Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 79

سورة يوسف

قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اَنۡ نَّاۡخُذَ اِلَّا مَنۡ وَّجَدۡنَا مَتَاعَنَا عِنۡدَہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِذًا لَّظٰلِمُوۡنَ ﴿۷۹﴾٪  3

He said, "[I seek] the refuge of Allah [to prevent] that we take except him with whom we found our possession. Indeed, we would then be unjust."

یوسف ( علیہ السلام ) نے کہ ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا دوسرے کی گرفتاری کرنے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ، ایسا کرنے سے تو ہم یقیناً نا انصافی کرنے والے ہوجائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ مَعَاذَ اللّهِ أَن نَّأْخُذَ إِلاَّ مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ ... He said: "Allah forbid, that we should take anyone but him with whom we found our property...", according to the judgement that you gave for his punishment, ... إِنَّـا إِذًا لَّظَالِمُونَ Indeed, we should be wrongdoers. if we take an innocent man instead of the guilty man.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 یہ جواب اس لئے دیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اصل مقصد تو بنیامین کو روکنا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] جب یہ واقعہ پیش آگیا تو برادران یوسف کو فوراً خیال آیا کہ اب ہم اپنے باپ کو کیا منہ دکھاسکتے ہیں جس سے اتنا پختہ عہد کیا تھا کہ ہم بن یمین کو ضرور ساتھ لائیں گے الا یہ کہ ہم پر ہی کوئی آفت نہ پڑجائے۔ اب اگر یہ اس کے دس بھائی باپ کے پاس جاتے اور صرف بن یمین ساتھ نہ ہوتا تو اس سے زیادہ ان کے جھو... ٹ اور مکر و فریب کا اور کیا ثبوت ہوسکتا تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ سیدنا یوسف والے واقعہ کی وجہ سے باپ پہلے ہی ان کی طرف سے بدظن تھا۔ اب لگے سیدنا یوسف کے سامنے منت و سماجت کرنے کہ آپ نے ہم پر پہلے بھی بہت احسان کئے ہیں ایک یہ بھی کردیجئے کہ اس بن یمین کے بجائے ہم میں سے کوئی ایک اپنے ہاں غلام رکھ لیجئے کیونکہ اس کا باپ بہت بوڑھا بزرگ ہے اس کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کرسکے گا۔ اس کے جواب میں سیدنا یوسف کہنے لگے کہ ایسا ظلم ہم کیسے کرسکتے ہیں ہم تو اسی کو اپنے پاس رکھیں گے جس کے سامان سے ہمارا گم شدہ مال برآمد ہوا ہے۔ اس مقام پر بھی سیدنا یوسف نے بن یمین کو چور نہیں کہا نہ ان پر چوری کا الزام لگایا۔ کیونکہ فی الحقیقت انہوں نے چوری نہیں کی تھی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ مَعَاذ اللّٰهِ ۔۔ : یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی کو پاس رکھنا بھی چاہتے تھے اور چور بھی نہیں کہنا چاہتے تھے، ان کی کمال ذہانت اور کمال صدق دیکھیے کہ دونوں معنوں پر مشتمل الفاظ میں بھائی کو ساتھ بھیجنے سے انکار کردیا۔ فرمایا کہ ہم اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ اس شخص کے سوا کسی اور کو پک... ڑیں جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے، اس صورت میں تو یقیناً ہم ظالم ہوں گے اور ہم ظلم نہیں کرسکتے ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The response of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) appears in verse 79 قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّا إِذًا لَّظَالِمُونَ that is, he gave his reply to their request according to the regulations followed in his country by telling them that they were not authorized to detain anyone they wished. In fact, if they were to arrest someone other than the per... son from whose posses¬sion the lost property has been recovered, then, according to their own fatwa and ruling, they would be accused of being unjust. The reason he gave was that they had themselves said that ` he, in whose baggage the stolen property is found, shall himself be the punish¬ment.&  Show more

(آیت) قَالَ مَعَاذ اللّٰهِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهٗٓ ۙ اِنَّآ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کی درخواست کا جواب ضابطہ کے مطابق یہ دیا کہ یہ بات تو ہمارے اختیار میں نہیں کہ جس کو چاہیں پکڑ لیں بلکہ جس کے پاس مال مسروقہ برآمد ہوا اگر اس کے سوا ... کسی دوسرے کو پکڑ لیں تو ہم تمہارے ہی فتوے اور فیصلے کے مطابق ظالم ہوجائیں گے کیونکہ تم نے ہی یہ کہا ہے کہ جس کے پاس مال مسروقہ برآمد ہو وہ ہی اس کی اجزاء ہے   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهٗٓ ۙ اِنَّآ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ 79؀ۧ عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ( ن ) کے معن... ی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ متع ( سامان) وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء . ( م ت ع ) المتوع ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا نعوذ باللہ ہم گناہ گار کے بجائے بےگناہ کو روک لیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63. The use of the words “with whom we have found our property” instead of the word thief is very significant. Prophet Joseph avoided the use of the word thief for his brother because he was not really a thief. This is called touriyah, that is, to put a cover over a reality or to hide a reality. Such a practice is allowed by the Muslim law under certain conditions and with certain limitations. It ... may be practiced not to gain any selfish end, but to ward off some evil or to protect and save an oppressed person from some oppressor, provided that no other course might have been left except saying something against the truth or of having a resort to a deceitful device. It is obvious that in such a case, a righteous person will not tell a blunt lie or resort to an open deceit. Instead, he will say something or do something that might not be strictly truthful or strictly right, yet at the same time is not a blunt lie, so that he might hide the reality to ward off the evil. Such a practice is lawful, legally and morally, provided that it is not practiced to gain some personal or selfish ends but to ward off a greater evil with a lesser evil. Accordingly, Prophet Joseph scrupulously fulfilled all the conditions in this case. He placed the cup in the pack of his brother with his consent, but he did not ask his servants to make a search of his pack and accuse him of theft. After this, when the servants brought the brothers before him as suspects, he quietly rose from his seat and began to make a search of their packs. Then afterwards, when the brothers requested that one of them should be taken instead of Benjamin, he answered them back in their own words that he would detain only that person in whose possession the cup was found and none else. Instances of such a practice during his campaigns are found in the life history of the Prophet (peace be upon him). And this cannot be regarded as morally objectionable according to any moral or legal standard.  Show more

٦۳ ۔ احتیاط ملاحظہ ہو کہ چور نہیں کہتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ جس کے پاس ہم نے اپنا مال مایا ہے اسی کو اصطلاح شرع میں توریہ کہتے ہیں ، یعنی حقیقت پر پردہ ڈالنا ، یا امر واقعہ کو چھپانا ، جب کسی مظلوم کو ظالم سے بچانے یا کسی بڑے مظملہ کو دفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ کچھ خلاف وا... قعہ بات کہی جائے یا کوئی خلاف حقیقت حیلہ کیا جائے ، تو ایسی صورت میں ایک پرہیزگار آدمی صریح جھوٹ بولنے سے احتراز کرتے ہوئے ایسی بات کہنے یا ایسی تدبیر کرنے کی کوشش کرے گا ، جس سے حقیقت کو چھپا کر بدی کو دفع کیا جاسکے ۔ ایسا کرنا شرع و اخلاق میں جائز ہے بشرطیکہ محض کام نکالنے کے لیے ایسا نہ کیا جائے بلکہ کسی بڑی برائی کو دور کرنا ہو ، اب دیکھیے کہ اس سارے معاملہ میں حضرت یوسف نے کس طرح جائز توریہ کی شرائط پوری کی ہیں ۔ بھائی کی رضا مندی سے اس کے سامان میں پیالہ رکھ دیا مگر ملازموں سے یہ نہیں کہ کہ اس پر چوری کا الزام لگاؤ ، پھر جب سرکاری ملازم چوری کے الزام میں ان لوگوں کو پکڑ لاءےتو خاموشی کے ساتھ اٹھ کر تلاشی لے لی ، پھر اب جو ان بھائیوں نے کہا کہ بن یمین کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے ، تو اس کے جواب میں بھی بس انہی کی بات ان پر الٹ دی کہ تمہارا اپنا فتویٰ یہ تھا کہ جس کے سامان میں سے تمہارا مال نکلے وہی رکھ لیا جائے ، سو اب تمہارے سامنے بن یمین کے سامان میں سے ہمارا مال نکلا ہے اور اسی کو ہم رکھ لیتے ہیں ، دوسرے کو اس کی جگہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اس قسم کے توریہ کی مثالیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں بھی ملتی ہیں اور کسی دلیل سے بھی اس کو اخلاقا معیوب نہیں کہا جاسکتا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:79) معاذ اللہ۔ معاذ مصدر میمی ہے اور اسم ہے اور مضاف اللہ مضاف الیہ۔ اللہ کی پناہ۔ تقدیر کلام۔ نعوذ باللہ معاذا من ان ناخذ۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم کسی آدمی کو پکڑ رکھیں (ماسوا اس آدمی کے کہ جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے) اذا۔ حرف جزا ہے اصل میں اذن ہے وقف کی صورت میں نون کو الف سے ... بدل لیتے ہیں جو اب اور جزاء کے لئے آتا ہے۔ لظلمون۔ میں لام تاکید کے لئے ہے۔ استیئسوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ۔ وہ مایوس ہوگئے استئی اس (استفعال) سے ی ء س حروف مادہ ۔ ویسے ثلاثی مجرد سے یئس (سمع) بھی انہیں معنوں میں آتا ہے لیکن باب استفعال سے س اور ت مبالغہ کے لئے زائد لائے ہیں۔ خلصوا۔ خلص یخلص (نصر ) خلوص ماضی جمع مذکر غائب۔ وہ الگ بیٹھے ۔ وہ اکیلے بیٹھے۔ نجیا۔ خلصوا کی ضمیر جمع مذکر سے حال ہے۔ بوجہ مصدر ہونے کے حال ہے۔ باہم سرگوشی کرتے ہوئے۔ باہم مشورہ کرتے ہوئے (یعنی الگ ایک طرف جا کر مشورہ کرنے لگے) نجوی۔ سرگوشی۔ ما فرطتم فی یوسف۔ میں ما زائدہ ہے اور جملہ حالیہ ہے۔ فرط یفرط تفریط۔ (تفعیل) افراط (افعال) کے معنی حد سے بہت زیادہ تجاوز کر جانا۔ اور تفریط (تفعیل) کے معنی حد سے بہت پیچھے رہ جانا۔ بمعنی کوتاہی کرنا۔ ومن قبل ما فرطتم فی یوسف اور اس سے قبل تم یوسف کے بارے میں کوتاہی کرچکے ہو۔ قصور کرچکے ہو۔ قرآن میں اور جگہ آیا ہے۔ ما فرطنا فی الکتب (6: 38) ہم نے کتاب (یعنی لوح محفوظ میں) کسی چیز (کے لکھنے ) میں کمی نہیں کی۔ لن ابرح۔ مضارع نفی تاکید بلن۔ واحد متکلم ۔ منصوب بوجہ عمل لن۔ برح یبرح (سمع) کسی جگہ سے ہٹنا۔ پلٹنا۔ میں (یہاں سے ) نہیں ہٹوں گا۔ یحکم۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ فیصلہ کرے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ اور ظلم ہم کو نہیں سکتے۔ بنیامین حقیقت میں چور نہیں تھے اس لئے حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے یہ کہا کہ جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ نہیں کہا کہ پناہ خدا کی ، کہ ہم کسی چور کے بدلے ایک بےگناہ کو پکڑ لیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بھائی چور نہیں ہے ، اس لیے انہوں نے نہایت ہی ٹیکنیکل انداز تعبیر اختیار کیا۔ اگرچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زبان مصری ہوگی لیکن قرآن نے ان کی جو حالت بتائی ہے ظاہر ہے وہ اصل ... کے مطابق ہے۔ “ جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ”۔ ان الفاظ میں بالکل سادہ حقیقت کا اظہار ہے ، نہ الزام ہے اور اس کی طرف اشارہ کہ مال رکھا کس نے۔ انا اذا لظلمون “ اگر ہم دوسرے کو گرفتار کریں تو ہم ظالم ہوں گے ”۔ بس یہ آخری بات تھی ۔ وہ سمجھ گئے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب وہ سوچنے لگے کہ والد کو کس طرح منہ دکھائیں گے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68:۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا ظلم سے خدا کی پناہ۔ ہم تو صرف اسی کو رکھیں گے جس سے ہمارا مال برآمد ہوا ہے اس کی جگہ دوسرے کو رکھیں تو ہم ظالم ہیں۔ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا میں اِلَّا بمعنی سوی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

79 ۔ عزیز نے بھائیوں کو جواب دیا ہم کو ایسی ناانصافی سے خدا بچائے کہ جس کے پاس ہم نے اپنا مال مسروقہ پایا ہے اس کو چھوڑ کر کسی اور کو گرفتار کرلیں ایسا کریں گے تو ہم اس حالت میں بڑے ظالم اور بےانصاف قرار پائیں گے یعنی یہ بڑی بےجا بات ہوگی کہ چوری کسی نے کی اور پکڑ لیں ہم کسی اور کو ۔