Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 75

سورة يوسف

قَالُوۡا جَزَآؤُہٗ مَنۡ وُّجِدَ فِیۡ رَحۡلِہٖ فَہُوَ جَزَآؤُہٗ ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۷۵﴾

[The brothers] said, "Its recompense is that he in whose bag it is found - he [himself] will be its recompense. Thus do we recompense the wrongdoers."

جواب دیا اس کی سزا یہی ہے کہ جس کے اسباب میں سے پایا جائے وہی اس کا بدلہ ہے ہم تو ایسے ظالموں کو یہی سزا دیا کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: "His penalty should be that he, in whose bag it is found, should be held for the punishment. Thus we punish the wrongdoers!" This was the law of Prophet Ibrahim, peace be upon him, that the thief be given as a slave to the victim of theft. This is what Yusuf wanted, and this is why he started with their bags first before his brother's bag, to perfect the plot,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 یعنی چور کو کچھ عرصے کے لئے اس شخص کے سپرد کردیا جاتا ہے جس کی اس نے چوری کی ہوتی تھی۔ یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی شریعت میں سزا تھی، جس کے مطابق یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یہ سزا تجویز کی۔ 75۔ 2 یہ قول بھی برادران یوسف (علیہ السلام) ہی کا ہے، بعض کے نزدیک یہ یوسف (علیہ السلام) کے مصاحبین کا قول ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم بھی ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ لیکن آیت کا اگلا ٹکڑا کہ ' بادشاہ کے دین میں وہ اپنے بھائی کو پکڑ نہ سکتے تھے ' اس قول کی نفی کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٠] کنعان میں چوری کی سزا :۔ برادران یوسف کہنے لگے ہم شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ہم چور یا فسادی قسم کے لوگ نہیں۔ کنعان سے یہاں غلہ لینے آئے تھے اور اب غلہ لے کر واپس جارہے ہیں تعاقب کرنے والوں نے کہا : یہ ٹھیک ہے مگر تم اپنا سامان ہمیں دکھا دو ، اور یہ بھی بتادو کہ اگر بالفرض تم میں سے کسی کے سامان سے مسروقہ مال برآمد ہوجائے تو پھر اس کی کیا سزا ہے ؟ پیالہ کی برآمدگی :۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے ملک میں چور کو یہ سزا دی جاتی ہے کہ جس شخص کے سامان میں سے یا گھر سے مسروقہ مال برآمد ہوجائے تو جس کا مال چوری ہوا ہو، چور کو سال بھر کے لیے اسی کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔ ضامن بولا ! && ٹھیک ہے، ہمیں تمہاری یہ بات بھی قبول ہے && یہ کہہ کر ضامن نے ان کے سامان کی تلاشی لینا شروع کردی۔ چند بھائیوں کا سامان دیکھنے کے بعد جب بن یمین کے سامان کی تلاش لی گئی تو اس سے گم شدہ پیالہ برآمد ہوگیا۔ چناچہ اس ضامن نے مسروقہ پیالہ بھی اپنے قبضہ میں کرلیا اور بن یمین کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤُهٗ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کے ہاں چور کی سزا یہ تھی کہ وہ مسروقہ چیز کے مالک کا ہمیشہ یا کچھ مدت کے لیے غلام یا قیدی بن جاتا۔ آیت میں مدت کی وضاحت نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The answer given was: قَالُوا جَزَاؤُهُ مَن وُجِدَ فِي رَ‌حْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِين ، that is, the brothers of suf said: ` It&s punishment is that he, in whose baggage it is found, shall him-self be the punishment. This is how we punish the wrongdoers.& The sense of the statement is that the punishment for theft in the Shari` ah of Sayyidna Ya` qub11 allowed the person whose property had been stolen to take the thief as his slave. Thus, the state functionaries made the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) to tell them the punishment of a thief as in Jacobian law and thereby had them committed to hand over Benyamin to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) according to their own decision follow¬ing the recovery of the stolen goods from Benyamin&s baggage.

(آیت) قَالُوْا جَزَاۗؤ ُ هٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤ ُ هٗ ۭكَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ یعنی برادران یوسف نے کہا کہ جس شخص کے سامان میں مال مسروقہ برآمد ہو وہ شخص خود ہی اس کی جزا ہے ہم چوروں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ شریعت یعقوب (علیہ السلام) میں چور کی سزا یہ ہے کہ جس شخص کا مال چرایا ہے وہ شخص اس چور کو اپنا غلام بنا کر رکھے، سرکاری ملازمین نے اس طرح خود برادران یوسف سے چور کی سزا شریعت یعقوبی کے مطابق معلوم کر کے ان کو اس کا پابند کردیا کہ بنیامین کے سامان میں مال مسروقہ برآمد ہو تو وہ اپنے ہی فیصلہ کے مطابق بنیامین کو یوسف (علیہ السلام) کے سپرد کرنے پر مجبور ہوجائیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا جَزَاۗؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤُهٗ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ 75؀ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوۃ باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ رحل الرَّحْلُ ما يوضع علی البعیر للرّكوب، ثم يعبّر به تارة عن البعیر، وتارة عمّا يجلس عليه في المنزل، وجمعه رِحَالٌ. وَقالَ لِفِتْيانِهِ اجْعَلُوا بِضاعَتَهُمْ فِي رِحالِهِمْ [يوسف/ 62] ، والرِّحْلَةُ : الِارْتِحَالُ. قال تعالی: رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيْفِ [ قریش/ 2] ، ( ر ح ل ) الرحل ہر وہ چیز جسے اونٹ پر اس لئے باندھا جائے کہ اس پر سوار ہوا جائے پھر یہ لفظ مجازا خود اونٹ پر بولا جانے لگا ہے اور کبھی رحل کا لفظ اس چیز پر بھی بولا جاتا ہے جس پر گھر میں بیٹھا جاتا ہے ۔ اس کی جمع رجال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے ؛َ وَقالَ لِفِتْيانِهِ اجْعَلُوا بِضاعَتَهُمْ فِي رِحالِهِمْ [يوسف/ 62] تو اس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ ان کا سرمایہ ان کے کچادوں میں رکھ دو ۔ الرحلۃ ( مصدر ) اس کے اصل معنی سفر یا کوچ کرنے میں قرآن میں ہے : رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيْفِ [ قریش/ 2] جاڑے اور گرمی کے سفروں کو ( اکٹھا رکھنے والے ) ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (قالو جزاء ہ من وجد فی رحلہ فھو جزاء ہ۔ انہوں نے کہا ” اس کی سزا ؟ جس کے سامان سے یہ چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے “ ) حسن، ابو اسحاق، معمر اور سدی کا قول ہے کہ اس کے ہاں یہ دستور تھا کہ وہ چور کو غلام بنا لیا کرتے تھے۔ اس طرح ترتیب عبارت یہ ہوگی۔ اس کی سزا یہ ہے کہ جس شخص کے سامان سے وہ چیز برآمد ہوجائے گی اسے غلام بنا کر رکھ لیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک ایسے شخص کی یہی سزا ہے جس طرح تمہارے نزدیک اس کی یہی سزا ہے “ جب وہ پیمانہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کے سامان سے برآمد ہوگیا تو انہوں نے شرط کے مطابق اپنے بھائی کو چوری کی سزا میں پکڑ لیا، اس پر برادران یوسف نے کہا، ” اس کی بجائے ہم میں سے کسی کو غلام بنا کر رکھ لو۔ “ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس زمانے میں کسی آزاد انسان کو چوری کی سزا کے طور پر غلام بنا لینا جائز تھا۔ نیز یہ بھی جائز تھا کہ ایک انسان کسی اور کی خاطر اپنے آپ کو غلامی میں دے دے۔ اس لئے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کو یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کی جگہ غلام بنال یا جائے۔ ایک غلام کے متعلق جس نے چوری کی تھی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس قرض کے بدلے فروخت کردیا تھا جو اس پر اس وقت عائد ہوا تھا جب وہ آزاد تھا، ہوسکتا ہے کہ یہ حکم اس وقت تک ثابت تھا اور پھر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے اس کے نسخ کا اعلان ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے تذکرے میں بیان فرمایا کہ آپ نے قحط کے سالوں میں مصر کے اندر اشیائے خوردنی کا ذخیرہ کر کے ان کی حفاظت کی اور پھر اپنی نگرانی میں ضرورت کے مطابق لوگوں میں انہیں تقسیم کراتے رہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کے ائمہ اور خلفاء پر یہ لازم ہے کہ جب قحط سالی کی وجہ سے لوگوں کی ہلاکت کا خطرہ ہو تو وہ یہی طریق کار اختیار کریں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ (قَالُوْا جَزَاۗؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤُهٗ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ ) انہوں نے کہا کہ ہاں اگر ایسا ہوا تو پھر جس کے سامان میں سے آپ کا جام نکل آئے سزا کے طور پر آپ لوگ اسے اپنے پاس رکھ لیں وہ آپ کا غلام بن جائے گا۔ ہمارے ہاں تو (شریعت ابراہیمی کی رو سے) چوری کے جرم کی یہی سزا رائج ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

58. It should be kept in mind that these people were the descendants of Prophet Abraham. Therefore they put forward his law regarding a thief, that is, the thief should be made the bondsman of the one whose goods he had stolen.

۵۸ ۔ خیال رہے کہ یہ بھائی خاندان ابراہیمی کے افراد تھے لہذا انہوں نے چوری کے معاملہ میں جو قانون بیان کیا وہ شریعت ابراہیمی کا قانون تھا یعنی یہ کہ چور اس شخص کی غلامی میں دے دیا جائے جس کا مال اس نے چرایا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

48: یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں یہی حکم ہے کہ جو چوری کرے، اُسے گرفتار کرکے رکھ لیا جائے۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے خود ان بھائیوں سے یہ بات کہلوادی کہ چور کو یہ سزا ملنی چاہئے، چنانچہ جو سزا دی گئی، وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے مطابق دی گئی، ورنہ بادشاہ کے قانون میں چور کی پٹائی کی جاتی تھی، اور جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے یہ سوال اس لئے فرمایا کہ انہیں حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے خلاف فیصلہ نہ کرنا پڑے، اور بھائی کو اپنے پاس رکھنے کا موقع بھی مل جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12: 75) فہو جزاء ہ۔ وہ خود اپنی سزا ہے۔ یعنی چوری کی سزا میں خود چور صاحب ِ مال کا غلام بن جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ مفسرین (رح) کہتے ہیں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان میں چور کی یہی سزا مقرر تھی کہ وہ ایک برس تک اس شخص کی غلامی میں دیدیا جائے جس کا مال اس نے چرایا ہو۔ (فتح القدیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی چوری کرنے کے عوض میں خود اس کی ذات کو صاحب مال اپناغلام بنالے۔ 4۔ یعنی ہماری شریعت میں یہی مسئلہ اور عمل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا جزؤہ ۔۔۔۔۔۔ الظلمین “ انہوں نے کہا اس کی سزا ؟ جس کے سامان میں سے چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے۔ ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے ”۔ یہ سب گفتگو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی موجودگی میں ہو رہی تھی اور وہ یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے ۔ اس لیے کہ انہوں نے تلاشی کا حکم دیا اور ان کی دانش مندی نے انہیں یہ سمجھایا کہ دوسرے بھائیوں کے باروں کی تلاشی پہلے لی جائے تا کہ تفتیش اور تدبیر کے بارے میں کوئی شبہ نہ ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

63:۔ انہوں نے کہا اگر تم جھوٹے ثابت ہوجاؤ اور تم ہی میں سے کوئی چور ہو تو پھر اس کی سزا کیا ہوگی۔ انہوں نے جواب دیا جس کے سامان سے پیمانہ برآمد ہو اسے غلام بنا لیا جائے اور ہمارے یہاں یہی دستور ہے۔ آل یعقوب (علیہ السلام) میں دستور تھا جو شخص چوری کرے وہ ایک سال تک صاحب مال کی غلامی کرے (مدارک) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

75 ۔ انہوں نے کہا جس کے سامان میں سے مال مسروقہ برآمد ہو اس کی سزا یہی کہ وہی اس کی جزا اور بدلہ اور ہم تو ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ۔ یعنی چوری کی سزا یہ کہ وہ ایک مدت تک اس کا غلام رہے جس کے ہاں اس نے چوری کی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دین میں تھا کہ چور غلام ہو رہے ایک برس تک ۔ 12