Surat Hood

Surah: 11

Verse: 43

سورة هود

قَالَ سَاٰوِیۡۤ اِلٰی جَبَلٍ یَّعۡصِمُنِیۡ مِنَ الۡمَآءِ ؕ قَالَ لَا عَاصِمَ الۡیَوۡمَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ ۚ وَ حَالَ بَیۡنَہُمَا الۡمَوۡجُ فَکَانَ مِنَ الۡمُغۡرَقِیۡنَ ﴿۴۳﴾

[But] he said, "I will take refuge on a mountain to protect me from the water." [Noah] said, "There is no protector today from the decree of Allah , except for whom He gives mercy." And the waves came between them, and he was among the drowned.

اس نے جواب دیا کہ میں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناہ میں آجاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا نوح ( علیہ السلام ) نے کہا آج اللہ کے امر سے بچانے والا کوئی نہیں ، صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا ۔ اسی وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ سَأوِي إِلَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاء ... The son replied: "I will betake myself to some mountain, it will save me from the water." He believed, in his ignorance, that the flood would not reach the tops of the mountains and that if he clung to the top of a mountain, he would be saved from drowning. His father, Nuh, said to him, ... قَالَ لاَ عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ إِلاَّ مَن رَّحِمَ ... Nuh said: "This day there is no savior from the decree of Allah except him on whom He has mercy." This means that nothing will be saved today from the command of Allah. ... وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ And waves came in between them, so he (the son) was among the drowned.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 اس کا خیال تھا کہ کسی بڑے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر میں پناہ حاصل کرلوں گا، وہاں پانی کیونکر پہنچ سکے گا۔ 43۔ 2 باپ بیٹے کے درمیان یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ ایک طوفانی موج نے اسے اپنی طغیانی کی زد میں لے لیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] بیٹے کا جواب :۔ ضدی بیٹے نے باپ کی آرزو کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ && میں ابھی پہاڑ پر چڑھ کر اپنی جان بچا لوں گا && اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پانی اتنا چڑھ جانے والا ہے کہ وہ اس پہاڑ کو بھی اپنے اندر چھپالے گا۔ نوح (علیہ السلام) نے اسے کہا && بیٹے کس خبط میں پڑے ہو یہ کوئی معمولی سیلاب نہیں بلکہ اللہ کا عذاب ہے اور پہاڑ کی کیا حقیقت ہے کوئی چیز بھی آج کسی کو اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکتی الا یہ کہ اللہ خود ہی کسی پر رحم فرما کر اسے بچا لے && یہ گفتگو ابھی پوری بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ایک تند و تیز لہر اٹھی جس نے بیٹے کی طرف رخ کرکے ان دونوں کو ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا کردیا اور یہ کافر اور نافرمان بیٹا سیدنا نوح کی آنکھوں کے سامنے طوفان میں غرق ہوگیا اور سیدنا نوح جیسے اولوالعزم پیغمبر بھی اس کی کچھ مدد نہ کرسکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ سَاٰوِيْٓ اِلٰي جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَاۗءِ : معلوم ہوا کہ مشرک کی نظر اسباب تک ہی رہتی ہے اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی اسباب کے پیدا کرنے والے کی طرف نہیں جاتی۔ ” مجھے پہاڑ پانی سے بچا لے گا “ کم عقل ایک بےاختیار پہاڑ کو بچانے والا سمجھ رہا ہے۔ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ : اس کا جو ترجمہ لکھا گیا ہے اس میں کچھ الفاظ محذوف شامل کیے جائیں تو مطلب درست ہوتا ہے، یعنی ” آج اللہ کے فیصلے سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر وہ رحم کرے (وہی بچے گا) ۔ “ بعض حضرات نے فرمایا کہ فاعل کا وزن بعض اوقات نسبت کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسا کہ ” لَابِنٌ“ لبن (دودھ) والا اور ” تَامِرٌ“ تمر (کھجور) والا، اسی طرح یہاں ” عَاصِمَ “ نسبت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی آج بچاؤ رکھنے والا کوئی نہیں، مگر جس پر وہ (اللہ) رحم کرے۔ ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” یا دوسرا ترجمہ یہ ہوسکتا ہے کہ آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے، مگر جو رحم کرنے والا ہے (یعنی خود اللہ تعالیٰ ) ۔ “ آیت میں یہ ایک وجہ ہے جو محققین نے ذکر کی ہے اور یہی اقویٰ (زیادہ مضبوط) ہے، کیونکہ فاعل کا صیغہ زیادہ تر صفت کے لیے آتا ہے، نسبت کے لیے کم استعمال ہوتا ہے۔ (روح المعانی) وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ : نوح (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے کی بات جاری تھی کہ پانی کی موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ اپنے ساتھیوں سے جا ملا، جو غرق کیے جا چکے تھے۔ اس سے ایک تو اس موج کی غیرت ایمانی ظاہر ہو رہی ہے کہ وہ موحد باپ کے سامنے مشرک بیٹے کی بک بک کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کرسکی، دوسرا یہ کہ آخرت میں آدمی انھی کا ساتھی ہوگا جن کا وہ دنیا میں ساتھی تھا۔ ” فَغَرِقَ “ (پس وہ غرق ہوگیا) اور ” فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ “ (پس وہ غرق کیے گئے لوگوں میں سے ہوگیا) دونوں میں یہی فرق ہے، اس لیے اپنے بچوں کو جس قدر ہو سکے بری صحبت سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ سَاٰوِيْٓ اِلٰي جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَاۗءِ۝ ٠ۭ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ۝ ٠ۚ وَحَالَ بَيْنَہُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ۝ ٤٣ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے عصم العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، والاعْتِصَامُ : التّمسّك بالشیء، قال : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ( ع ص م ) العصم کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ الاعتصام کسی چیز کو پکڑ کر مظبوطی سے تھام لینا قرآن میں ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) وہ کہنے لگا کہ میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھے غرق ہونے سے بچا لے گا نوح (علیہ السلام) نے فرمایا آج اللہ تعالیٰ کے اس عذاب وقہر سے کوئی بچانے والا نہیں، مگر جس پر اللہ تعالیٰ رحم کرے، یعنی مومنین پر اور کنعان اور کشتی کے درمیان ایک موج حائل ہوگئی اور وہ بھی طوفان میں غرق ہوگیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَحَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ ) اسی گفتگو کے دوران ایک بڑی موج آئی اور اس کی زد میں آکر آپ کی نظروں کے سامنے آپ کا وہ بیٹا غرق ہوگیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:43) ساوی۔ اوی یاوی (باب ضرب) اویا۔ کسی جگہ نزول کرنا۔ کسی جگہ پناہ حاصل کرنا۔ اوی الیٰ کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا۔ اواہ (باب افعال) ایوائ۔ کسی کو جگہ دینا ساوی الیٰ جبل میں (ابھی) پہاڑ سے جا لگوں گا۔ اور باب افعال سے وتؤدی الیک من تشاء (23:51) اور جسے چاہو اپنے پاس ٹھکانہ دو ۔ یعصمی۔ عصم یعصم (باب ضرب) عصمۃ مصدر۔ وہ مجھے بچا لیگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ یا دوسرا ترجمہ یہ ہوسکتا ہے اور وہی لفظی ترجمی بھی ہے کہ آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے مگر جو رحم کرنے والا ہے۔ (یعنی خود اللہ تعالی) آیت میں یہ ایک وجہ ہے جو محققین نے ذکر کی ہے اور یہی قویٰ ہے کیونکہ فاعل کا صیغہ زیادہ تر صفت کے لئے آتا ہے اور نسبت کے لئے کم استعمال ہوتا ہے۔ (روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40: کنعان نے کہا مجھے تمہاری کشتی کی ضرورت نہیں ابھی میں اس ساتھ والے پہاڑ پر چڑھ رہا ہوں وہ مجھے اس طوفان سے بچا لے گا۔ مشرک لوگ ہر آڑے وقت میں غیر اللہ سے آس لگائے رہتے ہیں اور خداوند تعالیی کو بھول جاتے ہیں۔ کنعان نے بھی اپنی عادت مستمرہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کو یاد نہ کیا بلکہ پہاڑ کی پناہ لینے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ 41: حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا آج طوفان سے اللہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکے گا اس لیے پہاڑ وگیرہ کی پناہ بےسود ہے۔ مَنْ رَّحِمَ میں موصول سے ذات باری تعالیٰ مراد ہے گویا کہ یوں کہا گیا لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلَّاھُوَ سُبْحَانَہٗ وتعالیٰ اور ضمیر کی جگہ جملہ اظہار شان رحمت کے لیے لایا گیا۔ یا عاصم صیغہ نسبت ہے لابنٌ (دودھ والا) اور تامرٌ (کھجور والا) کی طرح۔ اور موصول سے مرحوم مراد ہے ای لاذاعصمۃ ای معصوم الا من (رح) تعالیٰ (روح ج 12 ص 60 ومظہری ج 5 ص 89) یا مستثنی منقطع ہے یعنی آج کوئی بچانے والا نہیں البتہ جس پر اللہ کی رحمت ہوگئی وہی بچے گا۔ (اِلَّا مَنْ رَّحِمَ ) استثناء منقطع والمعنی لکن من رحم اللہ معصوم (کبیر ج 17 ص 233) ۔ وَحَالَ بَیْنَھُمَا الْمَوْجُ الخ اتنے میں طوفان کی ایک لہر نے کنعان کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کا کام تمام کردیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43 بیٹے کنعان نے جواب دیا میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھ کو اس پانی سے بچا لے گا حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا آج اللہ کے قہر اور اس کی گرفت سے کوئی بچانے والا نہیں مگر ہاں وہ بچ سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ ہی رحم کرے اور دونوں باپ بیٹوں کے درمیان اتنی دیر میں ایک موج حائل ہوگئی اور وہ لڑکا غرق شدگان میں سے ہوگیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس دن بلند پہاڑ کے بلند درخت بھی ڈوب گئے تھے کہ پرندے کا بچائو نہ تھا۔