Surat ul Maoon

Surah: 107

Verse: 3

سورة الماعون

وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ؕ﴿۳﴾

And does not encourage the feeding of the poor.

اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And urges not the feeding of Al-Miskin. This is as Allah says, كَلَّ بَل لاَّ تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ وَلاَ تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ Nay! But you treat not the orphans with kindness and generosity! And urge not one another on the feeding of Al-Miskin! (89:17-18) meaning, the poor man who has nothing to sustain him and suffice his needs. ... Then Allah says, فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یہ کام بھی وہی کرے گا جس میں مذکورہ خوبیاں ہونگی ورنہ یتیم کی طرح مسکین کو بھی دھکا ہی دے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] یتیموں کی پرورش سے غفلت برتنا یا محتاجوں کے کھانے تک کی فکر نہ کرنا، انہیں خود کھلانا تو درکنار کسی کو اس کی ترغیب تک نہ دینا ایسی اخلاقی اور معاشرتی برائیاں ہیں جو ہر مذہب میں مذموم سمجھی جاتی ہیں اور سمجھی جاتی رہی ہیں۔ مگر جب انسان کو مال و دولت جوڑنے اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھنے کی فکر لا... حق ہوجائے تو وہ اتنا بخیل بن جاتا ہے کہ اسے اور ضرورت مندوں اور محتاجوں کی حالت زار دیکھنے پر قطعاً رحم نہیں آتا اور ان کی اس سنگدلی کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں روز آخرت کی جوابدہی کا یقین ہی نہیں ہوتا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۝ ٣ ۭ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرج... ت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ حضَ الحضّ : التحریض کالحثّ ، إلا أنّ الحثّ يكون بسوق وسیر، والحضّ لا يكون بذلک وأصله من الحثّ علی الحضیض، وهو قرار الأرض، قال اللہ تعالی: وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الحاقة/ 34] . ( ح ض ض ) الحض ( ن ) کے معنی حث کی طرح کسی کام پرا بھانے اور برا نگیختہ کرنے کے ہیں ۔ مگر حث کا لفظ سواری وغیرہ کو تیز چلانے کے لئے آتا ہے ۔ اور حض کا لفظ سواری ہانکنے کے علاوہ دوسرے کاموں پر برانگیختہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اصل میں حض کے معنی جانور کو الحضیض یعنی نشیب زمین کی طرف ہانکنے ہیں ( پھر ابھاز کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے : وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الحاقة/ 34] . طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا [ الأحزاب/ 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا [ المائدة/ 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام : «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ. ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة/ 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔ مِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین . المسکین المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(3 ۔ 7) اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا سو ان منافقوں کے لیے دوزخ میں سخت عذاب ہے یعنی جو اپنی نمازوں میں لا پروائی کرتے ہیں اور انہیں چھوڑے بیٹھے ہیں کہ جب لوگوں کو دیکھتے ہیں تو نماز پڑھ لیتے ہیں ورنہ نہیں پڑھتے اور نیک کام سے روکتے ہیں یا یہ کہ زکوٰۃ اور معمولی سی چیز بھی نہیں دیتے۔ ...  شان نزول : فَوَیْلٌ للمصلین الخ ابن منذر نے طریف بن ابی طلحہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ نمازوں میں آتے تو مسلمانوں کو اپنی نمازیں دکھاتے تھے اور جب غائب ہوتے تو چھوڑ دیتے اور مانگی ہوئی چیز کو روک لیتے تھے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ۔ } ” اور نہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین کرتا ہے۔ “ اس میں انسان کی اس اخلاقی کمزوری کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جس نیک کام پر وہ خود کاربند نہیں ہے اس کے بارے میں دوسروں کو کس منہ سے نصیحت کرے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 La yahuddu means that the person neither persuades his own self, nor tells the people of his household, to provide the poor man with his food, nor dces he urge others to recognize the rights of the poor and needy people of society who are starving and do something to satisfy their hunger. Here, by giving only two conspicuous examples, Allah has pointed out what kind of evils are produced in the ... people who deny the Hereafter: The real object is not to point out only these two evils-that the people drive away the orphans and do not urge giving away the food of the poor as a result of the denial of the Hereafter. But of the countless evils which are thus produced, two evils have been presented as an example, which every noble and sound-natured person will regard as hateful. Besides, another thing meant to be impressed is that if this very man had believed at he would have to go before God to render an account of his deeds, he would not have committed such evils as to deprive the orphan of his rights, tyrannize him, repulse him, neither feed the poor man himself nor urge others to give him his food. The characteristics of the believers in the Hereafter which have been described in Surah Al-`Asr and Surah Al-Balad are that they exhort one another to mercy, and they exhort one another to the truth and to render the rights of others. 7 The words used are to `am-il-miskIn and not it am-il-miskin If to am-il-miskin were the words, the meaning would be that he does not urge (others) to feed the poor. But ta'am -il-miskin means that he does not urge (others) to give away the food of the poor. In other words, the food that is given to the poor man is not the food of the giver but of the poor man himself; it is his right which is enjoined on the giver, and the giver is not doing him any favour but rendering him his right. This same thing had been said in Surah Adh-Dhariyat above: "And in their possessions is a due share of him who asks and of him who is. needy." (v. 19) .  Show more

سورة الماعون حاشیہ نمبر : 6 اِطعَامِ الْمِسْكِيْنِ نہیں بلکہ طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اگر اطعام مسکین کہا گیا ہوتا تو معنی یہ ہوتے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اکساتا ۔ لیکن طعام المسکین کے معنی یہ ہیں کہ وہ مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا ۔ بالفاظ دیگر جو ... کھانا مسکین کو دیا جاتا ہے وہ دینے والے کا کھانا نہیں بلکہ اسی مسکین کا کھانا ہے ، وہ اس کا حق ہے جو دینے والے پر عائد ہوتا ہے ، اور دینے والا کوئی بخشش نہیں دے رہا ہے بلکہ اس کا حق ادا کر رہا ہے ، یہی بات ہے جو سورہ ذاریات آیت 19 میں فرمائی گئی ہے کہ وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے ۔ سورة الماعون حاشیہ نمبر : 7 لَا يَحُضُّ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنے نفس کو بھی اس کام پر آمادہ نہیں کرتا ، اپنے گھر والوں کو بھی یہ نہیں کہتا کہ مسکین کا کھانا دیا کریں ، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس بات پر اکسا تاکہ معاشرے میں جو غریب و محتاج لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے حقوق پہچانیں اور اکی بھوک مٹانے کے لیے کچھ کریں ۔ یہ اللہ تعالی نے صرف دو نمایاں ترین مثالیں دے کر دراصل یہ بتایا ہے کہ انکار آخرت لوگوں میں کسی قسم کی اخلاقی برائیاں پیدا کرتا ہے ۔ اصل مقصود ان دو ہی باتوں پر گرفت کرنا نہیں ہے کہ آخرت کو نہ ماننے سے بس یہ دو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ یتیموں کو دھتکارتے ہیں اور مسکینوں کا کھانا دینے پر نہیں اکساتے ۔ بلکہ جو بے شمار خرابیاں اس گمراہی کے نتیجے میں رونما ہوتی ہیں ان میں سے دو ایسی چیزیں بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں جن کو ہر شریف الطبع اور سلیم الفطرت انسان مانے گا کہ وہ نہایت قبیح اخلاقی رذائل ہیں ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ اگر یہی شخص خدا کے حضور اپنی حاضری اور جواب دہی کا قائل ہوتا تو اس سے ایسی کمینہ حرکتیں سرزد نہ ہوتیں کہ یتیم کا حق مارے ، اس پر ظلم ڈھائے ، اس کو دھتکارے ، اور مسکین کو نہ خود کھلائے نہ کسی سے یہ کہے کہ اس کا کھانا اس کو دو ۔ آخرت کا یقین رکھنے والوں کے اوصاف تو وہ ہیں جو سورہ عصر اور سورہ بلد میں بیان کیے گئے ہیں کہ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ( وہ ایک دوسرے کو خلق خدا پر رحم کھانے کی نصیحت کرتے ہیں ) اور وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ( وہ ایک دوسرے کو حق پرستی اور ادائے حقوق کی نصیحت کرتے ہیں ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی خود تو کسی غریب کی مدد کیا کرتا، دوسروں کو بھی ترغیب نہیں دیتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(107:3) ولا یحض علی طعام المسکین : اس جملہکا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ واؤ عاطفہ ولا یحض مضارع منفی واحد مذکر غائب حض (باب نصر) مصدر سے۔ جس کا معنی ہے آمادہ کرنا۔ ترغیب دینا۔ ابھارنا۔ وہ ترغیب نہیں دیتا۔ اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ولا تحاضون علی طعام المسکین (89:18) اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے ک... ی ترغیب دیتے ہو  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی وہ ایسا سنگدل ہے کہ نہ خود احسان کرے اور نہ دوسرے کو احسان پر آمادہ کرے اور جب بندہ کا حق ضائع کرنا ایسا برا ہے تو خالق کا حق ضائع کرنا تو اور زیادہ برا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ثالثاً یوں فرمایا : ﴿ وَ لَا يَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِيْنِؕ٠٠٣﴾ (کہ یہ شخص مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا) اس میں اس منکر قیامت کی کنجوسی کی انتہا بتادی کہ یہ خود تو کسی مسکین پر کیا خرچ کرتا، دوسروں کو بھی خرچ کرنے کی ترغیب نہیں دیتا۔ یتیم کو بھی دھکے دیتا ہے اور مسکین پر بھی رحم نہیں کھا... تا، روز جزاء کی تکذیب کرنے والے کی یہ دونوں صفات بیان فرمائی ہیں جس میں یہ معلوم ہوا ہے کہ ایمان ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے دل نرم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر مومن بندے رحم کرتے ہیں اور ترس کھاتے ہیں اور یوم آخرت میں اللہ تعالیٰ سے اس کی جزا ملنے کی امید رکھتے ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے اور روز جزاء کے واقع ہونے کا انکار کرتے ہیں ان میں رحم دلی نہیں ہوتی اگر کسی پر کچھ خرچ کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے دنیوی مطلب سے کرتے ہیں اور یوم جزاء میں ثواب ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ جب آخرت ہی کو نہیں مانتے تو ثواب کی کیا امید رکھیں گے۔ سورة الحاقۃ میں کافروں کا عذاب بتانے کے بعد فرمایا ﴿اِنَّهٗ كَانَ لَا يُؤْمِنُ باللّٰهِ الْعَظِيْمِۙ٠٠٣٣ وَ لَا يَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِيْنِؕ٠٠٣٤﴾ (بیشک وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور مسکین کے کھانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا) ۔ منکر قیامت کی بعض صفات بیان فرمائیں، جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دعوے کے مطابق عمل نہیں کرتے۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو منافق ہیں۔ (ان کا دعوائے ایمان جھوٹا ہے) اور وہ لوگ بھی ہیں جو ملت اسلامیہ سے تو خارج نہیں لیکن اعمال کے اعتبار سے ان کا طرز زندگی اوامر اسلامیہ کے خلاف ہے، فرمایا : ﴿ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠ۙ٠٠٤ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ٠٠٥﴾ (سو ایسے نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز کو بھلا دینے والے ہیں) ۔ (یہ پہلی صفت ہوئی) ﴿ الَّذِيْنَ هُمْ يُرَآءُوْنَۙ٠٠٦﴾ جو دکھلاوا کرتے ہیں (یہ دوسری صفت ہوئی) ﴿ وَ يَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (رح) ٠٠٧﴾ اور معمولی چیز کو منع کردیتے ہیں (یہ تیسری صفت ہوئی) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور نہ محتاج کو کھانادینے کی لوگوں کو ترغیب دیتا ہے ۔ یعنی یتیم کا اکرام تو کیا کرے گا کسی مسکین کو کھانا کھلانے کی لوگوں کو ترغیب تک نہیں دیتا یعنی مخلوق کا حق ادا کرنے کا اس کو بالکل خیال نہیں۔