafter, attention was paid to candidly exposing the attitude which the unbelievers had adopted dur... ing the past eleven years: instead of mending their ways in the light of the reasonable criticism to which they had been subjected and in response to the right guidance offered to them, they became inveterate enemies of the very man who was expounding a message that could ensure their salvation and who sought their well-being and had no axe of his own to grind. Regrettably, they responded to his arguments by throwing brickbats and answered his sincere counsels by hurling filthy abuses at him. They found even the existence of this man in their midst, of one whose main fault was that he called a spade a spade, absolutely insufferable. They virtually said that if in a group of blind persons there is anyone possessed of sight, the only right course for him is to blind himself rather than try to restore the vision of others. And if such a person refused to do so, it was for them to pluck out his eyes and make him blind like themselves. No direct comment is made here with regard to the attitude of those people. Instead, God asks His Prophet (peace be on him) to narrate to them the story of Noah. Through this story the unbelievers would be able to see clearly their own predicament as well as the predicament of the believers. 70. Faced with determined opposition from the unbelievers, Noah made it quite clear that he would not cease to strive for his cause, regardless of what the unbelievers might do for it is in God that he put his trust. (Cf. Hud 11: 55.)  Show more

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :69 یہاں تک تو ان لوگوں کو معقول دلائل اور دل کو لگنے والے نصائح کے ساتھ سمجھایا گیا تھا کہ ان کے عقائد اور خیالات اور طریقوں میں غلطی کیا ہے اور وہ کیوں غلط ہے ، اور اس کے مقابلے میں صحیح راہ کیا ہے اور وہ کیوں صحیح ہے ۔ اب ان کے اس طرز عمل کی طرف توجہ منعطف ہوتی ہے جو وہ ... اس سیدھی سیدھ اور صاف صاف تفہیم و تلقین کے جواب میں اختیار کر رہے تھے ۔ دس گیارہ سال سے ان کی روش یہ تھی کہ وہ بجائے اس کے اس معقول تنقید اور صحیح رہنمائی پر غور کر کے اپنی گمراہیوں پر نظر ثانی کرتے ، الٹے اس شخص کی جان کے دشمن ہو گئے تھے جو ان باتوں کو اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ انہی کے بھلے کے لیے پیش کر رہا تھا ۔ وہ دلیلوں کا جواب پتھروں سے اور نصیحتوں کا جواب گالیوں سے دے رہے تھے ۔ اپنی بستی میں ایسے شخص کا وجود ان کے لیے سخت ناگوار ، بلکہ ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا جو غلط کو غلط کہنے والا ہو اور صحیح بات بتانے کی کوشش کرتا ہو ۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم اندھوں کے درمیان جو آنکھوں والا پایا جاتا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے بجائے اپنی آنکھیں بھی بند کر لے ، ورنہ ہم زبردستی اس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے تا کہ بینائی جیسی چیز ہماری سر زمین میں نہ پائی جائے ۔ یہ طرزِ عمل جو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا ، اس پر کچھ اور فرمانے کے بجائے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ انہیں نوح علیہ السلام کا قصہ سنا دو ، اسی قصے میں وہ اپنے اور تمہارے معاملے کا جواب بھی پالیں گے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :70 یہ چیلنج تھا کہ میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا ، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو ، میرا بھروسہ اللہ پر ہے ۔ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو ، ہود ، آیت ۵۵ ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧١۔ شروع سورة سے کئی رکوع میں اللہ تعالیٰ نے قریش کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کا ذکر فرما کر یہاں ختم سورت پر پہلے انبیاء اور ان کی امتوں کا ذکر اس لئے فرمایا ہے کہ قریش کو اس ذکر سے ایک طرح کی تنیہ ہوجاوے کہ اگر یہ بھی باجود نصیحت اور سمجھانے کے اپنی نافرماین سے باز نہ آویں گے تو زمین پر سب سے پہلے غ... ارت ہونے والی قوم امت نوح اور سب سے آخر غارت ہونے والی فرعون کی قوم کا لانے میں دیر کرتے ہیں تو اس کا کچھ غم و اندیشہ نہ کرنا چاہیے پہلے انبیاء کو بھی بڑی بڑی مدت دراز تک اپنی اپنی امتوں کو سمجھانا پڑا ہے دوسرے تسکین یہ کہ اگر قریش لوگ زیادہ سرکشی کریں گے تو آخر نبی کا پلہ بھاری رہے گا اور سرکش لوگ تباہ اور غارت ہوجائیں گے قرآن شریف میں اکثر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور فرعون کا قصہ جگہ جگہ ذکر فرمایا ہے یہ قصہ حقیقت میں ایک عجیب قدرت کا نمونہ ہے اور قضاء قدر کا لکھا پیش آنے کا اس طرح کا ایک معاملہ ہے کہ بڑے بڑے عقلمند دہریوں کی عقل اس کے آگے پیچھے ہے ذرا غور کرنے کی جگہ کہ جس لڑکے کے پیدا ہونے اور پرورش پانے کے خوف سے فرعون نے ہزارہا بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کروا ڈالا تقدیر الٰہی نے وہی لڑکا اس فرعون کے ہاتھوں پلوایا اور اسی لڑکے کے ہاتھوں سے فرعون جیسے جابر بادشاہ کو غارت کرایا باوجود اتنی بڑی باعظمت بادشاہت کے خلاف تقدیر ایک لڑکے کا وہ کچھ نہ کرسکا اور آخر اپنے ہاتھوں خود غارت ہوگیا قرآن شریف میں پہلے ایک ذکر شروع ہو کر پھر اس ذکر کے ضمن میں پہلے انبیاء اور پہلی امتوں کا جو ذکر آتا ہے تو اس میں بہت بڑا ایک تاریخی فائدہ ہوتا ہے جو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے جس طرح یہاں کا فائدہ بتلایا گیا ہے اسی طرح قرآن شریف کی تلاوت کرنے والے مسلمان اور جگہ کے فائدوں پر غور کریں گے تو ہر جگہ کا فائدہ ان کی سمجھ میں آسکتا ہے تفسیر کلبی وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قابیل بن آدم کی اولاد میں سے کئی نیک آدمی مرگئے جن کی وفات کا صدمہ ان کے رشتہ داروں اور متعقدوں کو بہت کچھ ہوا۔ شیطان کے بہکانے سے پہلے پہل تو بنی قابیل کے لوگوں نے ان نیک شخصوں کی پتھر کی مورتیں اس خیال سے بنائیں تھیں کہ ان لوگوں کی صورتوں کے آنکھوں کے سامنے رہنے سے ان کی وفات کا صدمہ کم ہوجاوے پھر رفتہ رفتہ ان صورتوں کی پوجا ہونے لگی اس بت پرستی کو رفع دفع کرنے کے لئے پہلے حضرت ادریس (علیہ السلام) اور ان کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) نبی ہو کر آئے اور مدت تک اس بت پرست قوم کو نصیحت کرتے رہے لیکن اس قوم نے دونوں نبیوں کی نصیحت کو نہ مانا آخر یہ قوم طوفان سے ہلاک ہوگئی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی یہ روایت صحیح بخاری میں بھی مختصر طور پر ہے۔ ١ ؎ جس سے تفسیر کلبی وغیرہ کی روایتوں کو پوری تائید ہوتی ہے۔ سورة الشعراء میں آویگا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) جب قوم کے لوگوں کو بت پرستی کے چھوڑنے کی نصیحت کرتے تھے تو وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو پتھروں سے کچل ڈالنے کی دھمکی دیا کرتے تھے۔ اس پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم اور تمہارے بت مل کر کچھ بد سلوکی میرے ساتھ کرسکتے ہو تو اس کے پورا کرنے میں تم لوگ کمی نہ کرو جو کچھ کرنا ہے وہ بلاشک و شبہ کر گزرو مجھے اس کا کچھ خوف نہیں میں تو اللہ تعالیٰ کی مدد کے بھروسہ پر نصیحت کے فرض کو ضرور ادا کروں گا۔ ١ ؎ صحیح بخاری (مع فتح الباری ص ٣٧٧ ج ٤) تفسیر سورة نوح۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:71) اتل۔ امر۔ واحد مذکر حاضر۔ تو پڑھ۔ تو تلاوت کو۔ قلاوۃ سے۔ نبا۔ خبر۔ اطلاع۔ کبر علی۔ گراں گزرنا۔ کبر علیہ الامر۔ یہ کام اس کے لئے دشوار ہے۔ اس کے لئے بھاری ہے۔ کبر۔ ماضی واحد مذکر غائب (باب کرم) ناگوار ہونا۔ تذکیری۔ مضاف مضاف الیہ۔ میرا نصیحت کرنا۔ میرا سمجھانا۔ تذکیر (تفعیل) مصدر ہے ذکر مادہ۔...  غمۃ۔ تاریک۔ مشتبہ۔ مبہم۔ دشوار۔ پوشیدہ۔ الغم کے بنیادی معنی ہیں کسی چیز کو چھپا لینا۔ اسی طرح بادل کو الغمام کہتے ہیں کہ وہ سور کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے۔ ثم لایکن امرکم علیکم غمۃ۔ پھر تمہارا معاملہ تم پر مشتبہ نہ رہے۔ یعنی اس کا کوئی پہلو تم پر پوشیدہ نہ رہ جائے جو بعد میں تمہارے لئے قلق و اضطراب کا باعث ہو۔ اقضوا الی۔ تم کر گزرو۔ تم فیصلہ کرلو۔ قضاء سے امر کا صیغہ۔ جمع مذکر حاضر۔ لاتنظرون۔ تم مجھے ڈھیل نہ دو ۔ تم مجھے مہلت نہ دو ۔ انظار سے مضارع منفی جمع مذکر حاضر ی ضمیر واحد متکلم محذوف ہے۔ مقامی۔ اس کے مندرجہ ذیل معانی ہوسکتے ہیں۔ (1) اس سے کنایۃ ” نفس “ مراد ہے۔ جیسے قرآن میں ہے ولمن خاف مقام ربہ (55:46) ای خاف ربہ۔ (2) بمعنی مکثی۔ میرا (تمہارے درمیان ) رہنا۔ (3) ای قیامی علی الدعوۃ میرا دعوت دینے کے لئے کھڑا ہونا۔ (4) مقام کے معنی عزت کا مقام ۔ مذکورہ بالا جملہ ولمن خاف مقام ربہ۔ یعنی تم پر میرا عزت کا مقام گراں گزرتا ہے۔ اس آیت میں ان کان کبر علیکم مقامی وتذکیری بایت اللہ شرط ہے اور فعلی اللہ توکلت جواب شرط ہے۔ اور فاجمعوا امرکم وشرکائکم جواب شرط پر معطوف ۔ یا فعلی اللہ توکلت جملہ معترضہ ہوسکتا ہے۔ اور فاجمعوا امرکم وشرکائکم جواب شرط ہے۔ امرکم مضاف مجاف الیہ ہوکر اجمعوا کا مفعول ہے اور شرکائکم کا عطف امرکم پر ہے اور مفعول معہ ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ نبوت پر کفار کے شبہات اور مدلل جوابات بیان کرنے کے بعد یہاں تین انبیاء کے قصے بیان فرمائے۔ تاکہ آپو کو تسلی ہو اور کفار کی ایذارسانی سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طول نہ ہوں اور ان انبیا کو اسوہ بنائیں۔ نیز کفار کو بھی تنبیہ ہے کہ وہ دنیا میں سب سے پہلے اور پھر سب سے آخر غرق ہونے والی قوموں...  کے انجام پر غور کریں اور اس قسم کی گستاخیوں سے باز آجائیں۔ پھر ان تاریخی قصوں کو کسی قسم کی کمی بیشی کے بغیر ایک امی نبی کا بیان کرنا بجائے خود ان کے صدق نبوت پر دلیل بھی ہے۔ (کبیر) ۔ 11 ۔ یعنی ان بتوں کے ساتھ مل کر جنہیں تم جہالت اور بےشرمی سے خدا کا شریک قرار دیتے ہو۔ 12 ۔ یعنی میرے مار ڈالنے کی جو اسکیم تم تیار کرو اس پر اچھی طرح غور کرلو تاکہ اس کا کوئی پہلو تم پر ڈھکا چھپا نہ رہے۔ (شوکانی) ۔ 13 ۔ یعنی سمجھانے سے برا مانتے ہو تو جو کرسکو میرا کرلو۔ (موضح) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٧١ تا ٨٢ اسرار و معارف کفر کا نتیجہ عذاب آخرت تو ہے ہی دنیا میں بھی اکثر تباہی کا باعث بنتا ہے باطنی تکلیف اور قلبی بےچینی کے علاوہ کبھی تو مادی طور پر بھی سخت تباہی لاتا ہے ۔ جلدی یابدیر کفر کا انجام بربادی کے سوا کچھ نہیں آپ انھیں حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ سنایئے کہ صایوں تبلیغ اور محن... ت پر بھی قوم نے مخالفت ترک نہ کی تو انھوں نے فرمایا کہ اگر تمہیں اللہ کے دین سے اس قدر دشمنی ہے اور سننا بھی گوارا نہیں بلکہ مجھے دھکیاں دیتے ہوتوجاؤ جو بن پڑتا ہے کرکے دیکھ لو اور دیکھو اپنے خود ترشیدہ اور موہوم خداؤں کو بھی آوازدے لو اور پوری قوت لگادو کبھی تمہیں افسوس نہ رہے کہ فلاں شے یاکسریاکمی رہ گئی تھی اور میرا کوئی لحاظ نہ کرونہ میں تم سے کسی رعایت کا طالب ہوں لہٰذا مجھے دین کی تبلیغ سے روکنے کے لئے یا ملک سے نکال دینے کے لئے اور کوئی سخت ترین سزادینے کے لئے جو کرسکتے ہوکرگزرو۔ اقتدار یاد دولت کے طمع میں دین کو آڑ بنانا جائز نہیں اور یہ بھی یادرکھو کہ مجھے تم سے کوئی طمع یالالچ بھی نہیں نہ میں نے دین اور دین کی تبلیغ کو کبھی ذریعہ معاش بناکر تم سے اجرت طلب کی ہے ۔ اور یہ طریقہ سب انبیاء علیہم الصلوۃ ولسلام کا ہے کہ دین بیان کرنے پر کوئی اجریامعاوضہ طلب فرماتے ہیں نہ وصول کرتے ہیں ۔ یہاں ان لوگوں کے لئے جائے فکر ہے جن کی معاش کا مدارہی دین پر ہے ایسے لوگ کبھی حق کی بات نہیں کرپاتے اور عنداللہ مجرم بھی ہیں ۔ ہاں ! دین بیان کرنے کا اجر تو وہ ذات ہی دے گی اور دے سکتی ہے ۔ جس کی اطاعت میں دین بیان کررہا ہوں ۔ اسی نے مجھے یہ کم دیا ہے کہ میں صرف اور صرف اس کا حکم بجالاؤں اور اس کے حکم کے خلاف کسی دوسرے کی بات نہ مانوں ۔ یہی اسلام ہے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) جو دین لائے وہ سب اسلام ہی تھے کہ بنیادی عقائد مثلاتوحید رسالت آخرت عذاب وثواب نبوت و رسالت یا فرشتوں کا وجود سب میں ایک تھے ۔ اگر فرق رہا تو محض عبادات میں جو لوگوں کے مزاج اور موقع کی مناسبت سے تفویض کی جاتی رہیں ۔ آج بھی اسلام عقائد اور اعمال میں کماحقہ اطاعت کا نام ہے۔ وہ لوگ نہ مانے اور اپنے انکار پر جمے رہے ۔ چناچہ ان کی ہٹ دھرمی رنگ لائی ایک بہت بڑاطوفان آیا اور سب لوگ غرق ہوکرتباہ ہوگئے۔ روئے زمین سے کفر اور کافر کانشان تک مٹ گیا مگر اللہ نے نوح (علیہ السلام) کو محفوظ رکھا ۔ کفر کے شر سے بھی بچالیا اور طوفان کی سرکشی بھی ان کا کچھ نہ بگاڑس کی ۔ نہ صرف وہ بلکہ ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والے ۔ وہ سب لوگ بچ گئے جو ایمان لاکر ان کی اطاعت اور اتباع سے سرفراز ہوئے تھے ۔ اور پھر روئے زمین کے وارث وہی لوگ قرارپائے کہ کافر تو سب کے سب غرق ہوکرتباہ ہوچکے تھے لہٰذا یہ قصہ ان لوگوں کے انجام سے باخبر کرنے کے لئے کافی ہے جو انبیاعلیہم السلام کی بات کی پرواہ نہیں کرتے اور اسے جھٹلاکر کفر اور سرکشی کا راستہ اپنا تے ہیں ۔ پھر اس کے بعد لوگ گمراہ ہوگئے یہ سب حالات جانتے ہوئے بھی کفر کی دلدل میں دھنس گئے اور ہمارا کرم دیکھو کہ پھر ان کی طرف نبی بھیجے ۔ نہ صرف یہ کہ رسول مبعوث فرمائے بلکہ انہی کی قوم سے اپنے منتخب بندوں کو رسالت سے نوازا اور اپنی بات اس قوم تک پہنچائی اور ہر رسول بہت ہی واضح اور ردشن دلائل لے کر مبعوث ہوامگر ان لوگوں نے مان کر نہ دیا جس بات کا انکار کرچکے تھے اس سے باز نہ آئے۔ گمراہی پر جمے رہنے کا سبب اس کا سبب یہ تھا کہ ان کی زیادتیوں اور گناہوں کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں پر مہر کردی جیسا کہ قانون قدرت ہے کہ گناہ دل کو متاثر کرتا ہے اور مسلسل گناہ سے آخردل اس قدرتباہ ہوجاتا ہے کہ من جانب اللہ اس میں سے قبولیت کی استعداد سلب کرلی جاتی ہے ایسے لوگوں کو کبھی ہدایت نصیب نہیں ہوتی ۔ طریقہ تبلیغ اسی طرح ان اقوام کے بعد موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف مبعوث تو ساری قوم کے لئے تھی مگر تذکرہ فرعون اور اس کے سرداروں کا فرمایا کہ لوگ ایسے ہی افراد کی پیروی کرتے ہیں ۔ لہٰذا مبلغین کو چاہیئے کہ ہمیشہ حکمرانوں اور سرداروں پر زیادہ توجہ دیں کہ یہ تبلیغ کامو ثرترین طریقہ ہے۔ ان لوگوں کو عجیب و غریب معجزات دکھائے گئے اور اللہ کا پیغام پہنچایا گیا مگر انھوں نے کہہ دیا یہ جادو ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ عجیب لوگ ہوبھلاجادوگر بھی کبھی اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے وہ تو اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے اور لوگوں کو اپنا مطیع بناناچاہتا ہے جبکہ انبیاء (علیہما السلام) حق کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ کی اطاعت کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ جاد و اور کرامت ومعجزہ میں فرق معجزہ ایسا کام جس کی عقلی تو جہیہ محال مگر اس کے نتیجے میں لوگوں کو کفر سے نکال کر اللہ سے واصل کرنا نقصود ہوتا ہے کرامت اسی کی فرع ہے جو نبی کے سچے اطاعت شعار کے ہاتھ پر صادرہوتی ہے اور ہمیشہ لوگوں کو اللہ کی طرف لانے کا سبب بنتی ہے مگر جادو کے ذریعے یا شعبدہ بازی کے کمال سے لوگوں کو متاثر کرنے والے حق کی طرف نہیں بلاتے بلکہ اپنے آپ کو لوگوں پہ مسلط کرتے ہیں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے طلبگار ہوتے ہیں ۔ لہٰذا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بھلایہ جادو ہے کہ میں تمہیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہوں اور جادو گرتوبالآ خرخود تباہ ہوجاتے ہیں جبکہ اللہ کے داعی ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں اگر اس راہ میں شہید بھی ہوں تو بھی کامیاب ہی ہیں۔ مگربات ان کی سمجھ میں نہ آئی سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ وہ اپنے آباواجداد کی جاری کردہ رسومات کو چھوڑنے پہ تیارنہ تھے کہ بھلاہم اپنے باپ دادا کی بات سے کیسے پھرجائیں اور اگر انھیں چھوڑ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مان لیں تو پھر ہم توپیروکارٹھہرے لہٰذاحکومت واقتدار بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلاجائے گا اور یہ ہمیں ہرگز منظور نہیں کہ اپنے باپ دادا پر ہمیں آج تک فخررہا ہے انھیں کیسے چھوڑدیں اور حکومت واقتدار کسی کو کیوں دیں یہ نہیں ہوسکتا بلکہ ہم تمہارے جادو کا مقابلہ کریں گے لہٰذا فرعون نے حکم دے دیا کہ ملک بھر کے نامور جادوگروں کو جمع کیا جائے اور مقابلہ کی تیاری کرلی سرمیدان موسیٰ (علیہ السلام) نے جادو گروں سے فرمایا کہ بھئی ! تمہیں جو کچھ کرنا ہے ظاہر کرو اور جب انھوں نے لکڑیاں اور رسے زمین پر پھینکے اور وہ سانپ کی طرح نظرآنے لگے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تمہارا کمال جادو ہے کہ اس کے ذریعے تم دنیا کا نفع بھی چاہتے ہو اور باطل کی تایئد بھی کرنا چاہتے ہو لہٰذا اللہ اسے تباہ کردے گا کہ اللہ کبھی بھی حق کے مقابلہ میں باطل کو برقرار نہیں رکھتا اور نہ ہی بدکاروں کے کسی عمل میں دوام یا کامیابی ہوتی ہے اور حق کو ہمیشہ قائم رکھتا ہے یعنی معجزات و کرامات کے مقابل جادوگری کی کوئی حیثیت نہیں ۔ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے ارشادات کو ثابت فرمانے کے لئے ان کے معجزات کو غالب فرماتا ہے اگرچہ یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار بھی گزرے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 71 تا 73 اتل (تلاوت کر، پڑھ کر سنا نبا (خبر، واقعہ، قصہ) کبر (بڑا ہے، بھاری ہے) مقامی (میرا ٹھہرنا) تذکیری (میرا یاد دلانا) توکلت (میں نے بھروسہ کرل یا، تو کل کرلیا) اجمعوآ (تم سب جمع ہو جائو، تم پکاکر لو) غمۃ (کچھ شبہ، کچھ شک) اقضوا (کر گذرو، فیصلہ کرلو) لاتنظرون (تم مجھے مہت ن... ہ دو ) ماسالت (میں نے نہیں مانگا) اجر (اجرت، مختانہ) امرت (مجھے حکم دیا گیا ہے) تشریح : آیت نمبر 71 تا 73 اس سورة کے آغاز ہی سے توحید و رسالت، قیامت و آخرت اور جزا و سزا کو تفصیل سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ معقول اور بہتر دلائل اور نصیحتوں کے انداز میں یہ بتایا گیا کہ اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری سے انسان کو دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں عطا کی جاتی ہیں۔ زیر مطالعہ آیات سے کچھ انبیاء کرام کے واقعات کا ذکر کر کے یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ واقعات گواہ ہیں کہ جو لوگ ان قوانین کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے ان کا انجام بھیانک ہوا اور ان کی زندگیاں عبرت کا نشان بن گئیں۔ ان تین آیات میں سب سے پہلے حضرت نوح کے واقعہ کو نہایت مختصر اور جامع انداز میں ارشاد فرمایا گیا۔ حضرت نوح ساڑھے نو سو سال تک حیات رہے اور انہوں نے ہر شخص تک اللہ کا دین پہنچایا۔ بالآخر جب چند لوگوں کے سوا سب نے نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا تب حضرت نوح نے بد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ کا نبی اور رسول کسی قوم کے لئے بد دعا کرتا ہے تو وہ قبول کی جاتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی بد دعا کو قبول کیا اور پانی کے عذاب سے اس وقت کی معلوم دنیا کے تمام نافرمانوں کو غرق کردیا۔ صرف وہی لوگ بچ سکے جو حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار تھے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ذرا ان کو حضرت نوح کا واقعہ تو سنا دیجیے تاکہ کفار مکہ کو یہ حقیقت معلوم ہوجائے کہ انیباء کرام کی نافرمانی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ حضرت نوح نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا بھروسہ تو اللہ کی ذات پر ہے میں کسی کی مخالفت یا اذیت سے نہیں ڈرتا، نہ تم سے میرا کوئی لالچ یا غرض وابستہ ہے۔ نہ میں تم سے کسی اجرت یا معاوضہ کی بات کرتا ہوں میرا کام اللہ کا دین پہنچانا ہے۔ اگر تمہیں میرا وجود نا گوار گذرتا ہے اور مجھے برداشت نہیں کرسکتے تو تمہارے دل میں جو آئے وہ تم کر گذرو۔ مجھے ذرا سی بھی مہلت نہ دو ۔ جب میرا بھروسہ اللہ پر ہے تو تم میرا کچھ بگاڑ نہ سکو گے یہ اور بات ہے کہ تم اپنے آپ کو تباہ و برباد کر ڈالو گے۔ چناچہ یہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمائی اور بقیہ سب لوگوں کو غرق کردیا۔ فرمایا کہ آج وہ قوم اور ان کے غرور وتکبر کا وجود نہیں ہے۔ اب تم ان کی جگہ پر ہوا اگر تم نے بھی وہی طریقے اختیار کئے جو قوم نوح نے اختیار کئے تھے تو تمہارا انجام بھی ان سے مختلف نہ ہوگا۔ ان آیات میں ایک لطیف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ جو شخص بھی بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کرنا چاہتا ہو اس کا کردار ذاتی اغراض اور منفعتوں سے بہت بلند ہونا چاہئے۔ دنیا میں وہ لوگ قوموں کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگاتے ہیں جو اللہ کے سوا نہ تو کسی سے ڈرتے ہیں اور نہ دبتے ہیں، اللہ پر ہی ان کا بھروسہ ہوتا ہے۔ کفار کی اذیتوں پر صبر کرتے ہیں اور غیر اللہ سے خوف نہیں رکھتے۔ اپنی کوئی ذاتی غرض اور لالچ نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ جب انبیاء کرام کی سیرت کو اپنا کر آگے بڑھتے ہیں تو بالآخر حق و صداقت کا بول بالا ہوتا ہے اور باطل پر جمنے والے تباہ و برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی تم اور تمہارے معبود سب مل کر میری ضرر رسانی میں اپناارمان پورا کرلو۔ 2۔ یعنی اکثر خفیہ تدبیر سے طبیعت گھٹا کرتی ہے سو خفیہ تدبیر کی ضرورت نہیں جو کچھ تدبیر کرو دل کھول کر علانیہ کرو اور نہ میرے چلے جانے نکل جانے کا اندیشہ کرو کیونکہ اتنے آدمیوں کے پہرے میں سے ایک آدمی کا نکل جانا بھی مستبعد...  ہے پھر اخفاء کی کیا ضرورت ہے۔ 3۔ حاصل یہ کہ میں تمہاری ان باتوں سے نہ ڈرتا ہوں اور نہ تبلیغ سے رک سکتا ہوں۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح کی قوم نے فوت شدہ بزرگوں کو اللہ کا شریک بنا رکھا تھا اور انہیں اللہ کے ہاں سفارشی بناتے تھے۔ حضرت نوح نے انہیں بہت روکا مگر وہ باز نہ آئے۔ جس کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو سمجھایا مگر قوم سمجھنے کی بجائے...  گمراہی اور دشمنی میں آگے ہی بڑھتی گئی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) قوم کو سمجھاتے رہے کہ میں اس محنت شاقہ اور صبح، شام کی محنت پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ میرا معاملہ اور اجروثواب اللہ کے ہاں ہے۔ لیکن قوم نے ان کی ایک نہ سنی الٹا الزام پہ الزام دیتی اور ان سے عذاب کا مطالبہ کرتی رہے۔ اس صورت حال سے تنگ آکر جناب نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا کہ اے میری قوم اگر میرا رہنا اور سمجھانا تمہارے لیے بالکل ہی ناگوار ہوگیا ہے تو میرے خلاف اپنی تمام تدبیریں کرلو۔ الگ الگ نہیں سب مل کر بلکہ اپنے مشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کو بھی جمع کرلو۔ اپنی سازشوں اور شرارتوں میں کوئی کسرباقی نہ رہنے دو ۔ اس میں تمہیں کوئی حسرت باقی نہیں رہنی چاہیے بس میرے خلاف کرلو جو کچھ کرنا چاہتے ہو۔ ہاں ہاں مجھے ایک لمحہ بھی مہلت نہیں چاہیے۔ میرا اللہ پر بھروسہ ہے اگر اس نے چاہاتم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چناچہ پھر وہی کچھ ہوا جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھی سلامت رہے۔ ان کی قوم حتی کہ ان کا ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو زمین پر اقتدار دیا۔ نافرمان بیٹا ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ جس کی تفصیل بارہویں پارہ سورة ہود کی آیت ( ٤٣) میں پڑھیں گے۔ مشرکوں کے لیے دعوت توحید بھاری ہوا کرتی ہے۔ (إِنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا قِیْلَ لَہُمْ لآإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ )[ الصافات : ٣٥] ” انہیں جب کہا جاتا ہے اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں تو وہ تکبر کرتے ہیں۔ “ (وَإِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ وَإِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہِ ٓإِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ )[ الزمر : ٤٥] ” جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل تنگ ہوجاتے ہیں اور جب اللہ کے علاوہ دوسروں کا ذکر کیا جائے تو کھل اٹھتے ہیں۔ “ (وَإِذَا ذَکَرْتَ رَبَّکَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَہٗ وَلَّوْا عَلی أَدْبَارِہِمْ نُفُوْرًا)[ الاسراء : ٤٦] ” اور جب قرآن میں اکیلے رب کا ذکر کرتے ہیں تو کافر بدک کر پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ تمام انبیاء بلامعاوضہ تبلیغ دین کیا کرتے تھے۔ ٢۔ تمام انبیاء صرف اللہ پر توکل کرتے تھے۔ ٣۔ تمام انبیاء نے بالآخر نافرمانوں کو چیلنج دیا کہ جو چاہو کرلو تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ تفسیر بالقرآن قوم کے الزامات : ١۔ قوم نے نوح کو گمراہ قرار دیا۔ (الاعراف : ٦٠) ٢۔ نوح پاگل ہے۔ (المومنون : ٢٥) ٣۔ نوح تو ہم جیسا انسان ہے۔ (ہود : ٢٧) ٤۔ یہ ہم پر لیڈری چمکاتا ہے۔ (المومنون : ٢٤) ٥۔ ہم تو اس میں کوئی خوبی نہیں دیکھتے۔ (ہود : ٢٧) ٦۔ اس کے چاہنے والے نیچ لوگ ہیں۔ (ہود : ٢٧) ٧۔ اے نوح تجھے پتھر مار مار کر مار دیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) ٨۔ قوم نے نوح سے اپنے چہرے چھپا لیے۔ (نوح : ٧) ٩۔ کفار نے حضرت نوح کے خلاف زبردست مکاریاں کیں۔ (نوح : ٧) ١٠۔ ہمارا تمہارا جھگڑا طویل تر ہوگیا ہے نوح تو سچا ہے تو بس عذاب لے آ۔ (ہود : ٣٢) ١١۔ قوم نوح نے رسولوں کی تکذیب کی۔ (الشعراء : ١٠٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واتل علیھم نبا نوح اور (اے محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ! ) آپ (مکہ والوں کو) نوح کی خبر پڑھ کر سنائیے۔ یعنی قوم کے ساتھ حضرت نوح کی سرگزشت ان کے سامنے پڑھئے۔ اذ قال لقومہ یاد کیجئے کہ جب نوح نے اپنی قوم سے کہا۔ برقول بغوی قوم نوح قابیل کی نسل سے تھی ‘ لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ حضرت نوح ‘ حضرت...  شیت کی نسل میں سے تھے ‘ قابیل کی نسل میں سے نہیں تھے اور چونکہ قوم کی نسبت حضرت نوح کی طرف کی گئی ہے ‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم نوح حضرت شیت کی نسل میں سے تھی۔ یقوم ان کان کبر علیکم مقامی اے میری قوم ! اگر تم پر میرا قیام شاق ہوگیا ہو۔ یعنی مدت دراز تک تمہارے اندر میرا رہنا یا دعوت پر قائم رہنا اگر تمہارے لئے ناگوار ہوگیا ہو۔ وتذکیری بایت اللہ اور احکام خداوندی کی نصیحت کرنا (ناگوار اور بھاری معلوم ہوگیا ہو) ۔ فعلے اللہ توکلت پس اللہ ہی پر میرا بھروسہ ہے (میں اللہ ہی پر بھروسہ رکھتا ہوں) ۔ فاجمعوا امرکم وشرکاء کم تم مع اپنی مفروضہ شرکاء کے (مجھے ضرر پہنچانے کی) اپنی تدبیر پختہ کرلو۔ اَجْمَعَ الْاَمْرَ کسی کام کا پختہ ارادہ کرلیا ‘ عزم کرلیا۔ یعنی تم اور تمہارے مفروضہ شرکاء مجھ کو قتل کرنے یا دکھ پہنچانے کا پختہ عزم کرلو (کذا قال الزجاج) یا شرکاء سے پہلے مضاف محذوف ہے ‘ یعنی اپنے کام کو اور اپنے شرکاء کے کام کو درست کرلو۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم اپنے کام کا پختہ ارادہ کرلو اور اپنے (مفروضہ) شریکوں کو بھی بلا لو۔ ثم لا یکن امرکم علیکم غمۃ پھر وہ تدبیر تمہارے دلوں کی گھٹن کا باعث بھی نہ ہونا چاہئے۔ غُمَّۃً پوشید ‘ چھپا ہوا۔ غَمَّہٗاس کو چھپایا ‘ یعنی تمہاری تدبیر پوشیدہ بھی نہ ہو ‘ بالکل واضح طور پر اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب تم مجھے ہلاک کر چکو اور میری دن رات کی نصیحت و وعظ کے بار سے آزاد ہوجاؤ تو تمہارا حال تم پر مستور نہ رہنا چاہئے۔ ثم اقضوا الی پھر جو کچھ میرے ساتھ کرنا چاہتے ہو ‘ کر گذرو۔ ولا تنظرون اور مجھے بالکل مہلت بھی نہ دو ۔ حضرت نوح کے اس کلام میں امر بمعنی تعجیز ہے (یعنی تم ایسا کر ہی نہیں سکتے ‘ اگر کرسکتے ہو تو کر گذرو ‘ انتظار کس بات کا ہے) اس کلام کو نقل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ حضرت نوح کا اعتماد اپنے رب پر نہایت مضبوط تھا۔ ان کو اللہ کی مدد پر بھروسہ تھا۔ وہ قوم کی کسی خفیہ تدبیر سے خائف نہ تھے۔ ان کو یقین تھا کہ ان کی قوم اور قوم کے معبود کچھ نہیں کرسکتے۔ نہ نفع ان کے قبضہ میں ہے نہ ضرر۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت نوح (علیہ السلام) کا جرأت کے ساتھ اپنی قوم سے خطاب فرمانا اور نافرمانی کی وجہ سے قوم کا غرق ہوجانا ان آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ اجمالی طور پر بیان فرمایا ہے تفصیل کے ساتھ آئندہ سورة ھود اور سورة نوح میں مذکور ہے۔ نیز سورة اعراف (رکوع ٨) میں بھی گزر چکا ہے۔ سورة اعراف کی تفسیر می... ں ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس کو دوبارہ دیکھ لیں اور سورة ہود (رکوع ٣) اور (رکوع ٤) کی تفسیر کا مطالعہ کرلیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال قیام فرمایا ان کو طرح طرح سے سمجھایا توحید کی دعوت دی شرک کی شناعت اور قباحت بیان فرمائی لیکن وہ لوگ برابر مخالفت کرتے رہے اور دشمنی پر اتر آئے اور یہاں تک کہہ دیا (لَءِنْ تَنْتَہِ یٰنُوْحُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَ ) (کہ اے نوح اگر تم باز نہ آئے تو تم سنگسار کئے جانے والے آدمیوں میں سے ہوجاؤ گے) حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ تم اور تمہارے شرکاء (جن کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو) سب مل کر میرے خلاف منصوبے بنا لو اور ایسا منصوبہ ہو جو ڈھکا چھپا نہ ہو پھر تم اپنے اس منصوبہ کے موافق میری ایذا رسانی کے لئے جو چاہو فیصلہ کرلو۔ مجھے تم سے کوئی ڈر نہیں۔ میں نے صرف اللہ پر بھروسہ کیا اور مجھے تم سے کوئی لالچ بھی نہیں۔ اگر مجھے تم سے کچھ لالچ ہوتا تو مجھے یہ خیال ہوتا کہ تم ناراض ہوجاؤ گے تو جس نفع کی امید ہے وہ حاصل نہ ہوگا تم اگر رو گردانی کرو اور اپنے اعراض پر باقی رہو تو میرا کچھ نہیں بگڑے گا۔ میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے اللہ کی طرف سے یہ حکم ہوا ہے کہ اللہ کے فرمانبرداروں میں سے رہوں میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا۔ وہ لوگ برابر جھٹلاتے رہے اور انہوں نے صاف کہہ دیا (فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) (کہ جس عذاب کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر تم سچے ہو تو اسے لے آؤ) حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی اور اپنے گھر والوں کو اور اہل ایمان کو اپنے ساتھ کشتی میں بٹھا لیا زبردست پانی کا طوفان آیا جس میں سارے کافر غرق ہوگئے (ان میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور ایک بیٹا بھی تھا) اور تمام اہل ایمان نے نجات پائی۔ کافروں کی ہلاکت کے بعد یہ نجات پانے والے اہل ایمان دنیا کے آباد کرنے والے بنے۔ (فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِیْنَ ) اب دیکھنے والے دیکھ لیں اور غور کرلیں کہ جن لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا گیا تھا ان لوگوں کا کیسا انجام ہوا ‘ وہ اپنے کفر پر جمے رہے اور ہلاک ہوئے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91: یہ تخویف دنیوی کا پہلا تفصیلی نمونہ ہے۔ قوم نوح (علیہ السلام) کا حال دیکھ لو انہوں نے ہمارے پیغمبر کے حکم کی تعمیل نہ کی اور اس کی طرف سے دی گئی دعوت توحید کو قبول نہ کیا تو ہم نے ان کو نیست و نابود کردیا اگر تم نے بھی نہ مانا تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ “ امرہ علیه السلام ان یذکرھم اقاصیص ... المتقدمین و یخوفھم العذاب الالیم علی کفرھم ” (قرطبی) ۔ 92:“ فَاجْمِعُوْا ” جملہ انشائیہ “ اِنْ ” شرطیہ کی جزا ہے اور “ شُرَکَاءَکُمْ ” کا ناصب محذوف ہے “ اي ادعوا شرکاء کم ” کیونکہ “ شرکاء کم ”، “ اَجْمِعُوْا ” کے تحت داخل نہیں ہوسکتا اس لیے لفظ اجماع بروزن افعال آراء جمع کرنے اور باہمی اتفاق رائے کرنے کے لیے مستعمل ہے لیکن افراد کو جمع کرنے کے لیے مستعمل نہیں۔ “ غُمَّةً ” پوشیدہ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے خطاب کر کے فرمایا اگر تم میں میرا ٹھہرنا اور اللہ کی توحید بیان کرنا تمہیں ناگوار ہے تو مجھے اس کی ذرہ بھر پروا نہیں۔ میرا اعتماد اور بھروسہ اللہ پر ہے اگر تم مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہتے ہو تو سب باہم مل کر مشورہ کرلو اور اپنے خود ساختہ معبودوں کو بھی بلا لو اور پھر ایک واضح فیصلہ کرلو اور پھر ایک لمحہ کی مہلت دئیے بغیر میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کرلو اللہ کی مہربانی سے تم میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

71 اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کو نوح (علیہ السلام) کا واقعہ پڑھ کر سنائیے جو اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ اس نے پانی قوم سے کہا اے میری قوم اگر میرا یہاں رہنا اور احکام الٰہی سنا کر میرا نصیحت کرنا تم پر شاق اور گراں گزرتا ہے تو ہوا کرلے میں نے تو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ اور توکل ک... ر رکھا ہے سو اب تم مجھے نقصان پہنچانے کی اپنی کوئی تدبیر اپنے شرکاء سے مل کر پختہ طورپر طے کرلو پھر وہ تمہاری مقررہ تدبیر اور تجویز تم پر مخفی اور مشتبہ نہ رہے پھر جو کچھ میرے ساتھ کرنا ہے وہ کر گزرو اور مجھ کو ذرا بھی مہلت نہ دو یعنی میرا قیام اور میری تبلیغ تم کو گراں ہے تو ہو مجھے تو اپنا کام کرنا ہے اور کوئی بات تمہارے خوف سے یا ڈر سے ترک کرنے والا نہیں ہوں کیونکہ میں نے تو ہمیشہ سے خدا پر توکل کر رکھا ہے تم مجھے نقصان پہنونچانا چاہتے ہو تو اپنے رفقاء کار بلکہ بتوں وغیرہ کو جمع کرکے باہمی مشورے سے کوئی پختہ تدبیر کرلو اور وہ تدبیر جو کچھ ہو علانیہ ہو کوئی پوشیدہ بات نہ ہو پھر جو کچھ کرنا ہو وہ کرو اور مجھ کو ڈھیل اور مہلت نہ دو ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی سمجھانے سے برا مانتے ہو تو جو کرسکو میرا کرلو۔  Show more