Surat ul Asar
Surah: 103
Verse: 1
سورة العصر
وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾
By time,
زمانے کی قسم ۔
وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾
By time,
زمانے کی قسم ۔
Allah Says: وَالْعَصْرِ إِنَّ الاِْنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
مختصر نقصان اور اصحاب فلاح و نجات: عصر سے مراد زمانہ ہے جس میں انسان نیکی بدی کے کام کرتا ہے ، حضرت زید بن اسلم نے اس سے مراد عصر کی نماز یا عصر کی نماز کا وقت بیان کیا ہے لیکن مشہور پہلا قول ہی ہے اس قسم کے بعد بیان فرماتا ہے کہ انسان نقصان میں ٹوٹے میں اور ہلاکت میں ہے ہاں اس نقصان سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان ہو اعمال میں نیکیاں ہوں حق کی وصیتیں کرنے والے ہوں یعنی نیکی کے کام کرنے کی حرام کاموں سے رکنے کی اکی دوسرے کو تاکید کرتے ہوں قسمت کے لکھے پر مصیبتوں کی برداشت پر صبر کرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہوں ساتھ ہی بھلی باتوں کا حکم کرنے اور بری باتوں سے روکنے میں لوگوں کی طرف سے جو بلائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو ان کو بھی برداشت کرتے ہوں اور اسی کی تلقین اپنے ساتھیوں کو بھی کرتے ہوں یہ ہیں جو اس صریح نقصان سے مستثنیٰ ہیں ۔ سورہ والعصر کی تفسیر بحمدللہ ختم ہوئی ۔
1۔ 1 زمانے سے مراد، شب و روز کی یہ گردش اور ان کا ادل بدل کر آنا ہے، رات آتی ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے اور دن طلوع ہوتا ہے تو ہر چیز روشن ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں کبھی رات لمبی، دن چھوٹا اور کبھی دن لمبا، رات چھوٹی ہوجاتی ہے یہی مرور ایام، زمانہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور کاریگیر پر دلالت کرتا ہے۔ اسی لیے رب نے اس کی قسم کھائی ہے۔ یہ پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھا سکتا ہے لیکن انسانوں کے لیے اللہ کی قسم کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھان جائز نہیں ہے۔
[١] عصر کے دو معنی :۔ عصر کا لفظ بنیادی طور پر دو معنوں میں آتا ہے (١) عصر کا وقت جو انتہائی مصروفیات کا وقت ہوتا ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے بطور خاص اس وقت کی نماز کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ۤ وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ ٢٣٨۔ ) 2 ۔ البقرة :238) اور احادیث میں یہ صراحت مذکور ہے۔ کہ صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کی عصر کی نماز ضائع ہوگئی۔ وہ سمجھ لے کہ اس کا گھر بار اور مال لٹ گیا۔ (ترمذی، ابو اب الصلوۃ۔ باب ماجاء فی السہو عن وقت صلوۃ العصر) اور عصر کا دوسرا معنی && زمانہ && اور اس سے وہی زمانہ یا عرصہ مراد لیا جاسکتا ہے۔ جو بنی نوع انسان کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کا وقت ہے۔ بنی نوع انسان کی پیدائش سے پہلے کا نہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ عصر کو بنی نوع انسان پر بطور شاہد بیان فرماتے ہیں اور جب انسان کا وجود ہی نہ تھا تو شہادت کیسی ؟
(١) والعصر، ان الانسان لفی خسر…: قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر اس دعویٰ کی دلیل ہوتی ہیں جو قسموں کے بعد مذکور ہوتا ہے۔ اس سورت کا مفہوم سمجھنے کے لئے خسارے کا مفہوم ذہن میں لانا ضروری ہے۔ خسارہ یا نفع کسی نہ کسی تجاتر اور بیع میں ہوتا ہے جس میں آدمی اپنا راس المال (سرمایہ) لگاتا ہے، اگر راس المال فروخت ہوجائے اور راس المال اور محنت سے بڑھ کر آمدنی ہوجائے تو یہ نفع ہے، ورنہ خسارہ۔ اس سورت میں زمانے کی قسم کھا کر یہ حقیقت مدلل کی گئی ہے کہ چار صفات والے لوگوں کو چھوڑ کر ہر انسان ہی خسارے میں ہے، کیونکہ انسان کے پاس رسا المال صرف اور صرف زمانے کا کچھ حصہ یعنی اس کی عمر ہے، جیسا کہ فرمایا :(او لم نعمرکم مایتذکر فیہ من تذکر و جآء کم النذیر) (فاطًر : ٣٨)” اور یہ سرمایہ ایسا ہے جو بہت تیزی سے خود بخود ختم ہو رہا ہے، اگر ختم ہونے سے پہلے پہلے اس سے قیمتی چیز، یعنی وہ چ اورں صفات حاصل کرلیں تو نفع ہے ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔ جس طرح برف بیچنے والا اس کے پگھلنے سے قیمتی چیز، یعنی وہ چ اورں صفات حاصل کرلیں تو نفع ہے ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔ جس طرح برف بیچنے والا اس کے پگھلنے سے پہلے پہلے اسے فروخت کرلے اور اس کی اچھی قیمت حاصل کرلے تو نفع ہے، ورنہ برف اس کا انتظار نہیں کرے گی بلکہ کچھ دیر کے بعد خود بوخود تحلیل ہو جائیگی، پھر اس کے خسارے میں کیا شک ہے ؟ (٢) ان الانسان لفی خسر : حقیقت یہ ہے کہ انسان کا خسارے سے بچنا بہت ہی مشکل ہے، کیونکہ خسارہ اس المال ضائع کرنے کا نام ہے اور انسان کا راس المال عمر ہے اور ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آدیم اپنی عمر ضائع نہ کر رہا ہ، کیونکہ آدمی پر جو گھڑی گزرتی ہے اگر اللہ کی نافرمانی میں گزیر تو خسارے میں کوئی شک ہی نہیں، اگر مباح اور جائز کاموں میں گزری پھر بھی خسارہ ہے، کیونکہ اس گھڑی سے آدمی آخرت کے لئے کچھ حاصل نہ کرسکا اور اگر اطاعت اور نیکی میں گزری تو یہی نیکی اس سے بہتر طریقے پر یا اس سے بہتر کوئی اور نیکی بھی کرسکتا تھا، کیونکہ نیکی کے درجات کی کوئی انتہا نہیں اور اللہ کے جلال و قہر کے مرتاب کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ اب جس قدر کسی شخص کو ان درجات کا علم ہوگا، ان پر عمل کرے گا اور دوسروں کو ان کی تعلیم دے گا اور خود صبر اور دوسروں کو صبر کی تلقین کرے گا، تو اسی قدر خسارہ کم ہوتا جائے گا، ورنہ اعلیٰ درجے کو چھوڑ کر ادنیٰ درجے پر اکتفا تو ایک قسم کا خسارہ ہی ہے۔ خلاصہ یہ کہ انسان کسی نہ کسی قسم کے خسارے سے ضرورت دو چار رہتا ہے۔ (خلاصہ از رازی) (٣) الا الذین امنوا و عملوا الصلحت : بعض لوگوں نے اس سورت سے ثابت کیا ہے کہ اعمال ایمان سے لاگہیں، اس میں داخل نہیں ہیں، وہ نہ ہوں تب بھی ایمان کامل ہے، کیونکہ دونوں کو عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں، بلکہ ایمان دل، زبان اور ارکان تینوں کے اعمال کا نام ہے۔ اگر عطف کی وجہ سے یہ دونوں الگ الگ ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ حق کی وصیت عمل صالح میں شامل نہیں، بلکہ عمل صالح سے الگ کوئی چیز ہے۔ اسی طرح صبر کی وصیت حق کی وصیتل اور عمل صالح دونوں سے الگ کوئی چیز ہے، جب کہ یہ تینوں باتیں ہی درست نہیں۔ حق یہ ہے کہ ایمان کے بعد عمل صالح کو الگ اس لئے ذکر کیا کہ ایمان کے اس جز کو کوئی شخص معمولی سمجھ کر اس سے بےاعتنائی نہ کر بیٹھنے اور عمل صالح میں سے حق کی وصیت اور صبر کی وصیت کو الگ اس لئے ذکر فرمایا کہ کوئی شخص اپنی ذات کی حد تک عمل صالح کر کے یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ میں اب خسارے سے محفوظ ہوں۔ نہیں، بلکہ اسے یہ علم و عمل اور اس پر صبر دوسروں کو بھی سکھانا ہوگا۔ (٤) وتواصوا بالحق : خسارے سے بچنے کے لئے عمل سے خلای ایمان کافی نہیں اور نہ صرف خود عمل کرلینا کافی ہے، بلکہ ایک دور سے کو حق بات کی تاکید کرنا بھی ضروری ہے۔ حق سے مراد وہ ہدایت ہے جو وحی ک صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی، جس میں قرآن وحدیث دونوںں شامل ہیں۔ پھر ان تنیوں چیزوں یعنی حق پر ایمان لانے، اس پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے میں بیشمار مصائب و تکالیف پیش آسکتی ہیں، ان پر خود صبر کرنا ہوگا اور تمام مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کیرں۔ یہاں ” تواصوا “ (ایک دوسرے کو وصیت کریں) فرمایا ہے،” اوصوا “ (وصیت کریں) نہیں فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ سب مسلمان ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے ہیں۔ چند آدمیوں کے ادا کرنے سے یہ فرض ادا نہیں ہوتا۔ (٥) وتواصوا بالصبر : صبر کا معنی باندھنا اور روکنا ہے۔ یہ تین قسم کا ہے :(١) حق پر صبر اور اور اس کی مسلسل پابندی، مثلاً توحید، اتباع سنت اور نماز روزہ پر پابندی رہنا۔ (٢) برائی سے صبر، مثلاً شرک، زنا، قتل ناحق اور جھوٹ وغیرہ سے صرب۔ (٣) مصیبت پر صبر اور ہر قسم کے جزع فزع سے پرہیز۔
Virtue of [ Studying ] Surah al-` Asr Sayyidna ` Ubaidullah Ibn Hisn (رض) reports that whenever two Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) met, they would not part company until one of them had recited Surah Al-` Asr in its entirety to the other. [ Transmitted by At-Tabarni ]. Imam Shafi` i (رح) says that if people thought about Surah Al-` Asr carefully, it would be enough for their guidance. It is a concise but comprehensive Surah, which in three verses, outlines a complete way of human life based on the Islamic worldview. In this Surah, Allah swears an oath by the &Time& and says that mankind is in a state of loss; exception, however, is made of people who are characterized by four qualities: [ 1] faith; [ 2] righteous deeds; [ 3] advising each other for Truth; and [ 4] advising each other for patience. This is the only path to salvation in this world, as well as in the next world. The Qur&anic prescription comprises, as we have just seen, of four elements. The first two of them relate to man&s own personal betterment, and the other two relate to other people&s guidance and reform. [ Ibn Kathir ]. Relationship between &Time& and &Human Loss& The first point we need to analyze here is the relationship between the &oath of time& and &its subject& because there needs to be a relationship between an &oath& and its &subject& The commentators, generally, state that all conditions of man, his growth and development, his movements, his actions and morality - all take place within the space of &Time&. Man will lose the capital of his existence. Hours, days, months, and years of life pass quickly, spiritual and material potentialities decline, and abilities fade. Man is like a person who possesses great capital and, without his permission and will, every day, a portion of that capital is taken away. This is the nature of life in this world; the nature of continual loss. How well this has been put poetically: حَیَاتُک اَنفَاسُ تُعَدُّ فَکُلَّمَا مَضیٰ نَفَسٌ مِنھَا انتَقَصتَ بِہٖ جُزءًا |"Your life comprises a few breaths that can be counted; when one of them is sent out, a part of your life has diminished.|" Allah has granted man the invaluable capital of his life, so that he may invest it in profitable business venture. If he invests his capital of life sensibly in good works, there will be no limit to the profitable returns; but if he invests it unwisely in evil works, then, let alone attracting profitable returns, he will even lose his capital, and. In addition, he will incur the dreadful scourge of committing numerous sins. If however a person did not invest his life-capital in good deeds or in evil deeds, then he, at least, loses both the profit. as well as the capital. This is not merely a poetic imagery, but is supported by a Prophetic Hadith, according to which the Messenger of Allah k is reported to have said: کُلٌ یَّغدُو فَبَایٔعٌ نَفسَہ، فَمُعتِقُھَا اَو مُوبِقُھَا |"When a person wakes up in the morning, he invests his soul or life in a business enterprise: some of the investors free or save the capital from loss and others destroy it.|" The Qur&an itself has used the word tijarah in relation to &faith& and &righteous deed&, thus: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ |"...shall I tell you about a trade that saves you from a painful punishment? [ 61:10] |" Since &Time& is man&s capital of life, the man himself is the trader. Under normal circumstances, his capital is not a frozen thing that may be kept for a while and used up later when the need arises. The capital is fluid or flowing all the time, every minute and every second. The man who invests it needs to be very wise, intelligent and agile, so that he is able to swiftly and readily reap the profit from a flowing capital. One of the old scholars said that he had learnt the meaning of this verse from an ice-seller whose trade required utmost diligence, and if he were neglectful for a moment, his entire capital would melt away. That is why this verse has sworn an oath by the &time& to indicate that it is a melting capital, and the only way to escape loss is to take every moment of his life as valuable, and use it for the four acts mentioned in the Surah. Another possible reason for swearing by &Time& may be that the &Time& (in the sense of history) bears testimony to the fact mentioned in the Surah. If one thinks on the causes of the rise and decline of individuals and nations, he would certainly believe that it is only these four acts (mentioned in the forthcoming verses) that may ensure the real success and betterment of mankind. Whoever has ever abandoned them has suffered a great loss, as is evident from numerous events recorded by history. Let us now study the &four principles& mentioned in the Surah. As pointed out earlier, faith and righteous deeds are related to man&s moral and spiritual growth and development. They are not in need of elaboration. However, the last two principles [&advising each other for truth&] and [&advising each other for patience&] require some elaboration. The infinitive tawasi is derived from wasiyyah which means &to advise somebody strongly and effectively about the best thing to do in a particular situation&. The term wasiyyah also refers to a &will or testament& where a testator advises his executor regarding the disposal of his estate on his death. The two parts are in fact two chapters of the same testament: [ 1] advice to truth; and [ 2] advice to patience and fortitude. These two concepts may be explained in different ways. One way to explain them is that haqq (&truth& ) refers to the package of &correct faith& and &good deeds&, and sabr (&patience& ) refers to abstinence from all sins and evil deeds. Thus the first concept refers to &enjoining good actions& and the second concept refers to &forbidding evil actions&. The cumulative sense of the Surah is that believers have been enjoined not only to adopt right faith and good deeds themselves, but to advise others strongly and effectively to adopt them, and thus help in the creation of a healthy atmosphere around them. It is also possible to interpret &Truth& as referring to articles of faith, and to interpret &patience& as referring to all good actions and abstinence from evil deeds. The word sabr, originally meaning &to withhold oneself and to bind oneself &, encompasses binding oneself down to the performance of righteous deeds and abstaining from sins. Hafiz Ibn Taimiyyah has stated in one of his monographs that there are normally two factors that restrain a person from faith and righteous deeds: The first cause is some doubts about the true faith. When such doubts arise in the mind of people, it destroys their faith and leaves them confused and confounded. As a result, it adversely affects their righteous deeds. The second cause is the selfish desires that stop man from doing good, and involve him in evil deeds. In this situation, he theoretically believes that he should do good and abstain from sins, but his selfish desires lead him to stray from the right path. The current verse indicates to remove both causes of one&s distraction. By stressing upon &advice of truth& it has catered to the first cause, and that it should be removed by reforming others on theoretical and academic level, and by emphasizing on &advice of patience& it has taken care of the second cause by enjoining upon the Muslims to advise others to give up the base desires and remain firm against their evil demands. Put differently, &enjoining the truth& means &improving the knowledge of Muslims or their intellectual development& and &enjoining patience& means &improving the practical life of Muslims&. Need to Salvage the Entire Muslim Society This Surah lays down the important principle of guidance for the Muslims that inviting other Muslims to keep to the true faith and good deeds is as much necessary as their own submission to the Holy Qur&an and Sunnah. Without sincere efforts, to the best of one&s ability, to invite others to the right path, one&s own good deeds are not enough to one&s salvation. Especially, if a person does not take care of the spiritual and moral welfare of his wife, children and family and turns a blind eye to their unrighteous deeds, he is blocking his way to salvation - no matter how pious he himself might be. Therefore, the Qur&an and the Sunnah make it obligatory upon every Muslim to do his best to invite others to the good deeds, and warn them against the evil acts. Unfortunately, let alone the general public, many learned people are lax in this matter. They think it is sufficient for them to be concerned about their own moral and spiritual well-being. They are not concerned about the well-being of their family and children. May Allah grant us the ability to act upon this verse. Al-Hamdulillah The Commentary on Surah Al-` Asr Ends here
خلاصہ تفسیر قسم ہے زمانہ کی (جس میں رناج و خسران واقع ہوتا ہے) کہ انسان (اپنی عمر ضائع کرنے کی وجہ سے) بڑے خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے (جو اپنے نفس کا کمال ہے) اور ایک دوسرے کو حق (پر قائم رہنے کی فرمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو (عمال کی) پابندی کی فرمائش کرتے رہے (جو دو رسوں کی تکمیل ہے تو جو لوگ یہ کمال حاصلک ریں اور دو رسوں کی بھی تکمیل کریں یہ لوگ البتہ خسارے میں نہیں بلکہ نفع میں ہیں) معارف و مسائل سورة عصر کی خاص فضیلت :۔ حضرت عبید اللہ ابن حصن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے دو شخص ایسے تھے کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کے سامنے سورة والعصر نہ پڑھ لے (رواہ البطرانی) اور امام شافعی نے فرمایا کہ اگر لوگ صرف اسی سورت میں تدبر کرلیتے تو یہی ان کے لئے کافی تھی (ابن کثیر) سورة عصر قرآن کریم کی بہت مختصر سی سورت ہے لیکن ایسی جامع ہے کہ بقول حضرت امام شافعی اگر لوگ اسی سورت کو غور و تدبر کے ساتھ پڑھ لیں تو دین و دنیا کی درستی کے لء کافی ہوجائے۔ اس صورت میں حق تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ نوع انسان بڑے خسارے میں ہے اور اس خسارے سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو چار چیزوں کے پابند ہوں۔ ایمان، عمل صالح، دوسروں کو حق کی نصیحت و وصیت اور صبر کی وصیت، دنیا و دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کا یہ قرآنی نسخہ چار اجزاء سے مرکب ہے جن میں پہلے دو جز اپنی ذات کی اصلاح کے متعلق ہیں اور دوسرے دو جز دوسرے مسلمانوں کی ہدایت و اصلاح سے متعلق ہیں۔ یہاں پہلی بات یہ غور طلب ہے کہ اس مضمون کے ساتھ زمانے کو کیا مناسبت ہے جس کی قسم کھائی گی کیونکہ قسم اور جواب قسم میں باہم مناسبت ضرور ہوتی ہے۔ عام حضرات مفسرین نے فرمایا کہ انسان کے تمام حالات اس کا نشو و نما اس کی حرکات سکنات، اعمال، اخلاق سب زمانے کے اندر ہوتے ہیں۔ جن اعمال کی ہدایت اس سورت میں دی گئی ہے وہ بھی اسی زمان کے لیل و نہار میں ہوں گے اس کی مناسبت سے زمانہ کی قسم اختیار کی گئی۔ زمانے کو نوع انسانی کے خسارے میں کیا دخل ہے :۔ اور توضیح اس کی یہ ہے کہ انسان کی عمر کا زمانہ اس کے سال اور مہینے اور دن رات بلکہ گھنٹے اور منٹ اگر غور کیا جائے تو یہی اس کا سرمایہ ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا و آخرت کے منافع عظیمیمہ عجیبیہ بھی حاصل کرسکتا ہے اور عمر کے اوقات اگر غلط اور برے کاموں میں لگا دیئے تو یہی اس کے لئے وبال جان بھی بن جاتے ہیں، بعض علماء نے فرمایا ہے۔ حیا تک انفاس تعد فکلما مضی نفس منھا انتقصت بہ جزائ یعنی تیری زندگی چند گنے ہوئے سانسوں کا نام ہغے۔ جب ان میں سے ایک سانس گزر جاتا ہے تو تیری عمر کا ایک جز کم ہوجاتا ہے حق تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کی عمر کے اوقات عزیز کا بےبہا سرمایہ دے کر ایک تجارت پر لگا یا ہے کہ وہ عقل و شعور سے کام لے اور اس سرمایہ کو خلاص نفع بخش کاموں میں لگائے تو اس کے منافع کی کوئی حد نہیں رہتی اور اگر اس کے خلاف کسی مضرت رساں کام میں لگا دیا تو نفع کی تو کیا امید ہوتی یہ راس المال بھی ضائع ہوجاتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ نفع اور راس المال ہاتھ سے جاتا رہا۔ بلکہ اس پر سینکڑوں جرائم کی سا عائد ہوجاتی ہے اور کسی نے اس سرمایہ کو نہ کسی نفع بخش کام میں لگایا نہ مضرت رساں میں تو کم از کم یہ خسارہ تو لازمی ہی ہے کہ اس کا نفع اور راس المال دونوں ضائع ہوگئے اور یہ کوئی شاعرانہ تمثیل ہی نہیں بلکہ ایک حدیث مرفوع سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ یعنی ہر شخص جب صبح اٹھتا ہے تو اپنی جان کا سرمایہ تجارت پر لگاتا ہے پھر کوئی تو اپنے اس سرمایہ کو خسارہ سے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی ہلاک کر ڈالتا ہے۔ خود قرآن کریم نے بھی ایمان و عمل صالح کو انسان کی تجارت کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ھل ادتکم علی تجارة تجیکم من عذاب الیم اور جب زمانہ عمر انسان کا سرمایہ ہوا اور انسان اس کا تاجر تو عام حالات میں اس تاجر کا خسارہ میں ہونا اس لئے واضح ہے کہ اس مسکین کا سرمایہ کوئی منجمد چیز نہیں جس کو کچھ دن بیکار بھی رکھا تو اگلے وقت میں کام آسکے بلکہ یہ سیال سرمایہ ہے جو ہر منٹ ہر سیکنڈ بہ رہا ہے اس کی تجارت کرنے والا بڑا ہوشیار مستعد آدمی چاہئے جو بہتی ہوئی چیز سے نفع حاصل کرے۔ اسی لئے ایک بزرگ کا قول ہے کہ وہ برف بیچنے والے کی دکان پر گئے تو فرمایا کہ اس کی تجارت کو دیکھ کر سورة والعصر کی تفسیر سمجھ میں آگئی کہ یہ ذرا بھی غفلت سے کام لے تو اس کا سرمایہ پانی بن کر ضائع ہوجائے گا اس لئے اس ارشاد قرآنی میں زمانے کی قسم کھا کر انسان کو اس پر متوجہ کیا ہے کہ خسارے سے بچنے کے لئے جو چار اجزاء سے مرکب نسخہ بتلایا گیا ہے اس کے میں ذرا غفلت نہ برتے۔ عمر کے ایک ایک منٹ کی قدر پہچان اور ان چار کاموں میں اس کو مشغول کر دے۔ زمانہ کی قسم کی ایک مناسبت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی جائے وہ ایک حیثیت سے اس معاملہ کے شاہد کے قائم مقام ہوتی ہے اور زمانہ ایسی چیز ہے کہ اگر اس کی تاریخ اور اس میں قوموں کے عروج و نزول کے بھلے برے واقعات پر نظر کرے گا تو ضرور اس یقین پر پہنچ جائے گا کہ صرف یہ چار کام ہیں جن میں انسان کی فلاح و کامیابی منحصر ہے جس نے ان کو چھوڑا وہ خسارہ میں پڑا دنیا کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ آگے ان چاروں اجزاء کی تشریح یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح جو خود انسان کی ذات سے متعلق ہیں ان کا معاملہ واضح ہے کسی تشریح کا محتاج نہیں البتہ آخری دو جز یعنی تواضی بالحق اور تواصی بالصبر یہ قابل غور ہیں کہ ان سے کیا مراد ہے۔ لفظ تواصی وصیت سے مشتق ہے کسی شخص کو تاکید کے ساتھ مؤ ثر انداز میں نصیحت کرنے اور نیک کام کی ہدیات کرنے کا نام وصیت ہے اسی وجہ سے مرنے والا جو اپنے عبد کے لئے کچھ ہدایات دیتا ہے اس کو بھی وصیت کہا جاتا ہے۔ یہ دو جز درحقیت اسی وصیت کے دو باب ہیں۔ ایک حق کی وصیت دوسرے صبر کی وصیت، اب ان دونوں لفظوں کے معنی میں کئی احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ حق سے مراد عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کا مجموعہ ہو اور صبر کے معنے تمام گناہوں اور برے کاموں سے بچنا ہو تو پہلے لفظ کا حاصل المر بالمعروف ہوگیا یعنی نیک کاموں کا حکم کرنا اور دوسرے کا حاصل نہی عن المنکر ہوگیا یعنی برے کاموں سے روکنا، اس مجمعہ کا حاصل پھر وہی ایمان اور عمل صالح جس کو خود اختیار کیا ہے اس کی تاکید و نصیحت دوسروں کو کرنا ہوگیا اور ایک احتمال یہ ہے کہ حق سے مراد اعتقادات حقہ لئے جائیں اور صبر کے مفہوم میں تمام اعمال صالح ہیک پابندی بھی ہو اور برے کاموں سے بچنا بھی کیونکہ لفظ صبر کے حقیقی معنے اپنے نفس کو روکنے اور پابند بنانے کے ہیں۔ اس پابندی میں اعمال صالحہ بھی آگئے اور گناہوں سے اجتناب بھی۔ اور حافظ ابن تیمیمہ نے اپنے کسیر سالے میں فرمایا کہ انسان کو ایمان اور عمل صالح سے روکنے والی عادة دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک شبہات یعنی اس کو ایمان و عمل صالح میں کچھ نظری اور فکری شبہات پیدا ہوجاویں۔ جن کے سبب قعائد ہی مختلف ہوجائیں اور عقائد کے مختلف ہونے سے عمل صالح کا خلل پذیر ہونا خود ظاہر ہے۔ دوسرے شہوات یعنی خواہشات نفسانی جو انسان کو بعض اوقات نیک عمل سے روک دیتی ہیں اور بعض اوقات برے اعمال میں مبتلا کردیتی ہیں اگرچہ وہ نظری اور اعتقادی طور پر نیکی پر عمل اور برائی سے بچنے کو ضروری سمجھتا ہو مگر نفسانی خواہشات اس کے خلاف ہوں اور وہ ان خواہشات سے مغلوب ہو کر سیدھا راستہ چھوڑ بیٹھے تو آیت مذکور میں وصیت حق سے مراد یہ ہے کہ شبہات کو دور کرے اور وصیت صبر سے مراد یہ کہ نفسانی خواہشات کو چھوڑ کر اچھے اعمال اختیار کرنے کی ہدایت کرے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وصیت بالحق سے مراد دوسرے مسلمانوں کی علمی اصلاح ہے اور وصیت بالصبر سے مراد عملی اصلاح۔ نجات کے لئے صرف اپنے عمل کی اصلاح کافی نہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کی فکر بھی ضروری ہے :۔ اس سورت نے مسلمانوں کو ایک بڑی ہدایت یہ دی کہ ان کا صرف اپنے عمل کو قرآن و سنت کے تابع کرلینا جتنا اہم اور ضروری اتنا ہی اہم یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ایمان اور عمل صالح کی طرف بلانے کی مقدور بھر کوشش کرے ورنہ صرف اپنا عمل نجات کے لئے کافی نہ ہوگا، خصوصاً اپنے اہل و عیال اور احباب و متعلقین کے اعمال سیسہ سے غفلت برتنا اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے اگرچہ خود وہ کیسے ہی اعمال صالحہ کا پابند ہو، اسی لئے قرآن و حدیث میں ہر مسلمان پر اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے اگرچہ خود وہ کیسے ہی اعمال صالحہ کا پابند ہو، اسی لئے قرآن و حدیث میں ہر مسلمان پر اپنی اپنی مقدرت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں عام مسلمان بلکہ بہت سے خواص تک غفلت میں مبتلا ہیں، خود عمل کرنے کو کافی سمجھ بیٹھے ہیں، اولاد و عیال کچھ بھی کرتے رہیں اس کی فکر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس آیت کی ہدایت پر عمل کی تفویق نصیب فرما دیں۔
وَالْعَصْرِ ١ ۙ عصر العَصْرُ : مصدرُ عَصَرْتُ ، والمَعْصُورُ : الشیءُ العَصِيرُ ، والعُصَارَةُ : نفاية ما يُعْصَرُ. قال تعالی:إِنِّي أَرانِي أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف/ 36] ، وقال : وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] ، أي : يستنبطون منه الخیر، وقرئ : (يُعْصَرُونَ ) أي : يمطرون، واعْتَصَرْتُ من کذا : أخذت ما يجري مجری العُصَارَةِ ، قال الشاعر : وإنّما العیش بربّانه ... وأنت من أفنانه مُعْتَصِرٌ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم/ 14] ، أي : السحائب التي تَعْتَصِرُ بالمطر . أي : تصبّ ، وقیل : التي تأتي بالإِعْصَارِ ، والإِعْصَارُ : ريحٌ تثیر الغبار . قال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة/ 266] . والاعْتِصَارُ : أن يغصّ فَيُعْتَصَرَ بالماء، ومنه : العَصْرُ ، والعَصَرُ : الملجأُ ، والعَصْرُ والعِصْرُ : الدّهرُ ، والجمیع العُصُورُ. قال : وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر/ 1- 2] ، والعَصْرُ : العشيُّ ، ومنه : صلاة العَصْرِ وإذا قيل : العَصْرَانِ ، فقیل : الغداة والعشيّ وقیل : اللّيل والنهار، وذلک کالقمرین للشمس والقمر والمعْصِرُ : المرأةُ التي حاضت، ودخلت في عَصْرِ شبابِهَا ( ع ص ر ) العصر ( ع ص ر ) العصر یہ عصرت الشئی کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں نچوڑ نا المعصور : أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف/ 36] انی اعصر خمرا ( دیکھتا کیو ہوں ) کہ شراب ( کے لئے انگور ) نچوڑ رہا ہوں ۔ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] اور لوگ اسی میں رس نچوڑیں گے ۔ یعنی اس میں خیرو برکت حاصل ہوگی ایک قرات میں یعصرون ہے یعنی اسی سال خوب بارش ہوگی اعتصرت من کزا کے معنی کسی چیز سے خیرو برکت حاصل کرنا کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 312 ) وانما العیش بربانہ وانت من افنانہ معتصر زندگی کا لطف تو اٹھتی جوانی کے ساتھ ہے جب کی تم اس کی شاخوں سے رس نچوڑتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم/ 14] اور نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ بر سایا ۔ میں معصرات سے مراد بادلوں ہیں جو پانی نچوڑتے یعنی گراتے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ معصرات ان بادلوں کو کہا جاتا ہے جو اعصار کے ساتھ آتے ہیں اور اعصار کے معنی ہیں گردو غبار والی تند ہوا قرآن میں ہے : ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر ۔۔۔۔۔۔۔ بگولہ چلے ۔ الاعتصار کے معنی کیس چیز کو دبا کر اس سے دس نچوڑنے کے ہیں اسی سے عصروعصر ہے جس کے معنی جائے پناہ کے ہیں العصر والعصروقت اور زمانہ اس کی جمع عصور ہے قرآن میں : ۔ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر/ 1- 2] زمانہ کی قسم کہ انسان نقصان میں ہے ۔ العصر کے معنی العشی بھی آتے ہیں یعنی زوال آفتاب سے غروب شمس تک کا زمانہ اسی سے صلاۃ العصر ( نماز عصر ) ہے العصران صبح شام رات دن اور یہ القمران کی طرح ہے جس کے معنی ہیں چاند اور سورج المعصر وہ عورت جسے حیض آجائے اور جوانی کی عمر کو پہنچ گئی ہو ۔
(1 ۔ 2) زمانہ کی سختیوں اور تکالیف کی یا یہ کہ نماز عصر کی قسم ہے کافر اپنے عمل کے برباد ہونے اور جنت نہ ملنے سے بڑے خسارے اور عذاب میں ہے، یا یہ کہ بڑھاپے اور موت کے بعد نقصان عمل کی وجہ سے۔
آیت ١{ وَالْعَصْرِ ۔ } ” زمانے کی قسم ہے۔ “ یعنی اس حقیقت پر زمانہ گواہ ہے یا پوری تاریخ انسانی شاہد ہے کہ :
1: یعنی زمانے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو لوگ ایمان اور نیک عمل سے محروم ہوتے ہیں، وہ بڑے گھاٹے میں ہیں۔ اس لئے کہ ایسی بہت سی قوموں کو دُنیا ہی میں آسمانی عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتابیں اور اﷲ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر خبر دار کرتے رہے ہیں کہ اگر ایمان اور نیک عمل کی رَوِش اِختیار نہ کی گئی تو آخرت میں بڑا سخت عذاب اِنسان کا منتظر ہے۔
١۔ ٣۔ اگرچہ مفسرین سلف نے لفظ عصر کے طرح طرح کے معنی کئے ہیں لیکن مشہور قول حضر عبد اللہ بن عباس (رض) کا یہی ہے کہ عصر کے معنی اس سورة میں زمانہ کے ہیں اس واسطے امام بخاری ٣ ؎ نے اسی قول کو لیا ہے زمانہ کے دو جز رات دن ہیں دنیا بھر کے عجائبات قدرت میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ پیدائش میں سب انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں لیکن عادت میں کوئی نیک ہے دنیا کی چند روزہ زیست میں عقبیٰ کی راحت کے اسباب مہیا کرنا ہے اور دوسروں کو بھی نیک راستہ سے لگانا ہے اور کوئی لہو و لعب میں اپنی زندلی ضائع کرتا ہے اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا ہے اور یہی بات اس سورة کے معنی کا حاصل ہے نیک خیال دل میں جمے رہنے کے لئے دو صحابہ جب آپس میں ملا کرتے تھے تو اس سورة کو پڑھا کرتے تھے حق سے مراد ایمان اور توحید اور دین کی اور حق باتیں ہیں۔ حق اور صبر پر باہمی وصتت کے معنی ادائے طاعات اور ترک ممنوعات شرعیہ پر باہمی تاکید کا رکھنا۔ اسی تاکید کی غرض سے صحابہ باہمی ملاقات کے وقت اس سورة کو پڑتا کرتے تھے کہ ایک شخص سے دوسرے کو نیک عمل پر قائم رہنے اور برے کام سے بچنے کی یاد دہی ہوجائے کیونکہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث میں آیا ہے کہ آدمی یا تو خاموش رہے اور اگر بات کرے تو نیک بات کرے۔ حق بات پر قائم رہنے کے لئے اور ناحق بات سے بچنے کے لئے صبر و تحمل درکار ہے۔ اس لئے فرمایا : (٣ ؎ صحیح بخاری۔ تفسیر سورة العصر۔ ص ٥٤١ ج ٢۔ ) ٤ ؎ صحیح بخاری۔ باب من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلا یوذ جارہ ص ٨٨٩ ج ٢۔
(103:1) والعصر : واؤ قسمیہ ہے العصر مقسم بہٖ ۔ قسم ہے عصر کی۔ العصر سے کیا مراد ہے اس میں علماء کے متعدد اقوال ہیں۔ مثلاً (1) اس سے مراد زمانہ ہے۔ (حضرت ابن عباس (رض) (2) اس سے مراد رات و دن ہے۔ (ابن کیسان (رح)) (3) اس سے مراد زوال سے غروب آفتاب تک العصر ہے۔ (حسن بصری (رح)) (4) دن کی آخری گھڑی العصر ہے۔ (قتادہ) (5) اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ (مقاتل) (6) الدھر کلہ (زمانہ مطلقا) ۔ (ایسر التفاسیر) (7) الزمن کلہ او جزء منہ (زمانہ مطلقا یا اس کا کوئی حصہ) ۔ (اضواء البیان) وغیرہ۔ قسم اس شے کی کھائی جاتی ہے جو قسم کھانے والے کے نزدیک اہم اور عظیم ہو اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی قسم کھائی ہے اپنی مخلوق کی یا اپنی صفات کی، وہاں مقسم بہٖ عظمت و حکمت کے اظہار کو مدنظر رکھتے ہوئے کھائی ہے لہٰذا متذکرہ بالا مختلف معانی جو علماء نے العصر کے لئے ہیں وہ سب اس تعریف میں صادق آتے ہیں۔
ف 14 یہ ترجمہ اس لحاظ سے ہے کہ ” عصر “ کے معنی عصر کے وقت یا نماز کے بھی ہیں اور زمانہ کے بھی۔ بعض مفسرین نے زمانہ سے مراد خاص طور پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ لیا ہے۔ زمانہ کی قسم اس لحاظ سے کھائی کہ آگے جو حقیقت بیان کی جا رہی ہے اس کی سچائی پر زمانہ کے واقعات گواہ ہیں، اور عصر کی اس لحاظ سے کہ وہ بڑا بابرکت وقت ہے۔ اس میں رات اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں، یہاں تک کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جس سے عصر کی نماز قضا ہوگئی گویا اس سکا سب گھر بار لٹ گیا۔ (قرطبی وغیرہ)
سورة العصر۔ آیات ١ تا ٣۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے زمانے کی یعنی زمانہ خود گواہ ہے کہ انسان خسارے میں جارہا ہے جس مال کے لیے تڑپتا ہے وہ کھوجائے گا ہر لمحہ عمرعزیز کم ہورہی ہے اور اعضاء کمزوری کی طرف بڑھ رہے ہیں ، ہر شے اور ہر طاقت خرچ ہورہی ہے کہ اللہ نے بیشمار نعمتیں دیں جو ایک ایک کرکے ختم ہونے کو ہیں اور موت سب لذتیں مٹا دینے کو ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اللہ کو پہچانا اس کا شکر ادا کیا انہوں نے بجائے خسارے کے کمالات حاصل کیے کہ اللہ کے حکم اور نظام کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا اور زندگی بھر حق کی تلقین کرتے رہے یعنی یہ کام نہ صرف خود کیا بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔
لغات القرآن : العصر۔ زمانہ۔ خسر۔ نقصان۔ گھاٹا۔ تو اصوا۔ ایک دوسرے کو کہتے رہے۔ تاکید کرتے رہے۔ تشریح : تین آیات پر مشتمل اس چھوٹی سی سورت میں اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تعلیمات کو اس طرح سمودیا ہے کہ بقول امام شامی (رض) اگر لوگ اسی ایک سورت میں غورو فکر کرلیں تو یہی سورت ان کی ہدایت کے لیے کافی ہے۔ صحابہ کرام (رض) بھی اس سورت کو بہت اہمیت دیتے تھے چناچہ حضرت عبداللہ ابن حصین الدارمی سے روایت ہے کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جب دو آدمی ملتے تو اس وقت تک جدانہ ہوتے جب تک ایک دوسرے کو سورة عصر نہ سنالیتے۔ (طبرانی ) اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے عصر کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ دنیا کے تمام لوگ سراسر گھاٹے اور نقصان میں ہیں۔ صرف وہ لوگ کامیاب و با مراد ہیں جو ایمان، عمل صالح، تو اصی بالحق اور تو اصی بالصبر پر قائم رہے۔ عصر کے مختلف معنی ہیں نماز عصر، زمانہ، تاریخ انسانی اور زمانہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہر حال اللہ تعالیٰ نے تاریخ انسانی، اس کے انقلابات اور قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ دنیا میں صرف وہی لوگ کامیاب رہے، ان ہی لوگوں نے فلاح پائی جو اللہ، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، اس کے فرشتوں، قیامت کے دن، تقدیر الٰہی اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لائے۔ لیکن جنہوں نے ان چیزوں کا انکار کیا اور اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کو جھٹلایا وہ نہ صرف دنیا میں رسوا اور ذلیل و خوار ہوئے بلکہ آخرت میں بھی وہ جنت اور اس کی راحتوں سے محروم رہیں گے۔ ہوسکتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے زمانہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم کھا کر بتایا ہو کہ جو لوگ دامن مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وابستہ نہیں ہیں وہی ناکام و نامراد ہیں اور جنہوں نے ان پر ایمان لا کر ان کی ہدات پر عمل کرکے اعمال صالحہ کا راستہ اختیار کیا ہے وہی اس سے مستثنیٰ ہیں اور کامیابی ان ہی کا مقدر ہے۔ (ایمان) اللہ کو معبود حقیقی ماننا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، اسی کی ذات پر بھروسہ اور توکل کرنا، اسی کو اپنی تمناؤں کے پورا ہونے کا مرکز ماننا، اس نے جو تعلیمات اپنے پیغمبروں کی معروفت اپنے بندوں تک پہنچائی ہیں ان پر نہایت خلوص سے عمل کرنا، اس کے تمام رسولوں کو ماننا، ان کی لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان رکھنا، حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا آخری نبی اور آخری رسول ماننا اور اس بات پر یقین رکھنا کہ آپ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہے وہ سب سے بڑا جھوٹا اور فریبی ہے۔ قرآن کریم کو اللہ کی آخری کتاب مان کر اس کے تمام احکامات پر مکمل ایمان رکھنا، اس کی دعوت کو ساری دنیا میں پہنچانا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو حق و صداقت پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرنا۔ (عمل صالح) ہر نیک اور بہتر عمل کو عمل صالح کہا جاسکتا ہے لیکن عمل صالح اس عمل کو کہتے ہیں جس کی بنیاد ایمان اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق ہو۔ اگر کوئی شخص ایمان کے بغیر کوئی نیک اور بہتر عمل کرتا ہے اللہ کے ہاں اس کی بھی قدر ہے اس کی جزا اور بدلہ اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا اور جو شخص ایمان کے ساتھ عمل صالح کی روش کو اختیار کرے گا اس کو دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں اس کے نیک اور بہتر اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ ایمان اور عمل صالح الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک حقیقت کے دو نام ہیں اسی لیے قرآن کریم میں عام طور پر ایمان کے بعد ہی عمل صالح کا حکم دیا گیا ہے۔ (تواصی بالحق) ایک دوسرے کو حق و صداقت پر چلنے کی تلقین کرنا۔ تو اصی کا لفظ وصیت سے بنا ہے۔ اگر کسی شخص کو تاکید کے ساتھ کسی نیک اور بہتر کام کرنے کی تاکید کی جائے تو اس کو وصیت کہتے ہیں۔ یہاں وصیت کے معنی یہ ہیں کہ ایک مومن دوسرے مومن کو موثر انداز میں اس بات کی تلقین کرتا رہے کہ اس نے حق و صداقت کے جس راستے کو اختیار کیا ہے اسی پر پورے صبر و تحمل کے ساتھ چلتا رہے تاکہ اس کے لیے آخرت کی منزل آسان ہوجائے اور سچائی کے راستے میں جو بھی مشکلات پیش آئیں ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے اللہ ور سول کی رضا و خوشنودی کے لیے ثابت قدم رہے۔ اسلامی معاشرہ کی سب سے اچھی اور بہتری بات یہ ہے کہ اس میں کسی کو تنہا نہیں چھوڑا جاتا ہے بلکہ ایک کو دوسرے کا سہارا بننا پڑتا ہے۔ (تواصی بالصبر) یعنی صبر کرنے اور ڈٹ جانے کی ایک دوسرے کی تلقین کرنا۔ اصل میں جب کوئی آدمی ایمان اور عمل صالح کی روش کو اختیار کرتا ہے تو اس کو بگڑے ہوئے معاشرے کے ہر فرد اور من گھڑت رسموں اور اصولوں سے ٹکرانا پڑتا ہے جہاں ہر طرف دنیا داری کی چمک دمک ہوتی ہے وہاں ایک شخص کا حق وصداقت کی بات پر جمنا اور عمل کرنا کھیل نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے تو اس کو اپنے گھر اور خاندان والوں سے ہی نامناسب باتیں سننا پڑتی ہیں پھر دوست احباب اور اہل محلہ کی طنز بھری نظریں جو اس کا تعاقب کرتی ہیں ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر ایک دوسرے کو سہارا نہ دیا جائے صبر کی تلقین نہ کی جائے تو ممکن ہے ایک تنہا آدمی اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں عام طور پر ہر شخص اپنے لیے جیتا ہے، اپنے لیے، راحت و آرام کے اسباب مہیا کرتا ہے اس کی دنیا اپنے گھر والوں اور بچوں تک محدود رہتی ہے۔ ہمارا دین ہمیں پہلی تعلیم ہی یہ دیتا ہے کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے جینا کمال نہیں ہے بلکہ دوسروں کے لیے جینا ان کے دکھ درد میں شریک ہونا اصل زندگی ہے۔ اس زندگی کی کیفیات ہی کچھ اور ہوتی ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر ایک شخص خود تو نیکیوں پر چلتا ہے، نماز روزے کا پابند ہے لیکن اسی راستے پر اپنی اولاد، گھر والوں اور خاندان والوں کو نہیں چلاتاتو وہ درحقیقت ایک بہت بڑی سچائی سے دور ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو حق وصداقت پر چلنے کی دعوت دینا یہ دین کی روح ہے۔ اگر کسی جسم سے روح نکل جائے تو وہ بےجان لاشہ رہ جاتا ہے اسی طرح اگر ہماری زندگیوں سے دعوت کا عمل نکل جائے تو پھر رسم اذاں تو رہ جاتی ہے لیکن روح بلالی نہیں رہتی۔
فہم القرآن ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے التکاثر کے آخر میں بتلایا ہے کہ ہر وہ شخص آخرت میں نقصان اٹھائے گا جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دے گا اس سے ہر نعمت کے بارے میں سوال ہوگا مگر اس کے باوجود انسان نقصان کا سودا کیے ہوئے ہے۔ فہم القرآن میں یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ عربی زبان میں واؤ کا حرف قسم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جس چیز کی قسم اٹھاتا ہے لازم نہیں کہ وہ چیز دوسری چیزوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو۔ قسم اٹھانے کا بنیادی مقصد اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے جس چیز کے لیے قسم اٹھائی جاتی ہے تاکہ سننے والا اس بات کی اہمیت اور فرضیت کو سمجھ سکے۔ یہاں زمانے کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے قسم اٹھائی گئی ہے۔ ” والعصر “ زمانے کی قسم ! زمانہ کا لفظ تین اوقات کا احاطہ کرتا ہے۔ جو وقت گزر گیا، جو گزرہا ہے اور جو آنے والا ہے اسے ماضی، حال اور مستقبل کہا جاتا ہے۔ اگر زمانے سے مراد جزوی طور پر ماضی لیا جائے تو معنٰی ہوگا کہ اے انسانو ! جو وقت گزر گیا ہے وہ واپس نہیں آئے گا اس لیے اپنے حال کا خیال رکھو۔ کیونکہ حال کو پکڑے بغیر کوئی فرد اور قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ زمانے کا معنی مستقبل لیا جائے تو یہ مفہوم لینے کی گنجائش ہے کہ اے انسان ! تجھے کیا خبر ! کہ مستقبل تجھے حاصل ہوگا یا تو اس سے پہلے ہی اٹھا لیا جائے گا۔ زمانے کی یہ تفسیر سامنے رکھی جائے تو اس کا ایک ایک لمحہ لمحہ قیمتی اور یہ انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے اس لیے صحابہ کرام (رض) وقت کو سونے اور چاندی سے زیادہ گراں قدر سمجھتے تھے۔ (رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّوْبَۃِ ) ” العصر “ کا دوسرامعنٰی نماز عصر بھی لیا گیا ہے۔ نماز عصر دن کی آخری نماز ہوتی ہے اس لیے نماز عصر کی خاص فضیلت اور فرضیت بیان کی گئی ہے۔ (حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ) (البقرۃ : ٢٣٨) ” نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص درمیانی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزہو کر کھڑے ہوا کرو۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُولَ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الَّذِی تَفُوتُہُ صَلاَۃُ الْعَصْرِ کَأَنَّمَا وُتِرَ أَہْلَہُ وَمَالَہُ ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب إثم من فاتتہ العصر) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ جس کی نماز عصر ضائع ہوگئی گویا اس کی تمام دن کی کمائی غارت ہوگئی۔ “ العصر کی قسم اٹھا کر یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ جس طرح دن کا آخری حصہ عصر کے وقت پر مشتمل ہے اسی طرح ہی دنیا کی زندگی آخری دور میں داخل ہوچکی ہے۔ جس طرح عصر کے بعد سورج کا غروب ہونا یقینی ہے اسی طرح دنیا کا خاتمہ اور قیامت کا آنا یقینی ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّما اَجَلُکُمْ فِیْ اَجَلِ مَنْ خَلَا مِنَ الْاُمَمِ مَابَیْنَ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ وَاِنَّمَا مَثَلُکُمْ وَمَثَلُ الْیَھُوْدِ وَالنَّصٰرٰی کَرَجُلِنِ اِسْتَعْمَلَ عُمَّالًا فَقَالَ مَنْ یَّعْمَلُ لِیْ اِلٰی نِصْفِ النَّھَارِ عَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ فَعَمِلَتِ الْیَھُوْدُ اِلٰی نِصْفِ النَّھَارِ عَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ ثُمَّ قَالَ مَنْ یَّعْمَلُ لِیْ مِنْ نِصْفِ النَّھَارِ اِلٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِ عَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ فَعَمِلَتِ النَّصَارٰی مِنْ نِصْفِ النَّھَارِاِلٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِعَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ ثُمَّ قَالَ مَنْ یَّعْمَلُ لِیْ مِنْ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلٰی قِیْرَاطَیْنِ قِیْرَاطَیْنِ اَ لَا فَاَنْتُمُ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ مِنْ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ اَ لَا لَکُمُ الْاَجْرُ مَرَّتَیْنِ فَغَضِبَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی فَقَالُوْا نَحْنُ اَکْثَرُ عَمَلًا وَاَقَلُّ عَطَاءً قَال اللّٰہُ تَعَالٰی فَھَلْ ظَلَمْتُکُمْ مِّنْ حَقِّکُمْ شَیْءًا قَالُوْا لَا قَال اللّٰہُ تَعَالٰی فَاِنَّہٗ فَضْلِیْ اُعْطِیْہِ مَنْ شِءْتُ ) (رواہ البخاری : باب الاجارۃ الیٰ نصف النہار) ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری مدت عمر، تم سے پہلے لوگوں کی مدت عمر کے مقابلے میں اتنی ہے جس طرح عصر کی نماز سے سورج غروب ہونے کا وقت ہے۔ تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کچھ مزدوروں کو کام پر لگایا۔ اس نے مزدوروں سے کہا ایک ایک قیراط پر میرے ہاں کون دوپہر تک مزدوری کرے گا ؟ یہود نے دوپہر تک ایک قیراط پر کام کیا پھر اس نے کہا کون دوپہر سے عصر تک ایک قیراط پر کام کرے گا ؟ نصاریٰ نے دوپہر سے عصر تک ایک قیراط پر کام کیا پھر اس نے کہا کون شخص عصر کی نماز سے لے کر سورج غروب ہونے تک دو قیراط پر کام کرے گا۔ جان لو وہ تم ہو جو عصر کی نماز سے لے کر سورج غروب ہونے تک کام کر رہے ہو، اور تمہارا ثواب دو گنا ہے۔ اس پر یہود و نصاریٰ ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا کام زیادہ ہے اور ہمیں مزدوری کم ملی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کیا میں نے تمہاری مزدوری سے کم دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ میرا انعام ہے، میں جسے چاہتا ہوں عطا کرتا ہوں۔ “ ( عَنْ شُعْبَۃَعَنْ قَتَادَۃَ عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ اَنَاو السَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ قَالَ شُعْبَۃُ وَسَمِعْتُ قَتَادَۃَیَقُوْلُ فِیْ قَصَصِہٖ کَفَضْلِ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَلَا اَدْرِیْ اَذَکَرَہُ عَنْ اَنَسٍٍٍ اَوْ قَالَہُ قَتَادَۃُ.) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق) ” حضرت شعبہ، قتادہ سے وہ حضرت انس (رض) سے بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے شعبہ کہتے ہیں میں نے قتادہ کو بیان کرتے ہوئے سنا جیسا کہ ان دونوں میں سے ایک انگلی کو دوسری پر برتری حاصل ہے شعبہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں یہ بات انہوں نے حضرت انس (رض) سے بیان کی ہے یا قتادہ کی اپنی بات ہے۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقْمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفِرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ) (رواہ الحاکم) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک آدمی کو نصیحت فرما رہے تھے۔ فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے فارغ وقت کو مصروف ہونے سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔ “ جس بات کی قسم اٹھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اے انسان تو نقصان میں جارہا ہے۔ نفع کے مقابلے میں نقصان کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ چاہیے تو یہ تھا کہ انسان وقت کی اہمیت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نفع حاصل کرتا لیکن اس نے اس وقت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال لیا ہے۔ اگر انسان خسر کے لفظ پر غور کرے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ واقعی وہ نقصان میں جارہا ہے، سب سے پہلے ہر انسان اپنی عمر پر غور کرے۔ کہنے کو تو آدمی یہی کہتا اور سمجھتا ہے کہ میں اتنے سال کا ہوگیا ہوں لیکن غور کرے تو اسے احساس ہوگا کہ اس نے زندگی کے جتنے سال شمار کیے ہیں وہ حقیقت میں اس کی زندگی سے منہا ہوچکے ہیں۔ کردار کے حوالے سے دیکھا جائے تو جب انسان جنم لیتا ہے تو گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔ جوں جوں بڑھا ہوتا ہے تو اس کے گناہوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح کتنے انسان ہیں جو اعمال کے اعتبار سے خسارے میں ہوتے ہیں اور اسی حالت میں فوت کرلیے جاتے ہیں۔ ہمارے رب نے زمانے کی قسم کھا کر ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اے انسان ! تو ہر لمحہ خسارے میں پڑا جارہا ہے، تجھے اس سے بچنے اور نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے، بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ انسان کو نقصان کی بجائے فائدے میں دیکھنا چاہتا ہے۔ فائدہ حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کے لیے چار صفات کا ہونا ضروری ہے۔ یہی چار صفات پورے دین کا خلاصہ ہیں۔ یہ وہ صفات ہیں کہ اگر ان پر عمل کرنے کا حق ادا کیا جائے تو انسان میں ہر قسم کے اوصاف حمیدہ پیدا ہوسکتے ہیں ان کو اپنانے سے انسان نقصان کی بجائے دنیا اور آخرت میں فائدے میں رہے گا وہ چار صفات یہ ہیں۔ ١ یمان : تمام اہل علم اور صاحب ایمان لوگوں نے ایمان کی یہ تعریف کی ہے۔” اقرار باللّسان، تصدیق بالقلب اور عمل صالح “ گویا کہ ایمان تین باتوں پر مشتمل ہے۔ کوئی شخص ان میں سے ایک بات چھوڑ دے تو وہ ایماندار نہیں رہے گا، اس لیے قرآن مجید نے رسمی ایمان کی بجائے حقیقی اور کامل ایمان پرزوردیا ہے۔ (یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا باللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّکْفُرْ باللّٰہِ وَ مَلٰٓءِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا) (النساء : ١٣٦) ” اے ایمان والو ! اللہ، اس کے رسول اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں، جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کے دن کا انکار کرے وہ دور کی گمراہی میں جا پڑے گا۔ “ (قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَاِِنْ تُطِیعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْءًا اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ۔ اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓءِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ ) (الحجرات : ١٤، ١٥) ” بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہوگئے ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تو اللہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا، یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ حقیقت میں مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں، پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور جو اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، وہی ایمان میں سچے ہیں۔ “ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ) (البقرۃ : ٢٠٨) ” اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو کیونکہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “ (عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاض الثِّیَابِ شَدِیدُ سَوَاد الشَّعْرِ لاَ یُرٰی عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِیمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ باللَّہِ وَمَلاَءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ ) (رواہ مسلم : باب مَعْرِفَۃِ الإِیمَانِ وَالإِسْلاَمِ ) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ایک سیاہ بالوں والا آدمی سفید کپڑوں میں ملبوس جس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور ہم سے کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا وہ آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے عرض کی مجھے ایمان کے متعلق بتائیے آپ نے فرمایا کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔ “ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : ایمان اور صالح اعمال کا آپس میں اس قدر گہرا اور مضبوط تعلق ہے کہ جس قدر ایمان مضبوط ہوگا اسی قدر صالح اعمال کرنے کا جذبہ اور اخلاص پیدا ہوگا۔ اس لیے قرآن مجید نے ایمان کو ایک شجر کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ درخت کا بیج جتنا صحت مند ہوگا اتنا ہی اس سے صحت مند اور مضبوط پودانکلے گا۔ اس لیے رئیس المحدثین حضرت امام بخاری (رض) نے اس پر بڑی تفصیلی بحث کی اور درجنوں دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ایمان کے بغیر عمل صالح اور صالح عمل کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ (اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَآءِ تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَال للنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ) (ابراہیم : ٢٤، ٢٥) ” کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال بیان فرمائی ہے، جو ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں، وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اور ” اللہ “ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ “ عمل صالح سے مراد سب سے پہلے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ عمل صالح کو قرآن مجید نے ” اَلْبِرُّ “ کے نام سے بھی بیان کیا ہے۔ ” نیکی صرف مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں نہیں۔ حقیقتاً نیکی یہ ہے جو اللہ، قیامت کے دن، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان رکھنے والے۔ جو لگ ” اللہ “ کی محبت کے لیے مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دیں، غلاموں کو آزاد کریں نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کریں، اپنے وعدے پورے کریں، تنگدستی اور لڑائی کے وقت صبر کریں، یہی لوگ سچے اور یہی پرہیزگار ہیں۔ “ (البقرۃ : ١٧٧) وَتَوَاصَوْ ا بالْحَقِّ : ” الحق “ سے مراد وہ سچائی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی راہنمائی کے لیے انبیاء ( علیہ السلام) کے ذریعے نازل فرمائی ہے۔ اب اس سے مراد قرآن مجید اور حدیث رسول ہے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں ان پر فرض ہے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق اس حق پر عمل کرتے ہوئے اور اس کی ایک دوسرے کو تبلیغ کرتے رہیں۔ کیونکہ اس کا بنیادی تقاضا ہے کہ جو آدمی حق کو حق سمجھ کر قبول کرچکا ہے اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اسے اپنی ذات تک محدود رکھے اسی لیے حکم ہے : ” تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے ‘ نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ “ (آل عمران : ١٠٤) (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الدِّین النَّصِیحَۃُ قُلْنَا لِمَنْ قَالَ لِلَّہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُولِہِ وَلأَءِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِہِمْ ) (رواہ مسلم : باب بَیَانِ أَنَّ الدِّین النَّصِیحَۃُ ) ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دین نصیحت ہے تمیم داری (رض) کہتے ہیں ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کس کے لیے ؟ آپ نے فرمایا اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے ائمہ اور عام لوگوں کی۔ “ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جس شخص نے برائی کو دیکھا اور اس نے اسے اپنے ہاتھ سے ختم کیا تو وہ بری ہوگیا اگر اس میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں اور اس نے اسے اپنی زبان سے منع کیا وہ بھی بری ہوا۔ اس نے زبان سے روکنے کی طاقت نہ پائی مگر اس نے اسے اپنے دل سے برا سمجھا تو وہ بھی بری ہوگیا مگر یہ سب سے کمتر ایمان ہے۔ “ (رواہ النسائی : باب تَفَاضُلِ أَہْلِ الإِیمَانِ ، قال البانی صحیح) ” پہلی خرابی بنی اسرائیل میں یہ آئی تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اس سے کہتا اللہ سے ڈر اور اپنی حرکات سے باز آجا۔ کیونکہ یہ کام تیرے لیے درست نہیں۔ جب دوسرے دن اس سے ملتا تو برا کام اسے اس کے ساتھ کھانے پینے اور بیٹھنے سے نہ روکتا۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ایک دوسرے کے ساتھ دل ملا دیے۔ مزید فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر داؤد اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے لعنت کی۔۔ پھر فرمایا : ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برے کاموں سے منع کرو اور ظالم کے ہاتھ پکڑ کر اس کو حق کی طرف اس طرح جھکاؤ گے جیسا اسے جھکانے کا حق ہے اور اس کو حق پر ٹھہراؤ جیسا کہ حق پر ٹھہرانے کا حق ہے۔ “ (رواہ أبوداوٗد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی) وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ : اہل لغت نے صبر کا معنٰی باندھنا اور روکنا لکھا ہے۔ شرعی اصطلاح میں صبر قوت برداشت ‘ قوت مدافعت کو بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ جو لوگ عسر یسر میں اس بات پر قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں آخرت میں بغیرحساب کے جنت میں داخلہ فرمائے گا اور دنیا میں ان کی دستگیری کرے گا۔ (اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ) (البقرۃ : ١٥٢) ” اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنیوالوں کے لیے ہے۔ “ (وَاسْتَعِیْنُوْا باالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ) (البقرۃ : ١٥٢) ” صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کیجیے۔ “ (اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِحِسَابِ ) ( الزمر : ١٠) ” صبر کرنیوالوں کی جزاء حساب و کتاب کے بغیر جنت کا داخلہ ہے۔ “ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) (آل عمران : ٢٠٠) ” اے ایمان والو ! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کی تیاری کرتے رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ انسان نقصان میں جارہا ہے۔ ٢۔ نقصان سے بچنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایاجائے۔ ٣۔ جو لوگ ایمان لانے کے ساتھ صالح اعمال، ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں گے وہ نقصان سے بچ جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن ایمان اور اس کے بنیادی تقاضے : ١۔ غیب پر ایمان لانا۔ (البقرۃ : ١) ٢۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ : ٤) ٣۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ : ١٣٦) ٤۔ آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ : ٤) ٥۔ پہلے انبیاء پر ایمان لانا اور ان میں فرق نہ کرنا۔ (آل عمران : ٨٤) ٧۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے درمیان فرق نہ کرنا۔ (النساء : ١٥١) ٨۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی اتباع کرنا۔ (آل عمران : ٣٢) ایمان کی تفصیل۔ (البقرۃ : ٢٨٥)
سوال یہ ہے کہ ایمان کیا چیز ہے ؟.... ہم یہاں ایمان کی فقہی تشریح وتعریف نہیں کرتے۔ ہماری بات ایمان کے مزاج ، اس کی قدروقیمت اور زندگی پر اس کے اثرات تک محدود ہے۔ ایمان دراصل وہ رابط ہے جو یہ چھوٹی ، محدود ، انسانی مخلوق ، اس حقیقت کے ساتھ قائم کرلیتی ہے جو ازلی ، ابدی اور باقی رہنے والی ہے اور جو اس کائنات کی اصل ہے اور جس سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ انسانی مخلوق اس حوالے سے اس کائنات کے ساتھ بھی مربوط ہوجاتی ہے کہ دونوں کا خالق ایک ہے ، اور پھر یہ حضرت انسان ان قوانین قدرت سے بھی مربوط ہوجاتا ہے جن کے مطابق یہ جہاں چلتا ہے اور انسان ان قوتوں سے بھی مربوط ہوجاتا ہے جو اس کائنات میں عمل پیرا ہیں اور انسان اپنی حقیر اور محدود ذات کے خول سے باہر آکر کائنات کی وسعتوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی محدود قوت کی حدود سے نکل کر ، ان ” لامحدود قوتوں میں داخل ہوجاتا ہے ، جو اس کائنات کے اندر پائی جاتی ہیں اور یہ کائنات انسان کے مقابلے میں اس قدر بڑی ہے کہ اس کی حدود ہی انسان کے علم سے باہر ہیں ، پھر انسان اپنی محدود عمر کے دائرے سے نکل کر قیام اور قیامت کے بعد آنے والے زمانوں کے لامحدود زمانوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ مخلوق انسانی کا یہ رابط جو قوت ، جو وسعت ، جو آزادی عطا کرتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ، مزید اس کو یہ ذوق بھی عطا کرتا ہے کہ یہ انسان اس پوری کائنات اور اس کے اندر پائے جانے والے حسن و جمال سے بھی لطف اٹھا سکے۔ اور ان مخلوقات کو بھی دیکھ سکے جو اس کی روح کے ساتھ محبت کرنے والی ہے۔ اس رابطے کی وجہ سے زندگی کا مختصر سفر انسان کے لئے ایک تفریحی سفر بن جاتا ہے یا کسی نمائش کی ایک سیر بن جاتی ہے جو اللہ نے اس انسان کے لئے ہر مقام ، ہر جگہ اور ہر زمانے میں سجارکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے ، اعلیٰ درجے کی خوشی اور تفریح ہے اور اس پوری کائنات کے ساتھ ایک دوستی ہے ، اور یہ وہ دولت ہے جس کے مقابلے میں کسی اور دولت کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا نقصان بھی ہے کہ اگر کوئی اس سے محروم ہوجائے تو اس سے بڑا نقصان اور گھاٹا اور کوئی نہیں ہے۔ پھر ، ایمان کے بنیادی عناصر بھی وہ ہیں جو انسانیت کے بھی بنیادی عناصر ترکیبی ہیں : (1) ایک الٰہ کی بندگی سے انسان کو صرف ایک الٰہ واحد کے علاوہ تمام اطاعتوں ، بندگیوں اور پرستشوں سے نجات ملتی ہے۔ یوں انسانوں کے اندر یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ تمام بندے ایک مقام رکھتے ہیں اور باہم مساوی ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی معقول رویہ نہیں ہے کہ ایک انسان کو آزادی کی حقیقی نعمت نصیت ہوتی ہے ! یہ وہ آزادی ہوتی ہے جو انسانی ضمیر سے پھوٹتی ہے اور اس تصور سے پھوٹتی ہے جو بطور حقیقت وافعیہ موجود ہو اور وہ تصور یہ ہے کہ اس کائنات میں صرف ایک حقیقی قوت ہے اور ایک ہی حقیقی معبود ہے۔ چناچہ اس تصور حیات وتصور کائنات کا طبعی تقاضا یہ ہے کہ انسان آزاد ہو اور اس عقیدے کا منطقی نتیجہ بھی یہی ہے کہ انسان آزاد ہو۔ (2) انسان میں ربانیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اپنے تمام تصورات ، اپنی تمام قدریں اور پیمانے اپنی تمام ترجیحات ، اپنا تمام دستور اور قانون اللہ سے اخذ کرتا ہے۔ اور اس کے روابط اللہ سے ، اس کائنات سے ، اور لوگوں سے اللہ کے احکام وقوانین کے مطابق ئام ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی سے اس کی ذاتی خواہش اور اس کی ذاتی مصلحتیں معدوم ہوجاتی ہیں اور ان کی جگہ اللہ کی شریعت اور عدل لے لیتا ہے۔ مومن کے شعور میں اس کے نظام زندگی کی قدر و قیمت بلند ہوجاتی ہے ، اس کی شخصیت جاہلیت کے تصورات اور اقدار سے بلند ہوجاتی ہے۔ جاہلی ترجیحات ختم ہوجاتی ہیں اور وہ تمام رابطے ختم ہوجاتے ہیں جو زمین اور اس دنیا اور مادی تصورات پر مبنی ہوں۔ اگرچہ یہ انسان ایک فرد ہو ، اس لئے کہ ایک مومن فرد بھی اپنے تصورات ، اپنی قدریں اور اپنی ترجیحات براہ راست اللہ سے لیتا ہے ، کیونکہ یہ قدریں ہی زیادہ برتر ، زیادہ محترم اور زیادہ انتقاع اور قابل لحاظ ہوتی ہیں۔ (3) ایمان کے نتیجے میں خالق و مخلوق کے تعلق کا بھی تعین ہوجاتا ہے۔ الوہیت اور بندگی ، خدائی اور عبودیت کے مقام کا بھی تعین ہوجاتا ہے اور یہ تعلق صاف وستھرا ہوکر سامنے آتا ہے۔ یہ تعلق جو ایک فانی انسان کو ایک لافانی ذات سے جوڑتا ہے۔ بڑی سادی اور قابل فہم انداز میں متعین اور واضح ہوجاتا ہے اور اس راہ میں انسان کو کسی واسطے کی ضرورت نہیں رہتی۔ تعین مراتب سے دل میں نور اور روح میں اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ نفس انسانی میں محبت اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ تردد ، خوف ، قلق ، اضطراب ختم ہوجاتے ہیں۔ مراتب کی اس وضاحت سے انسان ناحق استکبار بھی نہیں کرتا اور نہ افترا پروازیاں کرکے ، من گھڑت تصورات کے بل بوتے پر دوسرے انسانوں پر اپنے لئے برتر مقام کا دعویٰ کرتا ہے۔ (4) ایمان کی وجہ سے اہل ایمان کو اسلامی نظام حیات پر استقامت نصیب ہوتی ہے۔ پس مومنین کے ہاں بھلائی کوئی عارضی امر نہیں ہوتا نہ کوئی اتفاقی منفرد حادثہ ہوتا ہے ، بلکہ اسلامی نظام ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے جس کے حقیقی اسباب ہوتے ہیں اور اس کے کچھ حقیقی مقاصد ہوتے ہیں اور اسلامی نظام کو چلانے والے باہم فی اللہ مربوط لوگ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں سے ایک سلیم جماعت تشکیل پاتی ہے ، جس کا ایک ہی مقصد ہے ، ایک ہی ممتاز جھنڈا ہوتا ہے۔ یہ جماعت ایک تاریخی جماعت ہوتی ہے اور اس کی گزشتہ رفتہ نسلیں بھی آنے والی نسلوں سے مربوط ہوتی ہیں اور آنے والی نسلیں ماضی سے مربوط ہوتی ہیں اور یہ تعلق ایک مضبوط تعلق ہوتا ہے۔ (5) اس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ انسان نہایت مکرم ہے۔ انسان خود اپنی نظروں میں بلندہوجاتا ہے اور مومن کے ضمیر میں یہ حیاجاگزیں ہوتی ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس کے نتیجے میں وہ اس مرتبہ سے گر جائے ، جس کی طرف اللہ نے اسے اٹھایا ہے اور یہ وہ اعلیٰ وارفع مقام ہے جس تک پہنچنے کا کوئی انسان تصور نہیں کرسکتا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں معزز ہے۔ ہر وہ مذہب یا فلسفیانہ تصورجو انسان کو خود اپنی نظر میں گراتا ہے اور اس کو ایک حقیر مخلوق قراردیتا ہے جو معتبر انداز میں بعد پیدا ہوئی۔ وہ دراصل انسان اور عالم بالا میں دوری پیدا کرتا ہے اور اس قسم کا مذہب یافلسفہ انسان کو گراتا ہے اور اس کو گراوٹ کی طرف لے جاتا ہے ۔ اگرچہ وہ اسے یہ بات بصراحت نہ کہے۔ چناچہ ڈارون اور فرائیڈ کے فلسفے اور مارکسی نظام وہ بدترین فلسفے اور نظام تھے جنہوں نے انسان کو بدترین مصیبت میں مبتلا کیا اور اسے انسانیت ، فطرت اور انسانی لحاظ سے غلط رخ دیا اور اسے یہ باور کرایا کہ ہر گراوٹ ، ہر گندگی اور ہر حقارت دراصل انسانی زندگی کا طبعی اور لازمی حصہ ہے۔ یہ کوئی قابل تعجب بات ہی نہیں ہے ، لہٰذا اس میں شرمندہ ہونے کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ چناچہ یہ فلسفے اور یہ نظام دراصل انسانیت کے خلاف ایک گھناﺅنا جرم ہیں اور اس قابل ہیں کہ ان سے نفرت کی جائے۔ (سید کی روح کیا آپ کو یہ اطلاع مل چکی ہے کہ مارکسیت کے تمام بت اشرا کی دنیا سے گرادیئے گئے ہیں) ۔ (6) فقط تصور کہ انسان اللہ کے نزدیک ایک مکرم مخلوق ہے ، انسانی شعور کو پاک وصاص کردیتا ہے ، پھر یہ تصور کہ اللہ سب کا نگران ہے اور وہ علیم بذات الصدور ہے۔ اس سے بھی انسانی شعور صاف ہوتا ہے ، ایک سلیم الفطرت انسان جس کی فطرت کو کارل مارکس ، فرائیڈ جیسے لوگوں کی تحریروں نے مسخ نہ کردیا ہو ، وہ اس بات سے حیا کرتا ہے کہ اس جیسا دوسرا انسان اس کے دل کے رازوں اور اس کے برے خیالات پر مطلع ہو۔ اور ایک سچا مومن جو یہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے سینے کے تمام رازوں اور دفینوں سے اللہ باخبر ہے۔ وہ اس تصور سے کانپ اٹھتا ہے کہ اس کے دل میں یہ یہ خیالات ہیں۔ اس سے وہ اپنے شعور ، احساسات چھوڑتا ہے اور دل کی بھی صاف کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان پیدا ہوتے ہی انسان کے اندر ایک اخلاقی حسن پیدا ہوجاتی ہے وہ ایمان رکھتا ہے کہ ایک الٰہ ہے جو عادل ، رحیم کریم اور درگزر کرنے والا ہے۔ حلیم ہے اور محبت کرنے والا ہے ، وہ شر کو پسند نہیں کرتا ، خیر کو پسند کرتا ہے ۔ وہ آنکھوں کے خائن کو بھی جانتا ہے اور دلوں کے بھیدوں کا جاننے والا ہے۔ (7) پھر یہ تصور کہ انسان کو ارادے کی آزادی دی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی جانب سے اس کو مکمل نگرانی ہورہی ہے ، اور اس کے نتیجے میں ایک کے اندر احساس اور بیداری پیدا ہوجاتی ہے اور جو سمجھ داری اور تدبر پیدا ہوتا ہے اس کے نتیجہ میں انسان اپنے آپ کو ایک ذمہ دار اور ہر بھلائی کا یہ حق ہے کہ اس کے حوالے سے انسان ایک ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرے اور دوسرے انسانوں کے حوالے سے بھی ذمہ داری کا احساس کرے۔ اور یہ ذمہ داری اللہ کے سامنے ہے۔ اس لئے جب ایک مومن کوئی بھی حرکت کرتا ہے تو اس کا احساس و شعور یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملے اور ہر قدم پر اپنے دل میں سوچتا ہے اور قدم اٹھانے سے پہلے ہی نتائج پر غور کرلیتا ہے۔ اس لئے کہ اس تصور کے مطابق انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسے اس دنیا میں ایک پوزیشن حاصل ہے۔ اس لئے اس کائنات کے نظام میں وہ ایک ذمہ دار مخلوق ہے۔ (8) ایمان کے آثار میں سے ایک اہم اثر یہ ہے کہ ایک مومن دنیا کے مفادات پر اس طرح نہیں ٹوٹ پڑتا جس طرح کتے ہڈیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایمان کے اشارات واثرات میں سے ایک اشارہ اور اثریہ ہوتا ہے کہ وہ اس چیز کو اختیار کرتا ہے جو اللہ کے نزدیک اعلیٰ مقصدیت رکھتی ہو ، اور جو ” خیر “ ہو اور باقی رہنے والی ہو۔ وفی ذلک ............................ المتنافسون (26:83) ” مقابلے کرنے والے لوگ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو بھلائی میں مقابلہ کریں “۔ اللہ کے ہاں جو انعامات ہیں ان میں باہم مقابلہ انسان کو اس دنیا سے بلند کرتا ہے ، اس کے قلب کی تطہیر کرتا ہے اور انسان صاف وستھرا ہوجاتا ہے۔ نیز اس سے ایک مومن کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے۔ وہ دنیا کی سرحدوں سے نکل کر آخرت میں بھی سرگرم ہوتا ہے۔ زمین کے ساتھ ساتھ وہ عالم بالا میں بھی جو لانی دکھاتا ہے اور یہی بات اس کے اندر یہ قوت پیدا کرتی ہے کہ وہ نتائج پرواہ کیے بغیر نیکی کرتا چلا جائے یانتائج کے بارے میں عجلت نہ کرے۔ اس لئے کہ وہ بھلائی اس لئے چاہتا ہے کہ وہ بھلائی ہے اور اس لئے کہ اللہ کی مرضی اسی طرح ہے ، یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس چھوٹی سی محدود عمر میں بھلائی کے نتائج بھی نکلیں۔ اس لئے کہ جس اللہ کے لئے یہ بھلائی کی جارہی ہے وہ زندہ ہے ، وہ مرتا نہیں ہے۔ وہ بھولتا نہیں ، وہ کسی چیز سے غافل نہیں۔ پھر یہ دنیا حقیقی دار الجزاء بھی نہیں ہے اور تمام حسابات اس جہاں ہی میں چکنے والے نہیں۔ لہٰذا مومن خیر کو جاری رکھنے کے لئے اس سرچشمے سے مدد لیتا ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ خیر کی تحریک جاری رہتی ہے۔ یہ کوئی وقتی جوش نہیں ہوتا اور نہ کوئی انفرادی واقعہ ہوتا ہے۔ یہی ایمانی جذبہ ہے جس کی وجہ سے ، ایک مومن کے اندر اس قدر قوت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے رشتہ کے مقابلے میں کھڑا ہوجاتا ہے ، چاہے یہ شر کسی ایک ڈکٹیٹر اور سرکش کی صورت میں ہو یا جاہلی تصورات وترجیحات کے دباﺅ کی شکل میں ہو ، یا انسان کی خواہشات نفس کی صورت میں ہو۔ یہ انفرادی دباﺅ کسی فرد پر یوں پڑتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ دنیا مختصر ہے ، عمر قلیل ہے اور اس میں عیس و عشرت کرلینا چاہیے۔ بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست یا یہ اس قدر مختصر ہے کہ اس میں نیکی کے نتائج نہیں نکل سکتے۔ اور ہمارے لئے یہ چانس نظر نہیں آتا کہ ہم باطل پر ، حق کا غلبہ دیکھ سکیں۔ اس لئے ایمان اس صورت حالات کا علاج کرتا ہے اور بنیادی علاج۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان ہی زندگی کی اساس ہے ، زندگی کی جڑ ہے اور اس سے بھلائی کی تمام شاخیں پھوٹتی ہیں اور اس کا ہر پھل انہی جڑوں سے معلق ہوتا ہے۔ اور اگر ایمان نہیں ہے تو گویا درخت کی جڑ کٹ گئی ہے اور اس کی تمام شاخیں مرجھا کر خشک ہوجائیں گی اور اگر وہ خشک نہ ہوں تو پھر وہ شیطانی پھل ہوگا اور اس کو دوام اور فروغ حاصل نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان وہ مرکز اور محور ہے جس کے ساتھ اعلیٰ زندگی کی تمام تاریں مربوط ہیں اور اگر ایمان نہیں ہے تو زندگی ایک غیر مربوط حرکت ہے اور ایمان کے بغیر اس زندگی کو کوئی ثبات وقرار نہیں ہے۔ خواہشات اور میلانات جدھر جائیں ، کسی کو کھینچ لے جائیں۔ ایمان دراصل ایک نظام ہے اور اس کی وجہ سے تمام متفرق اعمال ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے یہ اعمال باہم ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ ایک سمت میں ہوجاتے ہیں۔ ایک ہی حرکت ، ایک ہی محرک ، اور ایک ہی ہدف رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم ہر اس عمل کو کالعدم قرار دیتا ہے جو اس اصل پر مبنی نہ ہو۔ جو اس محور کے گرد نہ گھومتا ہو اور جو سرچشمہ ایمان سے نہ پھوٹتا ہو۔ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام عقائد اس معاملہ میں بالکل اوپن اور صریح ہے۔ سورة ابراہیم میں ہے۔ مثال الذین ............................ شیء (18:14) ” جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ان کے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے کہ تیز وتندآندھی ایک طوفانی دن میں اسے اڑائے پھرے۔ جو اعمال بھی انہوں نے کئے تھے ان میں سے وہ کچھ نہ پاسکیں گے “۔ اور سورة نور میں ہے : والذین ................................ شیئا (39:24) ” جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے چٹیل میدان میں سراب ، پیاسا اسے پانی خیال کرے لیکن جب اس کے پاس پہنچے تو وہاں کچھ نہ پائے “۔ یہ نصوص بصراحت بتارہی ہیں کہ اعمال جب تک ایمان پر مبنی نہ ہوں ، اسلام میں ان کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ اعمال کی تہہ میں جذبہ یہ ہونا چاہئے کہ خالق کائنات نے یہ حکم دیا ہے اور ان کا مقصد اس کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ اور یہ منطقی نتیجہ ہے اس عقیدے کا جو تمام امور کو اللہ کی طرف لوٹاتا ہے اس لئے جس عمل کا تعلق ایمان سے کٹ گیا وہ اپنا مفہوم اور قیمت کھو بیٹھا۔ (استاد محمد عبدہ ، نے آیت فمن ................ برہ (8:99) ” جو ذرہ برابر نیکی کرے گا ، اسے دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر بدی کرے گا اسے دیکھ لے گا “ کے تحت لکھا ہے کہ ” بعض علما نے اس پر اجماع لکھا ہے کہ کافر کو اس کی کوئی نیکی قیامت میں نفع نہ دے گی اور اس کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی ، لیکن یہ ایک بنیادی بات ہے “۔ ہم سمجھتے ہیں یہ مسئلہ اجماع کا نہیں قرآن کی صریح نصوص کا ہے اور قرآن وسنت اس معاملہ میں بالکل واضح ہیں۔ (سید قطب) ایمان اس بات کی دلیل ہے کہ صاحب ایمان کی فطرت درست ہے اور اس کی شخصیت کی ساخت صحیح سالم ہے اور وہ اس پوری کائنات کے ساتھ ہمقدم ہے۔ اور وہ اپنے ماحول میں پائے جانے والی فطرت کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اس لئے وہ اس کائنات میں زندہ رہ رہا ہے۔ اور جس مومن کی شخصیت صحیح سالم ہوتی ہے اس کے اور ان کائنات کے درمیان ایک توافق ہوتا ہے اور یہ توافق اور یہ اتحاد صرف ایمان کا ثمرہ ہوتا ہے کیونکہ اس کائنات میں ایسے دلائل واشارات موجود ہیں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ ایک ہی دست قدرت صانع کائنات ہے اس لئے انسان اور کائنات کے درمیان سے یہ توافق ختم ہوجائے تو یہ بات اس پر دلیل ہوہگی کہ اس انسان کی شخصیت میں خلل آگیا ہے اور انسان کی وہ صلاحیت ختم ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اس کائنات سے دلائل واشارات اخذ کرتا ہے اور اس فساد کی وجہ سے انسان گھاٹے ہی میں رہے گا۔ اگرچہ بظاہر کچھ اعمال نیکی کی چھاپ والے معلوم ہوتے ہیں لیکن ایمان نہ ہونے کی وجہ سے یہ اعمال ناقابل قبول ہوں گے .... غرض مومن کی دنیا وسیع ، جامع ، لمبی ، بلند ، خوبصورت اور کامیاب ہوتی ہے۔ جس کے مقابلے میں ان لوگوں کی دنیا جو مومن نہیں ہیں ، چھوٹی ، حقیر ، گری ہوئی ، کمزور اور نامراد اور بدبختی پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ اور انجام خسران اور نامرادی ہوتا ہے۔ وعملوالصلحت (3:103) ” اور نیک اعمال کرتے رہے “۔ نیک عمل درحقیقت ایمان کا قدرتی پھل ہوتا ہے اور جب ایمان کسی قلب میں جاگزیں ہوتا ہے تو عمل صالح اس کی ذاتی حرکت ہوتی ہے (جس طرح دل متحرک ہوتا ہے) لہٰذا ایمان ایک متحرک اور مثبت حرکت کا نام ہے جونہی وہ کسی شخصیت میں بیٹھتا ہے تو وہ عمل صالح کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے ایمان ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسلام میں کسی ایسے ایمان کا تصور نہیں ہے۔ جو بجھا ہوا ہو اور جس کے نتیجے میں کوئی حرکت نہ پیدا ہوتی ہو ، جو پوشیدہ ہو اور زندہ شکل میں مومن کی ذات سے باہر نہ آتا ہو ، اگر اس کے اندر اس قسم کی طبعی حرکت نہ ہو تو وہ ایمان کھوٹا اور مردہ ایمان ہے ، ایمان تو ایک پھول ہے جس کی خوشبو کو روکا نہیں جاسکتا۔ جہاں پھول ہوگا ، اس سے خوشبو پھوٹتی رہے گی۔ اور اگر کسی شخص میں ایمان کی بو نہیں ہے تو گویا وہ موجود ہی نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان حرکت ، عمل اور تعمیر کا نام ہے۔ اور یہ سب امور اللہ کی طرف سے متوجہ ہوتے ہیں۔ ایمان میں سکیڑ نہیں ہے ، نہ وہ منفی چیز ہے۔ نہ وہ ضمیر کی تہوں میں جاگزیں ہوتا ہے۔ نہ ایمان نیک خواہشات کا نام ہے۔ جن کی پشت پر کوئی حرکت نہ ہو ، یہ اسلام کا کھلا مزاج ہے جو اسلام کو ایک اعلیٰ تعمیری ذات بنا دیتا ہے اور یہ قوت عملی زندگی کے اندر کی مرکزی قوت محرکہ ہوتی ہے۔ یہ ہے مفہوم اس بات کا کہ ایمان کو اسلامی نظام حیات کے ساتھ متعلق ہونا چاہئے ، اسلامی نظام حیات چونکہ ایک مسلسل حرکت کا نام ہے ، جو اس پوری کائنات میں چل رہی ہے ، اور یہ حرکت ایک قوت مدبرہ نے پیدا کی ہے اور اس کا ایک ہدف ہے اور انسانیت قیادت ایمان کے ہاتھ میں دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسی قیادت وجود میں لائی جائے جو حرکت کا ایک ایسا منہاج وجود میں لائے جو اس پوری کائنات کے مزاج کے مطابق ہو ، بالفاظ دیگر ایک اچھی ، پاک تعمیری جدوجہد کو برپا کرنا جو اللہ کی طرف سے آئے ہوئے نظام زندگی کے شایان شان ہو۔ وتواصو ........................ بالصر (3:103) ” جو ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں “۔ حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کے اعمال میں سے امت مسلمہ کے خدوخال اچھی طرح واضح ہوتے ہیں۔ امت مسلمہ ہی کے خطوط پر جماعت مسلمہ بھی قائم ہوتی ہے ۔ اس کا ایک خاص وجود اور شخصیت ہوتی ہے۔ اس کے افراد کے درمیان ایک امتیازی رابطہ ہوتا ہے۔ تمام لوگوں کی سمت ایک ہوتی ہے ، اس امت یا جماعت کو اپنے وجود کا شعور بھی ہوتا ہے ، اور اس کے جو فرائض ہیں وہ بھی اس کے پیش نظر ہوتے ہیں ، اور یہ امت یہ جانتی ہے کہ اس نے ایمان اور عمل صالح کے حوالے سے کیا کچھ کرنا ہے ؟ اور وہ جانتی ہے کہ ایمان وعمل صالح کے زاویہ سے اس نے پوری انسانیت کی قیادت بھی کرنی ہے ، لہٰذا ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے امانت کبریٰ کو لے کر اٹھنا ہے۔ غرض لفظ ” تواصی “ اور اس کے اس مفہوم ، اس کے مزاج اور حقیقت ہی میں سے امت مسلمہ کا وجود نمودار ہوتا ہے ، یا ایک باہم متحد جماعت کا تصور ابھرتا ہے۔ یعنی ایسی امت جو ممتاز ہو ، جو دانش مند ہو ، جو اس کرہ ارض پر سچائی ، بھلائی اور عدل و انصاف کے قائم کرنے کی ذمہ دار ہو۔ یوں امت مسلمہ کی یہ نہایت ہی اعلیٰ اور خوبصورت تصویر ہے۔ اسلام اس طرح کی امت چاہتا ہے ، ایک ممتاز ، قوی ، دانش مند اور حق اور بھلائی کی نگرانی کرنے والی امت۔ جس کے افرادایک دوسرے کو ہر وقت حق کی نصیحت کرتے ہوں اور صبر کی تلقین کرتے ہوں۔ باہم محبت اور تعاون سے زندگی بسر کرتے ہوں ، ان کے درمیان ایک خصوصی اخوت کارفرما ہو۔ جسے قرآن مجید وصیت سے تعبیر کرنا ہے۔ حق کی تلقین اس لئے ضروری ہے کہ حق کو لے کر چلنا ایک دشوار کام ہے ، اس دنیا میں بیشمار ایسے عوامل ہیں جو انسان کو سچائی کی راہ سے دور لے جاتے ہیں۔ خواہشات نفسانیہ ، مصلحتیں ، قومی اور خاندانی تصورات ، سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کے مظالم ، ظالموں کے ظلم ، حد سے گزرنے والوں کے تجاوز اور تعدیاں وغیرہ۔ ایک دوسرے کو نصیحت کرنے سے دراصل یاددہانی ہوجاتی ہے۔ انسان کے حوصلے بڑھتے ہیں اور اغراض ومقاصد کے لحاظ سے افراد جماعت کے درمیان اتحاد اور یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ اور ذمہ داریاں اٹھانے میں دراصل ایک دوسرے کا بوجھ اٹھایا جاتا ہے۔ نصیحت سے تمام انفرادی رجحانات کٹھے ہوکر کئی گنا ہوجاتے ہیں اور وہ تمام لوگ جو سچائی کے نگران اور حامی ہوتے ہیں وہ محسوس کرتے ہیں کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ حق اور صداقت کی حفاظت کے کام میں میرے ساتھ اور لوگ بھی ہیں۔ جو اس کو نصیحت کرتے ہیں ، اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس سے محبت کرتے ہیں ، اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اور یہ کبھی اسے شرمندہ ہونے نہ دیں گے۔ یہدین ہی دراصل حق ہے اور اس دین کی حفاظت ایک جماعت ہی کرسکتی ہے۔ جو باہم متعارف ہو ، باہم کفیل ہو ، اور ایک دوسرے کی معاون ہو اور ایک دوسرے کی کمزوریاں پوری کرنے والی ہو۔ اور صبر کی تلقی بھی بہت ضروری ہے۔ اس لئے کہ ایمان وعمل صالح پر گامزن رہنا اور حق و انصاف کی نگرانی کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اس میں صبر اور مصابرت اور نفس کے اندر کے عوامل کے خلاف سخت جہاد کی ضرورت ہے اور نفس سے باہر کے عوامل کے خلاف جہاد کی بھی ضرورت ہے اور اس راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر ومشقت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح باطل کے استکبار اور فخر پر صبر کرنا ، راستے کی طوالت پر صبر کرنا اور کامیابی کی سست روی پر صبر کرنا اور راستے کے نشانات کا ناپید ہونا اور مٹ جانا اور ان پر صبر کرنا۔ صبر کی تلقین سے انسانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کے اندر ایک اجتماعی احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم سب کا ہدف واحد ہے ، رخ ایک طرف ہے ، اس طرح اس سے سب کو ایک سہارا ملتا ہے۔ کارکن اس راہ میں کام کرتے ہوئے باہم شیروشکر ہوجاتے ہیں اور نہایت عزم ، ثابت قدمی اور اپنے مقصد پر اصرار کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ نیز اس سے کئی اور اجتماعی صفات بھی پیدا ہوتی ہیں او یہ کئی اسلامی جماعت کے استحکام کے لئے ضروری ہیں کیونکہ اسلام جماعتی فضا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسلام کا ظہور بھی ایک سوسائٹی کی شکل میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی سوسائٹی ہی نہیں ہے تو اسلام نہ ہوگا اور یہ سراسر خسارہ ہوگا۔ قرآن نے ہمارے لئے جو دستور واضع کیا اور جس کے مطابق کسی سوسائٹی کو ایک کامیاب اور خسران دنیوی اور اخروی سے محفوظ قرار دیا ہے۔ اگر ہم اس دستور کی عینک لگا کر اس وقت دنیا کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے دنیا کی یہ خوفناک تصویر آئے گی کہ اس وقت پوری دنیا مکمل خاسرے سے دوچا رہے۔ اس خسارے کا زیادہ خوفناک پہلو یہ ہے کہ آخرت سے بھی پہلے ہم محض دنیاوی نقطہ نظر سے بھی سخت خسارے میں پڑچکے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت نے اس بھلائی سے مکمل روگردانی اختیار کرلی ہے ، جس کے فیوض وبرکات اللہ نے انسانوں کے لئے عام کردیئے تھے۔ نیز اس دنیا سے وہ اقتدار اعلیٰ ختم ہوچکا ہے جو ایمانی اور اسلامی ہو ، جو بھلائی اور حق و انصاف کے اصول پر قائم ہو۔ اس تصویر کا نہایت ہی بھدا پہلو یہ ہے کہ مسلمان یا زیادہ صحیح الفاظ میں وہ لوگ جو اس زمین پر بسنے والے دوسرے انسانوں کے مقابلے میں ، اس بھلائی اور خیر سے بہت دور پڑگئے ہیں ، وہ اس نظام زندگی سے بہت دور ہوگئے جو اللہ نے ان کے لئے پسند فرمایا تھا۔ انہوں نے اس آئین ودستور کو پامال کردیاجو اللہ نے ان کے لئے تجویز کیا تھا۔ جسے اللہ نے خسارے اور ناکامی سے نجات پانے کا واحد راستہ قرار دیا تھا۔ خصوصاً وہ علاقے جہاں سے اس بھلائی کے جھنڈے سب سے پہلے بلند ہوئے تھے۔ انہوں نے خود ان جھنڈوں کو گرادیا ہے ، جو ان کے لئے اللہ نے بلند کیے تھے۔ یہ تھے ایمان کے جھنڈے۔ اور نہایت بدقسمتی یہ ہے کہ جن علاقوں سے اللہ کے دین کے یہ جھنڈے بلند ہوئے تھے انہوں نے نسلی قومیت کو اپنا لیا ہے حالانکہ اس زمین کی تاریخ شاہد ہے کہ نسلی قومیت کے ذریعہ کبھی بھلائی تک کوئی قوم نہیں پہنچ سکی۔ ان لوگوں نے جس نسلی قومیت (عرب نیشنلزم) کے جھنڈے بلند کر رکھے ہیں۔ یہ قومیت اس کے پاس اسلام سے پہلے بھی تھی ، لیکن اس کی وجہ سے نہ اس زمین پر انہوں نے کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام دیا اور نہ آسمان میں ان کا کوئی کارنامہ ریکارڈ ہوا ، جب اسلام آیا تو عربوں کے ذریعہ اس نے ایک ایساجھنڈا بلند کیا جو صرف اللہ کا جھنڈا تھا ، اس میں کوئی اور عنصر شریک نہ تھا ، یہ اللہ کے نام سے تھا ، نام میں بھی کوئی شریک نہ تھا ، یہ صرف اللہ کی طرف منسوب تھا ، جس میں کوئی اور نسبت نہ تھی ، صرف اللہ کا رنگ تھا ، کوئی اور رنگ نہ تھا۔ اس جھنڈے کے زیر سایہ عربوں کو عروج نصیب ہوا۔ وہ دنیا کے قائد بن گئے۔ اور ان کی قیادت سے بھلائی کی قیادت تھی۔ ایک قوی قیادت تھی ، دانشمند قیادت تھی اور ہر پہلو سے کامیاب قیادت تھی۔ یہ قیامت عربوں کی تاریخ میں بھی پہلی بار کامیاب ہوئی اور انسانی تاریخ میں بھی اسلامی انقلاب انسانیت کے لئے ایک نمایاں کامیابی تھی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی مشہور کتاب ” انسانی دنیا پر مسلمانوں کا عروج وزوال کا اثر “ کے فصل ” اسلامی اقتدار اور مسلمان قائدین “ میں فرماتے ہیں : ” مسلمان میدان میں آئے ، دنیا کی رہنمائی کی باگ انہوں نے اپنے ہاتھ میں لی اور ان بیمار قوموں کو رہنمائی کے اس منصب سے معزول کیا جس پر وہ قابض ہوگئی تھیں اور جس کو انہوں نے کبھی صحیح طور پر استعمال نہ کیا تھا۔ مسلمانوں نے پوری دنیا کے انسانوں کو اپنے ساتھ لیا اور متوازن اور صحیح رفتار سے اپنی صحیح منزل کی طرف بڑھانا شروع کیا۔ ان میں وہ تمام خصوصیات جمع تھیں ، جو ان کو تمام اقوام کی رہنمائی کے منصب جلیل کا اہل ثابت کرتی تھیں اور ان کی نگرانی اور قیادت میں قوموں کی فلاح اور سعادت کی ضمانت دیتی تھیں۔ یہ امتیازی خصوصیات کیا تھیں وہ یہ ہیں : (1) ان کے پاس آسمانی کتاب اور خدا کی شریعت تھی ، وہ اپنی جانب سے قانون سازی اور شریعت سازی نہ کرتے تھے ، اس لئے کہ انسانی قانون سازی جاہلیت ، ظلم اور غلطیوں کا سرچشمہ ہوتی ہے اور جب انسان انسانوں کے لئے قانون بناتے ہیں تو ہر روز ان میں ردوبدل اور ترمیم ہوتی رہتی ہے جبکہ آسمانی کتابیں ان غلطیوں سے محفوظ ہوتی ہیں۔ مسلمان اپنے روز مرہ کے معاملات اور سیاست اور سیادت میں اندھا دھند چلنے اور اندھیرے میں ہاتھ پاﺅں مارنے سے محفوظ تھے۔ ان کے پاس وحی الٰہی کی روشنی تھی جس کے سہارے وہ چلتے تھے۔ اور جس سے زندگی کی تمام راہیں اور موڑ ان کے لئے روشن تھے۔ ان کا ہر قدم روشنی میں پڑتا تھا۔ اور ان کو اپنی منزل مقصود صاف نظر آتی تھی۔ سورة انعام (122) میں ہے۔ اومن کان ........................................ منھا (122:6) ” کیا وہ جو پہلے مردہ تھا ، پھر ہم نے اس میں جان ڈالی اور اس کو ایک روشنی عطا فرمائی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے ، کیا وہ اس جیسا ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہے کہ اندھیرے میں گھرا ہوا ہے ، وہاں سے نکل نہیں سکتا۔ ان کے پاس ایک خدائی قانون اور شریعت تھی جس کے مطابق وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے تھے۔ وہ حق و انصاف کے علم بردار بنائے گئے تھے اور ان کو سخت سے سخت اشتعال اور برہمی اور عداوت ، اور نفرت کی حالت میں بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ سچائی اور انصاف کا دامن نہ چھوڑیں اور یہ نہ ہو کہ وہ حق و انصاف کے معاملے میں انتقام لیں۔ یایھا الذین ........................................ تعملون (8:5) ” اے ایمان والو ! ہر وقت انصاف کے ساتھ گواہی دینے کے لئے تیار رہو ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں مجبور نہ کردے کہ تم انصاف کو چھوڑ دو ، عدل کرو ، یہ بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ کو ان باتوں کا علم ہے جو تم کرتے ہو “۔ (2) وہ حکومت اور قیادت کے منصب پر مستحکم اخلاقی تربیت اور تہذیب نفس کے بعد فائز ہوئے تھے۔ انہوں نے دنیا کی عام حکمران قوموں اور اہل حکومت کی طرح اپنے تمام اخلاقی عیوب اور نقائص کے ساتھ ، پستی سے بلندی کی طرف جست نہیں لگائی تھی ، بلکہ ایک طویل عرصہ تک وحی الٰہی ان کی اصلاح وتربیت کرتی رہی تھی اور سالہا سال وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامل نگرانی اور تعلیم میں رہے تھے۔ آپ ان کا تذکیہ فرماتے رہے ، ان کی مکمل تربیت فرمائی۔ زہدو ورع کی زندگی کا عادی بنایا ، عفت وامانت ، ایثار وقربانی ، خوف خدا کا ان کو خوگر کیا۔ حکومت ومناصب کی حرص وطمع ان کے دل سے بالکل نکال دی۔ آپ کا ارشاد تھا ” بخدا ہم کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کو سپرد نہیں کریں گے جس نے فرمائش کی یا جس کو اس کی خواہش ہے “۔ ترفع ، سربلندی اور اعزاز کا شوق اور فتنہ وفساد کی خواہش سے ان کے دل بالکل صاف ہوگئے تھے ، ان کے کانوں میں ، رات دن قرآن مجید کے یہ الفاظ پڑتے تھے۔ تلک الدار ........................ للمتقین (83:28) ” یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کو عطا کریں گے ، جو دنیا میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور فساد کے خواہاں نہیں اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے “۔ اس لئے وہ حکومت کے عہدوں اور منصبوں پر سروانہ وار نہ گرتے تھے ، بلکہ اس کے برعکس وہ ان کو قبول کرنے سے گریز کرتے تھے اور ان کی ذمہ داریوں کو سوچ کرکے وہ لرزہ براندام ہوجاتے تھے۔ ان میں سے جس کو بھی کسی منصب کی پیش کش کی جاتی وہ پیچھے ہٹتا تھا۔ اور اپنے کو اس بار کا قابل نہ سمجھتا تھا۔ چہ جائیکہ ان میں سے کوئی اپنا نام حکومت کے لئے پیش کرے۔ یا اپنی ذات کے لئے پروپیگنڈا کرے۔ پھر وہ جب کسی ذمہ داری کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تو اس کو مال غنیمت یا لقمہ تر نہ سمجھتے تھے بلکہ اس کو اپنے ذمہ ایک امانت اور اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھتے تھے۔ اور یقین رکھتے تھے کہ اللہ کے سامنے ان کو حاضر ہونا ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا جواب دینا ہے۔ اور وہ یہ آیت ہمیشہ پڑھتے تھے : ان اللہ ............................ بالعدل (58:4) ” مسلمانو ! اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کو پہنچا دو اور جب فیصلہ کرنے لگو تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ کرو “۔ نیز یہ ارشاد۔ وھوالذی ................................ رحیم (165:6) ” اور اسی نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے اور تم میں سے بعض کو دوسروں پر درجے دیئے ہیں تاکہ تمہیں آزمائے ، ان انعامات میں جو تمہیں دی گئیں۔ بیشک تمہارا پروردگار بڑی سزا دینے والا ہے اور وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ (3) وہ کسی قوم کے خدمت گزار اور کسی نسل او وطن کے نمائندے نہ تھے ، جن کے پیش نظر محض اس قوم اور نسل کی خوشحالی ہو ، یا وہ کسی قوم کی برتری اور اسے تمام اقوام پر قیادت وسیادت کا مقام دلانے کے قائل ہوں۔ اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ ہماری قوم قیادت کرنے کے لئے ہے اور باقی اقوام صرف محکوم بننے کے لئے ہیں۔ وہ عالم عرب کے حدود سے باہر اس لئے نہ نکلے تھے کہ دنیا پر عرب شہنشاہیت قائم کریں۔ اور اس کے زیر سایہ راحت اور عشرت کی زندگی گزاریں۔ اور اس کے زیر حمایت دوسروں پر فخر وتکبر کریں۔ نہ اس لئے کہ لوگوں کو رومیوں اور ایرانیوں کی غلامی سے نکال کر عربوں کی اور اپنی غلامی میں داخل کرائیں۔ وہ صرف اس لئے نکلے تھے کہ وہ بندگان خدا کو اپنے جیسے تمام لوگوں کی بندگی سے نکال کر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی میں داخل کریں۔ مسلمانوں کے سفیر ربعی ابن عامر نے پروگرد شاہ ایران کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اعلان کیا ۔ انہوں نے کہا : اللہ نے ہم کو اس لئے بھیجا ہے کہ لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی کی طرف اور دنیا کی تنگی سے رہائی دے کر اللہ کے وسعتوں کی صرف ، اور مذاہی کے ظلم وستم سے رہائی دلا کر اسلام کے عدل و انصاف میں لائیں۔ بس دنیا کی تمام قومیں اور تمام انسان ان کی گناہ میں ایک حیثیت رکھتے تھے۔ اگر فرق تھا تو محض دین کا تھا۔ غرض رسول اللہ کے اس ارشاد پر ان کا پورا عمل تھا ” سب لوگ آدم ہیں اور آدم مٹی سے ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے ، ماسوائے تقوی کے “۔ اور سورة حجرات کی آیت 13 میں ہے۔ یایھا الناس انا ............................ اتقکم (13:49) ” اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ، اور تمہیں قوم قبیلے میں تقسیم کیا تاکہ تمہارا باہم تعارف ہو ، اللہ کے نزدیک تم میں سے مکرم وہی ہے جو زیادہ متقی ہے “۔ حاکم مصر حضرت عمر بن العاص کے بیٹے نے ایک موقعہ پر ایک مصرف کو کوڑا مارا اور اپنے باپ دادا پر فخر کیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس مصری کو اس سے بدلہ لینے کا حکم دیا۔ اور عمر ابن العاص سے کہا : کب سے تم نے لوگوں کو غلام بنالیا حالانکہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہیں “۔ ان فاتحنیں اور حکمرانوں نے دین وعلم وتہذیب کی بخشش میں کبھی بخل اور تنگ دلی سے کام نہیں لیا اور حکومت اور مناصب حکومت کے بارے میں کبھی وطنیت اور رنگ ونسل کا لحاظ نہیں کیا ، وہ تو ایک ابرکرم تھے جو تمام عالم پر محیط تھا۔ اور اس کا فیض سب کے لئے عام تھا۔ جو سارے عالم کو سیراب کرتا گیا اور زمین کے ہر حصے نے اس کو دعائیں دیں اور مخلوقات نے اپنی اپنی استعداد اور قابلیت کے مطابق اس سے نفع اٹھایا۔ ان لوگوں کے زیر سایہ اور زیر حکومت دنیا کی تمام قوموں کو بلا اختلاف رنگ ووطن اور دین ، علم وتہذیب اور حکومت میں اپنا پورا پورا حصہ لینے اور عربوں کے ساتھ تعمیر نو میں شریک ہونے کا پورا پورا موقعہ ملا۔ بلکہ ان کے بہت سے افراد بہت فضیلتوں میں عربوں سے سبقت لے گئے تھے اور ان میں ایسے ائمہ اور فقہا اور محدثین پیدا ہوئے جو خود عربوں کے سرکاتاج اور مسلمانوں کا سرمایہ افتخار تھے۔ (4) انسان مجموعہ ہے جسم ، قلب اور عقل کا۔ انسان حقیقی فلاح وسعادت اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا اور انسانیت کو متوازن ترقی اس وقت تک نصیب نہیں ہوسکتی جب تک کہ انسان کی یہ تمام قوتیں متناسب طور پر اس کے مرتبہ کے شایان شان ، نشوونما اور پرورش نہ پائیں۔ دنیا میں صالح تمدن کا اس وقت تک وجود نہیں ہوسکتا جب تک کہ ایک ایسا ہی دینی ، اخلاقی ، عقلی اور مادری ماحول نہ قائم ہوجائے۔ جس میں انسان کے لئے پوری پوری سہولت سے کمال تک پہنچنا ممکن ہو اور تجربہ نے ثابت کردیا کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کسی زندگی کی رہنمائی اور تمدن کی جہاز رانی ان لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہو جو روحانیت اور مادیت دونوں کے قائل ہوں۔ اور دینی اور اخلاقی زندگی کا نمونہ کامل ہوں اور عقل سلیم اور علم صحیح سے متصف ہوں۔ (ص 100 تا 164) ۔ اور ایک دوسرے فصل دور خلافت راشدہ کے عنوان کے تحت وہ لکھتے ہیں : ” چناچہ ہم کو تاریخ میں خلافت راشدہ کے دور سے زیادہ ان تمام حیثیتوں سے مکمل اور کامیاب دور کا علم نہیں ، اس دور میں روحانی ، اخلاقی ، دینی وعلمی ، روحانی وسائل و سامان ، انسان کامل اور صالح تمدن کے وجود میں لانے میں ایک دوسرے کے مددگار تھے۔ اس حکومت میں ، جس کا شمار دنیا کی عظیم ترین حکومتوں میں تھا ، ایسی سیاسی ومادی قوت کے جو تمام معاصر قوتوں سے فائق و برتر تھی۔ اعلیٰ اخلاقی نمونے اور اعلیٰ معیار کام دیتے تھے۔ تجارت وصنعت کے ساتھ اخلاق اور فضیلت بھی اپنے پورے عروج پر تھی۔ فتوحات کی وسعت اور تمدن کی ترقی کے ساتھ اخلاق اور افادیت دونوں کی ترقی بھی جاری تھی۔ چناچہ اسلامی حکومت کی غیر معمولی وسعت ، آبادی کی انتہائی افزوئی عیش و عشرت کے وسائل واسباب ترغیبات کے باوجود ، جرائم ، بداخلاقی کے واقعات بہت کم پیش آتے تھے۔ فرد کا دوسرے فرد کے ساتھ اور فردہ جماعت کا باہمی تعلق حیرت انگیز طریقے پر تھا۔ یہ ایک معیاری دور تھا جس سے زیادہ ترقی یافتہ دور کا انسان خواب بھی نہیں دیکھ سکا۔ اور اس سے زیادہ مبارک اور پر بہار زمانہ فرض ہی نہیں کیا جاسکتا “۔ (ص 167) یہ تھے اس دور سعید کے بعض خدوخال جس میں انسانیت نے ایک مختصر سے عرصے کے لئے سورة عصر کے وصع کردہ اسلامی دستور کے زیر سایہ زندگی بسر کی۔ اس عرصہ میں لوگوں پر ایسے لوگوں کی ایک ایسی ایمان والی جماعت کی حکومت تھی جس نے ایمان کے جھنڈے اٹھائے تھے اور عمل صالح اس کا پروگرام تھا اور حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین اس کا شعار تھا۔ یہ ایک ایسا سنہری دور تھا جس کا مقابلہ اس بربادی سے ہرگز نہ کیا جاسکتا۔ جس سے آج پوری انسانیت دوچار ہے۔ معرکہ ، خیروشر میں پوری انسانیت خسارے اور تباہی میں مبتلا ہے۔ پوری انسانیت نے ، اس عظیم خیر کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ، جو کبھی عربوں نے پوری انسانیت کے قائد اور رہنما تھے اور اس کے بعد کے ادوار میں جب انہوں نے یہ جھنڈے پھینک دیئے تو وہ قافلہ انسانیت کے خادم بن گئے جبکہ یہ قافلہ بھی بربادی کی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے اور جاتے جاتے یہ حالت ہوگئی ہے کہ پوری انسانیت نے شیطانی جھنڈے سے اٹھا لیے اور ان میں سے کوئی جھنڈا انسانی جھنڈا نہیں ہے۔ پوری انسانیت نے باطل کے جھنڈے اٹھا لئے ، کہیں بھی حق کا کوئی جھنڈا نظر نہیں آتا۔ پوری انسانیت نے اندھے پن اور گمراہی کے جھنڈے اٹھالئے ، ان میں کہیں بھی ہدایت اور نور کا کوئی ایک جھنڈا نظر نہیں آتا۔ سب جھنڈے خسارے کے ہیں ، کامیابی کا کوئی ایک جھنڈا بھی نظر نہیں آتا۔ اللہ کا وہ جھنڈا جس کے ذریعہ عرب دنیا پر چھا گئے تھے۔ آج بھی موجود ہے۔ یہ جھنڈا آج بھی کسی اٹھانے والے ہاتھ کا منتظر ہے ۔ کسی ایک جماعت یا قوم کی ضرورت ہے جو اس جھنڈے کے نیچے بھلائی ، ہدایت ، صلاح اور فلاح کی راہ پر چلے۔ یہ ہے ، اس جہاں میں نفع ونقصان کی کہانی۔ یہ دنیاوی عظمت اپنی جگہ بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اگ رہم اس کا تقابل اخروی کامیابی کے ساتھ کریں تو یہ بہت ہی حقیر ہے۔ اصل نفع ونقصان آخرت کا ہے۔ وہاں ہی حقیقی نفع ونقصان ہے۔ اس لئے کہ وہ طویل زندگی ہے۔ اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی ہے۔ اور ہمیشہ رہنے والا جہاں ہے۔ اصل منافع اور اصل خسارہ وہاں ہے۔ جنت ، اللہ کی رضامندی کا منافع یا جہنم ، اللہ کی ناراضگی کا خسارہ۔ آخرت میں جہاں انسان اپنے اعلیٰ ترین ترقی و کمال تک پہنچ سکا ہوگا یا اس قدر کرچکا ہوگا کہ اپنی انسانیت میں کھو بیٹھا ہوگا۔ وہ ایک پتھر کی قدرو قیمت تک گر جائے گا اور راحت و آرام میں پتھر سے بھی کم ہوگا۔ یوم ینظر ............................ ترابا (40:78) ” جس دن ہر شخص وہ کچھ دیکھ لے گا جو اس نے کما کر آگے بھیجا اور کافر کہے گا کاش کہ میں مٹی ہوجاتا “۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سورت ایک فیصلہ کن اور دو ٹوک راہ حق بتاتی ہے ، یہ بتاتی ہے کہ تمام راہیں خسارے کی ہیں ماسوائے۔ الا الذین ........................................ بالصبر (3:103) ” ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق کی وصیت کی اور صبر کی وصیت کی “۔ اور یہ ایک ہی راہ ہے اس میں تعدد نہیں ہے ، یہ ایمان اور عمل صالح کی راہ ہے۔ ایک اسلامی جماعت کے قیام کی راہ ہے۔ ایک ایسی جماعت کی راہ جو حق کی نصیحت کرتی ہو اور جو خیر کی تلقین کرتی ہو ، جو سچائی کی سیاہ ہو اور صبر اس کی تنخواہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ راستہ ایک ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی رسول اللہ کے دو ساتھی ایک دوسرے سے ملتے تو تب جدا ہوتے جب وہ سورة عصر پڑھ لیتے۔ اس کے بعد وہ ایک دوسرے کو سلام کہہ کر چلے جاتے۔ دراصل ان کا باہم معاہدہ ہوتا تھا کہ اس انقلابی دستور پر چلیں گے وہ باہم معاہدہ کرلیتے تھے کہ ایمانی صلاح کی راہ پر گامزن رہیں گے۔ حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہیں گے۔ اور اس کا عہد کرتے تھے کہ وہ اس دستور کے چوکیدار رہیں گے اور اس جماکعت کے فرد رہیں گے جو اس دستور پر گامزن ہوگی۔
اوپر سورة العصر کا ترجمہ لکھا گیا ہے اس میں انسان کی ناکامی اور کامیابی کا اجمالی طور پر ایک خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ والعصر (قسم ہے زمانہ کی) اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے زمانہ کو پیش فرمایا، زمانہ اس بات کا گواہ ہے (جو اس کی زندگی کی انمول پونجی بھی ہے) کہ دنیا میں جو لوگ ہیں عموماً خسارہ ہی میں ہیں، دنیا میں جو کچھ کماتے ہیں اسے تو چھوڑ ہی جاتے ہیں اور چونکہ ایمان اور اعمال صالحہ سے خالی ہوتے ہیں اس لیے آخرت میں ان کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے، انسان اگر گزشتہ اقوام کی تاریخ پڑھے اپنے سامنے جو انقلابات جہاں ہیں ان کو دیکھے تو اس کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آجائے گی کہ عام انسانوں کے عمومی حالات ایسے ہی ہیں کہ وہ آخرت کے اعتبار سے بڑے خسارہ میں ہیں۔ دنیا میں برے لوگ بھی جی رہے ہیں اور مومن بھی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ زندگی بخشی ہے انسان اگر صحیح طریقہ پر چلے تو کامیاب ہوگا اور اگر غلط طریقہ پر زندگی گزارے تو نقصان اٹھائے گا اور خسارہ میں پڑے گا۔ سب سے بڑا مقابلہ ایمان اور کفر کا ہے چونکہ اکثر انسان کفر ہی کو اختیار کیے ہوئے ہیں اس لیے جنس کے طور پر فرمایا کہ انسان خسارہ میں ہیں۔ پھر اہل ایمان کو مستثنیٰ فرما دیا کافروں کا خسارہ بتاتے ہوئے سورة ٴ زمر میں فرمایا ﴿قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ﴾ (آپ فرما دیجئے کہ نقصان والے لوگ وہ ہیں جو قیامت کے دن اپنی جانوں کا نقصان کر بیٹھے اور اپنے اہل و عیال کا بھی) ۔ اپنی جانیں بھی دوزخ میں گئیں اور اہل عیال بھی جدا ہوئے۔ کچھ کام نہ آئے۔ ﴿اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ ٠٠١٥﴾ (خبردار یہ کھلا ہوا خسارہ ہے) ۔ کافروں سے بڑھ کر کسی کا بھی خسارہ نہیں ہے۔ دنیا میں جو کچھ کمایا وہ بھی چھوڑا اور آخرت میں پہنچے تو ایمان پاس نہیں اور دنیا میں واپس لوٹنے کی کوئی صورت نہیں۔ لہٰذا ہمیشہ کے لیے دوزخ میں جانا ہوگا اور اس سے بڑا کوئی خسارہ نہیں ہے۔
2:۔ ” والعصر “ زمانہ گواہ ہے کہ انسان سراسر خسارے میں ہے۔ زمانے کے مختلف ادوار کو دیکھئے اور ہر دوڑ کے بڑے سے بڑے بادشاہ کا حال ملاحظہ کیجئے کہ دنیا کی شان و شوکت اور دولت و سلطنت کا فخر و غرور کہاں گیا جب دنیا سے رخصت ہوئے تو کوئی چیز بھی ساتھ نہ گئی، نہ دولت نے ساتھ دیا نہ سلطنت نے نہ لاؤ لشکر نے۔ اس کے علاوہ العصر کے اور بھی کئی معانی بیان کیے گئے ہیں۔ تفصیل متداول تفسیروں میں ملاحظہ کی جائے۔