Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 5

سورة الرعد

وَ اِنۡ تَعۡجَبۡ فَعَجَبٌ قَوۡلُہُمۡ ءَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۬ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ الۡاَغۡلٰلُ فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۵﴾

And if you are astonished, [O Muhammad] - then astonishing is their saying, "When we are dust, will we indeed be [brought] into a new creation?" Those are the ones who have disbelieved in their Lord, and those will have shackles upon their necks, and those are the companions of the Fire; they will abide therein eternally.

اگر تجھے تعجب ہو تو واقعی ان کا یہ کہنا عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہو نگے؟ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی ہیں جو جہنم کے رہنے والے ہیں جو اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Denying Resurrection after Death, is Strange Allah says to His Messenger Muhammad, peace and blessings be upon him, وَإِن تَعْجَبْ ... And if you wonder. at the rejection of the polytheists who deny Resurrection, even though they witness Allah's signs and evidences that He made in His creation which testify that He is able to do everything. Yet, they admit that Allah origina... ted the creation of all things and brought them into existence after they were nothing. However, they deny Allah's claim that He will resurrect the world anew, even though they admit to what is more amazing than what they deny and reject. ... فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ... then wondrous is their saying: Therefore, it is amazing that they said, ... أَيِذَا كُنَّا تُرَابًا أَيِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ... When we are dust, shall we indeed then be (raised) in a new creation, It is an obvious fact to every sane and knowledgeable person that creating the heavens and earth is a greater feat than creating men, and that He Who has originated creation is more able to resurrect it anew, أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْىِ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ Do they not see that Allah, Who created the heavens and the earth, and was not wearied by their creation, is able to give life to the dead! Yes, He surely is able to do all things. (46:33) Allah described those who deny Resurrection, ... أُوْلَـيِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ وَأُوْلَيِكَ الاَغْلَلُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ... They are those who disbelieved in their Lord! They are those who will have iron chains linking their hands to their necks. They will be dragged in the Fire by these chains, ... وَأُوْلَـيِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدونَ They will be dwellers of the Fire to abide therein forever. for they will remain in Hell forever and will never escape it or be removed from it.   Show more

عقل کے اندھے ضدی لوگ اللہ تبارک وتعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ ان کے جھٹلانے کا کوئی تعجب نہ کریں یہ ہیں ہی ایسے اس قدر نشانیاں دیکھتے ہوئے ، اللہ کی قدرت کا ہمیشہ مطالعہ کرتے ہوئے ، اسے مانتے ہوئے کہ سب کا خالق اللہ ہی ہے پھر بھی قیامت کے منکر ہوتے ہیں حالانکہ اس سے بڑھ...  کر روز مرہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ کر دیتا ہے ۔ ہر عاقل جان سکتا ہے کہ زمین وآسمان کی پیدائش انسان کی پیدائش سے بہت بڑی ہے ۔ اور دوبارہ پیدا کرنا بہ نسبت اول بار پیدا کرنے کے بہت آسان ہے ۔ جیسے فرمان ربانی ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 33؀ ) 46- الأحقاف:33 ) یعنی جس نے آسمان و زمین تھکے پیدا کر دیا ، کیا وہ مردوں کو جلانے پر قادر نہیں ؟ بیشک ہے بلکہ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے ۔ پس یہاں فرماتا ہے کہ اصل یہ کفار ہیں ، ان کی گردنوں میں قیامت کے دن طوق ہوں گے اور یہ جہنمی ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی جس ذات نے پہلی مرتبہ پیدا کیا، اس کے لئے دوبارہ اس چیز کا بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن کفار یہ عجیب بات کہتے ہیں کہ دوبارہ ہم کیسے پیدا کئے جائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] نبا تات میں معرفت الہٰی پر دلائل۔ یعنی اگر آپ کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی ایسی ایسی نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور ہمیں اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ایسی حیران کن نشانیاں دیکھتے بھی ہیں اور پھر یہ پوچھتے ہیں کہ جب ہم مر کر زمین میں مل جائیں گے تو کیا ... پھر دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ایک بیج زمین میں مل کر مٹی بن جاتا ہے۔ مگر جب موسم آتا ہے تو وہی بیج اگ کر ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ پھر آخر تم کیوں دوبارہ پیدا نہیں کئے جاسکتے ؟ [١٠] اللہ کی قدرتوں سے انکار اللہ ہی کا انکار ہوتا ہے۔ گویا دوبارہ پیدا ہونے سے انکار حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے جسے اللہ ہی کے انکار کے مترادف بتلایا گیا ہے۔ ایک تو اس وجہ سے وہ دوزخ کے مستحق ہوئے دوسرے اللہ کے حضور جواب دہی کے۔ منکرین کی زندگی عموماً بےلگام اور شتر بےمہار کی طرح گزرتی ہے۔ ایسے لوگ دراصل محض اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں۔ اسی جرم کی پاداش میں ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر انھیں اتنا ہی جکڑ کر بند کردیا جائے گا جتنا کہ وہ دنیا میں بےلگام تھے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ۔۔ : ” فَعَجَبٌ“ میں تنوین تعظیم و تہویل کے لیے ہے، اسی لیے اہل علم نے ترکیب میں اسے نکرہ ہونے کے باوجود مبتدا بنانا جائز رکھا ہے، گویا یہ نکرہ موصوفہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اتنی نشانیاں دیکھ کر بھی ان کے ایمان نہ لانے پر تعجب کریں تو بہت ہی عجیب بات ان کا دوبار... ہ نئے سرے سے پیدا ہونے کو ناممکن قرار دینا ہے، حالانکہ جو شخص معمولی علم اور معمولی عقل رکھتا ہے بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اتنی قدرتوں کے مالک اور پہلی دفعہ انھیں پیدا کرنے والے کے لیے انھیں دوبارہ نئے سرے سے پیدا کرنا کیوں مشکل ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ : یعنی جب انھوں نے آخرت سے انکار کیا تو گویا اللہ کی قدرت سے انکار کیا اور یہ کہا کہ اللہ اتنا عاجز اور بےبس ہے کہ انھیں دوبارہ پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ [ اَلْعِیَاذ باللّٰہِ ] وَاُولٰۗىِٕكَ الْاَغْلٰلُ ۔۔ : ” الْاَغْلٰلُ “ ” غُلٌّ“ کی جمع ہے، لوہے کا کڑا یا زنجیر جو مجرم کے گلے میں ڈال کر اسے باندھا جاتا ہے۔ بعض اوقات اس کے ساتھ ہی ہاتھ بھی گردن کے ساتھ باندھ دیتے ہیں، یہ قید کی سخت ترین صورت ہے۔ یعنی ان کی گردنوں میں وہی آبائی کفر و شرک کے طوق پڑے ہوئے ہیں جو انھیں کفر سے ہلنے نہیں دیتے اور انجام ان کا یہ ہے کہ یہ آگ والے ہیں، ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں۔ بعض مفسرین نے ” وَاُولٰۗىِٕكَ الْاَغْلٰلُ “ کو بھی آخرت کے انجام میں شامل کیا ہے کہ جہنم میں ان کی گردنوں میں لوہے کے طوق (کڑے) ہوں گے، جن میں پڑی ہوئی زنجیروں سے بندھے ہوں گے۔ آیت کے الفاظ سے تو زیادہ ظاہر معنی یہی معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلٰسِلُ ۭ يُسْحَبُوْنَ 71؀ۙفِي الْحَمِيْمِ ڏ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَ ) [ المؤمن : ٧١، ٧٢ ] ” جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور زنجیریں، گھسیٹے جا رہے ہوں گے۔ کھولتے پانی میں، پھر وہ آگ میں جھونکے جائیں گے۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Contained in the first three verses cited above (5-7) there is a refuta¬tion of the doubts expressed by the disbelievers about prophethood. Along with it, added there is a warning of punishment for deniers. 1. The first of the three doubts they had was about people returning to life after having been dead and according to them, the whole idea of accounting and retribution on the Day of ... Resurrection was improbable and irrational. On this basis, they used to belie the prophets and rejected their claim to prophethood. This doubt of theirs has been mentioned in the following verse of the Holy Qur’ an: هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَ‌جُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ (34:7). Here, to ridicule the prophets, it has been said by the disbelievers: &Come, we shall introduce you to a man who tells you that you, once dead, shall be shredded into pieces and the molecules of the earth you are made of shall also spread out all over the earth, then, at that time, you shall be created anew - Saba, 34:7.& The Proof of Rising Again After Death The answer to this doubt of theirs has been given in the first of the present verses cited above (5) by saying: وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَ‌ابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ Here, the address is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He is being told that he may be wondering about the attitude of the disbelievers who refuse to believe in him as a prophet of Allah despite having seen clear signs of his being a prophet, and strangely enough, at the same time, they go about believing in lifeless rocks which have neither sense nor conscious¬ness, and who do not have the power to bring benefit to or loss on their own selves, therefore, they could hardly be expected to grant any benefit to anyone. Certainly, far more surprising is their statement: &Is it that, once we are dead, we shall be created anew?& The Holy Qur’ an has not spelled out the reason for this &wonder& explicitly because, in the previous verses, by describing the wondrous manifestations of the most perfect power of Allah Ta` ala, it has been proved that He is the master of absolute power. It is He who brought the entire creation from the state of non-being into the state of being. Then, He endowed into the being of everything so many varied elements of wisdom which human beings cannot even com¬prehend fully. From this it is obvious that the Being who can make so¬mething come into existence for the first time from total nothingness shall hardly have any difficulty in making it come into existence once again. When human beings try to make something new, they do have to remove some difficulties the first time they do it. But, when they wish to make the same thing again, things become easy. Thus, what is really surprising is that these disbelievers do seem to believe that the Creator has created the whole universe with limitless wisdom. How then, can they consider its recreation as improbable and ir¬rational? Perhaps, the big problem before the deniers is what happens after death. After death, when dust returns to dust, whatever human beings are composed of gets spread out all over the earth. Winds carry them far and wide besides other causes, agents and means helping human remains get dispersed universally. Then, there will come that promised Day of Doom, the Qiyamah. Then, they wonder, how could all that scat¬tered dust be put together, and how, even if gathered together, can they be made to rise again (as they were)? But, what they fail to see is that the form in which they exist at that time holds the key to their problem with comprehension. Is it not that particles from all over the world lie gathered together in them while they exist? Particles brought by water and wind from the far and near corners of the world get mingled with human intake and become part of a person&s body. Most of the time the poor soul is not even aware of the fact that the morsel of food going down his or her throat comes from God knows how many areas of the world, Africa, America, or the countries of the Asian continent. Is it not that there is only One such Being who, through His wondrous wisdom and mastery of management, has made every single human being, and animal, stand to exist by assembling to¬gether scattered particles from all over the world? Now, if He can do that today, how can this become difficult for him tomorrow? Why would he not be capable of reassembling all those scattered particles back into the form they were? Specially so, when all powers of the world, the wind and water and the rest, are subservient to Him and obey His command. If He elects to beckon the wind, the water and the atmosphere to come forth and deposit all particles they contain, would they not but obey? Why would this be any problem and why would its impossibility bother anyone? The truth of the matter is that the disbelievers have simply failed to recognize the power of Allah Ta’ ala. They think of His Power on the anal¬ogy of their own power - though everything in the heavens and the earth and in what lies in between them does possess a comprehension and con¬sciousness of their relative status in the scheme of the Divine arrange¬ment of things, and they pointedly move under Divine command. In short, what is a matter of surprise is the refusal of the disbelievers to believe in the truth of prophethood. And what is still more surpris¬ing is their refusal to believe in rising again on the day of Judgment and in having to stand to account for their deeds on that day! After that, mention has been made of the punishment of hostile deniers of the truth. It has been said that these people not simply that they refuse to accept a prophet of Allah as such; rather what they do in reality is that they deny the very existence of their Lord. Their punish¬ment will be that shackles will be placed round their necks and they shall live in Hell for ever. 2. The second doubt expressed by the deniers of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was: &If you are, in reality, the prophet and messenger of Allah, then, the warnings of punishments you announce against the opponents of proph¬ets should materialize - why is it that this punishment would not come? The answer given appears in the next verse in the following words:  Show more

خلاصہ تفسیر : اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کو ( ان لوگوں کے انکار قیامت سے) تعجب ہو تو (واقعی) ان کا یہ قول تعجب کے لائق ہے کہ جب ہم (مر کر) خاک ہوگئے کیا (خاک ہو کر) ہم پھر (قیامت کو) از سر نو پیدا ہوں گے (تعجب کے لائق اس لئے کی جو ذات ایسی اشیاء مذکورہ کے خلق پر ابتداء قادر ہے اس...  کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے اور اسی سے جواب ہوگیا استبعاد بعث کا اور انکار نبوت کا بھی جس کا مبنی وہ استبعاد تھا ایک کے جواب سے دوسرے کا جواب ہوگیا آگے ان کے لئے وعید ہے کہ) یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا (کیونکہ انکار بعث سے اس کی قدرت کا انکار کیا اور انکار قیامت سے انکار نبوت لازم آتا ہے) اور ایسے لوگوں کی گردنوں میں (دوزخ میں) طوق ڈالے جائیں گے اور ایسے لوگ دوزخی ہیں (اور) وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ لوگ عافیت (کہ اگر آپ نبی ہیں تو جائیے عذاب منگا دیجئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب کے وقوع کو بہت بعید سمجھتے ہیں) حالانکہ ان سے پہلے (اور کفار پر) واقعات عقوبت گذر چکے ہیں (تو ان پر آجانا کیا مستبعد ہے) اور (اللہ تعالیٰ کے غفور اور رحیم ہونے کو سن کر یہ لوگ مغرور نہ ہوجاویں کہ اب ہم کو عذاب نہ ہوگا کیونکہ وہ صرف غفور و رحیم ہی نہیں ہے اور پھر سب کے لئے غفور و رحیم نہیں ہیں بلکہ دونوں باتیں اپنے اپنے موقع پر ظاہر ہوتی ہیں یعنی) یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ کا رب لوگوں کی خطائیں باوجود ان کی (ایک خاص درجہ کی) بیجا حرکتوں کے معاف کردیتا ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ آپ کا رب سخت سزا دیتا ہے (یعنی اس میں دونوں صفتیں ہیں اور ہر ایک کے ظہور کی شرطیں اور اسباب ہیں پس انہوں نے بلا سبب اپنے کو مستحق رحمت و مغفرت کیسے سمجھ لیا بلکہ کفر کی وجہ سے ان کے لئے تو اللہ تعالیٰ شدید العقاب ہے) کیوں نہیں نازل کیا گیا (اور یہ اعتراض محض حماقت ہے کیونکہ آپ مالک معجزات نہیں بلکہ) آپ صرف (عذاب خدا سے کافروں کو) ڈرانے والے (یعنی نبی) ہیں (اور نبی کے لئے مطلق معجزہ کی ضرورت ہے جو کہ ظاہر ہوچکا ہے نہ کسی خاص معجزہ کی) اور (کوئی آپ انوکھے نبی نہیں ہوئے بلکہ) ہر قوم کیلئے (امم ماضیہ میں) ہادی ہوتے چلے آئے ہیں (ان میں بھی یہی قاعدہ چلا آیا ہے کہ دعوی نبوت کے لئے مطلق دلیل کو کافی قرار دیا گیا خاص دلیل کا التزام نہیں ہوا) اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے اور جو کچھ رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے اور ہر چیز اللہ کے نزدیک ایک خاص انداز سے ہے۔ معارف و مسائل : آیات مذکورہ کی پہلی تین آیتوں میں کفار کے شبہات کا جواب ہے جو نبوت کے متعلق تھی اور اس کے ساتھ منکرین کے لئے عذاب کی وعید مذکور ہے۔ ان کے شبہات تین تھے ایک یہ کہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور محشر کے حساب و کتاب کو محال و خلاف عقل سمجھتے تھے اسی بنا پر آخرت کی خبر دینے والے انبیاء کی تکذیب اور ان کی نبوت کا انکار کرتے تھے جیسا کہ قرآن کریم نے ان کے اس شبہ کا بیان اس آیت میں فرمایا ہے هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ يُّنَبِّئُكُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۙ اِنَّكُمْ لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ اس میں انبیاء (علیہم السلام) کا مذاق اڑانے کے لئے کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہیں ایک ایسا آدمی بتائیں جو تمہیں یہ بتلاتا ہے کہ جب تم مرنے کے بعد ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے اور تمہاری مٹی کے ذرات بھی سارے جہان میں پھیل جائیں گے تم اس وقت پھر دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت : آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں ان کے اس شبہ کا جواب دیا گیا وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْد اس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ اگر آپ کو اس پر تعجب ہے کہ یہ کفار آپ کے لئے کھلے ہوئے معجزات اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ تو ایسے بےجان پتھروں کو مانتے ہیں جن میں نہ حس ہے نہ شعور، خود اپنے نفع و نقصان پر بھی قادر نہیں دوسروں کو کیا نفع پہنچا سکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ تعجب کے قابل ان کی یہ بات ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا قرآن نے وجہ اس تعجب کی بالتصریح بیان نہیں کی کیونکہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی قدرت کاملہ کے عجیب عجیب مظاہر بیان کر کے یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ وہ ایسا قادر مطلق ہے جو ساری مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا اور پھر ہر چیز کے وجود میں کیسی کیسی حکمتیں رکھیں کہ انسان ان کا ادراک و احاطہ بھی نہیں کرسکتا اور یہ ظاہر ہے کہ جو ذات پہلی مرتبہ بالکل عدم سے ایک چیز کو موجود کرسکتی ہے اس کو دوبارہ موجود کردینا کیا مشکل ہے انسان بھی جب کوئی نئی چیز بنانا چاہتا ہے تو پہلی مرتبہ اس کو مشکل پیش آتی ہے اور اسی کو دوبارہ بنانا چاہے تو آسان ہوجا تا ہے، تو تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس کے تو قائل ہیں کہ پہلی مرتبہ تمام کائنات کو بیشمار حکمتوں کے ساتھ اسی نے پیدا فرمایا ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے کو کیسے محال اور خلاف عقل سمجھتے ہیں شاید ان منکرین کے نزدیک بڑا اشکال یہ ہے کہ مرنے اور خاک ہوجانے کے بعد انسان کے اجزا اور ذرات دنیا بھر میں منتشر ہوجاتے ہیں ہوائیں ان کو کہیں سے کہیں لیجاتی ہیں اور دوسرے اسباب و ذرائع سے بھی یہ ذرات سارے جہان میں پھیل جاتے ہیں پھر قیامت کے روز ان تمام ذرات کو جمع کس طرح کیا جائے گا اور پھر ان کو جمع کر کے دوبارہ زندہ کیسے کیا جائے گا ؟ مگر وہ نہیں دیکھتے کہ اس وقت جو وجود ان کو حاصل ہے اس میں کیا سارے جہان کے ذرات جمع نہیں دنیا کے مشرق ومغرب کی چیزیں پانی ہوا اور ان کے لائے ہوئے ذرات انسان کی غذا میں شامل ہو کر اس کے بدن کا جزو بنتے ہیں اس مسکین کو بسا اوقات خبر بھی نہیں ہوتی کہ ایک لقمہ جو منہ تک لے جارہا ہے اس میں کتنے ذرات افریقہ کے کتنے امریکہ کے اور کتنے مشرقی ممالک کے ہیں تو جس ذات نے اپنی حکمت بالغہ اور تدبیر امور کے ذریعہ اس وقت ایک ایک انسان اور جانور کے وجود کو سارے جہان کے منتشر ذرات جمع کر کے کھڑا کردیا ہے کل اس کے لئے یہ کیوں مشکل ہوجائے گا کہ ان سب ذرات کو جمع کر ڈالے جبکہ دنیا کی ساری طاقتیں ہوا اور پانی اور دوسری قوتیں سب اس کے حکم کے تابع اور مسخر ہیں اس کے اشاروں پر ہوا اپنے اندر کے اور پانی اپنے اندر کے اور فضاء اپنے اندر کے سب ذرات کو جمع کردیں اس پر کیا اشکال ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قدر کو پہچانا ہی نہیں اس کی قدرت کو اپنی قدرت پر قیاس کرتے ہیں حالانکہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزیں اپنی اپنی حیثیت کا ادراک و شعور رکھتے ہیں اور حکم حق کے تابع چلتے ہیں خاک وبادو آب و آتش زندہ اند بامن وتو مردہ باحق زندہ اند خلاصہ یہ ہے کہ کھلی ہوئی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود جس طرح ان کا نبوت سے انکار قابل تعجب ہے اس سے زیادہ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے اور حشر کے دن سے انکار تعجب کی چیز ہے، اس کے بعد ان معاند منکرین کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ لوگ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا انکار نہیں کرتے بلکہ درحقیقت اپنے رب کا انکار کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہوگی کہ ان کی گردنوں میں طوق ڈالے جائیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے، دوسرا شبہ منکرین کا یہ تھا کہ اگر فی الواقع آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نبی اور رسول ہیں تو نبی کی مخالفت پر جو عذاب کی وعیدیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سناتے ہیں وہ عذاب آتا کیوں نہیں اس کا جواب دوسری آیت میں یہ دیا گیا   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ڛ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ۝ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند...  الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ ترب التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد/ 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] . ( ت ر ب ) التراب کے معنی میت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] کہ اس نے تمہیں منی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ غل الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له : الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] ( غ ل ل ) الغلل کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔ عنق العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ( ع ن ق ) العنق ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کو ان لوگوں کی تکذیب پر تعجب ہو تو واقعی ان کا یہ قول تعجب کے لائق ہے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کیا مرنے کے بعد ہم پھر دوبارہ زندہ ہو کر اٹھیں گے اور ہم میں پھر روح پھونکی جائے گی، یہ مرنیکے بعد زندہ ہونے کا انکار کرنے والے وہ لوگ ہیں جنھون نے...  اپنے رب کے ساتھ کفر کیا، تو ان کافروں کی گردنوں میں بیڑیاں اور طوق باندھے جائیں گے اور یہ بیڑیوں اور طوق والے دوزخی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے نہ ان کو وہاں موت آئے گی اور نہ یہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ) یعنی کفار کا مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر تعجب کرنا ‘ بذات خود باعث تعجب ہے۔ جس اللہ نے پہلی مرتبہ تم لوگوں کو تخلیق کیا پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز پر حکمت طریقے سے بنائی اس کے لیے یہ تعجب ک... رنا کہ وہ ہمیں دوبارہ کیسے زندہ کرے گا یہ سوچ اور یہ نظریہ اپنی جگہ بہت ہی مضحکہ خیز اور باعث تعجب ہے۔ (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ ) دوبارہ جی اٹھنے کے عقیدے سے ان کا یہ انکار دراصل اللہ کے وجود کا انکار ہے۔ اس کی قدرت اور اس کے عَلٰی کُلِّ شَیٌ قَدِیْر ہونے کا انکار ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12. They “disbelieved in their Lord”: their denial of the Hereafter is, in fact, the denial of the Power and Wisdom of Allah. As they say that it is impossible to bring them again to life after their death, it implies that, God forbid, their Allah Who has created them lacks not only power but wisdom, too. 13. As a shackle around the neck is a symbol of imprisonment, the words “shackles upon their...  necks” have been used here idiomatically to show that they are slaves of ignorance, obduracy, lust and are blind followers of their forefathers. As their thinking is influenced by their prejudices, they cannot believe in the Hereafter and would deny this, though there is every reason to believe that it is inevitable.  Show more

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :12 یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے ۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیر ممکن ہے ، بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذاللہ وہ خدا عاجز دور ماندہ اور نادان و بے خرد ہے جس...  نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :13 گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے ۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنی جہالت کے ، اپنی ہٹ دھرمی کے ، اپنی خواہشات نفس کے ، اور اپنے آباواجداد کی اندھی تقلید کے اسیر بنے ہوئے ہیں ۔ یہ آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتے ۔ انہیں ان کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے ، اور انکار آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نامعقول ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا مُردوں کو زندہ کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں، اس لئے کہ جو ذات یہ عظیم کائنات عدم سے وجود میں لا سکتی ہے، اُس کے لئے اِنسانوں کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے؟ لیکن تعجب کے لائق تو یہ بات ہے کہ یہ کافر لوگ کھلی آنکھوں اﷲ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے بیشمار مظاہر دیکھنے کے بعد...  بھی نئے سرے سے پیدا کرنے کو اﷲ تعالیٰ کی قدرت سے بعید سمجھتے ہیں۔ 10: جب کسی کے گلے میں طوق پڑا ہوا ہو تو وہ اِدھر اُدھر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ حقائق کو دیکھنے اور اُن کی طرف دھیان کرنے سے محروم ہیں (روح المعانی) ۔ اِس کے علاوہ گلے میں طوق در اصل غلامی کی علامت ہے۔ چنانچہ اسلام سے پہلے معاشروں میں غلاموں کے ساتھ یہی معاملہ کیا جاتا تھا۔ لہٰذا آیت کا اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کے گلوں میں اپنی خواہشات اور شیطان کی غلامی کا طوق پڑا ہوا ہے، اس لئے وہ غیر جانب داری سے کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہے۔ اور بعض مفسرین نے اِس جملے کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ آخرت میں ان کے گلوں میں طوق ڈالے جائیں گے۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منکرین حشر کا یہ قول کہ مٹی ہو کر پھر کیوں کر جئیں گے ضعیف ٹھہرایا اس واسطے فرمایا کہ دنیا بھر میں کسی کو تعجب کی بات سننی ہو تو ان کا یہ قول سنے کیوں کہ ہر عقلمند جانتا ہے کہ پہلے پہل ہر کام مشکل ہوتا ہے ایک دفعہ جو کام ہوچکا اور اس کا راستہ پڑگیا پھر دوبارہ اس کا ہوجان... ا کیا دشوار ہے دنیا کو جب ناپید حالت سے اللہ تعالیٰ نے موجود کردیا تو اب دوبارہ ناپید کر کے پھر موجود کردینا اس کو کیا مشکل ہے اور دنیا بھر میں وہ کون سی عقل ہے جس عقل سے اس بات کو دشوار کہا جاسکتا ہے اور دنیا بھر کے عقلوں سے نرالی یہ ایک بات منکرین حشر کہتے ہیں اس لئے دنیا بھر کی باتوں سے بڑھ کر ان کی بات تعجب کے قابل ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا سب کی آنکھوں کے سامنے جب کہ اللہ نے انسان کو پیدا کردیا تو منکرین حشر کی یہ نادانی ہے کہ وہ اللہ کے کلام کو جھٹلاتے اور حشر کا انکار کرتے ہیں۔ یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پہلی پیدائش کو آنکھوں سے دیکھ کر جو یہ لوگ دوسری دفعہ کی پیدائش کو اللہ کی قدرت سے باہر گنتے ہیں تو یہ ان کا اللہ کی شان میں ایک کفر ہے جس کی سزا یہ ہے کہ قیامت کے دن سخت جرم کے مجرموں کی طرح ان کے گردنوں میں آگ کے طوق ڈالے جاویں گے تاکہ یہ سر نہ اٹھا سکیں اور دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ان کو رہنا پڑے گا یہاں مختصر طور پر فقط طوق کا ذکر ہے سورت غافر میں طوقوں کے ساتھ زنجیروں کا بھی ذکر ہے جن زنجیروں سے ایسے لوگوں کو جکڑا جاوے گا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:5) تعجب۔ مضارع مجزوم بوجہ عمل ان ۔ واحد مذکر حاضر۔ (اگر) تو تعجب کرتا ہے۔ حیران ہے (باب سمع) تعجب اس حالت کا نام ہے جو انسان کو کسی شے کا سبب معلوم نہ ہونے پر پیش آتی ہے۔ ان تعجب۔ ای ان تعجب من قولہم فی انکار البعث۔ یعنی ان کی انکار آخرت کے متعلق باتیں اگر آپ کو تعجب خیز لگتی ہیں (تو حیرت انگیز ... ان کا یہ قول بھی ہےء اذا کنا ۔۔ خلق جدید) ۔ الاغلال۔ طوق۔ ہتھکڑیاں۔ غل کی جمع ہے۔ الغلل۔ کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان چلے جانے کے ہیں۔ اسی لئے غلل اس پانی کو کہتے ہیں جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو۔ اور انغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں۔ لہٰذا غل (طوق) خاص کر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے کسی اعضاء کو جکڑ کر اس کے وسط میں باندھ دیا جاتا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 ۔ کہ ان کافروں نے اتنی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلایا۔ (روح) ۔ 1 ۔ حالانکہ ہر وہ شخص جو معمولی علم اور معمولی عقل رکھتا ہے باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے مشکل ہے اور یہ کہ جس خدا نے انسانوں کو پہلی بار پیدا کیا اس ک... ے لئے انہیں دوبارہ پیدا کرنا آسان تر ہے۔ (ابن کثیر) ۔ 2 ۔ یعنی جب انہوں نے آخرت سے انکار کیا تو تو یا خدا کی قدرت سے انکار کی اور یہ کہا کہ خدا اتنا عاجز اور درماندہ ہے کہ انہیں دوبارہ پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ (العیاذ باللہ) ۔ 3 ۔ جیسے قیدیوں اور مجرموں کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 5 تا 7 تعجب تو تعجب اور حیرت کرتا ہے ءاذا کیا جب تراب مٹی خلق جدید نئی پیدائش الا غلل طوق۔ گلے کا ہار اعناق (عنق) ۔ گردنیں یستعجلون وہ جلدی مچاتے ہیں السیئۃ برائی الحسنۃ نیکی، بھلائی قدخلت یقینا گذر گئی المثلت (مثل) عبرت کے واقعات ذو مغفرۃ معافی دینے والا شدید العقاب سخت عذاب دی... نے والا ایۃ نشانی، معجزہ منذر ڈرانیو الا ھاد ہدایت دینے والا۔ رہنمائی کرنے والا تشریح : آیت نمبر 5 تا 7 کفار مکہ ہر روز کوئی نہ کوئی اعتراض کر کے اپنی جہالت، تعصب اور حسد کا اظہار کرتے رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام شبہات اور سوالات کے جوابات گزشتہ آیات میں دے کر ایک مرتبہ پھر ان کے چند شبہات اور سوالات کے جوابات ارشاد فرمائے ہیں۔ ان کے تین سوالات تھے : 1) جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے تو مہارے اجزاء کیسے جمع ہو کر ہم دوبارہ زندہ ہوں گے۔ 2) بجائے خیر اور بھلائی مانگنے کے وہ کہتے تھے کہ وہ جس عذاب کا وعدہ کر رہے ہیں آخر وہ کب آئے گا ؟ 3) اگر یہ سچے نبی ہیں تو کوئی معجزہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا ہے کہ : 1) کتنے تعجب کی بات ہے کہ وہ ایسی بات کر رہے ہیں جس کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔ ان کا یہ سوال بڑا ہی حیرتناک ہے کہ وہ اللہ کی قدرت کا انکار کر رہے ہیں حالانکہ جس نے انسانوں کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے دوبارہ پیدا کرنا کونسی مشکل بات ہے۔ کوئی بھی مشین پہلی مرتبہ بناتے ہیں تو دشواری ہوتی ہے لیکن اس کے بن جانے کے بعد دوبارہ بنانا تو ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ پھر یہ کہ ہم تو کس یچیز کے بنانے کے لئے اسباب کے مخاطب ہیں جب کہ اللہ کسی سبب کا محتاج نہیں ہے وہ تو صرف ” کن “ کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے ، وجود اختیار کرلیتی ہے۔ فرمایا کہ درحقیقت یہ لوگ اللہ کی قدرت کے منکر ہیں ان کا انجام یہ ہوگا۔ کہ ان کے گلے میں طوق پڑا ہوا ہوگا۔ اور ہاتھوں اور پاؤں میں ہتھکڑیاں پہنا کر ان کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ 2) کفار و مشرکین کا یہ سوال کہ اللہ کے نبی جس عذاب کا وعدہ کر رہے ہیں آخر وہ کب آئے گا ؟ ہم تو روز روز سن کر عاجز آ چکے ہیں۔ فرمایا کہ اول تو عذاب کالا نایہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں نہیں ہے یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے ممکن ہے اور اللہ کا یہ حکم پہلی قوموں پر بھی آچکا ہے۔ یہ اللہ کا حلم و برداشت اور عفو و کرم ہے کہ وہ ان کی ان گستاخانہ باتوں کے باوجود ان پر عذاب نازل نہیں کرتا لیکن اگر ان کی شرارتوں اور اللہ سے بغاوتوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب ان پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑے گا اور پھر یہ اس سے کسی حال میں بچ نہ سکیں گے۔ ان کو تو عذاب کے بجائے خیر مانگنی چاہئے تھی لیکن ان کو تو عذاب کی اتنی جلدی پڑی ہوئی ہے کہ اللہ سے خیر اور عافیت مانگنا ہی بھول گئے۔ فرمایا کہ اللہ تو بڑا مغفرت کرنے والا ہے وہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنے پاؤں پر کہلاڑی مارنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور انجام پر غور نہیں کرتے ان کا انجام بہت برا ہوتا ہے اور گذری ہوئی قوموں کے برے اعمال کے بدلے میں جو بھی عذاب آیا وہ اتنا سخت اور شدید تھا کہ اپنی اسری قوتوں اور طاقتوں کے باوجود اپنے تہذیب و تمدن اور اپنے وجود کو اللہ کے عذاب سے بچا نہ سکے۔ 3) کفار مکہ کے اس مطالبہ پر کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ پر معجزات کیوں نازل نہیں کئے گئے۔ فرمایا کہ اے نبی ! آپ اللہ کے خوف سے ڈرانے والے اور جس طرح اور امتوں میں اللہ کے نبی آکر ہدایت کرتے رہے ہیں آپ بھی ایک ہادی اور رہبر ہیں معجزات کا دکھا اللہ تعالیٰ کے اختیار ہیں ہے وہ جب چاہے معجزات کو نازل کرسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے پہل یقوموں کے سامنے تو تڑے بڑے معجزات دکھائے گئے کیا وہ ان معجزات کو دیکھ کر ایمان لائے ؟ یقینا جس کو ایمان لانا ہوتا ہے وہ معجزات کا مطالبہ نہیں کرتا اور جس کو ایمان نہیں لانا ہے وہ معجزات دیکھ کر بھی اپنے کفر و شرک پر قائم رہتا ہے اور دولت ایمان سے محروم رہتا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی لا تعداد قدرتوں کو دیکھنے اور ان سے استفادہ کرنے کے باوجود یہ لوگ اس کی قدرت کا انکار کرتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمیں کون اٹھائے گا۔ یہ کتنی بڑی حقیقت ہے جس پر یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ایک چھوٹے سے بیج سے کس قدر تناور درخت پیدا کر... تا ہے، پھر غور کریں کہ کتنے بیج ہیں جو کئی کئی سال تک زمین میں دفن رہتے ہیں لیکن اگنے کا نام نہیں لیتے۔ جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے تو زمین سے نکل کر بڑے بڑے درختوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کو متعین مدت کے بعد اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آفاق، جمادات اور نباتات کے حوالے سے اپنی صفات کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ کفار اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت اور صفات پر غور وفکر نہیں کرتے۔ اسی کا نتیجہ ہے یہ کہتے ہیں کہ ہم مرنے کے بعد مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ کس طرح اٹھائے جائیں گے۔ یہ بڑی نادانی اور حیرت انگیز بات ہونے کے ساتھ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کرنا ہے جو لوگ اللہ کی ذات اور صفات کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن ان کی گردنوں میں جہنم کے طوق پہنائے جائیں گے اور انہیں ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہنا ہوگا۔ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی زندگی بےیقینی کی کشمکش میں جکڑی رہتی ہے۔ توحید اور آخرت کا عقیدہ آپس میں اس طرح جڑے ہوئے اور لازم ملزوم ہیں کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کا دعوے دار ہے مگر آخرت کا انکار کرتا ہے تو اس کا صاف معنیٰ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عادل، منصف اور جزاوسزا کا مالک تسلیم نہیں کرتا۔ حالانکہ آخرت کا برپا ہونا اور ہر انسان کا اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا نہ صرف ہر آسمانی کتاب سے ثابت ہے بلکہ عام عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قیامت کا دن ضرور برپا ہونا چاہیے تاکہ نیک کو اس کی نیکی اور برے کو اس کی برائی کا بدلہ چکایا جائے۔ اگر آخرت کا برپا ہونا یقینی نہ ہو تو دنیا میں کتنے ظالم ہوئے اور ہوں گے جنہیں منصف سے منصف عدالت بھی پوری پوری سزا نہیں دے سکتی۔ مثال کے طور پر ایک آدمی دس آدمیوں کو قتل کرتا ہے تو اسے عدالت ایک قتل کے بدلے قتل کرسکتی ہے باقی مقتولوں کی سزا اسے کس طرح دی جائے گی ؟ ایسے ظالم کو صرف قیامت کے دن ہی ٹھیک ٹھیک سزادی جاسکتی ہے کیونکہ وہاں موت کا تصور ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح دنیا میں کتنے ہی ایماندار اور صالح کردار لوگ ہوئے اور ہوں گے جنہیں دنیا میں ان کے کردار اور خدمات کا اس طرح صلہ نہ مل پایا جس کا وہ استحقاق رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں کو مرنے کے بعد دائمی زندگی سے نوازتے ہوئے نہ صرف ان کے صالح کردار کا اجردیا جائے گا بلکہ رب کریم اپنی طرف سے کئی گنا اجرعنایت فرمائے گا اور وہ ہمیشہ ہمیش جنت میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے ان دلائل کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی ذات اور صفات کو مانتا ہے اس کے لیے آخرت پر یقین رکھنا لازم ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِیْ خَطِیْٓءَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ ) [ رواہ مسلم : باب الدَّلِیلِ عَلٰٓی أَنَّ مَنْ مَّاتَ عَلَی الْکُفْرِ لاَ یَنْفَعُہٗ عَمَلٌ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا، مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا یہ اعمال اس کے لیے سود مند ہوں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے ایک دن بھی نہیں کہا تھا اے میرے رب ! میری خطائیں قیامت کے دن بخش دے۔ “ مسائل ١۔ آخرت کا انکار کرنے والے کافر ہیں۔ ٢۔ کفار بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔ ٣۔ کافروں کی گرد نوں میں طوق پہنائے جائیں گے۔ ٤۔ کافر جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن مرنے کے بعد جی اٹھنے کا ثبوت : ١۔ تعجب کے قابل ان کی یہ بات ہے کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ (الرعد : ٥) ٢۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ اٹھائے گا پھر اس کی طرف ہی لوٹائیں جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦ ) ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام کو اٹھائے گا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کے متعلق بتلائے گا۔ (المجادلۃ : ٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین بعث کا انکار لائق تعجب ہے ‘ ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے ان آیات میں اول تو یہ فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کو مخاطبین کے انکار قیامت سے تعجب ہے تو آپ کا تعجب واقعی برمحل ہے ‘ ان کا یہ قول تعجب کے لائق ہے کہ جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے تو کیا پھر نئے سرے سے ہماری پیدائش ہ... وگی ‘ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہرے ان کے سامنے ہیں ان کے ہوتے ہوئے پھر تعجب کر رہے ہیں کہ ہم کیسے زندہ ہوں گے ‘ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم خود اور ہمارے آباؤ اجداد موجود نہیں تھے سب کو خالق جل مجدہ نے پیدا فرمایا ہے نطفہ سے ‘ نطفہ بھی بےجان ہے جس نے نطفہ میں جان ڈال دی وہ اس پر بھی قادر ہے کہ مٹی سے دوبارہ پیدا فرما دے اور مٹی کے اجزاء میں دوبارہ جان ڈال دے۔ (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ وَاُولٰٓءِکَ الْاَغْلَالُ فِیْ اَعْنَاقِھِمْ ) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا یہ تو دنیا میں ان کا حال ہے اور آخرت میں ان کو جو سزا دی جائے گی اس میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہوں گے (وَاُولٰٓءِکَ اَصْحَاب النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ) (اور یہ لوگ دوزخ والے ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ یہ شکوی ہے۔ ” عجب ای معجب “ یعنی اے پیغمبر اگر آپ مشرکین کی اس حرکت پر متعجب ہیں کہ وہ ایک بدیہی حقیقت کا انکار کرتے ہیں اور ایسے دلائل قاہرہ کی موجودگی میں اور یہ مانتے ہوئے کہ ساری کائنات کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر بھی وہ اللہ کی عاجز مخلوق کو کارساز اور حاجت روا سمجھتے ہیں تو دوبارہ ... جی اٹھنے سے ان کا انکار کرنا بھی کوئی کم قابل تعجب نہیں۔ ” و ان تعجب من اتخاذ المشکرین مالا یضرھم ولا ینفعھم الیۃ یعبدونھا مع اقرار ھم بان اللہ تعالیٰ خالق السموات والارض وھو یضر و ینفع و قدرا وامن قدرۃ اللہ وما ضرب لھم بہ المثال ما راوا فعجب قولھم “ (خازن ج 4 ص 5) ۔ ” اولئک الاغلل الخ “ تخویف اخروی برائے منکرین توحید و بعث۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

5 ۔ اور اگر اے پیغمبر ! آپ کو کسی بات پر تعجب اور اچمبا ہو تو کافروں کا یہ قول واقعی تعجب کے لائق ہے کہ جب ہم مر کر خاک ہوگئے تو کیا کیا ہم قیامت میں از سر نو پھر پیدا ہوں گے اور کیا ہم نئے سرے سے بنائے جائیں گے یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق ... ڈالے جائیں گے اور ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں ۔ وہ اس دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو خالق اور تمام عالم کا پیدا کرنے والا مان کر پھر دوبارہ پیدا کرنے سے انکار کرنا اور اس کو دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز سمجھنا حالانکہ ہمیشہ کسی چیز کا پہلی مرتبہ پیدا کرنا اور بنانا دقت طلب ہوتا ہے تو اس قسم کی بےعقلی اور ناسمجھی کی بات کہتے ہیں اس سے زیادہ اور کون سی بات اچم بے اور تعجب کی ہوگی۔  Show more