Surat ul Maoon

Surah: 107

Verse: 7

سورة الماعون

وَ یَمۡنَعُوۡنَ الۡمَاعُوۡنَ ٪﴿۷﴾  32

And withhold [simple] assistance.

اور برتنے کی چیز روکتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And withhold Al-Ma`un. This means that they do not worship their Lord well, nor do they treat His creation well. They do not even lend that which others may benefit from and be helped by, even though the object will remain intact and be returned to them. These people are even stingier when it comes to giving Zakah and different types of charity that bring one closer to Allah. Al-Mas`udi narrated from Salamah bin Kuhayl who reported from Abu Al-Ubaydin that he asked Ibn Mas`ud about Al-Ma`un and he said, "It is what the people give to each other, like an axe, a pot, a bucket and similar items." This is the end of the Tafsir of Surah Al-Ma`un, and all praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 معن شیء قلیل کہتے ہیں۔ بعض اس سے مراد زکوٰۃ لیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی اصل مال کے مقابلے میں بالکل تھوڑی سی ہوتی ہے (ڈھائی فی صد) اور بعض اس سے گھروں میں برتنے والی چیزیں مراد لیتے ہیں جو پڑوسی ایک دوسرے سے عاریتا مانگ لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ گھریلو چیزیں عاریتا دے دینا اور اس میں کبیدگی محسوس نہ کرنا اچھی صفت ہے اور اس کے برعکس بخل اور کنجوسی برتنا، یہ منکرین قیامت ہی کا شیوہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] مَاعُوْن ہر اس برتنے والی چیز کو کہتے ہیں جو معمولی قسم کی ہو اور عام لوگوں کے استعمال میں آنے والی ہو۔ برتنے کی اشیاء گھریلو استعمال کی چھوٹی موٹی چیزیں مثلاً کلہاڑی، ہنڈیا، کھانے کے برتن، ماچس وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ زر پرستی کی ہوس اور آخرت سے انکار نے ان لوگوں میں اتنا بخل پیدا کردیا ہے کہ یتیموں کو ان کا حق ادا کرنا اور محتاجوں کی ضروریات کا خیال رکھنا تو درکنار، وہ معمولی معمولی عام برتنے کی چیزیں عاریتاً مانگنے پر بھی دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ بعض لوگ مانگ کر کوئی برتنے کی چیز لے لیتے ہیں پھر واپس ہی نہیں کرتے یا اس چیز کا نقصان کردیتے ہیں تو ایسی صورت میں شریعت نے جو احکام دیئے ہیں وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے : خ عاریتاً مانگی ہوئی چیز کے متعلق احکام :۔ ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی بیوی کے ہاں قیام پذیر تھے۔ کسی دوسری بیوی نے کھانے کی رکابی بھیجی تو اس بیوی نے جس کے ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹھہرے ہوئے تھے (از راہ رقابت) خادم کے ہاتھ کو جھٹکا دیا۔ رکابی گرگئی اور ٹوٹ گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکابی کے ٹکڑے اور جو کھانا اس میں تھا اسے جمع کرنے لگے اور فرمایا : && تمہاری ماں کو غیرت آگئی && پھر خادم کو ٹھہرایا اور اس بیوی سے ایک سالم رکابی لے کر اس بیوی کے ہاں بھجوا دی جس نے بھیجی تھی اور یہ ٹوٹی ہوئی رکابی اسی گھر میں رکھ لی، جہاں ٹوٹی تھی۔ (بخاری، کتاب المظالم، باب اذاکسر قصعۃ اوشیأا لغیرہ) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :&& مانگی ہوئی چیز واپس کرنا، ضامن کو تاوان بھرنا، اور قرضہ کی ادائیگی لازم ہے۔ && (ترمذی۔ ابو اب البیوع، باب ان العاریۃ مؤادۃ) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :&& جس ہاتھ نے جو کچھ لیا ہو اسی پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔ (خواہ نقد رقم ہو یا کوئی اور چیز) (ابوداؤد۔ کتاب البیوع۔ باب فی تضمین العاریہ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ویمنعون الماعون : آخرت پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا معاملہ تو ان کی نمازوں ہی سے ظاہر ہے، لوگوں سے بھی ان کا معاملہ درست نہیں۔ وہ معمولی چیز کے ساتھ بھی کسی کو فائدہ پہنچانے پر تیار نیہں ہیں، جب اس کے عوض انہیں دنیا میں کچھ ملنے کی توقع نہ ہو۔ (الماعون “ ” معن “ سے ہے، جس کا معنی ” شیء قلیل “ (تھوڑی سی چیز ) ہے۔ ” تفسیر الوسیط للطنطاوی “ میں ہے :” الماعون “ کی اصل ” معونۃ “ ہے جس کا مادہ ” عون “ (مدد) ہے، اس کا ” الف “” تائ “ کے بدلے میں لایا گیا ہے جو آخر سے حذف کردی گئی ہے۔ گویا ” الماعون “ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے عام ضرورتوں میں مدد لی جاتی ہے۔ “ (الوسیط (علی (رض) اورب عض مفسرین نے اس سے مراد زکوۃ لی ہے، کیونکہ وہ کل مال کے مقابلے میں بالکل قلیل یعنی اڑھئای فیصد ہوتی ہے، یعنی یہ لوگ اتنا معمولی صدقہ کرنے پر بھی تیار نہیں۔ ابوہریرہ ، ابن مسعود اور ابن عباس (رض) اور بہت سے مفسرین نے اس سے گھروں میں برتنے کی وہ چیزیں مراد لی ہیں جو ہر وقت ہر گھر میں نہیں ہوتیں بلکہ ضرورت کے وقت ایک دور سے سے مانگ لی جاتی ہیں، مثلاً سوئی، ہانڈی، کلہاڑی، پیالہ، آگ اور پانی وغیرہ اور عام طور پر ” ماعون “ کا اطلاق انھی چیزوں پر ہوتا ہے۔ یعنی وہ معمولی سے معمولی چیز جو استعمال کے بعد انہیں واپس مل جائے گی، وہ بھی کسی کو دینے پر تیار نہیں، کیونکہ آخرت میں اس کے ثواب کی انہیں امید نہیں اور دنیا میں انہیں اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کو جھٹلانے والے ایسے لوگوں کے لئے تباہی اور بربادی کی وعید ذکر فرمائی ہے۔ مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوت اسلام دینے کے بعد آپ پر بہت مشکل حالات گزرے ، سب لوگ دشمن بن گئے ، ہر طرف مخالفت ، ملای پریشانیاں الگ، ایمان لانے والے بالکل تھوڑے سے ، مزید یہ کہ نرینہ اولاد جو ہؤی وہ فوت ہوگئی، اس پر دشمن کا خوش ہونا اور آپ کا غمگین اور پریشان ہونا ایک فطری امر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح سورة ضحی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا :(وللاخرۃ خیر لک من الاولی ، ولسوف یعطیک ربک فترضی) (الضحیٰ : ٣، ٥) اور یقیناً پیچھے آنے والی حالت تیرے لئے پہلی سے بہتر ہے اور عنقریب تیرا رب تجھے ضرور اتنا عطا کرے گا کہ تو خوش ہوجائے گا) اور سورة انشراح میں فرمایا :(ورفعنا لک ذکرک) (الانشراح : ٣) اور ہم نے تیرے لئے تیرا ذکر بلند کردیا) اسی طرح اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا تذکرہ فرما کر آپ کو تسلی دی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۝ ٧ ۧ منع المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ الْماعُونَ [ الماعون/ 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق/ 25] ، ويقال في الحماية، ومنه : مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] أي : ما حملک ؟ وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟ يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل : مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ. ( م ن ع ) المنع ۔ یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون/ 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق / 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معنی محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔ الماعون : اسم للحاجة ممّا ينتفع به في البیت حقیرا کان أو ذا قيمة، قيل وزنه فاعول من المعن وهو الشیء القلیل۔ قاله قطرب۔ أو هو علی وزن مفعول۔ علی القلب۔ والأصل اسم مفعول من عان يعون وحقّه أن يكون معون والأصل معو ون ثمّ قدّمت عين الکلمة علی فائها فقیل موعون ثمّ قلبت الواو ألفا لفتح ما قبلها ماعون . الفوائد : - الحضّ علی الماعون : اختلف العلماء في الماعون، فروي عن علي أنه الزکاة . وقال ابن مسعود : الماعون : الفأس والدلو والقدر وقال مجاهد : الماعون العارية، وقال عکرمة : الماعون أعلاه الزکاة المفروضة، وأدناه عارية المتاع وقال محمد بن کعب القرظي : الماعون المعروف کله الذي يتعاطاه الناس فيما بينهم . ومعنی الآية : منع البخل والزجر عنه . قال العلماء : يستحبّ أن يستکثر الرجل في بيته مما يحتاج إليه الجیران، فيعيرهم، ويتفضل عليهم، ويجوز الثواب . الماعون سے کیا مراد ہے اس میں چند اقوال ہیں :۔ (1) لغت میں ماعون تھوڑی سی چیز کو کہتے ہیں۔ اور یہاں مراد زکوۃ ہے ( حضرت علی (رض) حسن بصری (رح)۔ قتادہ۔ ضحاک) زکوۃ کو ماعون کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے مال کی زکوٰۃ تھوڑی سی ہوتی ہے ( صرف ڈھائی فیصد) (2) ماعون سے مراد روزمرہ کے استعمال کی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں۔ مثلا کلہاڑی، ڈول، ہانڈی وغیرہ ( حضرت ابن مسعود (رض) حضرت ابن عباس (رض) (3) ماعون سے مراد مستعارلی ہوئی چیز ہے۔ ( مجاہد) (4) ماعون سے مراد معروف چیزیں ہیں جن کا لین دین لوگ آپس میں کرتے ہیں۔ ( عکرمہ) (5) قطرب نے کہا۔ ماعون سے قلیل ہے عرب کا محاورہ ہے۔ مالہ سعۃ ولا معنۃ نہ اس کے پاس کوئی بڑی چیز ہے اور نہ چھوٹی۔ (6) بعض لوگوں کا قول ہے ماعون وہ چیز ہے جس سے کسی کو روکنا شرعا حلال نہیں جیسے پانی، نمک، آگ وغیرہ۔ (7) ماعون لغت اضداد میں سے ہے جو چیز کسی مانگنیوالے کی مدد کے لئے دیجائے وہ بھی ماعون ہے اور جو روک لی جائے وہ بھی ماعون ہے۔ (8) اس کے علاوہ ماعون بمعنی بھلائی، حسن سلوک، بارش ، پانی، گھر کا سامان۔ فرمانبرداری، زکوٰۃ وغیرہ بھی مستعمل ہے۔ ( اعراب القرآن)

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

معمولی ضرورت کی اشیاء نہ دینے والا قابل مذمت ہے قول باری ہے (ویمنعون الماعون اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں) حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) (ایک روایت کے مطابق) حضرت ابن عمر (رض) اور سعید بن المسیب تاقول ہے کہ ماعون زکوۃ کو کہتے ہیں۔ حارث نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ ماعون سے مراد آری، ہانڈی اور ڈول وغیرہ ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) کا بھی یہی قول ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کے مطابق عادیت میں کوئی چیز دینا مرا ہے۔ سعید بن المسیب کا قول ہے کہ ماعون مال کو کہتے ہیں۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ ہر ایسی چیز ماعون کہلاتی ہے جس میں منفعت کا پہلو موجود ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ماعون کے متعلق جو اقوال مروی ہیں ان سب کا مراد ہونا درست ہے کیونکہ مذکورہ بالا چیزوں کو عاریت کے طور پر دینا واجب ہوتا ہے ۔ جب ان کی ضرورت پیش آتی ہو، اور انہیں دینے سے انکار کرنے والا قابل مذمت ہوتا ہے۔ کبھی ایک شخص ان چیزوں کو بلا ضرورت دینے سے انکار کردیتا ہے۔ یہ بات اس کے بخل اور مسلمانوں کے اختلاق سے اس کی پہلو تہی کی نشاندہی کرتی ہے۔ جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (بعثت لا تمم مکارم الاخلاق میری بعثت اس لئے ہوتی ہے کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کروں) ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ ۔ } ” اور عام استعمال کی چیز بھی (مانگنے پر) نہیں دیتے۔ “ مَاعُوْن کے معنی روز مرہ استعمال کی چیزیں ہیں ‘ جو ہر پڑوسی بوقت ضرورت اپنے پڑوسی سے عاریتاً لے لیتا ہے اور اپنی ضرورت پوری کر کے واپس لوٹا دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے کردار کی پستی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے پاس سے آگ کی چنگاری (ماچس وغیرہ) اور نمک جیسی معمولی اشیاء تک بھی کسی کو دینا پسند نہیں کرتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 The word used is ma'un. The view held by Hadrat `Ali, Ibn `Umar, Sa`id bin Jubair, Qatadah, Hasan Basri, Muhammad bin Hanafiyyah, Dahhak, Ibn Zaid, `Ikrimah, Mujahid, `Ata' and Zuhri (may Allah show them mercy) is that it implies the zakat while Ibn `Abbas, Ibn Mas`ud, Ibrahim Nakha`i, Abu Malik and many other scholars have expressed the opinion that it implies items of common use; for example, cooking-pot, bucket, hatchet, balance, salt, water, fire, flint (now its successor, the match-stick) , etc. which the people generally borrow from each other. A statement of Sa'id bin Jubair and Mujahid also supports it. Another view of Hadrat 'Ali also is that it implies the zakat as well as the little courtesies and kindnesses of daily Iife. Ibn Abi Hatim has related from `Ikrimah that ma'un of the highest form is zakat and of the lowest lending of a sieve, bucket, or needle to a barrrower. Hadrat `Abdullah bin Mas`ud says: "We, the Companions of Muhammad (upon whom be Allah's peace) , used to say (and according to other traditions, in the time of the Holy Prophet, used to say) that ma `un implies lending of the cooking pot, hatchet. bucket, balance, and such other things." (Ibn Jarir. Ibn Abi Shaibah, Abu Da'ud, Nasa'i, Bazzar, Ibn al-Mundhir, Ibn Abi Hatim, Tabarani in AI-Ausat, Ibn Marduyah, Baihaqi in As-Sunan) . Sa`d bin 'Iyad without specifying any names has related almost the same view from the Companions of the Holy Prophet (upon whom be peace) , which shows that he had heard this from several Companions. (Ibn Jarir, Ibn Abi Shaibah) . Dailami, Ibn `Asakir, and Abu Nu`aim have related a tradition from Hadrat Abu Hurairah in which he says that the Holy Prophet (upon whom be peace) himself explained this verse saying that it implies the hatchet, bucket and other such things. If this tradition is genuine it probably did not come to the notice of other scholars; otherwise it was not possible that other people should have given any other commentary of this verse. Ma`un in fact is a small, little thing useful to the people. Accordingly, zakat also is ma`un, for it is a little amount out of much wealth, which one has to give away in order to help the poor, and the other small items of common use also are ma 'un as mentioned by Hadrat `Abdullah.Ibn Mas`ud and the scholars who share his viewpoint. The majority of the commentators say that ma `un applies to all those small things which the neighbours usually ask each other for, and asking for these is not in any way blameworthy, for the rich and the poor, all stand in need of these at one time or another. However, to show stinginess in lending these is regarded as mean behaviour morally. Generally these things by themselves last and the neighbour returns them in the original form after he has used them. It would also be maim if a neighbour asks the other for a bed or bedding items on the arrival of guests, or asks the neighbour's permission to have loaves baked in his, oven, or wants to leave some valuables in the neighbour's custody when going out of his house for some days. Thus, the verse means to impress that denial of the Hereafter renders a man so narrow-minded and niggardly that he is not even prepared to make a most minor sacrifice for the sake of others.

سورة الماعون حاشیہ نمبر : 11 اصل میں لفظ ماعون استعمال ہوا ہے ۔ حضرت علی ، ابن عمر ، سعید بن جبیر ، قتادہ ، حسن بصری ، محمد بن حنفیہ ، ضحاک ، ابن زید ، عکرمہ ، مجاہد ، عطاء اور زہری رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃ ہے ۔ ابن عباس ، ابن مسعود ، ابراہیم نخعی ، ابو مالک ، رضی اللہ عنہم ، اور بہت سے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے مراد عام ضرورت کی اشیاء مثلا ہنڈیا ، ڈول ، کلہاڑی ، ترازو ، نمک ، پانی ، آگ ، چقماق ( جن کی جانشین اب دیا سلائی ہے ) وغیرہ ہیں جو عموما لوگ ایک دوسرے سے عاریۃ مانگتے رہتے ہیں ۔ سعید بن جبیر اور مجاہد کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے ۔ حضرت علی کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃ بھی ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی عام ضروریات کی چیزیں بھی ۔ عکرمہ سے ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ ماعون کا اعلی مرتبہ زکوۃ ہے اور ادنی ترین مرتبہ یہ ہے کہ کسی کو چھلنی ، ڈول یا سوئی عاریۃ دی جائے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہا کرتے تھے ( اور بعض روایات میں ہے کہ حضور کے عہد مبارک میں یہ کہا کرتے تھے ) کہ ماعون سے مراد ہنڈیا ، کلہاڑی ، ڈول ، ترازو ، اور ایسی ہی دوسری چیزیں مستعار دینا ہے ( ابن جریر ، ابن ابی شیبہ ، ابو داؤد ، نسائی ، بزار ، ابن المنذر ، ابن ابی حاتم ، طبرانی فی الاوسط ، ابن مردویہ ، بیہقی فی السنن ، سعد بن عیاض ناموں کے تصریح کے بغیر قریرب قریب یہی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے نقل کرتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے متعدد صحابہ سے یہ بات سنی تھی ( ابن جریر ، ابن ابی شیبہ ) دیلمی ، ابن عساکر اور ابو نعیم نے حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی یہ تفسیر بیان فرمائی کہ اس سے مراد کلہاڑی اور ڈول اور ایسی ہی دوسری چیزیں ہیں ۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو غالبا یہ دوسرے لوگوں کے علم میں نہ آئی ہوگی ، ورنہ ممکن نہ تھا کہ پھر کوئی شخص اس آیت کی کوئی اور تفسیر کرتا ۔ اصل بات یہ ہے کہ ماعون چھوٹی اور قلیل چیز کو کہتے ہیں جس میں لوگوں کے لیے کوئی منفعت یا فائدہ ہو ۔ اس معنی کے لحاظ سے زکوۃ بھی ماعون ہے ، کیونکہ وہ بہت سے مال میں سے تھوڑا سا مال ہے جو غریبوں کی مدد کے لیے دنیا ہوتا ہے ، اور وہ دوسری عام ضرورت کی اشیاء کی بھی ماعون ہیں جن کا ذکر حضرت عبداللہ بن مسعود اور ان کے ہم خیال حضرات نے کیا ہے ۔ اکثر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ ماعون کا اطلاق ان تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہوتا ہے جو عادۃ ہمسایے ایک دوسرے سے مانگتے رہتے ہیں ۔ ان کا مانگنا کوئی ذلت کی بات نہیں ہوتا ، کیونکہ غریب اور امیر سب ہی کو کسی نہ کسی وقت ان کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے ۔ البتہ ایسی چیزوں کو دینے سے بخل برتنا اخلاقا ایک ذلیل حرکت سمجھا جاتا ہے ، عموما ایسی چیزیں بجائے خود باقی رہتی ہیں اور ہمسایہ ان سے کام لے کر انہیں جوں کا توں واپس دے دیتا ہے ۔ اسی ماعون کی تعریف میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی کے ہاں مہمان آجائیں اور وہ ہمسائے سے چارپائی یا بستر مانگ لے ، یا کوئی اپنے ہمسائے کے تنور میں اپنی روٹی پکا لینے کی اجازت مانگے ۔ یا کوئی کچھ دنوں کے لیے باہر جارہا ہو اور حفاظت کے لیے اپنا کوئی قیمتی سامان دوسرے کے ہاں رکھوانا چاہے ۔ پس آیت کا مقصود یہ بتانا ہے کہ آخرت کا انکار آدمی کو اتنا تنگ دل بنا دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے کوئی معمولی ایثار کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: ’’معمولی چیز‘‘ قرآنِ کریم کے لفظ ’’مَاعُوْنْ‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے، اسی لفظ کے نام پر سورت کا نام ماعون ہے۔ اصل میں ’’ماعون‘‘ اُن برتنے کی معمولی چیزوں کو کہتے ہیں جو عام طور سے پڑوسی ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں، جیسے برتن وغیرہ۔ پھر ہر قسم کی معمولی چیز کو بھی ماعون کہہ دیتے ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور کئی صحابہؓ سے منقول ہے کہ اُنہوں نے اِس کی تفسیر زکوٰۃسے کی ہے، کیونکہ وہ بھی اِنسان کی دولت کا معمولی (چالیسواں) حصہ ہوتا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے اس کی تفسیر یہی فرمائی ہے کہ کوئی پڑوسی دوسرے سے کوئی برتنے کی چیز مانگے تو اِنسان اُسے منع کرے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(107:7) ویمنعون الماعون۔ اس کا عطف یراء ون پر ہے اور برتنے (روزمرہ کے استعمال) کی چیزیں نہیں دیتے۔ (اور وہ ماعون کو روک رکھتے ہیں) یمنعون : مضارع جمع مذکر غائب منع (باب فتح) مصدر سے۔ وہ روک رکھتے ہیں۔ وہ نہیں دیتے۔ وہ منع کرتے ہیں۔ الماعون سے کیا مراد ہے اس میں چند اقوال ہیں :۔ (1) لغت میں ماعون تھوڑی سی چیز کو کہتے ہیں۔ اور یہاں مراد زکوۃ ہے (حضرت علی (رض) حسن بصری (رح)۔ قتادہ۔ ضحاک) زکوۃ کو ماعون کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے مال کی زکوٰۃ تھوڑی سی ہوتی ہے (صرف ڈھائی فیصد) (2) ماعون سے مراد روزمرہ کے استعمال کی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں۔ مثلا کلہاڑی، ڈول، ہانڈی وغیرہ (حضرت ابن مسعود (رض) حضرت ابن عباس (رض) (3) ماعون سے مراد مستعارلی ہوئی چیز ہے۔ (مجاہد) (4) ماعون سے مراد معروف چیزیں ہیں جن کا لین دین لوگ آپس میں کرتے ہیں۔ (عکرمہ) (5) قطرب نے کہا۔ ماعون سے قلیل ہے عرب کا محاورہ ہے۔ مالہ سعۃ ولا معنۃ نہ اس کے پاس کوئی بڑی چیز ہے اور نہ چھوٹی۔ (6) بعض لوگوں کا قول ہے ماعون وہ چیز ہے جس سے کسی کو روکنا شرعا حلال نہیں جیسے پانی، نمک، آگ وغیرہ۔ (7) ماعون لغت اضداد میں سے ہے جو چیز کسی مانگنیوالے کی مدد کے لئے دیجائے وہ بھی ماعون ہے اور جو روک لی جائے وہ بھی ماعون ہے۔ (8) اس کے علاوہ ماعون بمعنی بھلائی، حسن سلوک، بارش ، پانی، گھر کا سامان۔ فرمانبرداری، زکوٰۃ وغیرہ بھی مستعمل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی خدا کے لئے نہیں پڑھتے بلکہ اس لئے پڑھتے ہیں کہ لوگ انہیں غازی و پرہیز گار جانیں اور عزت و احترام کا مقام دیں۔7 یعنی معمولی اور عمومی استعمال کی چیزیں۔ مطلب یہ ہے کہ نہایت بخیل اور بےمروت ہیں نہ خدا کی عبادت ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور نہ خلق خدا سے وہ برتائو کرتے ہیں جو میل جول کا کام سے کم تقاضا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تیسری صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿ وَ يَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (رح) ٠٠٧﴾ (کہ یہ لوگ ماعون سے روکتے ہیں) ماعون کے بارے میں مفسر ابن کثیر نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں، سب کا خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز استعمال سے نہ بڑھتی ہے نہ گھٹتی ہے نہ بدلتی ہے نہ خراب ہوتی ہے اس کے دینے میں کنجوسی کرنا یہ ماعون کا روکنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے دریافت کیا گیا کہ ماعون کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ یہ جو لوگ آپس میں مانگے کے طور پردے دیتے ہیں جیسے ہتھوڑا، ہانڈی، ڈول، ترازو اور اسی طرح کی چیزیں ماعون ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا متاع البیت یعنی گھر کا استعمالی سامان ماعون ہے حضرت عکرمہ نے ماعون کی مثال دیتے ہوئے چھلنی، ڈول اور سوئی کا بھی تذکرہ فرمایا ہے۔ بعض حضرات نے ﴿وَ يَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (رح) ٠٠٧﴾ کا یہ مطلب بتایا ہے کہ زکوٰۃ فرض ہوتے ہوئے بھی زکوٰۃ نہیں دیتے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت مجاہد اور حضرت عکرمہ (رض) سے یہ تفسیر نقل کی گئی ہے۔ (ابن کثیر صفحہ ٥٥٥، ٥٥٦: ج ٤) اگر ریاکاری کے طور پر اچھی نماز پڑھے چونکہ وہ اللہ کے لیے نہیں اس لیے خالق جل مجدہ کے حق کی ادائیگی میں وہ بھی کنجوسی ہے اس کنجوسی کو ذکر کرنے کے بعد مال کی کنجوسی ذکر کی اس میں مانگے پر استعمالی چیز نہ دینے کا تذکرہ فرماتے ہوئے ﴿ وَ يَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ﴾ فرمایا جو مانگے پر کوئی چیز صرف استعمال کے لیے نہ دے۔ جو استعمال سے نہ گھٹے وہ بالکل کوئی چیز کسی کو کیا دے سکتا ہے جو بالکل ہاتھ سے نکل جائے۔ زکوٰۃ نہ دینا بھی کنجوسی کی ایک شق ہے ایک آدمی کے پاس مال جمع ہوگیا اس میں قواعد شرعیہ کے مطابق زکوٰۃ فرض ہوگئی۔ جو کل مال کا چالیسواں حصہ ہوتا ہے وہ بھی پورا ایک سال گزرنے پر فرض ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کے باوجود زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کی تو یہ بہت بڑی کنجوسی ہے۔ کوئی شخص استعمال کی چیز ذرا بہت دیر کے لیے دینے سے منکر ہوجائے جیسے یہ کنجوسی ہے اسی طرح معمولی چیز نہ دینا بھی کنجوسی ہے کسی کو آگ دے دی ماچس کی تیلی دے دی، تلاوت کرنے کے لیے قرآن مجید دے دیا یا نماز پڑھنے کے لیے چٹائی دے دی۔ ان سب چیزوں میں ثواب بہت زیادہ مل جاتا ہے اور روک لینے سے کوئی اپنے پاس مال زیادہ جمع نہیں ہوجاتا جن لوگوں کا مزاج کنجوسی کا ہوتا ہے وہ کسی کو کچھ دینے یا ذرا سی مدد کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کیا چیز ہے جس کا منع کرنا حلال نہیں ؟ فرمایا پانی، نمک اور آگ، عرض کیا یا رسول اللہ پانی کی بات تو سمجھ میں آگئی نمک اور آگ میں کیا بات ہے۔ فرمایا جس نے کسی کو آگ دے دی گویا اس سارے مال کا صدقہ کردیا جسے آگ نے پکایا اور جس نے نمک دے دیا گویا اس نے سارے مال کا صدقہ کردیا جسے نمک نے مزیدار بنایا اور جس نے کسی مسلمان کو پانی پلایا جہاں پانی نہیں ملتا، گویا اس نے ایک جان کو زندہ کردیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٢٦٠ از ابن ماجہ) حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی کے سامنے تیرا مسکرا دیناصدقہ ہے اور امر بالمعروف صدقہ ہے، نہی عن المنکر صدقہ ہے جو شخص راستہ گم کیے ہو اسے راہ بتادینا صدقہ ہے کمزور بینائی والے کی مدد کردینا صدقہ ہے اور راستہ سے پتھر، کانٹا، ہڈی ہٹا دینا صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا صدقہ ہے۔ (رواہ الترمذی کما فی المشکوٰۃ صفحہ ١٦٩) فائدہ : لفظ حض (مضاعف) قرآن مجید میں صرف تین جگہ آیا ہے اور تینوں جگہ یتیم کو کھانا نہ کھلانے کی شکایت کے تذکرہ میں وارد ہوا ہے، دو جگہ مجرد ہے ایک جگہ سورة الحاقہ میں اور ایک جگہ سورة الماعون میں، تیسرا جو سورة الفجر میں ہے یہ باب تفاعل سے ہے۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان فی کل حین وآن

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور روز مرہ کے برتنے کی چیز مانگے تک کو نہیں دیتے۔ یعنی روز مرہ جو چیزیں استعمال میں آتی ہیں ڈول، رسی، سوئی، تاگہ، لوٹا، پتیلی وغیرہ تک کسی کو عاریتہ نہیں دیتا یہ عام دستور ہے کہ ایک دوسرے سے عاریۃً روزمرہ کے استعمال کی چیزیں مانگ لیا کرتے ہیں اور اپنا کام نکال کرو واپس کردیتے ہیں مگر یہ کوئی چیز مانگے تک نہیں دیتا۔ بعض صحابہ (رض) نے نماز کی مناسبت سے زکوٰۃ مراد لی ہے۔ یعنی زکوٰۃ بالکل نہیں دیتے یعنی مخلوق کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں زکوٰۃجو بڑی چیز ہے وہ تک نہیں دیتا۔ زکوٰۃ تو کیا دے گا برتنے کی چیز تک مانگے نہیں دیتا۔ معلوم ہا کہ یہ شخص اسلام کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتا۔ تم تفسیر سورة الماعون