Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 8

سورة الرعد

اَللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَحۡمِلُ کُلُّ اُنۡثٰی وَ مَا تَغِیۡضُ الۡاَرۡحَامُ وَ مَا تَزۡدَادُ ؕ وَ کُلُّ شَیۡءٍ عِنۡدَہٗ بِمِقۡدَارٍ ﴿۸﴾

Allah knows what every female carries and what the wombs lose [prematurely] or exceed. And everything with Him is by due measure.

مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ تعالٰی بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی ہرچیز اس کے پاس اندازے سے ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah is All-Knower of Al-Ghayb (Unseen) Allah says: اللّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَى ... Allah knows what every female bears, Allah affirms His perfect knowledge, from which nothing is hidden, and that He has complete knowledge of whatever every female creature is carrying, وَيَعْلَمُ مَا فِى الاٌّرْحَامِ And He knows that which is in the wombs. (31:34), whether male or female, fair or ugly, miserable or happy, whether it will have a long or a short life. Allah said in other Ayat, هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُمْ مِّنَ الاٌّرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ He knows you well when He created you from the earth, and when you were fetuses. (53:32) and, يَخْلُقُكُمْ فِى بُطُونِ أُمَّهَـتِكُـمْ خَلْقاً مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِى ظُلُمَـتٍ ثَلَـثٍ He creates you in the wombs of your mother: creation after creation in three veils of darkness. (39:6) meaning stage after stage. Allah also said, وَلَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَـنَ مِن سُلَـلَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَـهُ نُطْفَةً فِى قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَـماً فَكَسَوْنَا الْعِظَـمَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَـهُ خَلْقاً ءَاخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَـلِقِينَ And indeed We created man out of an extract of clay. Thereafter We made him as a Nutfah in a safe lodging. Then We made the Nutfah into a clot, then We made the clot into a little lump of flesh, then We made out of that little lump of flesh bones, then We clothed the bones with flesh, and then We brought it forth as another creation. So Blessed is Allah, the Best of creators. (23:12-14) In the two Sahihs it is recorded that Abdullah bin Mas`ud said that the Messenger of Allah said, إِنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللهُ إِلَيْهِ مَلَكًا فَيُوْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ بِكَتْبِ رِزْقِهِ وَعُمْرِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيد The matter of the creation of one of you is put together in the womb of the mother in forty days, and then he becomes a clot of thick blood for a similar period, and then a piece of flesh for a similar period. Then Allah sends an angel who is ordered to write four things. He is ordered to write down; his provisions, his life span, his deeds, and whether he will be blessed or wretched." In another Hadith, the Prophet said, فَيَقُولُ الْمَلَكُ أَيْ رَبِّ أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى أَيْ رَبِّ أَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ فَمَا الرِّزْقٌ فَمَا الاَْجَلُ فَيَقُولُ اللهُ وَيَكْتُبُ الْمَلَك Then the angel asks, "O my Lord! Is it a male or a female, miserable or happy, what is its provisions and life span!" Allah then ordains and the angel records it. Allah said next, ... وَمَا تَغِيضُ الاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ... and by how much the wombs fall short or exceed. Al-Bukhari recorded that Abdullah bin Umar said that the Messenger of Allah said, مَفَاتِيحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلاَّ اللهُ لاَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلاَّ اللهُ وَلاَ يَعْلَمُ مَا تَغِيضُ الاَْرْحَامُ إِلاَّ اللهُ وَلاَ يَعْلَمُ مَتَى يَأْتِي الْمَطَرُ أَحَدٌ إِلاَّ اللهُ وَلاَ تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ وَلاَ يَعْلَمُ مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ إِلاَّ الله The Keys of the Ghayb (unseen knowledge) are five, nobody knows them but Allah. Nobody knows what will happen tomorrow except Allah; nobody knows what is in the womb except Allah; nobody knows when it will rain except Allah; no soul knows at what place he will die except Allah; and nobody knows when the (Final) Hour will begin except Allah. Al-Awfi reported from Ibn Abbas that he said, وَمَا تَغِيضُ الاَرْحَامُ (and by how much the wombs fall short), this refers to miscarriages, وَمَا تَزْدَادُ (or exceed), this refers to carrying her fetus in her womb for the full term. Some women carry their fetus for ten months, while others for nine months. Some terms are longer or shorter than others. This is the falling short or exceeding that Allah the Exalted mentioned, and all this occurs by His knowledge." ... وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ Everything with Him is in proportion. Qatadah commented on Allah's statement, "For a term appointed. Allah has the records of the provisions and terms of His creation and made an appointed term for everything." An authentic Hadith mentioned that; one of the Prophet's daughters sent (a messenger) to him requesting him to come as her child was dying, but the Prophet returned the messenger and told him to say to her, إِنَّ للهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَمُرُوهَا فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِب Verily, whatever Allah takes is for Him and whatever He gives is for Him, and everything with Him has a limited fixed term (in this world), and so she should be patient and hope for Allah's reward. Allah said next,

علم الہٰی اللہ کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ تمام جاندار مادہ حیوان ہوں یا انسان ، ان کے پیٹ کے بچوں کا ، ان کے حمل کا ، اللہ کو علم ہے کہ پیٹ میں کیا ہے ؟ اسے اللہ بخوبی جانتا ہے یعنی مرد ہے یا عورت ؟ اچھا ہے یا برا ؟ نیک ہے یا بد ؟ عمر والا ہے یا بےعمر کا ؟ چنانچہ ارشاد ہے آیت ( ھو اعلم بکم ) الخ وہ بخوبی جانتا ہے جب کہ تمہیں زمین سے پیدا کرتا ہے اور جب کہ تم ماں کے پیٹ میں چھپے ہوئے ہوتے ہو ، الخ اور فرمان ہے آیت ( يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰث ) 39- الزمر:6 ) وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے ایک کے بعد دوسری پیدائش میں تین تین اندھیروں میں ۔ ارشاد ہے آیت ( ولقد خلقنا الانسان من سلالتہ ) الخ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفے سے نطفے کو خون بستہ کیا ، خون بستہ کو لوتھڑا گوشت کا کیا ۔ لوتھڑے کو ہڈی کی شکل میں کر دیا ۔ پھر ہڈی کو گوشت چڑھایا ، پھر آخری اور پیدائش میں پیدا کیا پس بہترین خالق با برکت ہے ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے ، پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے ، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ خالق کا ایک فرشے کو بھیجتا ہے ، جسے چار باتوں کے لکھ لینے کا حکم ہوتا ہے ، اس کا رزق عمر عمل اور نیک بد ہونا لکھ لیتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے وہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ مرد ہو گا یا عورت ؟ شق ہو گا یا سعید ؟ روزی کیا ہے ؟ عمر کتنی ہے ؟ اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے اور وہ لکھ لیتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں بجز اللہ تعالیٰ علیم وخبیر کے اور کوئی نہیں جانتا کل کی بات اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ پیٹ میں کیا بڑھتا ہے اور کیا گھٹتا ہے کوئی نہیں جانتا ۔ بارش کب برسے گی اس کا علم بہی کسی کو نہیں کون شخص کہاں مرے گا اسے بھی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ قیامت کب قائم ہو گی اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے ۔ پیٹ میں کیا گھٹتا ہے اس سے مراد حمل کا ساقط ہو جانا ہے اور رحم میں کیا بڑھ رہا ہے کیسے پورا ہو رہا ہے ۔ یہ بھی اللہ کو بخوبی علم رہتا ہے ۔ دیکھ لو کوئی عورت دس مہینے لیتی ہے کوئی نو ۔ کسی کا حمل گھٹتا ہے ، کسی کا بڑھتا ہے ۔ نو ماہ سے گھٹنا ، نو سے بڑھ جانا اللہ کے علم میں ہے ۔ حضرت ضحاک کا بیان ہے کہ میں دو سال ماں کے پیٹ میں رہا جب پیدا ہوا تو میرے اگلے دو دانت نکل آئے تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ حمل کی انتہائی مدت دو سال کی ہوتی ہے ۔ کمی سے مراد بعض کے نزدیک ایام حمل میں خون کا آنا اور زیادتی سے مراد نو ماہ سے زیادہ حمل کا ٹھرا رہنا ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نو سے پہلے جب عورت خون کو دیکھے تو نو سے زیادہ ہو جاتے ہیں مثل ایام حیض کے ۔ خون کے گرنے سے بچہ اچھا ہو جاتا ہے اور نہ گرے تو بچہ پورا پاٹھا اور بڑا ہوتا ہے ۔ حضرت مکحول رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں بالکل بےغم ، بےکھٹکے اور باآرام ہوتا ہے ۔ اس کی ماں کے حیض کا خون اس کی غذا ہوتا ہے ، جو بےطلب آرام اسے پہنچتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کو ان دنوں حیض نہیں آتا ۔ پھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے زمین پر آتے ہی روتا چلاتا ہے ، اس انجان جگہ سے اسے وحشت ہوتی ہے ، جب اس کی نال کٹ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روزی ماں کے سینے میں پہنچا دیتا ہے اور اب بھی بےطلب ، بےجستجو ، بےرنج وغم ، بےفکری کے ساتھ اسے روزی ملتی رہتی ہے ۔ پھر ذرا بڑا ہوتا ہے اپنے ہاتھوں کھانے پینے لگتا ہے ۔ لیکن بالغ ہوتے ہی روزی کے لئے ہائے ہائے کرنے لگتا ہے ۔ موت اور قتل تک سے روزی حاصل ہونے کا امکان ہو تو پس وپیش نہیں کرتا ۔ افسوس اے ابن آدم تجھ پر حیرت ہے جس نے تجھے تیری ماں کے پیٹ میں روزی دی ، جس نے تجھے تیری ماں کی گود میں روزی دی جس نے تجھے بچے سے بالغ بنانے تک روزی دی ۔ اب تو بالغ اور عقل مند ہو کر یہ کہنے لگا کہ ہائے کہاں سے کھاوں گا ؟ موت ہو یا قتل ہو ؟ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ ہر چیز اس کے پاس اندازے کے ساتھ موجود ہے رزق اجل سب مقرر شدہ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی صاحبہ نے آپ کے پاس آدمی بھیجا کہ میرا بچہ آخری حالت میں ہے ، آپ کا تشریف لانا میرے لئے خوشی کا باعث ہے ۔ آپ نے فرمایا جاؤ ان سے کہہ دو کہ جو اللہ سے ثواب کی امید رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو بھی جانتا ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہے اور اسے بھی جو بندوں پر ظاہر ہے ، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ۔ وہ سب سے بڑا ۔ وہ ہر ایک سے بلند ہے ہر چیز اس کے علم میں ہے ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز ہے ، تمام سر اس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں تمام بندے اس کے سامنے عاجز لا چار اور محض بےبس ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 رحم مادر میں کیا ہے، نر یا مادہ، خوبصورت یا بد صورت، نیک ہے یا بد، طویل العمر ہے یا قصیر العمر ؟ یہ سب باتیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ 8۔ 2 اس سے مراد حمل مدت ہے جو عام طور پر 9 مہینے ہوتی ہے لیکن گھٹتی بڑھتی بھی ہے، کسی وقت یہ مدت 10 مہینے اور کسی وقت 7، 8 مہینے ہوجاتی ہے، اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ 8۔ 3 یعنی کسی کی زندگی کتنی ہے ؟ اسے رزق سے کتنا حصہ ملے گا ؟ اس کا پورا اندازہ اللہ کو ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] اللہ کے علم کی وسعت :۔ یعنی ان لوگوں کی سرشت کو خوب جانتا ہے اور اس وقت سے جانتا ہے جب یہ اپنی ماؤں کے پیٹوں میں تھے۔ اس کے علم کی وسعت کا یہ حال ہے کہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہر مادہ کے پیٹ میں نطفہ پر کیا کچھ تغیرات واقع ہوتے ہیں۔ اس سے شکل و صورت کیونکر بنتی ہے۔ نیز یہ کہ پیٹ میں ایک بچہ ہے یا زیادہ ہیں بچہ تندرست پیدا ہوگا یا وہ اندھا یا لنگڑا اور اپاہج پیدا ہوگا۔ لمبے قد کا ہوگا یا پست قد & ناقص العقل ہوگا یا ذہین و نیک بخت ہوگا یا بدبخت، ضدی اور سرکش ہوگا یا حق کو قبول کرنے والا ہوگا۔ اس کی استعداد کار کتنی ہوگی۔ کیونکہ ہر چیز کے لیے اس نے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى ۔۔ : ” تَغِيْضُ “ ” غَاضَ یَغِیْضُ “ سے ہے اور یہ ” نَقَصَ یَنْقُصُ “ کا ہم معنی ہے۔ لازم اور متعدی دونوں معنوں میں آتا ہے، یعنی کم ہونا، کم کرنا۔ اسی طرح ” تَزْدَادُ “ باب افتعال ” زَادَ یَزِیْدُ “ کی طرح ہے، معنی ہے زیادہ ہونا اور زیادہ کرنا۔ یعنی حمل قرار پانے سے لے کر بچہ پیدا ہونے تک ہر چیز کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور ارحام (بچہ دانیوں) کا یہ علم اللہ تعالیٰ کی خاص صفات میں سے ہے، یعنی اس بات کا علم کہ مذکر ہے یا مؤنث، خوب صورت ہے یا بد صورت، بدبخت ہے یا نیک بخت، لمبی عمر والا ہے یا کم عمر۔ مزید دیکھیے سورة نجم (٣٢) ، زمر (٦) اور مومنون (١٢ تا ١٤) ۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَفَاتِحُ الْغَیْبِ خَمْسٌ : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ) ” غیب کی کنجیاں پانچ ہیں (جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا) ۔ “ (پھر سورة لقمان کی آخری آیت میں مذکور چیزیں بیان فرمائیں) ۔ [ بخاری، التفسیر، باب : (وعندہ مفاتح الغیب ۔۔ ) : ٤٦٢٧] مزید وضاحت کے لیے سورة لقمان کی آخری آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ الٹرا ساؤنڈ کی حقیقت بھی وہیں ملاحظہ فرمائیں۔ وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ: اور جو رحم کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں، یعنی بچہ ضائع ہوجاتا ہے یا نامکمل پیدا ہوتا ہے یا مدت ولادت میں اضافہ یا کمی ہوتی ہے کہ بعض کے ہاں چھ یا نو ماہ بعد، بعض کے ہاں دس ماہ یا اس سے بھی زیادہ مدت کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے۔ وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ : اللہ تعالیٰ کو ازل سے ابد تک ہر چیز کا علم ہے، اس نے ہر چیز کے متعلق پہلے ہی سب کچھ طے کر کے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے اور یہی تقدیر ہے۔ اس پر ایمان نہ ہو تو آدمی مسلمان نہیں ہوتا، فرمایا : (اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ ) [ القمر : ٤٩ ] ” بیشک ہم نے جو بھی چیز ہے، ہم نے اسے ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ “ یعنی وہی جانتا ہے کہ کون سی چیز کتنی ہوگی اور کیسے ہوگی، اس اندازے میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Here, it was said: اللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِيضُ الْأَرْ‌حَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ‌ ٍ. It means that Allah Ta ala knows everything about what every woman carries in her womb - a boy or girl, beautiful or otherwise, good or evil - and about why wombs of women decrease or increase, that is, about the time of delivery, whether early, in due time, or late. Stated in this verse is a particular attribute of Allah Ta’ ala: That He is the Knower of the Unseen (` Alim al-Ghayb). He is aware of the minut¬est of this entire universe and that of everything created in it, and He is most comprehensively informed of all changing conditions of each such particle. Mentioned along with it is the fact of all-inclusive and most per¬fect knowledge of every stage, every change, and every trait in the com¬plex process of human procreation. For instance, it is He alone who has the ultimate knowledge - the most sound, the most certain - of female pregnancy - a boy or girl? Or, both? Or, nothing but the accumulation of clusters of water or gas? Whatever opinion a physician gives in this matter as based on clinical indicators and educated guess cannot be taken to be any more than strong likelihood or estimate. There are times when things turn out to be otherwise. Even X-rays and more modern Imaging techniques fail to unravel the reality of this phenomena as due. We can only say that its real and certain knowledge can be credited only to Allah Ta` ala. This is what has been stated in another verse of the Qur’ an which says: (And He knows whatever there is in wombs - Luqman, 31:34). The word: تَغِیض (taghudu: decrease) is used in the sense of becoming less or dried up. In the present verse, set against the word: تَزدَاد (tazdad increase), it becomes clear that, at this place, it means decrease. Thus, it means that the most correct and sound knowledge of &what the wombs decrease or increase& rests with none but Allah Ta` ala. This &increase& and &decrease& could be referring to the increase or decrease in the num¬ber of children to be born, that is, whether the womb contains only one child, or has more than one. It is also possible that it may be denoting the increase or decrease in the period of actual delivery of the child, that is, in how many months, days, and hours, this pregnancy will translate into the outward physical existence of a human being. This too is someth¬ing the absolutely certain knowledge of which cannot be claimed by any-one other than Allah Ta` ala. Tafsir authority Mujahid has said that the blood excreted by a woman in pregnancy becomes the cause of decrease in the size and health of the fetus. The Qur’ anic expression: تَغِيضُ الْأَرْ‌حَامُ (&the wombs decrease& ) means this decrease - and the truth of the matter is that the words of the verse cover decreases of all kinds, therefore, no contradic¬tion exists here. Said in the last sentence of verse وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ (And everyth¬ing has measure with Him). It means that there can be no decrease or in-crease from the norm set with Allah Ta’ ala. All states through which a child-to-be-born passes are also included under this statement, that is, everything pertaining to such a child lies determined with Allah who knows for how many days the child will stay in the womb, then, for how long it will continue to live in the world, and how much of sustenance it will receive. This matchless knowledge of Allah Ta` ala is an open proof of His Oneness (Tauhd).

ارشاد ہے (آیت) اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ یعنی اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے لڑکا ہے یا لڑکی حسین ہے یا بد شکل نیک ہے یا بد اور جو کچھ ان عورتوں کے رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے کہ کبھی ایک بچہ پیدا ہوتا ہے کبھی زیادہ اور کبھی جلدی پیدا ہوتا ہے کبھی دیر میں۔ اس آیت میں حق تعالیٰ کی ایک مخصوص صفت کا بیان ہے کہ وہ عالم الغیب ہیں تمام کائنات و مخلوقات کے ذرہ ذرہ سے واقف اور ہر ذرہ کے بدلتے ہوئے حالات سے باخبر ہیں اس کے ساتھ ہی تخلیق انسانی کے ہر دور اور ہر تغیر اور ہر صفت سے پوری طرح واقف ہونے کا ذکر ہے کہ حمل کا یقینی اور صحیح علم صرف اسی کو ہوتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی یا دونوں یا کچھ بھی نہیں صرف پانی یا ہوا ہے قرائن اور تخمینہ سے کوئی حکیم یا ڈاکٹر جو کچھ اس معاملہ میں رائے دیتا ہے اس کی حیثت ایک گمان اور اندازہ سے زیادہ نہیں ہوتی بسا اوقات واقعہ اس کے خلاف نکلتا ہے ایکسرے کا جدید آلہ بھی اس حقیقت کو کھولنے سے قاصر ہے اس کا حقیقی اور یقینی علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہوسکتا ہے اسی کا بیان ایک دوسری آیت میں ہے (آیت) وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَام یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے لفظ تغیض عربی زبان میں کم ہونے اور خشک ہونے کے معنی میں آتا ہے آیت مذکورہ میں اس کے بالمقابل تزدادُ کے لفظ نے متعین کردیا کہ اس جگہ معنی کم ہونے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ رحم مادر میں جو کچھ کمی یا بیشی ہوتی ہے اس کا علم صحیح بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس کمی اور بیشی سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کی تعداد میں کمی بیشی ہو کہ حمل میں صرف ایک بچہ ہے یا زیادہ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زمانہ پیدائش کی کمی بیشی مراد ہو کہ یہ حمل کتنے مہینے کتنے دن اور کتنے گھنٹوں میں پیدا ہو کر ایک انسان کو ظاہری وجود دے گا اس کا یقینی علم بھی بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں ہوسکتا۔ امام تفسیر مجاہد نے فرمایا کہ زمانہ حمل میں جو خون عورت کو آجاتا ہے وہ حمل کی جسامت وصحت میں کمی کا باعث ہوتا ہے تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ سے مراد یہ کمی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جتنے اقسام کمی کے ہیں آیت کے الفاظ سب پر حاوی ہیں اس لئے کوئی اختلاف نہیں۔ كُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر چیز کا ایک خاص انداز اور پیمانہ مقرر ہے نہ اس سے کم ہو سکتی ہے نہ زیادہ بچے کے تمام حالات بھی اس میں داخل ہیں کہ اس کی ہر چیز اللہ کے نزدیک متعین ہے کہ کتنے دن حمل میں رہے گا پھر کتنے زمانہ تک دنیا میں زندہ رہے گا کتنا رزق اس کو حاصل ہوگا اللہ جل شانہ کا یہ بےمثال علم اس کی توحید کی واضح دلیل ہے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۭ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ ۝ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ غيض غَاضَ الشیء، وغَاضَهُ غيره «1» . نحو : نقص ونقصه غيره . قال تعالی: وَغِيضَ الْماءُ [هود/ 44] ، وَما تَغِيضُ الْأَرْحامُ [ الرعد/ 8] ، أي : تفسده الأرحام، فتجعله کالماء الذي تبتلعه الأرض، والغَيْضَةُ : المکان الذي يقف فيه الماء فيبتلعه، ولیلة غَائِضَةٌ أي : مظلمة . ( غ ی ض ) غاض ( ض ) الشئی غیضا وغاضہ غیرہ یہ نقص کی طرح لازم ومتعدی دونوں طرح آتا ہے ۔ لہذا اس کے معنی کسی چیز کو کم کرنے یا اس کے ازخود کم ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَغِيضَ الْماءُ [هود/ 44] تو پانی خشک ہوگیا ۔ وَما تَغِيضُ الْأَرْحامُ [ الرعد/ 8] زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ قدر تَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

تغیض الارحام کی تشریح قول باری ہے (وما لغیض للرحام وما تزداد۔ اور جو کچھ عورتوں کے رحم میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے (اس سے بھی باخبر رہتا ہے) حضرت ابن عباس (رض) اور ضحاک کا قول ہے کہ مدت حمل یعنی 9 ماہ کے عرصے میں جو کمی ہوتی ہے اور اس مدت میں جو اضافہ ہوتا ہے اس لئے کہ بچہ چھ ماہ بعد پیدا ہو کر زندہ رہتا ہے اور دو سال کے بعد پیدا ہو کر بھی زندہ رہتا ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اسقاط کی وجہ سے جو حمل ناتمام پیدا ہوتا ہے اور حمل کی مدت بڑھ جانے کی بناء پر جو بچہ پوری ساخت کا پیدا ہوتا ہے “ فراء کا قول ہے کہ غیض نقصان اور کم ہوجانے کو کہتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عرب کیل وگ غاضت المیاہ اس وقت کہتے ہیں جب پانی کی سطح نیچی ہوجاتی ہے۔ عکرمہ کے قول کے مطابق (وما تغیض) کے معنی ” اذا غاضت “ کے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ رحم کے خون میں ایک دن کے اندر جو کمی ہوجاتی ہے حمل کے اندر اتنا ہی اضافہ ہوجاتا ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ غیض سے وہ خون مراد ہے جو حاملہ عورت حمل کے دوران دیکھتی ہے۔ یہ دراصل رحم میں موجود حمل کی ساخت میں کمی کا باعث ہوتا ہے اور بیشی سے مراد وہ مدت ہے جو نو ماہ سے بڑھ جائے اس سے کمی کی تلافی ہوتی ہے۔ اس لئے آیت میں یہی اضافہ مراد ہے۔ اسماعیل بن اسحاق کا خیال ہے کہ اگر آیت کی تفسیر مجاہد اور عکرمہ سے مروی قول کے مطابق کی جائے تو گویا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حاملہ عورت کو بھی حیض آتا ہے اس لئے کہ رحم سے جو خون بھی نکلتا ہے وہ یا تو حیض کا خون ہوتا ہے یا نفاس کا۔ رہ گیا استحاضہ کا خون تو وہ ایک رگ سے نکلتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل کا یہ قول ایک بےمعنی سی بات ہے۔ اس لئے کہ رحم سے نکلنے والا خون کبھی حیض و نفاس کا خون ہوتا ہے اور کبھی ان دونوں کے سوا ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ استحاضہ کا خون ایک رگ سے نکلنے والا خون ہوتا ہے اس بات کے لئے مانع نہیں ہے کہ رحم سے نکلنے والا بعض خون کبھی استحاضہ کا خون ہوتا ہے۔ اس لئے کہ آپ کا ارشاد ہے (انما ھو عرق انقطعاوداء عرض یا تو یہ کوئی رگ ہے جو منقطع ہوگئی ہے یا کوئی بیماری ہے جو لاحق ہوگئی ہے) آپ نے یہ بتایا کہ استحاضہ کا خون کبھی کسی عارضہ کے لاحق ہوجانے کی بنا پر ہوتا ہے۔ اگرچہ اس وقت یہ کسی رگ سے خارج نہیں ہوتا۔ نیز اس بات کی راہ میں کون سی چیز حائل ہے کہ رگ کا خون رحم کے راستے خارج ہوجائے۔ اس کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ کوئی رگ منقطع ہوجائے اور اس سے خون بہہ کر رحم میں پہنچ جائے اور پھر وہاں سے خارج ہوجائے اس صورت میں نہ تو وہ حیض کا خون کہلائے گا اور نہ نفاس کا۔ اسماعیل بن اسحاق نے مزید کہا کہ یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا مگر صرف اس بنا پر کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس کی اطلاع دی گئی ہے، اس لئے کہ یہ غیب کی حکایت ہے :“ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس موقع پر اسماعیل یہ بھول گئے کہ ان کا یہ کلیہ اس امر کا موجب ہے کہ ” یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حاملہ عورت کو حیض آتا ہے مگر صرف اس بنا پر کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس کی اطلاع دی گئی ہے “۔ اس لئے کہ اسماعیل کے قاعدے اور کلیے کے مطابق یہ غیب کی حکایت ہے بلکہ اس سے حاملہ عورت کے حیض کی نفی کرنے والوں کے لئے جو گنجائش پیدا ہوجاتی ہے وہ اس کے اثبات کے قائلین کے لئے نہیں پیدا ہوتی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم تھا کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آ رہا تھا کہ اچانک اس نے خون دیکھ لیا۔ اب اختلاف پیدا ہوگیا کہ آیا یہ حیض تھا یا حیض نہیں تھا۔ حیض کا اثبات دراصل احکام کا اثبات ہوگا لیکن اسے کسی شرعی دلیل کے بغیر حیض ثابت کرنا جائز نہیں ہے، اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ حاملہ عورت عدم حیض کی حالت پر برقرار رہے حتیٰ کہ توقیف یعنی شرعی دلیل یا اتفاق امت کی بنا پر اس خون کا حیض ہونا ثابت ہوجائے۔ اس لئے کہ خارج ہونے والے خون کو حیض کا خون ثابت کر کے گویا ایک ایسے حکم کا اثبات ہوجائے گا جس کا علم صرف توقیف کے ذریعے ہوسکتا ہے نیز ہمارا یہ کہنا کہ حیض ہے دراصل رحم سے خارج ہونے والے خون کی خصوصیت اور اس کا حکم بیان کرنا ہے۔ اب خون کی کیفیت کبھی یہ ہوتی ہے کہ وہ یکساں حالت میں رحم سے خارج ہوتا رہتا ہے۔ اگر عورت یہ خون ماہواری کے ایام میں دیکھتی ہے تو اس پر حیض کا حکم عائد کردیا جاتا ہے اور اگر غیر ایام ماہواری میں دیکھتی ہے تو اس پر استحاضہ کا حکم لگا دیا جاتا ہے۔ نفاس کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے جب حیض اس سے زائد اور کوئی امر نہیں ہوتا کہ خاص اوقات میں جاری ہونے والے خون کے لئے کچھ احکام کا اثبات ہوجاتا ہے، اور حیض صرف جاری ہونے والے خون سے عبارت نہیں ہوتا بلکہ اس میں اس کے ساتھ تعلق رکھنے والا حکم بھی اس میں داخل ہوتا ہے اب خون نکلنے پر حکم کے اثبات کا علم صرف توقیف یعنی شرعی دلیل کے ذریعے ہوسکتا ہے اس لئے حاملہ کے رحم سے نکلنے والے خون کے لئے اس حکم کا ثابت قرار دینا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس سلسلے میں نہ تو توقیف یعنی کوئی شرعی رہنمائی اور دلیل وارد ہوئی ہے اور نہ ہی اس پر امت کا اتفاق ہے۔ اسماعیل بن اسحاق نے اپنے گزشتہ قول پر یہ کہہ کر مزید اضافہ کیا ہے کہ ” یہ بات ان لوگوں پر لازم نہیں آتی جو یہ کہتے ہیں کہ حاملہ کو حیض آتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (ویسئلو منک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ پوچھتے ہیں حیض کا کیا حکم ہے کہو، وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو) جب اس آیت میں النساء کا لفظ آگیا تو اس سلسلے میں عموم کالزوم ہوگیا اس لئے کہ خون جب عورت کے فرج سے خارج ہوگا تو اسے کہنا اولیٰ ہوگا الایہ کہ اس کے سوا خون کے کسی اور قسم مثلاً نفاس وغیرہ کا علم ہوجائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ویسئلونک عن المحیض) میں حیض کی صفت کا اس طور پر بیان نہیں کہ اس کے ذریعے حیض دوسری چیز یعنی نفاس وغیرہ سے ممتاز ہوجائے۔ قول باری (قل ھو اذی) کے ذریعہ صرف ان امور کی خبر دی گئی ہے جن کا حیض سے تعلق ہے مثلاً ترک صلوٰۃ اور ترکیب صوم نیز ہمبستری سے اجتناب وغیرہ۔ اسی طرح اس فقرے کے ذریعے حیض کے خون کی نجاست اور اس سے اجتناب کے لزوم کی خبر دی گئی ہے۔ اس میں کوئی دلالت نہیں ہے کہ حیض کا خون حمل کی حالت میں موجود ہوتا ہے یا موجود نہیں ہوتا۔ اسماعیل کا یہ کہنا ایک بےمعنی سی بات ہے کہ جب آیت میں النساء کا لفظ آگیا تو اس سلسلے میں عموم کالزوم ہوگیا۔ “ اس لئے کہ قول باری ہے (فاعتزلوا النساء فی المحیض) قول باری (فی المحیض) میں یہ بیان نہیں ہے کہ حیض کیا ہے ؟ بلکہ اس کا بیان ہے کہ جب حیض کا ثبوت ہوجائے تو عورتوں سے الگ رہنا واجب ہے۔ اختلاف تو اس میں ہے کہ حمل کی حالت میں نکلنے والا خون آیا حیض ہے یا کچھ اور۔ اب فریق مخالف کا قول خود اس کے لئے حجت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسماعیل کا یہ قول کہ ” حمل کے دوران فرج سے نکلنے والے خون کو حیض قرار دینا اولیٰ ہے “ محض ایک دعویٰ ہے جس کی پشت پر کوئی بربان اور دلیل نہیں ہے۔ اسماعیل کے مدمقابل کے لئے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ ” خون جب عورت کے فرج سے خارج ہو تو اسے غیر حیض قرار دینا اولیٰ ہوگا حتیٰ کہ دلیل قائم ہوجائے کہ یہ حیض ہے اس لئے کہ ایسے خون کا بھی وجود ہے جو فرج سے نکلتا ہے لیکن حیض نہیں ہوتا۔ اس لئے پوری بحث سے صرف ایسے دعاوی کا ہی حصول ہوا جو ایک دوسرے پر مبنی ہیں اور اس لئے یہ تمام دعاوی پشت پناہ بننے والی کسی دلیل کی محتاج ہیں۔ مطر الوراق نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حاملہ عورت اگر خون دیکھے تو وہ نماز نہیں چھوڑے گی۔ حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : ” ہمارے نزدیک حضرت عائشہ (رض) سے اس روایت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ کہا کرتی تھیں کہ حاملہ عورت جب خون دیکھے تو نماز پڑھنا چھوڑ دے اور پاک ہونے کے بعد نماز پڑھے۔ “ اس قول میں یہ احتمال ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے اس سے وہ حاملہ عورت مراد لی ہو جس کے بطن میں دو بچے ہوں اور ایک بچہ پیدا ہوچکا ہو تو سا صورت میں پہلے بچے کی پیدائش کے ساتھ نفاس کی ابتدا ہوجائے گی اور جب تک پاک نہیں ہوگی نماز نہیں پڑھے گی جیسا کہ اس بارے میں امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کا قول ہے۔ اس توجیہ کی اس لئے ضرورت پیش آئی تاکہ حضرت عائشہ (رض) سے مروی دونوں روایتیں درست رہ جائیں اور ایک کی دوسری کے ساتھ تعارض لازم نہ آئے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا اگر وہ خون دیکھے تو وہ استحاضہ کا خون ہوگا۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک حاملہ عورت کو بھی حیض آسکتا ہے۔ ہمارے مسلک کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غزوہٗ اوطاس میں گرفتار ہونے والی قیدی عورتوں کے بارے میں مروی ہے۔ آپ نے فرمایا (لاتوطا حامل حتیٰ تضع ولا حائل حتی تستبری بحیضہ “۔ حاملہ سے جب تک وضع حمل نہ ہو ہمبستری نہ کی جائے اور غیر حاملہ سے جب تک ایک حیض کے ذریعہ استبراء رحم نہ ہو صحبت نہ کی جائے) استبراء رحم کی حمل سے برأت معلوم کرنے کو کہتے ہیں۔ جب شارع (علیہ السلام) نے حیض کے وجود کو رحم کی برأت کی نشانی قرار دیا تو پھر حمل کے وجود کے ساتھ حیض کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہا اس لئے کہ اگر حمل کے وجود کے ساتھ حیض کا بھی وجود ہوتا تو پھر حیض برأت رحم کی نشانی قرار نہ پاتا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طلاق سنت کے متعلق یہ قول بھی دلالت کرتا ہے (فلیطلقھا طاھرا من غیر جماع اوحاملا قد استیان حملھا۔ پھر شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو طہر کی حالت میں طلاق دے جس میں ہمبستری نہ ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دے جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو) اگر حاملہ عورت کو حیض آتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ساتھ ہمبستری اور اس کی طلاق کے درمیان ایک حیض کے ذریعہ فصل کردیتے جس طرح غیر حاملہ عورت کی صورت میں آپ نے حکم دیا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاملہ عورت کو جماع کے بعد ایک حیض کے ذریعے جماع و طلاق کے درمیان فصل کئے بغیر طلاق دینے کی اباحت کردی جو اس بات کی دلیل ہے کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہوتی ہے جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی اور جو کچھ حمل میں نوماہ کے اندر کمی ہوتی ہے اور جو کچھ نوماہ سے زیادہ زیادتی ہوتی ہے۔ اور یہ مدت میں زیادتی وکمی اور رحم مادر میں بچہ کا ٹھہرانا اور اس کا نکلنا سب ایک خاص اندازہ سے مقرر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى) ہر مادہ چاہے وہ انسان ہے یا حیوان ‘ اس کے رحم میں جو کچھ ہے اللہ کے علم میں ہے۔ (وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ) جب حمل ٹھہر جاتا ہے تو رحم سکڑتا ہے اور جب بچہ بڑھتا ہے تو اس کے بڑھنے سے رحم پھیلتا ہے۔ ایک ایک مادہ کے اندر ہونے والی اس طرح کی ایک ایک تبدیلی کو اللہ خوب جانتا ہے۔ (وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ ) اس کائنات کا پورا نظام ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت چل رہا ہے جہاں ہرچیز کی مقدار اور ہر کام کے لیے قاعدہ اور قانون مقرر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17. When amplified the verse will mean: Allah remains fully aware of all the developments that take place in the child while in its mother’s womb, and He watches over the decrease or increase in each of its limbs, and its potentialities, capabilities and powers.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :17 اس سے مراد یہ ہے کہ ماؤں کے رحم میں بچے کے اعضاء اس کی قوتوں اور قابلیتوں ، اور اس کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں جو کچھ کمی یا زیادتی ہوتی ہے ، اللہ براہ راست نگرانی میں ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: یعنی اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کس ماں کے پیٹ میں کیسابچہ ہے، اور رحم میں رہتے ہوئے حمل بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے جو روایت ہے اس میں اس آیت کی تفسیر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی ہے کہ عورت کے رحم میں جب نطفہ ٹھہرتا ہے تو ایک چلہ تک اپنی اصلی حالت پر رہتا ہے پھر جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر گوشت کا لوتھڑا ہوجاتا ہے پھر پتلا بن جاتا ہے اور اس میں روح پھونکی جاتی ہے اور اللہ کے حکم سے ایک فرشتہ آتا ہے اور عمر رزق جس طرح کے عمل یہ پتلا پیدا ہونے کے بعد کرے گا یہ سب کچھ وہ فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ مدت حمل سے کم میں بچہ کا پیدا ہوجانا یہ رحم کے گھٹاؤ کی حالت ہے اور مدت حمل میں زیادتی کا ہوجانا یہ رحم کے بڑھاؤ کی حالت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) یہ فرماتے ہیں کہ حمل کے زمانہ میں اگر عورت کو حیض آجاوے تو جتنے دن حیض آوے گا اتنے ہی دن نو مہینے کے اوپر ہوجاویں گے جب بچہ پیدا ہوگا یہ مدت حمل کی زیادتی کی صورت ہے اور نو مہینے کے اندر بچہ کا پیدا ہوجانا یا اسقاط حمل کی کمی بیشی اس کی عمر اس کا رزق اس کی نیکی بدی علم الٰہی کے اندرازہ اور گنتی کے موافق ہے۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) کی صحیح حدیث جو اوپر گزری اس سے قتادہ کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ اس حدیث میں بھی علم الٰہی کے موافق ان باتوں کے لکھے جانے کا ذکر ہے منکرین حشر کا ذکر اوپر فرما کہ اس آیت میں انہیں انسان کی پہلی پیدائش کا حال یاد دلایا گیا ہے اور یہ تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ انسان کی پہلی پیدائش سے جو کوئی قدرت الٰہی کو جان لیوے گا اس کو پھر حشر کے انکار کا موقع باقی نہیں رہ سکتا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:8) انثی۔ عورت۔ مادہ۔ تغیض ۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ غیض ومغاض پانی کا کم ہونا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے و غیض المائ۔ (11:44) اور پانی خشک ہوگیا۔ غاض یغیض (باب ضرب) نقض کی طرح لازم اور متعدی دونوں طرح آتا ہے۔ آیت ِ بالا (11:44) فعل لازم استعمال ہوا ہے۔ اور آیۃ ہذا میں متعدی استعمال ہوا ہے لہٰذا اس کے معنی کم کرنے یا کم ہونے۔ ہر دو ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح تزداد بھی لازم ومتعدی مستعمل ہے۔ وما تغیض الارحام وما تزداد۔ اور جوار حام کم کرتے ہیں اور جو وہ زیادہ کرتے ہیں۔ اس کم کرنے اور زیادہ کرنے کی یہ صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) بچہ کا نامکمل ہونا (کمی) اور اس کا مکمل ہونا۔ (2) بچہ کی رحم مادر میں مدت۔ عام مدت سے کم کا جَنْ دینا یا گرادینا۔ خواہ وہ مکمل شکل بننے سے قبل ہو یا بعد میں اور عام مدت سے زیادہ وقت رحم مادر میں رہنا جس کی مدت دو سال تک ہوسکتی ہے (ابو حنیفہ (رح) ) چار سال ہوسکتی ہے (امام شافعی) پانچ سال ہوسکتی ہے۔ (امام مالک (رح)) ۔ (3) حیض میں کمی کہ ایام حمل میں اکثر حیض بند ہوجاتا ہے ۔ اور یہ بچہ کی خوراک بنتا ہے یا حیض کا پھر جاری ہوجانا ۔ بہرکیف اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ رحم ِ مادر میں حمل کی بابت جو تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں خواہ وہ شاذ ہوں یا عام سب اس کے احاطۂ علم میں ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ یعنی حمل قرار پانے سے لے کر زمانہ ولادت تک کا خدا کو علم ہے اور یہ علم ” مافی الارھام “ خاص طور پر صفاتِ الیہ میں سے ہے۔ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ کسی کو علم نہیں ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے اور رحم (پیٹ) یا کم کرتے ہیں اور کیا زیادہ۔ بارش کب ہوگی۔ انسان کہاں مرے گا اور یہ کہ قیامت کب آئے گی۔ (بخاری) ۔ 10 ۔ یعنی وہی جانتا ہے کہ کون سی چیز کیسی اور کتنی ہوگی اس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر ٢ : اسرارومعارف : اللہ جل جلالہ انسانی ضروریات سے پوری طرح واقف ہے اس کا علم تو اس قدر وسیع ہے کہ نہ صرف دنیا میں بلکہ ماؤں کے پیٹوں میں قرار پکڑنے والے حمل اور اس کی ہر ہر لمحہ کی گھٹنی بڑھتی اور تبدیل ہوتی ہوئی صورت کو جانتا ہے اور آج تک طب اور جدید سائنس نے بھی اپنی پوری قوت صرف کرکے اگر اندازہ لگا بھی لیا کہ حمل سے بچی پیدا ہوگی یا بچہ تو ان کا یہ علم بھی محض ایک اندازہ ہوتا ہے یقینی نہیں ہوتا اور صرف یہ اندازہ کو لینا ہی تو کافی نہیں اس کا رنگ ، قد کاٹھ ، صحت ، عرم اور عملی استعداد یا دنیا میں زندگی کی کن منازل سے گذرے گا ، غرض ہر پیدا ہونے واے انسان کے کوائف کی ایک بہت لمبی فہرست ہے جسے جاننا صرف اللہ کا خاصہ ہے ، علاوہ ازیں استقرار حمل سے لے کر پیدا ہونے تک ہر قطرے اور ہر ذرے میں ہونے والی کمی بیشی کو ہر آن جانتا ہے بلکہ ہر کام اس کے مقرر کردہ اندازے اور ٹائم ٹیبل کے مطابق اس کے حکم سے ہوتا ہے کہ ہر ہر کام کا وقت مقدار اور سب کچھ طریق کار اس نے متعین فرما دیا ہوا ہے ۔ اللہ کا علم محیط ہے اور وہ غیب اور پوشیدہ کو بھی ایسے ہی جانتا ہے جیسے ظاہر کو جانتا ہے اور اس کی شان انسان کی فکر تک سے بلند ہے مگر انسان اس کی بڑائی کا اقرار کرنے کے باوجود پھر اس کے لیے ایسی صفات مان لیتے ہیں جو محض عام انسانی اوصاف ہوتے ہیں جیسے یہود ونصاری نے اس کے لیے اوصاف ماننا شروع کردیتے ہیں جو صرف اللہ جل جلالہ کو سزاوار ہیں تو وہ اتنا عظیم ہے اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اور اپنی صفات کے اعتبار سے بھی کہ فکر انسانی کی وہاں تک رسائی ہی نہیں اور بغیر اپنے عجز کے اقرار کے انسان کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔ فلہذا کوئی تم میں سے چھپ کر اور نہایت رازداری سے بات کرے یا کھلے بندوں اعلان کرتا پھرے اللہ جل جلالہ ہر حال میں جانتا ہے کوئی راتوں کو چھپ کر چلتا ہے یا کام کرتا ہے یا دن کے اجالے میں قدم اٹھاتا ہے اللہ کے لیے دونوں برابر ہیں اور انہیں ایک طرح سے جانتا ہے نہ صرف وہ خود جانتا ہے بلکہ انسان کے ہر حال میں انسان کی نگہداشت کرنے والے فرشتے تک انسان کے ساتھ ہوتے ہیں جو اس کے آگے پیچھے ہر طرف اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اللہ کریم کے حکم سے ہی ان کی ذمہ داری ہے ، نطفے سے سے انسانی بدن کی تعمیر اس کی پیدائش پھر اسے رزق پہنچانا بلکہ اس کے پیٹ میں پہنچانا اس کے وجود کا حصہ بنانا اسی طرح اس کے ہر قول وفعل کو لکھ کر محفوظ کرنا پھر مختلف حادثات سے اس کی حفاظت کرنا جو اس کی اپنی کوتاہیوں کے باعث اسے گھیرے رہتے ہیں ، اور بیماریوں سے اس کی حفاظت کرنا یہ سب ان کی ذمہ داری ہے اور جب وہ ساتھ رہتے ہیں تو انسان کے بارے ذرہ ذرہ بات تو اللہ جل جلالہ کی ایک مخلوق یعنی فرشتہ کے علم میں بھی ہے ، خود اللہ جل جلالہ کا علم تو بہت بلند ہے اور اس کا علم وسیع تر ہے ایسے ہی حوادثات سے حفاظت پر بھی فرشتے متعین ہیں ، لہذا جب کسی کو بیماری میں مبتلا کرنا یا کسی حادثے سے دو چار کرنا مقصود ہوتا ہے جو خود اس کی کسی کوتاہی کا نتیجہ ہو یا اللہ جل جلالہ کی طرف سے اسے کسی امر میں مبتلا کرکے اجر دینا مقصود ہو تو فرشتوں کی حفاظت اس سے ہٹا دی جاتی ہے ۔ rnّ (جنات سے نجات کا حیلہ) روایات میں ہے کہ اگر یہ فرشتوں کی حفاظت حاصل نہ ہوتی تو صرف جنات ہی انسان کا جینا دوبھر کردیتے ، لہذا جن لوگوں کو جنات کی طرف سے اذیت ملتی ہے تو گویا ان سے کسی حد تک حفاظت الہیہ ہٹا لی جاتی ہے جس کا سب سے موثر علاج توبہ ہے یعنی دوسرے علاج کے ساتھ ایک بہت موثر حیلہ توبہ ہے ایسے ہی یہ فرشتے شیطان کی دعوت کے مقابلے میں گناہوں سے بچانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور انسان کے دل میں گناہ سے نفرت اور نیکی سے رغبت کا داعیہ پیدا کرتے رہتے ہیں اور بدکار ان کا ہاتھ جھٹک کر ہی برائی کرتا ہے اللہ ایسا کریم ہے اپنے اس حفاظتی نظام سے کبھی کسی قوم کو یا جماعت کو مجرم نہیں فرماتا جب تک کہ خود انسان اپنے اختیار سے اس کی حفاظت کو جھٹک نہیں دیتا اور اپنے آپ کو اس کی نافرمانی کے راستے پر گامزن نہیں کردیتا ، پھر جب انسان یہی طے کرلیتا ہے تو اللہ جل جلالہ بھی اسے اپنی حفاظت سے محروم فرما کر اسے مصیبتوں کے سپرد فرما دیتے ہیں اور وہ مبتلائے گناہ ہو کر بالآخر اللہ جل جلالہ کے عذٓب میں مبتلا ہوجاتا ہے اور جب اللہ جل جلالہ کسی سے اپنی حفاظت ہٹالیں اور اسے عذاب میں مبتلا کردیں ، تو پھر عذاب الہی کے مقابلے میں اس کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوتا نہ کوئی انسان ان کے کام آسکتا ہے اور نہ فرشتے ہی کچھ مدد کر پاتے ہیں ۔ وہ ہی قادرمطلق ہے کہ بادلوں میں پانی کے ساتھ آگ کو یعنی بجلی کو جمع فرما دیا جو چمک چمک کر تمہیں بارش کی امید دلاتی ہے تو ساتھ بجلی گرنے اور تباہی کا خطرہ بھی نظر آتا ہے اور وہ ایسا قادر ہے کہ پانی کا بہت بڑا ذخیرہ بادل میں بھر کر ہوا پر چلا دیتا ہے بجلی کی کڑک بھی اسی کی تسبیح بیان کرتی ہے اور اسی کی عظمت کا اقرار کر رہی ہوتی ہے اور تمام فرشتے بھی اس کی عظمت کے سامنے لرزاں وترساں رہتے ہیں وہ جہاں چاہے بادلوں سے ہر شے کو سیراب کر دے اور جہاں چاہتا ہے بجلی گرا کر تباہ برباد بھی کر دتیا ہے ، یہ سب انسان کی نگاہ کے سامنے ہے اس کے باوجود ان بدنصیبوں کو اس کی عظمت وکبریائی میں شبہ ہے اور اس شان میں جھگڑتے ہیں ، حالانکہ ایسا کرنا بہت بڑی گستاخی ہے اور اس کی گرفت اور عذاب جو گستاخی پہ واقعہ ہوتا ہے بہت سخت ہے ، ضرورت کے وقت یا مدد کے لیے یا عبادات میں پکارنا اللہ جل جلالہ ہی کو سزاوار ہے اور یہی حق ہے کہ کسی کو پکار سننا یا اس کی حاجت پوری کرنا یہ اللہ جل جلالہ ہی کا کام ہے ، جو لوگ اللہ جل جلالہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پکارتے ہیں ، دیوی دیوتاؤں کو یا غیبی طاقتوں کو یا فرشتوں اور اللہ جل جلالہ کے بندوں کو تو وہ سخت غلطی کے مرکتب ہوتے ہیں اس لیے کہ اللہ جل جلالہ کے سوا جو کوئی بھی ہے وہ مخلوق ہے اور خود اپنی ذات کے لیے بھی اور اپنی ضروریات کے لیے بھی اللہ جل جلالہ کا محتاج ہے لہذا وہ کسی دوسرے کی پکار پر لبیک نہیں کہہ سکتا اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے کوئی دریا کی طرف ہاتھ پھیلا دے اور پکارے کہ میری پیاس بجھا دو تو اور میرے منہ تک اپنا پانی پہنچاؤ تو دریا کبھی ایسا نہ کرسکے گا خواہ وہ پانی سے لبالب بھرا ہو ، اس لیے کہ اس طرح پکار اور دعا پر حاجت روائی کرنا اس کا منصب نہیں وہ خود مخلوق ہے اور اپنی ذمہ داری کی حد تک خدمت پر مامور ہاں اللہ جل جلالہ کے بتائے ہوئے قاعدے ہی سے پیاس بجھائی جاسکتی ہے ایسے ہی کفار کے اعمال اور ان کی عبادات و مناجات سب بیکار جاتے ہیں کہ وہ سب کام اپنی پسند سے کرتے ہیں اللہ جل جلالہ کے ارشاد کردہ دین کی پیروی نہیں کرتے اور جو کچھ اپنی پسند سے یا انسانوں کی تجویز کردہ رسومات کے مطابق کرتے ہیں وہ کبھی شرف قبولیت نہیں پاتا ۔ ہر چیز اللہ جل جلالہ کے سامنے سربسجود ہے اپنی پسند سے اطاعت کرے یا نہ بھی کرنا چاہے تو اس کے پاس اطاعت کے سوا چارہ نہیں ، پیدا ہونے اور مرنے میں قد کاٹھ یا رنگ روپ میں صحت وبیماری میں غرض کہ ہر حال میں اسی کے حکم کے تابع ہیں اور اس قدر مکمل اطاعت کرتے ہیں جیسے سربسجود ہوں سب چیزوں کا سایہ ہی دیکھ لو کہ صبح شام انہیں کے قدموں میں لوٹ کر اس بات پر گواہی دیتا ہے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں اور ساری عظمت صرف اللہ جل جلالہ کے لیے جو سارے جہانوں کا خالق ومالک ہے ۔ ان سے فرمائیے کہ کون بنانے اور قائم رکھنے والا ہے آسمان کا اور سب زمینوں کا کہ آسمانی مخلوق تو خود آسمان پر قیام کرنے کے لیے اس کی محتاج ہے اور زمینوں کے باسیوں کی پناہ گاہ خود زمینیں ہی ہیں تو لامحالہ یہ ان کو سنبھالنے کی اہلیت تو نہیں رکھتے تو انہیں بتائیے کہ صرف اللہ جل جلالہ ہے جو آسمان اور زمینوں سب کا بنانے والا بھی ہے اور سب کو قائم رکھنے والا بھی پھر اتنی بڑی شان والے مالک کو چھوڑ کر تم مخلوق کا آسرا پکڑتے ہو اور مخلوق سے اپنی حاجت برآری کی تمنا رکھتے ہو حالانکہ مخلوق تو خود اپنے بھلے برے اور نفع نقصان پر بھی اختیار نہیں رکھتی ایسا کرنا تو گویا بالکل اندھا پن ہے اور اندھے کبھی آنکھوں والوں کے برابر نہیں ہو سکتے یا ظلمت کبھی نور کا مقابلہ نہیں کرسکتی کہ معرفت الہی نور ہے اور اس کی عظمت سے بیگانہ پن ظلمت آخر کیوں یہ لوگ اس مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور غیر اللہ کو اپنی امیدوں کا مرکز کیوں بناتے ہیں کیا نہوں نے بھی کچھ تخلیق کیا ہے کوئی مخلوق پیدا کی ہے کہ انہیں دھوکا لگ رہا ہے اور ان سے بھی امید لگائے بیٹھے ہیں ہرگز نہیں بلکہ فرما دیجئے کہ وہ تو خود مخلوق ہیں اور صرف اللہ جل جلالہ ہر شے کا خالق ہے اور وہ اپنی ذات اور اپنی صفات میں یکتا ہے اکیلا ہے اور بہت بڑی قدرت و طاقت کا مالک ہے ،۔ اسی کی قدرت کاملہ سے بارش کا نزول ہوتا ہے اور ندی نالے لبالب بھر کر بہنے لگتے ہیں ان کی روانی میں خس و خاشاک بھی شامل ہوجاتا ہے اور پانی کا جھاگ بھی یا جیسے زیور بنانے کے لیے دھاتوں کو پگھلاتے ہو تو ان پر میل کچیل جھاگ کی صورت میں جم جاتا ہے ، اللہ جل جلالہ حق و باطل کی یہی مثال ارشاد فرماتے ہیں کہ باطل خس و خاشاک اور جھاگ کی مانند ہے جیسے حالات کے طوفان جنم دیتے ہیں مگر بہت جلدی مٹ جاتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے لیکن حق اس پانی کی مانند ہے جو سطح زمین پر ٹھہر کر مخلوق کو سیراب کرتا ہے یا زمین کے اندر جذب ہو کر اسے سرسبزی وشادابی عطا کرتا ہے یا جیسے دھات کا جھاگ ختم ہوجاتا ہے اور صاف ستھری دھات باقی رہتی ہے جس سے خوبصورت زیور بنائے جاتے ہیں جو مخلوق کا حسن بڑھاتے ہیں اللہ جل جلالہ اسی طرح مثالوں سے بات کو واضح فرما دیتے ہیں کہ کوئی بھی ذی شعور خس و خاشاک اور جھاگ کو پانی کے مقابل یا جھاگ کو دھات کے عوض پسند نہیں کرتا تو پھر حق کو چھوڑ کر باطل کو اختیار کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ ہر طرح کی بہتری صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پروردگار کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں اور اس کا حکم مانتے ہیں جن بدنصیبوں نے اس کی اطاعت سے منہ موڑا اور اس کی ذات یا صفات میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا اگرچہ انہیں جو کچھ دنیا میں ہے سب مل جائے ، بلکہ مال اور بھی مل جائے اور انجام کار وہ یہ سب کچھ دے کر جان چھڑانا چاہئیں تو ایسا نہ ہو سکے گا دنیا کا سب مال کسی ایک انسان کو ملنا محال ہے اگر ایسا ہو بھی بلکہ اسے دوگنا کردیا جائے تو بھی اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کے بدلے بہت مہنگا سودا ہے اور لوگ دنیا ہی کی طلب میں اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کرتے بھی ہیں مگر یوم حساب بہت سخت ہو اور ایسے لوگوں سے بہت شدت سے باز پرس ہوگی جس کے نتیجے میں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا جو بہت ہی برا اور تکلیف دہ ٹھکانہ ہے جہاں کبھی کوئی لمحہ آرام کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 8 تا 11 یعلم وہ جانتا ہے تحمل اٹھاتی ہے انثی مادہ، عورت تغیض کمی ہوتی ہے تزداد اضافہ ہوتا ہے کل شیء ہر چیز بمقدار اندازے سے الکبیر بڑا بزرگ المتعال برتر۔ زیادہ اونچا سواء یکساں اسر جس نے چھپایا جھر جس نے کھل کر کیا۔ زور سے کیا مستخف اسم فاعل سارب چلنے والا معقبت (مقبت) ایک کے پیچھے دوسرے کا آنا۔ پہرے دار یحفظون حفاظت کرتے ہیں لایغیر وہ تبدیل نہیں کرتا حتی یغیروا جب تک وہ نہ بدلیں لامرد نہیں ہٹانے والا۔ نہیں ٹلانے والا وال حمایتی۔ مددگار تشریح : آیت نمبر 8 تا 11 اللہ تعالیٰ کا علم کتنا وسیع ہے ؟ اس کا انتظام کتنا حسین ہے ؟ اس کی قدرت کائنات کی ہر چیز پر کس طرح محیط ہے ؟ انسان اگر ذرا بھی غور کرلے تو اس کو ذرہ ذرہ میں یہ سچائی جھلکتی نظر آجائے گی کہ اللہ کا علم اس کا انتظام اور قدرت کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے۔ ماں کے پیٹ میں جس بچے نے اللہ کی قدرت سے وجود اختیار کیا ہے اس کا پوری طرح اللہ کو علم ہے۔ انسانوں کی بنائی ہوئی مشینیں یہ تو معلوم کرسکتی ہیں کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی ہے یا اس کی کیا پوزیشن ہے لیکن دنیا کی کوئی الٹرا ساؤنڈ مشین یہ نہیں بتا سکتی کہ یہ انسانی بچہ جو اس دنیا میں قدم رکھا رہا ہے وہ خوبصورت ہے یا بدصورت۔ وہ کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت آجائے گی۔ وہ بچہ والدین کا فرماں بردار ہوگا۔ یا نافرمان، ایمان پر قائم رہے گا یا کفر پر مرے گا، وہ دنیا میں کیسا مقام حاصل کرے گا ان تمام باتوں کا علم اللہ کو ہے وہ ان تمام باتوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ صحیح بخاری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے چالیس دن کے بعد وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے۔ پھر چالیس دن میں گوشت کالوتھڑا بن جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جسے چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ 1) رزق کتنا ملے گا ؟ 2) عمر کتنی ہوگی ؟ 3) نیک ہوگا۔ ؟ 4) یا برا آدمی ہوگا۔ ؟ غرضیکہ اللہ تعالیٰ کو اس بچے کی ایک ایک کیفیت کا پوری طرح علم ہوتا ہے اس سے کوئی بات چھی ہوئی نہیں ہے۔ فرمایا کہ وہ اللہ انسان کے دل کی ہر بات کو جانتا ہے وہ انسان اس کی ساری دنیا سے چھپا لے لیکن دلی جذبہ بھی اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اللہ نے ہر انسان پر ان فرشتوں کو بٹھا رکھا ہے جو اس کی ایک ایک بات کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ یہ فرشتے تھکتے نہیں ہیں بلکہ اس نے اپنی قدرت سے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ صبح کے فرشتے اور ہوتے ہیں اور شام اور رات کے فرشتے دوسرے ہوتے ہیں وہ ہر اچھی یا بری بات کو لکھتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ باطنی نظام ہے۔ جو کسی کو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ لیکن اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس پوری کائنات کا پورا نظام اسی طرح چل رہا ہے جس طرح اس کائنات کا مالک اس کو چلا رہا ہے۔ وہ اس کائنات کو چلانے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ یہ اسی کی قدرت ہے کہ وہ دو متضاد چیزوں کو ایک جگہ رکھ کر ان کی پرورش کر رہا ہے یہ کسی انسان کے بس کی بات نہ تھی۔ آخر میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس علم و معلومات کے باوجود کسی کا ہاتھ پکڑ کر اس کو راہ ہدایت نہیں دکھاتا بلکہ اللہ نے جو نظام بنایا ہے اس پر غور کرنے والے جب اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں تب اللہ کی توفیق ان کے ساتھ ہوتی ہے لیکن اللہ کسی شخص شیا قوم کے حالات کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں پیدا نہیں کرلیتے۔ اللہ اپنے بندوں پر کرم ہی کرم فرماتا ہے لیکن اگر وہ کسی کو کسی طرح کا نقصان پہنچائے یا اس پر عذاب نازل کرے تو ساری دنیا مل کر بھی اس کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ اس کی مدد کے لئے کوئی بھی نہیں آسکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ ہی کی ذات کو تمام کمالات حاصل ہیں اور اس کو ہر طرح کا علم ہے جو لوگ اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر کے اللہ کو راضی کرلیتے ہیں وہی خوش نصیب ہیں اور جو لوگ اس سعادت سے محروم رہتے ہیں وہ اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں اور پھر کسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی لڑکا ہے یا لڑکی ہے۔ 3۔ بچہ میں یامدت میں مثلا کبھی ایک بچہ ہوتا ہے کبھی زیادہ کبھی جلدی ہوتا ہے کبھی دیر میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ ہادی ہیں لہٰذا لوگوں کو سمجھاتے جائیں۔ جہاں تک ان کے مال اور اعمال کا تعلق اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کی پیدائش کے وقت سے جاتا اور اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس عقیدہ کا تقاضا ہے کہ آدمی آخرت پر ایمان لائے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو یہ باور کرواتا ہے کہ اے انسان ! تجھے کسی وقت بھی یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ میں تیری حرکات و سکنات سے بیخبر ہوں بلکہ میں تجھے اس وقت سے جان رہا ہوں جب تیرا تخم ماں کے رحم میں داخل ہوا تھا۔ پرانی طب اور جدید میڈیکل سائنس اس بات پر متفق ہیں کہ جب میاں بیوی کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے تو مرد کے مادہ منویہ میں جو جرثومے ہوتے ہیں وہ عورت کے بیضا سے مل کر رحم میں داخل ہوجاتے ہیں پھر ان کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے جس سے انسان کی تخلیق کی ابتدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید اس کی اجمالی تفسیر بیان کرتا ہے پھر یہ قرآن کی زبان میں نطفہ امشاج (مخلوط نطفہ) ماں کے رحم میں ایک محفوظ مقام پر جا کر ٹھہر جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس نطفہ کو لوتھڑے میں تبدیل کرتا ہے اس کے بعد اسے ایک گوشت کے ٹکڑے کی شکل دیتا ہے، پھر اس میں نہایت ہی باریک اور لطیف ہڈیاں تیار کرتا ہے اور پھر اس کے بعد ہڈیوں کو گوشت پہناتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے انسان کی شکل میں پیدا کرتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔ (المومنون : ١٤) ” پھر انسان دنیا میں اپنی عمر گزارنے کے بعد فوت کیا جاتا ہے پھر سب کے مرنے کے بعد اللہ قیامت کے دن سب کو اٹھائے گا۔ “ (المومنون : ١٣ تا ١٦) دوسرے مقام پر اسے یوں بیان کیا ہے کہ ” اللہ کی ذات سے زمین و آسمان میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں، وہی ماؤں کے رحم میں تمہاری شکل و صورت بناتا ہے جس طرح وہ پسند کرتا ہے پس وہی معبود برحق ہے اور ہر چیز پر غالب حکمت والا ہے۔ “ (آل عمران : ٥ تا ٦) ” حضرت عبداللہ بن سالم اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا غیب کی پانچ چابیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو قیامت کا علم ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مادر میں کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا کہ اس نے کل کیا کرنا ہے ؟ اور کسی کو علم نہیں کہ اسے کس سرزمین پر موت آئے گی۔ یقیناً اللہ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوْ ] مسائل ١۔ ہر مادہ کا حمل اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ ٢۔ رِحم میں جو کمی و بیشی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس سے آگاہ ہے۔ ٣۔ ہر چیز کی مقدار اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے۔ ٥۔ رات کے اندھیروں اور دن کے اجالوں میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے علم میں ہے۔ تفسیر بالقرآن غائب اور ظاہر کو جاننے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے : ١۔ اللہ کے لیے غیب اور ظاہر برابر ہیں وہ ہر چیز کو جانتا ہے وہ پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا ہے، بلندو بالا اور عالی شان والا ہے۔ (الرعد : ٩) ٢۔ اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ اللہ پوشیدہ اور آہستہ کہی ہوئی بات کو جانتا ہے۔ (طہ : ٧) ٣۔ اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٤۔ اللہ آسمان و زمین کے رازوں سے واقف ہے۔ (الفرقان : ٦) ٥۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ (البقرۃ : ٧٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ تھی ایک اچٹتی سی نظر آفاق کائنات پر۔ اس پر تبصرے تھے ، اب کائنات کی بعض مخصوص وادیوں میں آپ کو لے جایا جائے گا۔ مثلاً نفس انسانی ، انسانی شعور و ادراک اور اس کرۂ ارض پر حیات انسانی اور دوسری زندہ اشیاء پر غور۔ آیت نمبر ٨ تا ١١ جب حیات انسانی کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ مناظر پیش کیے جاتے ہیں تو انسانی حس اور شعور ششدرزہ جاتا ہے۔ خصوصاً قرآن کے اس ترنم آمیز انداز بیان پر۔ اللہ کے علم اور اللہ کی حکمتوں کی کرشمہ سازیاں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے ۔ وہ علوم جو جنین کے بارے میں انسان پر ظاہر ہوچکے ہیں ، پھر وہ راز جو ہر انسان نے اپنے سینے میں چھپا رکھے ہیں ، راتوں میں انسان کی حرکات اور دوڑ دھوپ ، چھپ کر لوگوں کی سرگرمیاں اور دن کے وقت برملا لوگوں کی جدو جہد ، ان تمام امور کو اللہ اچھی طرح جانتا ہے ، اللہ کے گماشتے ان تمام سرگرمیوں کو ریکارڈ بھی کر رہے ہیں۔ انسان کی یہ حیرانی دراصل خوف الٰہی کی وجہ سے ہے جس کے نتیجے میں انسان اللہ کی پناہ لیتا ہے۔ وہ اللہ کی پناہ گاہ ہی میں پناہ لیتا ہے۔ ایک مومن اچھی طرح جانتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ اللہ کا علم تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے ، لیکن اصولی طور پر اللہ کے علم کے شمول اور وسعت کا اقرار اور بات ہے اور یہاں قرآن مجید نے جس موثر انداز میں بعض جزئیات کا ذکر کیا ہے اس کی اثر انگیزی اور بات ہے۔ محض تجریدی کلیہ کا بیان کردینا اور بات ہے اور کلیہ کے تحت کسی مثالی جزئیہ کا مطالعہ اور بات ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ بعض جزئیات ، حساس جزئیات کا ذکر فرماتے ہیں۔ اللہ یعلم ما تحمل۔۔۔۔۔ بمقدار (١٣ : ٨) ” اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے ، جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لئے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے “۔ ہر حاملہ سے خیال کے پردے پر ہر حاملہ ، مطلق حاملہ آجاتی ہے ، اس پوری کائنات میں تمام زندہ حاملہ ، وسیع معنوں میں ہر حاملہ شہروں میں اور دیہاتوں میں۔ آبادیوں میں اور پہاڑوں میں ، جنگلوں میں دریاؤں میں ، گھروں میں اور غاروں میں ، ہر مادہ کے پیٹ میں جو کچھ پیدا ہو رہا ہے ، بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے ، ہر وہ قطرۂ خون جو بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے ، اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ یہ تو ہے ایک مخصوص مثال اور یہ کوئی تجریدی کلیہ نہیں ہے کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور بس ، بلکہ ایک مخصوص شعبہ علم کی بات ہے۔ سواء منکم ۔۔۔۔ امر اللہ۔ (١٣ : ١٠- ١١) ” تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو ، اس کے لئے سب یکساں ہیں۔ ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگراں لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں “۔ جب انسانی خیال پر سرگوشی کرنے والے ، ہر جہراً بات کرنے والے کے بارے میں سوچ ، اندھیروں میں چلنے والوں اور دن کی روشنی میں متحرک لوگوں کے بارے میں سوچ اور پھر اس پوری کائنات کے بارے میں سوچ اور پھر یہ سوچ کہ اللہ کا علم ان سب کا پیچھا کر رہا ہے اور اس کے گماشتے بھی لکھ رہے ہیں اور رات کے دونوں کناروں پر رپورٹ بھی بھیجتے ہیں۔ پھر ان جزئیات علم الٰہی کے انداز بیان پر بھی ذرا غور کیجئے : اللہ یعلم ما تحمل۔۔۔۔۔ بمقدار (١٣ : ٨) ” اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے ، جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لئے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے “۔ جب اللہ نے یہ فرمایا کہ رحم مادر میں جو کمی بیشی ہوتی ہے اللہ اسے جانتا ہے تو اس کے آخر میں فرمایا کہ اللہ کے ہاں ہر چیز کی مقدار مقرر ہے۔ نقص و زیادتی کے ساتھ مقدار کا لفظ لانا ایک توازن پیدا کرتا ہے۔ پھر اس کا تعلق اس سے قبل کی اس آیت سے بھی ہے جس میں آیا ہے کہ لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ مرنے اور مٹی بن جانے کے بعد خلق جدید کی شکل میں لوگ کس طرح اٹھ کھڑے ہوں گے۔ نیز موضوع اور ظاہری شکل کے اعتبار سے یہ اس مضمون کے بھی مماثل ہے جس میں بارش کا ذکر ہے کہ بارش برستی ہے اور برادری اپنی مقدار کے مطابق پانی سے بہہ جاتی ہے۔ تمام امور میں مقدار ملحوظ ہے۔ کمی بیشی اور مقدار اس سورة کا نکتہ خاص ہے۔ علم الغیب ۔۔۔۔ المتعال (١٣ : ٩) ” وہ پوشیدہ اور ظاہر ہر چیز کا عالم ہے وہ بزرگ اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے “۔ لفظ کبیر اور لفظ متعال دونوں پردۂ احساس پر ایک خاص اثر چھوڑتے ہیں ، اس کو میں پر تو سے تعبیر کرتا ہوں۔ کسی دوسرے لفظ سے اس کی تعبیر مشکل ہے۔ یعنی جو بھی مخلوق ہے ، اس کے اندر کوئی نہ کوئی نقص ضرور ہوتا ہے جو اسے صغیر بنا دیتا ہے۔ اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی ہم کبیر نہیں کہہ سکتے۔ یا کسی اور معاملے کو ہم کبیر نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اللہ کا ذکر آتے ہی تمام دوسرے امور صغیر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح لفظ متعال کے بارے میں بھی ہماری سوچ محدود ہے۔ کسی مفسر نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا کہ الکبیر المتعال کا دائرہ اخلاق کیا ہے۔ سواء منکم۔۔۔۔۔ بالنھار (١٣ : ١٠) ” تم میں سے کوئی شخص زور سے بات کرے یا آہستہ ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو ، اس کے لئے سب یکساں ہیں “۔ عبارت میں تقابل واضح ہے۔ لفظ سارب قابل غور ہے۔ خود لفظ سارب اپنے مفہوم پر روشنی ڈالتا ہے۔ مفہوم ہے اخفا اور پوشیدگی یا قریب قریب پوشیدگی۔ سارب کا مفہوم ہے روشنی میں چلنے والا یعنی خفیہ چیزوں کو بھی اللہ جانتا ہے۔ حمل جو چھپا ہوا ہے ، راز جو خفیہ ہوتے ہیں ، وہ شخص جو رات کے اندھیرے میں چلتا ہے پھر اللہ کے گماشتے جو نظر نہیں آتے ، سارب خفیہ کے بالمقابل لفظ ہے لیکن خود اس کے اندر بھی نرمی ، لطف اور اخفاء کا پر تو موجود ہے۔ لہ معقبت ۔۔۔۔ امر اللہ (١٣ : ١١) ” ہر شخص کے آگے پیچھے اس کے مقدر کئے ہوئے نگراں موجود ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں “۔ وہ فرشتے جو انسانوں کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں ، ہر آنے جانے والے کی حفاظت کرتے ہیں ، جو انسانوں کو ہر وسوسہ اور ہر خلجان سے بچاتے ہیں۔ یہ اللہ کے احکام کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہاں ان نگرانوں کی کوئی تعریف و تفصیل بیان نہیں کی جاتی۔ صرف یہ تعریف ان کی یہاں ہے کہ من امر اللہ۔ جو اللہ کے حکم سے کام کرتے ہیں ، ہم بھی یہاں ان کو مجمل ہی چھوڑتے ہیں کہ وہ کیا ہیں ، ان کی صفات کیسی ہیں ، وہ کس طرح یہ نگرانی کرتے ہیں ، کہاں ہوتے ہیں ، اللہ نے چونکہ اس بات کو مخفی رکھا ہے ، اور اس کے اخفاء ہی سے وہ خوف پیدا ہوتا ہے جس کو یہاں پیدا کرنا مطلوب ہے۔ لہٰذا قرآن نے جس قدر کہہ دیا ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اور یہ اخفاء اور اجمال اتفاقی اور بےمقصد نہیں ہے ، جو لوگ قرآن کریم کے اسلوب کے اظہار کے بارے میں کچھ بھی تعلق رکھتے ہیں ان کے لئے یہ بات مشکل ہے کہ وہ قرآن کی پیدا کردہ ایک فضا کو ختم کردیں کیونکہ تفصیلات دینے سے وہ تاثر ختم ہوجائے گا۔ ان اللہ لا۔۔۔۔۔۔۔ بانفسھم (١٣ : ١١) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی “۔ اللہ ان کی نگرانی اپنے کارندوں کے ذریعے یوں کرتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ لوگ اپنے اندر کیا کیا تبدیلیاں لاتے ہیں اور اپنے حالات کو بدلنے کی کیا سعی کرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ترقی و پسماندگی میں ، عزت و ذلت میں ، بلندی اور زوال میں کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ خود اپنی سوچ ، اپنے شعور ، اپنے اعمال اور اپنی سرگرمیوں کو بدلتے نہیں۔ چناچہ اللہ بھی لوگوں کی سوچ اور ان کے فکر و عمل کے مطابق لوگوں کے حالات میں تبدیلی پیدا کردیتا ہے ۔ اگرچہ اللہ کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا ایسا کریں گے اور یہ یہ نہ کریں گے ۔ عملی نتائج لوگوں کے فکرو عمل کے مطابق ہی نکلتے ہیں۔ ہاں یہ نتائج عملاً اس دور میں پیدا ہوئے جو لوگوں کی زندگی کے ساتھ متعین ہوتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر بہت ہی بڑی ذمہ داری عائد کردی ہے۔ یہ اللہ کی مشیت کا تقاضا تھا اور اسی کے مطابق سنت الٰہیہ جاری وساری ہے کہ لوگوں کے حالات لوگوں کے بدلنے پر موقوف ہوں گے۔ سنت الٰہیہ ان کے طرز عمل اور ان کی طرز فکر پر مرتب ہوگی۔ یہ ایک صریح نص ہے ، لہٰذا اس میں کسی تاویل اور تحریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس سنت الٰہیہ کے تعین کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت ہی مکرم بنادیا ہے کہ خود انسان کے عمل سے سنت الٰہیہ بنتی ہے۔ اس سنت الٰہیہ کے تعین کے بعد سیاق کلام بتا دیتا ہے کہ اللہ کسی قوم کو ہلاکت میں ڈالتا ہے تو سنت کیا ہوتی ہے۔ وہ بھی یہی ہوتی ہے کہ جب لوگ اپنے اندر بری تبدیلی لاتے ہیں تو پھر سنت الٰہیہ بھی ان کو برے دن دکھاتی ہے۔ واذا اراد اللہ۔۔۔۔۔۔ من وال (١٣ : ١١) ” اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی ، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مدد گار ہوسکتا ہے “۔ یہاں سیاق کلام زوال کا یہ پہلو اس طرح بیان کرتا ہے کیونکہ یہاں موضوع و مضمون ایسا ہے کہ لوگ اچھائی سے زیادہ برائی کے طلبگار ہیں۔ جبکہ اللہ نے ان کو بتایا کہ وہ عذاب سے قبل تمہاری مغفرت کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ لوگ کس قدر غافل ہوگئے ہیں۔ اس لئے یہاں ان کے انجام بد کا کردیا جاتا ہے تا کہ وہ ڈریں اور عقل کے ناخن لیں کیونکہ اللہ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور جب تمہاری ہلاکت کا فیصلہ آگیا تو پھر کوئی تمہارا حامی و مددگار نہ ہوگا۔ ٭٭٭

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ عورتوں کے رحم میں کیا ہے ‘ وہ علانیہ اور پوشیدہ سب چیزوں کو جانتا ہے ‘ ہر اونچی اور آہستہ آواز اس کے نزدیک برابر ہے ‘ رات میں چھپا ہوا اور دن میں چلنے والا ہر ایک اس کے علم میں ہے۔ ان آیات میں اللہ جل شانہ نے اپنی صفات جلیلہ میں سے صفت علم کو بیان فرمایا ہے کہ عورتوں کو جو حمل رہ جاتا ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ پوری طرح جانتا ہے کب استقرار ہوا اور کب وضع حمل ہوگا اور لڑکا وجود میں آئے گا یا لڑکی ‘ ادھورا بچہ پیدا کرے گا یا پورا بچہ پیدا ہوگا اور اس کا رنگ وروپ کیسا ہوگا اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ رحم میں بچہ ہے یا یوں ہی ہوا کی وجہ سے پھولا ہوا ہے ‘ رحموں میں سے جو چیز کم ہوتی ہے اور جو چیز رحموں میں زیادہ ہوتی ہے یعنی بڑھ جاتی ہے اللہ تعالیٰ کو اس کا بھی علم ہے بچہ کی ابتداء کتنے جسم اور کتنے وزن سے ہوتی ہے پھر اس میں کتنا اضافہ ہوا اور یہ بات کہ یہ بچہ تھوڑی مدت میں پیدا ہوگا یا دیر لگے گی اور یہ کہ رحم میں ایک بچہ ہے یا جڑواں بچے ہیں اور جڑواں بچوں میں سے ایک باہر آگیا تو اندر باقی کتنے ہیں وغیرہ وغیرہ ‘ ان سب باتوں کا اللہ تعالیٰ کو پوری طرح علم ہوتا ہے یہاں پہنچ کر بعض بےعلم یہ اشکال کرتے ہیں کہ رحم میں کیا ہے لڑکا ہے یا لڑکی اس کے بارے میں ڈاکٹر پہلے سے بتا دیتے ہیں لہٰذا یہ بات کہ اللہ تعالیٰ ہی کو اس کا علم ہے محل نظر ہوگئی ‘ ان لوگوں کا یہ سوال اور اشکال غلط ہے اللہ تعالیٰ کا جو علم ہے وہ آلات اور تجربات کی بنیاد پر نہیں ہے وہ علیم اور خبیر ہے اسے کسی آلہ اور کسی تجربہ کی ضرورت نہیں اور مخلوق کا جو علم ہے وہ تجربہ اور گمان اور آلات پر مبنی ہے ‘ پھر ان کی بات غلط بھی نکل آتی ہے۔ یہ علم جو مخلوق کا محتاج ہے یعنی آلات کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے یہ علیم اور خبیر جل مجدہ کے علم کے برابر کیسے ہوسکتا ہے ؟ جسے تخلیق عالم سے پہلے ہی سب کچھ معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ کس مرد کے نطفہ سے اور کس عورت کے رحم سے کیا پیدا ہوگا اور کب پیدا ہوگا اور پورا ہوگا یا ادھورا ہوگا اس کے علم کی شان ہی اور ہے۔ (وَکُلُّ شَیْءٍ عنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ ) یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر چیز کی ایک خاص مقدار مقرر ہے۔ اس عموم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ بچہ کتنے دن شکم مادر میں رہے گا کتنے برس دنیا میں جئے گا ‘ اسے کتنا رزق ملے گا اور کیا کیا عمل کرے گا وغیرہ وغیرہ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ یہ دوسری عقلی دلیل ہے اور دوسرے دعوے کو ثابت کر رہی ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسرار و خفیات کا عالم ہے، اسے معلوم ہے کہ مادہ کے پیٹ میں کیا ہے، نر یا مادہ، کالا یا گورا، کامل یا ناقص، سعید یا شقی وغیرہ وغیرہ۔ ” مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ و َمَا تَزْدَادُ “ غاض اور ازداد، دونوں لازم بھی ہیں اور متعدی بھی یہاں دونوں بن سکتے ہیں۔ اگر دونوں لازم ہوں تو ما لامحالۃ مصدریہ ہے اور اگر متعدی ہوں تو ما مصدریہ ہوگا یا موصولہ یا موصوفہ (روح) رحموں کے گھٹانے اور بڑھانے سے یا تو بچوں کی تعداد میں کمی بیشی مراد ہے یا مدت حمل میں کمی بیشی۔ المراد عدد الولد فانھا تشتمل علی واحد واثنین و ثلٰثۃ واربعۃ و مدۃ الولادۃ فانھا تکون اقل من تسعۃ اشھر وازید علیھا (مدارک ج 2 ص 187) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 ۔ رسالت کا ذکر فرمایا پھر دلائل توحید اور باری تعالیٰ کے وسعت علم اور قدرت کا اظہار فرماتے ہیں ہر مادہ جو پیٹ میں اٹھائے ہوئے ہے اسے اللہ خوب جانتا ہے اور رحم میں جو کمی بیشی ہوتی ہے اور پیٹ جو سکڑتے بڑھتے ہیں اس کو بھی وہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ہے۔ یعنی مادہ کے پیٹ میں جو بچہ ہوتا ہے اس کا لڑکا ہونا یا لڑکی ہونا ناقص ہونا یا پورا ہونا اچھا ہونا یا برا ہونا طویل یا قصیر ہونا سعید یا شقی ہونا سخی با بخیل ہونا ، عالم یا جاہل ہونا ۔ غرض ! اس حمل کی پوری حالت کو جانتا ہے رحم کی کمبی بیشی جلدی ہونا یا دیر سے ہونا ایک بچہ یا دو یا دو سے زائد ہونا اسکو بھی جانتا ہے اور اس کے علم میں ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ہے۔