Surat Hood

Surah: 11

Verse: 104

سورة هود

وَ مَا نُؤَخِّرُہٗۤ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعۡدُوۡدٍ ﴿۱۰۴﴾ؕ

And We do not delay it except for a limited term.

اسے ہم جو ملتوی کرتے ہیں وہ صرف ایک مدت معین تک ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We delay it only for a term (already) fixed. This means for a fixed period of time than cannot be increased or decreased. Then He says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 یعنی قیامت کے دن میں تاخیر کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے لئے ایک وقت معین کیا ہوا ہے۔ جب وہ وقت مقرر آجائے گا، تو ایک لمحے کی تاخیر نہیں ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٦] قیامت بدترین لوگوں پر قائم ہوگی :۔ حدیث میں ہے کہ && لاَتَقُوْمُ السَّاعَۃُ الاَّ عَلٰی شَرَار النَّاسِ && یعنی قیامت اس وقت قائم ہوگی جب برائی اتنی عام ہوجائے گی کہ تمام نیک لوگ دنیا سے اٹھ جائیں گے یا اٹھا لیے جائیں گے قیامت کی بہت سی نشانیاں تو احادیث میں مذکور ہیں مگر اس کا معین وقت کسی کو نہیں بتلایا گیا اور نہ ہی کسی کو اس کی موت کا وقت بتلایا گیا ہے اس لیے یہ باتیں اللہ کی مشیئت کے خلاف ہیں اور اس سے وہ مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ :” مَّعْدُوْدٍ “ کا معنی ہے گنا ہوا۔ گنی ہوئی چیز آخر ختم ہوجاتی ہے، یعنی قیامت کی مہلت گنتی کے چند دن ہیں، جیسے روزوں کے متعلق فرمایا : (اَیَّاماً مَّعْدُوْدَاتٍ ) [ البقرۃ : ١٨٤ ] ” گنے ہوئے چند دنوں میں۔ “ اور وہ گنتی صرف اللہ کے علم میں ہے، قیامت نہ اس سے پہلے آسکتی ہے، نہ اس سے مؤخر ہوسکتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا نُؤَخِّرُہٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ۝ ١٠٤ ۭ أخر ( تاخیر) والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة/ 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح/ 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم/ 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم/ 44] ( اخ ر ) اخر التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ { بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ } ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ { مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ } ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ { إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ } ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ { رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ } ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٤۔ ١٠٥) اور ہم اس دن کو ایک معلوم مدت کے لیے ملتوی کیے ہوئے ہیں جس وقت وہ دن آئے گا تو کوئی نیکوکار بھی اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ ) اس کے آنے کی ایک گھڑی معین ہے جس کو باقاعدہ گن کر اور حساب لگا کر طے کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٤۔ ١٠٥۔ اس سے پہلے کی آیت میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ قیامت کے دن اول سے آخر تک سب لوگ جمع ہوں گے اس لئے فرمایا کہ قیامت کے آنے میں دیر اس لئے ہو رہی ہے کہ خدا نے یہ بات اس لئے ٹھہرائی ہے کہ جب تک دنیا کے تمام پیدا ہونے والے لوگ پیدا نہ ہولیں گے۔ اور ان کے پیدا ہونے کے لئے جو مدت مقرر ہے وہ پوری نہ ہوجاوے گی اس وقت تک قیامت نہ آوے گی اور اس مدت کی خبر خدا ہی کو ہے سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا جب یہ مدت دنیا کی ختم ہوجاوے گی تو وہ قیامت کا دن قائم ہوگا اور ہر شخص کو اس کے عمل کے موافق جزا و سزا ملے گی پھر اس کے بعد فرمایا کہ جب وہ دن آئے گا تو کسی کی کیا مجال ہے جو میرا حکم خدا کے ایک بات بھی زبان سے نکال سکے اللہ پاک کا جس کو حکم ہوگا وہ شفاعت کے لئے کھڑا ہوگا پھر فرمایا کہ قیامت کے دن جتنے لوگ ہوں گے ان میں سے بعضے بدبخت ہوں گے جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور بعضے نیک بخت ہوں گے جن کے لئے جنت بنائی گئی ہے حضرت عمر (رض) کہتے ہیں جب یہ آیت اتری فمنہم شقی و سعید تو میں نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ جب یہ بات مقرر ہوچکی کہ بعض آدمی بد بخت ہیں اور بعض نیک بخت تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے جیسا کچھ تقدیر میں لکھا جا چکا وہ ہو کے رہے گا آپ نے فرمایا جس کے واسطے جس بات کو قلم جاری ہوچکا ہے وہی بات اس پر آسان بھی ہوتی ہے جو شخص جس کام کے لئے پیدا ہوا ہے وہی کام وہ آسانی سے کرتا ہے اس لئے تم کو چاہیے کہ عمل کئے جاؤ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ١ ؎ ہے۔ منذری نے اس حدیث کی سند پر اگرچہ اعتراض کیا ٢ ؎ ہے کہ مسلم بن یسار راوی کو حضرت عمر (رض) سے ملنے کا موقع نہیں ملا اس لئے اس حدیث کی سند پوری نہیں ہے لیکن مسند امام احمد مستدرک حاکم اور امام مالک کی سند میں مسلم بن یسار نہیں ہے اس لئے یہ حدیث معتبر ہے بعضے مفسروں نے یہاں یہ بات بیان کی ہے کہ جتنے لوگ قیامت میں ہوں گے ان کی دو ہی قسمیں اللہ پاک نے بیان فرمائی ہیں نیک بخت اہل جنت کو اور بد بخت اہل دوزخ کو مگر ان دو کے علاوہ ایک قسم اور بھی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے نیک عمل اور برے عمل دونوں برابر ہیں یا وہ لوگ جن کے نہ نیک عمل اور برے عمل دونوں برابر ہیں یا وہ لوگ جن کے نہ نیک عمل ہیں نہ برے عمل ہیں جیسے دیوانے اور بچے تو یہ لوگ خدا کی مشیت میں ہیں ان کے حق میں وہ جو چاہے گا حکم دے گا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے نیک عمل اور بد عمل برابر ہیں وہ لوگ اور دیوانے لوگ اور بچے صحیح حدیثوں کے موافق جنت میں جاویں گے اس لئے پہلی دو قسموں میں یہ لوگ بھی داخل ہیں۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ١٣٨ ج ٢ تفسیر سورة ہود و تفسیر فتح الیان ص ٤٦٣ ج و تفسیر ابن کثیر ٤٥٩ ج ٢۔ ٢ ؎ لیکن مؤلف (رح) کی کتاب تیفتح الرداۃ (ص ٢٥ جاول) سے معلوم ہوتا ہے کہ امام منذری (رح) کا اعتراض جس روایت پر ہے وہ آیت کریمہ واذ اخذ ربک الآیۃ کی تفسیر میں ہے۔ زیر تفسیر آیت والی رعایت اس سے الگ ہے واللہ اعلم (ع۔ ر) ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:104) وما نؤخرہ۔ ہم نے اس (یوم قیامت) کو ملتوی نہیں کر رکھا الا (مگر) لاجل معدود۔ ایک وعدہ کے لئے جو مقرر شدہ ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس دن تمام کے تمام لوگ حاضر ہوں گے اور ان پر گواہ پیش کیے جائیں گے۔ اس دن کا پہلا قانون یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی بات نہ کر پائے گا۔ قیامت کے دن تمام کے تمام لوگ رب زوالجلال کی عدالت میں دست بستہ پیش کیے جائینگے۔ وہ دن اتنا بھاری اور خوفناک ہوگا۔ کہ حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہوجائیں گے۔ سب لوگوں کی حالت یوں ہوگی جیسے کسی نے انہیں نشہ پلارکھا ہو۔ یہ حالت کسی نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ رب ذوالجلال کے جلال اور خوف کی وجہ سے ہوگی۔ ( الحج : ٢) حضرت جبریل امین (علیہ السلام) اور تمام ملائکہ دم بخودقطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ کوئی نبی، ولی اور فرشتہ۔ اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کی جرأت نہیں کرپائے گا۔ سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ اجازت عنایت فرمائیں گے اور وہ بھی وہی بات کرپائے گا جس کے کہنے کی اسے اجازت ہوگی۔ یہ دن آکے رہے گا یہ انسان کی مرضی پر ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف جانے کے راستہ کو اختیار کرے (النساء : ٣٨۔ ٣٩) دنیا میں لوگوں نے اپنے امتیاز ات قائم کر رکھے ہیں۔ ایک گورا ہے دوسرا کالا ہے، کوئی سیّد اور کوئی راجپوت، ایک امیر ہے دوسرا غریب، ایک حکمران ہے اور دوسرا محکوم علیٰ ہذا القیاس۔ قیامت کے دن صرف دو طبقے ہوں گے۔ ایک نیک اور دوسرا بد۔ جنہیں قرآن مجید شقی اور سعید کے لقب سے پکارتا ہے ان میں سے کوئی بھی اللہ جل جلالہ کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرسکے گا یہاں تک کہ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکیں گے۔ آپسفارش کرنے کے لیے پہلے اپنے رب کی بارگاہ میں طویل سجدہ کریں گے نہ معلوم وہ سجدہ کس قدر طویل ہوگا۔ آپ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے رب کی وہ تعریف کروں گا جو اسی وقت مجھے القا کی جائے گی۔ یوں آپ کو اجازت مرحمت فرمائی جائے گی۔ قیامت کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفارش کرنے کا انداز : ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں : نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن ایمان دار لوگوں کو روک لیا جائے گا ‘ یہاں تک کہ وہ اس وجہ سے پریشان ہو کر کہیں گے کہ کاش ! ہم کسی کو اپنے پروردگار کی خدمت میں سفارشی پیش کریں تاکہ وہ ہمیں اس سے نجات دلائے چناچہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے ‘ کہ آپ آدم ہیں اور سب کے باپ ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا ‘ آپ کو جنت میں ٹھہرایا ‘ ملائکہ سے آپ کو سجدہ کروایا اور آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے۔ آپ اپنے پروردگار کے حضور ہمارے لیے سفارش کریں تاکہ وہ ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے حضرت آدم (علیہ السلام) کہیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ہے وہ عذر پیش کرتے ہوئے اپنی اس غلطی کا ذکر کریں گے جو انہوں نے ممنوعہ درخت سے تناول کرکے کی تھی جب کہ انہیں اس کے قریب جانے سے روکا گیا تھا۔ وہ فرمائیں گے کہ تم نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ ! وہ پہلے پیغمبر ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبی بناکر بھیجا۔ چناچہ وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے۔ وہ جواب دیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ہے اور وہ اپنی اس غلطی کا ذکر کریں گے جس کے وہ مرتکب ہوئے۔ انہوں نے اپنے پروردگار سے اپنے بیٹے کے بارے میں علم کے بغیرسوال کیا تھا۔ وہ فرمائیں گے کہ تم ابراہیم خلیل الرحمن کے پاس جاؤ۔ آپ نے فرمایا ‘ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ جواب دیں گے ‘ کہ میری یہ شان نہیں ہے اور وہ اپنے تین مرتبہ جھوٹ بولنے کا ذکر کریں گے ‘ جو ان کی زبان سے نکلے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرمائیں گے تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ ‘ وہ ایسے بندے ہیں ‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے تورات عطا کی اور اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوئے اور ان سے قریب ہو کے سرگوشی فرمائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تب لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ جواب دیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ہے۔ وہ اپنی اس غلطی کا تذکرہ کریں گے جو ایک شخص کو قتل کرنے کی صورت میں ان سے سرزد ہوئی تھی تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ‘ اس کے رسول ہیں ‘ روح اللہ ہیں ‘ اور اس کے کلمہ ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ تب لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی معذرت کریں گے ‘ کہ میرا یہ مرتبہ نہیں ہے۔ تم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جاؤ ! وہ ایسے بندے ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ چناچہ لوگ میرے پاس آئیں گے ‘ میں اپنے رب سے اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا چناچہ مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجازت دے دی جائے گی جب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا پس اللہ تعالیٰ مجھے سجدے میں پڑا رہنے دیں گے جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : محمد ! سر اٹھاؤ اور کہو آپ کی بات کو سنا جائے گا اور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی اور مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا آپ نے فرمایا چناچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں اپنے رب کی پھر حمد و ثنا بیان کروں گا ‘ اس کے بعد میں سفارش کروں گا ‘ چناچہ میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی۔ میں واپس آؤں گا اور میں انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا پھر میں دوسری مرتبہ جاؤں گا اور اپنے رب سے اس کی بار گاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا حاضری کی اجازت عطا کی جائے گی۔ جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو میں سجدے میں گر پڑوں گا۔ مجھے اللہ تعالیٰ سجدے میں رہنے دیں گے ‘ جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے محمد ! سر اٹھائیں اور عرض کریں ‘ آپ کی بات سنی جائے گی اور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی اور سوال کریں آپ کا سوال پورا کیا جائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں اپنے رب کی حمد وثناء بیان کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا ‘ تو میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی ‘ تو میں بارگاہ عزت سے باہر آؤں گا اور میں لوگوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا پھر میں تیسری مرتبہ آؤں گا اور اپنے رب سے اس کی بار گاہ میں حاضر ہونے کی اجازت چاہوں گا تو مجھے اس میں حاضری کی اجازت عطا کی جائے گی جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو میں سجدہ ریز ہوجاؤں گا پس مجھے اللہ تعالیٰ سجدے میں رہنے دیں گے ‘ جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ وہ مجھے سجدے میں رہنے دیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ‘ اے محمد ! سر اٹھائیں اور بات کریں ‘ آپ کی بات سنی جائے گی اور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی اور سوال کریں آپ کا سوال پورا کیا جائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں اپنے رب کی حمد وثناء بیان کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی تو میں بارگاہ رب العزت سے باہر آؤں گا اور میں دوزخیوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ یہاں تک کہ دوزخ میں صرف وہی لوگ رہ جائیں گے ‘ جن کو قرآن نے روک رکھا ہوگا ‘ یعنی ان کے لیے دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ثابت ہوچکا ہوگا۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” عنقریب آپ کو آپ کا رب مقام محمود پر فائز کرے گا اور یہی وہ مقام ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی سے وعدہ کر رکھا ہے۔ “ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وُجُوہٌ یَوْمَءِذٍ نَاضِرَۃٌ إِلَی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ )] مسائل ١۔ قیامت کا دن مقرر ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بول نہیں سکے گا۔ ٣۔ محشر میں نیک و بد کو جمع کیا جائیگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی بول نہیں سکے گا : ١۔ اس دن اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی کلام نہیں کرسکے گا۔ (ھود : ١٠٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہ کرسکے گا۔ ( البقرۃ : ٢٥٥) ٣۔ قیامت کے دن اس کی اجازت کے بغیر کوئی کلام نہیں کرسکے گا۔ (النباء : ٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

86:۔ قیامت کا ایک دن مقرر ہے اس سے پہلے نہیں آئے گی۔ یَوْمَ یَاتِ لَاتَکَلَّمُ نَفْسٌ الخ اور جب اپنے وقت پر قیامت آجائے گی اس دن کوئی شخص اللہ کے حکم اور اس کی اجازت کے بغیر دم نہیں مار سکے گا۔ فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا تخویف اخروی ہے۔ زَفِیْرٌ : گدھے کی ابتدائی اور پست آواز۔ شَھِیْقٌ: گدھے کی بلند آواز۔ مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ : یہ دوام اور عدم انقطاع عذاب سے کنایہ ہے کیونکہ یہ زمین و آسمان تو وہاں موجود ہی نہ ہوں گے۔ واجری ذلک علی عادۃ العرب فی الاخبار عن دوام الشیء وتابیدہ (قرطبی ج 9 ص 99) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

104 اور ہم نے اس دن کو موخر اور ملتوی نہیں کیا ہے مگر صرف ایک وعدے کیلئے جو مقرر ہے یعنی قیامت کے دن کا وقوع بعض مصالح کی بنا پر ایک وقت معلوم و محدود کے لئے ملتوی کر رکھا ہے اور اس وقت کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔