Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 47

سورة إبراهيم

فَلَا تَحۡسَبَنَّ اللّٰہَ مُخۡلِفَ وَعۡدِہٖ رُسُلَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍ ﴿ؕ۴۷﴾

So never think that Allah will fail in His promise to His messengers. Indeed, Allah is Exalted in Might and Owner of Retribution.

آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ اللہ اپنے نبیوں سے وعدہ خلافی کرے گا اللہ بڑا ہی غالب اور بدلہ لینے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah never breaks a Promise Allah affirms His promise, فَلَ تَحْسَبَنَّ اللّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ... So think not that Allah will fail to keep His promise to His Messengers. His promise to grant them victory in this life and on the Day when the Witnesses shall come forth. Allah affirms that He is All-Able and that nothing He wills escapes His power and none can resist Him. ... إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ Certainly, Allah is All-Mighty, All-Able of Retribution. Allah affirms that He is Able to exact retribution from those who disbelieve in Him and deny Him, وَيْلٌ يَوْمَيِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ Woe that Day to the deniers! (77:15) Allah said here,

انبیاء کی مدد اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو مقرر اور موکد کر رہا ہے کہ دنیا آخرت میں دو اس نے اپنے رسولوں کی مدد کا وعدہ کیا ہے وہ کبھی اس کے خلاف کرنے والا نہیں ۔ اس پر کوئی اور غالب نہیں وہ سب پر غالب ہے اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں اس کا چاہا ہو کر رہتا ہے ۔ وہ کافروں سے ان کے کفر کا بدلہ ضرور لے گا قیامت کے دن ان پر حسرت و مایوسی طاری ہو گی ۔ اس دن زمین ہو گی لیکن اس کے سوا اور ہوگی اسی طرح آسمان بھی بدل دئے جائیں گے ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایسی سفید صاف زمین پر حشر کئے جائیں گے جیسے میدے کی سفید ٹکیا ہو جس پر کوئی نشان اور اونچ نہ ہو گی ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں سب سے پہلے میں نے ہی اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ اس وقت لوگ کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا پل صراط پر ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم نے وہ بات پوچھی کہ میری امت میں سے کسی اور نے یہ بات مجھ سے نہیں پوچھی ۔ اور روایت میں ہے کہ یہی سوال مائی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا آیت ( وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 67؀ ) 39- الزمر:67 ) کے متعلق تھا اور آپ نے یہی جواب دیا تھا ۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ایک یہودی عالم آیا اور اس نے آپ کا نام لے کر سلام علیک کہا میں نے اسے ایسے زور سے دھکا دیا کہ قریب تھا کہ گر پڑے اس نے مجھ سے کہا تو نے مجھے دھکا دیا ؟ میں نے کہا بے ادب یا رسول اللہ نہیں کہتا ؟ اور آپ کا نام لیتا ہے اس نے کہا ہم تو جو نام ان کا ان کے گھرانے کے لوگوں نے رکھا ہے اسی نام سے پکاریں گے آپ نے فرمایا میرے خاندان نے میرا نام محمد ہی رکھا ہے ۔ یہودی نے کہا سنئے میں آپ سے ایک بات دریافت کرنے آیا ہوں آپ نے فرمایا پھر میرا جواب تجھے کوئی نفع بھی دے گا ؟ اس نے کہا سن تو لوں گا آپ کے ہاتھ میں جو تنکا تھا اسے آپ نے زمین پر پھراتے ہوئے فرمایا کہ اچھا دریافت کر لو اس نے کہا سب سے پہلے پل صراط سے پار کون لوگ ہوں گے ؟ فرمایا مہاجرین فقراء اس نے پوچھا انہیں سب سے پہلے تحفہ کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا مچھلی کی کلیجی کی زیادتی ۔ اس نے پوچھا اس کے بعد انہیں کیا غذا ملے گی ۔ ؟ فرمایا جنتی بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت کے اطراف میں چرتا چگتا رہا تھا ۔ اس نے پوچھا پھر پینے کو کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جنتی نہر سلسبیل کا پانی ۔ یہودی نے کہا آپ کے سب جواب بر حق ہیں ۔ اچھا اب میں ایک بات اور پوچھتا ہوں جسے یا تو نبی جانتا ہے یا دنیا کے اور دو ایک آدمی آپ نے فرمایا کیا میرا جواب تجھے کچھ فائدہ دے گا ؟ اس نے کہا سن تو لوں گا ۔ بچے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں آپ نے فرمایا مرد کا خاص پانی سفید رنک کا ہوتا ہے اور جب عورت کا خاص پانی زرد رنگ کا ۔ جب یہ دونوں جمع ہوتے ہیں تو اگر مرد کا پانی غالب آ جائے تو بحکم الہٰی لڑکا ہوتا ہے اور اگر عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آ جائے تو اللہ کے حکم سے لڑکی ہوتی ہے ۔ یہودی نے کہا بیشک آپ سچے ہیں اور یقینا آپ اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ پھر وہ وآپس چلا گیا ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جواب سکھا دیا ۔ ( مسند احمد ) ابن جریر طبری میں ہے کہ یہودی عالم کے پہلے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا اس وقت مخلوق اللہ کی مہمانی میں ہو گی پس اس کے پاس کی چیز ان سے عاجز نہ ہو گی ۔ عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ زمین بدل دی جائے گی اور زمین سفید میدے کی ٹکیا جیسی ہو کی جس میں نہ کوئی خون بہا ہوگا جس پر نہ کوئی خطا ہوئی ہو گی آنکھیں تیز ہوں گی داعی کی آواز کانوں میں ہو گی سب ننگے پاؤں ننگے بدن کھڑے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ پسینہ مثل لگام کے ہو جائے گا حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ایک مرفوع روایت میں ہے کہ سفید رنگ کی وہ زمین ہو گی جس پر نہ خون کا قطرہ گرا ہوگا نہ اس پر کسی گناہ کا عمل ہوا ہو گا ۔ اسے مرفوع کرنے والا ایک ہی راوی ہے یعنی جریر بن ایوب اور وہ قوی نہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے پاس اپنا آدمی بھیجا پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا جانتے ہو میں نے آدمی کیوں بھیجا ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ ہی کو علم ہے اور اس کے رسول کو آپ نے فرمایا آیت ( يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 48؁ ) 14- ابراھیم:48 ) کے بارے میں یاد رکھو وہ اس دن چاندی کی طرح سفید ہو گی ۔ جب وہ لوگ آئے آپ نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا کہ سفید ہو گی جیسے میدہ ۔ اور بھی سلف سے مروی ہے کہ چاندی کی زمین ہو گی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آسمان سونے کا ہو گا ۔ ابی فرماتے ہیں وہ باغات بنا ہوا ہو گا ۔ محمد بن قیس کہتے ہیں زمین روٹی بن جائے گی کہ مومن اپنے قدموں تلے سے ہی کھا لیں ۔ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ زمین بدل کر روٹی بن جائے گی ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قیامت کے دن ساری زمین آگ بن جائے گی اس کے پیچھے جنت ہو گی جس کی نعمتیں باہر سے ہی نظر آ رہی ہوں گی لوگ اپنے پسینوں میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ابھی حساب کتاب شروع نہ ہوا ہو گا ۔ انسان کا پسینہ پہلے قدموں میں ہی ہو گا پھر بڑھ کر ناک تک پہنچ جائے گا بوجہ اس سختی اور گھبراہٹ اور خوفناک منظر کے جو اس کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔ کعب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں آسمان باغات بن جائیں گے سمندر آگ ہو جائیں گے زمین بدل دی جائے گی ۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے سمندر کا سفر صرف غازی یا حاجی یا عمرہ کرنے والے ہی کریں ۔ کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے یا آگ کے نیچے سمندر ہے ۔ صور کی مشہور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمین کو بسیط کر کے عکاظی چمڑے کی طرح کھینچے گا اس میں کوئی اونچ نیچ نظر نہ آئے پھر ایک ہی آواز کے ساتھ تمام مخلوق اس نئی زمین پر پھیل جائے گی پھر ارشاد ہے کہ تمام ہے کہ تمام مخلوق اپنی قبروں سے نکل کر اللہ تعالیٰ واحد و قہار کے سامنے رو برو ہو جائے گی وہ اللہ جو اکیلا ہے اور جو ہر چیز پر غالب ہے سب کی گردنیں اس کے سامنے خم ہیں اور سب اس کے تابع فرمان ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 یعنی اللہ نے اپنے رسولوں سے دنیا اور آخرت میں مدد کرنے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ یقینا ایسا ہے، اس سے وعدہ خلافی ممکن نہیں۔ 47۔ 2 یعنی اپنے دوستوں کے لئے اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے والا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] اس آیت میں بظاہر خطاب رسول اللہ کو ہے مگر اصل مقصود مخالفین کو اس بات پر مطلع کرنا ہے کہ اللہ نے اپنے رسولوں سے پہلے بھی جتنے وعدے کیے تھے سب پورے کردیئے تھے اور وقت آنے پر رسولوں کی مدد کی اور ان کے مخالفین کو تباہ و برباد کیا تھا اور آپ سے جو وعدہ کیا جارہا ہے وہ بھی اللہ پورا کرکے رہے گا کیونکہ وہ سب پر غالب اور منکرین حق سے انتقام لینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ۔۔ : اللہ کے وعدے سے مراد دنیا و آخرت میں اللہ کے رسولوں اور اہل ایمان کی نصرت و عزت ہے، جیسا کہ فرمایا : ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ) [ المؤمن : ٥١ ] ” بیشک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے۔ “ مزید دیکھیے سورة مجادلہ (٢١) اور سورة ابراہیم (١٣، ١٤) کی تفسیر۔ اس سے مقصود ایک طرف تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا اور دوسری طرف آپ کے مخالفین کو متنبہ کرنا ہے کہ جس طرح پہلے انبیاء ( علیہ السلام) سے جو ہم نے وعدے کیے وہ سب پورے کیے اسی طرح اپنے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تائید و نصرت کا جو وعدہ کر رہے ہیں اسے بھی یقیناً پورا کریں گے اور ان لوگوں کو تباہ و برباد کریں گے جو آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہیں، کیونکہ اللہ سب پر غالب ہے، انتقام والا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, it was to let this be heard by the Muslim community, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or everyone thus addressed - was given a note of cau¬tion by saying: فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّـهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُ‌سُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ So, do not think that Allah will do against His promise [ of sup-port, victory and success ] to His messengers. Surely, Allah is Mighty, the Lord of Retribution – 47 and that He would definitely retaliate against the enemies of His mes¬sengers and fulfill the promises made to them.

اس کے بعد امت محمدیہ کو سنانے کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باہر مخاطب کو یہ تنبیہ کی گئی (آیت) فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذو انْتِقَامٍ یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں سے جو وعدے فتح ونصرت اور کامیابی کے کئی ہیں وہ ان کے خلاف کرے گا بلاشبہ اللہ تعالیٰ زبردست اور انتقام لینے والا ہے وہ ضرور اپنے پیغمبروں کے دشمنوں سے انتقام لے گا اور پیغمبروں سے جو وعدے کئے ان کو پورا کرے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ 47؀ۭ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ خُلف ( عهد شكني) والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة/ 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد/ 31] ( خ ل ف ) خُلف الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة/ 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد/ 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) اللہ تعالیٰ نے جو رسولوں کی نجات اور ان کے دشمنوں کی ہلاکت کا ان سے وعدہ فرمایا ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ کو وعدہ خلافی کرنے والا نہ سمجھنا، بیشک اللہ تعالیٰ اپنی بادشاہت میں بڑا زبردست ہے اور اپنے دشمنوں سے دنیا وآخرت میں پورا بدلہ لینے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ) یہاں پر رسول کے بجائے رسل جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی تمام رسولوں کے ساتھ اللہ کا یہ مستقل وعدہ رہا کہ تمہاری مدد کی جائے گی اور آخری کامیابی تمہاری ہی ہوگی۔ جیسا کہ سورة المجادلہ کی آیت ٢١ میں فرمایا گیا : (كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ) یعنی اللہ نے طے کیا ہوا ہے ‘ لکھ کر رکھا ہوا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آکر رہیں گے۔ درمیان میں کچھ اونچ نیچ ہوگی ‘ تکلیفیں بھی آئیں گی ‘ آزمائشوں کا سامنا بھی کرنا ہوگا ‘ مگر فتح ہمیشہ حزب اللہ ہی کی ہوگی۔ آزمائشوں کے ان مراحل کے بارے میں سورة البقرۃ میں فرمایا : (وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ ) ” اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مال اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے ‘ تو آپ صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دیں۔ “ اس کے بعد سورة البقرۃ میں ہی فرمایا : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ) ” کیا تم سمجھتے ہو کہ یوں ہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں جیسی (مشکلات) تو پیش آئیں ہی نہیں۔ ان کو تو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچی تھیں اور وہ ہلا ڈالے گئے تھے ‘ یہاں تک کہ پیغمبر اور ان کے ساتھ جو مؤمنین تھے سب پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ‘ آگاہ ہوجاؤ ! اللہ کی مدد قریب ہے۔ “ بہر حال اللہ تعالیٰ کا اپنے رسولوں سے یہ پختہ وعدہ رہا ہے کہ حق و باطل کی اس کش مکش میں بالآخر فتح انہی کی ہوگی اور انہیں جھٹلانے والوں کو ان کے سامنے سزا دی جائے گی۔ یہ ساری باتیں تفصیل سے قرآن میں بیان کی جا چکی ہیں تاکہ ان لوگوں کو کوئی شک نہ رہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56. Though this has been addressed to the Prophet (peace be upon him), it is really meant for his opponents. They are being warned that they should not delude themselves because of the delay in their punishment. They should note it well that Allah fulfilled the promises He made to the former Messengers and defeated their opponents. Likewise He will surely fulfill the promises He had made to Muhammad (peace be upon him).

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :56 اس جملے میں کلام کا رخ بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے ، مگر دراصل سنانا آپ کے مخالفین کو مقصود ہے ۔ انہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ نے پہلے بھی اپنے رسولوں سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے کیے اور ان کے مخالفیں کو نیچا دکھایا ۔ اور اب جو وعدہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کر رہا ہے اسے پورا کرے گا اور ان لوگوں کو تہس نہس کر دے گا جو اس کے مخالفت کر رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:47) لا تحسبن۔ فعل نہی بلام تاکید ونون ثقیلہ۔ واحد مذکر حاضر۔ تو ہرگز خیال نہ کر۔ تو ہرگز گمان نہ کر۔ (یہ خطاب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے) ۔ لا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ میں اللہ مفعول اول ہے لا تحسبن کا اور مخلف مفعول ثانی ہے۔ جبکہ رسلہ مخلفکا مفعول اوّل ہے اور وعدہ اس کا مفعول ثانی۔ گویا تقدیر کلام یوں ہے مخلف رسلہ وعدہ تو ہرگز خیال نہ کر کہ (اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرنے والا ہے) ۔ یعنی جو وعدے اس نے کئے ہیں وہ ضرور پورے کرے گا۔ وعدے۔ مثلاً انا لننصر رسلنا۔ (58:21) اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب آکر رہیں گے۔ عزیز۔ غالب۔ زبردست۔ قوی۔ گرامی قدر۔ دشوار۔ عزۃ سے فعیل کے وزن پر بمعنی فاعل مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ذوا نتقام۔ انتقام لینے والا۔ بدلہ لینے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ اس سے مقصود ایک طرف تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے اور دوسری طرف آپو کے مخالفین کو متنبہ کرنا۔ کہ جس طرح پہلے انبیاء ( علیہ السلام) سے جو ہم نے وعدے کئے وہ سب پورے کئے۔ اسی طرح اپنے آخری رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تائید و نصرت کو جو وعدہ کر رہ ہیں اسے بھی یقینا پورا کریں گے اور ان لوگوں کو تباہ و برباد کرینگے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٤٧ یہ لوگ جو تدابیر کرتے ہیں یہ اللہ کے مقابلے میں موثر نہیں ہیں اور اللہ اپنے رسولوں اور اپنی تحریکات کی جب مدد کرنا چاہے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ “ وہ تو زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے ”۔ اس سے کوئی ظالم بچ کر نہیں نکل سکتا اور کوئی مکار اس کے عذاب سے نجات نہیں پا سکتا۔ یہاں ظلم اور سرکشی اور عظیم مکاری کے بالمقابل لفظ انتقام لایا گیا ہے جو نہایت موزوں ہے کیونکہ ظالم اور مکار سے انتقام لینا مناسب ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف جب انتقام کی نسبت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ظلم و سرکشی کی مناسب جزاء و سزا اور اس میں بھی عادلانہ طریق کار۔ اور یہ عادلانہ جزاء و سزا تب واقعہ ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ ) (سو اے مخاطب تو اللہ کے بارے میں یہ خیال نہ کر کہ وہ وعدہ خلافی کرنے والا ہے) اللہ تعالیٰ نے جو اپنے نبیوں سے نصرت اور مدد کا وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا فرمائے گا۔ کما فی سورة الغافر (اِِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ ) (ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کی دنیاوی زندگانی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس میں بھی جس میں گواہی دینے کے لیے کھڑے ہونگے) (اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ ) (بلاشبہ اللہ غلبہ والا ہے بدلہ لینے والا ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ یہ تخویف اخروی ہے یہاں سے لے کر ” اِنَّ اللہَ سَرِیْعُ الحِسَابِ “ تک قیامت کے ہولناک مناظر اور آخرت کے مختلف انواع عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے پیغمبروں سے وعدہ ہے کہ وہ دنیا میں ان کی مدد کرے گا اور آخرت میں ان کو مراتب عالیہ عطا فرمائے گا اور ان کے دشمنوں سے ان کا انتقام لے گا اور دنیا و آخرت میں ان کو ذلیل و سوا کرے گا۔ اس لیے کوئی شخص یہ گمان بھی نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں سے کیے گئے وعدے کے خلاف کرے گا۔ ” اِنَّ اللہَ عَزِیْزٌ ذُوْانْتِقَامٍ “ یہ ما قبل کے لیے علت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غالب ہے اور دشمنانِ اسلام سے انتقام لینے والا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47 ۔ اے مخاطب ! اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ خیال نہ کیجئو کہ اس نے جو وعدہ اپنے رسولوں سے کیا وہ اس کے خلاف کرنے والا ہے یقینا اللہ تعالیٰ بڑا زبردست اور پورا بدلہ لینے والا ہے۔ یعنی کوئی یہ رائے قائم نہ کرے اور یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرنے والا ہے وعدہ کافروں کے مقابلہ میں نصرت اور فتح یا قیامت میں عذاب وغیرہ کا ہو اس کی خلاف ورزی ہوگی تو ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ زبردست اور زور آور اور پورا بدلہ لینے والا کمزور نہیں ہے اور بدلہ لے سکتا ہے۔