Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 40

سورة إبراهيم

رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ ﴿۴۰﴾

My Lord, make me an establisher of prayer, and [many] from my descendants. Our Lord, and accept my supplication.

اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی ، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَةِ ... O my Lord! Make me one who performs Salah, preserving its obligations and limits, ... وَمِن ذُرِّيَّتِي ... and (also) from my offspring, make them among those who establish the prayer, as well, ... رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاء our Lord! And accept my invocation. all of my invocation which I invoked You with herein,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی، جیسے اس سے قبل بھی اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی کہ انھیں پتھر کی مورتیوں کو پوجنے سے بچا رکھنا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین کے داعیوں کو اپنے گھر والوں کی ہدایت اور ان کی دینی تعلیم و تربیت سے غافل نہیں رہنا چاہیے تبلیغ و دعوت میں انھیں اولیت دینی چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حکم دیا (وَ اَنْذِرُ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ) 26 ۔ الشعراء :214) ' اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائے '

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ : یہ ابراہیم (علیہ السلام) کی عاجزانہ دعاؤں کا آخری حصہ ہے، جس میں انھوں نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اس چیز پر پابند رہنے کی دعا کی ہے جو توحید و رسالت کے یقین و اقرار کے بعد اسلام میں سب چیزوں سے زیادہ ضروری ہے، یعنی نماز جو خاشعین (عاجزی کرنے والوں) کے سوا سب لوگوں کے لیے نہایت دشوار ہے (دیکھیے بقرہ : ٤٥، ٤٦) اور جس کے متعلق موسیٰ (علیہ السلام) (جَزَاہ اللّٰہُ عَنَّا وَ عَنْ جَمِیْعِ أُمَّتِنَا أَحْسَنَ الْجَزَاءِ ) نے کہا تھا کہ میں نے بنی اسرائیل کو بہت زیادہ بھگتا ہے، آپ کی امت پانچ نمازوں کی طاقت بھی نہیں رکھے گی۔ سو جو ایمان و کفر کے درمیان فرق کرنے والی سب سے نمایاں چیز ہے، ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کی اتنی فکر تھی کہ اپنے اور اپنی اولاد کے لیے اس کی پابندی کی خاص طور پر دعا کی۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ :” اور میری اولاد میں سے بھی “ بظاہر یہ ” من “ تبعیض کے لیے ہے، یعنی مجھے اور میری اولاد میں سے بھی کچھ نماز کے پابند بنا، مگر اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے ساری اولاد کے لیے یہ دعا کیوں نہ کی ؟ اس کا جواب اکثر مفسرین نے یہ دیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو انسانی تاریخ سے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان ” لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ “ سے اندازہ تھا کہ ساری اولاد نمازی نہیں ہو سکے گی، اس لیے انھوں نے یہ دعا کی کہ ایسا نہ ہو کہ اولاد میں سے کوئی بھی نمازی نہ رہے، یہ اسی طرح ہے جیسا کہ انھوں نے دعا کی تھی : (رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ) [ البقرۃ : ١٢٨ ] ” اے ہمارے رب ! اور ہمیں اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لیے فرماں بردار بنا۔ “ ابن عاشور صاحب ” التحریر والتنویر “ نے لکھا ہے : ” یہ ” مِنْ “ ابتدائیہ ہے، تبعیض کے لیے نہیں اور ” وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ “ محذوف کی صفت ہے جس کا عطف یائے متکلم پر ہے۔ مقدر عبارت اس طرح ہوگی : ” رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَاجْعَلْ مُقِیْمِیْنَ للصَّلَاۃِ مِنْ ذُرِّیَّتِيْ “ یعنی مجھے نماز کا پابند بنا اور نماز کا پابند ان کو بھی بنا جو میری اولاد میں سے ہوں۔ ” وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ “ کی ترکیب بھی اسی طرح ہوسکتی ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) بت پرستی سے بچنے کی دعا تو اپنے اور اپنی ساری اولاد کے لیے کریں، فرمایا : (وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ) [ إبراھیم : ٣٥ ] (اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بت پوجنے سے بچائے رکھ) مگر نماز کا پابند بنانے کی دعا سب کے لیے کرنے کے بجائے بعض کے لیے کریں۔ جب ہم خود دعا کرتے وقت یہ پسند نہیں کرتے کہ یہ دعا کریں کہ یا اللہ ! ہماری کچھ اولاد کو نمازی بنا تو ابراہیم (علیہ السلام) یہ کیسے پسند کرسکتے ہیں ؟ “ ابن عاشور کی بات دل کو لگتی ہے۔ (واللہ اعلم) رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاۗءِ : دعا کے بعد پھر قبولیت کی درخواست اپنے عجز کا اظہار اور قبولیت پر اصرار ہے۔ ” دُعَاۗءِ “ پر کسرہ اس لیے ہے کہ یہ اصل میں ” دُعَاءِيْ “ تھا، آیات کے فواصل کی موافقت کے لیے یاء حذف کرکے کسرہ اس پر دلالت کے لیے باقی رکھا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

اس حمد وثناء کے بعد پھر دعاء میں مشغول ہوگئے اور فرمایا : (آیت) رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ ڰ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاۗءِ جس میں اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے نماز کی پابندی پر قائم رہنے کی دعاء کی اور آخر میں پھر بطور الحاح کے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میری یہ دعا قبول فرمائیے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ ڰ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاۗءِ 40؁ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ تَّقَبُّلُ : قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی: إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران/ 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل : فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] پروردگار نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٠) میرے پروردگار مجھ کو بھی نماز قائم کرنے والا بنادیجیے اور میری اولاد میں سے بھی یعنی مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی نماز کی بدولت عزت و سرفرازی عطا فرمائیے، پروردگار میری عبادت قبول ومنظور فرما۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ ) یعنی مجھے توفیق عطا فرما دے کہ میں نماز کو پوری طرح قائم رکھوں اور پھر میری اولاد کو بھی توفیق بخش دے کہ وہ لوگ بھی نماز قائم کرنے والے بن کر رہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یعنی مجھے یہ توفیق دے کہ نماز کو اس کے تمام ارکان، شرائط اور آداب کے ساتھ اس کے اوقات پر پابندی سے ادا کرتا رہوں۔ 5 ۔ اسی طرح نماز کا پابند بنا۔ 6 ۔ یا میری پوری دعا جو میں نے تجھ سے مانگی ہے، قبول فرمایا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آدمی ہر حال اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت و نصرت کا محتاج ہے اس کے لیے اسے وہی ذرائع اور طریقے اختیار کرنے چاہییں جن کا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا ہے۔ آدمیجن ذرائع سے اللہ کی مدد کا مستحق اور اس کی رحمت کا سزاوار ہوتا ہے ان میں مؤثر ترین ذریعہ نماز کی ادائیگی ہے۔ مؤذن چوبیس گھنٹوں میں ایک مقررہ وقفے کے بعد پانچ مرتبہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لے کر مسلمانوں کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کی نوید سناتے ہوئے دعوت دیتا ہے کہ اے کلمہ طیبہ کا اقرار اور اظہار کرنے والو ! آؤ تمہاری کامیابی اللہ کی عبادت ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور جماعت بندی میں ہے۔ تابع فرمان مسلمان ہر چیز چھوڑ کر اللہ کے گھر حاضر ہو کر عملاً ثابت کرتے ہیں کہ ہم خدا کی جماعت ہیں جو ہر وقت اس کے حکم کے پا بند اور اس کی اطاعت پر کاربند ہیں۔ پھر پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملا کر مسلمان غیر مسلموں کے سامنے ثابت کرتے ہیں کہ مسلم معاشرہ میں امیر، غریب، آقا اور غلام میں کوئی فرق نہیں۔ کاش امت نماز کی حقیقت کو سمجھ جائے تاکہ ان میں زندگی کی انقلابی روح پیدا ہوجائے۔ سیدنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے جگر گوشہ اور رفیقہ حیات کو عرب کے صحرا و بیابان میں چھوڑ کر دعائیں کرتے ہوئے الوداع ہوئے : ان دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی ” الٰہی مجھے اور میری اولاد کو نمازی بنا “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بارگاہِ الٰہی سے اس طرح التجا کرتے۔ اے ہمارے پروردگار مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابندبنا۔ دعاؤں کا نتیجہ : (وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِسْمٰعِیْلَ اِنّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ کَانَ رَسُوْلاً نَّبِیّاً وَکَانَ یَاْمُرُاَھْلَہٗ بالصَّلوٰۃِ وَالزَّکَاۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیّاً )[ مریم : ٥٤۔ ٥٥] ” اے نبی ! قرآن مجید سے حضرت اسماعیل کا تذکرہ ضرور کرو کیونکہ وہ اللہ کا برگزیدہ نبی وعدے کا سچا اور نماز و زکوٰۃ کا اہل خانہ کو حکم دینے والا تھا۔ “ اولاد کو نماز کا حکم دینا چاہیے : (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرُوٓا أَوْلاَدَکُمْ بالصَّلاَۃِ وَہُمْ أَبْنَآءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ أَبْنَآءُ عَشْرِ سِنِیْنَ وَفَرِّقُوْا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ ) [ رواہ ابو داود : باب مَتٰی یُؤْمَرُ الْغُلاَمُ بالصَّلاَۃِ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے ان پر سختی کرو اور ان کے بستر الگ کر دو ۔ “ نماز کی فرضیت اور فضیلت : (عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا یَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلاَۃِ ) [ رواہ مسلم : باب بَیَانِ إِطْلاَقِ اسْمِ الْکُفْرِ عَلَی مَنْ تَرَکَ الصَّلاَۃَ ] ” حضرت ابو سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے جا بر (رض) سے سنا وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مسلمان اور کفر کے درمیان نماز کا فرق ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے نماز کی پابندی کی توفیق مانگنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ ہی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔ ٣۔ کوشش کے ساتھ والدین کو دعا بھی کرنی چاہیے کہ ان کی اولاد نمازی بن جائے۔ تفسیر بالقرآن نیک اولاد کے لیے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعائیں : ١۔ اے میرے پروردگار ! مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا۔ (ابراہیم : ٤٠) ٢۔ حضرت زکریانے اپنے پروردگار کو پکارا اور عرض کی کہ الٰہی مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ (آل عمران : ٣٨) ٣۔ میں تجھے لوگوں کا امام بنا رہا ہوں ابراہیم نے کہا میری اولاد میں سے بھی بنائیں۔ (البقرۃ : ١٢٤) ٤۔ اے ہمارے پروردگار ! ہماری اولاد میں ایک جماعت اپنی مطیع بنا۔ (البقرۃ : ١٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر یوں دعا کی (رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ ) (اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور میری ذریت میں سے بھی نماز قائم کرنے والے بنائیے اے ہمارے رب دعا کو قبول فرمائیے) اس کے بعد اپنے لیے اور اپنے والدین کے لیے اور تمام مومنین کے لیے دعا کی کہ جس دن حساب قائم ہو اس دن ان سب کی مغفرت فرما۔ یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ تو کافر مشرک تھا اس کے لیے کیسے مغفرت کی دعا کی جبکہ کافروں کی بخشش نہ ہوگی اس کا جواب سورة توبہ کی آیت (وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ ) کی تفسیر میں گزر چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے وعدہ کرلیا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے استغفار کروں گا انہیں اپنے والد کے مسلمان ہونے کی امید تھی پھر جب انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ اس کی موت کفر پر ہوگی تو اس سے بیزار ہوگئے یہ دعا بیزار ہونے سے پہلے کی ہے جب تک والد کی موت علی الکفر کا علم نہ ہوا تھا اور مسلمان ہونے کی امید بندھی ہوئی تھی اس وقت تک بشرط ہدایت باپ کی مغفرت کی دعا کی بعد میں چھوڑ دی۔ آیت بالا میں والدہ کے لیے بھی دعائے مغفرت کرنے کا تذکرہ ہے اگر وہ ایمان لے آئی تھی تب تو کوئی اشکال نہیں اور اگر وہ ایمان نہیں لائی تھی تو اس کے بارے میں وہی بات کہی جائے گی جو والد کے بارے میں عرض کی گئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

40 ۔ اے میرے پروردگار مجھ کو نماز کی پابندی اور نماز کا اہتمام کرنے والا رکھیو اور میری اولاد میں سے بھی بعضوں کو نماز کا پابند اور اہتمام کرنے والا کیجئو اے ہمارے رب اور میری یہ دعا قبول کرلے۔