Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 107

سورة يوسف

اَفَاَمِنُوۡۤا اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ غَاشِیَۃٌ مِّنۡ عَذَابِ اللّٰہِ اَوۡ تَاۡتِیَہُمُ السَّاعَۃُ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۰۷﴾

Then do they feel secure that there will not come to them an overwhelming [aspect] of the punishment of Allah or that the Hour will not come upon them suddenly while they do not perceive?

کیا وہ اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے عذابوں میں سے کوئی عام عذاب آجائے یا ان پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑے اور وہ بے خبرہی ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَفَأَمِنُواْ أَن تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللّهِ ... Do they then feel secure from the coming against them of the covering veil of the torment of Allah! Allah asks, `Do these idolators who associate others with Allah in the worship, feel secure from the coming of an encompassing torment from where they perceive not!' ... أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ or of the coming against them of the (Final) Hour, all of a sudden while they perceive not! Allah said in other Ayat, أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُواْ السَّيِّيَاتِ أَن يَخْسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الاٌّرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَشْعُرُونَ أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِى تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُم بِمُعْجِزِينَ أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَوُوفٌ رَّحِيمٌ Do then those who devise evil plots feel secure that Allah will not sink them into the earth, or that the torment will not seize them from directions they perceive not! Or that He may catch them in the midst of their going to and from, so that there be no escape for them (from Allah's punishment)! Or that He may catch them with gradual wasting (of their wealth and health)! Truly, Your Lord is indeed full of kindness, Most Merciful. (16:45-47) and, أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَـتاً وَهُمْ نَأيِمُونَ أَوَ أَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَن يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ أَفَأَمِنُواْ مَكْرَ اللَّهِ فَلَ يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَـسِرُونَ Did the people of the towns then feel secure against the coming of Our punishment by night while they were asleep! Or, did the people of the towns then feel secure against the coming of Our punishment in the forenoon while they were playing! Did they then feel secure against the plan of Allah! None feels secure from the plan of Allah except the people who are the losers. (7:97-99)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَاَمِنُوْٓا اَنْ تَاْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ ۔۔ : ” غَشِیَ یَغْشٰی غَشْیًا وَ غَشَیَانًا “ ہر جانب سے گھیر لینا، ڈھانک لینا، جیسے فرمایا : (وَاِذَا غَشِيَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ ) [ لقمان : ٣٢ ] ” اور جب انھیں سائبانوں جیسی عظیم موج ڈھانک لیتی ہے۔ “ غاشیہ وہ حادثہ جو چاروں طرف سے گھیر لے۔ عرب ایسے حوادث کو مؤنث ہی استعمال کرتے ہیں، مثلاً ” اَلطَّامَّۃُ ، اَلصَّاخَّۃُ ، اَلدَّاھِیَۃُ ، اَلْمُصِیْبَۃُ ، اَلْکَارِثَۃُ ، اَلْحَادِثَۃُ ، اَلْوَاقِعَۃُ ، اَلْحَآقَّۃُ “ اس آیت میں مشرکین کے لیے سخت وعید ہے کہ کچھ بعید نہیں کہ کسی بھی وقت ان پر ہر طرف سے گھیرنے والا عذاب آجائے، مثلاً زلزلہ، طاعون، سیلاب اور طوفان وغیرہ۔ ” بَغْتَةً “ ” بَغَتَ “ (ف) سے مصدر بمعنی اسم فاعل حال ہے ( بَاغِتًا) اچانک۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَاَمِنُوْٓا اَنْ تَاْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللّٰهِ اَوْ تَاْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ١٠٧؁ غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ بغت البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء/ 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] ( ب غ ت) البغت ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٧) کیا پھر بھی مکہ والے اس بات سے مطمئن بیٹھے ہیں کہ بدر کی طرح عذاب الہی میں سے کوئی عذاب ان پر نازل ہو یا ان پر اچانک عذاب قیامت آپڑے اور ان کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

77. This question has been posed to rouse the people from their care free attitude towards life produced by temporary security from dangers, and by a feeling that there is a long life to enjoy: so the problems can be postponed safely to a distant future. This is obviously a wrong attitude, for no man has any guarantee that he will live up to a certain age: for no one knows when, where and how one would die. Therefore the questions meant to ask, “Does not your daily experience tell you that you knew nothing even a minute beforehand what your future was hiding for you? Therefore, wisdom demands that you should make preparations for it now, and consider seriously whether the path you are treading is the right path. Have you any real proof to show that it is right? Do you find any sound argument in the heavens and the earth to support your decision? Did the people who trod such a path before you reach their destinations safely and securely? Finally, do the results of following such a path, which are appearing in your own time and culture, confirm that you are treading the right path?

۷۷ ۔ اس سے مقصود لوگوں کو چونکانا ہے کہ فرصت زندگی کو دراز سمجھ کر اور حال کے امن کو دائم خیال کر کے فکر مآل کو کسی آنے والے وقت پر نہ ٹالو ، کسی انسان کے پاس بھی اس امر کے لیے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کی مہلت حیات فلاں وقت تک یقینا باقی رہے گی ، کوئی نہیں جانتا کہ کب اچانک اس کی گرفتاری ہوجاتی ہے اور کہاں سے کس حال میں وہ پکڑ بلایا جاتا ہے ، تمہارا شب و روز کا تجربہ ہے کہ پردہ مستقبل ایک لمحہ پہلے بھی خبر نہیں دیتا کہ اس کے اندر تمہارے لیے کیا چھپا ہوا ہے ، لہذا کچھ فکر کرنی ہے تو ابھی کولر زندگی کی جس راہ پر چلے جارہے ہو اس میں آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ٹھہر کر سوچ لو کہ کیا یہ راستہ ٹھیک ہے؟ اس کے درست ہونے کے لیے کوئی واقعی حجت موجود ہے؟ اس کے راہ راست ہونے کی کوئی دلیل آثات کائنات سے مل رہی ہے؟ اس پر چلنے کے جو نتائج تمہارے ابنائے نوع پہلے دیکھ چکے ہیں اور جو نتائج اب تمہارے تمدن میں رونما ہورہے ہیں وہ یہی تصدیق کرتے ہیں کہ تم ٹھیک جارہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٧۔ اس سے پہلے اللہ پاک نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اکثر لوگ ایمان دار ہو کر شرک بھی کرتے ہیں انہیں کے حق میں اب یہ ارشاد ہوا کہ کیا یہ لوگ بالکل اس سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ خدا کا عذاب آکر اچانک ان کو ڈھانک لے یا قیامت آجائے اور ان کو مطلق خبر بھی نہ ہو اپنے اپنے کاروبار میں لگ رہے ہوں بازاروں اور گلیوں میں پھر رہے ہوں یا رات کو بستر پر آرام سے سو رہے ہوں اور خدا کا طرح طرح کا عذاب جس طرح پہلی امتوں پر آچکا ہے ان پر بھی آجائے اور ان کا کام تمام کر دے اک ذرا بھی دم لینے کی مہلت نہ دے تو پھر یہ لوگ کیا کریں گے پہلے صاحب شریعت نبی نوح (علیہ السلام) کی قوم سے لے کر فرعون اور اس کی قوم تک کے قصے جو سورت الاعراف میں گزرے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اجڑی ہوئی قوموں کو پہلے تو راہ راست پر آجانے کے لئے کافی مہلت دی گئی اور مہلت کے زما نے میں جب یہ لوگ راہ راست پر نہ آئے تو ان کی غفلت کی حالت میں ایک دفعہ ہی طرح طرح کے عذاب ان کر یہ لوگ ہلاک ہوگئے صحیح بخاری و مسلم کے حوالے سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بےراہ لوگوں کو پہلے اللہ تعالیٰ کافی مہلت دیتا ہے جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو پھر ان کو اس طرح پکڑ لیتا ہے کہ جس پکڑ سے ان کا چھٹکارہ نہیں ہوسکتا ١ ؎ معتبر سند سے طبرانی میں عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بازروں میں ہر طرح کا کپڑا بک رہا ہوگا۔ عمارتوں کی مرمتیں ہو رہی ہوں گی کہ یکایک صور کی آواز سے تمام دنیا اجڑ جاوے گی ٢ ؎ حاصل کلام یہ ہے کہ اس آیت میں دنیوی عذاب اور قیامت کے اچانک آجانے کا جو ذکر ہے پہلی امتوں کی ہلاکت کے قصے اور یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٦٧٨ ج ٢ وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٢٩٣ ج ٢ فصل فی النفخ فے الصور الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:107) افامنوا۔ ہمزہ استفہامیہ۔ امنوا۔ وہ نڈر ہوگئے۔ وہ بےخوف ہوگئے۔ کیا وہ اپنے آپ کو مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ کیا وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ امن سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ غاشیۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث۔ ہر وہ چیز جو کسی کو ڈھانک لے۔ یا اس پر چاروں طرف سے چھا جائے۔ اس کو غاشیہ کہتے ہیں۔ غشی ۔ یغشی۔ غشی۔ غشایۃ۔ ڈھانکنا ۔ چھپانا۔ غشاوۃ۔ پردہ۔ ڈھکنا۔ غشی۔ بمعنی بیہوشی بھی انہی معنوں میں ہے کہ ہوش و حواس گم ہوجاتے ہیں۔ جیسے کہ ان پر پردہ پڑگیا ہے۔ غ ش و۔ غ ش ی مادہ۔ قرآن حکیم میں پردہ کے معنی میں بھی آیا ہے۔ وعلی ابصارہم غشاوۃ (2:7) اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ اور فغشیہم من الیم ما غشیہم۔ (20:78) تو دریا (کی موجوں) نے ان پر چڑھ کر انہیں ڈھانپ لیا۔ (یعنی ڈبو دیا) اور فلما تغشھا حملت۔ (7: 199) سو جب وہ اس سے ہمبستری کرتا ہے تو اسے حمل رہ جاتا ہے۔ اور ان تاتیہم غاشیۃ۔ (آیۃ ہذا) کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہوکر ان کو ڈھانپ لے۔ یعنی ایسی مصیبت جو چاروں طرف سے ان پر چھا جائے۔ اور گھوڑے کی جھول کی طرح ان کو ڈھانپ لے۔ اور کالذی یغشی علیہ من الموت (33:19) جیسے کسی پر موت سے غشی طاری ہوجائے اور ھل اتاک حدیث الغاشیۃ (88:1) بھلا تم کو ڈھانپ لینے والی (قیامت) کا حال معلوم ہے۔ بغتۃ۔ یک دم۔ اچانک۔ یکایک۔ البغت (فتح) کے معنی ہیں کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ جیسے زلزلہ، طاعون وغیرہ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ مطلب یہ کہ مقتضا کفر کا عقوبت ہے خواہ دنیا میں نازل ہوجائے یا قیامت کے دن واقع ہوجائے ان کو ڈرنا اور کفر چھوڑ دینا چاہیے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

90:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی توحید سے اس قدر غافل اور معرض ہیں کہ انہیں اس بات کا کوئی اندیشہ ہی نہیں کہ کہیں اچانک ہی اللہ کا عذاب انہیں گھیر لے یا اچانک ہی قیامت برپا ہوجائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

107 ۔ پھر کیا ایسے لوگ اس بات سے بےخوف اور مطمئن ہوگئے ہیں کہ ان پر خدائے تعالیٰ کے عذاب کی کوئی ایسی آفت آپڑے جو ان کو چاروں طرف سے ڈھانک لے اور ان کو گھیرلے یا ان پر نا گہاں اور اچانک قیامت آپہنچے اور ان کو پہلے سے خبر بھی نہ ہو ۔ بہرحال کفر کا انجام عذاب ہے خواہ وہ دنیا میں آجائے یا قیامت میں ان پر نازل ہو ان کو بےخوف نہیں ہونا چاہئے۔