Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 21

سورة إبراهيم

وَ بَرَزُوۡا لِلّٰہِ جَمِیۡعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡۤا اِنَّا کُنَّا لَکُمۡ تَبَعًا فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّغۡنُوۡنَ عَنَّا مِنۡ عَذَابِ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ قَالُوۡا لَوۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ لَہَدَیۡنٰکُمۡ ؕ سَوَآءٌ عَلَیۡنَاۤ اَجَزِعۡنَاۤ اَمۡ صَبَرۡنَا مَا لَنَا مِنۡ مَّحِیۡصٍ ﴿٪۲۱﴾  15

And they will come out [for judgement] before Allah all together, and the weak will say to those who were arrogant, "Indeed, we were your followers, so can you avail us anything against the punishment of Allah ?" They will say, "If Allah had guided us, we would have guided you. It is all the same for us whether we show intolerance or are patient: there is for us no place of escape."

سب کے سب اللہ کے سامنے ربرو کھڑے ہونگے اس وقت کمزور لوگ بڑائی والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابعدار تھے ، تو کیا تم اللہ کے عذابوں میں سے کچھ عذاب ہم سے دور کر سکنے والے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی ضرور تمہاری رہنمائی کرتے ، اب تو ہم پر بے قراری کرنا اور صبر کرنا دونوں ہی برابر ہےہمارے لئے کوئی چھٹکارا نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Disbelieving Chiefs and Their Followers will dispute in the Fire Allah said, وَبَرَزُواْ لِلّهِ جَمِيعًا ... And they all shall appear before Allah; meaning, all the creatures, the wicked and the righteous among them, will appear before Allah the One, the Irresistible. They will be gathered on a flat plain that does not have anything those present could use for cover, ... فَقَالَ الضُّعَفَاء ... then the weak will say, the followers who used to obey their chiefs, leaders and notables will say, ... لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ ... to those who were arrogant, who rebelled against worshipping Allah alone without partners and obeying the Messengers, ... إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا ... Verily, we were following you, we obeyed your orders and implemented them, ... فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّهِ مِن شَيْءٍ ... can you avail us anything against Allah's torment! They will ask, `can you prevent any of Allah's torment from striking us as you used to promise and vow to us!' ... قَالُواْ ... They will say: the leaders will say in response, ... لَوْ هَدَانَا اللّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ... Had Allah guided us, we would have guided you. but the statement of our Lord shall come to pass concerning us, and the destiny that He has appointed for us and you shall come true; the word of punishment shall befall the disbelievers, ... سَوَاء عَلَيْنَأ أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ It makes no difference to us (now) whether we rage, or bear (these torments) with patience; there is no place of refuge for us. we have no means of escape from what we are in, whether we face it with patience or grief.' I (Ibn Kathir) say that it appears that this conversation will occur in the Fire after they enter it, just as Allah said in other Ayat, وَإِذْ يَتَحَأجُّونَ فِى النَّـارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْـبَرُواْ إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعاً فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيباً مِّنَ النَّارِ قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ إِنَّا كُلٌّ فِيهَأ إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ And, when they will dispute in the Fire, the weak will say to those who were arrogant: "Verily, we followed you, can you then take from us some portion of the Fire!" Those who were arrogant will say: "We are all (together) in this (Fire)! Verily, Allah has judged between (His) servants!" (40:47-48) قَالَ ادْخُلُواْ فِى أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّن الْجِنِّ وَالاِنْسِ فِى النَّارِ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا حَتَّى إِذَا ادَّارَكُواْ فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لاٍّولَـهُمْ رَبَّنَا هَـوُلاءِ أَضَلُّونَا فَـَاتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـكِن لاَّ تَعْلَمُونَ وَقَالَتْ أُولَـهُمْ لاٌّخْرَاهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ فَذُوقُواْ الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ (Allah) will say: "Enter you in the company of nations who passed away before you, of men and Jinn, into the Fire." Every time a new nation enters, it curses its sister nation (that went before) until they will be gathered all together in the Fire. The last of them will say to the first of them: "Our Lord! These misled us, so give them a double torment of the Fire." He will say: "For each one there is double (torment), but you know not." The first of them will say to the last of them: "You were not better than us, so taste the torment for what you used to earn." (7:38-39) and, وَقَالُواْ رَبَّنَأ إِنَّأ أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلْ رَبَّنَأ ءَاتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْناً كَبِيراً Our Lord! Verily, we obeyed our chiefs and our great ones, and they misled us from the (right) way. Our Lord! Give them a double torment and curse them with a mighty curse! (33:67-68) Disbelievers will also dispute on the Day of Gathering, وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَن نُّوْمِنَ بِهَـذَا الْقُرْءَانِ وَلاَ بِالَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّـلِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ الْقَوْلَ يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ لَوْلاَ أَنتُمْ لَكُنَّا مُوْمِنِينَ قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ أَنَحْنُ صَدَدنَـكُمْ عَنِ الْهُدَى بَعْدَ إِذْ جَأءَكُمْ بَلْ كُنتُمْ مُّجْرِمِينَ وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَأ أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَاداً وَأَسَرُّواْ النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُاْ اْلَعَذَابَ وَجَعَلْنَا الاٌّغْلَـلَ فِى أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُواْ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ But if you could see when the wrongdoers will be made to stand before their Lord, how they will cast the (blaming) word one to another! Those who were deemed weak will say to those who were arrogant: "Had it not been for you, we certainly have been believers!" And those who were arrogant will say to those who were deemed weak: "Did we keep you back from guidance after it had come to you! Nay, but you were wrongdoers." Those who were deemed weak will say to those who were arrogant: "Nay, but it was your plotting by night and day: when you ordered us to disbelieve in Allah and set up rivals to Him!" And We shall put iron collars round the necks of those who disbelieved. Are they requited aught except what they used to do! (34:31-33)

چٹیل میدان اور مخلوقات صاف چٹیل میدان میں ساری مخلوق نیک و بد اللہ کے سامنے موجود ہوگی ۔ اس وقت جو لوگ ماتحت تھے ان سے کہیں گے جو سردار اور بڑے تھے ۔ اور جو انہیں اللہ کی عبادت اور رسول کی اطاعت سے روکتے تھے ۔ کہ ہم تمہارے تابع فرمان تھے جو حکم تم دیتے تھے ہم بجا لاتے تھے ۔ جو تم فرماتے تھے ہم مانتے تھے پس جیسے کہ تم ہم سے وعدے کرتے تھے اور ہمیں تمنائیں دلاتے تھے کیا آج اللہ کے عذابوں کو ہم سے ہٹاؤ گے ؟ اس وقت یہ پیشوا اور سردار کہیں گے کہ ہم تو خود راہ راست پر نہ تھے تمہاری رہبری کیسے کرتے ؟ ہم پر اللہ کا کلمہ سبقت کر گیا ، عذاب کے مستحق ہم سب ہو گئے اب نہ ہائے وائے اور نہ بےقراری نفع دے اور نہ صبر و برداشت ۔ عذاب کے بچاؤ کی تمام صورتیں ناپید ہیں ۔ حضرت عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں کہ دوزخی لوگ کہیں گے کہ دیکھو یہ مسلمان اللہ کے سامنے روتے دھوتے تھے اس وجہ سے وہ جنت میں پہنچے ، آؤ ہم بھی اللہ کے سامنے روئیں گڑگڑائیں ۔ خوب روئیں پیٹیں گے ، چیخیں چلائیں گے لیکن بےسود رہے گا تو کہیں گے جنتیوں کے جنت میں جانے کی ایک وجہ صبر کرنا تھی ۔ آؤ ہم بھی خاموش اور صبر اختیار کریں اب ایسا صبر کریں گے کہ ایسا صبر کبھی دیکھا نہیں گیا لیکن یہ بھی لا حاصل رہے گا اس وقت کہیں گے ہائے صبر بھی بےسود اور بےقراری بھی بےنفع ۔ ظاہر تو یہ ہے کہ پیشواؤں اور تابعداروں کی یہ بات چیت جہنم میں جانے کے بعد ہو گی جیسے آیت ( واذ یتحآجون فی النار ) الخ ، جب کہ وہ جہنم میں جھگڑیں گے اس وقت ضعیف لوگ تکبر والوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے ماتحت تھے تو کیا آگ کے کسی حصہ سے تم ہمیں نجات دلا سکو گے ؟ وہ متکبر لوگ کہیں گے ہم تو سب جہنم میں موجود ہیں اللہ کے فیصلے بندوں میں ہو چکے ہیں اور آیت میں ہے ( قَالَ ادْخُلُوْا فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِي النَّار 38؀ ) 7- الاعراف:38 ) فرمائے گا کہ جاؤ ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جو انسان جنات تم سے پہلے جہنم میں پہنچ چکے ہیں جو گروہ جائے گا وہ دوسرے کو لعنت کرتا جائے گا ۔ جب سب کے سب جمع ہو جائیں گے تو پچھلے پہلوں کی نسبت جناب باری میں عرض کریں گے کہ پروردگار ان لوگوں نے ہمیں تو بہکا دیا ۔ انہیں دوہرا عذاب کر ۔ جواب ملے گا کہ ہر ایک کو دوہرا ہے لیکن تم نہیں جانتے ۔ اور اگلے پچھلوں سے کہیں گے کہ تمہیں ہم پر فضیلت نہیں تھی اپنے کئے ہوئے کاموں کے بدلے کا عذاب چکھو ۔ اور آیت میں ہے کہ وہ کہیں گے آیت ( وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا 67؀ ) 33- الأحزاب:67 ) الخ ، اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے پیشواؤں اور بڑوں کی اطاعت کی جنہوں نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا اے ہمارے پالنہار تو انہیں دوہرا عذاب کر اور بڑی لعنت کر یہ لوگ محشر میں بھی جھگڑیں گے فرمان ہے آیت ( وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ 31؀ ) 34- سبأ:31 ) کاش کہ تو دیکھتا جب کہ ظالم لوگ اللہ کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہوں گے تابعدار لوگ اپنے بڑوں سے کہتے ہوں گے کہ کیا ہدایت آ جانے کے بعد ہم نے تمہیں اس سے روک دیا ؟ نہیں بلکہ تم تو آپ گنہگار بدکار تھے ۔ یہ کمزور لوگ پھر ان زور اوروں سے کہیں گے کہ تمہارے رات دن کے داؤ گھات اور ہمیں یہ حکم دینا کہ ہم اللہ سے کفر کریں اس کے شریک ٹھرائیں اب سب لوگ پوشیدہ طور پر اپنی اپنی جگہ نادم ہو جائیں گے جب کہ عذابوں کو سامنے دیکھ لیں گے ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی سب میدان محشر میں اللہ کے ربرو ہوں گے، کوئی کہیں چھپ نہ سکے گا۔ 21۔ 2 بعض کہتے ہیں کہ جہنمی آپس میں کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت اس لئے ملی کہ وہ اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے، آؤ ہم بھی اللہ کی بارگاہ میں آہو زاری کریں چناچہ وہ روئیں گے اور خوب آہو زاری کریں گے۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پھر کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت ان کے صبر کرنے کی وجہ سے ملی، چلو ہم بھی صبر کرتے ہیں، وہ صبر کا بھرپور مظاہرہ کریں گے، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پس اس وقت کہیں گے ہم صبر کریں یا بےصبری، اب چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔ یہ ان کی باہمی گفتگو جہنم کے اندر ہوگی۔ قرآن کریم میں اس کو اور بھی کئی جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورة مومن (وَاِذْ يَتَـحَاۗجُّوْنَ فِي النَّارِ فَيَقُوْلُ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِيْبًا مِّنَ النَّارِ 47؀ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُلٌّ فِيْهَآ ۙ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ 48؀) 40 ۔ المومن :48-47) سورة اعراف (قَالَ ادْخُلُوْا فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِي النَّارِ ۭكُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا ۭ حَتّٰى اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْهَا جَمِيْعًا ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ڛ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38؀ وَقَالَتْ اُوْلٰىهُمْ لِاُخْرٰىهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ 39؀ ) 7 ۔ الاعراف :39-38) ( يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا 66؀ وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا 67؀) 33 ۔ الاحزاب :67-66) اس کے علاوہ آپس میں جھگڑیں گے بھی اور ایک دوسرے پر گمراہ کرنے کا الزام دھریں گے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ جھگڑا میدان محشر میں ہوگا۔ اس کی مذید تفصیل اللہ تعالیٰ نے سورة سبا (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ ۭ وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ښ يَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ ۚ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ 31؀ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَاۗءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِيْنَ 32؀ وَقَالَ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ اَنْ نَّكْفُرَ باللّٰهِ وَنَجْعَلَ لَهٗٓ اَنْدَادًا ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ۭ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِيْٓ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 33؀) 34 ۔ سباء :31 تا 33) میں بیان فرمائی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] قیامت کو مطیع اور مطاع دونوں ایک جیسے بےبس ہوں گے :۔ اس آیت میں ان لوگوں کی اندھی تقلید کا ذکر ہے۔ یعنی دنیا میں جو لوگ آنکھیں بند کرکے دوسروں کے پیچھے چلنے کے عادی ہوتے ہیں یا اپنی کمزوری کو ایک معقول عذر سمجھ کر عالم لوگوں کی اطاعت کرتے ہیں یا اپنے بڑے بزرگوں کو پارسا سمجھ کر ان کی اندھی تقلید کرتے چلے جاتے ہیں جب وہ اللہ کی عدالت میں حاضر ہوں گے تو وہ اپنے بڑے بزرگوں سے جن کی یہ پیروی کرتے رہے تھے، پوچھیں گے کہ دنیا میں تو ہم ساری عمر تمہیں بڑا سمجھ کر تمہاری ہی اطاعت کرتے رہے۔ بتاؤ آج کی مشکل گھڑی میں ہماری کچھ حمایت کرسکتے ہو تاکہ ہمارا عذاب کچھ ہلکا ہی ہوجائے ؟ وہ کہیں گے کہ آج تو ہم اور تم دونوں ایک ہی جیسے مجبور ہیں۔ دنیا میں اگر ہم سیدھی راہ پر چلتے تو تمہیں بھی سیدھی راہ پر چلاتے مگر جب ہم خود گمراہ تھے تو تمہیں کیا ہدایت دیتے ؟ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اس عذاب سے نجات کی راہ سکھا دیتا تو ہم تمہیں بھی بتا دیتے مگر آج تو ہم دونوں یکساں مجرم ہیں اور ایک ہی جیسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ نہ خاموش رہنے اور صبر کرنے میں کچھ فائدہ نظر آتا ہے اور نہ گھبرانے اور چیخنے چلانے میں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِيْعًا ۔۔ :” تَبَعًا “ یہ ” تَابِعٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” خَادِمٌ“ کی جمع ” خَدَمٌ“ ہے، یعنی اس دن دنیا میں چھپاؤ کی تمام جگہیں ختم ہوجائیں گی۔ پہاڑوں کی بلندیاں، سمندروں کی گہرائیاں اور سطح زمین کی کرویّت ختم ہو کر روٹی کی طرح صاف زمین پر ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگی۔ دنیا میں کمزور اور طاقت ور مرید و مرشد، رعایا اور سردار ایک جیسی عاجزی اور بےبسی کے ساتھ اللہ کے سامنے ہوں گے، تو کمزور لوگ اپنے گمراہ کرنے والے بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے اور اس وجہ سے ہم نے انبیاء کو جھٹلایا اور اللہ سے کفر کیا، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے بچانے میں ہمارے کسی کام آسکتے ہو ؟ ” مِنْ شَيْءٍ “ کا مطلب یہ ہے کہ سارا عذاب نہیں تو اس میں سے جتنا ہو سکے کم کروا دو ۔ وہ سارا گناہ اللہ کے ذمے ڈال کر خود بری ہو کر ان کی کسی بھی قسم کی مدد سے معذرت کرلیں گے۔ چناچہ کہیں گے، اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم تمہیں ہدایت دیتے، گویا سارا قصور اللہ تعالیٰ کا ہے جس نے ہمیں ہدایت نہیں دی۔ [ اَلْعِیَاذ باللّٰہِ ] جیسا کہ شیطان نے سجدے سے انکار کرکے اپنے گمراہ ہونے کو اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دیا، فرمایا : (قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ ) [ الأعراف : ١٦ ] ” کہا، چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا۔ “ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو ہدایت دی تھی، دونوں راستے دکھا دیے تھے، فرمایا : (اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا) [ الدھر : ٣ ] ” بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ ناشکرا۔ “ اب تمہارا اختیار تھا، نہ اس نے تمہیں بدی پر مجبور کیا نہ نیکی پر اور یہی آزمائش کی حکمت جن و انس کی پیدائش کا باعث تھی۔ خیر اب ایسے عذاب میں پھنس جانے کے بعد جس سے بھاگ نکلنے کی کوئی صورت نہیں، ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں، گھبراہٹ کا اظہار کریں یا صبر کریں۔ دونوں کا کچھ فائدہ ہے نہ یہاں سے چھٹکارے کی کوئی صورت ہے۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا کہ ظاہر یہ ہے کہ ان کی یہ باہمی قیل و قال جہنم میں داخلے کے بعد ہوگی۔ دیکھیے سورة مومن (٤٧) ، سورة اعراف (٣٨) اور سورة سبا (٣٢، ٣٣) بہرحال ان کا یہ جھگڑا میدان حشر اور جہنم دونوں میں بھی ہوسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِيْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ ۭ قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللّٰهُ لَهَدَيْنٰكُمْ ۭ سَوَاۗءٌ عَلَيْنَآ اَجَزِعْنَآ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِيْصٍ برز البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك . ( ب رز ) البراز کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف/ 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة/ 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم/ 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ { وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا } ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر/ 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔ ضعف والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل : الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان «1» . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] ( ض ع ف ) الضعف اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استعا ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور مٰں آگیا تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ جزع قال تعالی: سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، الجَزَع : أبلغ من الحزن، فإنّ الحزن عام والجزع هو : حزن يصرف الإنسان عمّا هو بصدده، ويقطعه عنه، وأصل الجَزَع : قطع الحبل من نصفه، يقال : جَزَعْتُهُ فَانْجَزَعَ ، ولتصوّر الانقطاع منه قيل : جِزْعُ الوادي، لمنقطعه، ولانقطاع اللون بتغيّره قيل للخرز المتلوّن جَزْع، ومنه استعیر قولهم : لحم مُجَزَّع، إذا کان ذا لونین . وقیل للبسرة إذا بلغ الإرطاب نصفها : مجزّعة . والجَازِع : خشبة تجعل في وسط البیت فتلقی عليها رؤوس الخشب من الجانبین، وكأنما سمي بذلک إمّا لتصور الجزعة لما حمل من العبء، وإمّا لقطعه بطوله وسط البیت . ( ج ز ع ) الجزع بےصبری ۔ قرآن میں ہے :۔ سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] اب ہم گھرائیں یا صبر کریں ۔ ہمارے حق میں برابر ہے ۔ یہ حزن سے خاص ہے کیونکہ جزع خاص کر اس غم کو کہتے ہیں جو انسان کو جس چیز کے وہ درپے ہو اس سے پھیر دے اور اس سے تعلق قطع کردے ۔ اصل میں جزع ( ف) کے معنی رسی کو نصف سے کاٹ دینے کے ہیں اور انجزع ) انفعال ) اس کا مطاوع آتا ہے جیسے جزعتہ فانجزع میں نے اسے کا ٹا چناچہ کٹ گیا ۔ اور معنی انقطاع کے تصور کی بنا پر دادی کے موڑ کو جزع الوادی کہا جاتا ہے اور تغیر سے بھی چونکہ اصل رنگ کٹ جاتا ہے اس لئے متلون خر مہرے کو جزع کہتے ہیں اسی سے لحم مجرع کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی درزنگ کے گوشت کے ہیں اور نیم پختہ کھجور کو مجرع کہاجا تا ہے الجرزع شہتیر کو کہتے ہیں جو چھت کے وسط میں ڈالا جاتا ہے اور دونوں طرف سے چھوٹے شہتیر آآکر اس پر مل جاتے ہیں تو اسے جازع تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ بوجھ اٹھانے کی وجہ سے گویا وہ بےصبر ہورہا ہے اور یا اس لئے کہ کمرے کے درمیان ہونے کی وجہ سے گویا اور اسے دو حصوں میں قطع کردیتا ہے ۔ حاص قال تعالی: هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق/ 36] ، وقوله تعالی: ما لَنا مِنْ مَحِيصٍ [إبراهيم/ 21] ، أصله من حَيْص بيص أي : شدّة، وحَاصَ عن الحقّ يَحِيصُ ، أي : حاد عنه إلى شدّة ومکروه . وأمّا الحوص فخیاطة الجلد ومنه حصت عين الصّقر . ( ح ی ص ) حاص ( ض ) عن الحق کے معنی حق سے بھاگ کر شدت ومکروہ کی طرف جانے کے میں قرآن میں ہے : ۔ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق/ 36] کہ کہیں بھاگنے کی جگہ ہی : ما لَنا مِنْ مَحِيصٍ [إبراهيم/21] کوئی جگہ گریز اور رہائی ہمارے لئے نہیں ہے ۔ یہ اصل میں حیص وبیص سے ہے جس کے شدت اور سختی کے ہیں مگر الحوص ( وادی ) ہو تو اس کے معنی چمڑا سلنا ہوتے ہیں اور اسی سے حصت عین الصقر کا محاورہ ہے جس کے معنی صقرۃ کی آنکھیں سی دینے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِيْعًا فَقَال الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْٓا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَاب اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ ) کمزور لوگ طاقتور لوگوں سے جنہیں وہ دنیا میں اپنے سردار اور لیڈر مانتے تھے کہیں گے کہ ہم آپ کے فرمانبردار تھے آپ کا ہر حکم مانتے تھے آپ کی خدمت کرتے تھے آپ کے جھنڈے اٹھاتے تھے آپ کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے تو کیا آپ ہماری ان خدمات کے عوض آج اس عذاب سے ہمیں کچھ رعایت دلا سکتے ہیں ؟ (قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللّٰهُ لَهَدَيْنٰكُمْ ) وہ کو را جواب دے دیں گے کہ ہم خود گمراہ تھے سو ہم نے تمہیں بھی گمراہ کیا۔ (سَوَاۗءٌ عَلَيْنَآ اَجَزِعْنَآ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِيْصٍ ) اب تو یکساں ہے خواہ ہم بےقراری کا مظاہرہ کریں چیخیں چلائیں یا صبر کریں ہمارے لیے کوئی مفر نہیں ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28. The word baruz means to emerge and also implies to become known. That is why it has been translated into “shall appear before Allah”, for it implies both these meanings. As a matter of fact, all the people are fully exposed all the time before Allah but they do not realize it. They will, however, realize it on the Day of Judgment when they shall be presented before the Greatest of all Judges that they were fully exposed before Him all along. So much so that every deed they did and each and everything they thought and desired is known to Him. 29. This is to serve as a warning to all those people who follow others blindly or obey and submit to tyrants because they say: We are weak. They are warned, as if to say: You should note it well that those leaders, saints, officers and rulers whom you arc following blindly today, will not be able to protect you at all from the chastisement of Allah. Therefore, you should consider it well today where such people, whom you are following or obeying, are themselves going and where they are leading you.

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :28 برزوا کے معنی محض نکل کر سامنے آنے اور پیش ہونے ہی کے نہیں ہیں بلکہ اس میں ظاہر ہونے اور کھل جانے کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ بے نقاب ہو کر سامنے آجانا کیا ہے ۔ حقیقت کے اعتبار سے تو بندے ہر وقت اپنے رب کے سامنے بے نقاب ہیں ۔ مگر آخرت کی پیشی کے دن جب وہ سب کے سب اللہ کی عدالت میں حاضر ہوں گے تو انہیں خود بھی معلوم ہوگا کہ ہم اس احکم الحاکمین اور مالک یوم الدین کے سامنے بالکل بے نقاب ہیں ، ہمارا کوئی کام بلکہ کوئی خیال اور دل کے گوشوں میں چھپا ہوا کوئی ارادہ تک اس سے مخفی نہیں ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :29 یہ تنبیہ ہے ان سب لوگوں کے لیے جو دنیا میں آنکھیں بند کر کے دوسروں کے پیچھے چلتے ہیں یا اپنی کمزوری کو حجت بنا کر طاقتور ظالموں کی اطاعت کرتے ہیں ۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آج جو تمہارے لیڈر اور پیشوا اور افسر اور حاکم بنے ہوئے ہیں ، کل ان میں سے کوئی بھی تمہیں خدا کے عذاب سے ذرہ برابر بھی نہ بچا سکے گا ۔ لہٰذا آج ہی سوچ لو کہ تم جس کےپیچھے چل رہے ہو یا جس کا حکم مان رہے ہو وہ خود کہاں جا رہا ہے اور تمہیں کہاں پہنچا کر چھوڑے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ اس آیت میں فرمایا کہ ساری مخلوق قیامت کے دن ایک کشادہ میدان میں کھڑی کی جاوے گی اور ان کے اعمال وہاں ظاہر کئے جائیں گے۔ اگرچہ ہر شخص کے عمل کا علم خدا کو ہے مگر جزا و سزا کا دارو مدار اس نے اپنے علم پر نہیں رکھا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ وہاں سب کے عمل ظاہر کئے جائیں گے تاکہ ہر ایک کو دوسرے کے عمل کی خبر ہوجائے اور پھر عمل کے مطابق سزا کا ہونا عین انصاف پر خیال کیا جائے غرض کہ جب سب جمع ہولیں گے اور جزا سزا ہوجائے گی تو بچارے کمزور اور چھوٹی حیثیت کے آدمی بڑے لوگوں سے یہ کہیں گے کہ ہم تمہیں دیکھ کر اور تمہارے کہنے سے ہر ایک بات میں تمہارے ہی تابع رہے اور خدا و رسول پر ایمان نہیں لائے تمہیں بھی اب مناسب ہے کہ یہاں ہمارے کچھ کام آؤ اور خدا کے اس عذاب میں کسی قدر کمی کراؤ وہ جواب دیں گے کہ اگر ہم دنیا میں ہدایت پاتے تو تمہیں بھی ہدایت پر لاتے ہم کیا کریں ہم آپ ہی مجبور ہیں اس وقت خواہ روئیں چلائیں یا صبر کریں۔ کسی طرح رہائی نہیں ہوسکتی۔ صحیح بخاری، مسلم، ترمذی اور ابوداؤد میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کے حساب میں امت کے دن کچھ کرید نکالی گئی۔ وہ عذاب میں پھنس جاوے ١ ؎ گا۔ معتبر سند سے ترمذی بزار اور طبرانی میں ابو برزہ (رض) اور معاذ بن جبل (رض) سے روایتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چار باتوں کی جواب دہی کے لئے ہر شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑے گا۔ (١) تمام عمر کس کام میں گزاری (٢) جوانی میں کیا کیا (٣) روپیہ پیسہ کیوں کر کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا (٤) دین کی کوئی بات سیکھی تو اس پر کیا عمل کیا ٢ ؎۔ سورت نحل میں آوے گا کہ لوگوں کے بہکانے والوں کو بہوکنے اور بہکانے کا دوہرا عذاب قیامت کے دن ہوگا۔ صحیح مسلم میں اس مضمون کی ایک حدیث بھی ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ہے ٣ ؎ سورت نحل کی آیت { ومن اوزار الذین یضلونھم } [١٦: ٢١] کو اور ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں نے اوروں کو بہکا کر برے راستہ سے لگایا اس حساب کی کرید اور جواب دہی کے وقت جب ایسے لوگوں کو دہرے عذاب کا حکم ہوگا تو وہ گھبرا کر بہکنے والوں سے کہویں گے کہ ہم تو خود دوہرے عذاب میں گرفتار ہیں ہم سے کسی کی کیا مدد ہوسکتی ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٩٦٧ ج ٢ باب من نوتش الحساب عذب۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٢٩٧ ج ٢ فصل نے الحشر۔ ٣ ؎ صحیح مسلم ص ٣٤١ ج ٣ باب من سنۃ حسنۃ او سنتہ الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:21) برزوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ باب نصر بروز سے۔ وہ کھلم کھلا سامنے ہوئے۔ یا سامنے آنا۔ یہاں ماضی بمعنی مضارع مستقبل مستعمل ہے۔ وہ کھلم کھلا (اللہ کے ) سامنے آئینگے۔ (روز قیامت) قرآن مجید میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ برزوا کے لئے ملاحظہ ہو 3:154 ۔ ضمیر فاعل جمع مذکر غائب کا مرجع جملہ مخلوق ہے۔ الضعفؤا۔ اور الضعفاء میں محض رسم الخط کا فرق ہے۔ الضعفاء سے مراد وہ ضعیف الرائے لوگ ہیں جو دوسروں کی رائے کا اتباع کرتے ہیں۔ اور اسی طرح الذین الستکبروا سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ضعفاء کو اپنا مطیع اور متبع بنایا تھا۔ اور جنہوں نے ضعفاء کو گمراہ کیا اور اپنے نبیوں کی نصیحت کو سن کر اس کا اتباع کرنے سے روکے رکھا۔ مغنون عنا۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ اصل میں مغنیون تھا۔ اغنی یغنی سے اسم فاعل واحد مغنی۔ اغنی عن ۔ دور کرنا۔ ھذا ما یغنی عنک شیئا۔ یہ تجھے کوئی فائدہ نہ دے گا۔ فھل انتم مغنون عنا من عذاب اللہ من شیئ۔ کیا تم ہٹا سکنے والے ہو۔ ( یعنی کیا تم ہٹا سکتے ہو) ہم سے اللہ کے عذاب میں سے کوئی حصہ یعنی اس میں سے ہمارے حق میں کمی کرا سکتے ہو۔ تبعا۔ تابع ۔ پیروی کرنے والے۔ تابع کی جمع ہے۔ جیسے صاحب کی جمع صحب ہے انا کنا لکم تبعا۔ ہم تمہارے تابع تھے۔ تمہارے پیروکار تھے۔ اجزعنا۔ اَ ۔ ہمزہ استخبار ہے (کسی چیز کے متعلق کوئی خبر دریافت کرنا) اور دوچیزوں کے درمیان برابری ثابت کرنے کے لئے آیا ہے۔ بمعنی خواہ ۔ جیسے سواء علیہمء آنذرتہم ام لم تنذرہم (2:6) یکساں ہے ان کے حق میں خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں۔ جزع یجزع (سمع) بےصبری کرنا۔ جزعنا۔ ماضی جمع متکلم۔ ہم بےصبری کریں۔ بےقراری کریں۔ مضطرب ہوں۔ اجزعنا امصبرنا۔ (برابر ہے ہمارے لئے) خواہ ہم بےقراری کریں یا صبر سے کام لیں۔ محیص۔ ظرفِ مکان۔ مجرور۔ پناہ گاہ۔ لوٹنے کی جگہ۔ حیص سے۔ اسی سے ہے۔ حاص عن الحق۔ یعنی وہ حق سے اعراض کر کے سختی اور مصیبت کی طرف لوٹ گیا۔ محیص۔ مغیب کے وزن پر مصدر میمی بھی ہوسکتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ تمہارے کہنے پر چلتے تھے اور اس وجہ سے ہم نے انبیاء ( علیہ السلام) کی تکذیب کی اور اللہ سے کفر کیا۔ 4 ۔ ہم تو خود گمراہ رہے تمہیں سیدھی راہ کیسے لگاتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ یعنی اگر بالکل نہ بچاسکو تو کسی قدر بھی بچاسکتے ہو۔ 1۔ اس سوال و جواب سے معلوم ہوگیا کہ طریق کفر کے اکابر بھی تابعین کے کچھ کام نہ آویں گے یہ طریق بھی نجات کا محتمل نہ رہا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ جس طرح زمین و آسمانوں اور انسانوں کو پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا ہے اسی طرح دوبارہ زندہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا جس کے لیے لفظ ” بَرَزُوْا “ استعمال کیا ہے جس کا معنی ہے پردے سے نکلنا۔ پردے سے مراد عالم برزخ ہے جسے عرف عام میں قبر کی زندگی کہا جاتا ہے۔ قیامت کے پہلے مرحلہ میں ساری مخلوق موت کے گھاٹ اتار دی جائے گی۔ یہاں تک کہ زمین و آسمان بھی ختم کردیے جائیں گے۔ پھر ایک خاص مدت کے بعداللہ تعالیٰ اسرافیل کو پیدا کر کے اسے صور پھونکنے کا حکم دے گا۔ جب اسرافیل صور پھونکے گا تو انسان اور ہر جاندار زندہ ہو کر اپنے اپنے مقام سے نکل کر محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے۔ جس کی تفصیل احادیث کی کتب میں موجود ہے اس کے بعد حساب و کتاب ہوگا۔ جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ جب جہنمی جہنم میں اکٹھے ہوں گے تو مرید گمراہ پیروں، ور کر اپنے لیڈروں اور کار کن اپنے رہنماؤں سے پوچھیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے تمہاری وجہ سے گمراہ ہوئے۔ اب بتاؤ کہ عذاب سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت ہے ؟ گمراہ پیر اور رہنما انتہائی درماندگی اور ذلت کے لہجہ میں جواب دیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم ضرور تمہاری رہنمائی کرتے۔ آج ہم اسی طرح لاچار اور مجبور ہیں جس طرح تم لاچار اور مجبور ہو۔ لہٰذا ہمارے لیے برابر ہے کہ ہم جزع وفزع کریں یا صبر کریں۔ جہنم سے نکلنے کے لیے ہمارے لیے کوئی راستہ اور طریقہ نہیں ہے۔ جہاں تک رہنماؤں کا یہ کہنا ہے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم تمہاری ضرور رہنمائی کرتے۔ یہ بھی ان کا مجرمانہ جواب اور جھوٹ ہوگا۔ ورنہ اگر وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی توفیق مانگتے تو انہیں ضرور ہدایت نصیب ہوجاتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم تک ہدایت پہنچانے کا وعدہ اور بندوبست کر رکھا ہے۔ اس نے یہ وعدہ انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے سچے متبعین کے ذریعے پورا کردیا ہے۔ جہنم میں داخل ہونے والے لیڈروں اور مذہبی پیشواؤں نے اپنی ذات اور مفاد کے لیے گمراہی اختیار کی اور اسی سبب اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کو گمراہ کیا تھا۔ ایک وقت آئے گا جس کا جہنم میں برملا اعتراف کریں گے۔ جہاں تک ور کروں اور عقیدت مندوں کا تعلق ہے ان کا عذر قیامت کے دن اس لیے قبول نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل و شعور بخشا تھا جس سے ہدایت اور گمراہی، غلط اور صحیح رہنماؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرسکتے تھے۔ مذہی لوگوں نے اندھی تقلید اور ور کروں نے ذاتی اور پارٹی مفادات کی خاطر غلط رہنماؤں کی پیروی کی تھی جس کی وجہ سے ان کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ مسائل ١۔ سبھی لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے۔ ٢۔ جہنم میں جہنمیوں کا چیخنا چلانا اور صبر کرنا کسی کام نہ آئے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہوگی، گمراہ پیر اپنے مریدوں اور لیڈر اپنے کارکنوں کی مدد نہیں کرسکیں گے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کی عبادت کرنے والوں کا انجام : ١۔ جہنم میں مرید، پیروں، ور کر، لیڈروں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ دور کرسکتے ہو۔ (ابراہیم : ٢١) ٢۔ وہ کہیں گے ہمارا چیخنا چلانا اور صبر کرنا برابر ہے۔ (ابراہیم : ٢١) ٣۔ جہنم میں چھوٹے، بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم ہمارے عذاب سے کچھ کم کرسکتے ہو۔ وہ کہیں گے ہم سب جہنم میں رہیں گے۔ (المومن : ٤٧۔ ٤٨) ٤۔ جب پہلے لوگوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف : ٣٨) ٥۔ مجرم اپنے اہل و عیال کو پیش کریں گے تاکہ ہماری نجات ہوجائے۔ (المعارج : ١١ تا ٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢١ تا ٢٢ دعوت اسلامی اور داعیان حق کی یہ داستان ، اور جھٹلانے والوں اور ڈکٹیٹروں کی یہ کہانی اب اس دنیا کے اسٹیج سے آخرت کے اسٹیج پر منتقل ہوگئی ہے اور نہایت ہی دلچسپ منظر ہے۔ وبرزوا للہ جمیعاً ( ١٤ : ٢١) “ اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بےنقاب ہوں گے ”۔ یہ سرکش ڈکٹیٹر بھی کھڑے ہیں۔ اللہ کے سامنے اور ان کے کمزور کردار والے متبعین بھی کھڑے ہیں جنہوں نے ذلت اور کمزور کا کردار پسند کرلیا تھا ۔ شیطان بھی ایک طرف کھڑا ہے۔ دوسری جانب وہ لوگ بھی کھڑے ہیں جو رسولوں پر ایمان لائے تھے اور نیک کام کرتے تھے ۔ یہ سب اب ایک میدان قیامت میں ہیں ، کھلے میدان میں ۔ اللہ کے لئے تو یہ پہلے بھی ظاہر و باہر تھے لیکن آج وہ خود اپنے احساس و شعور میں اپنے آپ کو ننگا اور بےحجاب محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ میدان حشر میں کوئی پردہ اور اوٹ نہیں ہے۔ یہ میدان بھرا ہوا ہے ، پردہ اٹھتا ہے اور مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ فقال الضعفوا ۔۔۔۔۔۔ من شییء (١٤ : ٢١) “ اس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے ، وہ ان لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے ، کہیں گے “ دنیا میں تم تمہارے تابع تھے ، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لئے بھی کچھ کرسکتے ہو ؟” بودے کردار کے کمزور لوگ بہرحال کمزور ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس اعلیٰ انسانی دولت سے دستبردار ہوجاتے ہیں جو اللہ نے ہر انسان کو دی ہے۔ وہ آزادی کی دولت ہے ، آزادی رائے ہے ، آزادی دین اور نظریہ اور حریت عمل ہے۔ ان لوگوں نے اپنی مرضی سے اپنی آزادی کو ترک کر کے غلامی اختیار کرلی ہے اور سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کے غلام بن گئے ہیں ۔ یہ غیر اللہ کے بندے اور غلام بن گئے ہیں اور اللہ کی غلامی کی بجائے انہوں نے انسانوں کی غلامی اختیار کرلی ہے ، لیکن اسلام میں ضعیفی کوئی معقول عذر نہیں ہے بلکہ ضعیفی ایک جرم ہے ، اللہ کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کا غلام بن جائے وہ تو انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ باعزت زندگی اختیار کرو ، میری عزت کرو ، میری پناہ میں آجاؤ۔ اللہ نے ہر انسان کو آزاد اور مکرم بنایا ہے اور اسے یہ اجازت نہیں ہے کہ اپنی آزادی کو بیچ دے ، یا کسی بڑی سے بڑی مادی قوت کے سامنے سپر انداز ہوجائے چاہے وہ بہت بڑی قوت کیوں نہ ہو۔ کسی بھی قوت کو اللہ یہ حق نہیں دیتا کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنا کے رکھے۔ اسلام میں ہر انسان کی آزادی اور عزت کا احترا ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی مادی قوت بھی صرف انسانی جان اور جسم کا تعلق ختم کرسکتی ہے۔ تشدد اور اذیت دے سکتی ہے لیکن کسی کی آزاد سلب نہیں کرسکتی۔ انسانی ضمیر ، انسانی روح اور انسانی عقل پر کوئی ڈکٹیٹر حکومت نہیں کرسکتا ، نہ عقل ، روح اور ضمیر کو کوئی قید کرسکتا ہے ، ضمیر اور روح ، اور عقل اور حریت سے ایک انسان خود دستبردار ہوا کرتا ہے۔ پھر وہ ذلیل ہو کر مستضعفین میں داخل ہوجاتا ہے۔ اپنے عقائد ، نظریات ، افکار اور طرز عمل میں کسی ضعیف سے ضعیف آدمی کو کوئی انسان سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کے تابع نہیں بنا سکتا۔ کوئی شخص بھی کسی ضعیف سے ضعیف آدمی کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ کسی سرکش اور ڈکٹیٹرکا دین قبول کرلے ، کیونکہ اللہ خالق و رازق موجود ہے جو سب کا کفیل و ذمہ دار ہے۔ صرف ضعیف لوگ خود اپنی خوشی سے یہ کام کرتے ہیں ، یہ خود ضعیف بن گئے ، ان کی قوت اور کسی سرکش اور ڈکٹیٹر کی قوت برابر ہے۔ جاہ و مرتبہ اور مال و منال کے اعتبار سے یہ مستضعفین ڈکٹیٹر کے برابر ہوتے ہیں۔ کسی ڈکٹیٹر کا مرتبہ اور منصب کسی کو ضعیف نہیں بنا سکتا بلکہ یہ ذہنی طور پر بودے کردار کے لوگ ہوتے ہیں ، اپنے ایمان اور روح کے اعتبار سے یہ کمزور لوگ ہوتے ہیں ، بےعزت اور آبرو باختہ لوگ ہوتے ہیں اور اپنی آزادی اور عزت کو معمولی مفادات کے لئے بیچ دینے والے لوگ ہوتے ہیں جو جھکتے ہیں حالانکہ عزت و آبرو اور آزادی انسان کا نہایت قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان بودے لوگوں کی ایک بھیڑ ہے اور سرکش اور ڈکٹیٹر چند ایک ہیں۔ آخر یہ بھیڑ کیوں چند لوگوں کی غلامی اختیار کرتی ہے ، دراصل ان عوام میں ہمت نہیں ہوتی ، یہ روحانی اعتبار سے شکست خوردہ ہوتے ہیں۔ ان کے اندر حمیت نہیں ہوتی ، عزت نفس نہیں ہوتی اور یہ روحانی اور داخلی طور پر ان ڈکٹیٹروں کے سامنے شکست کھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی ڈکٹیٹر جمہور عوام کو صرف ان کی مرضی ہی سے ذلیل کرتا ہے۔ اگر عوام اٹھ کھڑے ہوں تو ان کے سامنے کوئی ڈکٹیٹرکھڑا نہیں رہ سکتا۔ لیکن یہ صورت حال خود عوام کے کمزور ارادے کی وجہ سے ہے۔ کسی انسان پر ذلت تب ہی طاری ہوتی ہے ، جب اس کے اندر ذلیل ہونے کی صلاحیت ہو ، ڈکٹیٹر ہمیشہ عوام کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب ذرا کمزوروں کی ذہنیت کو دیکھو کہ قیامت کے دن وہ کس انداز سے پیش آتا ہے ، ان کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نہایت بودے کردار کے مالک تھے اور ہیں۔ ان کنا لکم ۔۔۔۔۔۔ من شییء (١٤ : ٢١) “ دنیا مین ہم تمہارے تابع تھے ، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لئے بھی کچھ کرسکتے ہو ؟” یہ تمہاری تابع داری ہی ہمیں اس انجام تک لے آئی ہے جو بہت ہی المناک انجام ہے۔ یا ان کا مقصد فقط یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کا عذاب تو دیکھ لیا ہے ، اب یہ ان مستکبرین کی سرزنش کرنا چاہتے ہیں کہ تمہاری قیادت اور راہنمائی یہ رنگ لاتی ہے ، اب آگے بڑھو اس عذاب کے لئے۔ بہرحال ان کا مطلب جو بھی ہو ، ہر حال میں ان کی ذلت پر بھی دلالت کرتا ہے اور منکرین کا جواب۔ قالوا لو ھدنا ۔۔۔۔۔ من محیص (١٤ : ٢١) “ وہ جواب دیں گے ، اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع و فزع کریں یا صبر ، بہرحال ہمارے لیے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے ”۔ یہ بادل ناخواستہ ایک دو ٹوک جواب ہے ، “ اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں دکھا دیتے ”۔ اب ہمیں کیوں ملامت کرتے ہو ، ہماری راہ بھی ایک ہے اور انجام بھی ایک ہے ، آخر ہم کب راہ نجات پر چلے کہ تم کو گمراہ کردیا۔ اگر ہمیں ہدایت نصیب ہوتی تو تم بھی ہمارے ساتھ راہ ہدایت پر ہوتے ، جس طرح ہماری گمراہی نے تمہیں گمراہ کیا۔ اب قیامت میں یہ لوگ اپنی ہدایت اور ضلالت کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اب تو یہ اللہ کی کبریائی کو تسلیم کرتے ہیں اور اللہ پر ایمان لاتے ہیں حالانکہ دنیا میں یہ ان ضعفاء پر اس طرح دست درازیاں کرتے تھے کہ گویا ان سرکشوں سے کوئی پوچھنے والا جباروقہار ہے ہی نہیں۔ اب یہاں وہ ہدایت و ضلالت کو اللہ کی طرف منسوب کر کے اس کی ذمہ داری سے بچنا چاہتے ہیں ، حالانکہ اللہ نے تو ان کو یہ حکم نہ دیا تھا کہ تم گمراہ ہوجاؤ ؟ ان اللہ لا یامر بالفحشاء “ اللہ لوگوں کو فحاشی کا حکم نہیں دیتا ”۔ لیکن در پردہ یہ ان کمزور فطرت لوگوں کو ملامت بھی کرتے ہیں ، ان کا مطلب یہ ہے کہ اب جزع و فزع سے فائدہ نہیں ، نہ صبر کرنے سے فائدہ ہے۔ عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے ، صبر سے یا جزع و فزع سے یہ تو ٹلنے کا نہیں۔ اب تو بہ کا دروازہ بند ہے۔ اگر یہ کھلا ہوتا تو گمراہ لوگ فریاد کر کے ہدایت پر آسکتے تھے ، اگر دنیا میں کوئی سختی ہوتی اور تم صبر کرتے تو بھی اللہ کی رحمت کی امید تھی۔ اب تو مہلت ختم ہے اور عذاب سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ سواء علینا اجزعنا ام صبرنا ما لنا من محیص (١٤ : ٢١) “ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع و فزع کریں یا صبر ، بہرحال ہمارے لیے بچنے پر ایک تعجب انگیز کردار آتا ہے۔ شیطان نمودار ہوتا ہے ، جو گمراہی کا داعی اور سرکشی کا حدی خواں ہے۔ یہ اسٹیج پر زاہدوں کے جبے میں آتا ہے۔ کاہنوں کی طرح نمودار ہوتا ہے ، اور دونوں فریقوں پر اپنے شیطانی غرور کا اظہار کرتا ہے اور ان کو ایسا چرکہ لگاتا ہے کہ یہ زبانی زخم شاید عذاب جہنم سے بھی کڑوا ہے۔ وقال الشیطن لما ۔۔۔۔۔۔ لھم عذاب الیم (١٤ : ٢٢) “ اور شیطان کہے گا “ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کئے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا ۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو ، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریادرسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں ، ایسے ظالموں کے لئے دردناک سزا یقینی ہے ”۔ خدا کی پناہ ، حقیقت یہ ہے کہ شیطان درحقیقت شیطان ہے۔ اس منظر میں یہ مکمل فارم میں ہے جس طرح مستکبرین ڈکٹیٹر اور مستضعفین بودے کردار کے لوگ اپنی صحیح فارم میں ہیں۔ یہ وہی شیطان ہے جو سینوں کے اندر وسوسہ اندازیاں کیا کرتا تھا ، لوگوں کو بدکرداریوں اور گناہوں کے لئے دھوکے دیتا تھا ، کفر کو لوگوں کے لئے مزین بناتا تھا۔ دعوت اسلامی کے سننے سے لوگوں کو روکتا تھا ، آج وہ انہیں نہایت ہی نیش زنی اور طعنہ زنی اور دردناک مزاح سے کہتا ہے کہ تمہاری اپنی غلطی ہے۔ اب یہ بھی اس کے بیان کردہ حقائق کا کوئی جواب نہیں دے سکتے کیونکہ وہ جو کچھ کہتا ہے اس کے مطابق تو آخری فیصلہ ہوچکا ہے۔ اب تو وہ سچی بات کہتا ہے لیکن بعد از وقت ۔ ان اللہ وعدکم وعد الحق ووعدتکم فاخلفتکم (١٤ : ٢٢) “ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی پورا نہ کیا ”۔ اس کے بعد شیطان ایک نیا طعنہ دے کر انہیں چرکا لگاتا ہے کہ کیوں تم نے میری دعوت پر لبیک کہا ، مجھے تم پر کوئی اقتدار تو حاصل نہ تھا۔ صرف یہ بات تھی کہ تم لوگوں نے اپنی شخصیت کو بھلا دیا ہے میرے اور تمہارے درمیان جو دشمنی تھی اس کو نظر انداز کردیا۔ اور تم نے میری غلط دعوت کو قبول کرلیا۔ اور انبیاء کی سچی دعوت کو ترک کردیا۔ وما کان لی ۔۔۔۔۔ فاستجبتم لی (١٤ : ٢٢) “ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا ”۔ اس کے بعد وہ انہیں مزید شرمندہ کرتا ہے اور کہتا ہے مجھے ملامت نہ کرو بلکہ تم خود قابل سرزنش ہو کہ تم نے میری اطاعت کی۔ فلا تلومونی ولو موا انفسکم (١٤ : ٢٢) “ اب مجھے ملامت نہ کرو ، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو ”۔ اب وہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور ان سے دستکش ہوجاتا ہے ، حالانکہ خود اس نے ان کے ساتھ وعدے کئے تھے اور ان کو امیدیں دلائی تھیں ، اور ان کے دل میں وسوسے ڈالے تھے کہ تمہارا کچھ بھی نہ بگڑے گا۔ اب جبکہ وہ فریاد کر رہے ہیں تو ان کی کوئی مدد نہیں کر رہا ہے۔ اور اگر وہ ان سے فریاد کرے تو وہ بھی کوئی مدد اس شیطان کی نہیں کرسکتے۔ ما انا بمصر خکم وما انتم بمصرخی (١٤ : ٢٢) “ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں ، نہ تم میری ” ۔ اب تو ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی تعلق اور کوئی دوستی نہیں ہے۔ اب وہ اس بات سے اپنی براءت کا اعلان کرتا ہے کہ تم نے مجھے اللہ کا شریک بنایا۔ صاف صاف انکار کرتا ہے کہ میں نے تو ایسا نہیں کہا۔ انی کفرت بما اشرکتمون من قبل (١٤ : ٢٢) “ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہو ”۔ شیطان اپنی تقریر ایک ایسی بات پر ختم کرتا ہے جو اس کے دوستوں کے لئے سخت حوصلہ شکن ہے۔ ان الظلمین لھم عذاب الیم (١٤ : ٢٢) “ ایسے ظالموں کے لئے تو دردناک سزا یقینی ہے ”۔ یہ دیکھو شیطان کا کردار ! یہی تو ہے جو ان کو گمراہی کی طرف بلا رہا تھا اور وہ اس کے کہنے پر گمراہ ہوگئے تھے۔ ان کو رسول خدا کی طرف بلا رہے تھے اور ان لوگوں نے رسولان کی ایک نہ مانی۔ انکار کردیا۔ قبل اس کے کہ اس منظر پر پردہ گرجائے دوسری طرف سے ایک اہل ایمان کا گروپ نمودار ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آج قیامت کے دن سر خرو ہوگئے ہیں۔ ان کی نجات کا فیصلہ ہوگیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ وقائع کا چوتھی بار ذکر۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ اس میں قیامت کا ایک ہولناک منظر پیش کیا گیا ہے۔ میدانِ حشر میں جب مشرک راہنما اور ان کے پیرو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے اور سب کو اپنا انجام سامنے نظر آرہا ہوگا کہ ابھی جہنم کے المناک عذاب میں داخل کیے جائیں گے اس وقت کمزور لوگ یعنی وہ عوام جو دنیا میں مشرک پیشواؤں کے بہکانے سے اور اہل اقتدار مشرکوں کے ڈر سے شرک میں مبتلا رہے میدانِ حشر میں وہ اپنے پیشواؤں اور لیڈروں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے پیچھے چل کر گمراہ ہوئے اور تم نے ہمیں کئی سبز باغ دکھا کر شرک کی راہ پر ڈالا اور اللہ کے پیغمبروں کو ماننے اور ان کی تبلیغ سننے سے روکا تو کیا آج تم ہمارے کسی کام آسکتے ہو اور اللہ تعالیٰ کا کچھ ہی عذاب ہم سے روک سکتے ہو ؟ ” قَالُوْا لَوْ ھَدٰنَا اللہُ الخ “ مشرک رؤسا اور پیشوا جواب دیں گے کہ ہم تو خود گمراہ تھے اس لیے تمہیں بھی غلط راستے پر ڈال دیا اگر اللہ تعالیٰ دنیا میں ہمیں ایمان و توحید قبول کرنے کی توفیق دیدیتا تو ہم تمہیں بھی راہ راست پر چلنے کی تلقین کرتے اس لیے ہمارے اور تمہارے لیے سوائے صبر کرنے کے کچھ نہیں عذاب الٰہی پر گھبراہٹ اور بےصبری ظاہر کریں یا صبر کے ساتھ اسے برداشت کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، بہر حال عذاب سے ہمیں چھٹکارا نہیں۔ ” اَلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا “ مذہبی پیشوا اور قومی راہنما جنہوں نے انبیاء (علیہم السلام) کی باتیں سننے اور اللہ کی توحید کو ماننے سے استکابر کیا اور غرور وتکبر کے ساتھ حق سے اعراض کیا اور اپنے ماتحتوں اور زیر دستوں کو ایمان و توحید سے روکا۔ ” استخبروا عن عبادۃ اللہ وحدہ لا شریک لہ و عن موافقۃ الرسل “ (ابن کثیر ج 2 ص 528) ” و ھم السادۃ والرؤساء الذین استغو وھم و صدوھم عن الاستماع الی الانبیاء (علیہم السلام) و اتباعہم “ (مدارک ج 9 ص 199) ۔ حاصل یہ کہ دنیا میں جن برے لوگوں کو اپنا راہنما بنایا آخرت میں ان کی پیروی کسی کام نہ آئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 ۔ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو سب لوگ نکل کھڑے ہوں گے اور سب اس کے سامنے پیش ہوں گے پھر کمزور اور چھوٹے چھوٹے درجے کے لوگ اپنے روساء متکبرین اور بڑے درجے کے لوگوں سے کہیں گے ہم دنیا میں تمہارے کہنے پر چلا کرتے تھے اور ہم کو تمہارے تابع اور فرمانبردار تھے تو کیا تم آج ہم پر سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کچھ حصہ ہٹا سکتے ہو اور ہم کو عذاب خدا سے بچا سکتے ہو وہ بڑے درجہ کے لوگ جواب دیں گے اگر اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت کرتا تو ہم تم کو بھی ہدایت کرتے اور اگر اللہ تعالیٰ ہم کو عذاب سے بچنے کا راستہ دکھاتا تو ہم بھی تمہارے صحیح رہنمائی کرتے اب تو ہم سب کے لئے خواہ ہم گھبرائیں اور پریشان ہو یا صبر اور ضبط کریں دونوں ہی باتیں برابر ہیں نہ اب ہمارے لئے یہاں سے خلاصی اور گریز کی کوئی جگہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ گفتگو جہنم میں ہو ۔ عام طور سے منکروں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارے بڑے ہم کو بچا لیں گے اس خیال کا رد فرمایا اور چھوٹوں کو جو بھروبڑوں پر ہوتا ہے اس کو باطل ٹھہرایا مستکبرین اول تو اپنی گماہی کا اعتراف کریں گے کہ ہم خود ہی گمراہ تھے تمہاری رہنمائی کیا خاک کرتے عذاب سے بچانا تو کیا ہم بھی تمہارے ساتھ عذاب میں مبتلا ہیں اب صبر کرو اور ضبط سے کام لو یا گھبرائو اور چیخو اور چلائو دونوں ہی باتیں بےسود ہیں یہاں سے نکلنے کی کوئی راہ کوئی آگے معبود ان باطلہ سے جو امیدیں قائم کر رکھی تھیں ان کا جواب ہے۔