Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 108

سورة يوسف

قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾

Say, "This is my way; I invite to Allah with insight, I and those who follow me. And exalted is Allah ; and I am not of those who associate others with Him."

آپ کہہ دیجئے میری راہ یہی ہے میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Messenger's Way Allah tells His messenger to say: قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ Say "This is my way; I invite unto Allah with sure knowledge, I and whosoever follows me. And Glorified and Exalted be Allah. And I am not of the idolators." Allah orders His Messenger to say to mankind and the Jinns that this is his way, meaning, his method, path and Sunnah, concentrating on calling to the testimony that there is no deity worthy of worship except Allah alone without partners. The Messenger calls to this testimonial with sure knowledge, certainty and firm evidence. He calls to this way, and those who followed him call to what Allah's Messenger called to with sure knowledge, certainty and evidence, whether logical or religious evidence, ... وَسُبْحَانَ اللّهِ ... And Glorified and Exalted be Allah. This part of the Ayah means, I glorify, honor, revere and praise Allah from having a partner, equal, rival, parent, son, wife, minister or advisor. All praise and honor be to Allah, glorified He is from all that they attribute to Him, تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَـوَتُ السَّبْعُ وَالاٌّرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدَهِ وَلَـكِن لاَّ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا The seven heavens and the earth and all that is therein, glorify Him, and there is not a thing but glorifies His praise. But you understand not their glorification. Truly, He is Ever Forbearing, Oft-Forgiving. (17:44)

دعوت وحدانیت اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جنہیں تمام جن و انس کی طرف بھیجا ہے ، حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو خبر کر دوں کہ میرا مسلک ، میرا طریق ، میری سنت یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کی دعوت عام کر دوں ۔ پورے یقین دلیل اور بصیرت کے ساتھ ۔ میں اس طرف سب کو بلا رہا ہوں میرے جتنے پیرو ہیں ، وہ بھی اسی طرف سب کو بلا رہے ہیں ، شرعی ، نقلی اور عقلی دلیلوں کے ساتھ اس طرف دعوت دیتے ہیں ہم اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ، اس کی تعظیم تقدیس ، تسبیح تہلیل بیان کرتے ہیں ، اسے شریک سے ، نظیر سے ، عدیل سے ، وزیر سے ، مشیر سے اور ہر طرح کی کمی اور کمزوری سے پاک مانتے ہیں ، نہ اس کی اولاد مانیں ، نہ بیوی ، نہ ساتھی ، نہ ہم جنس ۔ وہ ان تمام بری باتوں سے پاک اور بلند و بالا ہے ۔ آسمان و زمین اور ان کی ساری مخلوق اس کی حمد و تسبیح کر رہی ہے لیکن لوگ ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ، اللہ بڑا ہی حلیم اور غفور ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 یعنی توحید کی راہ ہی میری راہ ہے بلکہ ہر پیغمبر کی راہ رہی ہے اسی کی طرف میں اور میرے پیروکار پورے یقین اور دلائل شرعی کے ساتھ لوگوں کو بلاتے ہیں۔ 108۔ 2 یعنی میں اس کی تنزیہ و تقدیس بیان کرتا ہوں اس بات سے کہ اس کا کوئی شریک، نظیر، مثیل یا وزیر ومشیر یا اولاد اور بیوی ہو وہ ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] نبی کی دعوت علی وجہ البصیرت :۔ یعنی میں جس راہ پر گامزن ہوں اور اس کی طرف دوسروں کو بلاتا ہوں تو سوچ سمجھ کر اور علی وجہ البصیرت چل رہا ہوں اور میرے پیرو کار بھی ایسے ہی ہیں۔ میں دلائل سے اور تجربہ سے ثابت کرسکتا ہوں کہ اللہ کے سوا دوسرے معبودان باطل نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں نیز اس بات پر بھی میرا ضمیر پوری طرح مطمئن ہے کہ جو ہستی ہماری خالق ومالک اور رازق ہے۔ و ہی خالصتاً ہماری عبادت کی مستحق ہوسکتی ہے اگر اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے تو یہ انتہائی ناانصافی کی بات ہے۔ لہذا نہ میں مشرکوں کے کام کرنے کو تیار ہوں اور نہ میرے پیروکار۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ : لفظ ” سَبِیْلٌ“ مؤنث بھی آتا ہے، جیسا کہ یہاں ہے اور مذکر بھی، جیسا کہ فرمایا : (ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ) [ الأعراف : ١٤٦ ] معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے پیروکاروں کا راستہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت ہے، یعنی صرف اللہ کی عبادت اور اسی کے احکام کی اطاعت جو بذریعہ وحی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترے، اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کی دعوت دے، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی طرف سے اترنے والے احکام و مسائل کے بجائے کسی اور کی پیروی، مثلاً کسی امام یا پیر وغیرہ کی تقلید کی دعوت دے تو وہ نہ اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہے اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے پر چل رہا ہے، کیونکہ جس چیز کی طرف وہ بلا رہا ہے وہ اللہ کی طرف سے اتری ہی نہیں، وہ محض انسانی رائے یا خیال ہے۔ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۔۔ : ” بَصَارَۃٌ“ آنکھوں کا دیکھنا اور ” بَصِيْرَةٍ “ دل سے اچھی طرح سمجھنا، یعنی میں اور میرے پیروکار خوب سوچ سمجھ کر اللہ کے راستے پر قائم ہیں۔ ” وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور خطا سے پاک ہے۔ اس اکیلے کی عبادت ہی حق ہے اور اس اکیلے کی وحی پر چلنا ہی حق ہے اور جو اس راہ کو چھوڑتا ہے وہ ایسی ہستیوں کی عبادت اور اطاعت کی وجہ سے مشرک ہے جو عیب اور خطا سے پاک نہیں ہیں۔ اس لیے میں کبھی ایسے مشرکوں میں شامل نہیں ہوسکتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 108, the Holy Prophet has been asked to state his position before these people: قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَ‌ةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ |"Say, (you believe it or not) &This is my way. I call (people) to Allah with full cognition - myself and my followers. And pure is Allah. And I am not among the associators - 108.|" It means that the da&wah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is not based on some summary view of things, instead, it is the outcome of insight, rea¬son and wisdom. In this act of ` full cognition,& the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has in¬cluded his followers as well. According to Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) it refers to the noble Sahabah, may Allah be pleased with them all. They are the soldiers of Allah subhanahu wa Ta’ ala. Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) said: The Sahabah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are the best people of this whole Ummah. Their hearts are pure and their knowledge is deep. They are far removed from formality. Allah Ta’ ala has chosen them to accompany and serve their Rasul. You should learn their mo¬rals, habits and ways because they are the ones who are on the straight path. It is also possible to take the expression: مَنِ اتَّبَعَنِي (and my followers) in the general sense whereby it would mean every person who is doing the duty of conveying the da&wah of the Rasul of Allah to his Ummah right through the last day of the Qiyamah. According to Kalbi and Ibn Zayd, this verse also makes it necessary for one who claims to follow the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم that he should spread his da&wah among people and make the teaching of the Qur’ an available to all. (Mazhari) The last sentence of verse 108 is: سُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ (And pure is Allah [ that is, free from Shirk ]. And I am not among the Mushriks [ that is, not of those who practice Shirk ]). Since, a little earlier, mention was made that there are people who, when they profess belief in Allah, would mix it up with Shirk, whether open or padded or concealed. Therefore, he has declared that he has absolutely nothing to do with Shirk. The gist of what has been said here is: My da&wah does not aim at inviting people to become my servants. In fact, I myself am, also a servant of Allah - and it is this kind of servitude, servitude to none but Him, that I invite people to. However, since I am the dai (the original maker of this call), it is obligatory that faith be put in me. To this, the disbelievers of Makkah used to object. They took the plea that a Rasul or messenger of Allah should not be a human being. He should, rather, be an angel. A reply to this doubt has been given in the next verse

(آیت) قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ یعنی آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ (تم مانو یا نہ مانو) میرا تو یہی طریقہ اور مسلک ہے کہ لوگوں کو بصیرت اور یقین کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتا رہوں میں بھی اور وہ لوگ بھی جو میرا اتباع کرنے والے ہیں مطلب یہ ہے کہ میری یہ دعوت کسی سرسری نظر پر مبنی نہیں بلکہ پوری بصیرت اور عقل و حکمت پر کا ثمرہ ہے اس دعوت و بصیرت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے متبعین اور پیروؤں کو بھی شامل فرمایا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جو علوم رسالت کے خزانے اور خداوند سبحانہ وتعالیٰ کے سپاہی ہیں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اس تمام امت کے بہترین افراد ہیں جن کے قلوب پاک اور علم گہرا ہے تکلف کا ان میں نام نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی صحبت و خدمت کے لئے منتخب فرما لیا ہے تم انہی کے اخلاق و عادات اور طریقوں کو سیکھو کیونکہ وہی سیدھے راستہ پر ہیں اور یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ مَنِ اتَّبَعَنِيْ عام ہو ہر اس شخص کے لئے جو قیامت تک دعوت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امت پہنچانے کی خدمت میں مشغول ہو کلبی اور ابن زید نے فرمایا کہ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا دعویٰ کرے اس پر لازم ہے کہ آپ کی دعوت کو لوگوں میں پھیلائے اور قرآن کی تعلیم کو عام کرے (مظہری) وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ یعنی شرک سے پاک ہے اللہ اور میں شرک کرنے میں سے نہیں اوپر چونکہ یہ ذکر آیا تھا کہ اکثر لوگ جب اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں تو اس کے ساتھ شرک جلی یا خفی ملا دیتے ہیں اس لئے شرک سے اپنی بالکل براءت کا اعلان فرمایا خلاصہ یہ کہ میری دعوت کا یہ مطلب نہیں کہ میں لوگوں کو اپنا بندہ بناؤں بلکہ میں خود بھی اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہوں البتہ بحیثیت داعی مجھ پر ایمان لانا فرض ہے اس پر جو مشرکین مکہ یہ شبہ پیش کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول اور قاصد تو انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہونا چاہئے اس کا جواب اگلی آیت میں اس طرح فرمایا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ٧ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٠٨؁ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی تم ان سے صاف کہہ دو کہ ” میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی) آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لئے ہوئی ہے نیز آپ خود بھی اس راستے پر پوری بصیرت کے ساتھ چل رہے ہیں کہ گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں نیز آپ کے متبعین بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہے ہیں اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے کے لئے آپ کا یہی طریق کار ہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ اہل ایمان پر لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کی اسی طرح ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تھی۔ قول باری ہے (وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم من اھل القری اے محمد ! تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے۔ اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں) ایک قول کے مطابق شہروں میں رہنے والوں میں سے نہ کہ صحرا نشینوں میں سے، اس لئے کہ شہروں میں رہنے والے علم و حکمت میں دوسروں سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور لوگوں میں ان کی باتوں کو قبول کرنے کا زیادہ رجحان ہوتا ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیہاتوں اور صحرائوں میں رہنے والوں میں سے کبھی کوئی نبی مبعوث نہیں فرمایا۔ نہ ہی جنات میں کوئی نبی ہوا اور نہ ہی عورتوں میں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٨) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان اہل مکہ سے فرما دیجیے کہ ملت ابراہیمی ہی میرا طریق ہے میں لوگوں کو اللہ کی طرف اس طور پر بلاتا ہوں کہ میں دلیل اور دین خداوندی پر قائم ہوں، میں بھی اور میرے اوپر جو ایمان لائے وہ بھی اللہ کی طرف اس طور پر دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی دلیل اور دین خداوندی پر قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ شریک اور اولاد سے پاک ہے اور میں مشرکین کے ساتھ نہیں ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٨ (قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ٧ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ) یعنی میرا اس راستے کو اختیار کرنا اور پھر اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا یونہی کوئی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف نہیں ہے بلکہ میں اپنی بصیرت باطنی کے ساتھ پوری سوجھ بوجھ اور پورے شعور کے ساتھ اس راستے پر خود بھی چل رہا ہوں اور اس راستے کی طرف دوسروں کو بھی بلا رہا ہوں۔ اسی طرح میرے پیروکار بھی کوئی اندھے بہرے مقلد نہیں ہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ میری پیروی کر رہے ہیں۔ آج کے دور میں اس شعوری ایمان کی بہت ضرورت ہے۔ اگرچہ blind faith بھی اپنی جگہ بہت قیمتی چیز ہے اور یہ بھی انسان کی زندگی اور زندگی کی اقدار میں انقلاب لاسکتا ہے ‘ لیکن آج ضرورت چونکہ نظام بدلنے کی ہے اور نظام پر معاشرے کے intelligentsia کا تسلط ہے اس لیے جب تک اس طبقے کے اندر شعور اور بصیرت والا ایمان پیدا نہیں ہوگا یہ نظام تبدیل نہیں ہوسکتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78. That is, Allah is absolutely free from such things that are ascribed to Him: He is free from the weaknesses and shortcomings which every believer in shirk ascribes to Him; He is free from all defects, evils and errors that must necessarily be ascribed to Him as a logical result of the conception of God hold by mushriks.

۷۸ ۔ یعنی ان باتوں سے پاک جو اس کی طرف منسوب کی جارہی ہیں ، ان نقائص اور کمزوریوں سے پاک جو ہر مشرکانہ عقیدے کی بنا پر لازما اس کی طرف منسوب ہوتی ہیں ، ان عیوب اور خطاؤں اور برائیوں سے پاک جن کا اس کی طرف منسوب ہونا شرک کا منقطی نتیجہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٨۔ اس آیت میں اللہ پاک نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں ہمارا طریقہ اور جس راہ پر ہم ہیں وہ یہ ہے کہ ہم مخلوق خدا کو اس بات کی نصیحت کردیں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے دونوں جہان میں اسی کی خدائی ہے سارے آسمان اور تمام روئے زمین دریا سمندر پر اسی کا قبضہ و دخل ہے کوئی اس کے کسی صنعت میں ذرہ برابر شریک نہیں ہے۔ عبادت بھی اسی کو زیبا ہے اور میں جو کسی کو اس راہ پر بلاتا ہوں تو یقین اور سند کی راہ سے میرا بلانا اس راہ کی طرف ہے۔ بےدلیل نہیں مجھے خدا نے اس کی سوجھ عطا کی ہے اور اس بات کی ہدایت دی ہے اور جو شخص ہمارا پیرو ہو وہ بھی جس کسی کو اس راہ کی طرف بلاتا ہے تو دلیل سے قائل کر کے بلاتا ہے تمام ملائکہ اور جن و انس اور سب بیجان چیزیں اس کی تسبیح کرتی ہیں اور میں بھی اس کی پاکی بیان کرتا ہوں پھر جناب سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پاک کا یہ حکم ہوا کہ تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ جس طرح مشرکین خدا کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے ہیں اور خالص اسی کی بندگی نہیں کرتے بتوں کو بھی اسی کے ساتھ معبود شمار کرتے ہیں میں ان باتوں سے بری ہوں میں اسی کو ہر ایک امر میں قادر تصور کرتا ہوں اور اکیلا اسی کی بندگی کرتا ہوں مشرکوں میں نہیں ہوں۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرنا اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں ١ ؎ ( ١ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٤) آیت میں توحید کی رغبت کے سمجھ بوجھ کی رغبت ہونے کا اور شرک سے بیزاری کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ توحید کی دلیل مضبوط اور شرک بالکل بےسند ہے۔ سورة انعام کی آیت { وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ } [٦: ١٥٣] ۔ کی تفسیر میں جو حدیثیں گزرچکی ہیں ان حدیثوں کو بھی آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:108) ھذہ سبیلی ۔ میرا طریق یہی ہے۔ ای الدعوۃ الی التوحید۔ توحید کی دعوت ۔ ادعوا۔ مضارع واحد متکلم ۔ دعوۃ سے۔ میں بلاتا ہوں۔ بصیرۃ۔ دلیل۔ سمجھ۔ بینائی۔ یہاں بمعنی دلیل ہے۔ ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی ۔ میں علی بصیرۃ۔ جار مجرور مل کر حال ہے۔ ادعوا کی ضمیر واحد متکلم کا۔ انا ضمیر واحد متکلم کی تاکید میں ہے اور ومن اتبعنی۔ ذوالحال پر عطف ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور میں اور وہ جو میری پیروی کرنے والا ہے ایک واضح دلیل پر ہیں۔ یعنی اس راہ پر علیٰ وجہ البصیرت قائم ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی وہ بھی لوگوں کو دیل کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتا ہے اسے چاہیے کہ دعوت توحید و اصلاح میں آنحضرت کے نقش قدم پر چلے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی میرے پاس بھی دلیل ہے توحید و رسالت کی اور میرے ساتھ والے بھی استدلال کے ساتھ مجھ پر ایمان لائے ہیں میں بےدلیل بات کی طرف کسی کو نہیں بلاتا لہذا دلیل سنو اور سمجھو۔ حاصل طریق یہ ہوا کہ خدا واحد ہے اور میں داعی ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کے ایمان کی نفی کرنے کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی وضاحت اور آپ کے طریقہ دعوت کی تشریح پیش کی جاتی ہے۔ اے نبی ! آپ وضاحت فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ نہایت دانائی اور خدا دادبصیرت کے ساتھ یہی میرے متبعین کا راستہ اور دعوت ہے۔ ان کو بتادیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے ہر قسم کے شرک سے مبرا ہے اور ہم کسی طرح بھی مشرکین سے نہیں ہیں۔ اس آیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ خود یہ اعلان فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت یہ ہے کہ میں لوگوں کو نہایت دانائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤں۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ عقیدہ کے متعلق جتنی اہم باتیں ہیں۔ ان کے اظہار کے لیے پہلے قل کا لفظ لایا جاتا ہے۔ حالانکہ سارا قرآن اور شریعت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہی بیان کی ہے۔ آپ کی بیان کردہ ہر بات اہم اور واجب الاتباع ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی اور مرکزی باتوں کے لیے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی ! آپ اعلان فرمائیں کہ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں میں خدا داد بصیرت کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا رہوں۔ اللہ کی طرف بلانے کا معنی اس کی توحید اور احکام کی طرف دعوت دینا ہے۔ جو میرا سچا فرمانبردار ہے اس کا بھی یہی راستہ ہے اور ہونا چاہیے۔ ہمارا مشرکوں کے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے۔ مشرک کے ساتھ رشتہ نہ رکھنے کا صرف یہ مطلب نہیں ایک سچے امتی کا مشرکوں جیسا عقیدہ اور عمل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید نے مشرکوں سے نکاح حرام قرار دیا اور ان سے قلبی محبت سے منع کیا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢١) داعی کی چیدہ چیدہ صفات : ١۔ داعی کو وحی الٰہی کی پیروی کرنا چاہیے۔ (یونس : ١٥) ٢۔ داعی کو سب سے پہلے مسلمان یعنی ” اللہ “ کا تابع دار ہونا چاہیے۔ (الانعام : ١٦٣) ٣۔ داعی کا لباس پاک صاف ہونا چاہیے۔ (المدثر : ٤) ٤۔ داعی کو لالچ سے گریز کرنا چاہیے۔ (المدثر : ٦) ٥۔ داعی کو ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے۔ (المدثر : ٢) ٦۔ داعی کو حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ دعوت دینا چاہیے۔ (النحل : ١٢٥) ٧۔ داعی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے۔ (حم السجدۃ : ٣٤) ٨۔ داعی کو صابر ہونا چاہیے۔ ( المدثر : ٧) ٩۔ داعی کو عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔ (یونس : ١٦) مسائل ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور عیب سے پاک ہے۔ ٣۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکوں سے برأت کا اظہار فرماتے تھے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) کا شرک سے براءت کا اظہار : ١۔ آپ فرما دیں اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ (یوسف : ١٠٨ ) ٢۔ کہہ دیجیے اللہ ایک ہے بیشک میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩ ) ٣۔ حضرت ابراہیم نے کہا اے میری قوم ! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام : ٧٨ ) ٤۔ ھود (علیہ السلام) نے کہا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی بنالو میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ (ہود : ٥٤ ) ٥۔ بیشک اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہے۔ (التوبۃ : ٣ ) ٦۔ ابراہیم نے اپنی قوم سے کہا ہم تم سے اور تمہارے باطل معبودوں سے بری الذمہ ہوں۔ (الممتحنۃ : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٠٨ ھذہ سبیلی ، “ یہ ہے میرا راستہ ”۔ یہ ایک راستہ ہے ، یہ سیدھا راستہ ہے ، اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے ، اور اس کے احکام و قوانین میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ادعوا الی ۔۔۔۔۔۔ ومن اتبعنی “ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھ بھی ”۔ یعنی ہمیں اللہ کی راہنمائی حاصل ہے اور ہمیں اس کی طرف سے روشنی دی گئی ہے۔ ہمیں اپنا راستہ اچھی طرح معلوم ہے اور ہم بصیرت و بصارت کے ساتھ اس پر چل رہے ہیں۔ ہمیں بھٹکنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہی راستہ ہے اسے ہم روشنی میں دیکھ بھی رہے ہیں۔ ہم اللہ کو ان چیزوں سے پاک سمجھتے ہیں جو اس کے شایان شان نہیں ہیں اور ہم ان سے جدا اور ممتاز اور قطع تعلق کرنے والے ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ وما انا من المشرکین “ اور میں شریک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ”۔ نہ ظاہری شرک کرنے والوں میں سے اور نہ باطنی شرک کرنے والوں میں سے۔ یہ ہے براہ راست پس جو چاہے اسے قبول کرلے اور جو چاہے اس سے انکار کر دے ۔ میں تو بہرحال اسی راہ پر چلوں گا کیونکہ یہی سیدھی راہ ہے۔ یہاں داعیان حق کو ایک بات نوٹ کرلینا چاہئے یہ کہ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ انہوں نے دو ٹوک بات کرنی ہے ، ان کو اعلان کرنا ہے کہ وہ ایک علیحدہ امت ہیں۔ وہ ان لوگوں سے بالکل جدا ہیں جو ان کے نظریات کو من و عن تسلیم نہیں کرتے ۔ جو ان کے مسلک اور طریق کار کے مطابق چلتے نہیں ، یا جو ان کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتے ، انہیں جاہلی معاشرے سے چھٹ کر علیحدہ ہوجانا چاہئے ، پوری طرح علیحدہ۔ داعیان حق کا صرف یہی فریضہ نہیں ہے کہ بس وہ دعوت دین کا حق ادا کردیں اور پھر اپنے اردگرد پھیلے ہوئے جاہلی معاشرے میں گھل مل جائیں۔ اس قسم کی دعوت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ان کو صاف صاف اعلان کرنا ہوگا۔ کہ وہ جاہلیت سے ممتاز کچھ علیحدہ لوگ ہیں۔ ان کو ایک نظریہ کی بنیاد پر علیحدہ اجتماعیت اور تنظیم کی بنیاد رکھنی ہوگی اور ایک اسلامی قیادت کے نام اور عنوان سے منظم ہونا ہوگا۔ اور اس جاہلی معاشرے سے پوری طرح علیحدہ ہونا ہوگا۔ ان کی قیادت کو بھی ایک جاہلی قیادت سے ممتاز ہونا ہوگا۔ کسی جاہلی معاشرے میں گھل مل جانا اور جاہلی قیادت کے تحت زندگی بسر کرنا ، اسلامی نظریہ حیات کی قوت اور جوش کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ اور ان کی دعوت کے تمام اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ اور دعوت اسلامی کے اندر وہ جاذبیت نہیں رہتی جو اس صورت میں ہوتی ہے جب اسلامی نظام قائم ہو۔ یہ حقیقت صرف اسی وقت حقیقت نہ تھی جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین مکہ کے جاہلی معاشرے میں کام کر رہے تھے بلکہ جب بھی جاہلیت غالب ہوگی اور کوئی اسلامی تحریک اس کے خلاف جدو جہد شروع کرے گی تو اس کے خلاف ایسا ہی کرنا ہوگا۔ اس وقت بیسویں صدی کی جو جاہلیت چھائی ہوئی ہے ، وہ ان تمام جاہلیتوں کی طرح ہے جن کے خلاف انسانی تاریخ میں انبیاء کی اسلامی تحریکات نے کام کیا ، سب کے خدو خال ایک جیسے ہیں۔ وہ لوگ جن کے ذہنوں میں یہ خیال خام جاگزیں ہے کہ وہ موجودہ جاہلی معاشرے کے اندر رہ کر ، اور موجودہ جاہلی معاشرے کے طور طریقے اپنا کر اور ان جاہلی سو سائٹیوں کے اندر رہ کر نہایت ہی نرم انداز تبلیغ سے اسلام کی دعوت دیں گے اور کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے وہ کھلی خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ وہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقائد کو سرے سے سمجھے ہی نہیں اور ان کو معلوم ہی نہیں کہ اسلامی نظریہ حیات دلوں میں کس طرح اترتا ہے۔ تمام جاہلی نظریات کے حامل لوگ اپنے نصب العین ، اپنے طریقہ کار اور اپنا نام اور عنوان نہایت ہی واضح طور پر بتاتے ہیں اور اعلانیہ اپنے مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں۔ کیا داعیان اسلام ہی رہ گئے ہیں جو چھپ چھپا کر کام کریں گے ۔ حالانکہ ان کے کام کے لئے ایک طریقہ کار وضع شدہ ہے اور وہ جاہلیت کے طریقہ کار سے ممتاز ہے۔ ٭٭٭ اب ایک نکتہ توجہ طلب ہے کہ رسولوں اور رسالتوں کے بارے میں اللہ کی سنت کیا ہے ؟ اور یہ کہ بعض سابقہ اقوام کا جو انجام ہوا اس میں بعد میں آنے والوں کے لیے کیا عبرت ہے ؟ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی پہلے نبی نہیں ہیں۔ آپ سے قبل بھی رسول آئے اور انہوں نے اپنی رسالت پیش کی۔ اس سے قبل جن لوگوں نے ناحق تکذیب کی ، ان کا انجام تمہارے لیے سبق آموز ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ فرما دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ شانہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرمایا ہے کہ آپ واضح طور پر لوگوں سے کہہ دیں اور کفار اور مشرکین کے سامنے اعلان فرما دیں کہ میں جس راہ پر ہوں یہ میرا راستہ ہے جو توحید کا راستہ ہے ‘ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور میری یہ دعوت پوری بصیرت کے ساتھ ہے اور نہ صرف یہ کہ میں بصیرت پر ہوں بلکہ جن لوگوں نے میرا اتباع کیا وہ بھی بصیرت پر ہیں اس میں یہ بتادیا کہ یہ میری دعوت حق ہے صحیح ہے سمجھ کر ہوش گوش کے ساتھ ہے ‘ میں اس کو چھوڑنے والا نہیں ہوں تم میری کیسی ہی مخالفت کرلو میں بہر حال اپنے عقیدہ اور عمل پر قائم ہوں ‘ جو شخص بھی یوں کہے کہ میں مسلمان ہوں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین پر ہوں اس پر لازم ہے کہ پوری طرح دین اسلام پر جمے کسی قسم کی کچائی کو نفس میں اور قلب میں جگہ نہ دے اور دشمنوں سے واضح طور پر ٹھوک بجا کر ڈنکے کی چوٹ پر بات کرے اور ان سے کہہ دے کہ میں حق پر ہوں پوری بصیرت کے ساتھ ہوں تم لوگ باطل ہو ‘ جو کوئی شخص دین اسلام پر اعتراض کرے تو خوب بڑھ چڑھ کر اس کا منہ توڑ جواب دے اور دلائل سے بات کرے کسی دشمن سے ذرا بھی نہ دبے نہ لچک اختیار کرے وَسُبْحَان اللّٰہِ (اور میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں) ہر طرح کے شرک سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرتا ہوں۔ (وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) (اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں) مشرکین جو بھی کچھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں میں اس سے بری ہوں بیزار ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91:۔ یہ طریق تبلیغ ہے۔ ” ھٰذِہٖ “ یعنی دعوت توحید۔ ” اِدْعُوْا اِلَی اللہِ “” سَبِیْلِیْ “ کا بیان ہے۔ ” بَصِیْرَۃٍ “ دلیل و حجت یا یقین و اذعان یعنی یہ دعوت توحید ہی میری اصل راہ ہے۔ میں اور میرے تمام متبعین پورے شرح صدر کے ساتھ اور دلائل وبراہین کی روشنی میں اللہ کی توحید کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ” وَ سُبْحٰنَ اللہِ “ ای واقول الخ۔ اور میں اعلان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاد ہے اس لیے میں اس کے ساتھ ہرگز شرک کرنے کو تیار نہیں۔ ” ھذہ سبیلیھی توحید اللہ عز وجل و دین الاسلام۔ (اِلَی اللہِ ) یعنی الی توحید اللہ والایمان بہ (عَلَی بَصِیرَۃٍ ) یعنی علی یقین و معرفۃ “ (خازن ج 3 ص 320) ۔ ” بَصِیْرَۃٍ “ ای بیان و حجۃ واضحۃ عیر عمیاء (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

108 ۔ اے پیغمبر آپ ان سے کہہ دیجئے میری راہ تو یہی ہے کہ میں پوری بصیرت اور سمجھ بوجھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسکی طرف دعوت دیتا ہوں اور اس کی طرف سب کو بلاتا ہوں میں بھی یہ دعوت دیتا ہوں اور میرے پیرو بھی اور اللہ تعالیٰ پاک اور ہر عیب سے منزہ ہے اور میں شرک کرنیوالوں میں سے نہیں ہوں ۔ میرا طریق یہی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اپنے داعی اور رسول ہونے پر پوری حجت وبراہین اور بصیرت وجدان کے ساتھ قائم ہوں تمام دنیا کو میں اور میری پیروی کرنے والے اس صحیح راستے کی دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر عیب سے منزہ اور مبرا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔