Commentary It was stated in the previous verses that, while in Egypt, a royal bowl was concealed in the baggage of Benyamin, the younger brother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . Then, by recovering it as planned, a charge of theft was levelled against him. As in the first of the verses cited above, when the stolen property was recovered from Benyamin&s baggage before the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، they were so ashamed that they said in irritation: إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ , that is, if he has committed a theft, it is not much of a sur¬prise, for he had a brother who, like him, had committed a theft before. The sense was that he was not their real brother. He was their step brother. And he had a real brother who had also committed a theft. On this occasion, the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) accused him too of a theft, which refers to an event which took place during his child-hood when the way a conspiracy was hatched here to blame Benyamin for theft, a similar conspiracy was staged against Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) at that time with him being totally unaware of it. As for his brothers, they were fully aware of the fact that he was totally free from this blame. But, being angry with Benyamin on this occasion, they have made out that event too as of theft and have put its blame on his broth¬er, Yusuf (علیہ السلام) . What was that event? Reports differ about it. Referring to Muhammad ibn Ishaq and Tafsir authority, Mujahid, Ibn Kathir has reported that soon after the birth of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، Benyamin was born. This birth of his became the cause of his mother&s death. When both Yusuf and Benyamin were left without their mother, they were raised by their paternal aunt. Allah Ta’ ala had blessed Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) from his very childhood with such an attractive personality that whoever saw him became deeply attached to him. His paternal aunt was no exception. She would not let him disappear from her sight at any time. On the other hand, no different was the condition of his father who was very fond of him. But, being a minor child, it was necessary that he be kept under the care of a woman. Therefore, he was put under the care of his paternal aunt. When he had learnt how to walk, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) thought of having him come to live with him. When he talked to his pa¬ternal aunt, she showed her reluctance to let him go. After that, having been under compulsion, she somehow handed Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) over to his father, but she did make a plan to take him back. She had an antique waist-band which had come to her as the legacy of Sayyidna Ishaq (علیہ السلام) and was highly valued. Sayyidna Yusuf&s paternal aunt tied this band on his waist underneath his dress. After he had gone, she spread the news around that her waist-band has been stolen by someone. When searched for, it turned out to be with young Yusuf (علیہ السلام) . According to the Shari` ah of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، the pa¬ternal aunt now had the right to keep him as her slave. When Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) saw that the paternal aunt has become the owner of Yusuf (علیہ السلام) on the authority of the religious law of the land, he handed young Yusuf (علیہ السلام) over to her. Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) kept living with her as long as she was alive. This was the event in which the blame of theft was imputed to Sayy¬idna Yusuf (علیہ السلام) following which the truth came to light and everybody found that he was free of even the least doubt of theft. It was the love of his paternal aunt for him that had made her conspire to keep him. The brothers knew this truth all too well. Given this reason, it did not behove them that they would attribute theft to him. But, of the series of excesses inflicted on Sayyidna Yusuf ill by his brothers, this too was the last. Now in the second sentence of the first verse (77) it was said: فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ that is, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) heard what his broth¬ers had to say and kept it in his heart for they still seemed to be after him and were now blaming him for theft. But, he kept his reaction to himself and did not let his brothers know that he had heard what they had said and was affected by it in any way. Said in the next and last sentence of the verse was: قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ that is, ` Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) said (in his heart): ` You are even worse in position (as you accuse your brother of theft, falsely and knowingly). And Allah knows best of what you allege (whether what you are saying is true or false).& The first sentence has been uttered in the heart. The other sentence may possibly have been said publicly as his response to what his brothers had said.
خلاصہ تفسیر : کہنے لگے کہ (صاحب) اگر اس نے چوری کی تو (تعجب نہیں کیونکہ) اس کا ایک بھائی (تھا وہ) بھی (اسی طرح) اس کے پہلے چوری کرچکا ہے (جس کا قصہ درمنثور میں اس طرح لکھا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی ان کی پھوپھی پرورش کرتی تھیں جب ہوشیار ہوئے تو یعقوب (علیہ السلام) نے لینا چاہا وہ ان کو چاہتی بہت تھیں انہوں نے ان کو رکھنا چاہا اس لئے انہوں نے ان کی کمر میں ایک پٹکا کپڑوں کے اندر باندھ کر مشہور کردیا کہ پٹکاگم ہوگیا اور سب کی تلاشی لی تو ان کی کمر میں نکلا اور اس شریعت کے قانون کے موافق ان کو پھوپھی کے قبضہ میں رہنا پڑا یہاں تک کہ ان کی پھوپھی نے وفات پائی پھر یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آگئے اور ممکن ہے یہ صورت استرقاق کی بھی یوسف (علیہ السلام) کی رضامندی سے ہوئی ہو اس لئے یہاں بھی آزاد کا غلام بنانا لازم نہیں آیا اور ہرچند کہ قرائن و اخلاق یوسفیہ میں ذرا تامل کرنے سے آپ کی برأت اس فعل سے یقیناً معلوم تھی مگر بنیامین پر جو بھائیوں کو غصہ تھا اس میں یہ بات بھی کہہ دی) پس یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کو (جو آگے آتی ہے) اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور اس کو ان کے سامنے (زبان سے) ظاہر نہیں کیا یعنی (دل میں) یوں کہا کہ اس چوری کے) درجہ میں تم تو اور بھی زیادہ بری ہو (یعنی ہم دونوں بھائیوں سے تو حقیقت سرقہ صادر نہیں ہوا اور تم نے تو اتنا بڑا کام کیا کہ کوئی مال غائب کرتا ہے تم نے آدمی غائب کردیا کہ مجھ کو باپ سے بچھڑا دیا اور ظاہر ہے کہ آدمی کی چوری مال کی چوری سے زیادہ سخت ہے) اور تو کچھ تم (ہم دونوں بھائیوں کے متعلق) بیان کر رہے ہو (کہ ہم چور ہیں) اس (کی حقیقت) کا اللہ ہی کو خوب علم ہے (کہ ہم چور نہیں ہیں جب بھائیوں نے دیکھا کہ انہوں نے بنیامین کو ماخوذ کرلیا اور اس پر قابض ہوگئے توبراہ خوشامد) کہنے لگے اے عزیز اس (بنیامین) کا ایک بہت بوڑھا باپ ہے (اور اس کو بہت چاہتا ہے اس کے غم میں خدا جانے کیا حال ہو، اور ہم سے اس قدر محبت نہیں) سو آپ ایسا کیجئے کہ) اس کی جگہ ہم میں سے ایک کو رکھ لیجئے (اور اپنا مملوک بنا لیجئے) ہم آپ کو نیک مزاج دیکھتے ہیں (امید ہے کہ اس درخواست کو منظور فرما لیں گے) یوسف (علیہ السلام) نے کہا ایسی (بےانصافی کی) بات سے خدا بچائے کہ جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا دوسرے شخص کو پکڑ کرلیں (اگر ہم ایسا کریں تو) اس حالت میں تو ہم بڑے بےانصاف سمجھے جائیں گے (کسی آزاد آدمی کو غلام بنا لینا اور غلاموں کا معاملہ کرنا اس کی رضامندی سے بھی حرام ہے) پھر جب ان کو یوسف (علیہ السلام) سے تو (ان کے صاف جواب کے سبب) بالکل امید نہ رہی (کہ بنیامین کو دیں گے) تو (اس جگہ سے) علیحٰدہ ہو کر باہم مشورہ کرنے لگے (کہ کیا کرنا چاہئے، پھر زیادہ کی یہ رائے ہوئی کہ مجبوری ہے سب کو واپس چلنا چاہئے، مگر) ان سب میں جو بڑا تھا اس نے کہا کہ (تم جو سب کے سب واپس چلنے کی صلاح کر رہے ہو تو) کیا تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ تم سے خدا کی قسم کھلاکر پکا قول لے چکے ہیں (کہ تم اس کو اپنے ہمراہ لانا لیکن اگر گھر جاؤ تو مجبوری ہے سو ہم سب کے سب تو گھر ہے نہیں کہ تدبیر کی گنجائش نہ رہتی اس لئے حتی الامکان کچھ تدبیر کرنا چاہئے) اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں کس قدر کوتاہی کرچکے ہو (کہ ان کے ساتھ جو کچھ برتاؤ ہوا اس سے باپ کے حقوق بالکل ضائع ہوئے سو وہ پرانی ہی شرمندگی کیا کم ہے جو ایک نئی شرمندگی لے کر جائیں) سو میں تو اس زمین سے ٹلتا نہیں تاوقتیکہ میرے باپ مجھ کو (حاضری کی) اجازت نہ دیں یا اللہ تعالیٰ اس مشکل کو سلجھا دے اور وہی خوب سلجھانے والا ہے (یعنی کسی تدبیر سے بنیامین چھوٹ جائے غرض میں یا اس کو لے کر جاؤں گا یا بلایا ہوا جاؤں گا سو مجھ کو تو یہاں چھوڑو اور) تم واپس اپنے باپ کے پاس جاؤ اور (جا کر ان سے) کہو کہ اے ابا آپ کے صاحبزادے (بنیامین) نے چوری کی (اس لئے گرفتار ہوئے) اور ہم تو وہی بیان کرتے ہیں جو ہم کو (مشاہدہ سے) معلوم ہوا ہے اور ہم (قول وقرار دینے کے وقت) غیب کی باتوں کے تو حافظ تھے نہیں (کہ یہ چوری کرے گا ورنہ ہم کبھی قول نہ دیتے) اور (اگر ہمارے کہنے کا یقین نہ ہو تو) اس بستی (یعنی مصر) والوں سے (کسی اپنے معتمد کی معرفت) پوچھ لیجئے جہاں ہم (اس وقت) موجود تھے (جب چوری برآمد ہوئی ہے) اور اس قافلہ والوں سے پوچھ لیجئے جن میں ہم شامل ہو کر (یہاں) آئے ہیں (معلوم ہوتا ہے اور بھی کنعان کے یا آس پاس کے لوگ غلہ لینے گئے ہوں گے) اور یقین جانئے ہم بالکل سچ کہتے ہیں (چنانچہ سب نے بڑے کو وہاں چھوڑا اور خود آ کر سارا ماجرا بیان کیا) معارف ومسائل ان سے پہلی آیات میں مذکور تھا کہ مصر میں یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی بنیامین کے سامان میں ایک شاہی برتن چھپا کر اور پھر ان کے سامان سے تدبیر کے ساتھ برآمد کر کے ان پر چوری کا جرم عائد کردیا گیا تھا، مذکورہ آیات میں پہلی آیت میں یہ ہے کہ جب برادران یوسف (علیہ السلام) کے سامنے بنیامین کے سامان سے مال مسروقہ برآمد ہوگیا اور شرم سے ان کی آنکھیں جھک گئیں تو جھنجھلاکر کہنے لگے اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ یعنی اگر اس نے چوری کرلی تو کچھ زیادہ تعجب نہیں اس کا ایک بھائی تھا اس نے بھی اسی طرح اس سے پہلے چوری کی تھی، مطلب یہ تھا کہ یہ ہمارا حقیقی بھائی نہیں علاتی ہے اس کا ایک حقیقی بھائی تھا اس نے بھی چوری کی تھی، یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اس وقت خود یوسف (علیہ السلام) پر بھی چوری کا الزام لگا دیا جس میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بچپن میں پیش آیا تھا جس میں ٹھیک اسی طرح جیسے یہاں بنیامین پر چوری کا الزام لگانے کی سازش کی گئی ہے اس وقت یوسف (علیہ السلام) پر ان کی بیخبر ی میں ایسی ہی سازش کی گئی تھی اور یہ سب بھائیوں کو پوری طرح معلوم تھا کہ یوسف (علیہ السلام) اس الزام سے بالکل بری ہیں مگر اس وقت بنیامین پر غصہ کی وجہ سے اس واقعہ کی بھی چوری کا قرار دے کر اس کا الزام ان کے بھائی یوسف (علیہ السلام) پر لگا دیا ہے، وہ واقعہ کیا تھا اس میں روایات مختلف ہیں ابن کثیر (رح) نے بحوالہ محمد بن اسحاق مجاہد (رح) امام تفسیر سے نقل کیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی ولادت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد بنیامین پیدا ہوئے تو یہ ولادت ہی والدہ کی موت کا سبب بن گئی، یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین دونوں بھائی بغیر ماں کے رہ گئے تو ان کی تربیت وحضانت ان کی پھوپھی کی گود میں ہوئی اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بچپن سے ہی کچھ ایسی شان عطاء فرمائی تھی کہ جو دیکھتا ان سے بےحد محبت کرنے لگتا تھا پھوپھی کا بھی یہی حال تھا کہ کسی وقت ان کو نظروں سے غائب کرنے پر قادر نہ تھیں دوسری طرف والد بزرگوار حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا مگر بہت چھوٹا ہونے کی بناء پر ضرورت اس کی تھی کہ کسی عورت کی نگرانی میں رکھا جائے اس لئے پھوپھی کے حوالے کردیا تھا اب جب کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو یعقوب (علیہ السلام) کا ارادہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ رکھیں پھوپھی سے کہا تو انہوں نے عذر کیا، پھر زیادہ اصرار پر مجبور ہو کر یوسف (علیہ السلام) کو ان کے والد کے حوالے تو کردیا مگر ایک تدبیر ان کو واپس لینے کی یہ کردی کہ پھوپی کے پاس ایک پٹکا تھا جو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی طرف سے ان کو پہنچا تھا اور اس کی بڑی قدر و قیمت سمجھی جاتی تھی یہ پٹکا پھوپھی نے یوسف (علیہ السلام) کے کپڑوں کے نیچے کمر پر باندھ دیا یوسف (علیہ السلام) کے جانے کے بعد یہ شہرت دی کہ میرا پٹکا چوری ہوگیا پھر تلاشی لی گئی تو وہ یوسف کے پاس نکلا، شریعت یعقوب (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق اب پھوپھی کو یہ حق ہوگیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنا مملوک بنا کر رکھیں یعقوب (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ شرعی حکم کے اعتبار سے پھوپھی یوسف (علیہ السلام) کی مالک بن گئی تو ان کے حوالے کردیا اور جب تک پھوپھی زندہ رہیں یوسف (علیہ السلام) انہی کی تربیت میں رہے یہ واقعہ تھا جس میں چوری کا الزام حضرت یوسف (علیہ السلام) پر لگا اور پھر ہر شخص پر حقیقت حال روشن ہوگئی کہ یوسف (علیہ السلام) چوری کے ادنیٰ شبہ سے بھی بری ہیں پھوپھی کی محبت نے ان سے یہ سازش کا جال پھیلوایا تھا بھائیوں کو بھی یہ حقیقت معلوم تھی اس کی بناء پر کسی طرح زیبا نہ تھا کہ ان کی طرف چوری کو منسوب کرتے مگر ان کے حق میں بھائیوں کی جو زیادتی اور بےراہ روی اب تک ہوتی چلی آئی تھی یہ بھی اسی کا ایک آخری جز تھا، فَاَسَرَّهَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِهٖ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ یعنی یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کی یہ بات سن کر اپنے دل میں رکھی کہ یہ لوگ اب تک بھی میرے درپے ہیں کہ چوری کا الزام لگا رہے ہیں مگر اس کا اظہار بھائیوں پر نہیں ہونے دیا کہ یوسف (علیہ السلام) نے ان کی یہ بات سنی ہے اور اس سے کچھ اثر لیا ہے، قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۚ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ یوسف (علیہ السلام) نے (اپنے دل میں) کہا کہ تم لوگ ہی برے درجہ اور برے حال میں ہو کہ بھائی پر چوری کی تہمت جان بوجھ کر لگاتے ہو اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جاننے والے ہیں کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ صحیح ہے یا غلط پہلا جملہ تو دل میں کہا گیا ہے یہ دوسرا جملہ ممکن ہے کہ بھائیوں کے جواب میں اعلاناً کہہ دیا ہو