Surat Hood

Surah: 11

Verse: 14

سورة هود

فَاِلَّمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَکُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اُنۡزِلَ بِعِلۡمِ اللّٰہِ وَ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۴﴾

And if they do not respond to you - then know that the Qur'an was revealed with the knowledge of Allah and that there is no deity except Him. Then, would you [not] be Muslims?

پھر اگر وہ تمہاری اس بات کو قبول نہ کریں تو تم یقین سے جان لو کہ یہ قرآن اللہ کے علم کے ساتھ اتارا گیا ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، پس کیا تم مسلمان ہوتے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ ... If then they answer you not, Meaning, that if they do not come with a reply to that which you have challenged them with (to the reproduction of ten chapters like the Qur'an), then know that it is due to their inability to do so. ... فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أُنزِلِ بِعِلْمِ اللّهِ ... know then that it is sent down with the knowledge of Allah, Know (that this is a proof) that this is the speech revealed from Allah. It contains His knowledge, His commands and His prohibitions. Then Allah continues by saying, ... وَأَن لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ and that there is no God besides Him! Will you then be Muslims.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی کیا اس کے بعد بھی کہ تم اس چیلنج کا جواب دینے سے قاصر ہو، یہ ماننے کے لئے، کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے، آمادہ نہیں ہوا اور نہ مسلمان ہونے کو تیار ہو ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] چیلنج کا جواب نہ دے سکنے کے نتائج :۔ قریش مکہ سب مل کر بھی اور اپنی مقدور بھر کوششوں کے بعد بھی جب اس چیلنج کے جواب میں کوئی اس جیسی سورت پیش نہ کرسکے تو اس سے درج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ١۔ یہ قرآن کسی انسان کا (یعنی رسول اللہ) کا تصنیف کردہ نہیں ہے کیونکہ اس میں ایسی باتیں ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ مثلاً پیشین گوئیاں اور حشر و نشر کے مفصل حالات، اگر یہ انسان کا تصنیف کردہ ہوتا تو تم لوگ اس کی مثل پیش کرنے سے عاجز کیسے رہ سکتے تھے ؟ ٢۔ چونکہ تم سب مل کر بھی اس جیسی ایک سورت بھی پیش نہیں کرسکے تو معجزہ کا یہی معنی ہے پھر تم اور کون سا معجزہ طلب کرتے ہو ؟ اور کیوں کرتے ہو ؟ ٣۔ اگر یہ انسان کا کلام نہیں تو پھر یہ لامحالہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور یہ آپ کی نبوت کی بھی دلیل ہے اور وجود باری تعالیٰ کی بھی۔ ٤۔ سورة بقرہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے اپنے معبودوں کی امداد بھی حاصل کر دیکھو شاید وہ تم میں اتنی طاقت بھر دیں کہ تم ایسا کلام پیش کرسکو پھر جب اس آڑے وقت میں وہ تمہارے کسی کام نہیں آئے تو اور کس وقت آئیں گے اس طرح از خود ان معبودوں کا ابطال ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ان آیات کے نزول کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کا وسیع علم ہے جس کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔ [١٨] یعنی ایسے واضح دلائل کے بعد بھی مسلمان ہونے اور اللہ کا فرمانبردار بننے میں تمہیں کسی اور چیز کا انتظار ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْٓا ۔۔ : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اے مسلمانو ! اگر وہ کفار تمہارا یہ چیلنج قبول نہ کریں تو یقین کرلو کہ یہ صرف اللہ کے علم سے اتارا گیا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو کیا تم حکم ماننے والے ہو ؟ یعنی اپنی کتاب کی حقانیت اس قدر واضح اور روشن ہونے پر تمہارے ایمان و یقین اور اس پر عمل میں اضافہ ہونا لازم ہے، تو کیا تم ایسا کرو گے ؟ یا ایمان لانے کے باوجود حکم ماننے میں کوتاہی کرتے رہو گے ؟ دوسرا معنی یہ ہے کہ پچھلی آیت میں مشرکین کو جو فرمایا تھا : (وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتٗم مِّنْ دُوْنِ اللّٰہ) کہ اللہ کے سو اج سے بلا سکتے ہو بلا لو، اس کے بعد اب فرمایا، اگر وہ تمام لوگ جنھیں تم اس کام کے لیے بلاؤ گے، مثلاً عرب کے بڑے بڑے فصحاء، بلغاء، شعراء، خطباء اور تمہارے تمام داتا اور دستگیر، اگر ان میں سے کوئی بھی تمہاری بات قبول نہ کرے اور ” اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ “ جیسی تین آیات بھی نہ بنا سکیں تو پھر تمہیں لازم ہے کہ ایک تو اس بات پر یقین کرلو کہ یہ کتاب اللہ کے علم سے نازل کی گئی ہے، اس کی مثل لانا مخلوق کے بس کی بات نہیں۔ دوسرا اس بات پر یقین کرلو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تو اے جماعت کفار ! پھر کیا تم اسلام قبول کرو گے یا اب بھی ضد اور عناد ہی پر اڑے رہو گے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The reason is that they were first asked to bring ten Surahs. They failed to do so. Then, to make their inability look more pronounced, it was said in the verse of Surah al-Baqarah quoted above: If you take the Qur&an to be a word of man, then, you too, bring no more than just one Surah being the like of it. But, despite this challenge of the Qur&an, made so easy for them, they could do nothing. It stood proved that the Holy Qur&an was a miracle, and the Word of Allah without any doubt. Therefore, at the end, it was said: , that is, &would you now believe and obey, or would you prefer to remain heedless as before?&

وجہ یہ ہے کہ پہلے دس سورتیں بنانے کا حکم دیا گیا، جب وہ اس سے عاجز ہوگئے تو پھر ان کے عاجز ہونے کو اور زیادہ واضح کرنے کے لئے سورة بقرہ کی آیت میں فرمایا کہ اگر تم قرآن کو کسی انسان کلام سمجھتے ہو تو تم بھی زیادہ نہیں صرف ایک ہی سورت اس جیسی بنا لاؤ مگر وہ قرآن کریم کی اس تحدی اور ان کے لئے انتہائی آسانی کردینے کے باوجود کچھ نہ کرسکے تو قرآن کریم کا معجزہ ہونا اور بلا شبہ اللہ کا کلام ہونا ثابت ہوگیا، اسی لئے آخر میں فرمایا (آیت) فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ یعنی کیا تم اب بھی مسلمان اور اطاعت گزار بنو گے، یا اسی خواب غفلت میں رہو گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِلَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللہِ وَاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝ ١٤ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ( ج و ب ) الجوب الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پھر اگر یہ ظالم تم لوگوں کا کہنا نہ کرسکیں تو کفار مکہ یقین کرلو کہ یہ قرآن کریم بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) بحکم الہی نازل ہوا ہے تو پھر اب بھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا اقرار کرتے ہو یا نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ ) یعنی اگر وہ اس چیلنج کو قبول کرنے کی جرأت نہ کرسکیں اور تمہاری مدد کو نہ پہنچ سکیں : (فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰهِ وَاَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ) یہ کفار ہی سے خطاب ہے کہ تم لوگ اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے اپنے معبودوں کو پکار دیکھو کچھ خود محنت کرو اور کچھ ان سے کہو کہ وہ القاء اور الہام کریں اور اس طرح مل جل کر دس سورتیں بنا لاؤ۔ اور اگر تمہارے یہ معبود تمہاری اس درخواست کو قبول نہ کرسکیں تو جان لو کہ نہ صرف یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے بلکہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی نہیں۔ تو اس سب کچھ کے بعد بھی کیا تم ماننے والے نہیں ہو ؟ زور استدلال ملاحظہ ہو کہ ایک ہی دلیل سے قرآن حکیم کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت بھی دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا بھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14. The argument advanced here serves to establish the divine origin of the Qur'an as well as the oneness of God. The argument, put succinctly, is as follows: (i) If the unbelievers thought that the Qur'an had been authored by some human being, then it ought to be possible for them to compose something which would be the like of it. Now, unbelievers claim that it is the Prophet (peace be on him) - a human being rather than God - who has produced the Qur'an. In such a case it should be possible for them - for they too are human - to produce such a book. However, despite the repeated challenges for them to produce something like the Qur'an no one, not even all of them combined, has succeeded in achieving it. The conclusion is quite evident: the Book was revealed by God and there is no question that it is the work of any human being. (ii) The Qur'an quite openly and vehemently denounced the deities which the unbelievers worshipped, and urged them to abandon these as they had no share in God's godhead. The unbelievers were also asked to mobilize all whom they wished, including their deities - provided they had any power - to assist them in establishing the falsity of the Prophet's claim by producing a book equal to the Qur'an. But if at such a crucial stage, their deities fail to come to their aid and do not grant them the power to produce something like the Qur'an, what then does that prove? Quite obviously, it proves that these so-called deities had neither the power nor even a shred of the attributes necessary for godhead. The fact of their becoming deities was purely the work of a few human beings who had invested such weak, mortal creatures with godhead. Incidentally, this verse also establishes the fact that in terms of chronological sequence the present surah - Hud- was revealed before Surah Yunus. For in the present surah, the unbelievers have been challenged to produce ten surahs like the Qur'anic ones. Subsequently, after the unbelievers failed to do so, they were asked in Surah Yunus to produce just one surah like it. (See Yunus 10: 38, n. 46.)

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :14 یہاں ایک ہی دلیل سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے کا ثبوت بھی دیا گیا ہے اور توحید کا ثبوت بھی ۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ : ( ۱ ) اگر تمہارے نزدیک یہ انسانی کلام ہے تو انسان کو ایسے کلام پر قادر ہونا چاہیے ، لہٰذا تمہارا یہ دعویٰ کے میں نے اسے خود تصنیف کیا ہے صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے کہ تم ایسی ایک کتاب تصنیف کر کے دکھاؤ ۔ لیکن اگر بار بار چیلنج دینے پر بھی تم سب مل کر اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتے تو میرا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے ۔ ( ۲ ) پھر جب کہ اس کتاب میں تمہارے معبودوں کی بھی کھلم کھلا مخالفت کی گئی ہے اور صاف صاف کہا گیا ہے کہ ان کی عبادت چھوڑ دو کیونکہ الوہیت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ، تو ضرور ہے کہ تمہارے معبودوں کی بھی ( اگر فی الواقع ان میں کوئی طاقت ہے ) میرے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے اور اس کتاب کی نظیر پیش کرنے میں تمہاری مدد کرنی چاہیے ۔ لیکن اگر وہ اس فیصلے کی گھڑی میں بھی تمہاری مدد نہیں کرتے اور تمہارے اندر کوئی ایسی طاقت نہیں پھونکتے کہ تم اس کتاب کی نظیر تیار کر سکو ، تو اس سے صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ تم نے خواہ مخواہ ان کو معبود بنا رکھا ہے ، ورنہ درحقیقت ان کے اندر کوئی قدرت اور کوئی شائبہ الوہیت نہیں ہے جس کی بنا پر وہ معبود ہونے کے مستحق ہوں ۔ اس آیت سےضمنا یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ سورۃ ترتیب کے اعتبار سے سورہ یونس سے پہلے کی ہے ۔ یہاں دس سورتیں بنا کر لانے کا چیلنج دیا گیا ہے اور جب وہ اس کا جواب نہ دے سکے تو پھر سورہ یونس میں کہا گیا کہ اچھا ایک ہی سورۃ اس کے مانند تصنیف کر لاؤ ۔ ( یونس ۔ آیت ۳۸ حاشیہ ٤٦ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:14) فالم ای فان لم۔ لم یستجیبوا لکم۔ اور اگر وہ تمہاری دعوت (برائے معاونت) قبول نہ کریں۔ مضارع نفی جحد بلم۔ لکم میں ضمیر جمع مذکر حاضر۔ مشرکین کی طرف راجع ہے جن کو یہ چیلنچ دیا جا رہا ہے اسی طرح سے فاعلموا میں بھی خطاب مشرکین سے ہے۔ فہل انتم مسلمون۔ پس کیا (اب ) تم اسلام لے آؤ گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یستجوا میں ضمیر ” ھم “ کفار کے لئے ہے اور ” لکم “ میں ” کم “ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان ہیں۔ یعنی اگر وہ کفار تمہارے سامنے اس چیلنج کا جواب پیش نہ کریں۔ اور اگر ” ھم “ تمہارے سامنے اس چیلنج کا جواب پیش نہ کریں۔ اور اگر ” ھم “ ضمیر کا مرجع ممن، موصولہ ہو اور ” لکم “ سے مراد کافر ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ جن کو تم اللہ کے سوا مدد کے لئے پکارتے ہو بلائو اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں۔ (شوکانی) ۔ 5 ۔ تو سمجھ لو اور یقین کرلو کہ اس میں سی کے دئے ہوئے احکام ہیں۔ کسی بندے کے بس میں نہیں کہ اس قسم کے احکام دے سکے۔ (شوکانی) ۔ 6 ۔ یہ بھی کافروں سے خطاب ہے یعنی تمہیں چاہیے کہ اسلام میں داخل ہو کر اس کے احکام و شرائع کی اتباع اختیار کرلو۔ اور اگر اس کے مخاطب مسلمان قرار دئیے جائیں تو معنی یہ ہونگے ” کیا اب بھی تم اسلام پر ثابت قرار ہوئے یا نہیں “ ؟ مگر پہلا احتمال گونہ راحج ہے کیونکہ اس سے ضمائر میں اتساق پیدا ہوجاتا ہے۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ یہ بھی جواب شکوی سے متعلق ہے۔ لَکُمْ کی ضمیر مومنین کے لیے اور فَاعْلَمُوْا کی مشرکین کے لیے اور قُلْ مقدر ہے ای فقل اعلموا یعنی اگر مشرکین یہ معارضہ اور چیلنج قبول نہ کریں اور قرآن کا مثل پیش نہ کرسکیں تو آپ ان سے فرما دیں کہ اب تو یقین کرلو کہ یہ قرآن میرا ساختہ پر داکتہ نہیں بلکہ اللہ نے اپنے علم کے ساتھ نازل فرمایا ہے لہذا اس مسئلہ توحید کو مان لو وہ اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ کیا اب بھی نہیں مانوگے ؟۔ وَاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ : انما انزل پر معطوف ہے یا لَکُمْ کی ضمیر بھی مشرکین کے لیے ہے یعنی اے مشرکین اگر تمہارے مزعومہ مددگار اور شرکاء تمہاری مدد کے لیے نہ آئیں تو یقین کرلو کہ یہ قرآن واقعی اللہ کا کلام ہے۔ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ ایھا الکفار و لم یعینوکم فاعلموا اَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللہ وانہ لیس مفتری علی اللہ بل ھو انزلہ علی رسولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خازن ج 3 ص 222) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14 پھر اگر وہ تمہارا کہنا نہ کرسکیں اور قرآن کریم کی مثل دس 10 سورتیں نہ لاسکیں تو ان سے کہو کہ تم یقین کرو اور اس بات کو جان لو کہ یہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی وحی سے نازل کیا گیا ہے اور اس کا بھی یقین کرو کہ اس سے سوا کوئی اور حقیقی معبود نہیں ہے سو تم اب بھی مسلمان ہوتے ہو یا نہیں یعنی اگر قرآن کریم کی مثل لانے سے عاجز ہوجائیں تب تو اس قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا یقین کریں اور اس کو پیغمبر کی من گھڑت نہ کہیں۔