Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 77

سورة يوسف

قَالُوۡۤا اِنۡ یَّسۡرِقۡ فَقَدۡ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ ۚ فَاَسَرَّہَا یُوۡسُفُ فِیۡ نَفۡسِہٖ وَ لَمۡ یُبۡدِہَا لَہُمۡ ۚ قَالَ اَنۡتُمۡ شَرٌّ مَّکَانًا ۚ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا تَصِفُوۡنَ ﴿۷۷﴾

They said, "If he steals - a brother of his has stolen before." But Joseph kept it within himself and did not reveal it to them. He said, "You are worse in position, and Allah is most knowing of what you describe."

انہوں نے کہا اگر اس نے چوری کی ( تو کوئی تعجب کی بات نہیں ) اس کا بھائی بھی پہلے چوری کر چکا ہے یوسف ( علیہ السلام ) نے اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا اور ان کے سامنے بالکل ظاہر نہ کیا ۔ کہا کہ تم بدتر جگہ میں ہو اور جو تم بیان کرتے ہو اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf's Brothers accuse Him of Theft! Allah tells that after Yusuf's brothers saw that the king's bowl was taken out of Binyamin's bag, قَالُواْ إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ... They said: "If he steals, there was a brother of his who did steal before. They tried to show themselves as innocent from being like Binyamin, saying that he did just like a brother of his did beforehand, meaning Yusuf, peace be upon him! Allah said, ... فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ ... But these things did Yusuf keep in himself, meaning the statement that he said afterwards, i.e., ... وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ ... revealing not the secrets to them. ... أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا وَاللّهُ أَعْلَمْ بِمَا تَصِفُونَ You are in an evil situation, and Allah is the Best Knower of that which you describe! Yusuf said this to himself and did not utter it aloud, thus intending to hide what he wanted to say to himself even before he said it. Al-Awfi reported that Ibn Abbas said about Allah's statement, فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ (But these things did Yusuf keep in himself), "He kept in himself (his statement next), أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا وَاللّهُ أَعْلَمْ بِمَا تَصِفُونَ (You are in an evil situation, and Allah is the Best Knower of that which you describe!)."

بھائی کے شلیتے میں سے جام کا نکلنا دیکھ کر بات بنا دی کہ دیکھو اس نے چوری کی تھی اور یہی کیا اس کے بھائی یوسف نے بہی ایک مرتبہ اس سے پہلے چوری کر لی تھی ۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ اپنے نانا کا بت چپکے سے اٹھا لائے تھے اور اسے توڑ دیا تھا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی ایک بڑی بہن تھیں ، جن کے پاس اپنے والد اسحاق علیہ السلام کا ایک کمر پٹہ تھا جو خاندان کے بڑے آدمی کے پاس رہا کرتا تھا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام پیدا ہوتے ہی اپنی ان پھوپھی صاحبہ کی پرورش میں تھے ۔ انہیں حضرت یوسف علیہ السلام سے کمال درجے کی محبت تھی ۔ جب آپ کچھ بڑے ہو گئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے آپ کو لے جانا چاہا ۔ بہن صاحبہ سے درخواست کی ۔ لیکن بہن نے جدائی و ناقابل برداشت بیان کر کے انکار کر دیا ۔ ادھر آپ کے والد صاحب حضرت یعقوب علیہ السلام کے شوق کی بھی انتہا نہ تھی ، سر ہو گئے ۔ آخر بہن صاحبہ نے فرمایا اچھا کچھ دنوں رہنے دو پھر لے جانا ۔ اسی اثنا میں ایک دن انہوں نے وہی کمر پٹہ حضرت یوسف علیہ السلام کے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا ، پھر تلاش شروع کی ۔ گھر بھر چھان مارا ، نہ ملا ، شور مچا ، آخر یہ ٹھری کہ گھر میں جو ہیں ، ان کی تلاشیاں لی جائیں ۔ تلاشیاں لی گئیں ۔ کسی کے پاس ہو تو نکلے آخر حضرت یوسف علیہ السلام کی تلاشی لی گئی ، ان کے پاس سے برآمد ہوا ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو خبر دی گئی ۔ اور ملت ابراہیمی کے قانون کے مطابق آپ اپنی پھوپھی کی تحویل میں کر دئے گئے ۔ اور پھوپھی نے اس طرح اپنے شوق کو پورا کیا ۔ انتقال کے وقت تک حضرت یوسف علیہ السلام کو نہ چھوڑا ۔ اسی بات کا طعنہ آج بھائی دے رہے ہیں ۔ جس کے جواب میں حضرت یوسف علیہ السلام نے چپکے سے اپنے دل میں کہا کہ تم بڑے خانہ خراب لوگ ہو اس کے بھائی کی چوری کا حال اللہ خوب جانتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 یہ انہوں نے اپنی پاکیزگی و شرافت کے اظہار کے لئے کہا۔ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین، ان کے سگے اور حقیقی بھائی نہیں تھے، علاتی بھائی تھے، بعض مفسرین نے یوسف (علیہ السلام) کی چوری کے لئے دو راز کار باتیں نقل کی ہیں جو کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہیں۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے کو تو نہایت با اخلاق اور باکردار باور کرایا اور یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین کو کمزور کردار کا اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے انھیں چور اور بےایمان ثابت کرنے کی کوشش کی۔ 77۔ 2 حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اس قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف چوری کے انتساب میں صریح کذب بیانی کا ارتکاب کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٤] برادران یوسف کا یوسف پہ چوری کا الزام :۔ چند ہی لمحے پیشتر یہی برادران یوسف یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم لوگ شریف زادے ہیں چوری یا فساد کرنے والے نہیں ہیں۔ پھر اسی مقام پر صرف بن یمین پر ہی چوری کے الزام کو درست تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے بڑے بھائی ( یوسف (علیہ السلام) پر چوری کا الزام جڑ دیا۔ اسی ایک جملہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ان دونوں بھائیوں کے متعلق کس قدر معاندانہ اور حاسدانہ جذبات رکھتے تھے اور جو کچھ خود ان کے حق میں کرتے رہے۔ اس کا انھیں کبھی خیال بھی نہ آتا تھا۔ [٧٥] اس مقام پر بھی سیدنا یوسف نے پیغمبرانہ صبر و تحمل سے کام لیا۔ یہ عین ممکن تھا کہ اگر اس وقت کوئی بات آپ کے منہ سے نکل جاتی تو سارا راز فاش ہوجاتا اور حالات دوسرا رخ اختیار کر جاتے لیکن سیدنا یعقوب کے لیے صبر و توکل کے ابتلاء کا دور ابھی باقی تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ابھی یوسف کو مزید بلند درجات عطا فرمانا چاہتے تھے۔ اتنے بلند کہ آپ کے بچپن کے دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر نتھر کر سامنے آجائے۔ البتہ ان کے دل میں یہ ضرور خیال آیا کہ یہ اخلاقی لحاظ سے کس قدر گرچکے ہیں کہ محض حسد وعناد کی بنا پر بلاتامل دوسرے پر الزام عائد کردیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ : ان کا یہ اشارہ یوسف (علیہ السلام) کی طرف تھا، پہلے کہہ چکے تھے : (وَمَا كُنَّا سٰرِقِيْنَ ) کہ ہم کبھی چور نہیں تھے، لیکن اب جو دیکھا کہ چھوٹے بھائی کے پاس سے چوری کا مال نکل آیا ہے تو اپنی خفت مٹانے اور اپنی پاک بازی ظاہر کرنے کے لیے فوراً اپنے آپ کو اس بھائی سے الگ کرلیا اور اس کے جرم کو بہانہ بنا کر اس کے بھائی پر بھی چوری کی جھوٹی تہمت لگا دی۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے گم ہوجانے کے بعد اس بھائی کے ساتھ یہ بھائی کیا سلوک کرتے رہے ہوں گے ؟ یہاں مفسرین نے اسرائیلی روایات سے بچپن میں یوسف (علیہ السلام) کی چوری کے کچھ واقعات لکھے ہیں، جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ذکر نہیں اور جن سے یوسف (علیہ السلام) بالکل پاک ہیں، پھر یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے کہنے پر یوسف (علیہ السلام) کی چوری کے واقعات کی تلاش تو تب کی جائے جب برادران یوسف نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، باپ کے پاس جھوٹ بولنے سے لے کر یہاں اپنے تمام بھائیوں کی قسم دے کر کہ ہم میں سے کبھی کوئی چور نہیں رہا، فوراً ہی مدت سے گم شدہ بھائی پر بھی چوری کا بہتان لگا دیا اور ہمارے بعض مفسرین کو فکر ہے کہ ان بھائیوں کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے یوسف (علیہ السلام) کی کوئی نہ کوئی چوری ضرور ڈھونڈ نکالی جائے۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] فَاَسَرَّهَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِهٖ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ : کیونکہ اگر ظاہر کرتے تو وہ سمجھ لیتے کہ یہی یوسف ہے اور ابھی یہ راز کھولنے کا وقت نہ آیا تھا۔ اتنے اونچے مقام پر ہونے کے باوجود اتنی تلخ تہمت کو دل میں چھپا کر صبر کرنا یوسف (علیہ السلام) ہی کا حوصلہ ہے۔ قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا : یعنی یوسف نے چوری کی ہو یا نہ کی ہو مگر تمہارے چور ہونے میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ تم نے اسے باپ سے چرا کر کنویں میں پھینک دیا۔ مزید یہ غضب ڈھا رہے ہو کہ الٹا اپنے آپ کو پاک باز اور یوسف کو چور بتاتے ہو ؟ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ : یعنی تم جو یوسف پر چوری کا الزام لگا رہے ہو اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، تم جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکا دے سکتے ہو مگر اللہ تعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It was stated in the previous verses that, while in Egypt, a royal bowl was concealed in the baggage of Benyamin, the younger brother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . Then, by recovering it as planned, a charge of theft was levelled against him. As in the first of the verses cited above, when the stolen property was recovered from Benyamin&s baggage before the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، they were so ashamed that they said in irritation: إِن يَسْرِ‌قْ فَقَدْ سَرَ‌قَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ , that is, if he has committed a theft, it is not much of a sur¬prise, for he had a brother who, like him, had committed a theft before. The sense was that he was not their real brother. He was their step brother. And he had a real brother who had also committed a theft. On this occasion, the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) accused him too of a theft, which refers to an event which took place during his child-hood when the way a conspiracy was hatched here to blame Benyamin for theft, a similar conspiracy was staged against Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) at that time with him being totally unaware of it. As for his brothers, they were fully aware of the fact that he was totally free from this blame. But, being angry with Benyamin on this occasion, they have made out that event too as of theft and have put its blame on his broth¬er, Yusuf (علیہ السلام) . What was that event? Reports differ about it. Referring to Muhammad ibn Ishaq and Tafsir authority, Mujahid, Ibn Kathir has reported that soon after the birth of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، Benyamin was born. This birth of his became the cause of his mother&s death. When both Yusuf and Benyamin were left without their mother, they were raised by their paternal aunt. Allah Ta’ ala had blessed Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) from his very childhood with such an attractive personality that whoever saw him became deeply attached to him. His paternal aunt was no exception. She would not let him disappear from her sight at any time. On the other hand, no different was the condition of his father who was very fond of him. But, being a minor child, it was necessary that he be kept under the care of a woman. Therefore, he was put under the care of his paternal aunt. When he had learnt how to walk, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) thought of having him come to live with him. When he talked to his pa¬ternal aunt, she showed her reluctance to let him go. After that, having been under compulsion, she somehow handed Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) over to his father, but she did make a plan to take him back. She had an antique waist-band which had come to her as the legacy of Sayyidna Ishaq (علیہ السلام) and was highly valued. Sayyidna Yusuf&s paternal aunt tied this band on his waist underneath his dress. After he had gone, she spread the news around that her waist-band has been stolen by someone. When searched for, it turned out to be with young Yusuf (علیہ السلام) . According to the Shari` ah of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، the pa¬ternal aunt now had the right to keep him as her slave. When Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) saw that the paternal aunt has become the owner of Yusuf (علیہ السلام) on the authority of the religious law of the land, he handed young Yusuf (علیہ السلام) over to her. Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) kept living with her as long as she was alive. This was the event in which the blame of theft was imputed to Sayy¬idna Yusuf (علیہ السلام) following which the truth came to light and everybody found that he was free of even the least doubt of theft. It was the love of his paternal aunt for him that had made her conspire to keep him. The brothers knew this truth all too well. Given this reason, it did not behove them that they would attribute theft to him. But, of the series of excesses inflicted on Sayyidna Yusuf ill by his brothers, this too was the last. Now in the second sentence of the first verse (77) it was said: فَأَسَرَّ‌هَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ that is, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) heard what his broth¬ers had to say and kept it in his heart for they still seemed to be after him and were now blaming him for theft. But, he kept his reaction to himself and did not let his brothers know that he had heard what they had said and was affected by it in any way. Said in the next and last sentence of the verse was: قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ‌ مَّكَانًا ۖ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ that is, ` Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) said (in his heart): ` You are even worse in position (as you accuse your brother of theft, falsely and knowingly). And Allah knows best of what you allege (whether what you are saying is true or false).& The first sentence has been uttered in the heart. The other sentence may possibly have been said publicly as his response to what his brothers had said.

خلاصہ تفسیر : کہنے لگے کہ (صاحب) اگر اس نے چوری کی تو (تعجب نہیں کیونکہ) اس کا ایک بھائی (تھا وہ) بھی (اسی طرح) اس کے پہلے چوری کرچکا ہے (جس کا قصہ درمنثور میں اس طرح لکھا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی ان کی پھوپھی پرورش کرتی تھیں جب ہوشیار ہوئے تو یعقوب (علیہ السلام) نے لینا چاہا وہ ان کو چاہتی بہت تھیں انہوں نے ان کو رکھنا چاہا اس لئے انہوں نے ان کی کمر میں ایک پٹکا کپڑوں کے اندر باندھ کر مشہور کردیا کہ پٹکاگم ہوگیا اور سب کی تلاشی لی تو ان کی کمر میں نکلا اور اس شریعت کے قانون کے موافق ان کو پھوپھی کے قبضہ میں رہنا پڑا یہاں تک کہ ان کی پھوپھی نے وفات پائی پھر یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آگئے اور ممکن ہے یہ صورت استرقاق کی بھی یوسف (علیہ السلام) کی رضامندی سے ہوئی ہو اس لئے یہاں بھی آزاد کا غلام بنانا لازم نہیں آیا اور ہرچند کہ قرائن و اخلاق یوسفیہ میں ذرا تامل کرنے سے آپ کی برأت اس فعل سے یقیناً معلوم تھی مگر بنیامین پر جو بھائیوں کو غصہ تھا اس میں یہ بات بھی کہہ دی) پس یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کو (جو آگے آتی ہے) اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور اس کو ان کے سامنے (زبان سے) ظاہر نہیں کیا یعنی (دل میں) یوں کہا کہ اس چوری کے) درجہ میں تم تو اور بھی زیادہ بری ہو (یعنی ہم دونوں بھائیوں سے تو حقیقت سرقہ صادر نہیں ہوا اور تم نے تو اتنا بڑا کام کیا کہ کوئی مال غائب کرتا ہے تم نے آدمی غائب کردیا کہ مجھ کو باپ سے بچھڑا دیا اور ظاہر ہے کہ آدمی کی چوری مال کی چوری سے زیادہ سخت ہے) اور تو کچھ تم (ہم دونوں بھائیوں کے متعلق) بیان کر رہے ہو (کہ ہم چور ہیں) اس (کی حقیقت) کا اللہ ہی کو خوب علم ہے (کہ ہم چور نہیں ہیں جب بھائیوں نے دیکھا کہ انہوں نے بنیامین کو ماخوذ کرلیا اور اس پر قابض ہوگئے توبراہ خوشامد) کہنے لگے اے عزیز اس (بنیامین) کا ایک بہت بوڑھا باپ ہے (اور اس کو بہت چاہتا ہے اس کے غم میں خدا جانے کیا حال ہو، اور ہم سے اس قدر محبت نہیں) سو آپ ایسا کیجئے کہ) اس کی جگہ ہم میں سے ایک کو رکھ لیجئے (اور اپنا مملوک بنا لیجئے) ہم آپ کو نیک مزاج دیکھتے ہیں (امید ہے کہ اس درخواست کو منظور فرما لیں گے) یوسف (علیہ السلام) نے کہا ایسی (بےانصافی کی) بات سے خدا بچائے کہ جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا دوسرے شخص کو پکڑ کرلیں (اگر ہم ایسا کریں تو) اس حالت میں تو ہم بڑے بےانصاف سمجھے جائیں گے (کسی آزاد آدمی کو غلام بنا لینا اور غلاموں کا معاملہ کرنا اس کی رضامندی سے بھی حرام ہے) پھر جب ان کو یوسف (علیہ السلام) سے تو (ان کے صاف جواب کے سبب) بالکل امید نہ رہی (کہ بنیامین کو دیں گے) تو (اس جگہ سے) علیحٰدہ ہو کر باہم مشورہ کرنے لگے (کہ کیا کرنا چاہئے، پھر زیادہ کی یہ رائے ہوئی کہ مجبوری ہے سب کو واپس چلنا چاہئے، مگر) ان سب میں جو بڑا تھا اس نے کہا کہ (تم جو سب کے سب واپس چلنے کی صلاح کر رہے ہو تو) کیا تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ تم سے خدا کی قسم کھلاکر پکا قول لے چکے ہیں (کہ تم اس کو اپنے ہمراہ لانا لیکن اگر گھر جاؤ تو مجبوری ہے سو ہم سب کے سب تو گھر ہے نہیں کہ تدبیر کی گنجائش نہ رہتی اس لئے حتی الامکان کچھ تدبیر کرنا چاہئے) اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں کس قدر کوتاہی کرچکے ہو (کہ ان کے ساتھ جو کچھ برتاؤ ہوا اس سے باپ کے حقوق بالکل ضائع ہوئے سو وہ پرانی ہی شرمندگی کیا کم ہے جو ایک نئی شرمندگی لے کر جائیں) سو میں تو اس زمین سے ٹلتا نہیں تاوقتیکہ میرے باپ مجھ کو (حاضری کی) اجازت نہ دیں یا اللہ تعالیٰ اس مشکل کو سلجھا دے اور وہی خوب سلجھانے والا ہے (یعنی کسی تدبیر سے بنیامین چھوٹ جائے غرض میں یا اس کو لے کر جاؤں گا یا بلایا ہوا جاؤں گا سو مجھ کو تو یہاں چھوڑو اور) تم واپس اپنے باپ کے پاس جاؤ اور (جا کر ان سے) کہو کہ اے ابا آپ کے صاحبزادے (بنیامین) نے چوری کی (اس لئے گرفتار ہوئے) اور ہم تو وہی بیان کرتے ہیں جو ہم کو (مشاہدہ سے) معلوم ہوا ہے اور ہم (قول وقرار دینے کے وقت) غیب کی باتوں کے تو حافظ تھے نہیں (کہ یہ چوری کرے گا ورنہ ہم کبھی قول نہ دیتے) اور (اگر ہمارے کہنے کا یقین نہ ہو تو) اس بستی (یعنی مصر) والوں سے (کسی اپنے معتمد کی معرفت) پوچھ لیجئے جہاں ہم (اس وقت) موجود تھے (جب چوری برآمد ہوئی ہے) اور اس قافلہ والوں سے پوچھ لیجئے جن میں ہم شامل ہو کر (یہاں) آئے ہیں (معلوم ہوتا ہے اور بھی کنعان کے یا آس پاس کے لوگ غلہ لینے گئے ہوں گے) اور یقین جانئے ہم بالکل سچ کہتے ہیں (چنانچہ سب نے بڑے کو وہاں چھوڑا اور خود آ کر سارا ماجرا بیان کیا) معارف ومسائل ان سے پہلی آیات میں مذکور تھا کہ مصر میں یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی بنیامین کے سامان میں ایک شاہی برتن چھپا کر اور پھر ان کے سامان سے تدبیر کے ساتھ برآمد کر کے ان پر چوری کا جرم عائد کردیا گیا تھا، مذکورہ آیات میں پہلی آیت میں یہ ہے کہ جب برادران یوسف (علیہ السلام) کے سامنے بنیامین کے سامان سے مال مسروقہ برآمد ہوگیا اور شرم سے ان کی آنکھیں جھک گئیں تو جھنجھلاکر کہنے لگے اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ یعنی اگر اس نے چوری کرلی تو کچھ زیادہ تعجب نہیں اس کا ایک بھائی تھا اس نے بھی اسی طرح اس سے پہلے چوری کی تھی، مطلب یہ تھا کہ یہ ہمارا حقیقی بھائی نہیں علاتی ہے اس کا ایک حقیقی بھائی تھا اس نے بھی چوری کی تھی، یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اس وقت خود یوسف (علیہ السلام) پر بھی چوری کا الزام لگا دیا جس میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بچپن میں پیش آیا تھا جس میں ٹھیک اسی طرح جیسے یہاں بنیامین پر چوری کا الزام لگانے کی سازش کی گئی ہے اس وقت یوسف (علیہ السلام) پر ان کی بیخبر ی میں ایسی ہی سازش کی گئی تھی اور یہ سب بھائیوں کو پوری طرح معلوم تھا کہ یوسف (علیہ السلام) اس الزام سے بالکل بری ہیں مگر اس وقت بنیامین پر غصہ کی وجہ سے اس واقعہ کی بھی چوری کا قرار دے کر اس کا الزام ان کے بھائی یوسف (علیہ السلام) پر لگا دیا ہے، وہ واقعہ کیا تھا اس میں روایات مختلف ہیں ابن کثیر (رح) نے بحوالہ محمد بن اسحاق مجاہد (رح) امام تفسیر سے نقل کیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی ولادت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد بنیامین پیدا ہوئے تو یہ ولادت ہی والدہ کی موت کا سبب بن گئی، یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین دونوں بھائی بغیر ماں کے رہ گئے تو ان کی تربیت وحضانت ان کی پھوپھی کی گود میں ہوئی اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بچپن سے ہی کچھ ایسی شان عطاء فرمائی تھی کہ جو دیکھتا ان سے بےحد محبت کرنے لگتا تھا پھوپھی کا بھی یہی حال تھا کہ کسی وقت ان کو نظروں سے غائب کرنے پر قادر نہ تھیں دوسری طرف والد بزرگوار حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا مگر بہت چھوٹا ہونے کی بناء پر ضرورت اس کی تھی کہ کسی عورت کی نگرانی میں رکھا جائے اس لئے پھوپھی کے حوالے کردیا تھا اب جب کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو یعقوب (علیہ السلام) کا ارادہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ رکھیں پھوپھی سے کہا تو انہوں نے عذر کیا، پھر زیادہ اصرار پر مجبور ہو کر یوسف (علیہ السلام) کو ان کے والد کے حوالے تو کردیا مگر ایک تدبیر ان کو واپس لینے کی یہ کردی کہ پھوپی کے پاس ایک پٹکا تھا جو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی طرف سے ان کو پہنچا تھا اور اس کی بڑی قدر و قیمت سمجھی جاتی تھی یہ پٹکا پھوپھی نے یوسف (علیہ السلام) کے کپڑوں کے نیچے کمر پر باندھ دیا یوسف (علیہ السلام) کے جانے کے بعد یہ شہرت دی کہ میرا پٹکا چوری ہوگیا پھر تلاشی لی گئی تو وہ یوسف کے پاس نکلا، شریعت یعقوب (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق اب پھوپھی کو یہ حق ہوگیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنا مملوک بنا کر رکھیں یعقوب (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ شرعی حکم کے اعتبار سے پھوپھی یوسف (علیہ السلام) کی مالک بن گئی تو ان کے حوالے کردیا اور جب تک پھوپھی زندہ رہیں یوسف (علیہ السلام) انہی کی تربیت میں رہے یہ واقعہ تھا جس میں چوری کا الزام حضرت یوسف (علیہ السلام) پر لگا اور پھر ہر شخص پر حقیقت حال روشن ہوگئی کہ یوسف (علیہ السلام) چوری کے ادنیٰ شبہ سے بھی بری ہیں پھوپھی کی محبت نے ان سے یہ سازش کا جال پھیلوایا تھا بھائیوں کو بھی یہ حقیقت معلوم تھی اس کی بناء پر کسی طرح زیبا نہ تھا کہ ان کی طرف چوری کو منسوب کرتے مگر ان کے حق میں بھائیوں کی جو زیادتی اور بےراہ روی اب تک ہوتی چلی آئی تھی یہ بھی اسی کا ایک آخری جز تھا، فَاَسَرَّهَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِهٖ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ یعنی یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کی یہ بات سن کر اپنے دل میں رکھی کہ یہ لوگ اب تک بھی میرے درپے ہیں کہ چوری کا الزام لگا رہے ہیں مگر اس کا اظہار بھائیوں پر نہیں ہونے دیا کہ یوسف (علیہ السلام) نے ان کی یہ بات سنی ہے اور اس سے کچھ اثر لیا ہے، قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۚ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ یوسف (علیہ السلام) نے (اپنے دل میں) کہا کہ تم لوگ ہی برے درجہ اور برے حال میں ہو کہ بھائی پر چوری کی تہمت جان بوجھ کر لگاتے ہو اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جاننے والے ہیں کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ صحیح ہے یا غلط پہلا جملہ تو دل میں کہا گیا ہے یہ دوسرا جملہ ممکن ہے کہ بھائیوں کے جواب میں اعلاناً کہہ دیا ہو

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ ۚ فَاَسَرَّهَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِهٖ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۚ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ 77؀ سرر والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] ( س ر ر ) الاسرار السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ شر الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں وصف الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ : الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] ( و ص ف ) الوصف کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٧) حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی کہنے لگے کہ اگر بنیامین نے بادشاہ کا پیمانہ چرایا ہے تو اس کے بھائی نے بھی اس سے پہلے چوری کی تھی (بت کو چھپا کر توڑ دیا تھا تاکہ بت پرستی نہ ہو) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کے جواب کو اپنے دل میں چھپا کر رکھا اور اس کو ان کے سامنے ظاہر نہیں کیا اور دل میں کہا کہ تم تو اس چوری کے درجہ میں یوسف (علیہ السلام) سے بھی زیادہ برا کام کرچکے ہو اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف تم جس (بےبنیاد) بات کو منسوب کررہے ہو اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہم چور نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ (قَالُوْٓا اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ ) برادران یوسف کی طبیعت کا ہلکا پن ملاحظہ ہو کہ اس پر انہوں نے فوراً کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے یہ بعید نہیں تھا کیونکہ ایک زمانے میں اس کے ماں جائے بھائی (یوسف) نے بھی اسی طرح کی حرکت کی تھی۔ (قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۚ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ ) انہوں نے آپ پر بھی فوراً چوری کا بےبنیاد الزام لگا دیا مگر آپ نے کمال حکمت اور صبر سے اسے برداشت کیا اور اس پر کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

61. As regards to the question why it was not worthy of Prophet Joseph to apply the king’s law to his personal case, its best answer is again found in the practice of the Prophet (peace be upon him). During the interim period, when the laws of ignorance had not yet been replaced by Islamic laws, other Muslims went on drinking wine and taking interest as before, but the Prophet (peace be upon him) never practiced any of these things. Likewise some un- Islamic laws of marriage, such as taking in marriage of real sisters at one and the same time, were practiced, but the Prophet (peace be upon him) never practiced any such thing. Thus it is clear, that there was a difference between leaving in vogue some un-Islamic laws during the period of the evolution of the Islamic law and practicing the same. Had Prophet Joseph applied the king’s law to his own case, it would have meant that he had lent his seeming sanction to that law. But it is obvious that a Prophet, who is sent to eliminate the ways of ignorance cannot follow these even under the temporary leave that is given to others. Their position and dissociated themselves from Benjamin, declaring that he was a thief like his brother Joseph. It is obvious that this was a false accusation the clever brothers had invented on the spot. But it is an instance of the malice these brothers bore to their two step brothers, and is also the answer to the question why Prophet Joseph desired to keep his brother with him.

٦۱ ۔ یہ انہوں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا ، پہلے کہہ چکے تھے کہ ہم لوگ چور نہیں ہیں ، اب جو دیکھا کہ مال ہمارے بھائی کی خرجی سے برآمد ہوگیا ہے تو فورا ایک جھوٹی بات بنا کر اپنے آپ کو اس بھائی سے الگ کر لیا اور اس کے ساتھ اس پہلے بھائی کو بھی لپیٹ لیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کے پیچھے بن یمین کے ساتھ ان بھائیوں کا کیا سلوک رہا ہوگا اور کس بنا پر اس کی اور حضرت یوسف کی یہ خواہش ہوگی کہ وہ ان کے ساتھ نہ جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

51: ان کا مطلب یہ تھا کہ بنیامین کے بھائی یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی ایک مرتبہ چوری کی تھی۔ یہ اِلزام اِنہوں نے کیوں لگایا؟ اِس کی وجہ قرآنِ کریم نے بیان نہیں فرمائی، لیکن بعض روایات میں اس کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ اُن کے بچپن ہی میں وفات پا گئی تھیں۔ اور اِن کی پھوپھی نے ان کی پرورِش کی، کیونکہ بچپن کے بالکل ابتدائی دور میں بچے کی دیکھ بھال کے لئے کسی عورت کی ضرورت تھی، لیکن جب وہ ذرا بڑے ہوئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اُنہیں اپنے پاس رکھنا چاہا۔ پھوپی اس عرصے میں حضرت یوسف علیہ السلام سے اتنی محبت کرنے لگی تھیں کہ ان سے ان کی جدائی برداشت نہیں ہورہی تھی، اس لئے اُنہوں نے یہ تدبیر کی کہ اپنا ایک پٹکا اُن کی کمر سے باندھ کر یہ مشہور کردیا کہ وہ چوری ہوگیا ہے۔ بعد میں جب وہ پٹکا حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس سے بر آمد ہوا تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے مطابق اُنہیں یہ حق مل گیا کہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے پاس رکھ لیں۔ چنانچہ جب تک وہ پھوپھی زندہ رہیں، اس وقت تک حضرت یوسف علیہ السلام ان کے پاس رہے۔ ان کی وفات کے بعد یعقوب علیہ السلام کے پاس آئے۔ یہ واقعہ اُن کے بھائیوں کو معلوم تھا، اور وہ جانتے تھے کہ درحقیقت پٹکا انہوں نے چوری نہیں کیا تھا، مگر چونکہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے مخالف تھے، اس لئے اُنہوں نے اس موقع پر چوری کا اِلزام بھی ان پر لگا دیا۔ (ابنِ کثیر وغیرہ) ۔ یہ واقعہ اِس صورت میں دُرست ہوسکتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کے بارے میں ان روایات کو صحیح قرار دیا جائے جن کی رُو سے اِن کا انتقال ہوچکا تھا، اور جن روایتوں میں یہ مذکورہ ہے کہ وہ زندہ تھیں، ان کے لحاظ سے چوری کے اِلزم کی یہ توجیہ ممکن نہیں ہے۔ بہر صورت یہ بات واضح ہے کہ الزام غلط تھا۔ 52: یعنی اس چوری کے معاملے میں جس کا اِلزام تم مجھ پر لگا رہے ہو، تمہاری حالت کہیں زیادہ بُری ہے، کیونکہ تم نے خود مجھے میرے باپ سے چُرا کر کنویں میں ڈال دیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٧۔ یوسف (علیہ السلام) کے سوتیلے بھائیوں نے جب دیکھا کہ بادشاہ مصر کا پیمانہ بنیامین کے سامان میں سے نکلا تو کہنے لگے کہ اس پر کیا موقوف ہے اگر اس نے چوری کی ہے تو کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے اس کا ایک بھائی اور تھا اس نے بھی ایک مرتبہ چوری کی تھی اس چوری کی بابت مجاہد کہتے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کی پھوپھی اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں سب سے بڑی تھیں۔ ایک کمر بند اسحاق (علیہ السلام) کا تھا اس کے وارث پہلے سے بڑی اولاد ہوتی آئی تھی اس لئے اس مرتبہ ان کی پھوپی اس کی وارث ہوئیں جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے گھر میں یوسف (علیہ السلام) پیدا ہوئے ان کی پھوپی نے ان کی پرورش کی اور جان سے زیادہ انہیں چاہتی تھیں۔ یوسف (علیہ السلام) کا ایک گھڑی آنکھ سے اوجھل ہونا ان پر شاق گزرتا تھا جب یوسف (علیہ السلام) کئی برس کے ہوگئے تو ان کے باپ نے اپنی بہن سے انہیں طلب کیا کہ اب یوسف (علیہ السلام) کو مجھے دے دو اپنے پاس سے اس کا علیحدہ ہونا مجھے گوارا نہیں ہے ان کی پھوپی نے کہا یہ بات تو ہو نہیں سکتی میں اس کو ہرگز نہیں چھوڑوں گی تم اسے چند روز اور میرے پاس رہنے دو ۔ اس سے میرا غم غلط ہوتا ہے اور میرے دل کو اس سے تسکین ہوتی ہے جب یعقوب (علیہ السلام) گھر میں سے باہر آئے تو ان کی بہن نے وہ کمر بند یوسف (علیہ السلام) کی کمر سے باندھ دیا اور یہ بات اوڑا دی کہ کمر بند گم ہوگیا ہے دیکھو کس نے لیا ہے غرض کہ کمر بند کی تلاش ہونے لگی اور گھر میں ہر شخص کی جامہ تلاشی ہوئی جب یوسف (علیہ السلام) کی باری آئی تو ان کی کمر سے وہ پٹکا نکلا اس پر یعقوب (علیہ السلام) کی بہن نے یعقوب (علیہ السلام) سے کہا کہ اب یہ لڑکا موافق تمہارے دین و آئین کے میرا ہے جو چاہوں سو کروں حضرت یعقوب نے بھی کہہ دیا کہ ہاں تمہارا ہے جو تم چاہے کرو تمہیں اختیار ہے۔ غرض کہ یوسف (علیہ السلام) کی پھوپی نے ایک برس تک یوسف (علیہ السلام) کو اس حیلہ سے روک رکھا اسی بات کا طعنہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو دیا کہ بنیامین نے اگر چوری کی تو کونسا تعجب ہوگیا اس کے بھائی نے بھی تو چوری کی تھی مگر یوسف (علیہ السلام) نے ان کی باتوں کا کچھ ظاہر میں جواب نہ دیا اور دل میں کہا کہ تم بڑے شریر ہو تمہارے قول و فعل سے خدا ہی خوب واقف ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ تم کہہ رہے ہو آیا صحیح کہہ رہے ہو یا غلط۔ صحیح مسلم اور ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص درگزر کی عادت ڈالے تو آخر کو اس کی عزت بڑھتی ہے ١ ؎ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے چوری کا الزام سن کر درگزر کے طور پر اس الزام کا کچھ جواب جو نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس درگزر کے بدلے میں یوسف (علیہ السلام) کی اس قدر عزت بڑھائی کہ یوسف (علیہ السلام) کے ان ہی سوتیلے بھائیوں کو آخر { تاللہ لقد اثرک اللہ علینا } کہنا پڑا جس کا مطلب یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے سوتیلے بھائیوں نے قسم کھا کر یوسف (علیہ السلام) کی عزت کو تسلیم کیا۔ ١ ؎ الترغیب ص ١٨٤ ج ٢ الترغیب فی التواقع

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:77) اسرھا۔ اسر۔ ماضی واحد مذکر غائب اسرار (افعال) سے۔ اس نے چھپایا اس نے چھپائے رکھا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ اس ضمیر کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ (1) یہ اس قول کی طرف راجع ہے جو بعد میں آرہا ہے یعنی انتم شر مکاناط۔ کے الفاظ آپ نے اپنے دل میں کہے اور ان کو ان پر ظاہر نہ کیا۔ بعض نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ اس بنا پر کہ یہ طریق غیر مستعمل ہے۔ (2) ضمیر اجابت کی طرف راجع ہے یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنا جواب دل میں چھپائے رکھا اور ان پر ظاہر نہ کیا۔ (3) ضمیر ان کے قول (مقالہ۔ گفتگو) کی طرف راجع ہے۔ یعنی انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کے سارق ہونے کے متعلق جو بات کہی وہ انہوں نے اس کی حقیقت کو اپنے دل میں چھپائے رکھا۔ اور ان پر ظاہر نہ کیا۔ (4) ضمیر محذوف کی طرف راجع ہے۔ یعنی یوسف (علیہ السلام) نے اپنے غصہ اور کبیدہ خاطری کو جوان کے قول کے نتیجہ میں پیدا ہوئی چھپائے رکھا اور ظاہر نہ کیا۔ لم یبدہا۔ لم یبد۔ مضارع نفی حجد بلماصل میں یندی تھا۔ یبوجہ عمل لم (اجتماع ساکنین) گرگئی۔ اس نے اس کو ظاہر نہ کیا۔ ہا ضمیر کے متعلق اوپر اسرہا میں ملاحظہ ہو۔ قال۔ ای قال فی نفسہ۔ اپنے جی میں کہا۔ انتم شر مکانا۔ تم بہت بری جگہ ہو۔ تمہاری پوزیشن تو بہت ہی بری ہے (کہ تم نے اپنے بھائی کو باپ سے چرایا اور اپنی بریت کے لئے طرح طرح کی کذب بیانی کی) تصفون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم بیان کرتے ہو۔ تم بتاتے ہو۔ وصف (باب ضرب سے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یہ اشارہ حضرت یوسف کی طرف تھا۔ پہلے کہہ چکے کہ ہم چور نہیں ہے لیکن اب جو دیکھا کہ بنامین کے پاس چوری کا مال نکل آیا ہے تو اپنی خفت مٹانے اور اپنی پاکبازی ظاہر کرنے کے لئے فوراً اپنے آپ کو بنیامین سے الگ کرلیا اور اس کے جرم کو بہانہ بنا کر اس کے بھائی پر بھی چوری کی جھوٹی تہمت لگا دی۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے گم ہوجانے کے بعد بنیامین کے ساتھ یہ بھائی کیا سلوک کرتے رہے ہونگے۔ 6 ۔ کیونکہ اگر ظاہر کرتے تو وہ سمجھ لیتے کہ یہی یوسف ( علیہ السلام) ہے اور ابھی یہ راز کھولنے کا وقت نہ آیا تھا۔ 7 ۔ یعنی یوسف ( علیہ السلام) نے چوری کی ہو یا نہ کی ہو مگر تمہارے چور ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ تم نے اسے باپ سے چرا کو کنویں میں پھینک دیا۔ اس پر غضب یہ کہ اُ (رح) ٹا اپنے آپ کو پاکباز اور یوسف ( علیہ السلام) کو جھوٹا بتاتے ہو۔ 8 ۔ یعنی تم جو یوسف ( علیہ السلام) پر چوری کا الزام لگا رہے ہو اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ تم جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکا دے سکتے ہو مگر اللہ تعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 77 تا 79 (یسرق چوری کرتا ہے ) ( اسر اس نے چھپا لیا ) ( فی نفسہ اپنے نفس میں، اپنے دل میں ) (لم یبدظاہر نہ کیا) ( انتم تم) ( شر مکان برا ٹھکانا، برے درجے کے لوگ) ( تصفون تم بیان کرتے ہو) ( شیخ کبیر بہت زیادہ بوڑھا) ( خذ تو پکڑے، تولے لے ) (احدنا ہم میں سے ایک) ( مکانہ، اس کی جگہ ) (نرک ہم دیکھتے ہیں تجھے) ( معاذ اللہ اللہ کی پناہ) ( ان ناخذ یہ کہ ہم لے لیں) ( عندہ، اس کے پاس) ( اذا اس وقت) تشریح : آیت نمبر 77 تا 79 جب حضرت یوسف کے سگے بھائی بن یمین کے سامان میں سے وہ شاہی پیالہ نکل آیا جس کی تلاش تھی تب حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے دلی غبض اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے اس کا بھائی یوسف بھی چوری کرچکا ہے۔ یہ ایک ایسا زخم تھا جس پر حضرت یوسف جو کہ بادشاہ وقت بھی تھے ان کو شدید غصے میں آ کر کسی بڑی سے بڑی سزا کا اعلان کردینا چاہئے تھا مگر جہان اللہ نے ان کو اقتدار عطا فرمایا تھا وہیں شان پیغمبری اور اس کا حلم و برداشت بھی عطا فرمایا تھا۔ شاید اللہ کی طرف سے اس بات کا اشارہ نہیں ملا تھا کہ حضرت یوسف اپنے آپ کو اپنے سوتیلے بھائیوں پر ظاہر کردیں اس لئے آپ نے تحمل اور برداشت سے کام لیتے ہوئے مکمل خاموشی اختیار فرمائی اور دل میں صرف اتنا کہا کہ تم کتنے برے لوگ ہو۔ حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ جو کچھ تم الزام لگا رہے ہو وہ غلط ہے۔ دین ابراہیمی کے قانون کے مطابق اب بن یا مین حضرت یوسف کے غلام بنا لئے گئے تھے۔ جب برادران یوسف نے دیکھا کہ اب اپنے بھائی کو واپس لے جانے کی ہر کوشش بےکار ہوگی تب انہوں نے سب سے پہلے یہ تجویز رکھی کہ اے عزیز مصر ! تم ہم میں کسی ایک بھائی کو بن یمین کے بدلے میں رکھ لو۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں اور وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر پائیں گے۔ آپ تو بہت ہی نیکی کرنے والے ہیں حضرت یوسف نے کہا کہ اللہ کی پناہ میں کسی بےگناہ شخص کو پکڑ لوں۔ جس کے پاس سے سامان نکلا ہے۔ ہم اس کو پکڑ سکتے ہیں جس کے پاس سے سامان برآمد نہیں ہوا ہم اس کو کیسے پکڑ سکتے ہیں اگر ہم نے بن یا مین کے بدلے میں کسی بےگناہ کو پکڑ لیا تو یہ سخت ناانصافی اور ظلم ہوگا۔ ۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یوسف نے اپنے بھائی بن یا مین کو اپنے پاس روک رکھنے کی ایک تدبیر کی اور دین ابراہیمی کی قوانین کے مطابق فیصلہ کیا تھا ورنہ مصر کے قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس طرح کے کسی معاملہ کو ” توریہ “ کہتے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی ایسا کام کیا جائے یا کوئی بات کہی جائے جو دیکھنے اور سننے والے کے ذہن میں ایک ظاہری اور قریبی مطلب سمجھا جائے جب کہ اس کہنے والے اور کرنے والے کی نیت کچھ اور ہو۔ اب مثلاً حضرت یوسف جانتے تھے کہ ان کے بھائی بن یا میں نے چور ہیں نہ ان سے کسی زیادتی کی امید کی جاسکتی ہے مگر حضرت یوسف نے ایک ایسی تدبیر کی جس سے بن یا مین رک جائیں اور دیکھنے والوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہ ہو سکے کہ کیا معاملہ ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ اگر نیک مقصد کیلئے تو ریہ کیا جائے تو وہ جائز ہے لیکن اگر ناجائز کام کے لئے ہو تو حرام ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی ہم دونوں بھائیوں سے تو حقیقت سرقہ کی صادر نہیں ہوئی اور تم نے تو اتنا بڑا کام کیا کہ کوئی مال غائب کرتا ہے تم نے آدمی غائب کردیا کہ مجھ کو باپ سے بچھڑا دیا اور ظاہر ہے کہ آدمی چوری مال کی چوری سے زشت تر ہے اور برادران یوسف نے جو کہا کہ اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی اس کی حقیقت درمنثور میں یہ لکھی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کی پھوپھی پرورش کرتی تھیں جب ہوشیار ہوئے تو یعقوب (علیہ السلام) نے انہیں واپس لینا چاہا لیکن وہ اپنے پاس رکھنا چاہتی تھیں اس لیے ان کی کمر میں ایک پٹکا کپڑوں کے اندر باندھ کر مشہور کردیا کہ پٹکا گم ہوگیا اور سب کی تلاشی لی تو ان کی کمر سے نکلا اور اس شریعت کے قانون کے موافق یوسف (علیہ السلام) کو پھوپھی کے قبضہ میں رہنا پڑا یہاں تک کہ ان کی پھوپھی نے وفات پائی اور آپ نے یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آگئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بنیامین کے سامان سے بادشاہ کا پیالہ برآمد ہونے پر بھائیوں کا رد عمل۔ سامان کی تلاشی لینے پر بنیامین کے سامان سے پیالہ نکلا۔ تلاشی لینے والوں نے کہا کہ اب بتائیں کہ ہمارا قیافہ صحیح نہیں نکلا ؟ سب کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیا گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ براداران یوسف اس پر بنیابین کی طرف سے کوئی عذر اور معذرت کرتے۔ انہوں نے اس کے برعکس اپنے حسد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کے حقیقی بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ یہ ہمارا حقیقی بھائی نہیں ہے باقی ہم سگے بھائی ہیں۔ ہم میں کوئی بھی ایسی حرکت کرنے والا نہیں ہے۔ یہ دونوں بھائی ایسی حرکات کرلیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑی ہے۔ نہ معلوم انہوں نے اس موقع پر کیا کیا باتیں کی ہوں گی کیونکہ ان کے دلوں میں ان دونوں کے بارے میں حسدو بغض کا ایک طوفان چھپا ہوا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) بڑے حوصلے کے ساتھ ساری باتیں سنتے رہے اور اپنے دل میں کہا کہ تم خود برے لوگ ہو۔ تم مجھ پر چوری کا الزام لگار ہے ہو حالانکہ تم نے مجھ پر بڑی زیادتی کی تھی۔ حضرت یوسف چاہتے تو انہیں گرفتار کرلیتے اور ان سے ساری بات اگلواتے کہ تم نے کس طرح اپنے باپ کو دھوکا دے کر یوسف کو کنویں میں پھینکا تھا۔ اگر وہ انکار کرتے تو فرماتے کہ ظالمو ! کیوں جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہو میں ہی یوسف ہوں۔ لیکن انہوں ایسا کرنے کی بجائے راز کو راز ہی رہنے دیا۔ بھائیوں نے جب دل کی بھڑاس نکال لی تو انہیں احساس ہوا کہ ہم نے معذرت کرنے کی بجائے نہ صرف بنیابین کو چور ثابت کردیا ہے بلکہ اس کے بھائی کو بھی چور بنا ڈالا ہے۔ اس کے بعد یوسف (علیہ السلام) سے عرض کرنے لگے۔ کہ اے بادشاہ سلامت ! اس کا باپ بہت ہی کمزور اور بوڑھا ہے۔ اسے اس کے ساتھ بہت محبت ہے لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو گرفتار کرلیں ہم نے دیکھا ہے کہ آپ بڑے ہی مہربان اور احسان کرنے والے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ ! کہ ہم ایسے شخص کو گرفتار کریں کہ جس سے مال برآمد نہیں ہوا۔ ایسا کرنا تو بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ ہم تو اس شخص کو پکڑیں گے جس سے ہم نے مال بر آمد کیا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی احتیاط اور سمجھ داری کا اندازہ لگائیں کہ وہ یہ نہیں فرماتے کہ ہم چور کو پکڑیں گے۔ ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ باپ کو بیٹے کے جرم میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ “ (مسند احمد) مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) پر چوری کا الزام لگادیا۔ ٢۔ مجرم کے بدلے کسی دوسرے کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظالم کو ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران : ٥٧) ٢۔ ظالموں کے لیے تباہی ہے۔ (نوح : ٢٨) ٣۔ ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (الشورٰی : ٢١) ٤۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر : ١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس مختصر سبق آموز تبصرے کے بعد اب ہم برادران یوسف (علیہ السلام) کی طرف لوٹتے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ اس مشکل مرحلے سے دو چار ہو کر یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے خلاف ان کے دل میں چھپی ہوئی عداوت اور بغض و حسد اب اہل پڑا ہے۔ چناچہ وہ اپنے آپ کو اس جرم سے بری قرار دے کر ، اس کا ذمہ دار حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی دوسری بیوی کی اولاد کو ٹھہراتے ہیں۔ قالوا ان یسرق فقد سرق اخ لہ من قبل (١٢ : ٧٧) ان بھائیوں نے کہا “ یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات بھی نہیں ، اس سے پہلے اس کا بھائی (یوسف (علیہ السلام) بھی چوری کرچکا ہے ”۔ ہمارے تفاسیر کے ذخیرے میں اس الزام پر طویل تبصرے ، حکایات اور روایات بیان کی گئی ہیں ، جو سب کی سب اسرائلیات پر مشتمل ہیں۔ یہ کہ اس کی طرف سے سرقہ قابل تعجب نہیں ہے۔ اس سے قبل اس کے بھائی (یوسف (علیہ السلام) اس جرم کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ گویا انہوں نے تو یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں باپ کے سامنے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ کیا وہ اب عزیز مصر کے سامنے جھوٹ نہیں بول رہے کہ اپنے آپ کو اس شرمندگی سے نکالیں اور اس طرح وہ اپنے آپ کو یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی سے قدرے علیحدہ کردیں۔ اس طرح یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے حق میں اپنے قدیمی بغض اور حسد کو ظاہر کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر یہ بالکل ناحق اور جھوٹا الزام لگایا۔ فاسرھا یوسف فی نفسہ ولم یبدھالھم (١٢ : ٧٧) “ یوسف (علیہ السلام) ان کی یہ بات سن کر پی گیا اور یہ بات ان پر نہ کھولی ”۔ یوسف (علیہ السلام) نے ان کو اس الزام کے جواب میں ، اپنی حقیقت ان پر نہ کھولی ، بات کو پی گئے اور اپنے تاثرات کا اظہار نہ کیا۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اور ان کے بھائی دونوں بری الذمہ ہیں۔ البتہ انہوں نے صرف اتنا کہا : قال انتم شرمکانا (١٢ : ٧٧) “ تم بہت ہی برے لوگ ہو ”۔ یعنی تم یہ جھوٹا الزام لگا رہے ہو اور جس پر تم الزام لگا رہے ہو ، اس کے مقابلے میں تم تو بہت ہی برے ہو ”۔ قال انتم شر مکاناً (١٢ : ٧٧) “ یوسف (علیہ السلام) نے کہا ، تم بہت ہی برے ہو ”۔ یعنی تم جس پر الزام سرقہ لگا رہے ہو اس کے مقابلے میں اللہ کے نزدیک تم خود بہت ہی برے ہو ، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو کچھ کہا۔ یہ محض گالی نہ تھی بلکہ حقیقت تھی۔ واللہ اعلم بما تصفون (١٢ : ٧٧) “ جو الزام تم لگا رہے ہو ، اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے ”۔ اور اس واقعہ کی حقیقت بھی اور تمہارے الزام کی حقیقت بھی۔ یوں اللہ پر چھوڑ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بات کو یہاں ہی ختم کردیا کیونکہ یہاں مطلب و موضوع کے ساتھ اس واقعہ کا تعلق نہیں ہے۔ اب یہ لوگ اس پریشان کن صورت حال پر غور کرنے لگے جس میں وہ گرفتار ہوگئے تھے۔ سوچنے لگے کہ والد نے تو پہلے ہی یہ کہا تھا کہ : لتاتننی بہ الا این یحاط بکم (١٢ : ٦٦) “ تم ضرور اسے لے کر آؤ گے الا یہ کہ تم سب گھر جاؤ ”۔ اب وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سے رحم کی اپیل کرنے لگے۔ اس نوجوان بھائی کے بہت ہی بوڑھے باپ کا واسطہ دینے لگے ، یہ پیش کرنے لگے کہ اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو گرفتار کرلے ۔ یہ ان کو یاد دلا رہے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) تم بہت محسن ، نیک نفس انسان ہو اور اس کے باپ ہی کی خاطر اسے رہا کردو۔ قالوا یایھا العزیز ۔۔۔۔۔ المحسنین (١٢ : ٧٨) “ انہوں نے کہا “ اے سردار ذی اقتدار (عزیر) اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے ، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے ، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں ”۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) تو انہیں مزید سبق پڑھانا چاہتے تھے۔ وہ ان کو اس اچانک خوشی کے لئے تیار کررہے تھے ، جو ان کے لیے ، ان کے والد کے لئے اور سب رشتہ داروں کے لئے آرہی تھی تا کہ وہ بےحد خوش ہوں اور ان پر اس کا گہرا اثر ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65:۔ فرزندان یعقوب (علیہ السلام) نے یہ واقعہ دیکھ کر شرم سے سرجھکا لیے اور کہنے لگے اگر بنیامین نے چوی کی ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ بنیامین کے بھائی سے حضرت یوسف (علیہ السلام) مراد ہیں۔ اور ان کی چوری کا قصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بچپن میں پھوپھی نے پرورش کی تھی۔ اور وہ اس کے پاس رہتے تھے جب ذرا بڑے ہوئے تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ان کی پھوپھی انہیں بہت چاہتی اور ان سے والہانہ محبت کرتی تھیں وہ ان کی واپسی پر راضی نہ تھیں اس لیے انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے پاس رکھنے کا ایک حیلہ نکالا کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا منطقہ جو انہیں وراثت میں ملا تھا یوسف (علیہ السلام) کی کمر میں کپڑوں کے نیچے باندھ دیا اور پھر کہا کہ میرا منطقہ گم ہوگیا ہے اس کی تلاشہ کی جائے تلاش کرنے پر وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی کمر سے بندھا ہوا پایا گیا اس دستور کے مطابق یوسف (علیہ السلام) پھر ان کو واپس مل گیا۔ (کبیر و قرطبی وغیرہ) ۔ 66:۔ بھائیوں کی بات سن کر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دل میں کہا تم اس سے بھی بد تر اعمال کے مرتکب ہوئے ہو۔ تم نے دھوکہ سے یوسف کو باپ سے جدا کی اور اسے جنگل کے ایک کنوئیں میں پھینک دیا۔ اور رات کو گھر جا کر باپ کے سامنے غلط بیان کی کہ یوسف کو بھیڑئیے نے پھاڑ کھایا ہے تم جو کچھ کہہ رہے ہو اللہ تعالیٰ تو اس کی حقیقت سے باخبر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

77 اس پر ان بھائیوں نے کہا اگر بن یامین میں نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کا حقیقی بھائی یوسف (علیہ السلام) بھی چوری کرچکا ہے یہ سن کر یوسف (علیہ السلام) نے ان سے تو کوئی بات ظاہر نہیں کی اور اپنے جی میں چکے سے یوں کہا تم تو چوروں سے بھی درجہ میں بدتر ہو اور خدائے اس اتہام کو خوب جانتا ہے جو تم بیان کر رہے ہو ۔ یعنی ابھی کہہ رہے تھے ہم چوری کرنے والوں میں سے نہیں ہیں اب بن یامین کے چورہوتے ہی دوسرے بھائی کو بھی چور بتانے لگے۔ بعض علماء نے کہا یوسف (علیہ السلام) نے یہ جملہ ان کو خطاب کر کے کہا ۔ واللہ اعلم بہر حال ! تم چوروں سے بھی بدتر ہو کر بھائی کو چرا کر بیچ ڈالا اور پھر کھرے بن رہے ہو چوری اور سینہ زوری بہر حال ! یوسف نے بڑے ضبط سے کام لیا۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو صغیر سنی میں ان کی پھوپھی نے پالا تھا جب ان کے باپ یعقوب (علیہ السلام) بہن سے لینے لگے تو ان کو یوسف (علیہ السلام) سے محبت بہت تھی انہوں نے ایک ٹپکا ان کی کمر میں باندھ دیا اور ٹپکے کی جب ڈھونڈ ہوئی تو وہ یوسف (علیہ السلام) کی کمر سے بندھا ہوا نکلا اور ان کو سال بھر پھوپھی کے پاس رہنا پڑا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تم نے ایسی چوری کی کہ بھائی کو باپ سے چرا کر بیچ ڈالا اور میری چوری کا حال اللہ کو معلوم ہے ان پرچوری کا طعن دیا وہ قصہ یہ کہ حضرت یوسف کو پھوپھی نے پالا جب بڑے بڑے ہوئے تو باپ نے چاہا کہ اپنے پاس رکھیں چونکہ پھوپھی کو محبت تھی چھپا کر ایک پٹکا ان کی کمر سے باندھ دیا پھر اس کو ڈھونڈھنے لگیں لوگوں میں چرچا ہوا آخر اس کی کمر سے نکلا موافق اس دین کے ایک برس پھوپھی کے پاس اور رہے۔ 12