Surat ul Quraish
Surah: 106
Verse: 1
سورة قريش
لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ ۙ﴿۱﴾
For the accustomed security of the Quraysh -
قریش کے مانوس کرنے کے لئے ۔
لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ ۙ﴿۱﴾
For the accustomed security of the Quraysh -
قریش کے مانوس کرنے کے لئے ۔
This Surah has been separated from the one that preceded it in the primary Mushaf (the original copy of `Uthman) . They (the Companions) wrote "In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful" on the line (i.e., the space) between these two Surahs. They did this even though this Surah is directly related to the one which precedes it, as Muhammad bin Ishaq and `Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam have both clarified. This is because the meaning of both of them is, "We have prevented the Elephant from entering Makkah and We have destroyed its people in order to gather (Ilaf) the Quraysh, which means to unite them and bring them together safely in their city." It has also been said that the meaning of this (Ilaf) is what they would gather during their journey in the winter to Yemen and in the summer to Ash-Sham through trade and other than that. Then they would return to their city in safety during their journeys due to the respect that the people had for them because they were the residents of Allah's sanctuary. Therefore, whoever knew them would honor them. Even those who came to them and traveled with them, would be safe because of them. This was their situation during their journeys and travels during their winter and summer. In reference to their living in the city, then it is as Allah said, أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا جَعَلْنَا حَرَماً ءامِناً وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ Have they not seen that We have made it a secure sanctuary, while men are being snatched away from all around them. (29:67). Thus, Allah says, لاِإِيلَإفِ قُرَيْشٍ إِيلَـفِهِمْ ... For the Ilaf of the Quraysh. Their Ilaf, This is a subject that has been transferred from the first sentence in order to give it more explanation. Thus, Allah says, إِيلَفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاء وَالصَّيْفِ
امن و امان کی ضمانت: موجودہ عثمانی قرآن کی ترتیب میں یہ سورت سورہ فیل سے علیحدہ ہے اور دونوں کے درمیان بسم اللہ کی آیت کا فاصلہ ہے مضمون کے اعتبار سے یہ سورت پہلی سے ہی متعلق ہے جیسے کہ محمد بن اسحاق عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ سے تصریح کی ہے اس بنا پر معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا اور ہاتھی والوں کو ہلاک کیا یہ قریشیوں کو الفت دلانے اور انہیں اجتماع میں ساتھ باامن اس شہر میں رہنے سہنے کے لیے تھا اور یہ مراد بھی کی گئی ہے کہ یہ قریشی جاڑوں میں کیا اور گرمیوں میں کیا دور دراز کے سفر امن وامان سے طے کر سکتے تھے کیونکہ مکے جیسے محترم شہر میں رہنے کی وجہ سے ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی بلکہ ان کے ساتھ بھی جو ہوتا تھا امن و امان سے سفر طے کر لیتا تھا اسی طرح وطن سے ہر طرح کا امن انہیں حاصل ہوتا تھا جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والی جگہ بنا دیا ہے اس کے آس پاس تو لوگ اچک لئے جاتے ہیں لیکن یہاں کے رہنے والے نڈر ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں لا یلف ، میں پہلا لام تعجب کا لام ہے اور دونوں سورتیں بالکل جداگانہ ہیں جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ تو گویا یوں فرمایا جارہاہے کہ تم قریشیوں کے اس اجتماع اور الفت پر تعجب کرو کہ میں نے انہیں کیسی بھاری نعمت عطا فرما رکھی ہے انہیں چاہیے کہ میری اس نعمت کا شکر اس طرح ادا کریں کہ صرف میری ہی عبادت کرتے رہیں جیسے اور جگہ ہے ( قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَلَآ اُشْرِكَ بِهٖ ۭ اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِ 36 ) 13- الرعد:36 ) ، یعنی اے نبی تم کہہ دو کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی ہی عبادت کروں جس نے اسے حرم بنایا جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا مطیع اور فرمانبردار ہوں پھر فرمایا ہے وہ رب بیت جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں نڈر رکھا ناہیں چاہیے کہ اس کی عبادت میں کسی چھوٹے بڑے کو شریک نہ ٹھہرائیں جو اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کرے گا وہ تو دنیا کے اس امن کے ساتھ آخرت کے دن بھی امن و امان سے رہے گا ، اور اس کی نافرمانی کرنے سے یہ امن بھی بے امنی سے اور آخرت کا امن بھی ڈر خف اور انتہائی مایوسی سے بدل جائے گا جیسے اور جگہ فرمایا ( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ١١٢ ) 16- النحل:112 ) ، اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کی مثال بیان فرماتا ہے جو امن واطمینان کے ساتھ تھے ہر جگہ سے بافراغت روزیاں کھچی چلی آتی تھیں لیکن انہیں اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے کی سوجھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھا دیا یہی ان کے کرتوت کا بدلہ تھا ان کے پاس ان ہی میں سے اللہ کے بھیجے ہوئے آئے لیکن انہوں نے انہیں جھٹلایا اس ظلم پر اللہ کے عذابوں نے انہیں گرفتار کرلیا ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قریشیو! تمھیں تو اللہ یوں راحت و آرام پہنچائے گھر بیٹھے کھلائے پلائے چاروں طرف بد امنی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور تمھیں امن وامان سے میٹھی نیند سلائے پھر تم پر کیا مصیبت ہے جو تم اپنے اس پروردگار کی توحید سے جی چراؤ اور اس کی عبادت میں دل نہ لگاؤ بلکہ اس کے سوا دو سروں کے آگے سر جھکاؤ ۔ الحمد اللہ سورہ قريش کی تفسیر ختم ہوئی ۔
[١] ایلاف کے دو پہلو :۔ اِیْلاَفٌ کا مادہ الف ہے اور اس سے الفت مشہور و معروف لفظ ہے۔ الفت کا معنی ایسی محبت ہے جو خیالات میں ہم آہنگی کی وجہ سے ہو (مفردات) اور الف کے معنی کسی چیز کے منتشر اجزاء کو اکٹھا کرکے انہیں ترتیب کے ساتھ جوڑ دینا۔ کسی کتاب کی تالیف کا بھی یہی مفہوم ہے۔ گویا ایلاف کے مفہوم میں الفت، موانست اور قریش کے منتشر افراد کی اجتماعیت کے سب مفہوم پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایلاف کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ایک کا پس منظر یہ ہے کہ قبیلہ قریش حجاز میں متفرق مقامات پر بکھرا ہوا تھا۔ سب سے پہلے قصی ّبن کلاب (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد اعلیٰ ) کو یہ خیال آیا کہ اپنے قبیلہ کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ چناچہ اس نے اپنے سارے قبیلہ کو مکہ میں اکٹھا کردیا۔ اسی بنا پر قصی ّکو مُجَمّع کا لقب دیا گیا۔ اس طرح کعبہ کی تولیت اس قبیلہ کے ہاتھ آگئی۔ اور ایلاف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہاشم کے بیٹوں کو خیال آیا کہ اس بین الاقوامی تجارت میں حصہ لینا چاہیے جو ان قافلوں کے ذریعے ہوتی تھی جو یمن سے شام و فلسطین تک جاتے تھے۔ یمن میں بلاد مشرق سے تجارت ہوتی تھی اور شام میں افریقہ و مصر سے۔ چناچہ ہاشم کے بیٹوں نے آس پاس کے علاقوں سے تجارتی روابط قائم کیے اور عملاً تجارت میں حصہ لینا شروع کیا۔ جس سے مکہ ایک بین الاقوامی منڈی بن گیا۔ قریش کے قافلے سال بھر میں دو تجارتی سفر کرتے تھے۔ گرمیوں میں وہ شام و فلسطین کی طرف جاتے تھے۔ کیونکہ یہ علاقہ مکہ کی نسبت بہت ٹھنڈا تھا اور سردیوں میں ان کا قافلہ یمن کی طرف جاتا تھا کیونکہ یہ علاقہ مکہ کی نسبت گرم تھا۔ سال میں ان دو تجارتی سفروں سے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ سال کا باقی حصہ آرام سے گھر بیٹھ کر کھاتے تھے پھر بھی ان کے پاس بہت کچھ بچ جاتا تھا۔ اس طرح وہ آسودہ حال اور خاصے مالدار بن گئے۔ یہ دونوں موسموں کے تجارتی سفر ہی ان کی تمام تر دلچسپیوں کے مرکز و محور بن گئے تھے۔
(١) لایلف قریش…:” الف یالف الفا “ (س)” ہ “ کسی سے مانوس ہونا، اس سے محبت کرنا۔ ” الف یولف ایلافاً “ (افعال) کسی کو کسی چیز سے مانوس کردینا، اس کے دل میں اس کی محبت ڈلا دینا۔ ” قریش “ ” قرش “ کی تصغیر ہے۔” قرش یفرش فرشا “ (ض، ن) جمع کرنا، قریش مشہور قبیلہ ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے۔ یہ نام ان کے حرم میں جمع ہونے کی وجہ سے رکھا گیا۔ یہ لوگ مختلف جگہوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ قصی بن کلاب (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد اعلیٰ ) کو خیال آیا کہ اپنے سارے قبیلے کو مکہ میں اکٹھا کرنا چاہیے، چناچہ انہوں نے سارے قبیلے کو مکہ میں جمع کردیا، اس لئے ان کا نام ” ممع “ پڑگیا، اس طرح کعبہ کی تولیت بھی ان کے ہاتھ آگئی۔ یا یہ نام سمندر کی ایک مچھلی کے نام پر رکھا گیا ہے جسے ” قریش “ کہتے ہیں۔ المنجد میں ہے کہ اس مچھلی کو ” کلب البحر “ ہا جاتا ہے، یہ سمندر کے جانوروں کو دانتوں سے اس طرح کاٹتی ہے جس طرح تلوار کاٹتی ہے، سمندر کے تمام جانور اس سے ڈرتے ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قریش پر اپنے کئی احسانات ذکر فرمائے ہیں۔ قریش مکہ معظمہ میں رہتے تھے اور کبہ کے متولی تھے، یہ لوگ سال میں دو تجاتری سفر کرتے تھے، گریم کے موسم میں شام کی طرف، کیونکہ وہ سرد علاقہ ہے اور سردی کے موسم میں یمن کی طرف، کیونکہ وہ گرم علاقہ ہے۔ پہلا احسان تو یہ ہے کہ ان کے دل میں سفر کی محبت ڈلا دی، نہ انہیں سردی کے سفر میں مشقت محسوس ہوتی ہے نہ گریم میں اور سفر ہی دنیا میں وسیلہ ظفر ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو سفر سے مانوس نہ کرتا تو وہ بھی اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے اور سفر سے جو مال و دولت، تجربہ و علم اور دنیا بھر کے لوگوں اور علاقوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، وہ کبھی حاصل نہ ہوتی۔ سفر سیم انوس ہونے کی یہی نعمت قریش کو آگے چل کر ہجرت کے سفر میں کام آئی، پھر کفار کے ساتھ لڑائی میں اور اس کے بعد روم و شام، عراق و فارس، ہند و سندھ، مصر و افریقہ بلکہ مشرق و مغرب کی فتوحات میں کام آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم قوم کے دنیا پر غالب آنے اور غالب رہنے کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ وہ سفر سے نہ گھبرائیں اور جب نکلنے کا موقع ہو زمین ہی سے نہ چمٹ جائیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کافر اقوا مہی بری ، بحری اور فضائی سفروں کی اجارہ دار ہیں، مسلمان اکثر و بیشتر یہ سبق بھول چکے ہیں۔ دوسرا احسان یہ کہ اس وقت تمام عرب میں سخت بدامنی تھی، کسی کو خبر نہ تھی کہ کب اس پرح ملہ ہوجائے اور اسے قتل کردیا جائے، یا اٹھا لیا جائے یا مال لوٹ لیا جائے اور عورتیں اور بچے غلام بنا لئے جائیں۔ ایسے حالات میں صرف اہل مکہ ہی کو یہ امن حاصل تھا کہ کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھتا تھا، جیسا کہ فرمایا :(اولم یروآنا جعلنا حرماً امناً و یتخظف الناس من حولھم) (العنکبو : ٦٨)” اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک امن والا حرم بنادیا ہے، جبکہ لوگ ان کے اردگرد سے اچک لئے جاتے ہیں۔ “ تیسرا احسان یہ کہ حرم کے باشندے ہونے کی وجہ سے تجارتی سفروں میں کوئی ان کا قافلہ لوٹتا، نہ ان سے وہ ٹیکس لئے جاتے جو ہر قبیلے اور ہر قوم اپنے علاقے سے گزرنے والوں سے لیتی تھی اور نہ انہیں کہیں جانے سے روکا جاتا تھا۔ چوتھا یہ کہ تمام دنیا کے لوگ حج و عمرہ کے لئے مکہ میں آتے اور دنیا بھر کا سامان تجارت یہاں پہنچتا۔ اس کے علاوہ ہر قسم کے پھل ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجے میں یہاں پہنچتے، فرمایا :(اولم نمکن لھم حرماً امنا یحییٰ الیہ ثمرت کل شیء رزقا من لدنا) (القصص : ٥٨)” اور کیا ہم نے انہیں ایسے امن والے حرم میں جگہ نہیں دی جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں، یہ ہماری طرف سے رزق ہے۔ “ ان تجارتی سفروں اور مکہ کی تجاتر کے مالک ہونے کی وجہ سے قریش نہایت مال دار تھے اور حرم کی برکت سے امن و امان سے بھی بہرہ ور تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام نعمتیں اللہ کے گھر کی برکت سے تھیں اور صرف اور صرف رب تعالیٰ کا عطیہ تھیں، پھر جب یہ تمام نعمتیں اس گھر کے مالک نے دی ہیں تو تم اس اکیلے کی عبادت کیوں نہیں کرتے اور کیوں دوسروں کو اس کا شریک بنا کر ان کے آگے سجدے کرتے، ان کے آستانوں پر نذریں دیتے اور چڑھاوے چڑھاتے ہو ؟ (٢) لایلف قریش “ (قریش کے دل میں محبت ڈالنے کی وجہ سے) ترکیب کے اعتبار سے کیا ہونا چاہیے ؟ یہ جار مجرور کس کے متعلق ہے ؟ جواب یہ ہے کہ یہ ” فلیعبدوا “ کے متعلق ہے ، یعنی اس وجہ سے انہیں اس گھر کے رب کی عبادت کرنی چاہیے۔ یہ نحو کے مشہور امام خلیل بن احمد کا قول ہے، مگر اس پر یہ اعترضا لازم آتا ہے کہ پھر ” فائ “ کیوں آئی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں شرط محذوف ہے، جس کے جواب میں فاء آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ان دوسری بیشمار نعمتوں کی وجہ جواب یہ ہے کہ یہاں شرط محذوف ہے، جس کے جواب میں فاء ائٓی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ان دوسری بیشمار نعمتوں کی وجہ سے یہ لوگ ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے تو اس گھر کا رب ہونے ہی کی وجہ سے اس کی عبادت کریں جس گھر کی برکت سے انہیں سردی و گرمی میں سفر کرنے، دائمی امن و امان اور وافر رزق کی نعمتیں میسر ہیں۔ (زمخشری) کسی بھی جگہ میں امن اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ ہمیں بھی رزق کی فراخی اور امن جیسی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے، غیر اللہ کی عبادت اور شرک سے بچنا چاہیے اور شرک کے اڈوں کی تعمیر و ترقی کے بجائے توحید کے مراکز کی تعمیر و ترقی کرنی چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو رزق کی تنگی اور بدامنی و فساد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ کرنا پڑر ہا ہے۔
Commentary The Subject-matter of Surah Al-Fil and Surah Al-Quraish All commentators concur that the subject-matter of the two Surahs is so closely related that in some of the copies of the Qur&an they had been written as a single Surah without the insertion of bismillah between them. But when Sayyidna ` Uthman (رض) compiled a standard copy of the Holy Qur&an with the consensus of all the companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he separated these two Surahs and inserted bismillah between them, and the two Surahs. Lexical Analysis لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ (Because of the familiarity of the Quraish 106:1). The particle li is a preposition. According to the rules of Arabic grammar, it should be linked with another sentence. What is that sentence here? In answer to this question, different possibilities are highlighted by the exegetes. Keeping in view the close relation of the present Surah with the previous one, some of them have held that the following sentence should be taken as understood here: اِنَّا اھلکنا اصحاب الفیل |"We [ Allah ] destroyed the &people of the elephant& so that the Quraish, who were familiar with two commercial trips during winter and summer, may not have any obstacle in their trips, and by this trading activity they might develop a certain prestige for them and respect them.|" A second school of interpreters has taken the following sentence as understood: اَعجبوا (One should wonder on the Quraish undertaking winter and summer journeys freely and safely.) A third school of interpreters says that this is the lam of ta&lil and it is syntactically related to the sentence that follows it فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ (they must worship the Lord of this House.) The Surah draws attention to the fact that the Quraish used to make two trade journeys - one in winter to Yemen and another in summer to Syria. These trade-journeys made them wealthy and affluent. This was possible because Allah annihilated their enemies, the people of the elephant, in an exemplary way and created in the hearts of the people an awe and reverence for them. People held them in high esteem, respect and honor in all the territories where they went. Superiority of Quraish This Surah indicates that Quraish, of all the tribes of Arabia, was most acceptable in the sight of Allah. The Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: |"Verily, Allah selected Kinanah from the offspring of Prophet Ismail (علیہ السلام) and selected Quraish from the progeny of Kinanah. From the Quraish, Allah selected Banu Hashim and from Banu Hashim He selected me.|" [ Baghawi on the authority of Wathilah Ibn Asqa&]. Another Tradition reports that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"People will follow Quraish in matters of good as well as in matters of evil.|" [ Muslim on the authority of jabir, as quoted by Mazhari ]. The reason for the selection of the tribes mentioned in the first Tradition is presumably on account of their special abilities, innate capacities and natural endowments. Even in the days of paganism and ignorance, when people practiced kufr and shirk, their morals and inborn abilities were of a very high standard. They had the perfect capacity to accept the truth. This is the reason why most of the blessed Companions and Friends of Allah were Quraishites. [ Mazhari ]
خلاصہ تفسیر چونکہ خوگور ہوگئے ہیں یعنی جاڑے اور گرمی کے سفر کے خوگر ہوگئے ہیں تو (اس نعمت کے شکر میں) انکو چاہئے کہ اس خانہ کعبہ کے مالک کی عبادت کریں جس نے ان کو بھوک میں کھانے کو دیا اور خوف سے ان کو امن دیا۔ معارف ومسائل اس پر تو سب مفسرین کا اتفاق ہے کہ معنی اور مضمون کے اعتبار سے یہ سورت سورة فیل ہی سے متعلق ہے اور شاید اس وجہ سے بعض مصاحف میں ان دونوں کو ایک ہی سورت کر کے لکھا گیا تھا، دونوں کے درمیا نبسم اللہ نہیں لکھی تھی مگر حضرت عثمان غنی (رض)، نے جب اپنے زمانے میں تمام مصاحف قرآن کو جمع کر کے ایک نسخہ تیار فرمایا اور تمام صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہوا۔ اسی نسخہ قرآن کو جمہور کے نزدیک امام کہا جاتا ہے اس میں ان دونوں فرمایا اور تمام صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہوا۔ اسی نسخہ قرآن کو جمہور کے نزدیک امام کہا جاتا ہے اس میں ان دونوں کو دو الگ الگ سورتیں ہی لکھا ہے۔ دونوں کے درمیان بسم اللہ لکھی گی ہے۔ لایلف قریش، حرف لام ترکیب نحوی کے اعتبار سے اس کا مقضنی ہے کہ اس کا تعلق کسی سابق مضمون کے ساتھ ہو اسی لئے اس کے متعلق میں متعدد اقوال ہیں، پچھلی سورت کے ساتھ معنوی تعلق کی بنا پر بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہاں مخدوف جملہ انا اھلکنا اصحب الفیل ہے یعنی ہم نے اصحاب فیل کو اس لئے ہلاک کیا کہ قریش مکہ سردی گرمی کے دو سفروں کے عادی تھے، ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے سب کے دلوں میں ان کی عظمت پیدا ہوجائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ مخدوف جملہ اعجبوا ہے یعنی تعجب کرو قریش کے معاملے سے کس طرح سردی گرمی کے سفر آزادانہ بےخطر ہو کر کرتے ہیں اور بعض نے فرمایا کہ اس کا تعلق اس جملہ سے ہے جو آگے آیت میں آ رہا ہے یعنی فلیعبدوا مطلب یہ ہوا کہ قریش کو اس نعمت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا اور اس کی عبادت میں لگ جانا چاہئے اس صورت میں فلیعبدوا کے اوپر حرف فاء اس لئے ہے کہ پہلے جملے میں ایک معنی شرط کے پائے جاے ت ہیں بہرحال اس سورت میں میں ارشاد یہ ہے کہ قریش مکہ چونکہ دو سرفوں کے عادی تھے، ایک سردی میں یمن کی طرف دوسرا گرمی میں شام کی طرف اور انہی دو سفروں پر ان کی تجارت اور کاروبار کا مدار تھا اور اسی تجارت کی بنا پر وہ مالدار اور اغنیاء تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن اصحاب فیل کو عبرتناک سزا دے کر ان کی عظمت لوگوں کے قلوب میں بڑھا دی، یہ پورے ممالک میں جہاں بھی جائیں لوگ ان کی تعظیم تکریم کرتے ہیں۔ قریش کی افضلیت سارے عرب پر :۔ اس سورت میں اس کیطرف بھی اشارہ ہے کہ تمام قابئل عرب میں قریش اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد اسماعیل (علیہ السلام) میں سے کنانہ کو اور کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو انتخاب کرلیا ہے (البغوی عن واثلہ بن اسقع) اور ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمام آدمی قریش کے تابع ہیں خیر و شر میں (راہ مسلم عن جابر، مظہری) اور پہلی حدیث میں جس خداوندی انتخاب کا ذکر ہے غالباً اس کی وجہ ان قبائل کے خاص ملکات اور استعداد دیں ہیں، کفر و شرک اور جہالت کے زمانہ میں بھی ان کے بعض اخلاق اور ملکات نہایت اعلیٰ تھے ان میں قبول حق کی استعداد بہت کامل تھی، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور اولیاء اللہ میں بیشتر لوگ قریش میں سے ہوئے ہیں (مظہری )
لِاِيْلٰفِ قُرَيْـــشٍ ١ ۙ ألف الأَلِفُ من حروف التهجي، والإِلْفُ : اجتماع مع التئام، يقال : أَلَّفْتُ بينهم، ومنه : الأُلْفَة ويقال للمألوف : إِلْفٌ وأَلِيفٌ. قال تعالی: إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [ آل عمران/ 103] ، وقال : لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال/ 63] . والمُؤَلَّف : ما جمع من أجزاء مختلفة، ورتّب ترتیبا قدّم فيه ما حقه أن يقدّم، وأخّر فيه ما حقّه أن يؤخّر . ولِإِيلافِ قُرَيْشٍ [ قریش/ 1] مصدر من آلف . والمؤلَّفة قلوبهم : هم الذین يتحری فيهم بتفقدهم أن يصيروا من جملة من وصفهم الله، لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال/ 63] ، وأو الف الطیر : ما ألفت الدار . والأَلْفُ : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت . ( ا ل ف ) الالف ۔ حروف تہجی کا پہلا حرف ہے اور الالف ( ض ) کے معنی ہیں ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا ۔ محاورہ ہے ۔ الفت بینم میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی اور راضی سے الفت ( بمعنی محبت ) ہے اور کبھی مرمالوف چیز کو الف و آلف کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : { إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ } ( سورة آل عمران 103) جب تم ایک دوسرے کے دشمن نفے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ } ( سورة الأَنْفال 63) اگر تم دینا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے اور مولف اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزاء کو یکجا جمع کردیا گیا ہو اور ہر جزء کو تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے اس کی صحیح جگہ پر رکھا گیا ہو ۔ اور آیت کریمہ ؛ { لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ } ( سورة قریش 1) قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں ایلاف ( افعال کا ) مصدر ہے اور آیت : { وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 60) ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے ۔ میں مولفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی بہتری کا خیال رکھا جائے حتی کہ وہ ان لوگوں کی صف میں داخل ہوجائیں جن کی وصف میں قرآن نے لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم { لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ } ( سورة الأَنْفال 63) فرمایا ہے یعنی مخلص مسلمان ہوجائیں ۔ اوالف الطیر مانوس پرندے جو گھروں میں رہتے ہیں ۔ الالف ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے إيلاف : مصدر قياسيّ للرباعيّ آلف، أصله أألف زنة أفعل، أو مصدر أولف زنة أفعل، فعلی الأول خفّفت الهمزة فقلبت ياء لانکسار ما قبلها، وعلی الثاني جری إعلال بالقلب، أصله أولاف، تحرّك ما قبل الواو بالکسر فقلبت ياء .. ووزن إيلاف إفعال . ( قریش) ، اسم علم للقبیلة العربيّة المشهورة، قيل هو تصغیر ترخیم من قویرش تصغیر قارش، جمعه قرش بضمّتين .
(1 ۔ 2) قریش کو حکم دیجیے تاکہ یہ توحید کو اختیار کرلیں یا یہ کہ میری نعمتوں کو ان کے سامنے بیان کیجیے تاکہ یہ توحید کی طرف مائل ہوجائیں جیسا کہ یہ سردیوں میں سفر یمن اور گرمیوں میں سفر شام کے عادی ہوگئے ہیں یا یہ کہ جیسا کہ قریش پر گرمی اور سردی کا سفر گراں نہیں اسی طرح ان پر وحدانی تبھی گراں نہیں۔
1 The word ilaf, as used in the original is from alf which means to be habituated and accustomed to be reunited after breaking up, and to adopt something as a habit. About the lam that is prefixed to ilaf, some Arabists have expressed the opinion that it is to express surprise and wonder. Thus, Li-ilaf-i Quraish in means: "How surprising is the conduct of Quraish! It is only by virtue of Allah's bounty that they are reunited after their dispersion and have become accustomed to the trade journeys which have brought them their prosperity,. and yet from Allah's worship and service they are turning away." 'This is the opinion of Akhfash, Kisa'i and Farra', and holding this opinion something after this lam, the same thing itself is regarded as sufficient to show that the attitude and conduct a person has adopted in spite of it, is surprising and amazing". On the contrary, KhaIil bin Ahmad, Sibawaih and Zamakhshari say that this is the lam of to `lil and it relates to the following sentence: Fa! ya `budu Rabba hadh a!-Bait, which means: "Allah's blessings on the Quraish are countless. But if for no other blessing, they should worship Allah at least for this blessing that by His bounty they became accustomed to the trade journeys, for this by itself is indeed a great favour of Allah to them. "
سورة القریش حاشیہ نمبر : 1 اصل الفاظ ہیں لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ ۔ ایلاف الف سے ہے جس کے معنی خوگر ہونے ، مانوس ہونے ، پھٹنے کے بعد مل جانے ، اور کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں ۔ اردو زبان میں الفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں ۔ ایلاف سے پہلے جو لام آیا ہے اس کے متعلق عربی زبان کے بعض ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ عربی محاورے کے مطابق تعجب کے معنی میں ہے ۔ مثلا عرب کہتے ہیں کہ لزید و ما صنعنا بہ ، یعنی ذرا اس زید کو دیکھو کہ ہم نے اس کے ساتھ کیسا نیک سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا ۔ پس لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ کا مطلب یہ ہے کہ قریش کا رویہ بڑا ہی قابل تعجب ہے کہ اللہ ہی کے فضل کی بدولت وہ منتشر ہونے کے بعد جمع ہوئے اور ان تجارتی سفروں کے خوگر ہوگئے جو ان کی خوشحالی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور وہ اللہ ہی کی بندگی سے روگردانی کر رہے ہیں ۔ یہ رائے اخفش ، کسارئی ، اور فراء کی ہے ، اور اس رائے کو ابن جریر نے ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب جب اس لام کے کسی بات کا ذکر کرتے ہیں تو وہی بات یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھتی جاتی ہے کہ اس کے ہوتے جو شخص کوئی رویہ اختیار کر رہا ہے وہ قابل تعجب ہے ۔ بخلاف اس کے خلیل بن احمد ، سیبویہ اور زمخشری کہتے ہیں کہ یہ لام تعلیل ہے اور اس کا تعلق آگے کے فقرے فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ سے ہے ۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یوں تو قریش پر اللہ کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں ، لیکن اگر کسی اور نعمت کی بنا پر نہیں تو اسی ایک نعمت کی بنا پر وہ اللہ کی بندگی کریں کہ اس کے فضل سے وہ ان تجارتی سفروں کے خوگر ہوئے ، کیونکہ یہ بجائے خود ان پر اس کا بہت بڑا احسان ہے ۔
١۔ ٤۔ ابی بن کعب نے الم ترکیف اور لایلف کو ایک سورة شمار کیا ہے ٢ ؎ اس حالت میں لایلف کالام فجعلہم کعصف ماکول سے متعلق ہو کر سورة کے ایک ٹکڑے کے حاصل معنی یہ ہوئے کہ قریش کی تالیف کے لئے اصحاب فیل کو ہلاک کیا گیا تاکہ اصحاب فیل کے فساد کے سبب سے قریش کے قدیمی امن اور ان کے جاڑے گرمی کے سفر میں کوئی دقت نہ پیش آئے مگر باقی صحابہ کے نزدیک یہ دونوں سورتیں جدا جدا ہیں۔ اس حالت میں لایلاف کا لا فلیعبدوا سے متعلق ہوگا۔ اور دونوں حالتوں میں حاصل معنی تمام سورة کے یہ ٹھہریں گے کہ جس اللہ کے گھر کے خادم ہونے کے سبب سے قریش کو یہ عزت اور امن ہے کہ جاڑے کے موسم میں ملک یمن اور گرمی کے موسم میں ملک شام کا جب یہ سفر کرتے ہیں تو ہر کہیں ان کی عزت ہوتی ہے اور لوگوں کی طرح ان کے تجارت کے مال کو راستہ میں کوئی لوٹنے کی جرأت نہیں کرتا جس تجارت سے ان کی گزران چلتی ہے ورنہ مکہ جیسے کوہستان میں یہ بھوکے مرجاتے پھر ایسے گھر کے مالک کی عبادت کو چھوڑ کر اوروں کی پرستش جو یہ لوگ کرتے ہیں ان کی یہ بڑی نادانی اور ناشکری ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل میں ایک شخص نضر بن کنانہ تھا اس کی اولاد کو قریش اس لئے کہتے ہیں کہ قریش کے معنی ایک جگہ جمع ہونے کے ہیں یہ بنی کنانہ حرم کی خدمت کی غرض سے سب ایک جگہ رہتے تھے اس واسطے ان کا لقب قریش ہوگیا۔ اگرچہ بنی کنانہ کے اس لقب قرار پانے کی اور وجوہات بھی ہیں لیکن صاحب قاموس نے اس وجہ کو مقدم رکھا ہے۔ تاریخ بخاری مستدرک ١ ؎ حاکم تیرے ابن مردویہ وغیرہ میں ام ہانی سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قریش کی اس میں بڑی عزت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص سورة لا یلاف ان کے حق میں ایسی نازل فرمائی جس میں کسی دوسرے کا ذکر نہیں ہے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ جس طرح اس سورة میں قریش کی عزت ہے اسی طرح نہایت درجہ ان کی طرف سے یہ قائل معقولی بھی اس سورة میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی یہ بندہ نوازی اور ان کی طرف سے یہ ناشکری کہ انہوں نے اپنے پالنے والے کی عبادت تو چھوڑ دی اور بتوں کی پرستش اختیار کی۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٤٩ ج ٤۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٥٣ ج ٤۔ )
(106:1) لایلف قریش۔ اس پہلے حرف لام کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ (1) عربی زبان میں ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ عربی محاورے کے مطابق تعجب کے معنی میں ہے۔ مثلا عرب کہتے ہیں لذید وما صنعنا بہ یعنی ذرا اس زید کو تو دیکھو کہ ہم نے اس کے ساتھ کیسا نیک سلوک کیا ہے۔ اور اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ پس لایلف کا مطلب یہ ہوا کہ قریش کا رویہ بڑا ہی قابل تعجب ہے کہ اللہ ہی کے فضل کی بدولت وہ منتشر ہونے کے بعد جمع ہوئے اور ان تجارتی سفروں کے خوگر ہوگئے جو ان کی خوشحالی کا ذریعہ ہوئے ہیں۔ اور وہ پھر بھی اللہ ہی کی بندگی سے روگردانی کر رہے ہیں۔ یہ رائے اخفش، کسائی، فراء کی ہے اور اس رائے کو ابن جریر نے ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ :۔ عرب اس لام کے بعد جب کسی بات کا ذکر کرتے ہیں تو وہی بات یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی سمجھی جاتی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے جو شخص کوئی رویہ اختیار کر رہا ہے وہ قابل تعجب ہے۔ (2) بخلاف نمبر (1) متذکرہ بالا کے خلیل بن احمد۔ سیبویہ اور زمخشری کہتے ہیں کہ :۔ یہ لام تعلیل ہے اور اس کا تعلق آگے فقرے فلیعبدوا رب ھذا البیت سے ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یوں تو قریش پر اللہ کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں ہے لیکن کسی اور نعمت پر نہیں تو اسی ایک نعمت کی بناء پر وہ اللہ کی بندگی کریں کہ اس کے فضل سے وہ ان تجارتی سفروں کو خوگر ہوئے۔ کیونکہ یہ بذات خود ان پر اس کا بڑا حسان ہے۔ (تفہیم القرآن) (3) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لایلف کو سابق سورة (الفیل) کے آخری حصہ سے وابستہ قرار دیا جائے۔ اس صورت میں دونوں سورتوں کا معنوی ربط اس طرح ہوگا کہ اللہ نے اصحاب فیل کو ہلاک کردیا اور ان کو کھائے ہوئے بھوسہ کی طرح بنادیا تاکہ گرمی اور جاڑے کے سفر میں قریش کے ساتھ لوگوں کو مانوس بنادیا جائے۔ یعنی اس کی علت یہ ہے کہ قریش کی تعظیم اور پاسداری کے لئے اللہ نے اصحاب فیل کو تباہ کیا۔ تاکہ اس خبر کو سن کر لوگ قریش کی تعظیم اور پاسداری کریں۔ اور اس طرح ہر سفر میں قریش کو امن حاصل ہو۔ اور کوئی ان پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کرے۔ اس معنوی تعلق کی وجہ سے کچھ لوگ قائل ہیں کہ سورة فیل اور یہ سورت دونوں ایک ہی ہیں۔ حضرت ابی بن کعب (رض) کے مصحف میں بھی ان دونوں سورتوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اس توجیہہ پر لایلف کا لام جعلہم سے متعلق ہوگا۔ (تفسیر مظہری) لیکن جمہور صحابہ وغیرہم کے نزدیک یہ ایک الگ سورت ہے ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ (الخازن) موجودہ عثمانی قرآن کی ترتیب میں یہ سورة سورة فیل سے علیحدہ ہے اور دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کا فاصلہ بھی موجود ہے۔ (ابن کثیر) ایلف قریش۔ مضاف مضاف الیہ۔ یہ الف سے ہے جس کے معنی خوگر ہونے مانوس ہونے۔ پھٹنے کے بعد مل جانے اور کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں اردو میں الفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں۔ (تفہیم القرآن) ایلف (افعال) کے وزن پر مصدر ہے۔ الفت کرنا۔ مانوس رکھنا۔ ہم آہنگی پیدا کرنا۔ مالوف کرنا۔ (راغب) اگر لایلف کا لام تعجب کے لئے یا جعلہم سے متعلق مانا جائے تو فاء عاطفہ اور سببیہ ہوگی۔ اور اگر لام کو یعبدوا سے متعلق کیا جاوے تو ف زائدہ ہوگی۔ قریش۔ نضر بن کنانہ کی اولاد کو قریش کہتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی قبیلہ سے ہیں۔ آپ کا نسب نامہ یہ ہے :۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غائب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ۔ لایلف قریش۔ قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں، قریش کے دلوں میں محبت پیدا کرنے کی بنا پر۔ قریش کے خوگر ہونے کی بنا پر۔ قریش کے شوق کے لئے ۔
ف 13 شاہ صاحب لکھتے ہیں ” حضرت سے بارہویں پشت میں ایک شخص تھا نضحہ بن کنایہ اس کی اولاد قریش ہیں، سب جمع تھے مکہ میں۔ (موضح)
سورة القریش۔ آیات ١ تا ٤۔ اللہ کا احسان ہے قریش پر کہ حدیث پاک کے مطابق تمام قریش کو فضیلت حاصل ہے پھر ان کو اللہ نے قوت برداشت دی اور خوگر کردیا گرمی سردی کے سفر سے کہ عرب میں تجارت ہی ذریعہ معاش تھا جس کے لیے سفرضروری تھا تو ان کو مزاجا یہ آسانیاں بخش دیں تو ان کو چاہیے کہ اس گھر یعنی کعبہ کے رب کی عبادت کریں جس نے حضرت ابراہیم کی دعا سے یہاں رزق کی فروانی کردی اور دنیا کی ہر نعمت مکہ مکرمہ میں پہنچائی اور اسے امن کا گھر بنادیا کہ کفار ومشرکین بھی احترام کرتے اور زیادتی نہ کرتے تھے۔
لغات القرآن۔ ایلاف۔ مائل ہوئے۔ رحلۃ۔ سفر کرنا۔ کوچ کرنا۔ الشتائ۔ سردی۔ جاڑا۔ الصیف۔ گرمی۔ اطعم۔ اس نے کھلایا۔ جوع۔ بھوک۔ امن۔ امن دیا۔ تشریح : جیسا کہ سورة قریش کے ابتدائی تعارف سے یہ معلوم ہوا کہ ” حجاز “ یا جزیرۃ العرب ایک ایسے خطے میں واقع تھا جہاں ضروریات زندگی میں سے کوئی چیز بھی پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ آس پاس کے ملکوں سے چیزیں لا کر ضروریات زندگی کو پورا کیا جاتا تھا۔ جزیرۃ العرب کے ایک طرف یمن اور دوسری طرف فلسطین اور آس پاس کے ملک تھے جو کسی وقت تجارت اور زراعت کی وجہ سے بہت ترقی یافتہ کہلاتے تھے۔ وہ کسی حد تک علم کی روشنی سے بھی آشنا تھے۔ یمن وہ علاقہ ہے جہاں صدیوں تک زبردست اور ترقی یافتہ قوموں نے حکمرانی کی تھی اور معاشی اعتبار سے بھی کسی حد تک خوش حال لوگ تھے۔ دوسری طرف فلسطین اور آس پاس ملک تھے جو صدیوں سے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی آمد سے پور نور تھے۔ شام، اردن، لبنان اور یروشلم یہ سب کے سب فلسطین ہی میں تھے۔ بعد میں انگریزوں نے فلسطین کے ٹکڑے اڑا دئے اور اسرائیل کو اس علاقے میں جمانے کے لئے مختلف سلطنتیں بنا دیں جو آج تک اسی طرح چلی آرہی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ یمن اور فلسطین یہ ملک تھے جہاں کی تجارت اور زراعت سے اہل حجاز پوری طرح اپنے جینے کا سامان مہیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو اس سورت میں ارشاد فرمایا ہے کہ آج جو قریش بڑے ذوق و شوق سے کبھی یمن اور کبھی فلسطین کیطرف بےخطر سفر کرتے ہیں اور ہر طرح کا سامان زندگی حاصل کرتے ہیں نہ ان کے لئے سردی کی شدت اور نہ گرمی کی حدت آڑے آتی ہے وہ ہر طرف دندناتے گھوم رہے ہیں کوئی ان کے قافولوں کو نہیں لوٹتا بلکہ ” قریش “ کا نا سن کر راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو یہ ان کی اپنی صلاحیت اور ذاتی کمال کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ محض اللہ کا فضل و کرم اور اس کے گھر کی برکت ہے کہ جب ہر طرف فقر و فاقے نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں کہیں کسی کو نے میں کسی امن و سکون حاصل نہیں ہے وہاں قریش کو مکمل امن اور سکون حاصل تھا۔ مگر یہ سب کچھ اللہ کے گھر کی وجہ سے تھا۔ کیا وہی ایک ذات اس کی مستحق نہیں ہے کہ صرف اسی کی عبات کی جائے۔ اسی کے سامنے سر جھایا جائے۔ اسی سے مرادوں کی مانگا جائے۔ گویا اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اس سے بری ناشکری اور نا احسان شناسی اور کیا ہوگی کہ جس اللہ نے یہ تمام عزتیں عظمتیں عطا فرمائی ہیں اس کو چھوڑ کر غیر اللہ سے مانگا جائے۔ اپنے ہاتھ سے بنائے گئے لکڑی، پتھر اور مٹی کے بتوں سے پانی مرادیں مانگی جائیں اور بدترین رسموں کو اپنایا جائے جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ جب اللہ کے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی بھولے ہوئے سبق کو یاد دلا رہے تھے اور ہر شخص کو ایک اللہ کی عبادت و بندگی کی طرف لانے کی دن رات جدوجہد فرما رہے تھے تو قریش کا یہ پہلا حق تھا کہ وہ اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل حمایت کرتے اور ان کے معاوبن بن جاتے لیکن اس کے برخلاف ” حرم محترم “ کی سرزمین میں جہاں کسی دشمن کو ستانا بھی بدترین گناہ سمجھا جاتا تھا اسی سر زمین کو نہ صرف اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ماننے والوں پر تنگ کرد یا تھا بلکہ اس بری طرح ستایا جاتا تھا کہ جس کے تصور سے روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔ کیا اللہ کے احسانات کا یہی بدلہ ہے ؟
فہم القرآن ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے ابابیل کے ذریعے بیت اللہ اور قریش کی حفاظت فرمائی، لیکن اس کے باوجود قریش ” اللہ “ کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے انہیں پھر احساس دلایا گیا ہے۔ عرب کے قبائل میں قریش سب سے معزز اور باثر قبیلہ تھا اور اسی کی ایک شاخ بنی ہاشم تھے جو سب سے ممتاز اور محترم سمجھتے جاتے تھے، اسی قبیلے کے سردار عبدالمطلب تھے ان کے چھوٹے بیٹے جناب عبداللہ کے گھر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے آپ کے خاندان کو بیت اللہ کی تولیّت اور حجاج کرام کی خدمت کا اعزاز حاصل تھا۔ جس بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاندان اہل مکہ کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے اس سورت میں قریش کو مخاطب کیا گیا ہے جس میں تمام عرب بھی شامل ہیں۔ ارشاد ہوا کہ قریش کو گرمی اور سردیوں کے سفر سے مانوس کردیا گیا لہٰذا ان کا اولین فرض ہے کہ وہ صرف کعبہ کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں گرمیوں اور سردیوں کے سفر سے مانوس کیا اور انہیں ہر قسم کے رزق کی فراوانی اور امن وامان سے سرفراز فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی بیوی ہاجرہ (رض) اور اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کو بیت اللہ کے قریب ٹھہرایا تو ان الفاظ میں اپنے رب کے حضور دعا کی۔ ” اے ہمارے رب ! بیشک میں نے اپنی اولاد کو اس وادی میں لا بسایا ہے، یہاں کھیتی باڑی نہیں ہے، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب ! تاکہ یہ نماز قائم کریں، لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر ادا کریں۔ “ (ابراہیم : ٣٧) اس دعا کا نتیجہ تھا اور ہے کہ ہر دور میں مکہ میں رزق اور پھلوں کی فراوانی رہی ہے اور قیامت تک رہے گی اور ہمیشہ سے یہ شہر امن وامان کا گہوارہ چلا آرہا ہے اور رہے گا، کسی علاقے میں رہنے اور ترقی کرنے کے لیے دو چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ایک رزق کی فراوانی اور دوسرا امن وامان کی ضمانت۔ ان میں سے کسی ایک چیز کا فقدان ہو تو وہاں رہنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے قریش کو یہ نعمتیں وافر مقدار میں میسر تھیں۔ جس دور میں نقل و حمل اور مواصلات کے ذرائع اس قدر عام اور تیز نہیں تھے اس دور میں بھی مکہ کے بازاروں میں خوردونوش کی ہر چیز کھلے عام ملتی تھیں۔ امن وامان کا عالم یہ تھا کہ عرب میں تنہا سفر کرنا تو درکنار قافلے بھی حفاظتی دستوں کے بغیر سفر نہیں کرسکتے تھے۔ افراتفری کے اس عالم میں قریش سردیوں میں یمن کے راستے ہندوستان تک تجارت کرتے اور گرمیوں میں شام، فلسطین اور مشرق وسطیٰ کی منڈیوں میں خریدو فروخت کرتے تھے۔ جونہی لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اس قافلے میں قریش کے لوگ بھی موجود ہیں تو بڑے بڑے ڈاکو اس قافلے کا راستہ چھوڑ دیتے تھے۔ یہاں تک کہ قریش کے راہ داری پروانوں پر بھی قافلے امن وامان پاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کے لوگوں کو ان سفروں کے ساتھ اس طرح مانوس کردیا تھا کہ انہیں یہ سفر کسی قسم کا بوجھ محسوس نہیں ہوتے تھے۔ ا سی لیے اس سورت کی ابتدا ” اٖلٰفِ “ کے لفظ سے کی گئی ہے جس کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ ١۔ قریش کا گرمی اور سردی کے موسم میں سفر کے ساتھ مانوس کیا جانا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی وجہ سے قریش کو دوسرے عربوں کے مقابلے میں متحد کرنا۔ ٣۔ گرمی اور سردی کے سفروں سے مراد یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں قریش کے تجارتی قافلے سفر شام اور فلسطین کی طرف جاتے جو ٹھنڈے علاقے تھے، اور سردی کے موسم میں وہ عرب کے جنوب کی طرف سفر کرتے تھے جو گرم علاقے تھے۔ ان احسانات کا یہ نتیجہ ہونا چاہیے تھا کہ عرب صرف ایک رب کی عبادت کرتے اور نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا ساتھ دیتے لیکن انہوں نے کعبے کے رب کی عبادت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرنے کی بجائے بیت اللہ کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھ لیے اور کعبہ کے رب کی خالص عبادت کرنے کی بجائے بتوں کو اس کی عبادت میں شریک کرلیا تھا وہ کسی بت کے ذریعے رزق طلب کرتے، کسی کے واسطے سے، اولاد مانگتے، کسی سے عزت کی درخواست کرتے، کسی کی طفیل بارش کے طلبگار ہوتے، کسی کی حرمت سے دشمن پر غلبہ چاہتے اور کسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کا ذریعہ سمجھتے تھے، حالانکہ حکم یہ تھا کہ خالصتاً کعبہ کے رب کی عبادت کی جائے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کا جامع مفہوم : ١۔ نوح (علیہ السلام) کا فرمان کہ اللہ کی عبادت کرو۔ (ھود : ٢٦) ٢۔ ھود (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (الاعراف : ٦٥) ٣۔ صالح (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (الاعراف : ٧٣) ٤۔ شعیب (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا۔ (الاعراف : ٨٥) (یوسف : ٤٠) (المائدۃ : ٧٢) ٥۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اللہ “ نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں انہیں یہی حکم دیا کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ صرف ایک ” الٰہ “ کی عبادت کریں۔ (الانبیاء : ٢٥) (الانعام : ١٦٣، ١٦٤) (آل عمران : ٦٤)
رب اجعل .................................... الثمرت (126:2) ” اے میرے رب ، اس شہر کو امن کا شہر بنادے اور اس کے باشندوں کو پھلوں کی روزی دے “۔ تو اللہ نے اس گھر کو امن کا گھر بنادیا اور ڈکٹیٹروں اور جباروں کے تسلط سے آزاد رکھا۔ جو شخص بھی اس گھر میں پناہ لیتا وہ امن پاتا اور اس کے اردگرد جو اقوام وافراد رہتے تھے ، وہ ہر وقت خائف رہتے تھے اور اس گھر کو یہ اعزاز اس وقت بھی حاصل رہا جب اس کے باسیوں نے بت پرستی شروع کردی۔ شرک کا ارتکاب شروع کیا اور اپنے رب کے ساتھ ساتھ انہوں نے خانہ کعبہ میں بت بھی رکھ دیئے اور یہ اعزاز اللہ نے اس لئے بحال رکھا کہ اس گھر سے اللہ نے کچھ کام لینا تھا۔ پھر جب اصحاب الفیل نے اس گھر کو منہدم کرنے کا ارادہ کرلیا جس کی تفصیلات سورت الفیل میں گزر گئی ہیں ، اللہ نے اس گھر کے امن کی حفاظت فرمائی اور اس کے احترام کو بحال رکھا جبکہ اس کے ماحول میں لوگوں کی حالت یہ تھی۔ اولم یروا ............................ من حولھم (67:29) ” کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک ایسا حرم بنایا ہے جو امن کی جگہ ہے ، جبکہ لوگوں کو اس کے گردوپیش سے اچک لیا جاتا ہے “۔ جب فیل کا واقعہ ہوا تو عربوں کے دلوں میں بیت اللہ کا احترام بڑھ گیا۔ اور اس بات کا پورے جزیرة العرب میں غلغلہ ہوگیا۔ اسی طرح اس واقعہ کی وجہ سے اہل مکہ اور بیت اللہ کے مجاوروں کا احترام بڑھ گیا اور اس وجہ سے وہ نہایت امن وامان کے ساتھ پورے عرب میں چلتے پھرتے۔ اور یہ جہاں بھی ٹھہرتے لوگ ان کی رعایت اور احترام کرتے۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے قافلوں کے لئے دو عموی راستے بنالیے۔ یہ راستے مکہ سے شمال کی طرف شام تک جاتے اور مکہ سے جنوب کی طرف یمن تک جاتے ، اہل مکہ نے دو تجارتی سفر بھی منظم کرلیے۔ سردیوں کے موسم میں وہ یمن کے سفر پر جاتے اور گرمیوں کے موسم میں یہ شام کی طرف نکل جاتے۔ باوجود اس امر کے جزیرة العرب کے اطراف واکناف میں امن وامان کی حالت کچھ اچھی نہ تھی ، ڈاکے اور لوٹ مار ہر طرف عام تھے ، لیکن بیت اللہ کے احترام کی وجہ سے قریش کے یہ تجارتی سفر پر امن رہتے اور یہ قریش کی ایک ممتاز خصوصیت ہوگئی تھی۔ اور اس وجہ سے ان کے سامنے رزق کے وسیع ذرائع کھل گئے تھے۔ اور وہ نہایت اطمینان سے اور امن وسلامتی سے یہ تجارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ چناچہ قریش ان مفید اور نفع بخش سفروں کے عادی ہوگئے تھے۔ اور وہ ان کے بغیر چین سے نہ بیٹھتے تھے۔ جس طرح بعثت نبوی کے بعد واقعہ فیل کو بطور احسان ان کے سامنے پیش کیا گیا ، اس طرح اس سورت میں بتایا گیا کہ یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ تم سردیوں اور گرمیوں کے سفر کے عادی ہوگئے ہو ، اور ان سفروں سے تمہیں بہت تجارتی نفع ہوتا ہے۔ ان کا علاقہ بنجر اور خشک ہے اور وہ اس کے اندر نہایت ہی خوشگوار اور خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس فضل وکرم ہی کی وجہ سے وہ خوف سے مامون ہیں۔ چاہے وہ بیت اللہ کے جوار میں اپنے گھروں میں ہوں یا وہ اپنے سفر میں ہوں ، اس گھر کے احترام کی وجہ سے وہ ہر قسم کی زیادتی اور ظلم سے محفوظ ہیں۔ اللہ اپنا یہ احسان کو یاددلاتا ہے کہ وہ حیا کریں اور اس گھر میں اللہ کے سوا ، اس کے اور شریکوں اور بتوں کی بندگی نہ کریں کیونکہ یہ گھر اس کا ہے ، وہی رب ہے اور اسی نے اس گھر کو امن دیا ہے جس کے اندر وہ مزے سے رہتے ہیں ، اس گھر کے نام سے ان کے سفر محفوظ ہیں اور سفروں سے یہ صحیح سالم گھروں کو لوٹتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قریش چونکہ گرمیوں اور سردیوں کے عادی ہوگئے ہیں تو انہیں چاہئے کہ صرف اس گھر کے رب کی بندگی کریں جس نے ان سفروں کے دوران ان کے امن وامان کا بندوبست کیا اور انہیں اس سفر کا عادی بنایا جس کی وجہ سے انہیں مالی مفادات ملتے ہیں۔ فلیعبدو ........................ من جوع (4:106) ” لہٰذا ان کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا “۔ ان کی زمین کی پیداوار کی جو حیثیت ہے ، اس کے مطابق ان کی حالت تو یہ ہونی چاہئے تھی کہ وہ بھوک سے مرتے ، لیکن اللہ نے ان کے لئے کھانے پینے کا بندوبست فراوانی سے کیا اور وہ پیٹ بھر کر کھانے لگے۔ وامنھم من خوف (4:106) ” اور خوف سے بچا کر امن دیا “۔ ان کی جو جنگی قوت تھی ، ان کے ارد گرد جو سوسائٹی تھی ، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ہر وقت خائف رہتے لیکن اللہ نے ان کا یہ خوف امن سے بدل دیا۔ یہ ایک ایسی یاد دہانی ہے جس کی وجہ سے انسان کے اندر حیا پیدا ہوتی ہے ، وہ شرمندہ ہوتا ہے اور اپنے رویے پر نظرثانی کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے۔ قریش یہ بات جانتے تھے کہ اس گھر کی اہمیت کیا ہے اور اس گھر کے احترام کی وجہ سے ان کی زندگی پر جو اثرات تھے وہ ان سے بھی بیخبر نہ تھے۔ اور یہ بات بھی اپنی جگہ تھی کہ انتہائی شدید اور کربناک حالات میں وہ صرف اس گھر کے رب ہی کو پکارتے تھے۔ مثلاً دیکھئے کہ عبدالمطلب ابرہہ کا مقابلہ فوج سے نہیں کرتے اور نہ اس کی قوت کے مقابلے میں مادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ وہ اس گھر کے رب سے خطاف کرتے ہیں ، جو اس کا حقیقی متولی اور حامی تھا۔ اس موقعہ پر عبدالمطلب نے نہ کسی بت کی طرف توجہ کی اور نہ کسی معبود کی طرف اور نہ انہوں نے ابرہہ سے کہا کہ اس گھرکے بہت سے الٰہ ہیں وہ اس کی حمایت کریں گے ۔ بلکہ انہوں نے یہ کہا ” میں تو اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا ایک مالک ہے ، وہ خود اس کی حفاظت کرے گا “۔ لیکن جاہلیت پر کبھی منطق اور حقیقت کا اثر نہیں ہوا کرتا اور نہ جاہلیت حق کو تسلیم کرتی ہے اور نہ وہ معقول بات کی طرف لوٹتی ہے۔ یہ سورت ، اپنے موضوع اور فضا کے اعتبار سے سورت فیل کا تسلسل ہے۔ اگرچہ یہ مستقل سورت ہے اور دونوں کے درمیان مصاحف میں بسم اللہ الرحمان الرحیم درج ہے۔ قرآن کی ترتیب نزولی سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة الفیل اور سورة القریش کے درمیان 9 سورتیں نازل ہوئیں ، لیکن مصحف میں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ اس لئے پیوست کیا گیا ہے کہ اس میں موضوع ومضمون کی ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ میں اپنے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) سے کعبہ تعمیر کرایا اور اس کا حج مشروع فرمایا زمانہ اسلام سے پہلے بھی اہل عرب اس کا حج کرتے تھے اگرچہ مشرک تھے اور چونکہ مکہ مکرمہ میں کعبہ شریف واقع تھا جسے بیت اللہ کے نام سے لوگ جانتے اور مانتے تھے اس لیے قریش مکہ کی پورے عرب میں بڑی عزت تھی اہل عرب لوٹ مار کرنے کا مزاج رکھتے تھے لیکن اہل مکہ پر کبھی کوئی حملہ نہیں کرتے تھے اسی کو سورة العنکبوت میں فرمایا : ﴿اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ يُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ١ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ۠ يُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَكْفُرُوْنَ ٠٠٦٧﴾ (کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو پر امن بنا دیا اور لوگوں کو ان کے اردگرد سے اچک لیا جاتا ہے کیا وہ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں) ۔ یوں تو گزشتہ زمانہ ہی سے اہل عرب اہل مکہ کا اکرام و احترام کرتے تھے، جب اصحاب فیل کا واقعہ پیش آیا اور عرب میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دشمنوں سے محفوظ فرمایا تو اور زیادہ ان کے قلوب میں اہل مکہ کی عظمت بڑھ گئی، یہ جو ان کی حرمت مشہور و معروف تھی اس کی وجہ سے پورے عرب کے علاوہ دوسرے علاقے کے لوگ بھی ان کا احترام کرتے تھے، مکہ معظمہ چٹیل میدان تھا اس میں پہاڑ تھے پانی کی بھی کمی تھی، نہ باغ تھے نہ کھیتی باڑی تھی، زندگی گزارنے کے لیے ان کے پاس ذرائع معاش عام طور پر نہیں پائے جاتے تھے، زندگی کے مقاصد پورا کرنے کے لیے یہ لوگ ملک شام اور یمن جایا کرتے تھے۔ ایک سفر سردی کے زمانہ میں اور ایک سفر گرمی کے زمانہ میں کیا کرتے تھے، سردی میں یمن جاتے تھے اور گرمی میں شام جایا کرتے تھے اور دونوں ملکوں سے غلہ لاتے تھے جو ان کی غذا میں کام آتا تھا۔ دیگر اموال بھی لاتے اور فروخت کرتے اور دوسرے کاموں میں بھی لاتے تھے۔ ابو سفیان کو بلا کر ہرقل نے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں سوال جواب کیے وہ اسی تجارت کے سلسلہ میں گئے ہوئے تھے۔ کفار قریش کا قافلہ تجارت کے لیے بیت المقدس میں پہنچا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے لیے سردی اور گرمی کے سفروں کو ان کے کھانے پینے اور پہننے کا اور کعبہ شریف کی عظمت اور حرمت کو ان کے امن وامان کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ سورة الفیل میں کعبہ شریف کی حفاظت کا ذکر ہے جس کی وجہ سے قریش کو امن وامان حاصل تھا اس لیے اس کے متصل ہی سورة القریش کی سورة الفیل کے بعد ہی لایا گیا جس میں قریش مکہ کو یاد دلایا کہ دیکھو تم سردی اور گرمی میں تجارت کے لیے سفر کرتے ہو اور ان دونوں سفروں سے تمہیں دیگر مالوفات کی طرح خاص الفت ہے۔ سفروں میں جاتے ہو جن کے منافع اور مرابح سے فائدہ اٹھاتے ہو اور چونکہ تم مکہ معظمہ کے رہنے والے ہو اس لیے اپنے اسفار میں جن قبائل پر گزرتے ہو تمہارا احترام کرتے ہیں تم مکہ معظمہ میں رہتے ہوئے بھی امن وامان میں ہو اور بلا خوف وخطر زندگی گزارتے ہو اور اسفار میں بھی مکہ معظمہ کی نسبت سے امن وامان کا فائدہ اٹھاتے ہو۔ لہٰذا تم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ کی عبادت میں لگو جو اس بیت یعنی کعبہ شریف کا رب ہے وہ تمہیں کھانے پینے کو بھی دیتا ہے اور امن وامان سے بھی رکھتا ہے یہ خالق جل مجدہ کی ناشکری ہے کہ اس کی نعمتوں میں زندہ رہیں، پلیں اور بڑھیں اور عبادت میں کسی مخلوق کو شریک کردیں۔ قال القرطبی ناقلاً عن الفراء : ھذہ السورة متصلة بالسورة الاولی لانہ ذکر اھل مكة عظیم نعمتہ علیھم فیما فعل بالحبشة ثم قال (لایلف قریش) ای فعلنا ذلک باصحاب الفیل نعمة منا علی قریش وذلک ان قریشا کانت تخرج فی تجار تھا فلا یغار علیھا فی الجاھلیة یقولون ھم اھل بیت اللہ عزوجل ترکیب نحوی کے اعتبار سے اقرب الی الفھم یوں کہا جاتا ہے کہ ایلاف اول مبدل منہ ہے اور ایلافھم اس سے بدل ہے اور جار مجرور مل کر لیعبدوا سے متعلق ہے سمجھنے کے لیے عبارت یوں ہوگئی۔ لیعبدو ارب ھذا البیت لاجل ایلافھم رحلة الشتاء والصیف، والفاء زائدة والا یلاف افعال من الالفة مھموز الفاء (راجع روح المعانی صفحہ ٣٦٧ ج ٣٠) فائدہ : سورة القریش میں قریش کے سالانہ دو سفروں کا ذکر ہے یہ قریش کون شخص تھا جس کے نام سے قریش کا قبیلہ ملقب ہوا ؟ اول یہ سمجھنا چاہیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاشمی بھی تھے اور قریشی بھی آپ کے داد کا لقب عبدالمطلب اور نام شیبہ تھا اور ان کے والد کا نام عمرو بن عبدمناف اور لقب ہاشم تھا اس وجہ سے آپ بنی ہاشم میں شمار ہوتے ہیں اور عبد مناف کا نام مغیرہ بن قصی تھا اس کے بعد نسب یوں ہے قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ۔ (الی آخر ماذکرہ اہل الانساب) اس میں اختلاف ہے کہ قریش کس کا لقب تھا۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ فہر بن مالک اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ نضر بن کنانہ کا لقب ہے۔ حافظ ابن کثیر نے البدایہ میں دونوں قول نقل کیے ہیں اور دونوں کی دلیلیں بھی لکھی ہیں پھر دوسرے قول کو ترجیح دی ہے یعنی یہ کہ نضر بن کنانہ کا لقب قریش تھا اور اس سلسلہ میں مسند احمد اور سنن ابن ماجہ سے ایک حدیث مرفوع بھی نقل کی ہے پھر لکھا ہے کہ وھذا اسناد جید قوی وھو فیصل فی ھذہ المسئلة فلا التفات الی قول من خالفہ واللہ اعلم والحمد منہ۔ اب رہی یہ بات کہ لفظ قریش کا معنی کیا ہے اور قریش کو یہ لقب کیوں دیا گیا اس بارے میں بھی کئی اقوال ہیں اصل لفظ قرش ہے اور قریش اس کی تصغیر ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ قریش ایک دریائی جانور کا نام ہے جو بڑا قوی ہیکل ہوتا ہے اور چھوٹے بڑے دریائی جانوروں کو کھا جاتا ہے۔ حضرت معاویہ (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے قریش کی وجہ تسمیہ دریافت کی تو انہوں نے یہی بات بتلائی گویا قوت اور طاقت میں اس بڑے دریائی جانور کے مشابہ ہونے کی وجہ سے قریش کو قریش کا لقب دیا گیا اور ایک قول یہ ہے کہ حارث بن یخلد بن نضر بن کنانہ کو اس لقب سے یاد کیا جاتا تھا وہ باہر سے غلے لاتا تھا اور عرب کہا کرتے تھے : قد جاءت عیر قریش، یوں بھی کہا جاتا ہے کہ بدر میں جس کنویں کے قریب جنگ ہوئی تھی اسے بدر بن قریش نے کھودا تھا اور اسی لیے اس جگہ کا نام بدر معروف ہوا۔ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ لفظ قریش مجتمع ہونے پر دلالت کرتا ہے قصی بن کلاب سے پہلے یہ لوگ منتشر تھے اس نے انہیں حرم میں لا کر اور بلا کر جمع کیا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قصی ہی کا لقب قریش تھا اور ایک قول یہ ہے کہ تقرش تکسب (یعنی مال کمانے) اور تجارت کرنے کے معنی میں آتا ہے اسی وجہ سے قریش اس لقب سے معروف اور مشہور ہوئے۔ نضر بن کنانہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غریبوں کی حاجات کی تفتیش کرتا اور ان کی مدد کرتا تھا اور اس کے بیٹے موسم حج میں لوگوں کی حاجات کی تفتیش کرتے تھے پھر انہیں اس قدر مال دیتے تھے کہ اپنے شہروں تک پہنچ جائیں۔ اس عمل کی وجہ سے وہ قریش کے لقب سے مشہور ہوا۔ قالوا و التقریش ھو التفتیش واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریشی بھی تھے اور ہاشمی بھی (کیونکہ بنی ہاشم قریش ہی کی ایک شاخ ہے) اور آپ کے چچا عباس اور حضرت علی اور حضرت جعفر اور حضرت عقیل (رض) بھی بنی ہاشم میں تھے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) اور تمام بنی امیہ قریش میں سے تھے، ہاشمی نہیں تھے۔ حضرت واثلہ بن اسقع (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے اسماعیل کی اولاد سے کنانہ کو اور کنانہ سے قریش کو اور قریش سے بنی ہاشم کو چن لیا اور مجھے بنی ہاشم سے چن لیا۔ (رواہ مسلم) قریش مکہ نے بہت دیر سے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیفیں بھی بہت پہنچائیں حتیٰ کہ آپ کو وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی اور خدمت اسلام کی توفیق دی ان حضرات نے بڑے بڑے ممالک فتح کیے۔ حضرت عمرو بن عاص اور خالد بن ولید (رض) انہی حضرات میں سے تھے سنن ابی داؤد طیالسی صفحہ ٤٠ میں ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ : اللھم انک اذقت اولھا عذابا او وبالا فاذق اخر ھانوالا۔ (مشکوۃ المصابیح صفحہ ٥٥) ” اے اللہ ! آپ نے قریش کے پہلے لوگوں کو عذاب اور وبال چکھایا سو ان کے آخر کے لوگوں کو بخشش عطا فرما “۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور ان کو بہت کچھ عطا فرمایا اور ان سے دین کی بڑی خدمت لی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خلافت میرے بعد قریش میں ہوگی۔ جو شخص ان سے دشمنی کرے گا اللہ چہرہ کے بل اس کو اوندھے منہ کر ڈال دے گا جب تک یہ لوگ دین کو قائم رکھیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٥٥) اور یہ بھی فرمایا کہ بارہ خلفاء تک دین اسلام غالب رہے گا اور یہ بارہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے۔ (ایضاً ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو یہی فرما دیا تھا کہ خلافت برابر قریش میں رکھی جائے لیکن ملوکیت کا مزاج جب دنیا میں آگیا اور اس کے بعد جمہوریت کی جہالت نے جگہ پکڑ لی تو دوسرے لوگ اسلام کا دعویٰ کرتے ہوئے ملوک اور امراء بن گئے اور بنتے رہے۔ جو لوگ اپنے ناموں کے ساتھ ہاشمی، قریشی، صدیقی، عثمانی، علوی، رضوی، نقوی لکھتے ہیں یہ صرف نام بتانے تک ہے۔ بےعملی میں، شکل و صورت میں نمازیں چھوڑنے میں، دیگر معاصی میں دوسروں سے کم نہیں ہیں دوسری قوموں کے افراد علوم و معارف و اعمال میں ان سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ جب انہوں نے اپنی ساکھ خود ہی کھودی تو امت میں بھی ان کی وہ حیثیت نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی جب ان کا یہ حال ہے تو خلافت کون ان کے سپرد کرے گا جہاں کہیں ان کی کوئی حکومت باقی ہے اس میں بھی ملوک اور وزراء دین داری کا خیال نہیں کرتے، دشمنوں کے اشاروں پر گناہگاری کے اصول پر حکومت چلاتے ہیں اسلامی قوانین کی بڑھ کر مخالفت کرتے ہیں۔ فالی اللہ المشتکی وھو المستعان وعلیہ التکلان۔
2:۔ ” لایلف قریش “ لام بمعنی الی ہے اور اس کا متعلق محذوف ہے ای انظروا۔ ایلفہم، ایلف قریش سے بدل ہے۔ رحلۃ منصوب بنزع خافض ای لاجل، یعنی قریش نے موسم سرما اور گرما کے تجارتی سفروں کیلئے دوسرے ملکوں سے جو معاہدے کر رکھے ہیں ذرا ان کی طرف تو دیکھو کہ وہ طلب مال کیلئے موسم سرما میں یمن کی طرف اور موسم گرما میں ملک شام کی طرف سفر کرتے ہیں جس طرح آج کل پیروں کے دورے ہوتے ہیں (الشیخ (رح) تعالی) ۔ یا لام گذشتہ سورت میں جعل کے متعلق ہے قالہ الزجاج وابو عبیدۃ (کبیر، روح) ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو اس لیے ہلاک کیا تاکہ بیت اللہ کی وجہ سے ان کی عزت و عظمت دوسرے ملکوں میں بدستور بحال رہے اور وہ تجارتی فائدے حسب سابق حاصل کرتے رہیں یا لام فلیعبدوا کے متعلق ہے۔ قالہ الامام الخلیل (روح) یعنی بیت اللہ کی برکت سے جو نعمت عظمی ان کو ملی ہوئی ہے اس کی وجہ سے انہیں چاہیے کہ وہ اس گھر کے رب کی خالص عبادت کریں۔