Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 21

سورة الرعد

وَ الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ وَ یَخَافُوۡنَ سُوۡٓءَ الۡحِسَابِ ﴿ؕ۲۱﴾

And those who join that which Allah has ordered to be joined and fear their Lord and are afraid of the evil of [their] account,

اور اللہ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں اور وہ اپنےپروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ ... And those who join that which Allah has commanded to be joined, they are good to their relatives and do not sever the bond of kinship. They are also kind to the poor and the needy and generous in nature, ... وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ... and fear their Lord, in what they do or do not do of actions and statements. They remember that Allah is watching during all of this and are afraid of His terrifying reckoning in the Hereafter. Therefore, all their affairs are on the straight path and correct, whether they are active or idle, and in all of their affairs, including those that affect others, ... وَيَخَافُونَ سُوءَ الحِسَابِ and dread the terrible reckoning.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی رشتوں اور قرابتوں کو توڑتے نہیں ہیں، بلکہ ان کو جوڑتے اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] اللہ کی ہدایت قبول کرنے والوں کی صفات :۔ اگلی چند آیات میں چند ایسی صفات کا ذکر ہے۔ جنہیں اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہدایات کو برحق تسلیم کرنے والے اپنی طرز زندگی میں اپناتے ہیں۔ پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ اس عہد سے مراد عہد الست ہے۔ جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور جب انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اللہ کے عطا کردہ رزق پر ہی پرورش پا رہا ہے اور اسی کی عطا کردہ قوتوں کو استعمال کر رہا ہے تو اسے از خود یہ معلوم ہونے لگتا ہے کہ بندگی کے لائق بھی صرف وہی ہوسکتا ہے۔ اور اگر ایسے محسن کو چھوڑ کر دوسرے کی غلامی کی جائے تو یہ نمک حرامی ہوگی۔ ان کی دوسری صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے کئے ہوئے عہد کو بھی نہیں توڑتے۔ اس میں خریدو فروخت، لین دین اور نکاح وغیرہ کے سب عہد شامل ہیں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ان تمام روابط کا خیال رکھتے ہیں جن کی درستی پر انسان کی اجتماعی زندگی کی صلاح و فلاح کا انحصار ہے۔ خواہ یہ روابط معاشرت سے تعلق رکھتے ہوں یا تمدن سے اور اس مد میں والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں مسکینوں اور ہمسایوں سب کے حقوق آجاتے ہیں۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں خواہ یہ عبادات سے تعلق رکھتے ہوں یا معاملات سے یا مناکحات سے، ہر ایک معاملہ میں اللہ کی نافرمانی سے بچتے اور اس کی گرفت سے ڈرتے ہیں اور پانچویں صفت یہ ہے کہ انھیں ہر وقت آخرت کی باز پرس کی فکر لگی رہتی ہے وہ اپنے نیک اعمال پر تکیہ نہیں کرتے بلکہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حساب کے مرحلہ کو آسان فرمادے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ : یعنی صلہ رحمی کرتے ہیں، رشتوں کو نزدیک کے ہوں یا دور کے، ان کے مراتب کے مطابق ملاتے ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزو جل، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عام مسلمانوں، ہمسایوں، رشتہ داروں، دوستوں، یتیموں، بیواؤں، الغرض ہر ایک کا حق پہچانتے اور ادا کرتے ہیں۔ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۔۔ : اس کے عائد کردہ فرائض کو بجا لاتے اور اس کے منع کردہ گناہوں سے بچتے ہیں۔ راغب نے کہا : ” خشیت ایسا خوف ہے جس کے ساتھ تعظیم ملی ہوئی ہو، اکثر اس کا باعث علم ہوتا ہے۔ “ جیسے فرمایا : (اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا) [ فاطر : ٢٨ ] ” اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں۔ “ خوف سے مراد کوئی بھی ڈر ہے، بعض نے کہا، دونوں (خشیت اور خوف) ہم معنی ہیں، فرق اغلبی ہے، کلی نہیں۔ (آلوسی) وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ : لہٰذا وہ اس وقت سے پہلے ہی اپنا محاسبہ کرتے رہتے ہیں۔ ” سُوْۗءَ الْحِسَابِ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة رعد کی آیت (١٨) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The third attribute of the obedient servants of Allah Ta’ ala stated here is: وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ‌ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ (and those who maintain the relations Allah has commanded to be maintained). According to the well-known explanation of this verse, it means that these people maintain relationships and keep doing what needs to be done in this matter as com¬manded by Allah Ta` ala. Some commentators have explained it by say¬ing that these people conjoin righteous deeds with faith, or synchronize their initial faith in the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Qur’ an with faith in past prophets and their books. The fourth attribute has been identified as: وَيَخْشَوْنَ رَ‌بَّهُمْ (and fear their Lord). The use of the word: خَشیَہ (khashyah) rather than خَوف - (khawf) in¬dicates that their &fear& of Allah is not the kind of fear one naturally has when facing some beast or dangerous man. Instead of that, this fear is like the habitual fear children have of their parents, and students of their teacher, for that is no fear of being harmed or hurt by them. In-stead, such fear is grounded in love and esteem because of which one ap¬prehends lest something said or done may become displeasing and repug¬nant in the sight of Allah Ta ala. Therefore, whenever the fear of Allah finds mention in an occasion of praise and glorification, generally the word used there is Khashyah because Khashyah is the name of the fear which emerges out of love and esteem. Therefore, in the next sentence, where the fear of strict reckoning has been mentioned, the word used is not Khashyah, instead the word used there is fear as such. It was said: وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (and they are frightful of evil reckoning). &Evil reckoning& denotes reckoning which is strict and minute. Sayyidah A’ ishah (رض) has said: It is Divine Mercy alone which can bring salvation for human beings when things are forgone and forgiven summarily at the time the reckoning of deeds takes place. Otherwise, anyone who is made to account for everything said and done, cannot escape from punishment. It is virtually impossible because who is there to claim that he or she has never made a mistake or committed a sin? So, this fear of having to face strict reckoning of deeds is the fifth attribute of righteous and obedient people.

تیسری صفت اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندوں کی یہ بتلائی گئی وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کے قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ان کو قائم رکھتے ہیں اس کی مشہور تفسیر تو یہی ہے کہ رشتہ داری کے تعلقات قائم رکھنے اور ان کے تقاضوں پر عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے یہ لوگ ان تعلقات کو قائم رکھتے ہیں بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان کے ساتھ عمل صالح کو یا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان کے ساتھ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی کتابوں پر ایمان کو ملا دیتے ہیں چوتھی صفت یہ بیان فرمائی وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ یعنی یہ لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں یہاں لفظ خوف کے بجائے خشیہ کا لفظ استعمال کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ان کا خوف اس طرح کا نہیں جیسے درندہ جانور یا موذی انسان سے طبعا خوف ہوا کرتا ہے بلکہ ایسا خوف ہے جیسے اولاد کو ماں باپ کا شاگرد کو استاد کا خوف عادۃ ہوتا ہے کہ اس کا منشا کسی ایذاء رسانی کا خوف نہیں ہوتا بلکہ عظمت و محبت کی وجہ سے خوف اس کا ہوتا ہے کہ کہیں ہمارا کوئی قول وفعل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسند اور مکروہ نہ ہوجائے اسی لئے مقام مدح میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کے خوف کا ذکر ہے عموما وہاں یہی لفظ خشیت کا استعمال ہوا ہے کیونکہ خشیت اسی خوف کو کہا جاتا ہے جو عظمت و محبت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اسی لئے اگلے جملہ میں جہاں حساب کی سختی کا خوف بیان کیا گیا ہے وہاں خشیت کا لفظ نہیں بلکہ خوف ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے ارشاد فرمایا۔ وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَاب یعنی یہ لوگ برے حساب سے ڈرتے ہیں برے حساب سے مراد حساب میں سختی اور جز رسی ہے حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ انسان کی نجات تو رحمت الہی سے ہو سکتی ہے کہ حساب اعمال کے وقت اجمال اور عفو و درگذر سے کام لیا جائے ورنہ جس شخص سے بھی پورا پورا ذرہ ذرہ کا حساب لیے لیا جائے اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں کیونکہ ایسا کون ہے جس سے کوئی گناہ وخطاء کبھی سرزد نہ ہوا ہو یہ حساب کی سختی کا خوف نیک و فرمانبردار لوگوں کی پانچوں صفت ہے، ٢ وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم راہبانہ انداز سے ترک تعلقات کی نہیں بلکہ ضروری تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے ماں باپ کے حقوق، اولاد، بیوی، اور بہن بھائیوں کے حقوق، دوسرے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر لازم کئے ہیں ان کو نظرانداز کرکے نفلی عبادت میں یا کسی دینی خدمت میں لگ جانا بھی جائز نہیں دوسرے کاموں میں لگ کر ان کو بھلا دینا تو کیسے جائز ہوتا۔ صلہ رحمی اور رشتہ داری کے تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کی خبر گیری اور ادائے حقوق کی تاکید قرآن کریم کی بیشمار آیات میں مذکور ہے۔ اور بخاری ومسلم کی حدیث میں روایت انس (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی رزق میں وسعت اور کاموں میں برکت عطا فرماویں تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کے معنی یہی ہیں کہ جن سے رشتہ داری کے خصوصی تعلقات ہیں ان کی خبر گیری اور بقدر گنجائش امداد واعانت کرے۔ اور حضرت ابو ایوب انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک گاؤں والا اعرابی آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکان پر حاضر ہوا اور سوال کیا کہ مجھے یہ بتلا دیجئے کہ وہ عمل کون سا ہے جو جنت سے قریب اور جہنم سے دور کردے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو (بغوی) اور صحیح بخاری میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صلہ رحمی اتنی بات کا نام نہیں کہ تم دوسرے عزیز کے احسان کا بدلہ ادا کردو اور اس نے تمہارے ساتھ کوئی احسان کیا ہے تو تم اس پر احسان کردو بلکہ اصل صلہ رحمی یہ ہے کہ تمہارے رشتہ دار عزیز تمہارے حقوق میں کوتاہی کرے تم سے تعلق نہ رکھے تم پھر بھی محض اللہ کے لئے اس سے تعلق کو قائم رکھو اور اس پر احسان کرو۔ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے تعلقات کو نبھانے ہی کے خیال سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنے نسب ناموں کو محفوظ رکھو جن کے ذریعہ تمہارے اپنے رشتہ دار محفوظ رہ سکیں اور تم ان کے حقوق ادا کرسکو پھر ارشاد فرمایا کہ صلہ رحمی کے فوائد یہ ہیں کہ اس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے اور مال میں برکت اور زیادتی ہوتی ہے اور عمر میں برکت ہوتی ہے (یہ حدیث ترمذی نے روایت کی ہے) اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بڑی صلہ رحمی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں سے وہی تعلقات قائم رکھے جو باپ کے سامنے تھے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ 21۝ۭ وصل الِاتِّصَالُ : اتّحادُ الأشياء بعضها ببعض کاتّحاد طرفي الدائرة، ويضادّ الانفصال، ويستعمل الوَصْلُ في الأعيان، وفي المعاني . يقال : وَصَلْتُ فلاناً. قال اللہ تعالی: وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة/ 27] ( و ص ل ) الا تصال کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطرہ دائرہ کی دونوں طرفین ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفعال آتی ہے اور وصل کے معنی ملائے کے ہیں اور یہ اسم اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ وصلت فلانا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے قرآن میں ہے وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة/ 27] اور جس چیز ( یعنی رشتہ قرابت ) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کئے ڈالتے ہیں خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ ) وہ لوگ قرابت کے رشتوں کو جوڑتے ہیں یعنی صلۂ رحمی کرتے ہیں اور حساب آخرت کے نتائج کی برائی سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں کہ اس دن حساب کے نتائج منفی ہونے کی صورت میں کہیں ہماری شامت نہ آجائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38. That is, all those social and civil relations that are conducive to the correct and right conduct of collective human life.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :38 یعنی وہ تمام معاشرتی اور تمدنی روابط جن کی درستی پر انسان کی اجتماعی زندگی کی صلاح و فلاح منحصر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: یعنی اﷲ تعالیٰ نے جن تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے، انہیں پوری طرح ادا کرتے ہیں۔ اس میں رشتہ داروں کے تمام حقوق بھی داخل ہیں، اور دینی رشتے سے جو حقوق پیدا ہوتے ہیں، وہ بھی۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے جتنے انبیائے کرام پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے، ان سب پر ایمان بھی لاتے ہیں، اور جن کی اطاعت کا حکم دیاہے، ان کی اطاعت بھی کرتے ہیں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:21) یصلون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ وصل سے۔ وہ جوڑتے ہیں۔ وصل وصلۃ۔ مصدر ۔ (باب ضرب) جوڑنا۔ پہنچنا۔ جڑنا۔ (باب افعال) سے پہنچانا ۔ جوڑ دینا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 ۔ یعنی صلہ رحمی کرتے ہیں یا اللہ، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عام مسلمانوں، ہمسایوں، رشتہ داروں، دوستوں، یتیموں، بیوائوں، الغرص ہر ایک کا حق پہنچانتے اور ادا کرتے ہیں۔ (وحیدی تبصرف) 14 ۔ اس کے عائدہ کردہ فرائض کو بجالاتے اور اس کے منع کردہ گناہوں سے بچتے ہیں۔ (وحیدی) ۔ 1 ۔ لہٰذا وہ اس وقت سے پہلے ہی اپنا محاسبہ کرتے رہتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ “ کے عہد کی پاسداری کے ساتھ آپس کے تعلقات اور عہد کی پاسداری کا حکم۔ بصیرت اور عقل سلیم رکھنے والے لوگ اپنے رب کے ڈر اور قیامت کے برے حساب کے خوف سے رشتوں کو جوڑتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ جن کے جوڑنے اور احترام کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرجاؤ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کی بیوی کو پیدا فرمایا پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیں۔ بس اللہ سے ڈرو۔ جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داریوں کو توڑنے سے بھی بچو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر وقت نگرانی کر رہا ہے۔ (سورۃ النساء : ١) اللہ کے بندوں کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی مفاد کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ کے ڈر کی بنا پر رشتہ داریوں کا خیال اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ ارحام کی واحد رحم ہے جس کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ الْوَاصِلُ بالْمُکَافِءِ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْٓ إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَہَا )[ رواہ الترمذی : کتاب البر والصلۃ، باب مَا جَآءَ فِیْ صِلَۃِ الرَّحِم ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا برابری کرنے والا صلہ رحم نہیں ہے۔ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس سے تعلق توڑا جائے تو وہ اسے جوڑنے کی کوشش کرے۔ “ (وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَلَقَ اللّٰہُ الْخَلْقَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْہُ قَامَتِ الرَّحِمُ فَاَخَذَتْ بِحَقْوَیِ الرَّحْمٰنِ فَقَاَل مَہْ قَالَتْ ھٰذَا مَقَامُ الْعَآءِذِ بِکَ مِنَ القَطِیْعَۃِ قاَلَ اَلاََترْضَیْنَ اَنْ اَصِلَ مَنْ وَّصَلَکِ وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکِ قَالَتْ بَلٰی یَا رَبِّ قَالَ فَذَاکِ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب (وَتُقَطِّعُوْٓا اأَرْحَامَکُمْ )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ جب مخلوق کو پیدا فرما کر فارغ ہوا تو ” رحم “ (رشتہ داری) کھڑی ہوگئی۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑلیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا ‘ یہ اس شخص کا مقام ہے جو تیرے ساتھ قطع رحمی سے پناہ مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس شخص کو اپنے قریب کروں جو تجھے کو ملاتا ہے اور اس شخص سے قطع تعلق کروں جو تجھے ترک کرتا ہے۔ رحم (رشتہ داری) نے عرض کیا ‘ پروردگار کیوں نہیں ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تیرے لیے ہے۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنْ سَرَّہٗٓ أَنْ یُّبْسَطَ لَہٗ رِزْقُہٗ أَوْ یُنْسَأَ لَہٗ فِیْٓ أَثَرِہِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب مَنْ أَحَبَّ الْبَسْطَ فِی الرِّزْقِ ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے ‘ کہ اس کے رزق میں برکت اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو ‘ اسے صلۂ رحمی کرنی چاہیے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ )[ رواہ البخاری : باب إِکْرَام الضَّیْفِ وَخِدْمَتِہِ إِیَّاہُ بِنَفْسِہِ ] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے۔ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ جو شخص اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ بھلائی والی بات کہے یا خاموش رہے۔ “ مسائل ١۔ آپس میں صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ ٣۔ باہمی تعلقات کا احترام کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اور برے حساب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے اوصاف : ١۔ اللہ اور سخت حساب سے ڈرتے ہیں۔ (الرعد : ٢١) ٢۔ مومن اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٠) ٣۔ نیک لوگ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢١) ٤۔ اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے، پوشیدہ اور اعلانیہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے اور برے سلوک کو حسن سلوک سے ٹالتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایک عظیم اصول ہے جس کے اوپر پوری زندگی کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ اس اصول کو قرآن کریم چند کلمات کے اندر ضبط فرماتا ہے : آیت نمبر ٢١ تا ٢٢ یہ اجمالی اور کلی قاعدہ ہے ، یعنی اللہ نے جن روابط کے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے جوڑتے ہیں یعنی وہ مکمل اطاعت کرتے اور پوری طرح وفادار اور استوار ہوتے ہیں۔ سنت الٰہیہ کے مطابق سیدھے چلتے ہیں اور ان کی رفتار میں کوئی کجی نہیں ہوتی۔ اس لیے یہاں ایک کلی قاعدہ بیان کردیا اور جس کے اندر اللہ کے وہ تمام مفرد احکام آگئے جن کا اللہ نے حکم دیا ہے کیونکہ تمام احکام کو یہاں ایک ایک کر کے بیان کرنا بہت ہی مشکل تھا اور یہاں مقصود بھی نہ تھا بلکہ یہاں مقصود یہ تھا کہ انسان تقاضاہائے فطرت پر سیدھا چلے اور تمام معاملات میں اطاعت شعار ہو۔ اطاعت کا رشتہ ٹوٹنے نہ پائے اور آیت کے آخر میں یہ اشارہ بھی کردیا گیا کہ وہ لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور اطاعت کاملہ کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ ویخشون ۔۔۔۔۔ الحساب (١٣ : ٢١) “ اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے ”۔ اللہ کی مشیت اور قیامت کے برے حساب سے وہ ڈرتے ہیں کیونکہ وہ عقلمند ہیں اور عقلمند آدمی حساب و کتاب سے قبل ہی اپنا حساب تیار کرتے ہیں۔ والذین صبروا ابتغاء وجہ ربھم (١٣ : ٢٢) “ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لئے صبر سے کام لیتے ہیں ”۔ صبر کی کئی انواع و اقسام ہیں اور صبر کے کچھ تقاضے ہیں ۔ ایک صبر یہ ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی راہ میں مشکلات پر صبر کرے۔ مثلاً اعمال ، جہاد اور دعوت اسلامی کی راہ میں مشکلات ۔ نیز نعمتوں پر صبر اور مشکلات حیات میں صبر۔ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو خوشحالی میں صبر کریں اور کبرو غرور اور ناشکری نہ کریں۔ لوگوں کی حماقتوں اور جہالتوں پر صبر ، جبکہ ان کی وجہ سے بسا اوقات انسان کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے معاملات اور اجتماعی زندگی کے روابط میں صبر۔ یہ سب صبر اللہ کی رضا مندی کے لئے ہیں ، اس لیے نہیں کہ لوگ یہ کہیں کہ یہ شخص باہمت ہے یا یہ کہ لوگ کہیں یہ شخص فریاد کررہا ہے۔ نہ محض اپنے آپ کو شریف ثابت کرنے کے لئے یا محض اس لیے کہ جزع و فزع سے مزید نقصان ہوگا۔ غرض اللہ کی رضا مندی کے سوا کسی بھی مقصد کے لئے کیا جانے والا صبر مقبول نہیں ہے۔ نعمت اور آزمائش میں صبر یوں ہے کہ انسان اللہ کے فیصلے پر شاکر اور قانع رہے۔ واقاموا الصلوٰۃ (١٣ : ٢٢) “ اور نماز قائم کرتے ہیں ”۔ اقامت صلوٰۃ بھی اللہ کے میثاق اور عہد میں شامل ہے لیکن یہاں اس کا ذکر علیحدہ اس لیے کردیا گیا کہ وفائے میثاق کی یہ پہلی علامت اور رکن رکین ہے۔ نیز اللہ کی طرف توجہ کامل کا یہ اہم اور تم مظہر ہے اور بندے اور رب کے درمیان جسمانی رابطہ ہے۔ نماز خالص اللہ کے لیے ہے ، اس کی ہر حرکت اور اس کا ہر کلمہ اللہ اور صرف اللہ کے لئے ہے۔ وانفقوا ۔۔۔۔۔ وعلانیۃ (١٣ : ٢٢) “ اور ہمارے دئیے ہوئے رزق سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں ”۔ یہ حکم بھی اس آیت میں شامل ہے کہ اللہ نے جو روابط جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑتے ہیں اور میثاق الٰہی کی ذمہ داریاں اور تقاضے پورے کرتے ہیں۔ لیکن اس کو بھی یہاں خصوصیت کے ساتھ لایا گیا کیونکہ یہ اللہ کے بندوں کے درمیان اجتماعی روابط کا مظہر ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ سے خدائی اور اسلامی زندگی کے روابط مستحکم ہوتے ہیں۔ دینے والے کا دل بخل کی بیماری سے پاک ہوتا ہے اور لینے والے کا دل کینہ سے پاک ہوتا ہے۔ ایک اسلامی سوسائٹی کی اجتماعی زندگی باہم محبت اور تعاون پر مبنی ہوجاتی ہے۔ پوشیدہ خرچ ان مقامات میں ہوتا ہے جہاں لینے کی عزت نفس کو بچانا ہوتا ہے۔ ۔۔۔ اعلانیہ ایسے مقامات پر ہوتا ہے جہاں دوسروں کے لئے نمونہ بننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں شریعت کا نفاذ مقصود ہو یا قانون کی اطاعت مقصود ہو یا دوسرا کوئی اجتماعی فائدہ ہو۔ و یدرءون بالحسنۃ السیئۃ (١٣ : ٢٢) “ اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں ”۔ یہاں مقصود یہ ہے کہ روز مرہ کے معاملات میں وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں۔ اس سے مراد دینی معاملات میں نہیں ہیں کہ دینی معاملات میں اگر کوئی برا کرے تو تم اس کے ساتھ اچھا کردو۔ لیکن یہاں قرآن کریم کی تعبیر تمہید سے آگے بڑھ کر نتیجے کا ذکر کرتی ہے۔ برائی کا جواب نیکی سے دینے سے ایک سرکش شخص کی سرکشی میں کمی آجاتی ہے اور ایک انسان پھر برائی کے بدلے میں بھلائی پر مائل ہوجاتا ہے۔ اور شر کی آگ سے بجھ جاتی ہے اور شیطان کے وسوسے ختم ہوجاتے ہیں۔ یوں برائی کا دفعیہ ہوجاتا ہے اور وہ ختم ہوجاتی ہے۔ چناچہ آیت میں حسنہ کا ذکر پہلے کیا گیا۔ پھر اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ بدی کا جواب نیکی سے صرف اس وقت دیا جائے گا جب یہ امید ہو کہ اس طرح شر کا دفعیہ ہوگا اور برائی ختم ہوگی لیکن اگر کوئی شخص اس سے مزید اکڑتا ہے اور اسے جراءت ہوتی ہے تو ایسا رویہ اچھا نہ ہوگا۔ بلکہ ایسے حالات میں اس بات کی ضرورت ہوگی کہ برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور جہاں بھی مدافعت کی ضرورت ہو شر کا دفاع کیا جائے گا تا کہ شر کی قوتیں بھول نہ جائیں اور ان کو مزید سرکشی اختیار کرنے کی جراءت نہ ہو۔ برائی کا جواب نیکی سے اس وقت دیا جاتا ہے کہ دو افراد کے درمیان معاملہ ہو اور وہ دونوں مساوی حیثیت کے مالک ہوں۔ رہے وہ معاملات جن کا تعلق دین اسلام سے ہے تو اس میں یہ رویہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے کیونک دین کے معاملات میں کسی جسارت کرنے والے شخص کے سامنے ننگی تلوار ہی صحیح کاٹ کرتی ہے۔ نیز جن لوگوں کا وطیرہ یہ ہو کہ وہ زمین میں فساد کرتے پھریں ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا جانا چاہئے لیکن کسی معاملے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے قرآن نے ایسی ہدایات کو ایک فرد کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ عقل کو کام میں لا کر ایسا رویہ اختیار کرے جن میں خیر ہو اور بہتری ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 ۔ اور نیز یہ ایسے لوگ ہیں کہ جن تعلقات کو اللہ تعالیٰ نے قائم رکھنے اور جوڑنے کا حکم دیا ہے ان کو جوڑتے اور قائم رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں اور سخت حساب و اور حساب عسیر کا ان کو خوف رہتا ہے اور وہ ڈر کرتے ہیں یعنی گود پیٹ کے رشتوں میں صلہ رحمی کرتے ہیں یا اسلامی بھائی چارے کو قائم رکھتے ہیں۔