Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 8

سورة إبراهيم

وَ قَالَ مُوۡسٰۤی اِنۡ تَکۡفُرُوۡۤا اَنۡتُمۡ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۸﴾

And Moses said, "If you should disbelieve, you and whoever is on the earth entirely - indeed, Allah is Free of need and Praiseworthy."

موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا کہ اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بھی اللہ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And Musa said: "If you disbelieve, you and all on earth together, then verily, Allah is Rich (free of all needs), Worthy of all praise." Allah does not need the gratitude of His servants, and He is worthy of all praise even if the disbelievers disbelieve in Him, إِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِىٌّ عَنكُمْ If you disbelieve, then verily, Allah is not in need of you. (39:7)...  and, فَكَفَرُواْ وَتَوَلَّواْ وَّاسْتَغْنَى اللَّهُ وَاللَّهُ غَنِىٌّ حَمِيدٌ So they disbelieved and turned away. But Allah was not in need (of them). And Allah is Rich (free of all needs), Worthy of all praise. (64:6) In his Sahih, Muslim recorded that Abu Dharr said that the Messenger of Allah said that his Lord the Exalted and Most Honored said, يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَاخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْيًا يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَاخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ مَا نَقَصَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْيًا يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَاخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْيًا إِلاَّ كَمَا يَنْقُصُ المِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْر O My servants! If the first and the last among you, mankind and Jinns among you, had the heart of the most pious and righteous man among you, that will not increase my kingdom in the least. O My servants! If the first and the last among you, mankind and the Jinns among you, had the heart of the most wicked man among you, that will not decrease My kingdom in the least. O My servants! If the first and the last among you, the mankind and Jinns among you, stood in one flat area and each asked me (what they wish), and I gave each one of them what they asked, that will not decrease My kingdom except by that which the needle carries (of water) when inserted in the ocean." Verily, all praise and glory are due to Allah, the Rich (free of need), the Worthy of all praise.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی شکر گزاری کرے گا تو اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ ناشکری کرے گا تو اللہ کا اس میں کیا نقصان ہے ؟ وہ تو بےنیاز ہے سارا جہان ناشکرگزار ہوجائے تو اس کا کیا بگڑے گا جس طرح حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یا عبادی ! لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب...  رجل واحد منکم مازاد ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی ! لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی افجر قلب رجل واحد منکم ما نقصٓ ذلک فی ملکی شیئا یا عبادی لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم قاموا فی صٓعید واحد فسالونی فاعطیت کل انسان مسالتہ مانقصٓ ذلک من ملکی شیئا الا کما ینقض المخیط اذا ادخل فی البحر۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور اسی طرح تمام انسان اور جن، اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پر ہزگار ہو، (یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے) تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول اور آخر اور انسان و جن، سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے ' فَسُبْحَانَہُ وَ تَعَالَی الْغَنِیُّ الْحمِیْدُ '۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] اللہ کی بےنیازی :۔ یعنی اللہ کی ناشکری کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا نہ ہی اس کی خدائی میں کچھ فرق آتا ہے نہ وہ کسی کے شکر کا محتاج ہے وہ ان سب باتوں سے بےنیاز ہے اس لیے کہ وہ اپنی ذات میں ہی قابل ستائش ہے اس کے کارنامے ہی ایسے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اس کے گن گا رہی ہے چناچہ صحیح مسلم میں ایک ... قدسی حدیث ان الفاظ میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ && اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب اعلیٰ درجے کے متقی بن جائیں تو اس سے میری بادشاہی میں کچھ اضافہ نہیں ہوجاتا۔ اور اگر سب کے سب اگلے پچھلے جن و انس ایک بدترین شخص جیسے ہوجائیں تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ برابر بھی کمی واقع نہیں ہوتی && (مسلم، کتاب البر والصلۃ۔ باب تحریم الظلم)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا ۔۔ : یعنی اگر تم اور زمین و آسمان کے تمام لوگ ناشکری کرو تو اس ناشکری کا نقصان خود تمھی کو پہنچے گا، اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑے گا، اسے نہ تمہارے شکر کی ضرورت ہے اور نہ تمہاری ناشکری کی پروا۔ اس کی ذات ہر تعریف کی حامل ہے، چاہے کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے۔ ابو... ذر غفاری (رض) حدیث قدسی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا عِبَادِيْ ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، کَانُوْا عَلٰی أَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ ، مَا زَادَ ذٰلِکَ فِيْ مُلْکِيْ شَیْءًا، یَا عِبَادِيْ ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، کَانُوْا عَلٰی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُلْکِيْ شَیْءًا، یَا عِبَادِيْ ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَ آخِرَکُمْ ، وَ إِنْسَکُمْ وَ جِنَّکُمْ ، قَامُوْا فِیْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُوْنِيْ ، فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ ، مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِمَّا عِنْدِيْ إِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ٢٥٧٧ ] ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے میرے بندو ! اگر تمہارے پہلے، تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والے آدمی کے دل والے ہوجائیں تو یہ چیز میری سلطنت میں کسی شے کا اضافہ نہیں کرے گی اور اے میرے بندو ! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے انسان اور تمہارے جن تم میں سب سے زیادہ فاجر شخص کے دل والے ہوجائیں تو یہ چیز میری سلطنت میں کسی شے کی کمی نہیں کرے گی اور اے میرے بندو ! اگر تمہارے پہلے، تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن ایک میدان میں کھڑے ہوجائیں، پھر مجھ سے مانگیں اور میں ہر شخص کو جو اس نے مانگا ہے دے دوں تو یہ چیز اس میں سے جو میرے پاس ہے کچھ کمی نہیں کرے گی، مگر جتنا سوئی جب وہ سمندر میں داخل کی جائے۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the last verse here (8), it was said: قَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُ‌وا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا (And Musa said, |"If you are ungrateful, you and all those on earth, then, Allah is free of all needs, worthy of every praise.) |" This was said by Sayy¬idna Musa (علیہ السلام) to his people. He is telling them that should they or, for that matter, all inhabitants of the earth become ungrat... eful to Allah Ta’ ala, it is not going to cause any loss to Allah Ta’ ala. As for Him, He needs no praise or gratitude for Himself. He is Independent. He is bey¬ond that. He is intrinsically Praised and deserving of praise. If you do not praise Him, the angels do, all of them, and so does every particle of this universe. So, whatever good there is in gratitude, that is for you alone. There-fore, when you are asked to be grateful by Allah Ta’ ala, there is no gain for Him in doing so. In fact, it is His infinite mercy reaching out to you in your interest.  Show more

(آیت) وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اگر تم سب اور جتنے آدمی زمین پر آباد ہیں وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگو تو یاد رکھو کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا...  کوئی نقصان نہیں وہ تو سب کی حمد وثناء اور شکر و ناشکری سے بےنیاز اور بالا تر ہے اور وہ اپنی ذات میں حمید یعنی مستحق حمد ہے اس کی حمد تم نہ کرو تو اللہ کے سارے فرشتے اور کائنات کا ذرہ ذرہ کررہا ہے۔ شکر کا فائدہ جو کچھ ہے وہ تمہارے ہی لئے ہے اس لئے شکر گذاری کی تاکید اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ اپنے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ بسبب رحمت تمہیں ہی فائدہ پہونچانے کے لئے ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ ۝ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود...  النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ حمید إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، ( ح م د ) حمید اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر تم اور تمام دنیا بھر کی سب انسان ناشکری کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان سے بےنیاز ہے اور وہ موحدین کے لیے اپنی حد ذات میں قابل تعریف صفات والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ) وہ بےنیاز ہے اس کو کسی کی احتیاج یا پروا نہیں۔ وہ اپنی ذات میں ستودہ صفات ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13. It should be noted that a reference to Prophet Moses (peace be upon him) and his people has been made here to warn the people of Makkah of the consequences of their ingratitude towards this favor of Allah that He has raised Prophet Muhammad (peace be upon him) from among them. This was a timely warning, for at that time they were showing ingratitude by rejecting that message. They were, theref... ore, warned to learn a lesson from the miserable condition of the Israelites, which was the result of their ingratitude to and rebellion against Allah’s favors. As the Quraish themselves could see the consequences of that rebellious attitude of the Israelites, they were, so to say, asked this question: Do you also desire to meet with the same consequences by showing ingratitude towards the message which is a great favor to you? Obviously, the great favor which was shown to the Quraish was that Muhammad (peace be upon him) was raised from among them with that message about which he assured them over and over again: Accept this Message of mine: all the Arabs and the non-Arabs will surrender and submit to you?  Show more

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :13 اس جگہ حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کے معاملہ کی طرف یہ مختصر اشارہ کرنے سے مقصود اہل مکہ کو یہ بتانا ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر احسان کرتا ہے اور جواب میں وہ قوم نمک حرامی اور سرکشی دکھاتی ہے تو پھر ایسی قوم کو وہ عبرتناک انجام دیکھنا پڑتا ہے جو تمہاری آنکھوں ک... ے سامنے بنی اسرائیل دیکھ رہے ہیں ۔ اب کیا تم بھی خدا کی نعمت اور اس کے احسان کا جواب کفران نعمت سے دے کر یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اللہ تعالی اپنی جس نعمت کی قدر کرنے کا یہاں قریش سے مطالبہ فرما رہا ہے وہ خصوصیت کے ساتھ اس کی یہ نعمت ہے کہ اس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے درمیان پیدا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ان کے پاس وہ عظیم الشان تعلیم بھیجی جس کے متعلق حضور بار بار قریش سے فرمایا کرتے تھے کہ کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بھا العجم ۔ میری ایک بات لو ، عرب اور عجم سب تمہارے تابع ہوجائیں گے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اللہ کی نعمتیں یاد دلادیں اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور فرمانبرداری کی نصیحت کریں اس حکم الٰہی کے موافق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو وعظ کے طور پر طرح طرح کی نصیحتیں جو کی ہیں ان آیتوں م... یں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ان نصیحتوں کا ذکر ہے یہ ایک عادت الٰہی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس شکر گزاری کی جزا میں اور نعمت پر نعمت دیتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا آخر کو وبال میں گرفتار ہوجاتا ہے فرعون اور اس کا لشکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری سے وبال الٰہی میں سب گرفتار ہوگئے بنی اسرائیل نے جب تک اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر دانی کی حکومت بادشاہت نعمت پر نعمت پائی اسی عادت الٰہی کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نصیحت میں جتلایا ہے اور اللہ نے قریش کی عبرت کے لئے اس نصیحت کو ان آیتوں میں ذکر فرمایا ہے۔ صحیح مسلم کی حضرت ابوذر (رض) کی روایت کی حدیث قدسی اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمام دنیا کے جن و انس اگر اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری اور شکر گزاری اختیار کریں تو اس سے خدا کی خدائی میں کچھ بڑھ نہیں جاتا اور اگر یہ سب کے سب نافرمانی اور ناشکر ہوجاویں تو خدا کی خدائی میں سے کچھ گھٹ نہیں جاتا اور یہ سب کے سب مل کر اپنی حاجتیں پوری ہونے کی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور اللہ تعالیٰ ان سب کی حاجت روائی کرے تو بھی اللہ تعالیٰ کے خزانہ میں سے کچھ کم نہیں ہوتا غرض شکر گزاری کے عوض میں اللہ تعالیٰ جو نعمتیں اپنی شکر گزار مخلوق کو دنیا میں دیتا ہے اور عقبیٰ میں ایک نیکی کا دس سے لے کر سات سو تک اس نے اجر ٹھہرا رکھا ہے یہ محض اس کا فضل ہے ورنہ اس کو کسی کی شکر گزاری اور کسی کے نیک عمل کی کچھ پروا نہیں ہے۔ اسی واسطے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نصیحت میں بنی اسرائیل کو سمجھا دیا کہ شکر گزاری اور فرمانبرداری کا بدلہ جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ملتا ہے وہ اللہ کا فضل اور اس کی قدر دانی ہے ورنہ تمام روئے زمین کی مخلوق اگر ناشکر اور نافرمان بن جاوے تو خدا تعالیٰ کو اس کی کچھ پروا نہیں کیونکہ کسی کی ناشکری اور نافرمانی سے اس بادشاہ حقیقی کی بادشاہی میں کچھ فرق نہیں آتا وہ بادشاہی دنیا کے بادشاہوں کی بادشاہی جیسی نہیں ہے کہ رعیت کی سرکشی یا فوج کی بغاوت سے اس بادشاہی میں کچھ فتور پڑجاوے پہلی امتیں جو اللہ کی نافرمانی کے سبب سے غارت ہوگئیں اس نصیحت میں ان کا ذکر کر کے آگے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی بنی اسرائیل کو سمجھا دیا کہ جس طرح شکر گزاری کی جزا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عادت الٰہی قرار دے رکھی ہے۔ اسی طرح یہ بھی عادت الٰہی ہے کہ ناشکر اور نافرمانبردار لوگوں کو اللہ تعالیٰ دین و دنیا کے وبال میں گرفتار کردیتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:8) تکفروا۔ تم ناشکری کرو۔ مضارع مجزوم۔ جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تکفرون تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی ناشکری کا نقصان خود تمہی کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اسے نہ تمہارے شکر کی ضرورت اور نہ تمہاری ناشکری کی پروا۔ وہ بہرحال ستودہ صفات ہے چاہے کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے۔ ایک حدیث قد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اگر تمہارے اگلے پچھلے اور جن و انس سب کے سب ایک اعلیٰ درجہ کے...  متقی شخص کے نمونہ پر ہوجائیں تو اس میری بادشاہی میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوگا۔ اور اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے پچھلے اور جن و انس سب کے سب ایک بدترین انسان جیسے ہوجائیں تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر کمی نہیں ہوگی۔ اسے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے پچھلے اور جن و انس سب کے سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور پھر مجھ سے (جو جی چاہے) مانگیں اور میں ہر شخص کو اس کی مانگی ہوگئی چیز دے دوں تو اس سے میری بادشاہی میں ہرگز کمی نہیں آئے گی مگر اتنی جتنی ایک سوئی کو سمندر میں ڈبو کر نکال لینے سے اس کے پانی میں آتی ہے۔ (صحیح مسلم) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک بار پھر سمجھانا۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا تھا۔ کیونکہ توحید کو سمجھنے اور اس کے تقاضے پورے کیے بغیر ا ٩ نسان کی پائیدار بنیادوں پر اصلاح...  نہیں ہوسکتی۔ توحید کا یہ تقاضا ہے کہ انسان مشکلات پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے۔ شکرکا الٹ اللہ تعالیٰ کی ناقدری اور اس کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بتلایا اور سمجھایا کہ اگر تم اور جو بھی زمین پر انسان موجود ہیں اور ہوں گے وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کا انکار کریں تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ بندوں کے شکریہ اور ان کی فرما نبرداری کا محتاج نہیں کیونکہ وہ ہر اعتبار سے بےنیاز اور حمد و ستائش کے لائق ہے۔ کیا تمہیں پہلے لوگوں کے واقعات کا علم نہیں ؟ جن میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم عاد، ثمود اور ان کے بعد لوگوں کا آسمانی اور تاریخ کی کتابوں میں ذکر موجود ہے۔ ان میں ایسی اقوام بھی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بشر کو نہیں کہ کونسی قوم کس علاقے اور کس انجام کے ساتھ دوچار ہوئی۔ ان کے پاس اللہ کے رسول بین دلائل کے ساتھ آئے۔ مگر ان قوموں نے انبیاء (علیہ السلام) کے اخلاص کی قدر کرنے، ان کی دعوت سمجھنے اور ان کی تائید کرنے کی بجائے اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ جس دعوت کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا صاف صاف انکار کرتے ہیں کیونکہ جس عقیدہ کی تم دعوت دیتے ہو  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم سے یہ بھی کہا کہ اگر تم اور تمام روئے زمین پر رہنے اور بسنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگیں اور نا شکری کا شیوہ اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بےاحتیاج بےنیاز اور ستودہ صفات ہے۔ یعنی نا سپاسی کی وجہ سے تم اور دنیا بھ... ر کے لوگ اپنا ہی نقصان کرو گے اللہ تعالیٰ کا کوئی ضرر نہیں ہوگا نا شکری سے نعمت سلب ہوجائے گی۔  Show more