Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 4

سورة الحجر

وَ مَاۤ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا وَ لَہَا کِتَابٌ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿۴﴾

And We did not destroy any city but that for it was a known decree.

کسی بستی کو ہم نے ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لئے مقررہ نوشتہ تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Every Township has its allotted Time Allah says: وَمَا أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ إِلاَّ وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُومٌ مَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ : وہ مقرر لکھا ہوا وقت جب تک باقی رہا اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت دی، لیکن جونہی مدت پوری ہوئی فوراً انھیں پکڑ لیا گیا۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ تم نے ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جھٹلانے اور ٹھٹھا اڑانے کی جو روش اختیار کر رکھی ہے اور اس پر ابھی تک ہم نے گرفت نہیں کی تو اس سے تم نے یہ کیوں سمجھ لیا کہ تمہاری گرفت ہوگی ہی نہیں ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ ۝ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں كتب) حكم) قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة/ 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد/ 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران/ 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) اور ہم نے جتنی بستی والوں کو ہلاک کیا ہے سب کی ہلاکت کے لیے ایک معین وقت نوشتہ ہوتا رہا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَمَآ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ) ہر قوم پر آنے والے عذاب کا ایک وقت معین تھا جو پہلے سے لکھا ہوا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2. This is to refute the fallacious argument of the disbelievers that Muhammad (peace be upon him) was not a true Prophet because they had received no prompt punishment for their disbelief. It is like this: We have never seized a community at the first committal of kufr. We prescribe a limit for every community to hear and understand the message and reform its ways. Then We tolerate its mischief and evil deeds up to that limit and allow it full freedom to do as it likes, and give it respite till the term expires. That is why We are tolerating their attitude of ridicule and denial. (For the full meaning of respite, please refer to ( E.N. 18 of Surah Ibrahim).

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :2 ”مطلب یہ ہے کہ کفر کرتے ہی فورا تو ہم نے کبھی کسی قوم کو بھی نہیں پکڑ لیا ہے ، پھر یہ نادان لوگ کیوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ نبی کے ساتھ تکذیب و استہزاء کی جو روش انہوں نے اختیار کر رکھی ہے اس پر چونکہ ابھی تک انہیں سزا نہیں دی گئی ، اس لیے یہ نبی سرے سے نبی ہی نہیں ہے ۔ ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ ہم ہر قوم کے لیے پہلے سے طے کر لیتے ہیں کہ اس کو سننے ، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے اتنی مہلت دی جائے گی ، اور اس حد تک اس کی شرارتوں اور خباثتوں کے باوجود پورے تحمّل کے ساتھ اسے اپنی من مانی کرنے کا موقع دیا جاتا رہے گا ۔ یہ مہلت جب تک باقی رہتی ہے ۔ اور ہماری مقرر کی ہوئی حد جس وقت تک آ نہیں جاتی ، ہم ڈھیل دیتے رہتے ہیں ۔ ( مہلت عمل کی تشری کےلیے ملاحظہ ہو سورہ ابراہیم حاشیہ نمبر ۱۸ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤۔ ٥۔ اس آیت میں اس بات کی خبر دی گئی کہ کوئی گاؤں بغیر حجت تمام کئے ہوئے ہلاک نہیں کیا گیا اور جب تک اس کا مقرر وقت نہ آچکا عذاب نہیں نازل کیا گیا جب کسی قوم کا وقت مقرر آجاتا ہے تو پھر نہ اس سے گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے اجل کے معنے وقت مقررہ کے ہیں اس سے زیادہ اس کی تفصیل سورت انعام میں گزر چکی ہے۔ اس آیت میں اہل مکہ کو جو کافر اور مشرک تھے خوف دلایا گیا ہے کہ تم جس کفر اور شرک پر جمے بیٹھے ہو ایک روز یہ کفر اور شرک جڑ سے اکھڑ جاوے گا وقت مقررہ آنے کی دیر ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھا ١ ؎ ہے۔ یہ حدیث کتاب معلوم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انتظام میں دنیا کے ہر کام کا وقت دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے لکھا جا چکا ہے اس واسطے ہر کام اپنے وقت مقررہ پر ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ عذاب کی جلدی جو کرتے ہیں پہلی امتوں کی طرح ان کے حق میں بھی عذاب کا وقت مقررہ جب آجاوے گا تو ان کو اس جلدی پر پچھتانا پڑے گا۔ صحیح سند سے تفسیر ابن ابی حاتم میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت جس کا حاصل یہ ہے کہ عذاب کی جلدی کرنے والے مشرکین مکہ میں سرکش ابو جہل وغیرہ جب بدر کی لڑائی میں مارے گئے تو مرنے کے بعد اپنی حالت پر ان کو پچھتانا پڑا مگر یہ بےوقت کا پچھتانا کچھ ان کے کام نہ آیا وقت مقررہ پر ان سرکشوں کے مارے جانے کے قصہ کو اور فتح مکہ کے قصہ کو بھی آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ بدر کی لڑائی کا قصہ پہلے گزر چکا ہے۔ فتح مکہ کے وقت ان مشرکوں کی کمزوری جس حد تک پہنچی اس کا ذکر بھی ایک جگہ گزر چکا ٢ ؎ ہے کہ اللہ کے رسول نے ان کے جھوٹے معبودوں کو لکڑیاں مار مار کر زمین پر گرادیا۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٣٣٥ باب حجاج آدم و موسیٰ ۔ ٢ ؎ جلد ہذا ص ٢٣٥۔ ٢٥٥۔ ٢٧١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:4) من قریۃ۔ ای قریۃ من القری۔ بستیوں میں سے کسی بستی کو۔ کتب۔ ایک مقرروقت۔ وقت جو لوح محفوظ پر مکتوب ہے۔ معلوم۔ جو ہر وقت علم میں ہے ۔ بھول چوک کی نذر نہیں ہوتا۔ کہ اس میں تقدیم و تاخیر ہوجائے۔ ولھا کتاب معلوم یہ جملہ قریۃ کا حال ہے یا جیسا کہ صاحب ِ کشاف (رح) نے لکھا ہے کہ یہ قریۃ کی صفت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ جب تک یہ مدت باقی رہی اللہ تعالیٰ نے انہیں مہلت دی۔ لیکن جوں ہی مدت پوری ہوئی فوراً انہیں گرفت میں لے لیا گیا۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ تم نے ہمارے رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کیساتھ تکذیب و استھذا کی جو روش اختیار کر رکھی ہے اور اس پر ہم نے تاحال گرفت نہیں کی تو اس سے تم نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ تمہاری گرفت میں لے لیا گیا۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ تم نے ہمارے رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کے ساتھ تکذیب و استھزا کی جو روش اختیار کر رکھی ہے اور اس پر ہم نے تاحال گرفت نہیں کی تو اس سے تم نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ تمہاری گرفت ہوگی ہی نہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو بستیاں ہلاک کی گئیں ان کی ہلاکت کا وقت مقرر تھا اس کے بعد فرمایا (وَمَآ اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ ) (الآیۃ) اور ہم نے جتنی بھی بستیوں کو ہلاک کیا ہے ان کے لیے ایک اجل معین ہے جو ہمارے علم میں ہے جس قوم کی ہلاکت کے لیے جو بھی اجل مقرر کر رکھی تھی اسی کے مطابق ان کی ہلاکت ہوئی اس مضمون کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان فرمایا (مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّۃٍ اَجَلَھَا وَ مَا یَسْتَاْخِرُوْنَ ) (کوئی امت اپنی مقررہ اجل سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ وہ لوگ پیچھے ہٹ سکتے ہیں) اس آیت کے جو الفاظ ہیں ان کے عموم نے یہ بتادیا کہ آئندہ بھی اگر کوئی قوم ہلاک ہوگی تو اس کی ہلاکت کا جو وقت مقرر اور مقدر ہے وہ بھی اس وقت سے آگے پیچھے نہ ہوسکے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ ہم نے آج تک کسی قوم کو مبتلائے عذاب نہیں کیا جب تک کہ ہم پیغمبر بھیج کر ان پر اپنی حجت قائم نہ کردیں اس لیے ہر قوم کی ہلاکت کے لیے ایک وقت مقرر کردیا گیا کہ اگر وہ نہیں مانیں گے تو انہیں مہلت دی جائے گی تاکہ وہ سوچ بچار سے کام لے کر راہ راست پر آنے کا موقع پا سکیں۔ لیکن جب وہ اجل مسمی تک انکار وعناد پر ڈٹے رہے تو ان کو ہلاک کردیا گیا۔ آج تک کسی قوم کو اجل مقررہ سے پہلے ہلاک نہیں کیا گیا اور نہ کسی قوم کو اس کے بعد مہلت دی گئی۔ یخبر تعالیٰ انہ ما اھلک قریۃ الا بعد قیام الحجۃ علیھا وانتھاء اجلھا وانہ لا یؤخر امۃ حان ھلاکھم عن میقاتہم ولا یتقدمون عن مدتھم (ابن کثیر ج 2 ص 547) ۔ یہ اہل مکہ کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ انکار وعناد سے باز آجائیں ورنہ ان کا بھی ایسا ہی حشر ہوگا۔ وھذا تنبیہ لاھل مکۃ و ارشاد لھم الی الاقلاع عماھم علیہ من الشرک والعناد ولالحاد الذی یستحقون بہ الھلاک (ایضاً ) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 ۔ اور ہم نے کسی بستی کو برباد و ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کی ہلاکت و بربادی کا ایک وقت مقرر لکھا ہوا تھا۔ یعنی کفر کی وجہ سے جو آبادیاں ہلاک و برباد کی گئیں ان کی بربادی کا ایک مقررہ وقت علم الٰہی میں لکھا ہوا تھا اس لئے کافروں کو جو مہلت ملی ہوئی ہے اس پر مغرور نہ ہوں ، اور مسلمان نہ اندیشہ نہ کریں کہ ان پر عذاب میں جلدی کیوں نہیں کی جاتی کیونکہ جس طرح اور بستیوں پر لکھے ہوئے وقت رہی عذاب آیا اسی طرح ان پر بھی لکھے ہوئے مقررہ وقت پر عذب نازل ہوگا ۔