Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 48

سورة يوسف

ثُمَّ یَاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ سَبۡعٌ شِدَادٌ یَّاۡکُلۡنَ مَا قَدَّمۡتُمۡ لَہُنَّ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّا تُحۡصِنُوۡنَ ﴿۴۸﴾

Then will come after that seven difficult [years] which will consume what you saved for them, except a little from which you will store.

اس کے بعد سات سال نہایت سخت قحط کے آئیں گے وہ اس غلے کو کھا جائیں گے جو تم نے ان کے لئے ذخیرہ رکھ چھوڑا تھا سوائے اس تھوڑے سے کے جو تم روک رکھتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ ... and that (the harvest) which you reap you shall leave it in the ears, (all) except a little of it which you may eat. Then will come after that, seven hard (years), He said, `Whatever you harvest during those seven fertile years, leave it in the ears so as to preserve it better. This will help the harvest stay healthy longer, except the amount that you need to eat, which should not be substantial. Stay away from extravagance, so that you use what remains of the harvest during the seven years of drought that will follow the seven fertile years.' This was represented by the seven lean cows that eat the seven fat cows. During the seven years of drought, they will eat from the harvest they collected during the seven fertile years, as represented by the dry ears of corn in the dream. Yusuf told them that during these years, the remaining ears will not produce anything and whatever they try to plant, will not produce any harvest, so he said, ... يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلاَّ قَلِيلً مِّمَّا تُحْصِنُونَ which will devour what you have laid by in advance for them, (all) except a little of that which you have guarded (stored). ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم تعبیر سے بھی نوازی تھا، اس لئے وہ اس خواب کی تہ تک فورا پہنچ گئے انہوں نے موٹی تازہ سات گایوں سے سات سال مراد لئے جن میں خوب پیداوار ہوگی، اور سات دبلی پتلی گایوں سے اس کے برعکس سات سال خشک سالی کے۔ اسی طرح سات سبز خوشوں سے مراد لیا کہ زمین خوب پیداوار دے گی اور سات خشک خوشوں کا مطلب یہ ہے کہ ان سات سالوں میں زمین کی پیداوار نہیں ہوگی۔ اور پھر اس کے لئے تدبیر بھی بتلائی کہ سات سال تم متواتر کاشتکاری کرو اور جو غلہ تیار ہو، اسے کاٹ کر بالیوں سمیت ہی سنبھال کر رکھو تاکہ ان میں غلہ زیادہ محفوظ رہے، پھر جب سات سال قحط کے آئیں گے تو یہ غلہ تمہارے کام آئے گا جس کا ذخیرہ تم اب کرو گے۔ 48۔ 2 مِمَّا تُحصنُوْنَ سے مراد وہ دانے ہیں جو دوبارہ کاشت کے لئے محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ ۔۔ :” تُحْصِنُوْنَ “ ” حِصْنٌ“ قلعے کو کہتے ہیں، مراد حفاظت سے رکھنا ہے، یعنی خوش حالی کے سات سالوں کا ذخیرہ تم لوگ قحط کے سات سالوں میں چٹ کر جاؤ گے، مگر وہ تھوڑا سا جو تم آئندہ سال کے بیج کے لیے بڑی محنت سے بچا کر محفوظ رکھو گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Said in verse 48 was: ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ (Then there shall come, after that, seven hard years which shall eat up what you have stored for them). Since, seen in the dream was that seven lean cows ate up the seven fat ones, therefore, while giving his interpretation of the dream, he considered it appropriate to say that the years of the famine will eat up what they had stored over the past years. Though, an year is no eatable, the sense is that the people and animals will eat up during the time of famine whatever grain was stored up during past years. The context of the story shows that this person, after having found out the interpretation of the dream, returned to the king and told him about it. He was pleased with it and convinced of the intellectual and spiritual excellence of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . But, the Holy Qur’ an has not considered it necessary to mention all these things because they are self-explanatory. What transpired later was described by saying:

ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ یعنی پہلے سات سال کے بعد پھر سات سال سخت خشک سالی اور قحط کے آئیں گے جو پچھلے جمع کئے ہوئے ذخیرہ کو کھا جائیں گے خواب میں اس کے مناسب یہی فرمایا کہ قحط کے سال پچھلے سالوں کے جمع کردہ ذخیرہ کو کھاجائیں گے اگرچہ سال تو کوئی کھانے والی چیز نہیں مراد یہی ہے کہ انسان اور جانور قحط کے سالوں میں پچھلے ذخیرہ کو کھا لیں گے قصہ کے سیاق سے ظاہر ہے کہ یہ شخص تعبیر خواب یوسف (علیہ السلام) سے معلوم کر کے لوٹا اور بادشاہ کو خبر دی وہ اس سے مطمئن اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے فضل و کمال کا معتقد ہوگیا مگر قرآن کریم نے ان سب چیزوں کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ یہ خود بخود مفہوم ہو سکتی ہیں اس کے بعد کا واقعہ اس طرح بیان فرمایا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَہُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ۝ ٤٨ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ حصن وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز، وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن ( ح ص ن ) الحصن تحصن کے اصل معنی تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨۔ ٤٩) پھر ان خوشحالی کے ساتھ سالوں کے بعدقحط کے سخت ترین سات سال آئیں گے جو اس خوشحالی کے تمام جمع کردہ ذخیرہ کو کھاجائیں گے جس کو تم نے ان قحط کے سالوں کے لیے جمع کر رکھا تھا، البتہ تھوڑا سا جو محفوظ کرلو گے۔ اور پھر ان سات سالوں کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں مصر والوں کے لیے خوب بارش اور پیداوار ہوگی اور انگوروں کا رسل بھی نچوڑیں گے اور زیتون وغیرہ کا تیل بھی نکالیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ) خوشحالی کے سات سالوں کے بعد سات سال تک خشک سالی کا سماں ہوگا جس کی وجہ سے ملک میں شدید قحط پڑجائے گا۔ (يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ ) حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات سال تک ملک میں بہت خوشحالی ہوگی فصلیں بہت اچھی ہوں گی مگر ان سات سالوں کے بعد سات سال ایسے آئیں گے جن میں خشک سالی کے سبب شدید قحط پڑجائے گا۔ اس مسئلے کی تدبیر آپ نے یہ بتائی کہ پہلے سات سال کے دوران صرف ضرورت کا اناج استعمال کرنا اور باقی سٹوں کے اندر ہی محفوظ کرتے جانا اور جب قحط کا زمانہ آئے تو ان سٹوں سے نکال کر بقدر ضرورت اناج استعمال کرنا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:48) سبع شداد۔ سات سال بہت سخت۔ یاکلن۔ مضارع جمع مؤنث غائب اکل سے وہ کھائیں جائیں گی۔ یعنی یہ سات سال قحط کے کھا جائیں گے (جوان سالوں میں استعمال کے لئے تم نے ذخیرہ کر رکھا ہوگا۔ ماقدمتم۔ جو تم نے پہلے سے رکھ چھوڑا ہوگا۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ تقدیم (تفعیل) مصدر جس کے معنی پہلے سے کرنا ۔ پہلے سے بھیجنا۔ پہلے زمانہ میں کر چکنے کے ہیں ۔ ما تحصنون۔ جو تم بچا رکھو گے۔ جو تم محفوظ رکھو گے۔ احصان (افعال) سے مضارع جمع مذکر حاضر۔ الا قلیلا مما تحصنون۔ صرف وہی تھوڑا سا رہ جائے گا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے۔ حصن مادہ۔ اس کے تمام مشتقات میں حفاظت۔ بچاؤ۔ احتیاط کا پہلو ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی ان میں سے تم لوگ چٹ کر جائو گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ سات سال اس طرح سخت ہوں گے کہ ان میں زرعی پیداوار نہ ہوگی۔ یہ سال سب کچھ کھا جائیں۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ یہ سال قحط سالی کے ہوں گے اور ان سے وہی کچھ بچے گا جو تم نے سابقہ سالوں میں محفوظ کرلیا ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48 ۔ پھر ان سات سال کے بعد سات سال ایسے سخت آئیں گے کہ جو کچھ تم نے دخیرہ کر رکھا ہوگا اس کو یہ سخت سال کھا جائیں گے الا یہ کہ تھوڑا سا غلہ بچ جائے گا جس کو تم احتیاط سے بچا لو گے۔ یعنی سات سال کے بعد سات سال سخت قحط کے آئیں گے اس میں جو کچھ اندوختہ تم نے کر رکھا ہوگا وہ سب کھالو گے سوائے اس کے کہ کچھ تخم پاشی کے لئے بچا لو تو بچا لو اور بیچ ڈالنے کے لئے جتنا بچ جائے اتنا بچ جائے ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب کی تعبیر بتائی اور نیک مشورہ بھی دیا اور ساقی کو بھولنے کا طعنہ بھی نہیں دیا تعبیر بھی بےتکلف بتادی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ایسے ہوا کرتے ہیں۔