Surat Hood

Surah: 11

Verse: 24

سورة هود

مَثَلُ الۡفَرِیۡقَیۡنِ کَالۡاَعۡمٰی وَ الۡاَصَمِّ وَ الۡبَصِیۡرِ وَ السَّمِیۡعِ ؕ ہَلۡ یَسۡتَوِیٰنِ مَثَلًا ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۴﴾٪  2

The example of the two parties is like the blind and deaf, and the seeing and hearing. Are they equal in comparison? Then, will you not remember?

ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے سننے والے جیسی ہے ۔ کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں؟ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ ... The likeness of the two parties, This refers to those disbelievers whom Allah first described as wretched, and then those believers whom He described with delightfulness. ... كَالاَعْمَى وَالاَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ ... The likeness of the two parties is as the blind and the deaf and the seer and the hearer. The first group is like one who is blind and deaf, while the second group is like he who sees and hears. Thus, the disbeliever is blind from the truth in this life and in the Hereafter. He is not guided to goodness, nor does he recognize it. He is deaf from hearing the proofs, thus he does not hear that which would benefit him. As Allah says, وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لاَسْمَعَهُمْ Had Allah known of any good in them, He would indeed have made them listen. (8:23) The believer is smart, bright and clever. He sees the truth and distinguishes between the truth and falsehood. Thus, he follows the good and abandons the evil. He hears and distinguishes between the proof and scepticism. Therefore, falsehood does not overcome him. ... هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلً ... Are they equal when compared! ie are these two types of people alike! ... أَفَلَ تَذَكَّرُونَ Will you not then take heed! This statement means, "Will you not consider, so that you may distinguish between these two categories of people." This is as Allah mentions in another verse, لااَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَأيِزُونَ Not equal are the dwellers of the Fire and the dwellers of the Paradise. It is the dwellers of Paradise that will be successful. (59:20) Allah also says, وَمَا يَسْتَوِى الاٌّعْمَى وَالْبَصِيرُ وَلاَ الظُّلُمَاتُ وَلاَ النُّورُ وَلاَ الظِّلُّ وَلاَ الْحَرُورُ وَمَا يَسْتَوِى الاٌّحْيَأءُ وَلاَ الاٌّمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَأءُ وَمَأ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِى الْقُبُورِ إِنْ أَنتَ إِلاَّ نَذِيرٌ إِنَّأ أَرْسَلْنَـكَ بِالْحَقِّ بَشِيراً وَنَذِيراً وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلاَّ خَلَ فِيهَا نَذِيرٌ Not alike are the blind and the seeing. Nor are (alike) darkness and light. Nor are (alike) the shade and the sun's heat. Nor are (alike) the living and the dead. Verily, Allah makes whom He wills to hear, but you cannot make hear those who are in graves. You are only a warner. Verily, We have sent you with the truth, a bearer of glad tidings and a warner. And there never was a nation but a warner had passed among them. (35:19-24)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 پچھلی آیات میں مومنین اور کافرین اور سعادت مندوں اور بدبختوں، دونوں کا تذکرہ فرمایا۔ اب اس میں دونوں کی مثال بیان فرما کر دونوں کی حقیقت کو مزید واضح کیا جا رہا ہے۔ فرمایا، ایک کی مثال اندھے اور بہرے کی طرح ہے اور دوسرے کی دیکھنے اور سننے والے کی طرح۔ کافر دنیا میں حق کا روئے زیبا دیکھنے سے محروم اور آخرت میں نجات کے راستہ سے بےبہرہ، اسی طرح حق کے دلائل سننے سے بےبہرہ ہوتا ہے، اسی لئے ایسی باتوں سے محروم رہتا ہے جو اس کے لئے مفید ہوں۔ اس کے برعکس مومن سمجھ دار، حق کو دیکھنے والا اور حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والا ہوتا ہے۔ چناچہ وہ حق اور خیر کی پیروی کرتا ہے، دلائل کو سنتا اور ان کے ذریعے سے شبہات کا ازالہ کرتا اور باطل سے اجتناب کرتا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ استفہام نفی کے لیے ہے۔ یعنی دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ " لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ " 59 ۔ الحشر :20) (جنتی دوزخی برابر نہیں ہوسکتے جنتی تو کامیاب ہونے والے ہیں) ایک اور مقام پر اسے اس طرح بیان فرمایا " اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں۔ اندھیرے اور روشنی، سایہ اور دھوپ برابر نہیں، زندے اور مردے برابر نہیں۔ ( سورة فاطر۔ 19، 20) (وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ 19؀ۙ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ 20 ؀ۙ ) 35 ۔ فاطر :20-19)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩ ٢] بینا اور نابینا کون لوگ ہیں ؟ کافر اور مومن کی زندگی کا تقابل :۔ یہ دو فریق کافر اور مومن ہیں۔ کافر اندھا بھی ہوتا ہے اور بہرا بھی۔ اسے کائنات میں ہر طرف اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے کچھ بھی نظر نہیں آتا اور اگر کوئی اسے بتلانا چاہے تو سن بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ بہرا ہے۔ اب دیکھیے ایک اندھا کسی راہ پر چل رہا ہو تو اس کے گمراہ ہونے یا کسی کھڈ میں جا گرنے سے بچنے کا کوئی امکان ہوتا ہے بالخصوص اس صورت میں اگر کوئی اسے راستہ بتلائے بھی تو وہ اس کی بات سن بھی نہ سکے اس کے مقابلہ میں ایک شخص خود ہی راستہ دیکھ رہا ہے اور وحی الٰہی کی روشنی میں اپنی منزل طے کر رہا ہے اور وہ منزل اس کے سامنے ہے اور اگر اسے کہیں اشتباہ پیدا ہوجائے تو راستہ بتلانے والے بھی موجود ہیں جن کی آواز وہ سن بھی سکتا ہے اور سننا چاہتا بھی ہے تو ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے راہ گم کردینے یا کسی حادثہ کا شکار ہونے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں اور اس کا اپنی منزل پر بسلامت پہنچ جانا یقینی ہوتا ہے یہی وہ نمایاں فرق ہے جو ایک کافر اور مومن کی زندگی کے سفر میں ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَثَلُ الْفَرِيْقَيْنِ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِيْرِ وَالسَّمِيْعِ ۔۔ : مثال سے کسی چیز کی تصویر سامنے آجاتی ہے اور اس کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مومن دیکھنے اور سننے والا ہوتا ہے اور کافر اندھا اور بہرا ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد اور خلاف ہیں۔ کیا تم سمجھتے نہیں کہ سیدھے راستے پر اندھا بہرا شخص کیسے چل سکتا ہے، جو نہ خود راستہ دیکھے، نہ بتانے سے سنے۔ اسی لیے کفار کہیں گے : (وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ ) [ الملک : ١٠ ] ” اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی آگ والوں میں نہ ہوتے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَثَلُ الْفَرِيْقَيْنِ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِيْرِ وَالسَّمِيْعِ۝ ٠ ۭ ہَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا۝ ٠ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝ ٢٤ ۧ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے صمم الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ، ( ص م م ) الصمم کے معیم حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) کافر اور مومن کی حالت ایسی ہے جیسے ایک شخص اندھا ہو اور بہرہ بھی یعنی کافر اندھے کی طرح نہ حق وہدایت کی طرف دیکھتا ہے اور بہرے کی طرح حق و ہدایت کی کوئی بات نہیں سنتا اور مومن کی حالت دیکھنے والے اور سننے والے کی طرح ہے کہ حق وہدایت کو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے، سو کیا کافر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور ثواب مومن کی برابر کرسکتا ہے کیا تم قرآن کریم کی ان نصیحتوں کو نہیں سمجھتے کہ پھر ایمان لے آؤ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(هَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ) بھلا دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے ؟ کیا تم اس مثال سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے ؟ اب اگلے چھ رکوع انباء الرسل پر مشتمل ہیں۔ ان میں انہی چھ رسولوں اور ان کی قوموں کے حالات بیان ہوئے ہیں جن کا ذکر ہم سورة الاعراف میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ یعنی حضرت نوح ‘ حضرت ہود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت شعیب ‘ حضرت لوط اور حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام۔ یہ چھ رسول ہیں جن کا ذکر قرآن حکیم میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ اس تکرار کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے اولین مخاطب (اہل عرب) ان سب رسولوں اور ان کی قوموں کے حالات سے بخوبی واقف تھے۔ جس خطے میں یہ رسول اپنے اپنے زمانے میں مبعوث ہوئے اس کے بارے میں کچھ تفصیل ہم سورة الاعراف میں پڑھ آئے ہیں۔ یہاں ان میں سے چیدہ چیدہ معلومات ذہن میں پھر سے تازہ کرلیں۔ اگلے صفحے پر جو نقشہ دیا گیا ہے یہ گویا ” ارض القرآن “ کا نقشہ ہے۔ قرآن مجید میں جن رسولوں کے حالات کا تذکرہ ہے وہ سب کے سب اسی خطے کے اندر مبعوث کیے گئے۔ نقشے میں جزیرہ نمائے عرب کے دائیں طرف خلیج فارس اور بائیں طرف بحیرۂ قلزم (بحیرۂ احمر) ہے ‘ جو اوپر جا کر خلیج عقبہ اور خلیج سویز میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔ نقشے پر اگر خلیج فارس سے اوپر سیدھی لکیر کھینچی جائے اور خلیج عقبہ کے شمالی کونے سے بھی ایک لکیر کھینچی جائے تو جہاں یہ دونوں لکیریں آپس میں ملیں گی ‘ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر حضرت نوح کی قوم آباد تھی۔ یہیں سے اوپر شمال کی جانب ارارات کا پہاڑی سلسلہ ہے ‘ جس میں کوہ جودی پر آپ کی کشتی لنگر انداز ہوئی تھی۔ اس علاقے میں سیلاب کی صورت میں حضرت نوح کی قوم پر عذاب آیا ‘ جس سے پوری قوم ہلاک ہوگئی۔ اس وقت تک پوری نسل انسانی بس یہیں پر آباد تھی ‘ چناچہ سیلاب کے بعد نسل انسانی حضرت نوح کی اولاد ہی سے آگے چلی۔ حضرت نوح کے ایک بیٹے کا نام سام تھا ‘ وہ اپنی اولاد کے ساتھ عراق کے علاقے میں آباد ہوگئے۔ اس علاقے میں ان کی نسل سے بہت سی قومیں پیداہوئیں۔ انہیں میں سے ایک قوم اپنے مشہور سردار ” عاد “ کے نام کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ قوم عاد جزیرہ نمائے عرب کے جنوب میں احقاف کے علاقے میں آباد تھی۔ اس قوم میں جب شرک عام ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے بہت سے نبی بھیجے۔ ان انبیاء کے آخر میں حضرت ہود ان کی طرف رسول مبعوث ہو کر آئے۔ آپ کی دعوت کو رد کر کے جب یہ قوم بھی عذاب الٰہی کی مستحق ہوگئی تو حضرت ہود اپنے اہل ایمان ساتھیوں کو ساتھ لے کر عرب کے وسطی علاقے حجر کی طرف ہجرت کر گئے۔ یہاں پھر ان لوگوں کی نسل آگے بڑھی۔ ان میں سے قوم ثمود نے خصوصی طور پر بہت ترقی کی۔ اس قوم کا نام بھی ثمود نامی کسی بڑی شخصیت کے نام پر مشہور ہوا۔ یہ لوگ فن تعمیر کے بہت ماہر تھے۔ چناچہ انہوں نے میدانی علاقوں میں بھی عالی شان محلات تعمیر کیے اور Granite Rocks پر مشتمل انتہائی سخت پہاڑوں کو تراش کر خوبصورت مکانات بھی بنائے۔ اس قوم کی طرف حضرت صالح مبعوث کیے گئے۔ یہ تینوں اقوام ( قوم نوح قوم عاد اور قوم ثمود) حضرت ابراہیم کے زمانے سے پہلے کی ہیں۔ دوسری طرف عراق میں جو سامئ النسل لوگ آباد تھے ان میں حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے۔ آپ کا تذکرہ قرآن میں کہیں بھی ” انباء الرسل “ کے انداز میں نہیں کیا گیا۔ یہاں سورة ہود میں بھی آپ کا ذکر ” قصص النبیین “ کی طرز پر آیا ہے۔ پھر حضرت ابراہیم نے عراق سے ہجرت کی اور بہت بڑا صحرائی علاقہ عبور کر کے شام چلے گئے۔ وہاں آپ نے فلسطین کے علاقے میں اپنے بیٹے حضرت اسحاق کو آباد کیا جبکہ اس سے پہلے اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کو آپ مکہ میں آباد کرچکے تھے۔ حضرت لوط آپ کے بھتیجے تھے۔ شام کی طرف ہجرت کرتے ہوئے وہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ حضرت لوط کو اللہ تعالیٰ نے رسالت سے نواز کر عامورہ اور سدوم کے شہروں کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ شہر بحیرۂ مردار (Dead Sea) کے کنارے پر آباد تھے۔ لہٰذا قوم ثمود کے بعد انباء الرسل کے انداز میں حضرت لوط ہی کا ذکر آئے گا۔ حضرت ابراہیم کی جو اولاد آپ کی تیسری بیوی قطورہ سے ہوئی وہ خلیج عقبہ کے مشرقی علاقے میں آباد ہوئی۔ اپنے کسی مشہور سردار کے نام پر اس قوم اور اس علاقے کا نام ” مدین “ مشہور ہوا۔ اس قوم کی طرف حضرت شعیب کو مبعوث کیا گیا۔ انباء الرسل کے اس سلسلے میں حضرت شعیب کے بعد حضرت موسیٰ کا ذکر آتا ہے۔ حضرت موسیٰ کو مصر میں مبعوث کیا گیا جو جزیرہ نمائے عرب سے باہر جزیرہ نمائے سینا (Senai Peninsula) کے دوسری طرف واقع ہے۔ آپ کی بعثت بنی اسرائیل میں ہوئی تھی ‘ جو حضرت یوسف کی وساطت سے فلسطین سے ہجرت کر کے مصر میں آباد ہوئے تھے۔ (سورۂ یوسف میں اس ہجرت کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ) بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء و رسل دنیا کے مختلف علاقوں میں مبعوث فرمائے۔ ان تمام پیغمبروں کی تاریخ بیان کرنا قرآن کا موضوع نہیں ہے۔ قرآن تو کتاب ہدایت ہے اور انبیاء ورسل کے واقعات بھی ہدایت کے لیے ہی بیان کیے جاتے ہیں۔ اس ہدایت کے تمام پہلو کسی ایک رسول کے قصے میں بھی موجود ہوتے ہیں مگر مذکورہ چھ رسولوں کا ذکر بار بار اس لیے قرآن میں آیا ہے کہ ان کے ناموں سے اہل عرب واقف تھے اور ان کی حکایات و روایات میں بھی ان کے تذکرے موجود تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28. Can the attitude and ultimate end of both these types of people be the same? Obviously, he who fails to see the right way and ignores the instruction of the guide who directs him to the right way will necessarily stumble and meet with some terrible mishap. However, he who perceives the right way and follows the instructions of his guide will reach his destination, and reach it safely. The same difference is found between the two parties mentioned here. One of these carefully observes the realities of the universe and pays heed to the teachings of God's Messengers. The other party, however, neither uses their eyes properly to perceive God's signs, nor pays heed to His Messengers. The behaviour of the two parties is, therefore, bound to be different. And when their behaviour is different, there is no reason to believe that their ultimate end will be identical.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :28 یعنی کیا ان دونوں کا طرز عمل اور آخرکار دونوں کا انجام یکساں ہو سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو شخص نہ خود راستہ دیکھتا ہے اور نہ کسی ایسے شخص کی بات ہی سنتا ہے جو اسے راستہ بتا رہا ہو وہ ضرور کہیں ٹھوکر کھائے گا اور کہیں کسی سخت حادثہ سے دوچار ہوگا ۔ بخلاف اس کے جو شخص خود بھی راستہ دیکھ رہا ہو اور کسی واقف راہ کی ہدایات سے بھی فائدہ اٹھاتا ہو وہ ضرور اپنی منزل پر بسلامت پہنچ جائے گا ۔ بس یہی فرق ان لوگوں کے درمیان بھی ہے جن میں سے ایک اپنی آنکھوں سے بھی کائنات میں حقیقت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور خدا کے بھیجے ہوئے رہنماؤں کی بات بھی سنتا ہے ، اور دوسرا نہ خود ہِیے کی آنکھیں کھلی رکھتا ہے کہ خدا کی نشانیاں اسے نظر آئیں اور نہ پیغمبروں کی بات ہی سن کر دیتا ہے ۔ کیونکر ممکن ہے کہ زندگی میں ان دونوں کا طرز عمل یکساں ہو؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ آخرکار ان کے انجام میں فرق نہ ہو؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ مسلمان دیکھتا سنتا ہے اور کافر اندھا بہرا ہے۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یہی حالت کافر اور مسلمان کی ہے کہ پہلا ہدایت سے بہت دور ہوا دوسرا ہدایت کے ساتھ موصوف ہے۔ 5۔ یعنی اس میں تردد ہونے کی گنجائش ہی نہیں بہت بدیہی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایک حسی تصویر کشی ہے جس کے اندر دونوں فریقوں کو مجسم طور پر پیش کردیا گیا ہے۔ پہلا فریق ایک نابینا کی طرح جو کچھ دیکھ ہی نہیں سکتا ، بہرے کی طرح ہے جو کچھ سن نہیں سکتا۔ جس کے قوائے مدرکہ معطل ہیں اور وہ علی امفاہیم کے ادراک سے عاجز ہے۔ چونکہ اس کے اعضائے مدرکہ کام نہیں کرتے اس لیے وہ گویا ان اعضا ہی سے محروم ہے جبکہ دوسرا فریق ان سے کام لیتا ہے اور سمیع وبصیر ہے اور ان قوتوں سے اس کی عقل استفادہ کرتی ہے۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۔ آخری میں سوال کیا جاتا ہے کہ کیا یہ دونوں قسم کے لوگ برابر ہوسکتے ہیں ؟ اور اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا کیونکہ جواب کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ بلکہ دوسرا سوال کردیا جاتا ہے کہ کیا تم لوگ اس مثال سے سبق نہیں لیتے اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۔ اس لیے کہ بات اس قدر واضح ہے کہ اس پر کسی گہرے غور و فکر کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کا انعام اور اہل کفر کا انجام بیان فرمانے کے بعد دونوں فریق کی مثال بیان فرمائی (مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ کَالْاَعْمٰی وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِیْرِ وَالسَّمِیْعِ ) (دونوں فریق کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص اندھا اور بہرا ہو اور دوسرا شخص دیکھنے والا اور سننے والا ہو) پہلی مثال کافر کی ہے۔ جو حق کی طرف سے اندھا اور بہرا بنتا ہے اور دوسری مثال مؤمن کی ہے جو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے اور حق کو قبول کرتا ہے اس نے اپنی سننے اور دیکھنے کی قوت ضائع نہیں کی (ھَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا) کیا یہ دونوں فریق اپنی حالت کے اعتبار سے برابر ہیں یعنی برابر نہیں ہیں جس طرح اندھا اور بہرا دیکھنے اور سننے والے کے رابر نہیں اسی طرح سے کافر اور مومن برابر نہیں (اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ) کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے) جس طرح دنیا میں دیکھنے والے اور سننے والے کو اچھے حال میں جانتے ہو اور اسے کامیاب سمجھتے ہو اور اندھے بہرے کو نامراد سمجھتے ہو اسی طرح کافر کو برباد اور مومن کو کامیاب سمجھو۔ فائدہ : قیامت کے دن کافروں کی رسوائی ہوگی اسی طرح اہل ایمان کا اعزازو اکرام ہوگا ان پر اللہ تعالیٰ شانہ کرم فرمائے گا اور ان کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مومن اپنے رب سے قریب ہوگا اور اللہ تعالیٰ شانہ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا۔ کہ تجھے اپنا فلاں فلاں گناہ یاد ہے وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرلے گا۔ اور وہ اپنے دل میں ہی سمجھ لے گا کہ میں تو ہلاک ہوگیا) یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے بندہ کے درمیان ہوگا ‘ (گناہوں کا اعلان نہیں کیا جائے گا) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ میں نے دنیا میں تیری پردہ پوشی کی اور آج ان گناہوں کو بخشتا ہوں اس کے بعد اس کی نیکیوں کا اعمالنامہ اسے دیدیا جائے گا۔ (جو داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہ اس کے جنتی ہونے کی دلیل ہوگی) رہے کافر اور منافق تو ان کے بارے میں گواہی دینے والے گواہی دیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا ‘ خبردار ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ (رواہ البخاری ص ٣٣٠ ج ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27: یہ دونوں فریقوں یعنی مشرکوں اور مومنوں کی تمثیل ہے۔ مشرک کی مثال ایک اندھے اور بہرے شخص کی سی ہے جس طرح اندھا اور بہرا شخص اشارت اور عبادت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا یہی حال مشرکین کا ہے جو اللہ کی آیتوں سے اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں وہ نہ آیات الٰہی کو سننا چاہتے ہیں نہ دلائل آفاق وانفس کو بنظر غائر دیکھ کر عبرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس مومن کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دیکھتا اور سنتا ہے اور عبارت اور اشارت دونوں سے متمتع ہوتا ہے اسی طرح مومن کانوں سے آیتیں سن کر اور آنکھوں سے دلائل قدرت کو ملاحظہ کر کے ایمان وعمل میں اور زیادہ مضبوط اور پختہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد سات قصے مذکور ہیں جو پہلے تین دعو وں سے بطریق لف ونشر مرتب متعلق ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 ان دونوں مذکورہ فریقوں کا فر اور مومنوں کی مثال ایک ادھا بھی اور بہرہ بھی اور ایک دیکھتا بھی اور سنتا بھی کیا دونوں حالت میں برابر ار مساوی ہیں کیا تم اس فرق اور تفاوت سے نصیحت نہیں پکڑتے یعنی اندھے اور کھجا کے بہرے اور سننے میں بڑا فرق ہے بس یہی فرق دین حق کے منکر اور دین حق کو قبول کرنیوالے میں ہے۔