تعارف سورة الفلق۔ سورة الناس بسم اللہ الرحمن الرحیم سورة الفلق سورت نمبر 113 رکوع 1 آیات 5 الفاظ و کلمات 23 حروف 73 مقام نزول مدینہ منورہ سورة الناس سورت نمبر 114 رکوع 1 آیات 6 الفاظ و کلمات 20 حروف 81 مقام نزول مدینہ منورہ سورة الفلق اور سورة الناس جو دونوں ایک ہی واقعہ کے سلسلہ میں نازل کی گئی ہیں اس لئے بعض اکابر نے ان دونوں سورتوں کو ایک ہی کہا ہے۔ بہرحال واقعہ اور مضمون کے لحاظ سے ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں سورتیں ایک ہی نہر کی دو شاخیں ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ان سورتوں کے پس منظر میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں متعدد روایتیں ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔ اہل کتاب میں سے یہودی شروع ہی سے اسلام دشمنی اور دین اسلام کو مٹانے کی کوشش اور سازش سے باز نہ آتے تھے۔ ان کی کوشش یہی ہوتی کہ وہ خود سامنے نہ آئیں اور دوسروں کو اپنا آلہ کار بنائیں۔ چناچہ ایک مرتبہ چند یہودی مدینہ منورہ آئے۔ اس زمانہ میں لبید ابن عصم اور اس کی بہنیں جادوٹونے اور تعویذ گنڈوں میں مشہور تھیں۔ یہودیوں نے لبید ابن اعصم کو کچھ رقم دے کر کہا کہ اگر تم (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی ایسا زبردست جادو کردو جس سے یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمارے راستے سے ہٹ جائیں تو ہم تمہیں اور بھی مال دیں گے۔ لبید اس کے لئے تیار ہوگیا۔ اس نے ایک ایسے خادم سے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لگا رہتا تھا اس سے کنگھے کا ایک ٹکڑا جس میں آپ کے لگے ہوئے سر کے چند بال بھی تھے حاصل کرلیا۔ اس نے کنگھے اور سر کے بالوں پر جادو کیا اور ایک تانت کے دھاگے میں گیارہ گرہیں لگائیں اور ایک نر کھجور کے گابھے میں رکھ کر بنی زریق یا بنی زروان کے ایک اندھے کنویں کی تہہ میں ایک پتھر کے نیچے دبادیا۔ چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برابر اللہ کی حفاظت میں تھے اس لئے اس جادو کا کوئی شدید اثر تو نہ ہوا۔ البتہ آپ نے خود یہ اثر محسوس کیا کہ آپ اندر ہی اندر گھلتے جا رہے ہیں۔ دوسرا اثر یہ ہوا کہ جیسے خسی وقت میں بخار کی کیفیت میں طبیعت اکھڑی اکھڑی سی ہوجاتی ہے اسی طرح آپ کو خود محسوس ہونے لگا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے۔ آج آپ سے قریب تر تھے یہاں تک کہ آپ کی مزاج شناس محبوب بیوی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بھی آپ کی ان کیفیات کو محسوس نہ کرسکیں۔ کبھی آپ کے سر میں درد یا عجیب سی بےچینی سی ہوجاتی تھی۔ ایک دن جب کہ آپ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے ہاں موجود تھے زیادہ بےچینی محسوس کرکے بار بار دعائیں کررہے تھے کہ آپ کو ہلکی سی نیند آگئی اور آپ کچھ دیر بعد اٹھ بیٹھے فرمایا عائشہ ! میں نے اپنے رب سے پوچھا تو اللہ نے مجھے اس تکلیف کی وجہ بتا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسے حی مجھے اونگھ آئی تو دو فرشتے انسانی شکل میں آئیّایک سرہانے بیٹھ گیا دوسرا پاؤں کی طرف۔ ایک نے پوچھا ان کو کیا ہوگیا ؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے۔ لبید ابن اعصم نے کنگھی اور بالوں کو ایک نر کھجور کے خوشے میں غلاف کے اندر چھپا کر بنی زردان کے کنویں میں پتھر کے نیچے دبایا ہوا ہے۔ چناچہ اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کرام (رض) کے ساتھ جن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت عمار ابن یاسر، حضرت زبیر تھے لے کر ذردان کے کنویں پر پہنچے جس میں جادو کی گئی تمام چیزیں موجود تھیں۔ ان کو باہر نکالا۔ تانت میں گیارہ گرہیں تھیں۔ موم کا ایک ایسا پتلا تھا جس میں گیارہ سوئیاں چبھوئی گئی تھیں۔ اس وقت اللہ نے سورة الفلق اور سورة الناس نازل فرمائیں۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ آپ ان جادو کی چیزوں پر ان دو سورتوں کی گیارہ آیات کی تلاوت کرتے جائیں۔ ہر آیت پر ایک گرہ کھولتے جائیں اور ایک سوئی نکالتے جائیں۔ چناچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ جب ساری گرہیں کھول دی گئیں اور سوئیاں بھی نکال کر پھینک دی گئیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ تھا یا کسی چیز میں آپ بندھے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھول دی گئی ہوں۔ سب کو معلوم ہوگیا تھا کہ انصار کے ایک قبیلے بنی زریق کے لبید ابن اعصم اور اس کی بہنوں نے یہ حرکت کی ہے۔ بعض صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں نہ لبید کو قتل کردیا جائے تاکہ وہ آئندہ کسی کے ساتھ اس قسم کی حرکت نہ کرسکے۔ آپ نے بڑا سادہ سا جواب دیا کہ اللہ نے مجھے شفا عطا فرما دی ہیّ اب میں نہیں چاہتا کہ اپنی ذات کے لئے دوسرے لوگوں کو بھڑکاؤں اور اس طرح آپ نے لبید ابن اعصم اور اسکی جادوگر بہنوں کو معاف کردیا اور ان سے کسی قسم کا انتقام یا بدلہ نہیں لیا۔ سورة الفلق اور سورة الناس کی آیات کے متعلق چند باتیں عرض ہیں۔ ٭ ان دونوں سورتوں میں گیارہ آیات ہیں۔ سورة الفلق کی آیات کا تعلق دنیاوی چیزوں سے ہے جن میں پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مخلوق کے شر سے، رات کے چھ جانے والے اندھیرے سے، گرھوں میں پھونک مار کر جادو کرنے والیوں اور حسد کرنے والے کے شر سے۔ سورة الناس میں انسانوں کے پروردگار، سب لوگوں کے بادشاہ اور تمام انسانوں کے معبور کی پناہ میں آجانے کی ترغیب دی گئی ہے فرمایا گیا ہے کہ دلوں میں وسوسہ ڈالنے والوں کے شر سے اور وسوسے ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والے انسان اور جنات کی برائیوں سے پناہ صرف اللہ ہی کے پاس مل سکتی ہے۔ ٭ ان دونوں سورتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کو ہر حال میں صرف اللہ ہی سے پناہ مانگنا چاہیے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب آدمی کسی چیز سے خسی طرح کا ڈر یا خوف محسوس کرتا ہے تو وہ کسی طرح اس سے نکلنے کے لئے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اس سے بچ جانا چاہتا ہے۔ چناچہ کفار قریش اللہ کے سوا ہر چیز کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ جنات، بت ، دیوی، دیوتاؤں کو اپنی پناہ کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ سورة الجن میں فرمایا گیا کہ ” یہ لوگ انسانوں میں سے اور کچھ لوگ جنات سے پناہ طلب کرتے تھے “۔ اسی طرح کفار قریشی جب کبھی رات کے وقت کسی سنسان وادی میں پڑائو ڈالتے تھے تو کہتے ” ہم اس وادی کے رب (یعنی وہ جن جو اس وادی پر حکومر کتا ہے) اس کی پناہ مانگتے ہیں “۔ اس کے لئے کچھ کھانے اور خوشبوؤں کی دھنی بھی دیا کرتے تھے ۔ غرضیکہ غیر اللہ سے پناہ مانگنا اور اپنے سائے سے بھی لرزنا یہ ان کا مزاج بن گیا تھا۔ موجودہ دور میں بھی ” ہیلوون “ انگریزوں کا وہ تہوار ہے جس میں ان کا خیال ہے کہ ہر سال کی 31 اکتوبر کو تمام روحیں دنیا میں آتی ہیں۔ ان سے بچنے کے لئے دنیا کی ترقی یافتہ اور روشن خیالی کا دعویٰ کرنے والی قوموں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ پوری قوم اپنے جسم پر اس طرح مختلف رنگ پینٹ کرکے اس رات پوری قوم بھوتوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو دنیا بھر کے بھوت انہیں چٹ کر جائیں گے۔ ہندوستان میں برگد کے درخت، تلسی کے پودوں کو وہ اپنا محافظ سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے تمام وہموں اور پناہ کے غلط تصورات سے نجات دینے کے لئے بتا دیا کہ پناہ صرف اللہ رب العالمین کی مانگی جائے اس کے علاوہ کسی سے پناہ نہ مانگی جائیّ اب ایک مومن صرف ایک اللہ ہی کی پناہ مانگتا ہے۔ اس کے سوا کسی کی پناہ کا وہ کوئی صتور نہیں کرتا۔ ٭ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہوجانا قطعی طور پر ثابت ہے۔ محدثین نے اس کثرت سے اور مختلف سندوں سے روایات کے بعد اس واقعہ کو ثابت کیا ہے کہ اس کے مضمون سے انکا رکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ جادو کا اثر محض طبیعت کی گرانی تک محدود تھا شریعت کے احکامات میں کسی طرح کے اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔ جب حضرت جبرئیل نے اس کا علاج بتا دیا تو وہ اثر بھی جاتا رہا۔
سورة الفلق کا تعارف سورۃ الفلق ایک رکوع پر مشتمل ہے اس کی پانچ آیات ہیں یہ سورة مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اس کا نام اس کی پہلی آیت کے آخر میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی الفلق کی صفت بیان فرما کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ اس رب کی پناہ طلب کیا کرو جس نے ہر چیز کا آغاز پھاڑنے کے عمل سے کیا ہے۔ بالخصوص گرہوں میں پھونکے مارنی والی عورتوں اور حسد کرنے والے کے حسد سے بچنا چاہیے اور ان کی شر سے اپنے رب کی حفاظت طلب کرنی چاہیے۔
سورة الفلق ایک نظر میں یہ سورت اور اس کے بعد آنے والی سورت ابتداً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہدایات ہیں اور اس کے بعد ان کا اطلاق تمام اہل ایمان پر ہوتا ہے ، کہ تمام خطرات سے بچنے کے لئے اللہ کے حظیرہ امن میں آجاﺅ، اللہ کی حفاظت اور پناہ میں آجاﺅ۔ یہ خطرات ظاہری ہوں یا مخفی۔ معلوم ہوں یا مجہول۔ تمام خطرات سے اور خصوصاً فلاں فلاں خطرات سے۔ گویا اللہ تعالیٰ اپنے حظیرہ امن اور اپنی پناہ گاہ کا دروازہ کھولتا ہے اور نہایت شفقت اور محبت سے ندا دیتا ہے کہ آﺅ یہ محفوظ مقام ہے ، یہ جائے پناہ ہے تمہارے لئے ، تم یہاں مطمئن ہوجاﺅ گے۔ آﺅ، آﺅ میں جانتا ہوں کہ تم ضعیف ہو ، تمہارے بہت سے دشمن ہیں ، تمہارے لئے پر خطرمقامات ہیں۔ اور یہاں امن ، اطمینان ہے اور حفاظت وسلامتی ہے۔ اس لئے دونوں سورتوں کا آغاز یوں ہے : قل اعوذ ............ الفلق (1:113) ” کہو ، میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی “۔ قل اعوذ ................ الناس (1:114) ” کہو میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب کی “۔ اس کے نزول کو ہاتھوں ہاتھ لینے کے بارے میں متعدد روایات ہیں۔ ان روایات سے وہ تبصرہ اور وہ فضا ثابت ہوتی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا۔ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو نہایت فرحت و انبساط اور نہایت گہرائی اور کشادگی سے لیا۔ حضرت عقبہ ابن عامر سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا تم نے ان آیات پر غور کیا جو آج رات مجھ پر نازل ہوئیں ؟ ایسی آیات اس سے قبل ہرگز نہیں دیکھی گئیں وہ یہ ہیں۔ قل اعوذ ............ الفلق (1:113) اور قل اعوذ ............ الناس (1:114) ہیں ۔ (مالک ، مسلم ، ترمذی ، ابوداﺅد ، نسائی) حضرت جابر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : ” اے جابر پڑھو “۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں کیا پڑھوں۔ آپ نے فرمایا : پڑھو ، قل اعوذ ............ الفلق (1:113) اور قل اعوذ ............ الناس (1:114) میں نے ان کو پڑھا۔ آپ نے فرمایا : ” انہیں پڑھو ان جیسی سورتیں تم نہ پڑھوگے “۔ (نسائی) زر ابن جیش سے روایت ہے ، کہتے ہیں : میں نے حضرت ابی ابن کعب (رض) ، موذتین کے بارے میں پوچھا۔ میں نے کا :” ابوالنذر تمہارے بھائی ابن مسعود (رض) ان کے بارے میں یہ یہ کہتے ہیں۔ (حضرت ابن سعود ان کو اپنے مصحف میں نہ لکھتے تھے۔ لیکن بعد میں وہ صحابہ کرام کی جماعت کی رائے کی طرف پلٹ گئے تھے اور ان کو اپنے مصحف میں لکھ لیا تھا) ۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا آپ نے فرمایا مجھ سے کہا گیا ” کہو “۔ تو میں نے کہا کہو۔ تو ہم اسی طرح کہتے ہیں جس طرح حضور اکرم نے فرمایا۔ غرض یہ تمام روایات اس پر مسرت اور پسندیدہ فضا کا اظہار کرتی ہیں جس کا ہم نے تذکرہ کیا۔ ٭٭٭٭٭