Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 23

سورة الحجر

وَ اِنَّا لَنَحۡنُ نُحۡیٖ وَ نُمِیۡتُ وَ نَحۡنُ الۡوٰرِثُوۡنَ ﴿۲۳﴾

And indeed, it is We who give life and cause death, and We are the Inheritor.

ہم ہی جلاتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی ( بالآخر ) وارث ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ ... And certainly We! We it is Who give life, and cause death, Here Allah tells us of His power to initiate creation and renew it. He is the One Who brings life to creatures out of nothingness, then He causes them to die, then He will resurrect all of them on the Day when He will gather them together. ... وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ and We are the Inheritors. He also tells us that He will inherit the earth and everyone on it, and then it is to Him that they will return. Then He tells us about His perfect knowledge of them, the first and the last of them. He says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤ ١] ہر چیز کا مالک اور وارث اللہ تعالیٰ ہے :۔ پیدائش اور موت دونوں ایسی چیزیں ہیں جن پر انسان کا ذرہ بھر بھی اختیار نہیں۔ نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے مرتا ہے۔ پھر اس کے ہاں جو اولاد ہوتی ہے وہ بھی اس کی مرضی سے نہیں ہوتی۔ پھر اس اولاد کی زندگی اور موت بھی اللہ ہی کے قبضہ ئقدرت میں ہوتی ہے۔ اور یہ سلسلہ یونہی آگے چلتا جاتا ہے۔ پھر جو کچھ انسان اپنی زندگی میں کماتا ہے۔ اس کا بھی عارضی طور پر ہی مالک ہوتا ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کی کمائی اس کے وارثوں کے قبضہ میں چلی جاتی ہے اور یہ انتقال زر اور جائیداد بھی اضطراری ہوتا ہے جس میں انسان کا اپنا کچھ اختیار نہیں ہوتا۔ پھر یہ وارثوں کا قبضہ بھی عارضی ہوتا ہے۔ اور بالآخر یہ سب کچھ اللہ کے خزانے میں جمع ہوجاتا ہے جو حقیقتاً اصلی مالک تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّا لَنَحْنُ نُـحْيٖ وَنُمِيْتُ ۔۔ : اس آیت میں زندگی اور موت اور وراثت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہونے کی تاکید ” اِنَّ “ ، لام تاکید، ” نَا “ ضمیر متکلم، ” نَحْنُ “ ضمیرمتکلم، ” نُـحْيٖ “ اور ” نُمِيْتُ “ میں ضمیر متکلم کے ساتھ کی ہے اور آخر میں پھر ” نَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ “ میں ” نَحْنُ “ کے ساتھ اور ” الْوٰرِثُوْنَ “ خبر کو الف لام برائے حصر کے ساتھ لا کر تاکید کی انتہا کردی ہے کہ زندگی اور موت کا مالک صرف اللہ ہے اور صرف وہی وارث ہے۔ عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں اتنی تاکید کا سامان ہی موجود نہیں اور اتنی تاکید کی ضرورت اس لیے ہے کہ کفار کا طرز عمل بتاتا ہے کہ وہ یہ تینوں باتیں نہیں مانتے، ورنہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے۔ جتنا انکار سخت ہوگا اتنی ہی زیادہ تاکید کے ساتھ بات کی جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ سب فنا ہوجائیں گے، مال و متاع جو کچھ بچ رہے گا وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّا لَنَحْنُ نُـحْيٖ وَنُمِيْتُ وَنَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ 23؀ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مین مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : 461- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣) اور ہم ہی حشر کے دن زندہ کریں گے اور ہم ہی دنیا میں مارتے ہیں اور تمام فخلوقات کے مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد آسمان و زمین کی تمام چیزوں کے ہم مالک ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (وَاِنَّا لَنَحْنُ نُـحْيٖ وَنُمِيْتُ وَنَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ ) یہ کائنات اور اس کی ہرچیز اللہ ہی کی ملکیت ہے۔ ایک وقت آئے گا جب ظاہری ملکیت کا بھی کوئی دعویدار باقی نہیں رہے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. It is to impress this: Your worldly life and all you possess are transitory and temporary, and Allah alone is Eternal. Your end shall come sooner or later, and you shall leave everything behind in this world, which will again become a part of Our treasure.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :15 یعنی تمہارے بعد ہم ہی باقی رہنے والے ہیں ۔ تمہیں جو کچھ بھی ملا ہوا ہے محض عارضی استعمال کے لیے ملا ہوا ہے ۔ آخر کار ہماری دی ہوئی ہر چیز کو یونہی چھوڑ کر تم خالی ہاتھ رخصت ہو جاؤ گے اور یہ سب چیزیں جوں کی توں ہمارے خزانے میں رہ جائیں گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:23) نحی۔ مضارع جمع متکلم ہم زندہ کرتے ہیں ( باب افعال) احیاء سے۔ نمیت۔ مضارع جمع متکلم اماتۃ (افعال) سے مصدر۔ موت مادّہ۔ ہم مارتے ہیں ہم موت دیتے ہیں۔ وارثون ۔ ورث یرث ورث فھو وارث۔ وارث ہونا یعنی کسی کے مرنے کے بعد اس کی چیز کا مالک ہونا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ مجازا بولاجاتا ہے کیونکہ وہ تو ہر شے کا حقیقی مالک ہے۔ اس نے اہل دنیا کو جو ملکیت دے رکھی ہے وہ مجازی ہے ایک وقت آئے گا کہ جب یہ مجازی ملکیت بھی ختم ہوجائے گی اور تمام وراثت مالک حقیقی کے پاس لوٹ جائے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ یعنی سب فنا ہوجائیں گے۔ مال و متاع جو کچھ بچ رہے گا وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ (موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢٣ تا ٢٥ یہاں یہ دو دوسرا پیراگراف پہلے پیراگراف سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ پہلے میں یہ کہا گیا تھا۔ وانا لنحن ۔۔۔۔۔ الوارثون (٢٣) ولاد علمنا۔۔۔۔ المستاخرین (٢٤) (١٥ : ٢٣- ٢٤) “ ہم نے اس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لئے ایک خاص مہلت عمل لکھی جا چکی تھی۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہو سکتی ہے ، نہ اس کے بعد چھوٹ سکتی ہے ”۔ جبکہ یہاں یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ سب کا وارث ہے اور موت کے بعد اس کی طرف لوگ اٹھیں گے۔ اللہ جانتا ہے اور اس نے لکھ رکھا ہے کہ کوئی پہلے مار دیا جائے اور کس کو مہلت عمل دی جائے اور بعد میں وہ اس جہاں سے رخصت ہو ، بہرحال موت کے بعد سب نے اٹھنا ہے ، اور اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ انہ حکیم علیم (١٥ : ٢٥) “ وہ حکیم وعلیم ہے ”۔ وہ اپنے حکمت کے مطابق اقوام و افراد کے لئے وقت مہلت طے کرتا ہے۔ اسے موت کا وقت معلوم ہے اور حشر کا وقت بھی اس نے مقرر و متعین کر رکھا ہے اور درمیانی عرصے کے امور بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس پیراگراف اور سابق دونوں پیراگراف میں منظر کی حرکات ہم آہنگ ہیں۔ آسمانوں سے نزول ہدایت ، فرشتوں کا اترنا ، شیاطین پرستاروں کی بمباری ، ہواؤں کا چلنا اور بارشوں کا نزول ، یہ سب مناظر دونوں میں ہیں۔ پھر اس دنیا اور کائنات کے بڑے بڑے واقعات آسمان ، قلعے ، ستارے اور سیارے ، زمین ، پہاڑ ، ہوائیں ، بارشیں اور نباتات بھی مشترکہ مناظر ہیں۔ ہٹ دھرمی کے اظہار کے لئے بھی ایسی ہی مثال دی گئی جو ان پیروں کے مضمون سے ہم آہنگ ہے کہ اگر آسمان میں ایک دروازہ کھول دیا جائے اور یہ لوگ اس میں چڑھ جائیں تو پھر بھی ان کے مکابرہ اور ہٹ دھرمی کا حال یہی ہوگا۔ غرض مضمون اور اس کی تصویر کشی قرآن عظیم کے انوکھے انداز تعبیر کو ظاہر کرتی ہے۔ ٭٭٭ اب یہاں تخلیق انسانیت کا قصہ عظیم پیش کیا جاتا ہے۔ آغاز انسانیت اور اس جہان میں ہدایت و ضلالت کی حکمت اور اس کے اسباب و عوامل ، یعنی قصہ آدم۔ وہ کن عناصر سے کس طرح پیدا ہوئے ؟ اور ان کی تخلیق کے وقت اور بعد کیا حالات ان کو پیش آئے۔ اس سے پہلے ، اس تفسیر میں قصہ آدم کا مطالعہ ہم نے دو دفعہ کیا ہے یعنی سورة بقرہ اور سورة اعراف میں۔ دونوں مقامات پر یہ قصہ بعض مخصوص حالات میں ، مخصوص مقاصد کے لئے بیان ہوا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں مقامات پر اس قصے کی مختلف کڑیاں لائی گئیں اور طرز ادا بھی دونوں جگہ مختلف رہا۔ قصے کی فضا اور اس کے اثرات مختلف رہے اگرچہ دونوں مقامات پر بعض اثرات اور نتائج یکساں بھی تھے۔ یہ قصہ یہاں تیسری بار آرہا ہے۔ تینوں مقامات پر اس قصے کے بعض تمہیدی بیانات یکساں ہیں۔ مثلاً سورة بقرہ میں جہاں یہ قصہ آیا ، وہاں اس سے قبل یہ کہا گیا۔ ھو الذین خلق لکم ۔۔۔۔۔۔ شییء علیم (٢ : ٢٩) “ وہی تو ہے ، جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں ، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ”۔ اور سورة اعراف (١١) میں جہاں یہ قصہ آیا اس سے پہلے کہا گیا ۔ ولقد مکنکم ۔۔۔۔۔ ما تشکرون (٧ : ١٠) “ ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں سامان زیست فراہم کیا ، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوئے ”۔ اور یہاں سورة حجر (١٩) میں کہا گیا ہے : والارض مددنھا ۔۔۔۔ موزون (١٥ : ١٩) “ ہم نے زمین کو پھیلایا ، اس میں پہاڑ جمائے۔ اس میں ہر قسم کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی۔ لیکن ان تینوں مقامات پر قصے کا انداز بیان مختلف ہے۔ اور اس سے غرض وغایت بھی مختلف ہے۔ سورة بقرہ میں اس قصے سے غرض یہ تھی کہ تخلیق کائنات کے بعد اللہ نے اس کرۂ ارض پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو اپنا نائب و خلیفہ بنایا اور زمین کے اندر جو سہولیات موجود ہیں وہ سب بنی آدم کے لئے ہیں۔ چناچہ بات کی ابتداء ہی یوں ہوئی۔ واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (٢ : ٣٠) “ اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا ، میں زمین میں خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں ”۔ اس لیے وہاں اس قصے میں آدم (علیہ السلام) کے منصب خلافت ارضی کے اسرارو رموز بیان کیے گئے ہیں جن پر فرشتوں کو تعجب ہوا ، کیونکہ وہ اسرار و رموز ان کی نظروں سے اوجھل تھے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کو اپنے خلیفہ کا مقام ان پر ظاہر کرنا پڑا۔ وعلم ادم الاسماء ۔۔۔۔۔۔ ان کنتم صدقین (٣١) قالوا سبحانک ۔۔۔۔۔ العلیم الحکیم (٣٢) قال یادم انبئھم ۔۔۔۔۔۔ کنتم تکتمون (٣٣) (٣١ تا ٣٣) “ اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے ، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا “ اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا ) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ ”۔ انہوں نے نے عرض کیا : نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں ، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ”۔ پھر اللہ نے آدم سے کہا ، تم ان چیزوں کے نام بتاؤ ”۔ جب اس نے ان سب کے نام بتا دئیے ، تو اللہ نے فرمایا : “ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں اور جو تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو ، اسے بھی ہم جانتے ہیں ”۔ اس کے بعد بقرہ میں ملائکہ کا سجدہ اور ابلیس کے انکار و استکبار کے واقعات بیان ہوئے۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کی اہلیہ کو جنت میں بسانے کی کہانی بیان کی گئی۔ پھر بتا یا گیا کہ کس طرح شیطان نے آدم و حواکو بہکایا اور یوں انہیں جنت سے خارج کرا دیا۔ اس کے بعد آدم و حوا کو زمین پر اتارا گیا اور یہاں ان کے ذمے فریضہ خلافت ارضی کی ذمہ داری لگائی گئی ۔ لیکن جنت سے خارج کرنے سے قبل ان سے امتحان لے کر زمین میں رہنے کے لئے تیار کیا گیا۔ انہوں نے توبہ کی اور اللہ سے مغفرت طلب کی۔ سورة بقرہ میں اس قصے کے بعد بنی اسرائیل کو یہ بات یاد دلائی گئی ہے کہ وہ میرے ان انعامات کو یاد کریں جو میں نے ان پر کئے۔ اور انہوں نے خدا کے ساتھ جو عہد کئے اس کو پورا کریں کیونکہ یہ فریضہ وہ ہے جو تمام انسانوں کے ابو الاباء حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے اوپر عائد کیا اور اسی عہد کی اساس پر ان کو خلافت ارضی نصیب ہوتی۔ سورة اعراف میں بھی یہ قصہ آیا ہے۔ اس میں وہ طویل کہانی بیان کی گئی جو عروج فی الجنۃ اور وہاں سے پھر نکالے جانے سے متعلق ہے۔ اس قصے میں یہ سبق یاد دلایا گیا ہے کہ ابلیس آغاز کائنات سے انسان کا دشمن تھا اور آخر تک رہے گا۔ یہاں تک کہ آدم و ابلیس جس طرح پہلے دربار الٰہی میں تھے پھر وہاں پیش ہوں۔ اب ایک فریق تو ان لوگوں کا ہوگا جو جنت میں داخل ہوں گے ، جہاں سے شیطان نے ان کے والدین کو نکالا تھا ، کیونکہ ان لوگوں نے شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی مخالفت کی۔ ایک دوسرا فریق آگ میں گرایا جائے گا ، کیونکہ انہوں نے شیطان مردود اور ہٹ دھرم کے قدموں کی پیروی کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں بھی ملائکہ کی جانب سے آدم کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا ذکر بھی ہوا۔ یہ تذکرہ بھی ہوا کہ ابلیس نے انکار اور استکبار کیا۔ اس نے اللہ سے مطالبہ کیا کہ قیامت تک اسے مہلت دی جائے تا کہ وہ ان بنی آدم کو گمراہ کرسکے جن کی وجہ سے وہ جنت سے بےآبرو کر کے نکالا گیا۔ اب آدم اور اس کی زوجہ کو جنت میں بسایا گیا اور حکم دیا گیا کہ وہ جو چاہیں وہاں کھائیں پئیں صرف ایک درخت کے قریب نہ جائیں۔ یہ ایک درکت کی ممانعت بھی دراصل علامتی ممانعت تھی۔ مقصد یہ تھا کہ آدم (علیہ السلام) کے جذبہ اطاعت امر اور ان کی قوت ارادی کو ٹیسٹ کیا جائے۔ اس کے بعد وہاں یہ تذکرہ آتا ہے کہ کس طرح شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسے ڈالے اور کس طرح انہوں نے اس درخت کا پھل چکھ لیا اور پھر کس طرح معجزانہ انداز میں ان کے جسم عریاں ہوگئے اور کس طرح اللہ کا عتاب حضرت آدم اور ان کی زوجہ پر نازل ہوا اور کس طرح ان کو ، سب کو ، زمین میں اتار کر بسا دیا گیا کہ وہ اس کرۂ ارض پر بھی حق و باطل کے معرکے میں شریک ہوں۔ فرمایا گیا : قال اھبطوا ۔۔۔۔۔ الی حین (٢٤) قال فیھا ۔۔۔۔۔ تخرجون (٢٥) (٧ : ٢٤- ٢٥) “ فرمایا اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ، اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی جائے قرار اور سامان زیست ہے ”۔ اور فرمایا : “ وہیں تم کو جینا ہے اور وہیں مرنا ہے اور اسی سے تم کو آخر کار نکالا جائے گا ”۔ انسانیت کی یہ کہانی سورة اعراف میں اسی طرح چلتی ہے یہاں تک کہ سب لوگ دوبارہ میدان حشر میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ وہاں بڑی تفصیل کے ساتھ ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں اور ردو قدح اور حساب و کتاب کے بعد ایک فریق جنت میں اور ایک فریق دوزخ میں چلا جاتا ہے۔ ونادی اصحب النار۔۔۔۔۔ علی الکفرین (٧ : ٥٠) “ اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر بھی ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے ، اس میں سے کچھ پھینک دو ۔ وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں منکرین حق پر حرام کردی ہیں ”۔ (٥٠) اور اس کے بعد اب اس منظر پر پردہ گرجاتا ہے۔ لیکن یہاں اس قصے کا مدعا کیا ہے ؟ یہاں تخلیق انسان کے اسرارو رموز اور فلسفہ ہدایت و ضلالت زیر بحث ہیں اور انسان کی ذات میں ہدایت و ضلالت کے جو عوام رکھ دئیے گئے ہیں ان سے بحث کی گئی ہے۔ چناچہ یہاں بات کا آغاز اس امر سے کیا جاتا ہے کہ انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا گیا اور اللہ نے پھر اس میں اپنی روشن روح پھونکی اور اس سے قبل اللہ تعالیٰ نے جنوں کو آگ کی لپیٹ دے پیدا کردیا تھا ، یہاں پھر سجود ملائکہ ، انکار ابلیس کے واقعات آتے ہیں۔ ابلیس کہتا ہے کہ کیا میں ایک ایسے انسان کے سامنے سربسجود ہوجاؤں جسے مٹی سے پیدا کیا گیا۔ پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ کس طرح شیطان کو ملعون قرار دے کر درگاہ الٰہی سے نکالا گیا۔ پھر اس کی طرف سے درخواست پیش ہوتی ہے کہ اسے قیامت تک کے لئے مہلت دی جائے ۔ اس کی درخواست منظور ہوتی ہے۔ یہاں شیطان اعتراف کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے گا لیکن اللہ کے جو مخلص بندے ہوں گے ان پر اسے کوئی قدرت حاصل نہ ہو سکے گی۔ وہ جن لوگوں کو گمراہ کرے گا وہ اس کی اطاعت اور اس کے طریقوں کو قبول کرنے کے لئے از خود تیار ہوں گے اور اللہ کے دین اور طریقے میں ان کو کوئی دلچسپی نہ ہوگی ۔ دونوں فریقوں کا انجام مختصراً بیان کردیا جاتا ہے بغیر تفصیل کے کیونکہ یہاں مقصد صرف تخلیق انسان اور فلسفہ ہدایت و ضلالت موضوع کلام ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ ہی وارث ہے پھر فرمایا (وَ اِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ وَ نُمِیْتُ ) (اور بلاشبہ ہم زندہ کرتے ہیں اور موت دیتے ہیں) (وَ نَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ ) (اور ہم باقی رہنے والے ہیں) ساری مخلوق ختم ہوجائے گی، سب مرجائیں گے، اللہ تعالیٰ ہی کی ذات باقی رہے گی۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ وارث کا جو ترجمہ باقی کیا گیا یہ حضرت سفیان وغیرہ سے مروی ہے اور دعا میں یہ جو (وَاجْعَلْہُ الْوَارِثُ مِنَّا) وارد ہوا ہے اس میں بھی وارث باقی کے معنی میں ہے سورة مریم میں فرمایا (اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَیْھَا وَ اِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ ) (بلاشبہ زمین اور جو کچھ زمین پر ہے ہم اس کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف لوٹ جائیں گے) جتنے بھی مجازی مالک ہیں سب ختم ہوجائیں گے اور مالک حقیقی ہی باقی رہے گا سورة مومن میں فرمایا (لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ) (آج کس کے لیے ملک ہے ؟ اللہ ہی کے لیے ہے جو تنہا ہے غالب ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

23 ۔ اور یقینا ہم ہی زندگی دیتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں اور ہم ہی سب کے وارث اور سب کے بعد باقی رہنے والے ہیں ۔ یعنی جو سب کے بعد باقی رہے وہی سب کا وارث ہے۔