Surat ul Qariya

Surah: 101

Verse: 3

سورة القارعة

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡقَارِعَۃُ ؕ﴿۳﴾

And what can make you know what is the Striking Calamity?

تجھے کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑا دینے والی کیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And what will make you know what Al-Qariah is? Then He explains this by saying, يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] یعنی آپ اس دن کی پوری کیفیت کو پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکتے۔ پس اس کے کچھ آثار ہی بتائے جاسکتے ہیں جن سے اس دن کی شدت کا قدرے اندازہ ہوسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(101:3) وما ادرک ما القارعۃ : ما استفہامیہ مبتداء ادراک خبر۔ ما القارعۃ : ما مبتدائ۔ القارعۃ خبر۔ مبتدا اور خبر مل کر ادرک کا مفعول ثانی (مفعول اول ک ضمیر واحد مذکر حاضر) القارعۃ اسم فاعل واحد مؤنث قارعات وقوارع جمع۔ مصیبت، بلا، حادثہ، یا ۔ اچانک آجانے والی مصیبت۔ اصل مادہ قرع ہے۔ اس میں (باب فتح) کے معنی ہیں کھٹکھٹانا۔ مثلا قرع الباب۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ یا قرع راسہ بالعصا۔ اس کے سرکو لاٹھی سے کھٹکھٹایا۔ یعنی لاٹھی سر پر ماری۔ قرع زید سنہ۔ زید نے اپنے دانت پسے یعنی پشیمان ہوا۔ قرع سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث قارعۃ ہے۔ ساعت قیامت بھی ناگہاں آجانے والی مصیبت اور حادثہ عظیم ہے اس لئے قیامت کو القارعۃ کہا گیا ہے۔ اصل میں یہ صیغہ صفت تھا۔ پھر قیامت کا وصفی نام بنادیا گیا۔ ما استفہامیہ ہے بمعنی کیا ہے۔ ادراک ادری ماضی واحد مذکر غائب ادراء (افعال) مصدر سے جس کے معنی واقف کرنے اور بتانے کے ہیں۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ ما ادرک۔ تجھے کون بتائے۔ تجھے کون خبردار کرے۔ محاورۃ تجھے کیا معلوم تجھے کیا خبر۔ تو کیا جانے۔ (کہ کھٹکھٹا دینے والی چیز کیا ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 مراد قیامت ہے جس سے دل دہل جائیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ وہ کھڑکھڑا دینے والا حادثہ کیا کچھ ہے قرع کے معنی اصل میں کھٹکھٹانے اور زور سے بجانے کے ہیں عرف میں ہر ہیبت ناک اور خطرناک حادثے کو قارعہ کہتے ہیں۔ سورة رعد میں گزر چکا ہے۔ ولا یزال الذین کفروا تصیبھم بما صنعوا قارعۃ۔ کا ترجمہ ہم نے صدمہ یا دھڑکا کیا ہے یہاں ہم نے کھڑ کھڑانے کے ساتھ حادثہ بھی کردیا ہے اور قیامت اور اسرافیل (علیہ السلام) کی آواز سے بڑھ کر کون سا ہیبت ناک حادثہ ہوگا جس سے عام گھبراہٹ پیدا ہوجائے گی۔ اسی لئے قیامت کا نام قارعۃ ہے۔ ع و ای کریم لم تصبہ القوارع، یعنی کونسا شریف آدمی ایسا ہے جس کو حادثوں اور صدموں سے دوچار ہونا نہ پڑتا ہو۔ قیامت میں فزع اور گھبراہٹ بھی ہے اور صور کی آواز سے کھڑکھڑاہٹ بھی ہے۔ بہرحال اس کی اہمیت کے لئے پھر سوال فرمایا وما ادرک مالقارعۃ اب آگے اس ہیبت ناک چیز کے چند آثار بیان فرمائے یعنی اس کا کھڑکھڑانا اس دن ہوگا۔