Surat ul Falaq

Surah: 113

Verse: 3

سورة الفلق

وَ مِنۡ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ۙ﴿۳﴾

And from the evil of darkness when it settles

اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا اندھیرا پھیل جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And from the evil of the Ghasiq when Waqab, Mujahid said, - "Ghasiq is the night, and - `when it Waqab' refers to the setting of the sun." Al-Bukhari mentioned this from him. Ibn Abi Najih also reported a similar narration from him (Mujahid). The same was said by Ibn Abbas, Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi, Ad-Dahhak, Khusayf, Al-Hasan and Qatadah. They said, "Verily, it is the night when it advances with its darkness." Az-Zuhri said, وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ "This means the sun when it sets." Abu Al-Muhazzim reported that Abu Hurayrah said, وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ "This means the star." Ibn Zayd said, "The Arabs used to say, `Al-Ghasiq is the declination (of the position) of the heavenly body known as Pleiades. The number of those who were ill and stricken with plague would increase whenever it would decline, and their number would lessen whenever it rose."' Ibn Jarir said, "Others have said that it is the moon." The support for the people who hold this position (that it means the moon) is a narration that Imam Ahmad recorded from Al-Harith bin Abi Salamah. He said that A'ishah said, "The Messenger of Allah took me by my hand and showed me the moon when it rose, and he said, تَعَوَّذِي بِاللهِ مِنْ شَرِّ هَذَا الْغَاسِقِ إِذَا وَقَبَ Seek refuge with Allah from the evil of this Ghasiq when it becomes dark." At-Tirmidhi and An-Nasa'i both recorded this Hadith in their Books of Tafsir in their Sunans. Allah said, وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 رات کے اندھیرے میں خطرناک درندے اپنی کچھاروں سے اور موذی جانور اپنے بلوں سے اور اسی طرح جرائم پیشہ افراد اپنے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نکلتے ہیں ان الفاظ کے ذریعے سے ان تمام سے پناہ طلب کی گئی۔ غاسق، رات وقت داخل ہوجائے، چھا جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] جرائم زیادہ تر رات کی تاریکی میں کیے جاتے ہیں :۔ غَاسِقٍ ۔ غسق بمعنی شفق غائب ہوجانے کے بعد کا اندھیرا۔ اس لحاظ سے غاسق اس ابتدائی رات کو کہتے ہیں کہ جب وہ تاریک ہونے لگتی ہے اور وقب کسی چٹان وغیرہ میں گڑھے کو کہتے ہیں اور وَقَبَ بمعنی گڑھے میں داخل ہو کر غائب ہوجانا اور وَقَبَ الظَّلاَمُ بمعنی اتنی تاریکی چھانا جس کے اندر اشیاء غائب ہوجائیں اور تاریک رات کے شر سے پناہ مانگنے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر گناہ کے کام رات کی تاریکیوں میں کیے جاتے ہیں۔ چوری، ڈاکہ، لوٹ مار، زنا وغیرہ کے مجرم عموماً رات کی تاریکیوں میں ہی ایسے کام کرتے ہیں۔ اور عرب قبائل میں تو دستور ہی یہ تھا کہ جب کسی قبیلے پر لوٹ مار کرنا ہوتی تو رات میں سارا سفر ختم کرلیتے اور صبح کی روشنی نمودار ہوتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم کردیتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ومن شر غاسق اذا وقب : اگرچہ ساری مخلوق کے شر سے پناہ مانگنے کے بعد کوئی چیز باقی نہیں رہی جس کے شر سے پناہ مانگی جائے، مگر مخلوق میں سے چند چیزوں کے شر سے خاص طور پر پناہ مانگنے کا سبق دیا گیا، کیونکہ یہ بہت ہی خوفناک ہیں اور ان کے شر سے پناہ مانگنے کی تو بہت ہی ضرورت ہے۔ (٢) ” غاشق “ کا معنی ہے تاریک، سخت اندھیرے والی۔ قاموس میں ہے :” غسق اللیل ای اشتدت ظلمتہ “ ” یعنی ” غسق اللیل “ کا معنی یہ ہے کہ رات کی تاریکی بہت سخت ہوگئی۔ “ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا :(الی غسق الیل) (بنی اسرائیل : ٨٨)” رات کے سخت تاریک ہونے تک۔ “” وقب “ (ض) داخل ہونا، غائب ہونا۔ فراء نے ” غاسق اذا وقب “ کا معنی کیا ہے :” اللیل اذا دخل کل شیء واظلم “” رات جب ہر چیز پر چھا جائے اور تاریک ہوجائے۔ “ تاریک رات کے شر سے خاص طور پر پناہ مانگنے کی تلقین اس لئے کی گئی ہے کہ اندھیری رات میں بیشمار شرور و خطرات ہوتے ہیں، اکثر مجرم ، چور، ڈاکو، زانی، قاتل اور شب خون مارنے والے رات ہی کو نکلتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات ہی میں قتل کرنے کے منصوبے بنائیگئے، تاکہ نہ آپ بچاؤ کرسکیں اور نہ قاتل کا پتا چل سکے۔ جنگلی جانوروں مثلاً شیر، چیتے، بھیڑے وغیرہ اور ح شرارت الارض مثلاً سانپ، بچھو وغیرہ کا خطرہ رات کو زیادہ ہوجاتا ہے اور مچھر، کھٹمل وغیرہ رتا کو جو تکلیف دیتے ہیں سب جانتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق اکثر بیماریوں کے جراثیم اندھیرے میں پیدا ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اندھیرے میں وہمی چیزوں کا خوف مزید بڑھ جاتا ہے۔ ان سب پر مزید یہ کہ ان سب شرور کے اندھیرے میں واقع ہونے کی وجہ سے انسان ان سے اپنا بچاؤ بھی نہیں کرسکتا، اس لئے اندھیری رات کی برائیوں سے پناہم انگنے کی تعلیم دی گئی۔ (٣) عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند دیکھا تو فرمایا :(یا عائشۃ ! استعیذی باللہ من شر مذا، فان ھذا ھو الغاسق اذا وقب) (ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة المعوذتین : ٣٣٤٦٦، وصححہ الترمذی والالبانی) ” اے عائشہ ! اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو، کیونکہ یہی ” غاسق اذا وقب “ ہے۔ “ اس صورت میں ” غاسق “ کا معنی ” اندھیرے والا “ اور ” اذا وقب “ کا معنی ” اذا غاب “ ہے، یعنی ” جب غائب ہوجائے۔ “ شاہ رفیع الدین نے ترجمہ یوں کیا ہے :” اور برائی اندھیرا کرنے والے کی سے، جب وہ چھپ جائے۔ “ یعنی چاند غروب ہو کر اندھیرا پھیلا دیتا ہے۔ بعض مفسرین نے ” غاسق اذا وقب “ سے سورج مراد لیا ہے، کیونکہ سورج غائب ہو کر سخت تاریکی پھیلنے کا باعث بنتا ہے۔ بہرحال ان تفسیروں اور پہلی تفسیر میں کوئی تضاد نہیں ، کیونکہ مراد تاریکی کے شر سے پناہ مانگنا ہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ۝ ٣ ۙ غسق غَسَقُ اللیل : شدّة ظلمته . قال تعالی: إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ [ الإسراء/ 78] ، والْغَاسِقُ : اللیل المظلم . قال : وَمِنْ شَرِّ غاسِقٍ إِذا وَقَبَ [ الفلق/ 3] ، وذلک عبارة عن النائبة باللیل کالطارق، وقیل : القمر إذا کسف فاسودّ. والْغَسَّاقُ : ما يقطر من جلود أهل النار، قال :إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] ( غ س ق ) غسق اللیل کے معنی ( ابتدائے ) رات کی سخت تاریکی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ [ الإسراء/ 78] رات کی تاریکی تک الغاسق تاریک رات قرآن میں ہے ۔: وَمِنْ شَرِّ غاسِقٍ إِذا وَقَبَ [ الفلق/ 3] اور شب تاریک کی برائی سے جب اسکی تاریکی چھا جائے ۔ اور اس سے مراد رات کے وقت پیش آنے والی مصیبت یا حادثہ کے ہیں جیسے طارق رات کے وقت آنے والا بعض نے کہا کہ غاسق چاند کو کہتے ہیں جب کہ وہ گہن لگ کر سیاہ ہوجائے الغساق دوزخیوں کے جسموں سے بہنے والا لہو یا پیب ۔ قرآن میں ہے :إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] مگر گرم پانی اور بہتی پیب ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) وقب الوَقْبُ کالنّقرة في الشیء، ووَقَبَ : إذا دخل في وَقْبٍ ومنه وَقَبَتِ الشمسُ : غابت . قال تعالی: وَمِنْ شَرِّ غاسِقٍ إِذا وَقَبَ [ الفلق/ 3] والإِيقَابُ : تغييبُهُ ، والوَقِيبُ : صوتُ قُنْبِ الدّابّةِ ، وقبّبه، وقبّه ( و ق ب ) الوقب کے اصل معنی چٹان پتھر وغیرہ میں گڑھا کے ہیں ۔ اور وقب ( ض ) کے معنی گڑھے وغیرہ میں داخل ہوکر غائب ہوجانے کے اسی سے وقبت الشمس ہے جس کے معنی آفتاب غروب ہونے کے ہیں ۔ اور وقب الظلام کے معنی ہیں تاریکی چھاگئی اور اشیار اس کے اندر غائب ہوگئیں ، قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمِنْ شَرِّ غاسِقٍ إِذا وَقَبَ [ الفلق/ 3] اور شب تاریک کی برائی سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے ۔ الوقیب گھوڑے کے ذکر ایستادہ ہونے کی اواز ۔ وقبتہ وقبتہ اس نے اسے اکٹھا کرلیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ۔ } ” اور (خاص طور پر) اندھیرے کے شر سے جب وہ چھا جائے ۔ “ ظاہر ہے رات کے اندھیرے میں انسانوں ‘ جنوں اور ضرر رساں جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کی صورت میں شر پھیلانے والے عناصر زیادہ فعال اور مستعد ہوجاتے ہیں۔ گویا رات کا اندھیرا بذات خود ایک بہت بڑا شر ہے جس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا ضروری ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 After seeking Allah's refuge generally from the evil of the creatures, now prayer is being taught for seeking refuge from the evil of some special creatures in particular. The word ghasiq in the verse literally means dark. Thus, at another place in the Qur'an it has been said: "establish the salat from the declining of the sun to the darkness of the night (ila ghasaq-il- lain." (Bani lsra'il: 78) , and wagab means to enter or to overspread. Prayer has been taught to seek refuge in particular from the evil of the darkness of night, for most of the crimes and acts of wickedness are committed at night, harmful animals also come out at night, and the night was a very dreadful thing in the days chaos prevailed in Arabia when these verses were revealed. Raiders came out in the dark of night and plundered and destroyed settlements. The people who were thinking of putting the Holy Prophet (upon whom be peace) to death, also made their secret plans at night, so that the murder could not be detected. Therefore, command was given to seek Allah's refuge from the evils and calamities which descend at night. Here, the subtle relation that exists between seeking refuge from the evil of the dark night with the Lord of breaking dawn cannot remain hidden from anybody having insight and understanding. A difficulty is confronted in the explanation of this verse' in view of several authentic traditions. Hadrat `A'ishah has reported: "Once during a moon-lit night, the Holy Prophet (upon whom be peace) look hold of my hand and pointing to the moon said: `Seek Allah's refuge, for this is al ghasiq idha wagab'. (Tirmidhi, Ahmad, Nasa'i, lbn Jarir, Ibn al-Mundhir, Hakim, Ibn Marduyah) . To explain this some scholars said that idha wagab here means idha khasaf, i. e. when the moon is eclipsed. But in no tradition has it been mentioned that when the Holy Prophet pointed to the moon, it was in eclipse. In the Arabic lexicon also idha wagab cannot mean idha khalaf. In our opinion the correct explanation of this Hadith is that since the moon rises in the night (in the daytime it does not shine even if it is there in the sky) , what the Holy Prophet meant was this: 'Seek God's refuge from the night, the time when it (the moon) appears, for the light of the moon is not as helpful for the one who resists as for the one who attacks, and not as helpful for the victim of the crime as for the culprit.' On this very basis the Holy Prophet (upon whom be peace) is reported to have said: "When the sun has set, devils scatter on every side. Therefore, gather your children together in the house and keep your animals tied down until the darkness of night disappears."

سورة الفلق حاشیہ نمبر : 5 مخلوقات کے شر سے عموما خدا کی پناہ مانگنے کے بعد اب بعض خاص مخلوقات کے شر سے خصوصیت کے ساتھ پناہ مانگنے کی تلقین کی جارہی ہے ۔ آیت میں غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ غاسق کے لغوی معنی تاریک کے ہیں ۔ چنانچہ قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہوا ہے اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ نماز قائم کرو زوال آفتاب کے وقت سے رات کے اندھیرے تک ( بنی اسرائیل 78 ) اور وقب کے معنی داخل ہونے یا چھا جانے کے ہیں ۔ رات کی تاریکی کے شر سے خاص طور پر اس لیے پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے کہ اکثر جرائم اور مظالم رات ہی کے وقت ہوتے ہیں ۔ موذی جانور بھی رات ہی کو نکلتے ہیں ۔ اور عرب میں طوائف الملوکی کا جو حال ان آیات کے نزول کے وقت تھا اس میں تو رات بڑی خوفناک چیز تھی ، اس کے اندھیرے میں چھاپہ مار نکلتے تھے اور بستیوں پر غارت گری کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے ۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے تھے وہ بھی رات ہی کے وقت آپ کو قتل کردینے کی تجویزیں سوچا کرتے تھے تاکہ قاتل کا پتہ نہ چل سکے ۔ اس لیے ان تمام شرور و آفات سے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا جو رات کے وقت نازل ہوتی ہیں ۔ یہاں اندھیری رات کے شر سے طلوع فجر کے رب کی پناہ مانگنے میں جو لطیف مناسبت ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک اشکال یہ پیش آتا ہے کہ متعدد صحیح احادیث میں حضرت عائشہ کی یہ روایت آئی ہے کہ رات کو چاند نکلا ہوا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اللہ کی پناہ مگو ، ھذا الفاسق اذا وقت ، یعنی یہ الفاسق اذا وقتب ہے ( احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر ، ابن المنذر ، حاکم ، ابن مردویہ ) اس کی تاویل میں بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اِذَا وَقَبَ کا مطلب یہاں اِذَا خَسَفَ ہے ، یعنی جبکہ وہ گہنا جائے یا چاند گرہن اس کو ڈھانک لے ۔ لیکن کسی روایت میں بھی یہ نہیں آیا ہے کہ جس وقت حضور نے چاند کی طرف اشارہ کر کے یہ بات فرمائی تھی اس وقت وہ گرہن میں تھا ۔ اور لغت عرب میں بھی اِذَا وَقَبَ کے معنی اِذَا خَسَفَ کسی طرح نہیں ہوسکتے ۔ ہمارے نزدیک اس حدیث کی صحیح تاویل یہ ہے کہ چاند نکلنے کا وقت چونکہ رات ہی کو ہوتا ہے ، دن کو اگر چاند آسمان پر ہوتا بھی ہے تو روشن نہیں ہوتا ، اس لیے حضور کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ( یعنی چاند کے ) آنے کے وقت یعنی رات سے خدا کی پناہ مانگو ، کیونکہ چاند کی روشنی مدافعت کرنے والے کے لیے اتنی مددگار نہیں ہوتی جتنی حملہ کرنے والے کے لیے ہوتی ہے ، اور جرم کا شکار ہونے والے کے لیے اتنی مددگار نہیں ہوتی جتنی مجرم کے لیے ہوا کرتی ہے ۔ اسی بنا پر حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ان الشمس اذا غربت انتشرت الشیاطین ، فاکفتوا صبیانکم واحبسوا مواشیکم حتی تذھب فحمۃ العشاء جب سورج غروب ہوجائے تو شیاطین ہر طرف پھیل جاتے ہیں ، لہذا اپنے بچوں کو گھروں میں سمیٹ لو اور اپنے جانوروں کو باندھ رکھو جب تک رات کی تاریکی ختم نہ ہوجائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: اندھیری رات کے شر سے خاص طور پر اس لئے پناہ مانگی گئی ہے کہ عام طور پر جادُوگروں کی کاروائیاں رات کے اندھروں میں ہوا کرتی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(113:3) ومن شر غاسق اذا وقب۔ جملہ معطوف ہے یعنی خاص کا عطف عام پر ہے۔ شر غاسق مضاف مضاف الیہ۔ تاریک رات کے شر سے۔ غاسق غسق سے (باب ضرب) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ غسق رات کا تاریک ہونا۔ غاسق تاریک ہونے والا۔ بمعنی تاریک رات۔ اس کے اور معانی بھی ہیں :۔ (1) گرہن کے سبب سیاہ پڑجانے والا چاند۔ (2) غروب آفتاب کے بعد آنے والی تاریکی۔ (3) غروب آفتاب کے بعد آنے والی تاریک رات۔ (4) ڈوبنے والا چاند۔ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر چاند کی طرف ارشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ تعوذی باللّٰہ من شر ھذا فانہ الغاسق اذا وقب : اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پانہ مانگ کیونکہ جب یہ ڈوب جاتا ہے تو سخت تاریکی لاتا ہے۔ رات کو آنے والی مصیبتوں سے بچاؤ دشوار ہوتا ہے دشمن کا شب خون۔ چوری۔ نقب زنی، ڈاکہ اور طرح طرح کے حوادث عموما رات کی تاریکی میں ہوتے ہیں۔ اسی لئے عربی ضرب المثل ہے :۔ الیل اخفی للویل : رات اپنے اندر ہلاکتوں کو چھپائے رکھتی ہے۔ وقب ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ وقوب (باب ضرب) مصدر (جب) داخل ہوجائے۔ (جب) چھا جائے۔ محلی نے لکھا ہے کہ :۔ الیل اذا اظلم او القمر اذا غاب۔ یعنی اگر فاسق سے مراد رات ہو تو وقب کے معنی ہوگا تاریک ہوجانا۔ اور اگر غاسق سے مراد چاند ہو تو وقب کے معنی ہوں گے ۔ ڈوب جانا۔ غائب ہوجانا۔ رات کی نسبت سے قرآن مجید میں ارشاد ہے :۔ ادم الصلوۃ لدلوک الشمس الی غسق الیل وقران الفجر (17:78) (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) سورج کے ڈھلنے سے رات کی تاریکی تک نمازیں (ظہر، عصر، مغرف، عشائ) اور صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور (خصوصی طور پر پناہ مانگتا ہوں صبح کے پروردگار کی) رات کی تاریکی کے شر سے جب وہ چھا جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 شاہ صاحب فرماتے ہیں :” اس میں سب تاریکیاں آگئیں، ظاہر اور باطن کی اور تنگدستی اور پریشانی اور گمراہی۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ٠٠٣﴾ (اور صبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں غاسق سے جب وہ داخل ہوتا ہے) ۔ لفظ ﴿غَاسِقٍ﴾ غسق سے لیا گیا ہے جو تاریکی پر دلالت کرتا ہے اور ﴿وَقَبَ﴾ ماضی کا صیغہ ہے وقوب سے، یہ لفظ داخل ہونے کے معنی پر دلالت کرتا ہے (ای اذا دخل ظلامہ فی کل شی ) ۔ مفسر ابن کثیر (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ غاسق سے رات مراد ہے جب وہ اندھیرے کے ساتھ آجائے اس کے علاوہ دوسرے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ چونکہ رات کے وقت میں جنات اور شیاطین اور حشرات الارض اور موذی جانور پھیل پڑتے ہیں اور چور و ڈاکو بھی عموماً رات کی تاریکی میں اپنا کام کرتے ہیں اور جادو کی تاثیر بھی رات میں زیادہ ہوتی ہے اس لیے رات کی اندھیری سے پناہ مانگی۔ غسق کا معنی تاریکی اور غاسق کا معنی اندھیرے والی چیز ہے اسی لیے ابن عباس (رض) نے غاسق کو رات کے معنی میں لیا ہے۔ یہاں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے جسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند کی طرف دیکھا تو حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا : یا عائشة استعیذی باللہ من شر ھذا فانہ ھذا ھو الغاسق اذا وقب (کہ اے عائشہ ! اس سے اللہ کی پناہ مانگ کیونکہ یہ غاسق ہے جبکہ وہ داخل ہوجائے) ۔ اس میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ چاند تو روشن ہوتا ہے اسے تاریک کیوں فرمایا گیا ؟ صاحب قاموس نے تو یوں لکھ دیا ہے کہ الغاسق القمر او اللیل اذا غاب الشفق ومن شر غاسق اذا وقب ای اللیل اذا دخل پس اگر لفظ غاسق مشترک ہو چاند اور رات دونوں اس کا مدلول ہوں تو کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ چاند جب چھپ جاتا ہے یا گرہن ہوتا ہے اس وقت جو تاریکی آجاتی ہے اس تاریکی کی وجہ سے اس کو غاسق فرمایا اس میں شرور کے وہ سب احتمالات سامنے آجاتے ہیں جو رات کے اندھیرے میں پیش آتے ہیں اور آسکتے ہیں۔ قال القاضی الغاسق اللیل اذا غاب الشفق واعتکر ظلامہ من غسق یغسق اذا اظلم واطلق ھھنا علی القمر لانہ یظلم ووقوبہ دخولہ فی الکسوف والسواد وانما استعاذ من کسوفہٖ لانہ من ایات اللہ الدالة علٰی حدوث بیتہ ونزول نازلة (ذكرہ فی التعلیق صفحہ ١٥٧ ض ج ٣)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” ومن شر غاسق “ غاسق، اندھیری رات۔ ” اذا وقت “ ای دخل، یعنی اندھیری رات چھا جائے تو اس میں جو شر و ایذاء ہے اس سے بھی رب فلق کی پناہ ڈھونڈتا ہوں۔ وانما امر ان یتعوذ من شر اللیل لان فی اللیل تخرج السباع من آجامہا والھوام من مکانہا ویھجم السارق الخ (کبیر) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور اندھیری رات کے شر سے جب رات کا اندھیرا چھا جائے۔ تاریکی کا شر اور اندھیرے کی بدی ظاہر ہے ابن عباس (رض) نے کہا کہ غاسق رات ہے جب وہ مشرق سے اپنے اندھیرے کو بڑھاتی ہوئی آئے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ چاند کو دیکھ کر فرمایا۔ اے عائشہ (رض) اس سے پناہ مانگ اللہ تعالیٰ کی یہی وہ غاسق ہے جب گہن کی وجہ سے غائب ہوجائے یعنی پورا چاند گہن میں آجائے رات میں چونکہ آفات پھیلتی ہے اس لئے رات کے اندھیرے سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے ہوسکتا ہے کہ اس تاریکی سے ثریا کا غائب ہونا ہو کیونکہ ثریا کے غائب ہونے کے بعد بہت سے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی رات کا اندھیرا اور چاند کا گہن اس میں آگئیں سب تاریکیاں ظاہر اور باطن کی اور تنگدستی پریشانی گمراہی۔