Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 28

سورة الحجر

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿۲۸﴾

And [mention, O Muhammad], when your Lord said to the angels, "I will create a human being out of clay from an altered black mud.

اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The creation of Adam, the Command to the Angels to prostrate to Him, and the Rebellion of Iblis Allah tells: وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَيِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَ

ابلیس لعین کا انکار اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ان کی پیدائش کا ذکر اس نے فرشتوں میں کیا اور پیدائش کے بعد سجدہ کرایا ۔ اس حکم کو سب نے تو مان لیا لیکن ابلیس لعین نے انکار کر دیا اور کفر و حسد انکار و تکبر فخر و غرور کیا ۔ صاف کہا کہ میں آگ کا بنایا ہوا یہ خاک کا بنایا ہوا ۔ میں اس سے بہتر ہوں اس کے سامنے کیوں جھکوں ؟ تو نے اسے مجھ پر بزرگی دی لیکن میں انہیں گمراہ کر کے چھوڑوں گا ۔ ابن جریر نے یہاں پر ایک عجیب و غریب اثر وارد کیا ہے ۔ کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا ان سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ، تم اسے سجدہ کرنا انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے سنا اور تسلیم کیا ۔ مگر ابلیس جو پہلے کے منکروں میں سے تھا ۔ اپنے پر جما رہا ، لیکن اس کا ثبوت ان سے نہیں ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌ۔۔ : اولاً انسان کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر فرمایا، اب اس کے بعد اس کا قصہ ذکر فرمایا۔ (رازی) ” وَاِذْ قَالَ “ سے پہلے ” اُذْکُرْ “ مقدر مانتے ہیں کہ اے مخاطب عاقل ! وہ وقت یاد کر جب۔۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 28؀ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨) اور وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے کہا جو کہ زمین پر تھے اور تقریبا وہ دس ہزار تھے کہ میں ایک بشر کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گاڑے کی بنی ہوگی پیدا کرنے والا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) یہاں پھر وہی ثقیل اصطلاح (صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) استعمال ہوئی ہے۔ انسانی تخلیق کی ابتدا کے بارے میں ایک نکتہ یہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ قرآن میں جہاں بھی تخلیق کے ان ابتدائی مراحل کا ذکر آیا ہے ‘ وہاں لفظ آدم استعمال نہیں ہوا ‘ بلکہ بشر اور انسان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ پورے قرآن میں صرف سورة آل عمران کی آیت ٥٩ ایسی ہے جہاں اس ابتدائی تخلیق کے ضمن میں آدم کا ذکر اس طرح آیا ہے : (اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) ” یقیناً عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے۔ اس کو مٹی سے بنایا پھر کہا ہوجا تو وہ ہوگیا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٨۔ ٣٣۔ اللہ پاک نے انسان کی پیدائش کا ذکر کرنے کے بعد جو جو باتیں اس کے پیدا کرنے کے وقت پیش آئی تھیں ان کا ذکر فرمایا کہ بھلے فرشتوں کو جمع کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ بات کہی کہ میرا ارادہ ہے کہ مٹی سے انسان کو پیدا کروں اور جب آدم کا پتلہ بنالوں اور اس کے بدن میں روح پھونک دوں تو تم سب کے سب اسے سجدہ کرنا اس حکم کو سن کر فرشتوں نے جو جواب دیا اس کا قصہ سورت بقرہ میں مفصل گزر چکا ہے غرض کہ کل فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا مگر ابلیس جو جنات کی قوم میں سے تھا اور خدا کی عبادت کثرت کے ساتھ کرنے سے فرشتوں کے زمرہ میں داخل کرلیا گیا تھا اس نے آدم کے پتلے کو تعظیمی سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اپنی عقل لڑائی کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور آگ ایک لطیف شئے ہے اور مٹی ایک کثیف جسم ہے اس لئے میں ان سے بہتر ہوں انہیں کیوں کر سجدہ کروں اس پر جب اس سے اللہ جل شانہ نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تو آدم کو سجدہ نہیں کرتا تو شیطان نے جواب دیا کہ میں ایسے شخص کو ہرگز سجدہ نہ کروں گا جس کو تو نے مٹی کا خمیر بنا کر پیدا کیا اور شیطان یہ نہیں سمجھا کہ عزت و شرف اسی کو ہے جس کو خدا دے صرف اپنے گمان سے کوئی کسی سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث سورت بقرہ میں گزر چکی ١ ؎ ہے۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور ابلیس آگ کے شعلہ سے۔ اس حدیث سے ان علمائے سلف کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ابلیس ملائکہ کی طرح نوری جسم کا نہیں ہے بلکہ جنات کی طرح ناری جسم کا ہے سورت بقرہ میں بھی گزر چکا ہے کہ اسی طرح کا تعظیمی سجدہ اور شریعتوں میں جائز تھا شرع محمدی میں جائز نہیں ہے۔ ١ ؎ تفسیر ہذا جلد اول ص ٨٠۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تخلیق آدم کے بارے میں مختصر اشارہ کرنے کے بعد اس کے اعزاز کا تذکرہ۔ قرآن مجید کا یہ بھی اسلوب ہے کہ وہ کسی واقعہ کو کہانی اور زیب داستان کے لیے بیان نہیں کرتا۔ بلکہ ہر بات کو موقع محل کے مطابق اور مؤثر نصیحت کے طور پر بیان کرتا ہے۔ اثر آفرینی کے لیے کسی بات کا دوبارہ ذکر کرنا مقصود ہو تو اس کا انداز اور الفاظ پہلے بیان سے مختلف ہوتے ہیں۔ تاکہ پڑھنے والے کو نئے انداز کے ساتھ اس کی راہنمائی کے لیے نئی دلیل پیش کی جائے۔ اسی اصول کے پیش نظر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا یوں بیان فرمایا ہے کہ اے انسان ! جب تیرے رب نے ملائکہ کو حکم دیا کہ یقیناً میں بدبودار اور کھنکھناتی مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سب کے سب ملائکہ نے سجدہ کیا۔ پہلے پارے میں اس کی یوں تفصیل بیان فرمائی کہ جب آپ کے رب نے ملائکہ سے فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ خلیفہ سے مراد نمائندہ اور حکمران ہے۔ لیکن ملائکہ نے کہا، کیا آپ زمین میں اس کو خلیفہ بنائیں گے جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا ؟ ہم آپ کی حمد و ستائش کے ساتھ تسبیح اور پاکی عرض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ پھر آدم (علیہ السلام) کو تمام چیزوں کے نام بتلائے گئے۔ اس کے بعد ان چیزوں کو ملائکہ کے سامنے پیش کر کے پوچھا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔ ملائکہ نے معذرت پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ اے اللہ ! تو پاک ہے ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتلایا ہے۔ یقیناً تو ہی سب کچھ جاننے والا ہے اور تیرے ہر کام اور فرمان میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ پھر آدم (علیہ السلام) کو ان چیزوں کے نام بتلانے کا حکم دیا اور آدم (علیہ السلام) نے سب چیزوں کے نام بتلائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں زمین و آسمان کے غیب کو جانتا ہوں اور میں وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ اس کے بعد ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں۔ ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ یہاں فرمایا کہ جب میں اس کا ڈھانچہ بنا لوں اور اپنی روح پھونک دوں پھر سب کے سب اسے سجدہ کرو۔ (حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیْعِ الأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَی قَدْرِ الأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمُ الأَحْمَرُ وَالأَبْیَضُ وَالأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذَلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ )[ رواہ ابوداؤد : باب فِی الْقَدَرِ ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا فرمایا اسی لیے آدم کی اولاد زمین کی رنگت کے مطابق ہے بعض ان میں سے سرخ ہیں اور بعض سفید، اور بعض سیاہ اور انھی کے درمیان کچھ آرام اور سکون سے زندگی بسر کرنے والے ہیں اور کچھ غم زدہ اور کچھ خبیث النفس اور کچھ پاک ہیں۔ “ روح کیا ہے ؟ (وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ وَمَآأُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیْلاً ) [ بنی اسرائیل : ٨٥] ” وہ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں فرما دیں روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ “ (روح کی تفصیل سورة بنی اسرائیل کی آیت ٨٥ کی تفسیر میں بیان ہوگی۔ انشاء اللہ ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسانی سے پہلے فرشتوں کو آگاہ فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ٣۔ شیطان کے سوا تمام فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا : آیت نمبر ٢٨ تا ٢٩ چناچہ فرشتوں نے ایسا ہی کیا جس طرح اللہ نے حکم دیا تھا۔ اور اللہ نے چونکہ انسان کی تخلیق کا ارادہ کرلیا تھا اس لیے انسان مطلوبہ ارادہ کرتے ہی تخلیق ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کی روح جو اس فانی جسد خاکی میں پھونکی گئی اور جو لافانی چیز ہے وہ کس طرح اس جسد خاکی کے ساتھ آمیختہ ہوگئی ، جو فانی چیز ہے۔ ایک مومن تو ایسے سوالات نہیں کرتا کیونکہ اس موضوع پر یہ مباحثہ و مذاکرہ ایک عبث کوشش ہے۔ بلکہ اس قسم کے مباحث میں جدل وجدال کرنا محض تضیع اوقات ہوتا ہے ۔ ان موضوعات پر کلام کر کے ہم عقل کو ایک ایسے دائرے میں داخل کرتے ہیں جس میں اس کے اسباب ادراک اور اس کی قوت فیصلہ کام ہی نہیں کرسکتی۔ اس سلسلے میں جو بحثیں اس سے قبل ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں وہ اس جہل پر مبنی ہیں جس میں انسان خود عقل انسانی کی حقیقت کو سمجھنے کے حوالے سے مبتلا ہے۔ عقل انسانی کا یہ مقام ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی حدود سے آگے بڑھ کر ماوراء کے حدود میں دخل دے۔ کیونکہ عقل میں وہ طاقت ہی نہیں ہے کہ اپنے اسباب ادراک کی حدود اور صلاحیت سے آگے بڑھے کیونکہ خالق کائنات کی کیفیت عقل انسانی کی حدود سے باہر ہے۔ لہٰذا اس میدان میں عقل کو لگانا ہی حماقت ہے۔ تخلیق کائنات کے راز معلوم کرنے میں عقل انسانی کو کھپانا ہی بنیادی غلطی ہے۔ عقل اس بات میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی کہ ایک فانی چیز سے ایک خالد اور دائمی حقیقت کے ساتھ کس طرح وابستہ و آمیختہ ہو سکتی ہے۔ ایک چیز ازلی ہے اور دوسری حادث اور نہ اللہ نے عقل انسانی سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کرے اور اسے ثات کرے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف یہ بتایا ہے کہ ایسا ہوا لیکن کسی جگہ یہ نہیں بتایا کہ کیسے ہوا ؟ کیونکر ایسا ہوا ؟ یہ بات تو ثابت ہے کہ انسان مخلوق ہے اور ہمارے سامنے موجود ہے۔ عقل انسانی اس موجود حقیقت کا انکار تو نہیں کرسکتی۔ نہ عقل انسانی خود اس تخلیق کی کیفیت بتا سکتی ہے۔ عقل انسانی کے بس میں صرف یہ بات ہے کہ وہ قرآن کی خبر کی تصدیق کر دے۔ جہاں تک حقیقت تک رسائی کا تعلق ہے تو عقل انسانی ایسا نہیں کرسکتی۔ اور یہ بات ہدایتہً ثابت ہے کہ خود انسان اور عقل انسانی ایک حادث اور مخلوق اور فانی حقائق ہیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ کوئی فانی اور مخلوق چیز لافانی ، ازلی اور ابدی حقائق پر کوئی حکم نہیں لگا سکتی۔ کسی شکل و صورت میں بھی نہیں لگا سکتی۔ اس سلسلے میں عقل کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ اس میدان میں جو لانی دکھانے سے باز آجائے اور ایسے میدانوں میں کام کرے جو اس کے لئے کھلے اور محفوظ ہیں۔ مثلاً عام سائنسی میدان۔ میں نے اپنی عادت کے برعکس اس عقلی مسئلے پر یہاں قدرے طویل بحث کردی ہے حالانکہ ظلال القرآن میں ہمارا یہ طریقہ نہیں رہا ہے۔ یہ اس لیے کہ امور غیب کی نوعیت ایک جیسی ہے اور ان تمام امور غیبیہ کے مسئلے میں ہم ایک ایسا اصولی قاعدہ وضع کرنا چاہتے ہیں کہ انسانی دل و دماغ اور انسانی سوچ اور ایمان اس فائدے پر مطمئن ہوجائیں۔ بہرحال اس کے بعد کیا ہوا ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ اس قصہ سے آدم اور اولاد آدم (علیہ السلام) سے ابلیس اور اس کی ذریت کی پرانی دشمنی کو بیان کرنا مقصود ہے تاکہ اولاد آدم ان کو اپنا دشمن سمجھیں اور ان کے بہکانے اور ورغلانے میں نہ آسکیں یہ قصہ آگے بھی جہاں کہیں مذکور ہوگا اس سے یہی مقصود ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا میں آدم کو مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں جب میں اس کے جسمانی نقوش اور اس کے اعضاء کو مکمل کرلوں اور اس میں جان ڈال دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا۔ روح اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جو بدن کی حیات کا سبب عادی ہے، روح کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اظہار شرف کے لیے ہے۔ والروح جسم لطیف اجری اللہ العادۃ بان یخلق الحیوۃ فی البدن مع ذلک الجسم و حقیقتہ اضافۃ خلق الی خالق فاروح خلق من خلقہ اضافہ الی نفسہ تشریفا و تکریماً (قرطبی ج 10 ص 24) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

28 ۔ اور اے پیغمبر وہ وقت قابل ذکر ہے جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا میں سڑے ہوئے گارے کی بدبو دار مٹی سے جو خشک ہو کر کھن کھن بجتی ہوگی ایک بشر کو پیدا کرنے والا ہوں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بشر وہ کہ جو جان رکھے کہ ہاتھ سے پکڑ ا جائے اور روح رکھے ہوشیار اگلی مخلوقات یا حیوان تھے جن کو ہوش نہیں یا فرشتے یا جن تھے جن کا بدن نہ پکڑا جائے۔