The third attribute of the obedient servants of Allah Ta’ ala stated here is: وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ (and those who maintain the relations Allah has commanded to be maintained). According to the well-known explanation of this verse, it means that these people maintain relationships and keep doing what needs to be done in this matter as com¬manded by Allah Ta` ala. Some commentators have explained it by say¬ing that these people conjoin righteous deeds with faith, or synchronize their initial faith in the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Qur’ an with faith in past prophets and their books. The fourth attribute has been identified as: وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ (and fear their Lord). The use of the word: خَشیَہ (khashyah) rather than خَوف - (khawf) in¬dicates that their &fear& of Allah is not the kind of fear one naturally has when facing some beast or dangerous man. Instead of that, this fear is like the habitual fear children have of their parents, and students of their teacher, for that is no fear of being harmed or hurt by them. In-stead, such fear is grounded in love and esteem because of which one ap¬prehends lest something said or done may become displeasing and repug¬nant in the sight of Allah Ta ala. Therefore, whenever the fear of Allah finds mention in an occasion of praise and glorification, generally the word used there is Khashyah because Khashyah is the name of the fear which emerges out of love and esteem. Therefore, in the next sentence, where the fear of strict reckoning has been mentioned, the word used is not Khashyah, instead the word used there is fear as such. It was said: وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (and they are frightful of evil reckoning). &Evil reckoning& denotes reckoning which is strict and minute. Sayyidah A’ ishah (رض) has said: It is Divine Mercy alone which can bring salvation for human beings when things are forgone and forgiven summarily at the time the reckoning of deeds takes place. Otherwise, anyone who is made to account for everything said and done, cannot escape from punishment. It is virtually impossible because who is there to claim that he or she has never made a mistake or committed a sin? So, this fear of having to face strict reckoning of deeds is the fifth attribute of righteous and obedient people.
تیسری صفت اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندوں کی یہ بتلائی گئی وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کے قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ان کو قائم رکھتے ہیں اس کی مشہور تفسیر تو یہی ہے کہ رشتہ داری کے تعلقات قائم رکھنے اور ان کے تقاضوں پر عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے یہ لوگ ان تعلقات کو قائم رکھتے ہیں بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان کے ساتھ عمل صالح کو یا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان کے ساتھ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی کتابوں پر ایمان کو ملا دیتے ہیں چوتھی صفت یہ بیان فرمائی وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ یعنی یہ لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں یہاں لفظ خوف کے بجائے خشیہ کا لفظ استعمال کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ان کا خوف اس طرح کا نہیں جیسے درندہ جانور یا موذی انسان سے طبعا خوف ہوا کرتا ہے بلکہ ایسا خوف ہے جیسے اولاد کو ماں باپ کا شاگرد کو استاد کا خوف عادۃ ہوتا ہے کہ اس کا منشا کسی ایذاء رسانی کا خوف نہیں ہوتا بلکہ عظمت و محبت کی وجہ سے خوف اس کا ہوتا ہے کہ کہیں ہمارا کوئی قول وفعل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسند اور مکروہ نہ ہوجائے اسی لئے مقام مدح میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کے خوف کا ذکر ہے عموما وہاں یہی لفظ خشیت کا استعمال ہوا ہے کیونکہ خشیت اسی خوف کو کہا جاتا ہے جو عظمت و محبت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اسی لئے اگلے جملہ میں جہاں حساب کی سختی کا خوف بیان کیا گیا ہے وہاں خشیت کا لفظ نہیں بلکہ خوف ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے ارشاد فرمایا۔ وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَاب یعنی یہ لوگ برے حساب سے ڈرتے ہیں برے حساب سے مراد حساب میں سختی اور جز رسی ہے حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ انسان کی نجات تو رحمت الہی سے ہو سکتی ہے کہ حساب اعمال کے وقت اجمال اور عفو و درگذر سے کام لیا جائے ورنہ جس شخص سے بھی پورا پورا ذرہ ذرہ کا حساب لیے لیا جائے اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں کیونکہ ایسا کون ہے جس سے کوئی گناہ وخطاء کبھی سرزد نہ ہوا ہو یہ حساب کی سختی کا خوف نیک و فرمانبردار لوگوں کی پانچوں صفت ہے، ٢ وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم راہبانہ انداز سے ترک تعلقات کی نہیں بلکہ ضروری تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے ماں باپ کے حقوق، اولاد، بیوی، اور بہن بھائیوں کے حقوق، دوسرے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر لازم کئے ہیں ان کو نظرانداز کرکے نفلی عبادت میں یا کسی دینی خدمت میں لگ جانا بھی جائز نہیں دوسرے کاموں میں لگ کر ان کو بھلا دینا تو کیسے جائز ہوتا۔ صلہ رحمی اور رشتہ داری کے تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کی خبر گیری اور ادائے حقوق کی تاکید قرآن کریم کی بیشمار آیات میں مذکور ہے۔ اور بخاری ومسلم کی حدیث میں روایت انس (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی رزق میں وسعت اور کاموں میں برکت عطا فرماویں تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کے معنی یہی ہیں کہ جن سے رشتہ داری کے خصوصی تعلقات ہیں ان کی خبر گیری اور بقدر گنجائش امداد واعانت کرے۔ اور حضرت ابو ایوب انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک گاؤں والا اعرابی آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکان پر حاضر ہوا اور سوال کیا کہ مجھے یہ بتلا دیجئے کہ وہ عمل کون سا ہے جو جنت سے قریب اور جہنم سے دور کردے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو (بغوی) اور صحیح بخاری میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صلہ رحمی اتنی بات کا نام نہیں کہ تم دوسرے عزیز کے احسان کا بدلہ ادا کردو اور اس نے تمہارے ساتھ کوئی احسان کیا ہے تو تم اس پر احسان کردو بلکہ اصل صلہ رحمی یہ ہے کہ تمہارے رشتہ دار عزیز تمہارے حقوق میں کوتاہی کرے تم سے تعلق نہ رکھے تم پھر بھی محض اللہ کے لئے اس سے تعلق کو قائم رکھو اور اس پر احسان کرو۔ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے تعلقات کو نبھانے ہی کے خیال سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنے نسب ناموں کو محفوظ رکھو جن کے ذریعہ تمہارے اپنے رشتہ دار محفوظ رہ سکیں اور تم ان کے حقوق ادا کرسکو پھر ارشاد فرمایا کہ صلہ رحمی کے فوائد یہ ہیں کہ اس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے اور مال میں برکت اور زیادتی ہوتی ہے اور عمر میں برکت ہوتی ہے (یہ حدیث ترمذی نے روایت کی ہے) اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بڑی صلہ رحمی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں سے وہی تعلقات قائم رکھے جو باپ کے سامنے تھے۔