Surat Hood

Surah: 11

Verse: 105

سورة هود

یَوۡمَ یَاۡتِ لَا تَکَلَّمُ نَفۡسٌ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ۚ فَمِنۡہُمۡ شَقِیٌّ وَّ سَعِیۡدٌ ﴿۱۰۵﴾

The Day it comes no soul will speak except by His permission. And among them will be the wretched and the prosperous.

جس دن وہ آجائے گی مجال نہ ہوگی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات بھی کر لے ، سو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی نیک بخت ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ ... On the Day when it comes, no person shall speak except by His (Allah's) leave. This means that on the Day of Judgement no one will speak except with the permission of Allah. This is similar to another verse, which says, لااَّ يَتَكَلَّمُونَ إِلااَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـنُ وَقَالَ صَوَاباً they will not speak except him whom the Most Gracious (Allah) allows, and he will speak what is right. (78:38) Allah also says, وَخَشَعَتِ الاَصْوَاتُ لِلرَّحْمَـنِ And all the voices will be humbled for the Most Gracious (Allah). (20:108) In the Hadith about the intercession, which is recorded in the Two Sahihs, the Messenger of Allah said, وَلاَ يَتَكَلَّمُ يَوْمَيِذٍ إِلاَّ الرُّسُلُ وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَيِذٍ اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّم No one will speak on that day except the Messengers, and the call of the Messengers will be, "O Allah, save us, save us." Concerning Allah's statement, ... فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ Some among them will be wretched and (others) blessed. This means that from the people of the gathering (on Judgement Day), some will be miserable and some will be happy. This is as Allah said, فَرِيقٌ فِى الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِى السَّعِيرِ When a party will be in Paradise and a party in the blazing Fire. (42:7) Al-Hafiz Abu Ya`la recorded in his Musnad on the authority of Ibn Umar that Umar said, "When this verse was revealed, فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ (Some among them will be wretched and (others) blessed), I asked the Prophet, `O Messenger of Allah, will there be a sign for us to know (which party we are from)? Will it be because of something that a person did, or something that he did not do?' He said, عَلَى شَيْءٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ يَا عُمَرُ وَجَرَتْ بِهِ الاَْقْلَمُ وَلَكِنْ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَه O Umar, it will be due to something that he did and the pens wrote it down. But every easy deed was created for its purpose (to be carried out).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 4 گفتگو نہ کرنے سے مراد، کسی کو اللہ تعالیٰ سے کسی طرح کی بات یا شفاعت کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ الا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ طویل حدیث شفاعت میں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " اس دن انبیاء کے علاوہ کسی کو گفتگو کی ہمت نہ ہوگی اور انبیاء کی زبان پر بھی اس دن صرف یہی ہوگا کہ یا اللہ ! ہمیں بچا لے، ہمیں بچا لے '۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٧] اللہ کے ہاں سفارش کی کڑی شرائط :۔ اس آیت سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جو اپنے بزرگوں کی سفارش پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں ہمیں اولیاء کے تذکروں میں بکثرت ایسی حکایات ملتی ہیں کہ فلاں بزرگ اکڑ کر بیٹھ جائیں گے اور اپنے ایک ایک مرید کو بخشوائے بغیر راضی نہ ہوں گے اور نہ خود جنت میں داخل ہوں گے اور بالآخر وہ اللہ میاں کو اپنی بات منوا کے ہی چھوڑیں گے حالانکہ وہ دن ایسا سخت ہوگا کہ انبیاء بھی اللہ کے حضور لوگوں کی سفارش کرنے سے ہچکچائیں گے اور بالآخر قرعہ فال رسول اللہ پر پڑے گا اور وہی اللہ کے حضور سفارش کریں گے۔ بلاشبہ دوسرے انبیاء اور بعض دوسرے نیک لوگوں کی سفارش کرنا بھی احادیث سے ثابت ہے مگر اس سفارش کے لیے بڑی کڑی شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ صرف وہی شخص سفارش کرسکے گا جس کو اللہ کی طرف سے اجازت حاصل ہوگی اور وہ بھی صرف اس شخص کے حق میں سفارش کرسکے گا جس کے حق میں اللہ کو منظور ہوگا اور خاص اس جرم کے لیے جس کی سفارش اللہ کو منظور ہوگی لہذا ایسی سفارش پر بھروسہ کرنے والوں کو وہاں سخت مایوسی سے دو چار ہونا پڑے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَ يَاْتِ : یہاں چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس دن کا کچھ نقشہ بیان فرمایا ہے۔ ” یَاتِ “ اصل میں ” یَأْتِیْ “ ہی ہے۔ زمخشری نے لکھا ” يَوْمَ يَاْتِ “ کی طرح ” لاَ أَدْرِ “ بھی کہہ دیتے ہیں۔ سیبویہ اور خلیل نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یاء کو حذف کرکے اس کی جگہ کسرہ پر اکتفا کرنا ہذیل کی لغت میں بہت ہے (یعنی دوسری لغات میں بھی ہے مگر کم ہے) ۔ ” يَاْتِ “ کا فاعل وہی ہے جو اوپر گزرا ” يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ۙ لَّهُ النَّاسُ “۔ ” یَوْمٌ“ کا لفظ عربی میں وقت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ” التحریر والتنویر لابن عاشور “ یعنی جس دن وہ وقت آئے گا، یا جس وقت وہ دن آئے گا۔ زمخشری نے ایک معنی یہ لکھا ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ آئے گا، یعنی ” یَاتِ “ کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا) [ الفجر : ٢٢ ] ” اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔ “ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ : یہاں سے نصرانیوں کی اور بعض مسلمانوں کی اس سفارش کا رد ہوگیا جو ان کے خیال میں کچھ ہستیوں کے اختیار میں ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہونے یا بڑے زبردست ہونے کی وجہ سے جسے چاہیں گے چھڑا لیں گے، حالانکہ وہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کو بات کرنے کی جرأت ہی نہیں ہوگی۔ دیکھیے سورة نبا (٣٨) ۔ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ : ” شَقِيٌّ“ بروزن ” فَعِیْلٌ“ مبالغہ کے لیے ہے۔ قاموس میں ہے ” اَلشَّقَا “ کو کبھی ” اَلشَّقَاءُ “ بھی کہا جاتا ہے، سختی، تنگی۔ ” شَقِیَ یَشْقٰی “ (ع) یہ ” رَضِیَ یَرْضٰی “ کی طرح ہے، یعنی ناقص واوی ہے۔ زمخشری نے فرمایا : ” اَلَّذِیْ وَجَبَتْ لَہُ النَّارُ بِإِسَاءَتِہِ “ یعنی وہ بدبخت جس کے لیے اس کی بدعملی کی وجہ سے آگ واجب ہوگئی۔ ” سَعِیْد “ وہ خوش قسمت جس کے لیے اس کے نیک اعمال کی وجہ سے جنت واجب ہوگئی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۝ ٠ ۚ فَمِنْہُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ۝ ١٠٥ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ شقي الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ، . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] ( ش ق و ) اشقاوۃ ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔ سعد السَّعْدُ والسَّعَادَةُ : معاونة الأمور الإلهية للإنسان علی نيل الخیر، ويضادّه الشّقاوة، وأعظم السّعادات الجنّة، فلذلک قال تعالی: وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ [هود/ 108] ، وقال : فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ [هود/ 105] ، ( س ع د ) السعد والسعادۃ ( خوش نصیبی ) کے معنی ہیں حصول خیر میں امور الہیہ کا انسان کے لئے ممدا ور معاون ہونا ۔ اس کی ضد شقاوۃ ( بدبختی ) ہے ۔ قرآن پاک میں فرمایا ہے : وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ [هود/ 108] اور جو نیک بخت ہوں گے وہ بہشت میں ( داخل کئے جائیں گے ۔ اور فرمایا : ۔ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ [هود/ 105] پھر ان مٰن سے کچھ بد بخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ ) یعنی کچھ انسان بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

106. Some people entertain the misconception that their saintly patrons will intercede on their behalf and obtain salvation for them on the Day of Resurrection. They believe that some of the saints will simply stage a sit-in protest before God, and will thus virtually extract from Him a pardon for their devotees. All this, of course, is sheer nonsense. For in God's majestic court, everyone - howsoever great they may otherwise be, including angels - will be in a state of spellbinding awe. At that awe-inspiring moment - the Day of Judgement - none will even dare speak until God Himself permits him to do so. There are of course many in this world who make offerings at the altars of many beside God in the belief that they will simply have an overwhelming influence with God. Many people continue to commit misdeeds in the hope that the intercession of such beings will bring about their rescue. Such people will face utter disappointment on that Day.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :106 جس مضمون سے تقریر کی ابتدا کی گئی تھی اسی پر اب تقریر کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ تقابل کے لیے پہلے رکوع کے مضمون پر پھر ایک نظر ڈال لی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:105) یوم۔ ای اذکر یوم۔ یعنی بوجہ اذکر منصوب ہے۔ یات۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ اتیان مصدر۔ (باب ضرب) اصل میں یاتی تھا۔ مقام شرط میں واقع ہونے کی وجہ سے یا کو حذف کردیا گیا۔ فعل لازم ہے (اگر اس کے بعد مفعول پر باء آئے تو فعل متعدی ہوتا ہے) ۔ یات کا فاعل کون ہے ؟ اس کے متعلق صاحب الکشاف لکھتے ہیں :۔ فان قلت فاعل یاتی ماھو ؟ قلت اللہ عزوجل۔ اس صورت میں یوم یأت کا ترجمہ ہوگا۔ (یاد کرو وہ) دن جب اللہ تعالیٰ جلوہ افروز ہوگا۔ اور مدارک التنزیل میں ہے۔ فاعل یأت ضمیر یرجع الی قولہ یوم مجموع لہ الناس۔ یعنی اس فعل کا فاعل وہ دن ہے جس دن تمام انسان جمع کئے جائیں گے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ (یاد کرو دہ) دن جب حشر کا دن آئے گا۔ لاتکلم۔ مضارع منفی واحد مؤنث غائب ” وہ نہیں بولے گی۔ وہ بات نہیں کرے گی “۔ تکلم (تفعل) سے۔ اصل میں تتکلم تھا۔ ایک تاء حذف ہوگئی (کوئی شخص بول نہ سکے گا) ۔ الا باذنہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع اللہ ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ لا یتکلمون الا من اذن لہ الرحمن (78:38) کوئی نہ بول سکے گا بجز اس کے کہ جس کو خدائے رحمن اجازت دے۔ فمنھم۔ من تبعیضیہ ہے۔ یعنی ان میں سے بعض ۔ من جار۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب الناس۔ کے لئے جو مجموع لہ الناس میں مذکور ہے۔ یعنی اہل محشر۔ مجرور۔ جار مجرور مل کر خبر مقدم شقی۔ مبتدا فمنہم شقی۔ ان میں سے بعض شقی ہوں گے۔ شقی۔ شقاوۃ سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اس کی جمع اشقیاء ہے۔ الشقاوۃ بدبختی۔ یہ سعادت کی ضد ہے۔ شقی (سمع) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں۔ غلبت علینا شقوتنا (23:106) ہم پر ہماری بدبختی غالب ہوگئی۔ یہاں آیۃ ہذا میں شقی سے مراد الذی وجبت لہ النار لاساء تہ جس کی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم اس پر واجب ہوگئی۔ اسی طرح العید الذی وجبت لہ الجنۃ لاحسانہ۔ سعید وہ جس پر اس کے نیک اعمال کے سبب جنت واجب ہوگئی۔ خوش نصیب ۔ خوش بخت۔ سزادار جنت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

يَوْمَ يَأْتِ لا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلا بِإِذْنِهِ (١٠٥ : ١١) “ جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی ، الا یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔ ” سب لوگوں پر ہیبت طاری ہوگی اور خوفناک سکوت کا ماحول ہوگا ، لوگ سہمے ہوں گے ، وہاں بات اجازت سے ہوگی مگر اجازت طلب کرنا کارے دارد۔ یہ اللہ ہی ہوگا جو کسی کو اجازت دے دے ، تو کچھ عرض کی جاسکتے گی۔ اب لوگوں کو ان کے انجام کے مطابق تقسیم کردیا جائے گا : فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ (١١ : ١٠٥) “ پھر کچھ لوگ اس روز بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔ ” انداز تعبیر ایسا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جو لوگ بدبختی کا شکار ہوئے وہ دوزخ میں پڑے ہوئے ہیں ، ان کی سانس پھولی ہوئی ہے اور ہانپ رہے ہیں اور پھنکارے مار رہے ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ جنت میں ہیں وہ بھی نظر آتے ہیں اور ان کے لیے ایسے عطیات ہیں جو دائمی ہیں اور ختم ہونے والے نہیں ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن سب جمع ہوں گے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کو بولنے کی اجازت نہ ہو گی ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ گزشتہ امتوں کے جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو ‘ پھر یہ فرمایا کہ آخرت کے دن میں سب لوگ جمع ہوں گے اور یہ حاضری کا دن ہے یہ جبری حاضری ہوگی کوئی شخص اگر یہ چاہے کہ میں حاضر نہ ہوں تو ایسا ہو نہیں سکتا ‘ حاضر ہونا ہی پڑے گا مزید فرمایا کہ ہم اس دن کو تھوڑی مدت کے لئے مؤخر کر رہے ہیں جس وقت اس کا آنا اللہ تعالیٰ کے علم میں متعین ہے اس وقت آجائے گی اس سے پہلے نہیں آئے گی لیکن فوری اور ابھی نہ آنے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ آنی ہی نہیں اس میں ان جاہلوں کی تردید ہے جو یوں کہتے ہیں کہ سینکڑوں سال سے سن رہے ہیں کہ قیامت ایک دن آئے گی۔ ابھی تک تو آئی نہیں ‘ یہ بات کہہ کر جاہل لوگ قیامت کے دن کا انکار کرنا چاہتے ہیں یہ ان لوگوں کی جہالت ہے کسی چیز کا اپنے مقررہ وقت تک مؤخر ہوجانا اگرچہ تاخیر زیادہ ہوجائے اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کا وقوع نہ ہوگا پھر فرمایا (یَوْمَ یَأْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ) (جس وقت وہ دن آجائے گا تو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بات نہ کرسکے گا) یہ ابتدائی حالت کا بیان ہے جیسے ہی صور پھونکا جائے گا لوگ حیران و پریشان اور بےہوش ہوجائیں گے اس وقت کی ہیبت ایسی ہوگی کہ کسی کو بھی بولنے کی تاب نہ ہوگی سورة ابراہیم میں فرمایا (اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ ۔ مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْءِدَتُھُمْ ھَوَآءٌ) (وہ انہیں اسی دن کے لئے مؤخر فرما رہا ہے جس میں آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی۔ تیزی سے دوڑ رہے ہوں گے اپنے سروں کو اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے ان کی نظر ان کی طرف واپس نہ لوٹے گی اور ان کے دل بالکل ہوا ہوں گے) ۔ پھر جب حساب کتاب شروع ہوگا تو بولنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ لہٰذا اس آیت میں اور ان دیگر آیات میں کوئی تعارض نہیں جن میں انکار کرنے پھر اقرار کرنے اور معذرت پیش کرنے کا ذکر ہے ‘ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور علماء اور شہداء اجازت کے بعد سفارش کریں گے ‘ اس کے بعد حاضرین محشر کی دو قسمیں بتائیں اور وہ یہ ہیں کہ بہت سے لوگ شقی یعنی بدبخت ہوں گے اور بہت سے لوگ سعید نیک بخت ہوں گے پھر ہر فریق کا مقام بتایا جو لوگ بدبخت ہوں گے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ دوزخ میں جائیں گے جس میں وہ چیخ پکار کرتے ہوں گے اس میں ہمیشہ رہیں گے ” چیخ و پکار “ زفیر اور شہیق کا ترجمہ کیا گیا ہے زفیر گدھے کی ابتدائی آواز کو اور شہیق اس کی آخری آواز کو کہا جاتا ہے معلوم ہوا کہ ان کا چیخنا پکارنا گدھوں کی آواز کی طرح ہوگا۔ اور نیک بختوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت میں ہوں گے اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اہل جنت کو جو کچھ عطا فرمایا جائے گا وہ دائمی ہوگا کبھی منقطع نہ ہوگا۔ آخر میں فرمایا کہ اے مخاطب جس چیز کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں یعنی غیر اللہ کو پوجتے ہیں ان کے اس عمل کے موجب سزا ہونے کے بارے میں ذرا بھی شبہ نہ کرنا یہ لوگ اسی طرح عبادت کرتے ہیں۔ جیسے ان کے باپ دادے ان سے پہلے غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے یہ جو کچھ دنیا میں کر رہے ہیں اس کا بدلہ انہیں پورا پورا مل جائے گا جس میں ذرا بھی کمی نہ ہوگی۔ فوائد ضروریہ (١) آیت بالا سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن حاضر ہونے والوں کی دو ہی قسمیں ہوں گی کچھ لوگ شقی (بدبخت) اور کچھ لوگ سعید (نیک بخت) ہوں گے یعنی ایک جماعت اہل ایمان کی اور دوسری اہل کفر کی ہوگی۔ اہل ایمان سعید یعنی نیک بخت ہوں گے اور اہل کفر شقی یعنی بد بخت ہوں گے سورة شوریٰ میں فرمایا (فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر) (ایک جماعت جنت میں اور ایک جماعت دوزخ میں ہے) اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر دوزخ میں ہوں گے۔ اہل کفر تو کبھی دوزخ سے نہ نکلیں گے۔ البتہ جو اہل ایمان اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں چلے جائیں گے وہ اس میں سے نکال لیے جائیں گے اور جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے جس کا ذکر بہت سی احادیث میں آیا ہے ‘ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے معاف نہ فرمایا ہوگا اور بہت سے گنہگار وہ ہوں گے جن کی معافی عذاب بھگتے بغیر ہی ہوجائے گی اللہ بلا شفاعت ہی معاف فرمائیں گے۔ اور شفاعتیں بھی قبول فرمائیں گے انجام کے اعتبار سے سارے مومن جنت میں اور سارے کافردوزخ میں رہ جائیں گے۔ کافر کبھی دوزخ سے نہ نکالے جائیں گے جیسا کہ سورة بقرہ میں فرمایا (وَمَا ھُمْ بِخَارِجِیْنَ مِنَ النَّارِ ) اور اہل جنت شروع داخلہ سے لے کر ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے نہ اس میں سے نکالے جائیں گے نہ اس میں سے کہیں جانا پسند کریں گے سورة حجر میں فرمایا (لَا یَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّمَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ ) اور سورة کہف میں فرمایا (خٰلِدِیْنَ فِیْھَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْھَا حِوَلًا) جب سارے اہل ایمان جنت میں داخل ہوجائیں گے تو موت کو جنت اور دوزخ کے درمیان مینڈھے کی شکل میں لا کر ذبح کردیا جائے گا اور یہ ندادی جائے گی کہ یا اھل الجنۃ خلودٌ لا موت ویا اھل النار خلودٌ لا موت۔ کہ اے جنتیو ! اب موت نہیں اور اے دوزخیو اب موت نہیں۔ (رواہ البخاری ص ٦٩١ ج ٢ ومسلم ص ٣٨٢ ج ٢) قرآن مجید میں جیسے اہل جنت کے بارے میں (خٰلِدِیْنَ فِیْھَااَبَدًا) فرمایا ہے اسی طرح سے اہل دوزخ کے بارے میں بھی فرمایا کہ (دیکھو سورة نسآء رکوع ٢٣) اور سورة احزاب (رکوع ٨) اور سورة جن (رکوع ٢) بعض لوگوں کو اہل کفر سے ہمدردی پیدا ہوگئی اور انہوں نے خواہ مخواہ آیات کریمہ اور احادیث شریفہ کا انکار کر کے اپنی جان کو گمراہی میں پھنسا دیا۔ بہت سے لوگ اس گمراہی کی تائید کیلئے لکیر پیٹ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ کافر کبھی نہ کبھی دوزخ سے نجات پاجائیں گے۔ اور دوزخ ختم ہوجائے گی۔ یہ لوگ قرآن مجید کو جھٹلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ دے۔ (آمین) (٢) آیت بالا میں اہل شقاوت کی سزا اور اہل سعادت کی جزا بیان کرنے کے بعد دونوں جگہ (خٰلِدِیْنَ فِیْھَا) کے ساتھ (مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ) بھی فرمایا ہے اس کے بارے میں مفسرین نے فرمایا ہے یہ اہل عرب کے محاورہ کے مطابق ہے اہل عرب یہ الفاظ بول کر دوام اور ہمیشگی مراد لیا کرتے تھے ‘ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے جنت و دوزخ کے آسمان و زمین مراد ہیں جو چیز ان کے نیچے ہوگی اس سے زمین مراد لی ہے اور جو چیزان کے اوپر سقف یعنی چھت کے طور پر ہوگی اس سے آسمان مراد لیا ہے جنت و دوزخ کے آسمان و زمین ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بات کسی درجہ میں سمجھ میں آتی تو ہے کیونکہ جنت کیلئے ارض کا لفظ قرآن میں بھی وارد ہوا ہے۔ کما فی سورة الزمر (اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ ) اور سروں کے اوپر جو کچھ ہوگا اسے اوپر ہونے کی وجہ سے سماء بھی کہا جاسکتا ہے لِاَنَّ کُلَّ مَا اَظَلِّک فھو سمآء (لیکن چونکہ سَمٰوٰتُ جمع کے صیغے کے ساتھ وارد ہوا ہے اس لئے جب تک وہاں تعداد سماء ثابت نہ ہو اس وقت تک اس بات کے سمجھنے میں تامل ہے) (مَادَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ) کے ساتھ دونوں جگہ (اِلَّا مَاشَآء رَبُّکَ ) بھی فرمایا ہے۔ حضرات مفسرین کرام نے یہاں بڑی بحث کی ہے مستثنیٰ منہ کون ہے استثناء متصل ہے یا منقطع ؟ اور استثناء کا مطلب کیا ہے احقر کے نزدیک سب سے زیادہ راجح بات وہ ہے جو علامہ بغوی (رح) نے معالم التنزیل (ص ٤٠٢ ج ٢) میں فرآء سے نقل کی ہے انہوں نے فرمایا کہ ھٰذا استثناءٌ استثنآہ اللّٰہُ وَلَا یَفْعَلُہٗ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خلود سے استثناء تو ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو اہل دوزخ کو دوزخ سے اور اہل جنت کو جنت سے نکال لے لیکن وہ نکالے گا نہیں (کیونکہ ہر فریق کے خلود و دوام کا فیصلہ فرما دیا ہے ‘ جس کا ذکر قرآن کریم میں جگہ جگہ موجود ہے) فرآء کے اس قول کو صاحب روح المعانی نے بھی بحوالہ امام بغوی نقل کیا ہے پھر بعض افاضل سے نقل کیا ہے کہ اس استثناء کا یہ فائدہ ہے کہ کوئی شخص یوں نہ سمجھ لے کہ دوزخیوں کو عذاب دینا اور جنتیوں کو جنت میں نعمتیں دینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ واجب ہے اس کے ذمہ کچھ بھی واجب نہیں وہ جو چاہے کرے نہ وہ عذاب دینے پر مجبور ہے اور نہ اکرام وانعام پر ‘ اگر وہ کسی دوزخی کو دوزخ سے نکال لے یا کسی جنتی کو جنت سے باہر لائے تو وہ یہ کرسکتا ہے اس کی مشیت اور ارادہ اور اختیار کبھی نہ سلب ہوا نہ سلب ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

105 جب وہ دن آجائے گا تو کوئی متنفس بلا اذن و اجازت خداوندی بات تک بھی نہیں کرسکے گا پھر اسوقت لوگوں میں سے بعض بدبخت اور بعض نیک بخت اور سعادت مند ہوں گے یعنی اس دن کی ہیبت ایسی ہوگی کہ کسی کو مجال دم زدن نہ ہوگا مگر ہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی کوئی بول سکے گا اور اس دن لوگ دو حصہ میں منقسم ہوں گے کوئی شقی اور کوئی سعید۔