Surat ul Aadiyaat

Surah: 100

Verse: 9

سورة العاديات

اَفَلَا یَعۡلَمُ اِذَا بُعۡثِرَ مَا فِی الۡقُبُوۡرِ ۙ﴿۹﴾

But does he not know that when the contents of the graves are scattered

کیا اسے وہ وقت معلوم نہیں جب قبروں میں جو ( کچھ ) ہے نکال لیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Knows he not that when the contents of the graves are poured forth, meaning, the dead that are in it will be brought out. وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 بعثر، نثر وبعث یعنی قبروں کے مردوں کو زندہ کر کے اٹھا کھڑا کردیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] قبروں سے مراد قبرستان میں موجود قبریں ہی نہیں بلکہ ہر انسان کا مدفن ہے خواہ یہ سمندر کی تہ میں چلا جائے یا کسی درندہ کے پیٹ میں چلا جائے یا آگ میں جل کر راکھ بن جائے جو بھی صورت ہو بالآخر وہ زمین کے ذرات میں مل جائے گا اور اللہ کے ان ذرات کو جمع کرنے اور زمین سے باہر نکال لانے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

افلا یعلم اذا بغثر ما فی القبور : یعنی انسان اپنے رب کی ناشکری کرتا ہے اور مال سے شدید محبت کی و سے اپنے مالک کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، تو کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا جب وہ سب کچھ نکال باہر پھینکا جائے گا جو قبروں میں ہے اور ان میں موجود تمام مردوں کو زندہ کر کے قبروں سے نکال باہر کیا جائے گا ؟” افلا یعلم “ (تو کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا) کا مطلب یہ یہ کہ کیا وہ اس وقت سے نہیں ڈرتا کہ اپنے مالک کو کیا جواب دے گا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verses [ 100:9-11] وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ‌ ﴿١٠﴾ إِنَّ رَ‌بَّهُم بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّخَبِيرٌ‌ ﴿١١﴾ أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ‌ مَا فِي الْقُبُورِ‌ ﴿٩﴾ (Does he not then know [ what will happen ] when all that is contained in the graves will be overturned, and all that is contained in the hearts will be exposed. Surely your Lord, that day, is fully aware of them.) Divine retribution will be meted out, in the Hereafter, to each person commensurate with his deeds, good or bad, as Allah is well-aware of them. Therefore, it would be wise for man to abstain from ingratitude, and he should not have such a violently passionate love for wealth and indulgence in worldly riches as to be unable to separate the good from the bad. Special Note The current set of verses describes these evil qualities of man in general terms, while Prophets (علیہم السلام) ، friends of Allah and many of His righteous servants are free from these evil qualities or from any earthly attachments. They acquire wealth through lawful means and abstain from acquiring it through unlawful means. They are ever so grateful to Allah for the wealth He has given them and spend it in the way of Allah. So how these evils are attributed to man in general terms? The answer is that most people have these evil qualities, but this does not imply that all, without any exception, are characterized by these qualities. The upright people are excluded from the general statement. Some of the scholars restrict the word &man& to &unbelievers&. These two evil qualities are the essential characteristics of unbelievers, and if they are found in a Muslim [ God forbid!], he needs to reflect and be careful. Allah knows best! Al-Hhamdulillah The Commentary on Surah Al‘Adiyat Ends here

افلایعلم اذا بعثر ما فی القبور الآیتہ، کیا اس غافل انسان کو اس کی خبر نہیں کہ قیامت کے روز جبکہ مردے قبروں سے زندہ کر کے اٹھا لئے جاویں گے اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں بھی سب کھل کر سامنے آجاوینگی اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ رب العالمین ان سب کے سب حالات سے باخبر ہیں تو اس کے مطابق جزاء سزا دیں گے اس لئے عقلمند کا کام یہ ہے کہ ناشکری سے باز آئے اور مال کی محبت میں ایسا مغلوب نہ ہو کہ اچھے برے کی تمیز نہ رہے۔ فائدہ :۔ اس آیت میں یہ دو مذموم خصلتیں مطلق انسان کی بیان کی گئی ہیں حالانکہ انسان میں انبیاء و اولیاء اور بہت سے صلحاء عباد ایسے ہیں، جو ان مذموم خصلتوں سے پاک اور شکر گزار بندے ہوتے ہیں مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالنے کے لئے تیار رہتے ہیں حرام مال سے بچتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مطلق انسان کی طرف ان مذموم خصلتوں کی نسبت اس لئے کردی گئی کہ اکثر انسان ایسے ہی ہیں اس سے سب کا ایسا ہونا لازم نہیں آتا۔ اسی لئے بعض حضرات نے اس آیت میں انسان سے مراد انسان کافر لیا ہے جیسا کہا وپر خلاصہ تفسیر میں ایسا ہی ہے اس کا حاصل یہ ہوگا کہ یہ دونوں مذموم خصلتیں دراصل کافر کی ہیں کسی مسلمان میں بھی خدانخواستہ پائی جائیں تو اسے فکر کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم تمت سورة العدیث بحمد اللہ تعالیٰ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَلَا يَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُوْرِ۝ ٩ ۙ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) بعثر قال اللہ تعالی: وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ [ الانفطار/ 4] ، أي : قلب ترابها وأثير ما فيها، ومن رأى تركيب الرباعي والخماسيّ من ثلاثيين نحو : تهلل وبسمل : إذا قال : لا إله إلا اللہ وبسم اللہ يقول : إنّ بعثر مركّب من : بعث وأثير، وهذا لا يبعد في هذا الحرف، فإنّ البعثرة تتضمن معنی بعث وأثير . ( ب ع ثر ) وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ [ الانفطار/ 4] میں ببعثرت کے معنی قبروں کی مٹی کو الٹ پلٹ کرنے اور مردوں کو اٹھانے کے ہیں ۔ جن علماء کے نزدیک رباعی اور خماسی دو ثلاثی مادوں سے مل کر بنتے ہیں ان کے خیال میں بعثرت بعث اور اثیر سے مل کر بنا ہے جیسا کہ سے بنے ہیں ۔ اور اس میں کچھ بعد نہیں ہے کیونکہ البعثیرۃ میں ان دونوں فعلوں کے معنی موجود ہیں ۔ بعثر قال اللہ تعالی: وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ [ الانفطار/ 4] ، أي : قلب ترابها وأثير ما فيها، ومن رأى تركيب الرباعي والخماسيّ من ثلاثيين نحو : تهلل وبسمل : إذا قال : لا إله إلا اللہ وبسم اللہ يقول : إنّ بعثر مركّب من : بعث وأثير، وهذا لا يبعد في هذا الحرف، فإنّ البعثرة تتضمن معنی بعث وأثير . ( ب ع ثر ) وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ [ الانفطار/ 4] میں ببعثرت کے معنی قبروں کی مٹی کو الٹ پلٹ کرنے اور مردوں کو اٹھانے کے ہیں ۔ جن علماء کے نزدیک رباعی اور خماسی دو ثلاثی مادوں سے مل کر بنتے ہیں ان کے خیال میں بعثرت بعث اور اثیر سے مل کر بنا ہے جیسا کہ سے بنے ہیں ۔ اور اس میں کچھ بعد نہیں ہے کیونکہ البعثیرۃ میں ان دونوں فعلوں کے معنی موجود ہیں ۔ قبر القَبْرُ : مقرّ الميّت، ومصدر قَبَرْتُهُ : جعلته في القَبْرِ ، وأَقْبَرْتُهُ : جعلت له مکانا يُقْبَرُ فيه . نحو : أسقیته : جعلت له ما يسقی منه . قال تعالی: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس/ 21] ، قيل : معناه ألهم كيف يدفن، والْمَقْبَرَةُ والْمِقْبَرَةُ موضع الْقُبُورِ ، وجمعها : مَقَابِرُ. قال : حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر/ 2] ، كناية عن الموت . وقوله : إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات/ 9] ، إشارة إلى حال البعث . وقیل : إشارة إلى حين كشف السّرائر، فإنّ أحوال الإنسان ما دام في الدّنيا مستورة كأنّها مَقْبُورَةٌ ، فتکون القبور علی طریق الاستعارة، وقیل : معناه إذا زالت الجهالة بالموت، فكأنّ الکافر والجاهل ما دام في الدّنيا فهو مَقْبُورٌ ، فإذا مات فقد أنشر وأخرج من قبره . أي : من جهالته، وذلک حسبما روي : ( الإنسان نائم فإذا مات انتبه) «2» وإلى هذا المعنی أشار بقوله : وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر/ 22] ، أي : الذین هم في حکم الأموات . ( ق ب ر ) القبر کے معنی میت کو دفن کرنے جگہ کے ہیں اگر یہ قبرتہ ( ضرب ونصر ) کا مصدر ہو تو اس کے میت کو قبر میں دفن کر نیکے ہوتے ہیں ۔ اوراقبرتہ کے معنی کیس کیلئے قبر مہیا کرنے کے ہیں تاکہ اسے دفن کیا جائے جیسے اسقینہ کے معنی پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس/ 21] پھر اس کو موت دی ۔ پھر قبر میں دفن کرایا ۔ بعض نے اقبرہ کے معنی یہ کئے ہیں کہ اسے الہام کردیا کہ کس طرح میت کو دفن کیا جائے ۔ المقبرۃ والمقبرۃ ( قبر ستان ) جمع مقابر قرآن میں سے : ۔ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر/ 2] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔ یہ موت سے کنایہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات/ 9] کہ جو مردے قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لئے جائیں گے ۔ میں حیات بعد الممات یعنی موت کے بعد زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دلوں کے اسرار ظاہر کردینے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب تک انسان دنیا میں رہتا ہے اس کے بھید مستور رہتے ہیں گویا قبر میں مدفون ہیں تو یہاں قبور سے مجازا دل مراد ہیں بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جب موت کی وجہ سے جہالت کا پردہ اٹھ جائے گا گو یا کا فر اور جاہل جب تک دنیا میں رہتے ہیں جہالت کی قبروں میں مدفون رہتے ہیں چونکہ مرنے کے بعد وہ جہالت دور ہوجاتی ہے ۔ تو گویا وہ قبر جہالت سے دوبارہ زندہ کر کے نکالے گئے ہیں ۔ جیسا کہ مروی ہے الانسان نائم اذا مات کہ انسان دنیامیں سویا رہتا ہے جب موت آکر دستک دیتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر/ 22] اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔ یعنی جو لوگ جہالت کے گڑھے میں گرنے کی وجہ سے مردوں کے حکم میں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(9 ۔ 11) کیا اس کو وہ وقت معلوم نہیں کہ جب مردوں کو زندہ کیا جائے گا اور دلوں میں جو کچھ نیکی اور برائی بخل اور سخاوت ہے وہ سب ظاہر ہوجائے گی ان کا پروردگار قیامت کے دن اسے اور ان کے اعمال سے پورا پورا باخبر ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 That is, the dead men will be raised back as living men from whatever state and wherever they would be lying buried in the earth.

سورة العدیات حاشیہ نمبر : 7 یعنی مرے ہوئے انسان جہاں جس حالت میں بھی پڑے ہوں گے وہاں سے ان کو نکال کر زندہ انسانوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(100:9) افلا یعلم اذا بعثر ما فی القبور۔ أ ہمزہ استفہامیہ ہے۔ ف کا عطف محذوف پر ہے۔ ای الا ینظر فلا یعلم : یعلم کا مفعول محذوف ہے ۔ ای الوقت۔ تقدیر عبارت ہوگی :۔ الا ینظر فلا یعلم الوقت۔ کیا وہ نہیں دیکھتا ہے پھر نہیں جانتا ہے اس وقت کو (کہ جب ۔۔ ) اذا بعثر ما فی القبور : اذا ظرفیہ ہے بمعنی جب۔ بعثر ماضی مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب بعثرہ مصدر سے بمعنی کریدکر نکالا جانے والا۔ الٹ پلٹ کرنا کے ہیں۔ ما موصولہ فی القبور اس کا صلہ۔ موصول و صلہ مل کر بعثر کا مفعول مالم یسم فاعلہ۔ یہاں ما موصولہ بمعنی من ہے جس سے مراد مردہ انسان ہیں جو قبروں میں مدفون ہیں۔ جب جو کچھ قبروں میں ہے کریدکر نکال لیا جائے گا۔ یعنی مردہ انسانوں کو قبروں سے نکال لیا جائے گا۔ بعثرہ : جن علماء کی رائے یہ ہے کہ رباعی اور خماسی۔ دو ثلاثی سے مل کر بنتی ہے ان کے خیال میں بعث اور اثیر سے مل کر بنا ہے اور یہ بات کچھ بعید نہیں ہے کیونکہ بعثرۃ میں دونوں فعلوں کے معنی موجود ہیں۔ پس جس طرح بسمل (اس نے بسم اللہ پڑھی) بسم اور اللہ کے لام سے مرکب ہے اسی طرح لفظ بعثرۃ لفظ بعث اور اثارۃ کی راء سے مرکب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی کیا اسے اس وقت کا کوئی ڈر نہیں ہے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ناشکری اور بخل سے بچنے کے لیے انسان کو ہمیشہ اپنا انجام ذہن میں رکھنا چاہیے۔ بے شک انسان ہفت اقلیم کا بادشاہ اور پوری دنیا کے خزانوں کا مالک بن جائے، مگر موت کے وقت اس نے خالی ہاتھ جانا ہے، قبر میں کفن کے سوا کوئی چیز اس کے ساتھ نہیں جاتی۔ قیامت کے دن اسے اٹھایا جائے گا تو اس کے وجود پر کوئی لباس نہیں ہوگا، نیکی اور برائی کے سوا کوئی چیز اس کے ساتھ نہیں ہوگی۔ قیامت کے دن اسے قبر سے اٹھاکر محشر کے میدان میں کھڑا کیا جائے گا تو صرف اس کا اعمال نامہ اس کے سامنے پیش نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے ہر عمل کے ساتھ اس کی نیت اور خیالات بھی لف (Attache) ہوں گے۔ انسان اپنے رب سے کوئی چیز نہیں چھپا سکے گا۔ گو اللہ تعالیٰ ہر حال اور ہر وقت اپنے بندوں سے باخبر رہتا ہے لیکن قیامت کے دن کا ذکر فرما کر ہر انسان کو انتباہ کیا ہے کہ اے انسان ! دنیا میں تو لوگوں کی نگاہوں سے بچ سکتا ہے لیکن اپنے رب کی نگاہ سے نہیں بچ سکتا، اس لیے تجھے اس دن کا فکر کرنا چاہیے جس دن ہر چیز تیرے سامنے رکھ دی جائے گی۔ قرآن مجید نے اس مقام پر قیامت کے دن لوگوں کے اٹھنے کی جگہ کو قبور کہا ہے۔ قبور کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہر آسمانی دین میں مردوں کو قبر میں دفنانے کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی، عیسائی اور مسلمان اپنے فوت شدگان کو قبروں میں دفناتے ہیں۔ یہاں تک جو لوگ دفنانے کی بجائے مردوں کو جلا دیتے ہیں وہ بھی مردوں کی راکھ کو مٹی میں ہی دفن کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن زمین میں جو کچھ ہوگا وہ اسے اللہ کے حکم سے باہر پھینک دے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن انسان کے ہر خیال کو ظاہر کردیا جائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو ابد سے جاننے والا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایک شدید اور موثر منظر ہے۔ قبروں سے انسانوں کا نکالا جانا ، اس عمل کے لئے ” بعثرہ “ کا شدید لفظ لایا گیا ہے اور پھر اس منظر میں ان رازوں کو کھینچ کھینچ کر باہر نکالا جارہا ہے جن کو نفوس انسانی نے دبائے اور چھپائے رکھا تھا۔ حصلت کا لفظ اس کے لئے استعمال ہوا کہ گویا سرکاری کارندے زبردستی حاصل کررہے ہیں۔ سرکاری تحصیل دار پہنچے ہوتے ہیں اور نہایت شدید پکڑ دھکڑ کا منظر ہے۔ کیا انسان نہیں جانتا کہ اسے اس قسم کے منظر سے گزرنا ہے۔ اسے کچھ یاد ہے ان حقائق کے بارے میں ، یہ حقائق تو ہر انسان کی فطرت میں ہیں۔ اگر اسے علم ہے اور یاد ہے تو بس اس کی اصلاح کے لئے تو یہی کافی ہے۔ اس علم کا جواب نہیں دیا جاتا کہ اگر وہ جانتا تو کیا ہوتا ؟ تم خودہی سوچ لو کہ کیا ہوتا۔ بہت کچھ ہوجاتا۔ اگر انسان اس بات کو جانتا ، بہت بڑے بڑے نتائج برآمد ہوجاتے ، مجرد اس علم سے ۔ یہ سب حرکات اور یہ جھلکیاں ایک آخری سکون وقرار پر ختم ہوتی ہیں جس تک پہنچ کر ہر حرکت اور ہر بات اپنے ٹھکانے تک پہنچ جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اَفَلَا يَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُوْرِۙ٠٠٩﴾ (کیا انسان کو اس وقت کا علم ہے جب قبروں والے اٹھائے جائیں گے) ۔ یعنی مردے زندہ ہو کر باہر نکلیں گے ﴿يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا ﴾ اور دلوں میں جو کچھ ہے وہ ظاہر کردیا جائے گا انسان کو یہ وقت جان لینا چاہیے اور نہیں جانتا تو اب جان لے اور یہ سمجھ لے کہ مالک کے بارے میں خالق کائنات جل مجدہ نے بہت سے احکامات عطا فرمائے اور ان کی خلاف ورزی پر پکڑ ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” افلا یعلم “ یہ علاج مرض کا بیان ہے بصورت تخویف اخروی کیا انسان یہ نہیں جانتا کہ جب قبروں سے مردے اٹھائے جائیں گے یعنی قیامت کے دن اور دلوں کی تمام باتیں ظاہر کردی جائیں گی اس دن ان کا پروردگار ان کے اعمال خیر و شر سے باخبر ہوگا اور ان کو پوری پوری جزاء دے گا ای عالم لایخفی علیہ منہم خافیۃ وھو عالم بہم فی ذلک الیوم وفی غیرہ ولکن المعنی انہ یجازیہم فی ذلک الیوم (قرطبی ج 20 ص 163) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) کیا انسان کو وہ قت معلوم نہیں کہ جب وہ مردے جو قبروں میں ہیں زندہ کرکے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے یعنی جو قبروں میں مدفون ہیں اور خاک میں ملے ہوئے ہیں وہ سب زندہ کر لئے جائیں گے اور وہ خاک میں سے نکال لئے جائیں گے۔