Surat ul Falaq
Surah: 113
Verse: 1
سورة الفلق
قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ ۙ﴿۱﴾
Say, "I seek refuge in the Lord of daybreak
آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ۔
قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ ۙ﴿۱﴾
Say, "I seek refuge in the Lord of daybreak
آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ۔
Allah said, قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ Say, "I seek refuge with the Lord of Al-Falaq," Ibn Abi Hatim recorded that Jabir said, "Al-Falaq is the morning." Al-`Awfi reported from Ibn Abbas, "Al-Falaq is the morning." The same has been reported from Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Abdullah bin Muhammad bin Aqil, Al-Hasan, Qatadah, Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi and Ibn Zayd. Malik also reported a similar statement from Zayd bin Aslam. Al-Qurazi, Ibn Zayd and Ibn Jarir all said, "This is like Allah's saying, فَالِقُ الاِصْبَاحِ He is the Cleaver of the daybreak.." (6:96) Allah said, مِن شَرِّ مَا خَلَقَ
بیماری ، وبا ، جادو اور ان دیکھی بلاؤں سے باؤ کی دعا٭٭ حضرت جابر وغیرہ فرماتے ہیں فلق کہتے ہیں صبح کو ، خود قرآن میں نور جگہ ہے فالق الاصباح ابن عباس سے مروی ہے فلق سے مراد مخلوق ہے ، حضرت کعب احبار فرماتے ہیں فلق جہنم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ۔ لیکن وہ حدیث منکر ہے ۔ یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے ۔ امام بخاری بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے ۔ تمام مخلوق کی برائی سے جسم میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی ۔ غاسق سے مراد رات ہے ۔ اذا وقت یس مراد سورج کا غروب ہو جانا ہے ، یعنی رات جب اندھیرا لئے ہوئے آ جائے ، ابن زید کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو غاسق کہتے ہیں ۔ بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ غاسق ہے ، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ، بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے ، ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ اور روایت میں ہے کہ غاسق اذا وقب سے یہی مراد ہے ، دونوں قولوں میں با آسانییہ تطبیق ہو سکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آ جائے ، واللہ اعلم ۔ گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں ، حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں نہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی یعنی اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفا دے ۔ اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفا بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کر دیا اور ان کی تدبیروں کو بے اثر کر دیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا ، لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفا عطا فرمائی ۔ مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی نے جادہ کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ جادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گر ہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گر ہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا ، صحیح بخاری شریف کتاب الطب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہا آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے ، حضرت سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے ، جب یہ حالت آپ کی ہو گئی ایک دن آپ فرمانے لگے عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتا دیا دو شخص آئے ایک میری سرہانے ایک پائیتوں کی طرف ، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا ان کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ کہا عبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے ، کہا کس چیز میں؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں ، پھر حضور صلی اللہ علیہ السلام اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے ، میں نے کہا بھی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسے بدلہ لینے چائے آپ نے فرمایا الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفا دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا ، دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کر چکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حم سے بند کر دیا گیا ، یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی ، تفسیر ثعلبی میں حضرت ابن عباس اور حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہکا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لئے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذرو ان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیما ہوگئے سر کے بال جھڑنے لگے خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہو گیا اور آپ نے حضرت علی حضرت زبیر اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی ، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گر ہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہوگئے ، ادھر جبرائیل علیہ السلام نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گذر چکی ہے ، لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کر دیں آپ نے فرمایا نہیں اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا ۔ یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں واللہ اعلم ۔
1۔ 1 فلَق کے معنی صبح کے ہیں۔ صبح کی تخصیص اس لئے کی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ رات کا اندھیرا ختم کر کے دن کی روشنی لاسکتا ہے، وہ اللہ اسی طرح خوف اور دہشت کو دور کر کے پناہ مانگنے والے کو امن بھی دے سکتا ہے۔ یا انسان جس طرح رات کو اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ صبح روشنی ہوجائے گی، اسی طرح خوف زدہ آدمی پناہ کے ذریعے سے صبح کامیابی کے طلوع کا امیدوار ہوتا ہے۔ (فتح القدیر)
[١] فلق کا لغوی مفہوم :۔ فَلَقٌ کے معنی پھٹنا اور الگ ہونا بھی ہے۔ اور پھاڑنا بھی۔ (فَالِقُ الْاِصْبَاحِ 96) 6 ۔ الانعام :96) بمعنی صبح کو پھاڑنے اور ظلمت سے الگ کرنے والا۔ اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو رات کی تاریکی سے صبح کی روشنی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور حقیقت میں دیکھا جائے تو جو چیز بھی ظہور میں آتی ہے۔ وہ تاریکی اور پردہ غیب سے ہی ظہور میں آتی ہے۔ جیسے اس سے پہلی آیت میں فرمایا : (فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى 95) 6 ۔ الانعام :95) یعنی وہ ذات جو زمین کو پھاڑ کر اس سے دانہ اور گٹھلی کی کونپل نکالنے والا۔ اسی طرح انڈے کا چھلکا توڑ کر چوزے کو باہر نکالنے والا۔ یا رحم مادر سے بچہ کو باہر لانے والا۔ زمین یا پتھر کو پھاڑ کر اس سے چشمے جاری کرنے والا۔ حتیٰ کہ اللہ نے ایک ملے جلے مادے کو ہی پھاڑ کر اس سے آسمان و زمین کو الگ الگ کیا اور انہیں وجود میں لایا تھا۔ اس لحاظ سے فالق اور خالِقٌ تقریباً ہم معنی ہیں۔ [٢] اللہ کے علاوہ دوسرے سے پناہ مانگنا شرک ہے :۔ پناہ اس وقت مانگی جاتی ہے جب انسان کو کوئی ایسا خطرہ درپیش ہو جس کی مدافعت کرنے کی وہ اپنے آپ میں ہمت نہ پاتا ہو۔ اور اس ہستی سے پناہ مانگی جاتی ہے جو نہ صرف یہ کہ پناہ مانگنے والے سے زیادہ طاقتور ہو بلکہ اس چیز سے بھی طاقتور ہو جس سے حملہ یا تکلیف کا خطرہ درپیش ہے۔ اور سب سے زیادہ طاقتور اور ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب پر حکمران اللہ کی ذات ہے۔ لہذا پناہ صرف اسی سے مانگنی چاہیے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ ظاہری اسباب مفقود ہوں۔ ایسی صورت میں اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے پناہ مانگنا شرک ہے جیسا کہ دور جاہلیت میں لوگ جب کسی جنگل میں مقیم ہوتے تو اپنے مزعومہ عقائد کے مطابق وہاں کے جنوں کے بادشاہ سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ ہاں اگر ظاہری اسباب کی بنا پر کسی سے پناہ مانگی جائے تو یہ جائز ہے۔ تاہم بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر ہی کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ سورة الفلق اور سورة الناس دونوں میں مختلف اشیاء سے اللہ کی پناہ مانگنے کا ذکر ہے۔ اور دونوں کا مضمون باہم ملتا جلتا ہے۔ لہذا ان دونوں سورتوں کو معوذتین کہا جاتا ہے یعنی وہ سورتیں جنہیں پڑھ کر اپنے پروردگار سے پناہ مانگی جاتی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں سورتوں کو پڑھکر پہلے اپنے ہاتھوں پر پھونکتے پھر ہاتھوں کو جسم کے ہر اس حصے پر پھیرتے تھے جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتے تھے۔
(١) قل اعوذ…:” اعوذ “ ” عاد یعوذ عوذاً و معاذا “ (ن) پناہ پکڑنا۔ پناہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کسی چیز سے خوف محسوس کرے اور سمجھے کہ میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو اس سے بچنے کے لئے وہ کسی دوسرے کی حفاظت میں چلا جائے یا کسی چیز کی آڑ لے لے۔ ظاہر ہے پناہ اسی کی لی جاتی ہے جس کے متعلق سمجھا جائے کہ وہ اس خوف ناک چیز سے بچا سکتا ہے۔ پناہ بعض اوقات ایسی چیزوں کی لی جاتی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بعض خوف ناک چیزوں سے بچنے کا سبب بنادیا ہے، مثلاً دشمن سے بچنے کے لئے کسی قلعہ یا خندق یا مورچے وغیرہ کی پناہ لینا اور کسی ظالم سے بچنے کے لئے کسی طاقتور آدمی یا قوم کی پناہ لینا، یہ پناہ کسی بھی چیز کی لی جاسکتی ہے اور بعض اوقات یہ سمجھ کر پناہ لی جاتی ہے کہ وہ خطرات جن میں دنیا کے بچاؤ کے تمام ذرائع و اسباب بےکار ہوجائیں ان میں ف لاں ہستی بچا سکتی ہے۔ سورة فلق اور سورة ناس میں جس پناہ کا ذکر ہے، بلکہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی اللہ سے پناہ مانگی گئی ہے اس سے مراد پناہ کی دوسری قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے سے یہ پناہ مانگنا شرک ہے۔ مشرک لوگ اپنے تحفظ کے لئے اللہ کو چھوڑ کر دیوی دیوتاؤں، جنوں، فرشتوں یا پیروں، پیغمبروں کی پناہ لیتے اور ان کو مدد کے لئے پکارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سورتوں میں تعلیم دی کہ ایسے تمام خطرات سے بچنے کے لئے میری ان صفات کی پناہ لو جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ ایسے تمام خطرات سے میں ہی تمہیں بچا سکتا ہوں۔ (٢) برب الفلق :” فلق یفلق فلقا “ (ض) پھاڑنا۔ یہاں مصدر ” الفقلق “ مفعول ” مفلوق “ کے معنی میں ہے۔ اس کی تفسیر میں معتبر اقوال دو ہیں، پہلا قول جابر بن عبدا للہ (رض) عنہماکا ہے جو ابن ابی حاتم نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے، ان کے علاوہ کئی تابعین کا بھی یہی قول ہے کہ ” الفلق “ کا معنی صبح ہے، کیونکہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(فالق الاصباح) (الانعام : ٩٦) ” یعنی وہ رات کی تاریکی کو پھڑا کر صبح لانے والا ہے ۔ “ صبح کے رب کی پناہل ینے کا مطلب یہ ہے کہ جو رب رات کی تاریکی کو دور کر کے روشن صبح لانے والا ہے میں ساری مخلوق کے شر سے اس کی پناہ مانگتا ہوں، کیونکہ جب وہ رات کی تاریکی کو دور کردیتا ہے جس میں بیشمار شرور پائے جاتے ہیں تو اس کے لئے دوسرے شرور کو دور کرنا اور ان سے بچانا تو معمولی بات ہے۔ دوسرا قول ابن عباس (رض) عنہماکا ہے جو طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور ضحاک کا قول بھی یہی ہے کہ ” الفلق “ سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو پھاڑ کر نکالا ہے، مثلاً زمین سے نباتات ، پہاڑوں سے چشمے، بادلوں سے بارش اور رحم مادر اور انڈوں سے حیوانات۔ ان کے عالوہ جہاں بھی پیدائش کا معاملہ ہے اکثر میں انشقاق (پھٹنے) کا سلسلہ موجود ہے۔ گویا ” الفلق “ کا معنی مخلوق ہے، مطلب یہ ہوگا کہ میں ساری مخلوق کے مالک کی پناہ پکڑتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی مخلوق کے شر سے بچا لے۔ یہ معنی زیادہ جامع ہے، اس لئے ترجمہ میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔
Preliminary Remarks This and the next Surah were revealed on the same occasion, and in the same event, as will be explained in the &cause of revelation&. Hafiz Ibn-ul-Qayyim has, therefore, written their commentary together. He writes that their blessings and benefits are abundant. All of the people require them and no one can dispense with them. They are very efficacious remedy for sorcery or magical spell, evil eye, and for all of the physical and spiritual calamities. In fact, if its reality is grasped fully, people will understand that they require it more than their breath, food, water, clothing and everything else. Cause of Revelation Musnad of Ahmad records that a Jewish person cast a magical spell on the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، as a result of which he fell ill. Jibra&il (علیہ السلام) came to him and informed him that a particular Jew had cast a spell on him, that he had tied knots in his hair to accomplish this objective, and it is thrown into a particular well. The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم sent some of his Companions to bring it from the well Jibra&l (علیہ السلام) had described. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) untied the knots, and he was instantly cured. Jibra&il (علیہ السلام) informed him of the name of the Jew and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) knew the culprit, but it was not in keeping with his compassionate disposition to avenge anyone in his personal matter. Therefore, this was never brought to the attention of the Jew guilty of the black magic, nor did any sign of complaint ever appear on the blessed face of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Being a hypocrite, he regularly attended the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) gatherings. The details of this incident are recorded in Sahih of Bukhari on the authority of Sayyidah ` A&ishah (رض) that a Jewish man cast a magic spell on the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، as a result of which he sometimes felt confused whether or not he had done something. One day the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to Sayyidah ` A&ishah (رض) that Allah has shown him what his illness was and added: |"Two men came to me in my dream. One of them sat by my head side while the other sat by my feet, and the following conversation ensued: Question: &What is wrong with this man?& Answer: &He is bewitched.& Question: &Who has bewitched him?& Answer: &Labid Ibn A` sam. He is a member of the tribe of Banu Zuraiq who is an ally of the Jews, a hypocrite.& Question: &With what did he bewitch him?& Answer: &With a comb and hair from the comb.& Question: &Where is the comb?& Answer: In the dried bark of a male date palm under a rock in a well called Dharwan.& |" Sayyidah &A&ishah (رض) says that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) went to the well to remove the comb with the hair and said: |"This is the well I was shown in my dream.|" He removed it from the well. Sayyidah ` A&ishah (رض) asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . |"Will you not make this public?|" He replied: |"Allah has cured me and I hate to cause harm to anyone.|" This implies that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not want to be the cause anyone&s molestation, death or destruction, because this is what would have exactly happened if the incident was publicised. According to a narration in Musnad of Ahmad, this illness of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) lasted for six months. According to other narratives, some of the Companions knew that this wicked act was performed by Labid Ibn A&sam, and they courteously said to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : |"Why should we not kill this wicked person?|" He made the same reply to them as he did to Sayyidah ` A&ishah (رض) . According to Imam Tha` lab s narration, a Jewish boy was the attendant of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، the hypocritical Jew flattered the boy and talked him into getting for him strands of the Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) hair from his comb, and a few of its teeth. Having obtained these items, he tied eleven knots on a string and a needle was stuck into each knot. Labid then placed this spell in the spathe of a male palm tree, and buried it under a stone in a well. On this occasion, the two Surahs were revealed, comprising eleven verses. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited one verse at a time and untied one knot each time, until all the knots were untied, and he felt freed from the tension of the witchcraft. [ All these narratives have been adapted from Ibn Kathir.] Magic and its effect on the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Some people are surprised that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should be affected by black magic. This is because some people do not have a complete grasp of how magic operates. It actually operates under physical causes, and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was not immune to the influence of physical causes, as for instance feeling the burning or heating sensation of fire, and feeling the cooling sensation of water; or certain natural factors causing fever or body temperature to rise; or other factors causing aches and pains, and other illnesses. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، or any other prophet for that matter, was not immune to the effects of such natural or physical causes. They can be affected by the hidden operations of magic which are no less natural or physical. Please see Surah Baqarah, Ma’ ariful Qur&an, Vol. 1/ pp 264-278 for fuller explanation, especially p. 276 on &Magic and Prophets&. Mu&awwadhatain are Surahs that afford protection against physical and spiritual afflictions It is a settled doctrine of every believer that Allah is the intrinsic cause of every gain and loss in this world as well as in the next world. Without the Divine will not a jot of gain or loss can be caused to anyone. The only way to fortify against all physical and spiritual injuries and harm is for man to place himself under the protection of Allah, and by his actions he should attempt to make himself capable of entering the Divine shelter. Surah Al-Falaq directs how to seek the Divine protection against worldly calamities, and Surah An-Nas tells the way to seek Divine protection against the calamities of the Hereafter. Virtues of Mu&awwadhatain Sahih of Muslim records a Tradition on the authority of Sayyidna &Uqbah Ibn ` Amir (رض) who reports that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Do you not see that there have been revealed to me verses tonight the like of which has not been seen before? Those are Surah Al-Falaq and Surah An-Nas.|" According to another narration, the like of Mu&awwadhatain has not revealed even in Torah, Injil, or Zabar or anywhere else in the Qur&an. Another narration of Sayyidna &Uqbah Ibn ` Amir (رض) reports that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) taught him Mu&awwadhatain while they were on a journey. Then he recited them in the maghrib salah and said: |"Recite these two Surahs whenever you go to sleep and whenever you get up.|" [ Nasa&i ] According to another report, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has advised people to recite these two Surahs after every salah [ Transmitted by Abu Dad and Nasa&i ]. Imam Malik (رح) recorded from Sayyidah ` A&ishah (رض) : |"whenever the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) suffered from an ailment, he would recite the Mu&awwadhatain, blow over his hands, and then wiped his whole body with those hands. When his pain became acute on his death-bed, I would recite the Mu&awwadhatain, blow over his hands, and then he wiped them over himself, because my hands could not be the fitting substitute for his blessed hands. [ All these narratives have been adapted from Ibn Kathir ]. Sayyidna ` Abdullah Ibn Khubayb (رض) reports that it was raining one night and the sky had become intensely dark. We went out looking for the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and when he was found, he said: |"Say.|" He asked: |"What should I say?|" He said: |"Recite قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ and Mu&awwadhatain. Reciting them thrice in the morning and thrice in the evening will fortify you against all kinds of perturbations.|" In sum, it was the practice of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his Companions to recite these two Surahs to protect themselves against all types of privations, trials and tribulations of life in this world, as well as of life in the next world. Lexicological Analysis of important words and interpretation of the Surah Verse [ 113:1] قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (Say, |"I seek refuge with the Lord of the Daybreak.|" ) The word falaq means &to split or cleave& and here it is used in the sense of &break of dawn&. In another verse, a similar quality of Allah is used in [ 6:96] فَالِقُ الْإِصْبَاحِ. ([ He is ] the One who causes the dawn to break). Of all the Divine attributes, this particular attribute is used presumably because the darkness of night often causes evils and difficulties, and the daylight removes them. This attribute of Allah points to the fact that anyone who seeks protection in Allah, He will remove all afflictions from him. [ Mazhari ]
سورة الفلق خلاصہ تفسیر آپ (اپنے استعازہ یعنی اللہ سے پناہ مانگنے کے لئے اور دو رسوں کو بھی یہ استعاذہ سکھلانے کے لئے جس کا حاصل اللہ پر توکل اور مکمل بھروسہ کی تعلیم ہے۔ یوں) کہئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں۔ تمام مخلوقات کے شر سے اور (بالخصوص) اندھیری رات کے شر سے جب وہ رات آجاوے (رات میں شرور و آفات کا احتمال ظاہر ہے) اور (بالخصوص گنڈے کی) گروہوں پر پڑھ پڑھ کر پھنکنے والیوں کے شر سے اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے (اول تمام مخلوقات کے شر سے پناہ لینے کا ذکر کرنے کے بعد خاص خاص چیزوں کا ذکر شاید بمناسبت مقام یہ ہوا کہ اکثر سحر کی ترتیب اور ترکیب رات کو ہوتی ہے (کذا فی الخازن) تاکہ کسی کو اطلاع نہ ہو اطمینان سے اس کی تکمیل کرسکیں اور گنڈہ پر دم کرنے والی جانوں یا عورتوں کی مناسبت اس لفظ نقاثات کا موصوف نفوس بھی ہو سکتے ہیں جو مرد و عورت دونوں کو شامل ہیں اور عورتیں بھی اس کی موصوف ہو سکتی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو یہودیوں نے سحر کیا تھا اس کا اصل منشاء حسد تھا۔ اس طرح سحر کے متعلقہ جتنی چیزیں تھیں سب سے استعاذہ ہوگیا اور باقی شرور آفات کو شامل کرنے کے لئے من شرما خلق فرما دیا اور آیت میں جو اللہ کی صفت رب الفلق یعنی صبح کا مالک ذکر کی گئی حالانکہ اللہ تو صبح اور شام سبھی چیزوں کا رب اور مالک ہے۔ اس تخصیص میں شاید اشارہ اس طرف ہو کہ جیسے اللہ تعالیٰ رات کی اندھیری کا ازالہ کر کے صبح کی روشنی نکال دیتا ہے اسی طرح سحر کا بھی ازالہ کرسکتا ہے۔ معارف و مسائل یہ سورت فلق اور اس کے بعد کی سورة ناس دونوں سورتیں ایک ساتھ ایک ہی واقعہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حافظ ابن قیم نے ان دونوں سورتوں کی تفسیر یکجا لکھی ہے اس میں فرمایا ہے کہ ان دونوں سورتوں کے منافع اور برکات اور سب لوگوں کو ان کی حاجت و ضرورت ایسی ہے کہ کوئی انسان ان سے مستغنی نہیں ہوسکتا ان دونوں سورتوں کو سحر اور نظر بد اور تمام آفات جسمانی و روحاین کے دور کرنے میں تاثیر عظیم ہے اور حقیقت کو سمجھا جائے تو انسان کو اس کی ضرورت اپنے سانس اور کھانے پینے اور لباس سب چیزوں سے زیادہ ہے اس کا واقعہ مسند احمد میں اس طرح آیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک یہودی نے جادو کردیا تھا جس کے اثر سے آپ بیمار ہوگئے۔ جبرئیل امین نے آ کر آپ کو اطلاع کی کہ آپ پر ایک یہودی نے جادو کیا ہے اور جادو کا عمل جس چیز میں کیا گیا ہے وہ فلاں نوئیں کے اندر ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں آدمی بھیجے وہ یہ جادو کی چیز کنوئیں سے نکال لائے اس میں گر ہیں لگی ہوئی تھیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان گرہوں کو کھول دیا اسی وقت آپ بالکل تندرست ہو کر کھڑے ہوگئے (اور اگرچہ جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ کو اس یہودی کا نام بتلا دیا تھا اور آپ اس کو جانتے تھے مگر اپنے نفس کے عاملے میں کسی سے انتقام لینا آپ کی عادت نہ تھی اسلئے) عمر بھر اس یہودی سے کچھ نہیں کہا اور نہ کبھی اس کی وموجوگدی میں آپ کے چہرہ مبارک سے کسی شکایت کے آثار پائے گئے (وہ منافق ہونے کی وجہ سے حاضر باش تھا) اور صحیح بخاری کی روایت حضرت عائشہ سے یہ ہے کہ آپ پر ایک یہودی نے سحر کیا تو اس کا اثر آپ پر یہ تھا کہ بعض اوقات آپ محسوس کرتے تھے کہ فلاں کام کرلیا ہے مگر وہ نہیں کیا ہوتا۔ پھر ایک روز آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا ہے کہ میری بیماری کیا ہے اور فرمایا کہ (خواب میں) دو شخص آئے، ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا، ایک پاؤں کی طرف، سرہانے والے نے دوسرے سے کہا کہ ان کو کیا تکلیف ہے، دوسرے نے کہا کہ یہ محسور ہیں، اس نے پوچھا کہ سحر ان پر کس نے کیا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ لبیدین اعصم نے جو یہودیوں کا حلیف منافق ہی اس نے پوچھا کہ کس چیز میں جادو کیا ہے، اس نے بتلایا کہ ایک کنگھے اور اس کے دندانوں میں، پھر اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے بتلایا کہ کھجور کے اس غلاف میں جس میں کھجور کا پھل پیدا ہوتا ہے برذروان (ایک کنوئیں کا نام ہے) میں ایک پتھر کے نیچے مدفون ہے۔ آپ اس کنوئیں پر تشریف لے گئے اور اس کو نکال لیا، اور فرمایا کہ مجھے خواب میں یہی کنواں دکھلایا گیا تھا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آپ نے اس کا اعلان کیوں نہ کردیا (کہ فلاں شخص نے یہ حرکت کی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے شفا دے دی اور مجھے یہ پسند نہیں کہ میں کسی شخص کے لئے کسی تکلیف کا سبب بنوں (مطلب یہ تھا کہ اس کا اعلان ہوتا تو لوگ اس کو قتل کردیتے یا تکلیف پہنچاتے) اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ کا یہ مرض چھ مہینے تک رہا اور بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ جن صحابہ کرام کو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ کام لبیدین اعصمم نے کیا ہے انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم اس خبیث کو کیوں قتل نہ کردیں، آپ نے وہی جواب دیا جو صدیقہ عائشہ کو دیا تھا اور امام ثعلبی کی روایت میں ہے کہا یک لڑکا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کرتا تھا، اس منافقع یہودی نے اس کو بہلا پھسلا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کنگھا اور کچھ اس کے دندانے اس سے حاصل کر لئے اور ایک تانت کے تار میں گیارہ گرہیں لگائیں، ہر گرہ میں ایک سوئی لگائی، کنگھے کے ساتھ اس کو کھجور کے پھل کے غلاف میں رکھ کر ایک کنوئیں میں پتھر کے نیچے دبا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دو سورتیں نازل فرمائیں جن میں گیارہ آیتیں ہیں، آپ ہر گزہ پر ایک ایک آیت پڑھ کر ایک ایک کھولتے رہے یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں اور آپ سے اچانک ایک بوجھ سا اتر گیا (یہ سب روایتیں تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں۔ ) سخر کے اثر سے متاثر ہوجانا نبوت و رسالت کے منافی نہیں :۔ جو لوگ سحر کی حقیقت سے ناواقف ہیں ان کو تعجب وتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر کیسے ہوسکتا ہے۔ سحر کی حقیقت اور اس کے اقسام و احکام پوری تفصیل کے ساتھ سورة بقرہ کی تفسیر معارف القرآن جلد اول ص 217 تا 223 میں بیان کئے جا چکے ہیں وہاں دیکھ لئے جائیں۔ خلاصہ اس کا جس کا جاننا یہاں ضروری ہے اتنا ہے کہ سحر کا اثر بھی اسباب طبعیہ کا اثر ہوتا ہے جیسے آگ سے جلنا یا گرم ہونا، پانی سے سرد ہونا۔ بعض اسباب طبعیہ سے بخار آجانا یا مختلف قسم کے درود و امراض کا پیدا ہوجانا ایک امر طبعی ہے جس سے پیغمبر و انبیاء مستثنیٰ نہیں ہوتے اسی طرح سحر و جادو کا اثر بھی اسی قسم سے ہے اس لئے کوئی بعید نہیں۔ معوذتین ہر قسم کی دنیوی اور دینی آفات سے حفاظت کا قلعہ ہیں، ان کے فضائل :۔ یہ تو ہر مومن کا عقیدہ ہے کہ دنیا و آخرت کا ہر نفع نقصان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے بغیر اس کی مشیت کے کوئی کسی کو ایک ذرہ کا نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا تو دنیا و آخرت کی تمام آفات سے محفوظ رہنے کا اصل ذریعہ ایک ہی کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دیدے اور اپنے عمل سے اس کی پناہ میں آنے کے قابل بننے کی کوشش کرے۔ ان دونوں سورتوں میں پہلی یعنی سورة فلق میں تو دنیاوی آفات سے اللہ کی پناہم انگنے کی تعلیم ہے اور دوسری سورت یعنی سورة ناس میں اخروی آفات سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے۔ مستند احادیث میں ان دونوں سورتوں کے بڑے فضائل اور برکات منقول ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہیں کچھ خبر ہے کہ آج کی رات اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسی آیات نازل فرمائی ہیں کہ ان کی مثل نہیں دیکھی یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس اور ایک روایت میں ہے کہ تو رات۔ انجیل اور زبور اور قرآن میں بھی ان کی مثل کوئی دوسری سورت نہیں ہے۔ ایک دوسرے روایت انہی حضرت عقبہ سے ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو معوذتین پڑھائی اور پھر مغرب کی نماز میں انہی دونوں سورتوں کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا کہ ان سورتوں کو سونے کے وقت بھی پڑھا کرو اور پھر اٹھنے کے وقت بھی (رواہ النسائی) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان دونوں سورتوں کو ہر نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین فرمائی (رواہ ابو داؤد النسائی) اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی بیماری پیش آتی تو یہ دونوں سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر دم کر کے سارے بدن پر پھیر لیتے تھے پھر جب مرض وفات میں آپ کی تکلیف بڑھی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ کے ہاتھوں پر دم کردیتی تھی آپ اپنے تمام بدن پر پھیر لتے تھے۔ میں یہ کام اس لئے کرتی تھی کہ حضرت کے مبارک ہاتھوں کا بدل میرے ہاتھ نہ ہو سکتے تھے (رواہ الامام مالک) (یہ سب روایتیں تفسیر ابن کثیر سے نقل کی گئی ہیں) اور حضرت عبداللہ بن حبیب سے روایت ہے کہ ایک رات میں بارش اور سخت اندھیری تھی ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنے کے لئے نکلے، جب آپ کو پا لیا تو آپ نے فرمایا کہ کہو، میں نے عرض کیا کہ کیا کہوں، آپ نے فرمایا قل ہو اللہ احد اور معوذتین پڑھو، جب صبح ہو اور جب شام ہو تین مرتبہ یہ پڑھنا تمہارے لیے ہر تکلیف سے امان ہوگا (رواہ الترمذی ابو داؤد و النسائی۔ مظہری) خلاصہ یہ ہے کہ تمام آفات سے محفوظ رہنے کے لئے یہ دو سورتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا معمول تھیں۔ آگے سورت کے الفاظ کے ساتھ تفسیر دیکھئے۔ قل اعوذ برب الفلق فلق کے لفظی معنے پھٹنے کے ہیں مراد رات کی پوپھٹنا اور صبح کا نمودار ہونا جیسا ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت فالق الاصباح آئی ہے۔ اس کلمہ میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات میں سے اس کو اختیار کرنے کی حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ رات کی اندھیری اکثر شرور و آفات کا سبب بنتی ہے اور صبح کی روشنی اس کو دور کردیتی ہے اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں یہ اشارہ ہے کہ جو اس کی پناہ مانگے گا اللہ تعالیٰ اس کی تمام آفات کو دور فرما دے گا (مظہری) لفظ شر کے معنی از علامہ ابن قیم :۔ من شرما خلق، علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ لفظ ظر دو چیزوں کے لئے عام اور شامل ہے۔ ایک آلام و آفات، جن سے براہ راست انسان کو رنج و تکلیف پہنچتی ہے دوسرے وہ چیزیں جو آلام و آفات کے موجباب اور اسباب ہیں۔ اس دوسری قسم میں کفر و شرک اور تمام معاصی بھی لفظ شر کے مفہوم میں داخل ہیں۔ قرآن و حدیث میں جن چیزوں سے پناہ کا ذکر آیا ہے وہ ان دونوں قسموں سے کسی ایک میں داخل ہوتی ہیں کہ یا تو وہ خود آفت یا مصیبت ہوتی ہیں یا اس کے لئے سبب موجب ہوتی ہیں۔ نماز کے آخر میں جو دعا، استعاذہ مسنون ہے اس میں چار چیزیں مذکورہ ہیں۔ عذاب قبر، عذاب نار، فتنہ المحیاو الممات ان میں پہلی دو چیزیں خو دصمیبت و عذاب ہیں اور آخری دو چیزیں مصیبت و عذاب کے اسباب ہیں۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ١ ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ فلق الفَلْقُ : شقّ الشیء وإبانة بعضه عن بعض . يقال : فَلَقْتُهُ فَانْفَلَقَ. قال تعالی: فالِقُ الْإِصْباحِ [ الأنعام/ 96] ، إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] ، فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] ، وقیل للمطمئنّ من الأرض بين ربوتین : فَلَقٌ ، وقوله : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [ الفلق/ 1] ، أي : الصّبح، وقیل : الأنهار المذکورة في قوله : أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً وَجَعَلَ خِلالَها أَنْهاراً [ النمل/ 61] ، وقیل : هو الکلمة التي علّم اللہ تعالیٰ موسیٰ فَفَلَقَ بها البحر، والْفِلْقُ : الْمَفْلُوقُ ، کالنّقض والنّكث للمنقوض والمنکوث، وقیل الْفِلْقُ : العجب، والْفَيْلَقُ كذلك، والْفَلِيقُ والْفَالِقُ : ما بين الجبلین وما بين السّنامین من ظهر البعیر . ( ف ل ق ) الفلق ( ض ) کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے اور اس کے ایک ٹکڑے کو دوسرے سے الگ کرنے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ فلقتہ میں اسے پھاڑ دیا فانفلق چناچہ وہ چیز پھٹ گئ۔ قرآن میں ہے : فالِقُ الْإِصْباحِ [ الأنعام/ 96] وہی رات کے اندھیرے سے ) صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے ۔إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] بیشک خدا ہی والے اور کٹھلی کو پھاڑ کر ان سے درخت وغیرہ اگاتا ہے ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑہ یوں ہوگیا یا بڑا پہاڑ ہے ۔ اور دوٹیلوں کے درمیان پست جگہ کو بھی فلق کہاجاتا ہ اور آیت کریمہ : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [ الفلق/ 1] کہو کہ میں صبح پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔ میں فلق سے مراد صبح ہے بعض نے کہا ہے کہ اس سے نہریں مراد ہیں جن کا آیت کریمہ : أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً وَجَعَلَ خِلالَها أَنْهاراً [ النمل/ 61] بھلا کس نے زمین کو قراسگاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں ۔ میں تذکرہ پایا جاتا ہے ۔ اور بعض نے وہ کلمہ مراد لیا ہے جس کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تعلیم دی تھی اور انہوں نے اس کی برکت سے سمندر پھاڑ دیا تھا اور فلق بمعنی مفلوق ہے جس طرح کہ نقض بمعنی منقوض اور نکث بمعنی منکوث آتا ہے بعض نے کہا ہے کہ فلق اور فیلق کے معنی تعجب کے ہیں اور دو پہاڑوں کی درمیانی جگہ کو فیلق وفالق کہاجاتا ہے اور اونٹ کی دوکہاں کے درمیانی حصہ کو بھی فلیق وفالق کہتے ہیں ۔
معوذتین کی فضیلت ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں عبداللہ بن محمد التفیلی نے، انہیں محمد بن سلمہ نے محمد بن اسحاق سے، انہوں نے سعید بن ابی سعید المقبری سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حجفہ اور ابواء کے درمیان سفر کررہا تھا کہ اچانک تیز آندھی چلی اور اندھیرا چھا گیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعوذ برب الفلق اور اعوب برب الناس کی سورتیں پڑھنی شروع کردیں اور فرمایا عقبہ ! ان دونوں سورتوں کے ذریعے تعوذ کیا کرو ، کیونکہ ان دونوں سورتوں کے ذریعے پناہ مانگنے والے کی طرح کوئی پناہ مانگنے والا نہیں ہوتا۔ “ حضرت عقبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھانے کے دوران بھی ان سورتوں کی قرات کرتے سنا ہے۔ جعفر بن محمد سے مروی ہے ، انہوں نے کہا کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ کو معوذتین پڑھ کر پھونک ماری۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ” مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نظر بد سے بچنے کے لئے جھاڑ پھونک کرنے کا حکم دیا تھا۔ شعبی نے حضرت بریدہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا رقبۃ الامن عین اوحمی صرف نظر بد اور بخار کے اندر جھاڑ پھونک کی جاتی ہے) حضرت انس (رض) نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ جھاڑ پھونک ، تعویذ اور جادو سب شرک ہیں ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں دائود نے، انہیں محمد بن العلاء نے، انہیں ابو معاویہ نے، انہیں اعمش نے عمرو بن مرہ سے ، انہوں نے یحییٰ الجزار سے ، انہوں نے عبداللہ کی بیوی زینب کے بھتیجے سے، انہوں نے زینب سے ، انہوں نے اپنے شوہر عبداللہ سے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (ان الرقی ولتمائم والتولۃ شرک بیشک جھاڑ پھونک، تعویذ اور جادو سب شرک ہیں) بیوی نے یہ سن کر کہا۔ آپ یہ کیوں کہتے ہیں، خدا کی قسم ! میری آنکھوں میں تکلیف ہوجاتی تھی، میں فلاں یہودی کے پاس جاتی اور وہ پھونک مارتا تو میری آنکھ کو سکون ہوجاتا۔ “ حضرت عبداللہ نے یہ سن کر کہا۔ یہ شیطان کی کارستانی تھی، شیطان اپنا ہاتھ آنکھ میں لگا دیتا۔ جب یہودی پھونک مارتا تو شیطان اپنا ہاتھ روک لیتا۔ “ تمہارے لئے یہی کہنا کافی ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے (اذھب الباس، رب الناس اشف اتت الشافی لا شفاء الا شفاء ک شفاء لا یغا دروسقما) اے لوگوں کے رب ! تکلیف دور کردے، شفا عطا فرما تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں۔ ایسی شفا دے جس سے کوئی بیماری باقی نہ رہے) ۔
(1 ۔ 5) ۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرمائیے میں صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تمام مخلوقات کے شر سے اور رات کے شر سے جب وہ آکر چھا جائے اور گرہوں پر پڑھ پڑھ پھونک مارنے والی جادو گرنیوں کے شر سے اور حاسد کے شر سے لبید بن اعصم یہودی نے حضور پر حسد میں جادو کردیا تھا اس کو رفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سورتیں نازل کیں۔
آیت ١{ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ۔ } ” کہو کہ میں پناہ میں آتا ہوں صبح کے رب کی۔ “ فَلَقَ یَفْلِقُکے معنی کسی چیز کو پھاڑنے کے ہیں۔ سورة الانعام کی آیت ٩٦ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے حوالے سے { فَالِقُ الْاِصْبَاحِ } کے الفاظ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رات کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے سپیدئہ سحر نمودار کرتا ہے۔ البتہ اسی سورت کی آیت ٩٥ میں یہ لفظ دانوں اور گٹھلیوں وغیرہ کے پھاڑنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے : { اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی }۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے زمین کے اندر دانوں یا گٹھلیوں کو پھاڑتا ہے تو پودوں یا درختوں کی پتیاں اور جڑیں نکلتی ہیں۔ چناچہ فلق سے مراد یہاں صرف صبح ہی نہیں بلکہ ہر وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عدم کا پردہ چاک کر کے وجود بخشا ہے۔ جیسے کہ اگلی آیت میں واضح کردیا گیا :
1 As qul (say) is a part of the message which was conveyed to the Holy Prophet (upon whom be peace) by Revelation for preaching his prophetic message, its first addressee is the Holy Prophet himself but after him every believer too is its addressee. 2 The act of seeking refuge necessarily consists of three parts: (1) The act of seeking refuge itself; (2) the seeker of refuge; and (3) he whose refuge is sought. Seeking refuge implies feeling fear of something and seeking protection of another, or taking cover of it, or clinging to it, or going under its shelter for safety. The seeker after refuge in any case is the person, who feels that he cannot by himself resist and fight the thing that he fears, but stands in need of refuge with another for protection. Then the one whose refuge is sought must necessarily be a person or being about whom the seeker after refuge believes that he or it alone can protect him from the calamity. Now, one kind of refuge is that which is obtained according to natural laws in the physical world from a perceptible material object or person or power, for example, taking shelter in a fort for protection against the enemy's attack, or taking cover in a trench or behind a heap of earth, or walI, for protection against a shower of bullets, or taking refuge with a man or government, for protection from a powerful tyrant or taking refuge in the shade of a tree or building for protection from the sun. Contrary to this, the other kind of refuge is that which is sought in a supernatural Being from every kind of danger and every kind of material, moral or spiritual harm and injury on the basis of the belief that that Being is ruler over the physical world and can protect in supersensory ways the one who seeks His refuge. This second kind of refuge is the one that is implied not only in Surah AI-Falaq and Surah An-Nas but wherever in the Qur'an and the Hadith mention has been made of seeking refuge with Allah, it implies this particular kind of refuge, and it is a necessary corollary of the doctrine of Tauhid that this kind of refuge should be sought from no one but Allah. The polytheists sought this kind of protection, and seek even today, from other beings than Allah, e.g. the jinn, or gods and goddesses. The materialists turn for this also to material means and resources, for they do not believe in any supernatural power. But the believer only turns to Allah and seeks refuge only with Him, against all such calamities and misfortunes to ward off which he feels he has no power. For example, about the polytheists it has been said in the Qur'an: "And that from among men some people used to seek refuge with some people from among the jinn (Al-Jinn: 16) ." And explaining it in E.N. 47 of Surah Al-Jinn we have cited Hadrat `Abdullah bin 'Abbas's tradition that when the polytheistic Arabs had to pass a night in an uninhabited valley, they would call out, saying: We seek refuge of the lord of this valley (i e. of the jinn who is ruler and master of this valley) ." Contrary to this, about Pharaoh it has been said: "When he witnessed the great Signs presented by the Prophet Moses, he showed arrogance on account of his might." (Adh-Dhariyat: 39) . As for the attitude and conduct of the God-worshippers the Qur'an says that they seek Allah's refuge for protection against the evil of everything that they fear, whether it is material or moral or spiritual. Thus, about Mary it has been said that when God's angel appeared before her suddenly in human guise (when she did not know that he was an angel) , she cried out: "I seek the merciful God's refuge from you, if you are a pious man." (Mary: 18) . When the Prophet Noah made an improper petition to Allah, and was rebuked by Allah in response, he inunediately submitted: "My Lord, I seek Your protection lest I should ask of You anything of which I have no knowledge." (Hud: 47) When the Prophet Moses commanded the children of Israel to sacrifice a cow, and they said that perhaps he was having a jest with them, he replied: "I crave Allah's protection from behaving like ignorant people." (Al-Baqarah: 67) The same is the case with alI the acts of seeking refuge which have been reported in respect of the Holy Prophet (upon whom be peace) in the books of Hadith. For instance, consider the following prayers that the Holy Prophet made: Hadrat 'A'ishah has reported that the Holy Prophet (upon whom be peace) used to pray, saying: "O God, I seek Your refuge from the evil of the works which I did and from the evil of the works which I did not do." (i.e. if I have done a wrong, I seek refuge from its evil results, and if.I have not done a work which I should have done, I seek refuge from the loss that 1 have incurred, or from that I should do what I should not do) ." (Muslim) Ibn Umar has reported that one of the supplications of the Holy Prophet (upon whom be peace) was to the effect: "O God, i seek Your refuge front being deprived of a blessing that You have bestowed on me and front being deprived of the well-being that You have granted me and I seek refuge lest Your wrath should descend on me suddenly, and 1 seek refuge front every kind of Your displeasure." (Muslim) Zaid bin Arqam has reported that the Messenger Of Allah used to pray: "O God, I seek Your refuge front the knowledge which is not beneficial, front the heart which dces not fear You, front me soul which is never satisfied, and front the prayer which is not answered." (Muslim) Hadrat Abu Hurairah has reported that the Holy Messenger used to pray: 'O God, I seek Your refuge from hunger, for it is a most evil thing with which one may have to pass a night, and I seek Your refuge from dishonesty, for it is sheer evil-mindedness." (Abu Da'ud) . Hadrat Anas has reported that the Holy Prophet (upon whom be peace) used to pray: "O God, I seek Your refuge from leprosy and madness and aII evil diseases." (Abu Da'ud) . Hadrat 'A'ishah has reported that the Holy Prophet (upon whom be peace) used to pray in these words: "O God, I seek Your refuge front the mischief of the fire and from the evil of affluence and poverty." (Tirmidhi, Abu Da'ud) Shakal bin Humaid requested the Holy Prophet (upon whom be peace) to teach him some prayer. He told hit» to say "O God, I seek Your refuge front the evil of my hearing, from the evil of my sight, from the evil of lily tongue, from the evil of my heart, and front the evil of my lust," (Tirmidhi Abu Da'ud) . Atlas bits Malik has reported that the Holy Prophet used to say: "O God, I seek Your refuge from helplessness, indolence, cowardice, old age and stinginess, and I seek Your refuge from the torment of the grave and from the mischief of Iife and death, (and according to a tradition in Muslim also) from the burden of debt and that the people should overpower me. " (Bukhari, Muslim) , Khawla bint Hukaym Sulamiyyah says that she heard the Holy Prophet (upon whom be peace) as saying that the one who halts at a new stage (during the journey) and says: "I seek refuge in the blameless Words of Allah from the evil of the creatures", will not be caused .any harm until he departs from that stage. (Muslim) We have related these few prayers of the Holy Prophet (upon whom be peace) from the Hadith, which show that the believer should seek Allah's refuge from every danger and evil and not the refuge of anyone else, nor he should become self sufficient of Allah and place reliance only on himself. 3 The word used in the original is Rabbul- Falaq. Falaq actually means to split and to pierce through. A great majority of the commentators have taken it to mean bringing out the light of dawn by splitting the darkness of night, for in Arabic falaq as-subh is often used for the breaking of dawn, and in the Qur'an also the words :Faliq-ul-isbah (He Who causes the dawn to appear by splitting the darkness of night) have been used for Allah. (Al-An'am: 96) . Another meaning of falaq also is to create, to bring into being, for everything created in the world appears by splitting something. All vegetation sprouts by splitting open the seed and the soil; all animals come out either from the womb of mother or by breaking open the egg, or some other obstruction. All springs gush out by splitting open the rock or soil. The day appears by piercing through the curtain of the night. The drops of rain pierce through the clouds and fall on the earth. In short, everything in the world comes into being as a result of breaking and splitting another thing; so much so that the earth and the heavens also in the beginning were one mass, then they were broken and parted. (Al-Anbiya': 30) . Thus, according to this meaning the word falaq is common to all creations. Now, if the first meaning is adopted, the verse would mean: "I seek refuge with the Lord of rising dawn", and according to the second meaning, it would mean: "I seek refuge with the Lord of all creation." Here the attribute of "Rabb" has been used for Allah instead of His proper Name, for Allah's attribute of being Rabb, i. e. Master, Sustainer and Providence, is more relevant to seeking and taking of His refuge. Then, if Rabbtrl-falaq implies Lord of the rising dawn, seeking His refuge would mean: "I seek refuge with the Lord Who brings out the bright daylight from the darkness of night so that He may likewise bring well-being for me from all kinds of physical and psychical dangers." If it is taken to mean Rabb al-khalaq the meaning would be: "1 seek refuge with the Lord of all creation, so that He may protect me from the evil of His creation."
سورة الفلق حاشیہ نمبر : 1 چونکہ قُلْ ( کہو ) کا لفظ اس پیغام کا ایک حصہ ہے جو تبلیغ رسالت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے ، اس لیے اگرچہ اس ارشاد کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ، مگر آپ کے بعد ہر مومن بھی اس کا مخاطب ہے ۔ سورة الفلق حاشیہ نمبر : 2 پناہ مانگنے کے فعل میں لازم تین اجزاء شامل ہوتے ہیں ۔ ایک بجائے خود پناہ مانگنا ۔ دوسرے پناہ مانگنے والا ۔ تیسرا وہ جس کی پناہ مانگی جائے ۔ پناہ مانگنے سے مراد کسی چیز سے خوف محسوس کر کے اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے کسی دوسرے کی حفاظت میں جانا ، یا اس کی آڑ لینا ، یا اس سے لپٹ جانا یا اس کے سایہ میں چلا جانا ہے ۔ پناہ مانگنے والا بہرحال وہی شخص ہوتا ہے جو محسوس کرتا ہے کہ جس چیز سے وہ ڈر رہا ہے اس کا مقابلہ وہ خود نہیں کرسکے گا بلکہ وہ اس کا حاجت مند ہے کہ اس سے بچنے کے لیے دوسرے کی پناہ لے ۔ پھر جس کی پناہ مانگی جاتی ہے وہ لازما کوئی ایسا ہی شخص یا وجود ہوتا ہے جس کے متعلق پناہ لینے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس خوفناک چیز سے وہی اس کو بچا سکتا ہے ۔ اب پناہ کی ایک قسم تو وہ ہے جو قوانین طبعی کے مطابق عالم اسباب کے اندر کسی محسوس مادی چیز یا شخص یا طاقت سے حاصل کی جاتی ہے ۔ مثلا دشمن کے حملہ سے بچنے کے لیے کسی قلعہ میں پناہ لینا ، یا گولیوں کی بوجھاڑ سے بچنے کے لیے خندق یا کسی دمدمے یا کسی دیوار کی آڑ لینا ، یا کسی طاقتور ظالم سے بچنے کے لیے کسی انسان یا قوم یا حکومت کے پاس پناہ لینا ، یا دھوپ سے بچنے کے لیے کسی درخت یا عمارت کے سایہ میں پناہ لینا ۔ بخلاف اس کے دوسری قسم وہ ہے جس میں ہر طرح کے خطرات کی مادی ، اخلاقی یا روحانی مضرتوں اور نقصان رساں چیزوں سے کسی فوق الفطری ہستی کی پناہ اس عقیدے کی بنا پر مانگی جاتی ہے کہ وہ ہستی عالم اسباب پر حکمراں ہے اور بالا تر از حس و ادراک طریقے سے وہ اس شخس کی ضرور حفاظت کرسکتی ہے جو اس کی پناہ ڈھونڈ رہا ہے ۔ پناہ کی یہ دوسری قسم ہی نہ صرف سورہ فلق اور سورہ ناس میں مراد ہے بلکہ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد یہی خاص قسم کی پناہ ہے ۔ اور عقیدہ توحید کا لازمہ یہ ہے کہ اس نوعیت کا تعوذ یا استعاذہ ( پناہ مانگنا ) اللہ کے سوا کسی اور سے نہ کیا جائے ۔ مشرکین اس نوعیت کا تحفظ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں مثلا جنوں یا دیویوں اور دیوتاؤں سے مانگتے تھے اور آج بھی مانگتے ہیں ۔ مادہ پرست لوگ اس کے لیے بھی مادی ذرائع و وسائل ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ، کیونکہ وہ کسی فوق الفطری طاقت کے قائل نہیں ہیں ۔ مگر مومن ایسی تمام آفات و بلیات کے مقابلے میں جن کو دفع کرنے پر وہ خود اپنے آپ کو قادر نہیں سمجھا ، صرف اللہ کی طرف رجوع کرتا اور اسی کی پناہ مانگتا ہے ، مثال کے طور پر مشرکین کے متعلق قرآن میں بیان کیا گیا ہے: وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ ۔ اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے ۔ ( الجن6 ) اور اس کی تشریح کرتے ہوئے ہم سورہ جن حاشیہ 7 میں حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت نقل کرچکے ہیں کہ مشرکین عرب کو جب رات کسی سنسان وادی میں گزارنی پڑتی تو وہ پکار کر کہتے ہم اس وادی کے رب کی ( یعنی اس جن کی جو اس وادی پر حکمران ہے یا اس وادی کا مالک ہے ) پناہ مانگتے ہیں ۔ بخلاف اس کے فرعون کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ حضرت موسی کی پیش کردہ عظیم نشانیوں کو دیکھ کر فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا ۔ ( الذاریات ، 39 ) لیکن خدا پرستوں کا رویہ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا بھی وہ خوف محسوس کرتے ہیں ، خواہ وہ مادی ہو یا اخلاقی یا روحانی ، اس کے شر سے بچنے کے لیے وہ خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت مریم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ جب اچانک تنہائی میں خدا کا فرشتہ ایک مرد کی شکل میں ان کے سامنے آیا ( جبکہ وہ نہ جانتی تھیں کہ یہ فرشتہ ہے ) تو انہوں نے کہا قَالَتْ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِيًّا ۔ اگر تو خدا سے ڈرنے والا آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں ( مریم 18 ) حضرت نوح نے جب اللہ تعالی سے ایک بے جا دعا کی اور جواب میں اللہ کی طرف سے ان پر ڈانٹ پڑی تو انہوں نے فورا عرض کیا رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ ۔ میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے ایسی چیز کی درخواست کروں جس کا مجھے علم نہیں ( ہود 47 ) حضرت موسی نے جب بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں ( البقرہ 67 ) یہی شان ان تمام تعوذات کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتب حدیث میں منقول ہوئے ہیں ۔ مثال کے طور پر حضور کی حسب ذیل دعاؤں کو ملاحظہ کیجے: عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول فی دعائہ اللھم انی اعوذبک من شر ما عملت ومن شر ما لم اعمل ( مسلم ) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں ان کاموں کے شر سے جو میں نے کیے اور ان کاموں کے شر سے جو میں نے نہیں کیے ( یعنی اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کے برے نتیجے سے پناہ مانگتا ہوں ، اور اگر کوئی کام جو کرنا چاہیے تھا میں نے نہیں کیا تو اس کے نقصان سے بھی پناہ مانگتا ہوں ، یا اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ جو کام نہ کرنا چاہیے وہ میں کبھی کر گزروں ) عن ابن عمر کان من دعاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم انی اعوذبک من زوال نعمتک ، وتحول عافیتک ، وفجأۃ نقمتک و جمیع سخطک ۔ ( مسلم ) ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تیری جو نعمت مجھے حاصل ہے وہ چھن جائے ، اور تجھ سے جو عافیت مجھے نصیب ہے وہ نصیب نہ رہے ، اور تیرا غضب یکایک ٹوٹ پڑے ، اور پناہ مانگتا ہوں تیری ہر طرح کی ناراضی سے ۔ عن زید بن ارقم کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوۃ لا یستجاب ( مسلم ) زید بن ارقم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نافع نہ ہو ، اس دل سے جو تیرا خوف نہ کرے ، اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو ، اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے ۔ عن ابی ھریرۃ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من الجوع فانہ بئس الضجیع و اعوذبک من الخیانۃ فانہ بئست الطانۃ ۔ ( ابو داؤد ) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کیونکہ وہ بدترین چیز ہے جس کے ساتھ کوئی رات گزارے ، اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ وہ بڑی بد باطنی ہے ۔ عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول اللھم انی اعوذبک من البرص والجنون والجذام وسیء الاسقام ( ابوداؤد ) حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں کوڑھ اور جنون اور جذام اور تمام بری بیماریوں سے ۔ عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یدعو بھؤلاء الکلمات اللھم انی اعوذبک من فتنۃ النار ومن شر الغنی والفقر ( ترمذی و ابو داؤد ) حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضور ان کلمات کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے فتنے سے اور مالداری اور مفلسی کے شر سے ۔ عن قطبۃ بن مالک کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من منکرات الاخلاق والاعمال والاھواء ( ترمذی ) قطبہ بن مالک کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں برے اخلاق اور برے اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں شکل بن حمید نے حضور سے عرض کیا مجھے کوئی دعا بتائیے ۔ فرمایا کہو: اللھم انی اعوذبک من شر سمعی و من شر بصری و من شر لسانی ومن شر قلبی و من منیی ۔ ( ترمذی و ابوداؤد ) خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنی سماعت کے شر سے ، اور اپنی بصارت کے شر سے ، اور اپنی زبان کے شر سے ، اور اپنے دل کے شر سے ، اور اپنی شہوت کے شر سے ۔ عن انس بن مالک کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من العجز والکسل والجبن والھرم والبخل و اعوذبک من عذاب القبر من فتنۃ المحیا والممات ( وفی روایۃ لمسلم ) و ضلع الدین و غلبۃ الرجال ( بخاری و مسلم ) انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سستی اور بزدلی اور بڑھاپے اور بخ سے ، اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب اور زندگی و موت کے فتنے سے ( اور مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے ) اور قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ پر غالب ہوں ۔ عن خولۃ بنت حکیم السلمیۃ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من نزل منزلا ثم قال اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق لم یضرہ شیء حتی یرتحل من ذلک المنزل ( مسلم ) خولہ بنت حکیم سلمیہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی نئی منزل پر اترے اور یہ الفاظ کہے کہ میں اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ مانگتا ہوں مخلوقات کے شر سے ، تو اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ اس منزل سے کوچ کر جائے ۔ یہ حضور کے چند تعوذات بطور نمونہ ہم نے احادیث سے نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا کام ہر خطرے اور شر سے خدا کی پناہ مانگنا ہے نہ کہ کسی اور کی پناہ ، اور نہ اس کا یہ کام ہے کہ خدا سے بے نیاز ہوکر وہ اپنے آپ پر بھروسہ کرے ۔ سورة الفلق حاشیہ نمبر : 3 اصل میں لفظ رَبِّ الْفَلَقِ استعمال ہوا ہے ۔ فلق کے اصل معنی پھاڑنے کے ہیں ۔ مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سے مراد رات کی تاریکی کو پھاڑ کر سپیدی صبح نکالنا لیا ہے کیونکہ عربی زبان میں فلق الصبح کا لفظ طلوع صبح کے معنی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے ، اور قرآن میں بھی اللہ تعالی کے لیے فالق الاصباح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی وہ جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح نکالتا ہے ( الانعام 96 ) فلق کے دوسرے معنی خلق بھی لیئے گئے ہیں ، کیونک دنیا میں جتنی چیزیں بھی پیدا ہوتی ہیں وہ کسی نہ کسی چیز کو پھاڑ کر نکلتی ہیں ۔ تمام نباتات بیج اور زمین کو پھاڑ کر اپنی کونپل نکالتے ہیں ۔ تمام حیوانات یا تو رحم مادر سے برآمد ہوتے ہیں ، یا انڈا توڑ کر نکلتے ہیں ، یا کسی اور مانع ظہور چیز کو چیر کر باہر آتے ہیں ۔ تمام چشمے پہاڑ یا زمین کو شق کر کے نکلتے ہیں ۔ دن رات کا پردہ چاک کر کے نمودار ہوتا ہے ، بارش کے قطرے بادلوں کو چیر کر زمین کا رخ کرتے ہیں ، غرض موجودات میں سے ہر چیز کسی نہ کسی طرح کے انشقاق کے نتیجے میں عدم سے وجود میں آتی ہے ، حتی کہ زمین اور سارے آسمان بھی پہلے ایک ڈھیر تھے جس کو پھاڑ کر انہیں جدا جدا کیا گیا ، كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ( الانبیاء 30 ) پس اس معنی کے لحاظ سے فلق کا لفظ تمام مخلوقات کے لیے عام ہے ۔ اب اگر پہلے معنی لیے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ میں طلوع صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں ۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو مطلب ہوگا میں تمام خلق کے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔ اس جگہ اللہ تعالی کا اسم ذات چھوڑ کر اس کا اسم صفت رب اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ پناہ مانگنے کے ساتھ اللہ تعالی کے رب یعنی مالک و پروردگار اور آقا و مربی ہونے کی صفت زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ پھر رَبِّ الْفَلَقِ سے مراد اگر طلوع صبح کا رب ہو تو اس کی پناہ لینے کے معنی یہ ہوں گے کہ جو رب تاریکی کو چھانٹ کر صبح روشن نکالتا ہے میں اس کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ آفات کے ہجوم کو چھانٹ کر میرے لیے عافیت پیدا کردے ، اور اگر اس سے مراد بِرَبِّ خَلق ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ میں ساری خلق کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ اپنی مخلوق کے شر سے مجھے بچائے ۔
1: قرآنِ کریم کی یہ آخری دوسورتیں مُعوَّ ذتین کہلاتی ہیں، یہ دونوں سورتیں اُس وقت نازل ہوئی تھیں جب کچھ یہودیوں نے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم) پر جادو کرنے کی کوشش کی تھی، اور اُس کے کچھ اثرات آپ پر ظاہر بھی ہوئے تھے۔ ان سورتوں میں آپ کو جادُو ٹونے سے حفاظت کے لئے ان الفاظ میں اللہ تعالے کی پناہ ما نگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، اور کئی احادیث سے ثابت ہے کہ ان سورتوں کی تلاوت اور اُن سے دَم کرنا جادو کے اثرات دور کرنے کے لئے بہترین عمل ہے اور حضور نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) رات کو سونے سے پہلے ان سورتوں کی تلاوت کرکے اپنے مبارک ہاتھوں پر دم کرتے اور پھر ان ہاتھوں کو پورے جسم پر پھیر لیتے تھے۔
١۔ ٥۔ عقبہ بن عامر سے صحیح ٩ ؎ مسلم ترمذی نسائی وغیرہ میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آج کی رات خدا تعالیٰ نے چند آیتیں نازل فرمائی ہیں جو مجھ کو بہت ہی اچھی معلوم ہوتی ہیں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ان دونوں سورتوں کا نام بتایا۔ اس حدیث سے ان دونوں سورتوں کی فضیلت بھی معلوم ہوئی اور یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ قرآن کی اور آیتوں کی طرح یہ دونوں سورتیں بھی قرآن کا جز ہیں اسی واسطے اور حدیثوں سے یہ بھی معلوم ١ ؎ ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں سورتوں کو صبح کی نماز میں پڑھا ہے ان حدیثوں سے حضرت عبد اللہ بن مسعود کے اس قول کا ضعیف ہونا ثابت ہوتا ہے کہ وہ ان دونوں سورتوں کو قرآن کی سورتوں میں شمار نہیں کرتے تھے پھر جب اور صحابہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود کے اس قول کو صحیح نہیں قرار دیا تو آخر عبد اللہ بن مسعود نے بھی اپنے اس قول سے رجوع اختیار کیا۔ ترمذی ٢ ؎ نسائی مستدرک حاکم میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نظر لگ جانے کا علاج آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں سورتوں کے نازل ہونے سے پہلے اور دعائوں سے کیا کرتے تھے جب یہ دونوں سورتیں اتری تو انہی کو نظر والے شخص پر پڑھ کر دم کیا کرتے تھے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے موطا وغیرہ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیمار ہوتے تھے تو ان ہی دونوں سورتوں کو پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے تھے اصل اس حدیث کی صحیحین ٣ ؎ میں بھی ہے ان دونوں سورتوں کے شان نزول کی رواییں جو حضرت عائشہ (رض) سے اور حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اور انس (رض) سے صحیحین ٤ ؎ وغیرہ میں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ لبیدبن عاصم نے جب اپنی بیٹیوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کرایا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں دو فرشتوں نے اس جادو کا حال بتایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ بالوں اور کچھ کنگھی کے دندانوں پر یہ جادو کیا گیا ہے اور ذروان کا کنواں جو مشہور ہے وہاں یہ جادو کی چیزیں ایک پتھر کے نیچے ہیں جب یہ چیزیں منگوائی گئیں تو معلوم ہوا کہ سر کے بالوں اور ایک تانت کے ٹکڑے میں گیارہ گرہ بھی لگائی گئی تھیں غرض اسی وقت یہ گیارہ آیتوں کی دونوں سورتیں نازل ہوئیں اور ہر ایک آیت کے پڑھنے کے ساتھ ہی جادو کی ایک ایک گرہ گھل گئی اور دونوں سورتوں کے ختم ہوتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جادو کا اثر جاتا رہا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندرست ہوگئے یہ لبید بن عاصم منافق تھا یہود سے بھائی چارہ رکھتا تھا۔ ایک یہود کا لڑکا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا یہود نے اس کو بلایا اور اس کی معرفت وہ آپ کے کنگھی کے دندانے اور بال منگوائے تھے جب یہ سب حال کھل گیا تو صحابہ نے چاہا کہ لبید بن عاصم وغیرہ سے اس کا بدلہ لیا جائے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع کیا اور فرمایا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی اب کسی سے بدلہ لینے کی ضرورت نہیں اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا اثر حقیقی طور پر دنیا میں ہوتا ہے فرقہ معتزلہ اس کا مخالف ہے کیونکہ وہ لوگ جادو کے اثر کو خیالی بتاتے ہیں مگر اہل سنت نے اپنے مذہب کو بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ثابت کیا ہے کوئی آیت پڑھ کر دم کرنے کو یا منتر کے طور پر کوئی آیت یا حدیث پڑھنے کو یا ایسا کوئی منتر جس میں شرک کے لفظ نہ ہوں عمل میں لانے کو اکثر صحابہ اور تابعین نے جائز رکھا ہے صحیح حدیثوں سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے۔ چناچہ قل ھو اللہ احد۔ اعوذ برب الفلق ‘ قل اعوذ برب الناس یہ تینوں سورتیں پڑھ کر بیمار آدمی پر دم کرنے کی حضرت عائشہ کی حدیث صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم میں ہے۔ صحیح ٢ ؎ مسلم اور ابو داؤد میں عوف بن مالک کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کو جس منتر میں شرک کا لفظ نہ ہو اس کا کچھ ڈر نہیں ہے اسی طرح مسلم ٣ ؎ کی روایت میں حضرت جابر (رض) سے بچھو کے ایک منتر کے لفظ سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اجازت دے دی۔ یہ بھی بعض علماء کا قول ہے کہ سوت کے گنڈے پر کوئی مباح کلام پڑھ کر یا تعویذ کے طور سے کسی کاغذ پر کوئی مباح کلام لکھ کر گلے میں ڈالا جائے یا بازو پر باندھا جائے تو کچھ حرج نہیں ہے کیونکہ جس کا پڑھ کر دم کرنا جائز ہے اس کا پاس رکھنا بھی جائز ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس گنڈے اور تعویذ کو منع فرمایا ہے جس میں جاہلیت کی عادت کے موافق اللہ کے نام کے ساتھ شیاطین کے نام بھی ملائے جاتے تھے اس طرح کا منتر گنڈا تعویذ سب ناجائز ہے اور کلام مباح کا منتر جس طرح اوپر کی صحیح حدیثوں کے موافق جائز ہے اسی طرح گنڈا تعویذ بھی جائز ہونا چاہئے کیونکہ کلام مباح کے گنڈے تعویذ کی ممانعت شریعت سے پائی نہیں جاتی۔ بعضی آیتوں وغیرہ کا عدد نکال کر ہندسوں کی صورت میں جو بعض لوگ تعویذ لکھتے ہیں ان کے جائز ہونے میں تردد ہے کس لئے کہ عددوں سے اصل چیز کا حال دریافت کرنا اور پھر اس کے معنی کا سمجھنا دشوار ہے حالانکہ سلف نے یہ قید لگائی ہے کو جس کلام کے معنی کے سمجھنے میں کچھ دشواری نہ ہو اس سے منتر وغیرہ جائز ہے اور یہی مطلب عوف بن مالک اور جابر کی حدیثوں کا بھی ہے صبح کے رب سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح رات کے بعد صبح کے آنے سے سب لوگ نیند سے اٹھ کر چونچال ہوجاتے ہیں اسی طرح پناہ مانگنے والا شخص جادو اور ہر طرح کی بیماری کا اثر زائل ہو کر چونچال ہوجائے ہر چیز کی بدی میں شیطان کی بدی اور ہر طرح کی موذی شے کی بدی داخل ہے اندھیرے میں چاند گہن کا اندھیرا رات کا اندھیرا سب داخل ہے۔ اندھیرے میں جادو کا اثر بڑھ جاتا ہے اور طرح طرح کے موذی جانور اندھیرے میں نکلتے ہیں اس لئے اندھیرے سے پناہ مانگنے کا ذکر فرمایا۔ گرہوں میں پھونکیں مارنے والی عورتوں سے مطلب جادوگرنیاں ہیں جیسے لبید بن عاصم کی بیٹیاں یا اور جادوگر عورتیں ‘ عورتوں کا مکر اور جادو مشہور ہے اس لئے ان کے جادو سے پناہ مانگنے کا ذکر فرمایا۔ یہاں ہونسنے والوں سے خاص مراد تو یہود ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو ہونستے تھے کہ بنی اسماعیل میں یہ نبوت کیوں آگئی لیکن عام ٹوکنے والے بھی اس میں داخل ہیں۔ (٩ ؎ صحیح مسلم باب فضل قراء ۃ معوذتین ص ٢٧٢ ج ١۔ ) (١ ؎ الترغیب و الزہیب الترغیب فی قراءۃ المعوذتین ص ٦٥٠ ج ٢۔ ) (٢ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی الرقیۃ بالمعوذین ص ٣٥ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب استحباب رقیۃ المریض ص ٢٢٢ و ٢٢٣ ج ٢ و صحیح بخاری ص ٨٥٤ ج ٢۔ ) (٤ ؎ صیحح مسلم باب السحر ص ٢٢١ ج ٢ و صحیح بخاری باب لسحر ص ٨٥٨ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری۔ باب النفث فی الرقیۃ ٨٥٥ ج ٢۔ ) ( ) ٢ ؎ صحیح مسلم باب استحباب الرقیۃ من العین الخ ٢٢٤ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب استحباب الرقیۃ من العین الخ ٢٢٤ ج ٢۔ )
(113:1) قل اعوذ برب الفلق : قل فعل امر واحد مذکر حاضر۔ قول (باب نصر) مصدر سے تو کہہ۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ تو یوں دعا مانگ) ۔ چونکہ قل کا لفظ اس پیغام کا ایک حصہ ہے جو تبلیغ رسالت کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے۔ اس لئے اگرچہ اس ارشاد کے اولین مخاطب تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں مگر آپ کے بعد ہر مومن بھی اس کا مخاطب ہے۔ اعوذ : مضارع کا صیغہ واحد متکلم عوذ (باب نصر) مصدر سے جس کے معنی دوسرے سے التجاء کرنے، اس سے متعلق ہونے اور پناہ مانگنے کے ہیں۔ میں پناہ چاہتا ہوں۔ برب الفلق ب جار متعلق باعوذ ۔ رب الفلق مضاف مضاف الیہ۔ صبح کا رب۔ (پروردگار) میں پناہ چاہتا ہوں صبح کے رب کی۔ رب الفلق کی تشریح میں صاحب تفہیم القرآن رقم طراز ہیں :۔ فلق کے اصل معنی پھاڑنے کے ہیں مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سے مراد رات کی تاریکی کو پھاڑ کر سپیدہ صبح نکالنا لیا ہے کیونکہ عربی زبان میں فلق الصبح کا لفظ طلوع صبح کے معنی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے اور قرآن میں اللہ تعالیٰ کے لئے فالق الاصباح کا لفظ استعمال ہوا ہے (یعنی وہ جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح نکالتا ہے۔ (6:96) اور فلق کے دوسرے معنی خلق کے بھی لئے گئے ہیں کیونکہ دنیا میں جتنی چیزیں بھی پیدا ہوئی ہیں وہ بھی کسی نہ کسی چیز کو پھاڑ کر ہی نکلتی ہیں تمام نباتات بیج اور زمین کو پھاڑ کر اپنی کونپل نکالتے ہیں تمام حیوانات یا تو رحم مادر سے برآمد ہوتے ہیں یا انڈہ توڑ کر نکلتے ہیں یا کسی اور مانع ظہور چیز کو چیر کر باہر آتے ہیں۔ تمام چشمے پہاڑ یا زمین کو شق کرکے نکلتے ہیں ۔ دن رات کا پردہ چاک کرکے نمودار ہوتا ہے بارش کے قطرے بادلوں کو چیر کر زمین کا رخ کرتے ہیں۔ غرض موجودات میں سے ہر چیز کسی نہ کسی طرح کے انشقاق کے نتیجے میں عدم سے وجود میں آتی ہے۔ حتی کہ زمین اور سارے آسمان بھی پہلے ایک ڈھیر تھے جس کو پھاڑ کر ان کو جدا جدا کیا گیا۔ کانتا رتقا ففتقنھما (21:30) پس اس معنی کے لحاظ سے فلق کا لفظ تمام مخلوقات کے لئے عام ہے۔ اب اگر پہلے معنی لئے جاویں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ :۔ میں طلوع صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں۔ اور اگر دوسرے معنی لئے جاویں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا :۔ میں تمام مخلوق کے رب کی پناہ لیتا ہوں۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا اسم ذات چھوڑ کر اس کا اسم صفت ” رب “ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ پناہ مانگنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ” رب “ یعنی مالک و پروردگار اور آقاو مربی ہونے کی صفت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ پھر رب الفلق سے مراد اگر طلوع صبح کا رب ہو تو اس کی پناہ لینے کے معنی یہ ہوں گے کہ :۔ جو رب تاریکی کو چھانٹ کر صبح روشن نکالتا ہے میں اس کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ آفات کے ہجوم کو چھانٹ کر میرے لئے عافیت پیدا کر دے۔ اور اگر اس سے مراد رب خلق ہو تو معنی یہ ہوں گے :۔ کہ میں ساری خلق کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ اپنی مخلوق کے شر سے مجھے بچالے۔
ف 1 بیعض روایات میں ہے کہ فلق دوزخ کے ایک کنوئیں کا نام ہے۔ (فتح القدیرض)
سورة الفلق۔ آیات ١ تا ٥۔ اسرار ومعارف۔ فرمادیجئے پناہ مانگتا ہوں اس رب کی جو تاریکی دور کرکے صبح پیدا کرتا ہے ہراس شے جو اس نے پیدا کی ہے برائی اور شر سے اور اندھیرے کے شر سے جب وہ یکجا ہونے لگے اور عورتوں کی گروہوں میں پھونک مارنے کی شر یعنی جادوٹونے کے شر سے کہ شیطانی عملیات سے کوئی نقصان نہ پہنچے اور حسد کرنے والوں کے حسد کے شر سے ۔
لغات القرآن۔ الفلق۔ صبح۔ شر۔ برائی۔ غاسق ۔ سیاہ رات۔ وقب۔ چھا گیا۔ النفثت۔ پھونکنے والیاں۔ العقد۔ گرہیں۔ حاسد۔ حسد کرنے والا۔ جلنے والا۔ اصل میں ہمارے دین نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اس میں اس بنیادی بات کو سکھایا گیا ہے کہ اللہ نے نفع اور نقصان کا اختیار کسی کو نہیں دیا۔ نفع اور نقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا ہر آن اسی سے پناہ کی درخواست کرتے رہنا چاہیے ۔ اگر کوئی اس کی پناہ اور حفاظت میں آجائے تو وہ دنیا اور آخرت کے ہر طرح کے نقصانات سے بچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة الفلق اور سورة الناس میں اسی بات کو ارشاد فرمایا ہے یعنی یہودیوں اور لبید ابن عصیم نے سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شدید نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ لوگ اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) براہ راست اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ہیں۔ کوئی آپ کو یا اسلامی تعلیمات کو نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ سورۃ الفلق اور سورة الناس کی گیارہ آیتوں میں قیامت تک آنے والی ہر مسلمان کو اس بات کی تقلین کی گئی ہے کہ اگر انسان کسی کی پناہ میں محفوط رہ سکتا ہے تو وہ صرف اللہ کی پناہ ہے۔ اس کے علاوہ کسی سے پناہ نہیں مانگنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا 1۔ فلق کے معنی پھٹنا، رات کو پوپھٹنا، دانے اور گٹھلی کا پھٹنا۔ رات کے بعد جب پوپھٹ کر صبح کو نکالتا ہے۔ یعنی رات کی تاریکی اور دن کی روشنی جس کے اختیار میں ہے اسی رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ (4) ومن شر النفثت فی العقد : اور گرہوں میں پھونکنے والیاں یعنی جادو کے منتر پڑھنے والیاں جب وہ اپنے منتر پڑھتی ہیں جس طرح لبید ابن اعصم اور اس کی بہنوں نے منتر پڑھ کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر جس کا محافظ اللہ ہو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ (5) ومن شر حاسد اذا حسد : منافقین، کفار و مشرکین، یہود اور نصاری جو آپ کی اور آپ کے صحابہ کی ترقیات اور عظمتوں سے حسد کرتے اور جلتے تھے فرمایا کہ جب آپ اللہ کی پناہ لے لیں گے تو کسی حاسد کا حسد، کسی جلنے والے کی جلن سے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ واخر دعواناں ان الحمد للہ رب العالمین
فہم القرآن ربط سورت : الاخلاص میں یہ بتایا گیا ہے کہ ” اللہ “ وہ ہے جو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک ہے، کوئی کسی اعتبار اور کسی درجے میں اس کی برابری نہیں کرسکتا، گویا کہ وہ حاکم مطلق ہے باقی محکوم ہیں، وہ بادشاہ ہے باقی اس کے در کے فقیر ہیں، وہ طاقتور ہے ہر کوئی اس کے سامنے عاجز اور بےبس ہے کیونکہ وہ طاقتور اور بادشاہ ہے اس لیے اسی کی پناہ طلب کرنی چاہیے۔ عقیدۂ توحید کے تقاضوں میں اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ صرف ایک ” اللہ “ جو پوری مخلوق کا رب ہے اسی کو نفع و نقصان کا مالک سمجھا جائے اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا ہے کہ آپ ان الفاظ میں اپنے رب کی پناہ طلب کیا کریں کہ میں صبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں اور ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ رات کے اندھیرے کے شر سے جب وہ ہر چیز پر چھا جاتا ہے اور گرہوں میں پھونکیں مارنے والی عورتوں کے شر سے اور حاسد کے حسد سے جب وہ حسد کرتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” قُلْ “ کا حکم دے کر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اللہ کے رسول بھی اپنے رب کی حفاظت اور نگرانی کے محتاج تھے جس طرح دوسرے انسان اور مخلوق اپنے رب کی حفاظت کی محتاج ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مخلوق کو پناہ دینے والا صرف ایک ” اللہ “ ہے وہ پناہ نہ دے تو کسی کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے، وہی جن وانس اور پوری مخلوق کو پیدا کرنے اور پناہ دینے والا ہے۔ ” ربِّ الْفَلَقْ “ کا معنٰی ہے پھاڑنے والا۔” ربِّ الْفَلَقْ “ کی صفت لانے کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں ” رب “ وہ ذات ہے جو غم اور خوف کے پردے چاک کرتا اور ہر قسم کی مشکلات دور فرما کر اپنے بندے کی حفاظت کرتا ہے۔ 2 ۔ وہی ہے جس نے ہر چیز کا آغاز پھاڑنے کے عمل سے کیا ہے۔ انسان اور چوپائے کا بچہ رحم مادر اور جانور کا بچہ انڈے کو پھاڑ کر نکلتا ہے، نباتات زمین کے سینے کو چیر کر نکلتی ہیں، بارش بادلوں کو پھاڑ کر نازل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بھی ایک دوسرے سے پھاڑ کر الگ کیا ہے۔ ( الانبیاء : ٣٠) اور قیامت کے دن مردے بھی زمین کے پھٹنے سے باہر نکلیں گے : (اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰی یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ۔ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَ جَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ) (الانعام : ٩٥، ٩٦) ” بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے یہی اللہ ہے پھر تم کہاں بہکائے جاتے ہو ؟ صبح کو نکالنے والا ہے اور اس نے رات کو آرام اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا یہ نہایت غالب، اور سب کچھ جاننے والے کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔ “ رب ” اللہ “ کی وہ صفت اور نام ہے جس کا پہلی وحی میں یوں تعارف کروایا گیا۔ (اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ) (العلق : ١) ” اس رب کے نام سے پڑھیں جس نے انسان کو خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔ “ یہی وہ صفت ہے جسے الفاتحہ کی ابتدا میں رکھا گیا ہے گویا کہ قرآن کی ابتدا اور انتہاء اسی صفت پر ہو رہی ہے حقیقت یہ ہے کہ جس نے اپنے رب کو پہچان لیا وہ اپنے رب کا باغی نہیں ہوسکتا۔ پھاڑنے کی حقیقی قوت صرف ایک ” رب “ کے پاس ہے۔ اس لیے انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہر دم اپنے رب کی پناہ طلب کیا کرے۔ ” عُوْذٌ“ چوپائے کے اس بچے کو کہتے ہیں جسے رحم مادر سے نکلنے کے بعد چلنے میں دشواری پیش آتی ہے، اس وجہ سے وہ لڑکھڑاکر گرتا اور اٹھتا ہے۔ ” عُوْذٌ“ کا لفظ لا کر یہ بتلا یا ہے کہ اے انسان ! تو شیطان اور مخلوق کی شر کے مقابلے میں اس طرح ہی کمزور ہے جس طرح چوپائے کا بچہ پیدا ہونے کے وقت لاغر اور کمزور ہوتا ہے۔ شر کی نسبت مخلوق کی طرف اس لیے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان سمیت جو بھی چیز پیدا کی ہے اس میں منفی اور مثبت صلاحیتیں رکھی ہیں۔ ان الفاظ میں یہ اشارہ ہے کہ انسان کو مخلوق کی مثبت صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاناچ اہیے اور اس کے شر سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے رب سے اس یقین کے ساتھ پناہ طلب کرنی ہے کہ کوئی چیز بذات خود نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان دے سکتی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس عقیدہ کی یوں ترجمانی فرمائی تھی : (عَنْ عَابِسِ ابْنِ رَبِےْعَۃَ (رض) قَالَ رَاَےْتُ عُمَرَ ےُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَےَقُوْلُ اِنِّیْ لَاَ عْلَمُ اَنَّکَ حَجَرٌ مَّا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا اَنِّیْ رَاَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےُقَبِّلُ مَا قَبَّلْتُکَ ) (رواہ البخاری : باب ما ذکر فی الحجر الاسود) ” حضرت عابس بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں میں نے حضرت عمر (رض) کو حجراسود چومتے دیکھا اور فرماتے ہوئے سُنا اے حجر اسود میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ تو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان دے سکتا ہے، اگر میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے بوسہ نہ دیتا۔ “ توحید کا عقیدہ اس قدر سادہ اور واضح ہونے کے باوجود شرک کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ وہ فوت شدگان اور مزارات ہی سے نہیں بلکہ بعض لوگ مزارات پر لگے ہوئے جھنڈوں اور مٹی کو بھی اپنے لیے برکت اور پناہ کا باعث سمجھتے ہیں، کچھ لوگوں نے پنج تن پاک کے نام پر اپنے مکانوں پر پنجے لگا رکھے ہیں کہ ان کی وجہ سے انہیں حفاظت اور برکت حاصل ہوتی ہے، یہاں تک کہ کمزور عقیدہ لوگ ہاتھ میں مخصوص کڑے پہنتے ہیں اور انگوٹھی کے نگینے کے لیے خاص قسم کے پتھر تلاش کرتے ہیں۔ یہ سب شیطان کے بہکانے کا نتیجہ ہے کہ جو ہر نیکی کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور انسان کو ہر قسم کی برائی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے عوذ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اکثر دعاؤں کو اعوذ سے شروع کرتے تھے۔ یہاں شیطان اور پوری مخلوق کے شر سے ” اللہ “ کے حضور پناہ مانگنے کے بعد ان مخصوص چیزوں کے شر سے بھی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جن سے انسان کو دوسری چیزوں کی نسبت نقصان پہنچنے کا جلد اندیشہ ہوتا ہے ان میں رات کا اندھیرا بھی شامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اندھیرے کے فوائد بھی ہیں لیکن اس میں شر بھی مضمر ہوتی ہے۔ ڈاکو اور چوراندھیرے میں ہی دوسرے کا گھر لوٹنے کے لیے دلیر ہوتے ہیں، کیڑے مکوڑے بھی رات کو نکلتے ہیں جادوگر بھی اندھیرے کو پسند کرتے ہیں اس لیے جادو، ٹونا کرنے والے کالے کپڑے پہنتے ہیں اور تاریک کمرے میں بیٹھ کر شیطانی عمل کرتے ہیں۔ شیطانی عمل کرنے والوں میں وہ عورتیں سب سے زیادہ لوگوں کے عقائد اور مال و جان کو نقصان پہنچاتی ہیں جو جادو کے ذریعے گرہوں میں پھونکیں مارتی ہیں۔ ٹونا، جادو کرنے والوں کے ساتھ وہ لوگ بھی معاشرے کا ناسور ہیں جو حسد کی وجہ سے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں : (عَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا کَانَ جُنْحُ اللَّیْلِ اَوْ اَمْسَیْتُمْ فَکُفُّوْا صِبْیَانَکُمْ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْتَشِرُ حِیْنَءِذٍ فَاِذَا ذَھَبَ سَاعَۃٌ مِّنَ اللَّیْلِ فَخَلُّوْھُمْ وَاَغْلِقُوا لْاَبْوَابَ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا وَاَوْکُوْا قِرَبَکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ وَخَمِّرُوْا اٰنِیَتَکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ وَلَوْ اَنْ تُعْرِضُوْا عَلَیْہِ شَیْءًا وَاطْفِءُوْا مَصَابِیْحَکُمْ ) (رواہ البخاری : باب خیر مال المسلم غنم یتبع بہا شعف الجبال) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب رات چھا جائے، یا مغرب ہوجائے، تو اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکو، کیونکہ اس وقت شیطان گھومنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو اپنے بچوں کو آزاد کردو، دروازے بند رکھو اور انہیں بند کرتے وقت بسم اللہ پڑھو ‘ کیونکہ شیطان بند دروازے نہیں کھولتا۔ بسم اللہ پڑھ کر مشکیزے کے منہ پر رسی باندھا کرو، اور اپنے برتنوں کو بسم اللہ پڑھ کر ڈھانپا کرو ‘ اگرچہ ان پر کوئی معمولی چیز ہی کیوں نہ رکھی جائے، نیز سوتے وقت چراغوں کو بجھا دیا کرو۔ “
اس سورت میں اللہ اپنی وہ صفات بیان فرماتا ہے ، جس کے ذریعہ اس شر سے پناہ حاصل ہوتی ہے ، جس کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔ قل اعوذ ................ الفلق (1:113) ” کہو ، میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی “۔ فلق کے معانی میں سے ایک معنی صبح کا ہے اور ایک معنی ” مخلوق “ کا بھی ہے۔ بایں معنی کہ ہر وہ چیز جس سے وجود اور زندگی پھوٹتی ہے جس طرح سورة انعام (95) میں کہا گیا ہے۔ ان اللہ فالق ........................................ من الحی (95:6) ” اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالنے والا ہے “۔ اور اگلی آیت (96) میں ہے۔ فالق الاصباح ............................ حسبانا (96:6) ” وہ صبح کو پھاڑ کر نکالنے والا ہے ، اس نے رات کو وجہ سکون بنایا۔ اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا “۔ اگر فلق کے معنی صبح کے لئے جائیں تو معنی یہ ہوں گے۔ صبح کے وہ رب جو روشنی پھیلا کر ہر چیز کو اس شر سے محفوظ کردیتا ہے جو اندھیروں میں مستور ہوتی ہے اور اگر فلق سے مراد مخلوق ہو تو معنی یہ ہوں گے۔ پناہ مانگتا ہوں مخلوق کے رب کی جو اپنی مخلوق کے شر سے پنا دینے والا ہے۔ لہٰذا دونوں صورتوں میں مفہوم بعد کے فقرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ من شرما خلق (2:113) ” ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی یعنی مطلق اور اجمالاً تمام مخلوق کے شر سے۔ اللہ کی مخلوقات میں سے بعض جب بعض سے ملتی ہیں تو اس اتصال سے بعض اوقات شر پیدا ہوتا ہے جبکہ بعض حالات میں مخلوقات کے ملاپ اور اتصال سے خیر اور نفع پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا بتایا جاتا ہے کہ مخلوق کے شر سے پناہ مانگو تاکہ خیر ہی خیر رہ جائے۔ اور اللہ کی ذات جو اس مخلوقات کی خالق ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اس کو ایسی راہ کی ہدایت دے اور ایسی تدابیر کرے کہ ان سے خیر نمودار ہو اور شر کا ظہور نہ ہو۔ ومن شر ................ وقب (3:113) ” اور رات کی تاریکی کے شر سے جب وہ چھا جائے “۔ غاسق کے لغوی معنی کودنے والے کے ہوتے ہیں اور وقب پہاڑ کے اس سوراخ کو کہتے ہیں جس سے پانی نکلتا ہے۔ یہاں غاسق سے مراد رات ہے یعنی رات اور اس میں جو چیزیں پائی جاتی ہیں یعنی وہ رات جب وہ پھوٹ کر زمین پر چھا جاتی ہے۔ یہ رات بذات خود خوفناک ہوتی ہے اور اس وقت اس کی خوفناکی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب اس میں ہر خفیہ اور نامعلوم خطرہ درپیش ہوسکتا ہے مثلاً کوئی وحشی درندہ حملہ آور ہوجائے ، کوئی چور گھس جائے۔ کوئی فریب دہندہ دشمن ہاتھ دکھاجائے۔ کوئی زہریلا مکوڑا اور سانپ کاٹ جائے۔ پھر رات کے وقت خیالات ووساوس انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ دکھ اور درد یاد آتے ہیں۔ شعور وجذبات اور خواہشات ومیلانات کی گھٹن زوروں پر ہوتی ہے ، اور تمام شیطانی قوتیں کھل جاتی ہیں اور ہر طرف سے برے اشارے ملتے ہی ، اور انسانی شہوت رات کو زوروں پر ہوتی ہے۔ غرض رات کے ہر ظاہری اور خفیہ بلائیں حملہ آور ہوتی ہیں کیونکہ اس وقت اندھیرے چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ومن شر .................... فی العقد (4:113) ” اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے “۔ گرہوں میں پھونکنے والیاں کون ہیں ؟ وہ جادوگرنیاں جو انسان حواس پر سحرانگیزی کرکے اذیت دیتی ہیں جو اعصاب کو دھوکہ دیتی ہیں ، انسانی نفس کو اشارات دیتی ہیں اور انسانی شعور کو متاثر کرتی ہیں ۔ جو دھاگوں میں گرہیں ڈالا کرتی تھیں اور ان میں پھونکا کرتی ہیں جیسا کہ جادوگروں کی عادت ہوتی ہے۔ جادو چیزوں کی حقیقت اور ماہیت نہیں بدل سکتا۔ نہ کوئی نئی حقیقت پیدا کرسکتا ہے البتہ احساس و شعور پر ایسی تخیلاتی حالت طاری ہوجاتی ہے جس طرح کہ جادوگرچاہتا ہے۔ جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے میں سورة طہ (65 تا 69) میں قرآن کریم اس کی تصویر کشی کی ہے۔ قالوا یموسی .................................... الساحر حیث اتی (65:20 تا 69) ” جادوگربولے : موسیٰ تم پہلے پھینکتے ہو یا ہم پہلے پھینکیں ؟ موسیٰ نے کہا : ” نہیں تم ہی پھینکو “۔ یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ، ان کے جادو کے زور سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہونے لگیں اور موسیٰ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ہم نے کہا مت ڈرو ، تو ہی غالب رہے گا ۔ پھینک جو تیرے ہاتھ میں ہے۔ ابھی ان کی ساری بناﺅٹی چیزوں کو نگل جاتا ہے۔ یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادو کا فریب ہے۔ اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا خواہ کسی شان سے وہ آئے “۔ ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں سانپ نہ بن گئے تھے۔ البتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور عوام نے یہ خیال کیا کہ یہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ ہیں۔ یہاں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے نفس میں ڈر گئے اور اللہ کی طرف سے ان کو تسلی دینے کی ضرورت پیش آئی ۔ لیکن حقائق اس وقت سامنے آئے جب عصائے موسیٰ فعلااژدھا بن گیا اور ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل گیا۔ یہ ہے حقیقت سحر اور ہمیں چاہئے کہ ہم اسے اسی طرح تسلیم کریں۔ اس طرح یہ جادو لوگوں پر اثر ڈالتا ہے اور جادوگروں کے اشارے کے مطابق لوگوں کے حواس کو متاثر کرتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات اور انسانی شعور میں خوف پیدا کرتا ہے اور لوگوں کو اذیت دیتا ہے۔ اور انسانی حواس اس طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جدھر جادو گر چاہتا ہے۔ جادو گری کی حقیقت بیان کرنے اور گرہوں میں پھونکنے کے مفعوم میں بس یہی کافی ہے۔ یہ ایک شر ہے جس سے بچنے کے لئے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی پناہ مانگو اور اللہ کی پناہ میں آجاﺅ۔ بعض روایات میں آتا ہے۔ ان میں سے بعض اگرچہ متواتر نہیں مگر صحیح ہیں کہ لبید بن اعصم یہودی نے مدینہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا ، بعض روایات میں آتا ہے کہ اس کا اثر چند دن تک رہا اور بعض میں آتا ہے کہ کئی مہینوں تک رہا۔ یہاں تک کہ آپ یہ خیال کرتے کہ آپ اپنی بیویوں کے پاس گئے ہیں حالانکہ آپ نہ گئے ہوتے تھے۔ اور بعض اوقات یوں محسوس کرتے کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے ، حالانکہ آپ نے نہ کیا ہوتا تھا ، جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے اور پھر یہ سورتیں اس جادو کے بتانے کے لئے جھاڑ پھونک کے لئے نازل ہوئیں اور جب جادو کی وہ چیز حاضر کرلی گئی اور اس پر یہ سورتیں پڑھی گئیں تو وہ گرہیں کھل گئیں اور وہ برا اثر ختم ہوگیا۔ جس طرح بعض روایات میں آتا ہے۔ لیکن یہ روایات عصمت انبیاء کے بنیادی عقیدے کے خلاف ہیں کہ آپ اپنے تمام افعال اور تبلیغ میں معصوم عن الخطاء ہیں۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال وافعال سنت اور شریعت ہیں۔ یہ روایات اس سے بھی متصادم ہیں۔ پھر قرآن نے صراحت سے اس الزام کی تردید کی ہے کہ آپ پر جادو کیا گیا ہے کیونکہ مشرکین یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ پر کسی نے جادو کردیا ہے تب آپ یہ باتیں کرتے ہیں۔ اس لئے ہمارے نزدیک یہ روایات مستعبد ہیں۔ پھر خبر واحد کے ساتھ عقائد کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ عقائد کا ماخذ قرآن ہے اور احادیث سے عقائد تب ہی ثابت ہوتے ہیں جب وہ تواتر کی حد تک پہنچ جائیں اور جن روایات کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے وہ متواتر نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ راجح قول یہ ہے کہ یہ سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں جس سے ان روایات کی بنیاد ہی کمزور ہوجاتی ہے۔ ومن شر .................... اذا حسد (5:113) ” اور حاسد کے شر کے لئے جب وہ حسد کرے “۔ حسد کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کے اوپر اللہ کا کرم دیکھ کر کوئی برا تاثر لے اور یہ خواہش کرے کہ اس بندے پر سے اللہ کی نعمت زائل ہوجائے۔ چاہے اس تاثر کے بعد حاسد اس بندے سے نعمتوں کے دور کرنے کے لئے سعی بھی کرے۔ یا محض ذہنی تاثر کی حد تک رک جائے کیونکہ اس تاثر کے بعد ممکن ہے کہ وہ اس بندے کے خلاف کوئی شر عملاً بھی اٹھائے۔ اس کائنات کے بعض اسرار ، نفس انسانی کے بعض راز اور جسم انسانی کے بعض رموز ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں ابھی تک ہمار علم نامکمل ہے۔ اس لئے ہمیں بہت سختی سے ان کا انکار نہیں کرنا چاہئے۔ بعض پراسرار واقعات ان میدانوں میں واقع ہوتے ہیں اور ہم ان کی ماہیت تک نہیں پہنچ سکتے۔ مثلاً دور سے خیالات کی منتقلی کا عمل ، جب دو افراد کے درمیان رابطہ ہوجاتا ہے ، ایسے روابط کی خبریں اس قدر تواتر سے آرہی ہیں کہ انسان ان میں شک نہیں کرسکتا ، کیونکہ اس پر بہت تجربات ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں اور جو معلومات ہمیں دستیاب ہیں ان کی کوئی معقول توجیہ بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ مثلاً مقناطیسی عمل تنویم جو آج کل مکرر تجربے میں آرہا ہے لیکن اس کے راز سے کوئی واقف نہیں ہے۔ دور سے خیالات کی منتقلی اور مقناطیسی عمل تنویم (ہپنائزم) کے علاوہ جسم انسانی اور انسانی نفسیات کے بہت افعال جن کی تہہ تک ابھی تک انسان نہیں پہنچا۔ حاسد جدوجہد کرتا ہے اور اپنے اس تاثر کو اس شخص کی طرف بطور شر منتقل کرتا ہے تو ہم اس آثار کی اس منتقلی کا محض اس لئے انکار نہیں کرسکتے کہ ہمارے علم اور ہمارے آلات تجربہ کی رو سے اس انتقال کی کیفیت کو ابھی سمجھ نہیں سکے۔ اس لئے کہ نفس انسانی کے بارے میں ہماری معلومات ابھی تک ابتدائی ہیں اور یہ قلیل علم جو ہمیں حاصل ہوا ہے وہ محض اتفاقی طور پر ہمیں حاصل ہوا ہے ۔ اس کو حقیقت کی شکل دینا ابھی تک باقی ہے۔ بہرحال حاسد کا شر ہوتا ہے اور اس سے اللہ کی پناہ مانگنا چاہیے اور اللہ کی حفاظت میں اپنے آپ کو داخل کرنا چاہئے۔ یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ وہ اپنے رسول کو ہدایت فرماتا ہے کہ وہ اللہ کی پناہ میں آئیں اور آپ کے واسطہ سے آپ کے بعد آنے والی پوری امت کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بھی اللہ کی پناہ میں آئے۔ جو ہر قسم کے شر سے پناہ گاہ فراہم کرنے والا ہے۔ امام بخاری نے ، اپنی سند کے ساتھ ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم جب رات بستر پر لیٹتے تو دونوں ہتھیلیوں کو ملالیتے ، پھر ان میں۔ قل ھو اللہ احد ........................ برب الناس (1:114) پڑھ کر پھونکتے۔ اور پھر پورے جسم پر ہتھیلیوں کو پھیرتے ، جہاں تک ممکن ہوتا ۔ سر اور چہرے سے شروع کرتے ، اور جسم کے سامنے کے حصے پر جس قدر ممکن ہوتا اور یہ عمل آپ تین بار کرتے۔ (اس حدیث کو اصحاب سنن نے اس طرح روایت کیا ہے ) ۔ ٭٭٭٭٭
سورة الفلق اور سورة الناس یہ دونوں سورتیں معوذتین کے نام سے معروف و مشہور ہیں بعض یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا تھا اس کی وجہ سے آپ کو بڑی تکلیف پہنچی۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بنی زریق کے یہودیوں میں سے ایک شخص نے جادو کردیا تھا جسے لبید بن اعصم کہا جاتا تھا اس کے اثر سے آپ کا یہ حال ہوگیا تھا کہ آپ کو یہ خیال ہوتا تھا کہ میں نے فلاں کام کیا ہے حالانکہ وہ کام ہوا نہیں تھا۔ یہاں تک کہ جب ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی پھر فرمایا کہ عائشہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتادیا ہے جو کچھ میں نے اپنے مرض کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا تھا میرے پاس (خواب میں) دو آدمی آئے ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے دریافت کیا کہ ان کو کیا تکلیف ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے، پھر اس نے پوچھا کہ کس نے جادو کیا ہے ؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے جادو کیا ہے، پھر دریافت کیا کہ کس چیز پر کیا ہے ؟ جواب دیا کہ کنگھی سے نکالے ہوئے بالوں پر اور کھجور کے پٹھوں پر جادو کیا ہے، پھر سائل نے دریافت کیا کہ یہ چیزیں کہاں ہیں ؟ جواب دیا کہ ذی اروان نامی کنویں میں ہیں۔ ام المومنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اس خواب کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چند صحابہ (رض) کے ساتھ تشریف لے گئے وہاں جا کر دیکھا کہ اس کنوئیں کا پانی ایسا رنگین ہوچکا ہے جیسے اس میں مہندی ڈال دی گئی ہو اور وہاں جو کھجور کے درخت تھے وہ ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے شیاطین کے سر ہوں۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ آپ نے ان چیزوں کو نکالا کیوں نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے عافیت دے دی تو مجھے یہ اچھا نہ لگا کہ لوگوں میں شر پھیلاؤں (یعنی مجھے اس کا چرچا ہونا پسند نہیں) لہٰذا میں نے اس کو دفن کردیا۔ (صحیح بخاری صفحہ ٨٥٨: ج ٢ و صحیح مسلم صفحہ ٢٢١: ج ١) حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا تھا اس کی وجہ سے چند دن آپ کو تکلیف رہی۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ فلاں یہودی نے آپ پر جادو کیا ہے، اس نے بالوں میں گرہیں لگا دی ہیں جو فلاں فلاں کنوئیں میں ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) کو بھیجا، انہوں نے اس میں سے ان بالوں کو نکالا جب آپ کی خدمت میں ان کو لایا گیا تو آپ اپنے مرض سے اس طرح شفایاب ہوگئے جیسے کوئی شخص رسی میں بندھا ہوا ہو پھر اس کو کھول دیا جائے اس یہودی سے اس بات کا تذکرہ نہیں فرمایا اور نہ اس کے بعد کبھی اسے اپنے سامنے دیکھا۔ (سنن نسائی تحت عنوان سحرۃ اہل الکتاب) تفسیر روح المعانی میں مذکور کنوئیں سے جب کھجوروں کا گچھا نکالا گیا تو اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنگھی بھی تھی اور مبارک بال بھی تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صورت شریفہ بھی جو موم سے بنائی گئی تھی اس میں سوئیاں گڑی ہوئی تھیں اور ان بالوں میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ﴿ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ٠٠١ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ٠٠١﴾ دونوں سورتیں لے کر حاضر خدمت ہوئے (ان دونوں سورتوں میں مجموعی طور پر گیارہ آیات ہیں) آپ ایک ایک آیت پڑھتے گئے اور ایک ایک گرہ کھولتے گئے اور سوئیاں بھی نکالتے گئے۔ آپ کو پوری طرح شفا حاصل ہوگئی۔ روح المعانی میں یہ بھی لکھا ہے کہ جادو کا عمل کرنے میں لبید بن عاصم کے ساتھ اس کی بیٹیاں بھی شریک تھیں اس اعتبار سے ﴿النفثت﴾ مونث کا صیغہ لایا گیا۔ جو نفاثہ کی جمع ہے اور وہ نفاث کی تانیث ہے اور نفاث نافث کا صیغہ مبالغہ ہے جو دم کرنے والے کے معنی میں آتا ہے اگرچہ صاحب روح المعانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ نفاثات نفوس کی صفت ہے اور یہی مراد لینا بہتر ہے تاکہ مردوں کے نفوس خبیثہ اور ارواح شریرہ کو بھی شامل ہوجائے۔ اور ﴿العقد﴾ عقدۃ کی جمع ہے جو گرہ کے معنی میں آتا ہے۔ كما فی قولہ تعالیٰ ناقلا عن دعاء موسیٰ (علیہ السلام) (واحلل عقدة من لسانی یفقھوا قولی) ۔ مفسر ابن کثیر (رض) نے تفسیر ثعلبی سے نقل کیا ہے کہ یہودیوں میں سے ایک لڑکا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا، یہودیوں نے اسے آمادہ کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنگھی سے نکلے ہوئے بال اور کنگھی کے کچھ دندانے حاصل کر کے یہودیوں کو دے دے چناچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ان بالوں اور کنگھی کے دندانوں پر یہودیوں نے جادو کردیا۔ (چونکہ جادو کرنے کے لیے کسی ایسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے جس کا اس شخص سے تعلق رہا ہو جس پر جادو کرنا ہے اس لیے ان لوگوں نے اس لڑکے سے بال طلب کیے) ۔ اس ساری تفصیل کے بعد اب سورة الفلق کا ترجمہ اور مطلب سمجھیں ارشاد فرمایا ﴿ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ٠٠١﴾(آپ اپنے رب کی پناہ لیتے ہوئے یوں کہیے کہ میں فلق یعنی صبح کے رب کی پناہ لیتا ہوں) ﴿مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَۙ٠٠٢﴾ (ہر اس چیز کے شر سے جو میرے رب نے پیدا فرمائی ہے) ۔ لفظ فلق عربی میں پھاڑنے کے معنی میں آتا ہے ومنہ قولہ تعالیٰ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى ﴾ عموماً مفسرین کرام نے یہاں فلق سے صبح مراد لی جب صبح ہوتی ہے تو اندھیرا چھٹ جاتا ہے اور صبح اس طرح ظاہر ہوتی ہے جیسے اندھیرے کو پھاڑ کر روشنی ظاہر ہوگئی۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ﴿ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴾ فرما کر قیامت کے دن کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس طرح دنیا میں صبح ہونے پر لوگ اپنے مختلف اعمال و اشغال کے لیے نکلتے ہیں کوئی خوش ہے کوئی رنجیدہ ہے کوئی آرام میں ہے کوئی تکلیف میں ہے اسی طرح جب قیامت قائم ہوگی اور لوگ قبروں سے نکلیں گے تو مختلف احوال میں ہوں گے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ فلق مخلوق کے معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں ساری مخلوق کے رب کی پناہ لیتا ہوں، کچھ بھی وجود میں نہ تھا اس نے سب کو عدم سے نکال کر وجود بخش دیا اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ رب الفلق جل مجدہ کے حکم سے جس طرح صبح ہوتی ہے اس کی وجہ سے اندھیرا چھٹ جاتا ہے اور روشنی آجاتی ہے اسی طرح اللہ جل شانہ ان تمام ضرر دینے والی چیزوں سے محفوظ فرماتا ہے۔
2:۔ ” قل اعوذ “ الفلق، چیر کر اندر سے کوئی چیز نکالنا۔ رات کے اندھیرے سے صبح کا اجالا ظاہر کرنا۔ ” فالق الاصباح “ (انعام رکوع 12) ۔ یا دانے کو پھاڑ کر اس سے پودا اگانا۔ ” فالق الحب والنوی “ (ایضا) ۔ جو ذات پاک صفت فلق کی مالک ہے میں اس کی پناہ ڈھونڈتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔
(1) اے پیغمبر آپ یوں کہئے کہ میں صبح کے پروردگار اور مالک یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ لیتا ہوں۔ فلق پھٹنے والی چیز کو کہتے ہیں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں ہم نے راجح قول اختیار کرلیا ہے کہ یہاں صبح کی پو پھٹنا مراد ہے چونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پھاڑنے والا ہے۔ ان اللہ فالق الحب والنوی۔ گٹھلی کا پھٹنا، دانے کا پھٹنا، زمین کا پھٹنا ، پہاڑوں کا پھٹنا سب اسی کے حکم سے ہوتا ہے اس لئے ارشاد ہوا کہ آپ رب الفلق سے پناہ مانگیے اور دوسروں کو بھی تعلی دیجئے تاکہ ہر مسلمان توکل کا عادی ہو۔