Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 49

سورة الحجر

نَبِّیٔۡ عِبَادِیۡۤ اَنِّیۡۤ اَنَا الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿ۙ۴۹﴾

[O Muhammad], inform My servants that it is I who am the Forgiving, the Merciful.

میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَ أَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الاَلِيمَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ۔۔ : ” نَبَأٌ“ خاص اور اہمیت والی خبر کو کہتے ہیں۔ ” نَبِّئْ “ باب تفعیل سے امر ہے، یعنی یہ بات اچھی طرح بتادو ، تاکہ وہ امید بھی رکھیں اور خوف بھی، کیونکہ ایمان ان دونوں کے درمیان ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَوْ یَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللّٰہِ مِنَ الْعُقُوْبَۃِ ، مَا طَمِعَ بِجَنَّتِہِ أَحَدٌ، وَلَوْ یَعْلَمُ الْکَافِرُ مَا عِنْدَ اللّٰہِ مِنَ الرَّحْمَۃِ ، مَا قَنِطَ مِنْ جَنَّتِہِ أَحَدٌ ) [ مسلم، التوبۃ، باب في سعۃ رحمۃ اللہ تعالٰی۔۔ : ٢٧٥٥ ] ” اگر مومن جان لے کہ اللہ کے پاس کتنی عقوبت ہے تو کوئی اس کی جنت کا طمع نہ رکھے اور اگر کافر جان لے کہ اللہ کے پاس کس قدر رحمت ہے تو کوئی اس کی جنت سے ناامید نہ ہو۔ “ ان آیات میں رحمت و مغفرت کا بیان پہلے اور عذاب الیم کا ذکر بعد میں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اصل اور غالب صفت رحمت ہے، عذاب تو محض عدل کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف کی آیت (١٥٦) کی تفسیر۔ یہاں رحمت کے اظہار کے لیے پہلے ” عِبَادِيْٓ“ سے خطاب، پھر ” أَنَّ “ ، ” اَنَا “ ضمیر فصل اور ” الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ “ کو الف لام کے ساتھ لا کر تاکید پر تاکید فرمائی، دوسری آیت میں ” ھُوَ “ ضمیر فصل اور ” اَلْعَذَاب “ کو معرف باللام لا کر تاکید فرمائی۔ پہلی آیت میں فرمایا کہ میری صفات رحمت یہ ہیں اور ان کا مالک میرے سوا کوئی نہیں، دوسری آیت میں فرمایا اور میرے عذاب کی صفت یہ ہے، یہ نہیں فرمایا : ” وَإِنِّيْ أَنَا الْمُعَذِّبُ ۔۔ “ کہ میں ہی ایسا عذاب دینے والا ہوں، بلکہ اپنے عذاب کی صفت بیان فرمائی کہ میرا عذاب ہی ایسا ہے جو عذاب الیم ہے۔ 3 یہ آیات تمہید ہیں ان واقعات کی جو آگے آ رہے ہیں، جن میں فرشتوں کی ایک جماعت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ظہور ہوا اور انھی کے ذریعے سے اس کے عذاب الیم کا ظہور ہوا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 49؀ۙ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) آپ میرے بندوں کو خبر کردیجیے کہ میں بڑا مغفرت اور رحمت والا بھی ہوں جو کہ توبہ پر مرے اور جو توبہ نہ کرے اور کفر ہی کی حالت میں مرجائے تو اس کے لیے میری سزا بھی بڑی درد ناک ہے۔ شان نزول : (آیت ) ” نبیء عبادی انی “۔ (الخ) امام طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے اصحاب کی ایک جماعت پر سے گزرہوا وہ ہنس رہے تھے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم ہنس رہے ہو حالانکہ تمہارے سامنے جنت دوزخ کا تذکرہ ہوچکا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ آپ میرے بندوں کو اطلاع دے دیجیے کہ میں بڑا مغفرت اور رحمت والا بھی ہوں اور یہ کہ میری سزا درد ناک سزا ہے۔ نیز ابن مردویہ نے دوسرے طریقہ سے ایک صحابی سے اس طرح روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس اس درازہ سے تشریف لائے جس سے بنو شیبہ آیا کرتے تھے اور ارشاد فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں ہنستا ہوا دیکھ رہا ہوں پھر آپ چل دیے، اس کے بعد پھر واپس لوٹ کر آئے۔ اور فرمایا کہ جب میں پتھر کے پاس پہنچا تو میرے پاس جبریل امین (علیہ السلام) تشریف لائے اور کہنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ آپ سے فرماتا ہے کہ میرے بندوں کو مایوس مت کرو بلکہ ان کو اطلاع دے دو کہ میں بڑا مغفرت اور رحمت والا بھی ہوں (الخ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:49) نبیء امر واحد مذکر حاضر۔ تنبئۃ (تفعیل) سے۔ تو آگاہ کر دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے جنتیوں کا انعام اور جہنمیوں کے انجام کا ذکر ہوا ہے۔ اب اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا تذکرہ فرمایا۔ متقین اور ان کے انعامات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نہایت مشفقانہ انداز میں فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے بندوں کو فرما دیجئے کہ میں معاف کرنے والا نہایت مہربان ہوں اور انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو میری سر کشی و نافرمانی کرے گا تو میرا عذاب بھی شدید ہوا کرتا ہے۔ بخشش اور مہربانی کا ذکر کرنے کے ساتھ شدید عذاب کا اس لیے بیان کیا ہے تاکہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کی رحمت کو پیش نظر رکھ کر جان بوجھ کر سرکشی اور نافرمانی کا راستہ اختیار نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے لیے نہایت مہربان ہے اور ظالموں کے لیے جبار، قہار اور سخت عذاب دینے والا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ ، إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ تَعَالَی (وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت اللہ کے عرش پر لکھا ہوا تھا بیشک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے جا چکی ہے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلَّہِ ماءَۃَ رَحْمَۃٍ أَنْزَلَ مِنْہَا رَحْمَۃً وَاحِدَۃً بَیْنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ وَالْبَہَاءِمِ وَالْہَوَامِّ فَبِہَا یَتَعَاطَفُونَ وَبِہَا یَتَرَاحَمُونَ وَبِہَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی وَلَدِہَا وَأَخَّرَ اللَّہُ تِسْعًا وَتِسْعِینَ رَحْمَۃً یَرْحَمُ بِہَا عِبَادَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )[ رواہ مسلم : باب فِی سَعَۃِ رَحْمَۃِ اللَّہِ تَعَالَی وَأَنَّہَا سَبَقَتْ غَضَبَہُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بیشک اللہ کی رحمت کے سو حصے ہیں ان میں سے ایک حصے کو اللہ نے جنوں، انسانوں، چوپاؤں اور پرندوں میں تقسیم فرمایا جس کے ساتھ وہ آپس میں شفقت اور رحم کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وحشی جانور بھی اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں اور اللہ نے اپنی رحمت کے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں جن کے ساتھ اللہ قیامت کے دن رحم و کرم فرمائے گا۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَتْ قُرَیْشٌ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ادْعُ لَنَا رَبَّکَ أَنْ یَجْعَلَ لَنَا الصَّفَا ذَہَباً وَنُؤْمِنَ بِکَ قَالَ وَتَفْعَلُونَ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَدَعَا فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ فَقَالَ إِنَّ رَبَّکَ عَزَّ وَجَلَّ یَقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلاَمَ وَیَقُولُ إِنْ شِءْتَ أَصْبَحَ لَہُمُ الصَّفَا ذَہَباً فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ مِنْہُمْ عَذَّبْتُہُ عَذَاباً لاَ أُعَذِّبُہُ أَحَداً مِنَ الْعَالَمِینَ وَإِنْ شِءْتَ فَتَحْتُ لَہُمْ بَاب التَّوْبَۃِ وَالرَّحْمَۃِ قَالَ بَلْ بَاب التَّوْبَۃِ وَالرَّحْمَۃِ )[ مسند احمد ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں قریش نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے لیے صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے تو آپ نے فرمایا کیا تم ایسا کرو گے ؟ انھوں نے کہا ہاں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعا فرمانے پر جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور عرض کی آپ کے رب نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو ہم ان کے لیے صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیں گے لیکن جو اس کے بعد کفر کرے گا میں اسے ایسے عذاب میں مبتلا کروں گا کہ اس سے پہلے کسی کو ایسا عذاب نہ ہوگا اور اگر آپ چاہیں تو میں ان کے لیے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ ان کے لیے رحمت اور توبہ کا دروازہ کھول دے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ کا عذاب بڑا درد ناک ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عذاب کی جھلکیاں : ١۔ میرے بندوں کو بتادیں یقیناً میں بخشنے، رحم کرنے والا ہوں۔ میرا عذاب بڑا درد ناک ہے۔ (الحجر : ٤٩۔ ٥٠) ٢۔ اچھی طرح جان لو اللہ بہت سخت سزا دینے والا، بڑی مغفرت اور رحم فرمانے والا ہے۔ (المائدۃ : ٩٨) ٣۔ اللہ گناہوں کو بخشنے اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا، قدرت والا ہے۔ (المومن : ٣) ٤۔ اللہ ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا یقیناً وہ بخشنے والا، رحم والا ہے۔ (التوبۃ : ٩٩) ٥۔ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (الدہر : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١١٧ تشریح آیات ٤٩ ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ ٨٤ آیت نمبر ٤٩ تا ٥٠ گمراہوں کے عذاب اور متبعین کی جزاء کے ذکر کے متصلاً بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اس مضمون کا اعلان کردیں۔ سیاق کلام میں اس کا ربط ظاہر ہے ، یہاں اعلان رحمت اور مغفرت کو مقدم کیا گیا ہے اور اعلان سزا کا تذکرہ بعد میں کیا گیا ہے ، کیونکہ اللہ کی رضا اس میں ہے کہ لوگوں کو اس کی رحمت و مغفرت نصیب ہو ، کیونکہ اللہ نے رحمت و مغفرت کو اپنے اوپر فرض کرلیا ہے ، ہاں کبھی کبھی مضمون اور مقام کے تقاضے کے مطابق صرف عذاب کا تذکرہ ہوتا ہے یا تذکرہ تو دونوں کا ہوتا ہے لیکن سیاق کلام میں کسی مخصوص حکمت کی وجہ سے عذاب الٰہی کا تذکرہ پہلے آجاتا ہے۔ اس کی تشریح ایسے مقامات پر بھی کی گئی ہے اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان فرشتوں کا قصہ آتا ہے جو قوم لوط کی بیخ کنی کے لئے بھیجے گئے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا یہ قصہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے اور ہر جگہ اسے مختلف انداز میں لایا گیا ہے۔ ہر مقام کی مناسبت سے اس قصے کا ایک حصہ لیا گیا ہے۔ ہاں حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ بعض مقامات پر علیحدہ بھی آیا ہے۔ سورة اعراف میں قصہ لوط کا ایک حصہ گذر گیا ہے۔ پھر سورة ہود میں بھی قصہ ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوا ہے۔ سورة اعراف میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی جانب سے اپنی قوم کی فحاشی پر نکیر اور سرزنش کا ذکر تھا اور قوم کی طرف سے ان کی نکیر کا یہ جواب دیا گیا تھا : اخرجوھم من قریتکم انھم اناس یتطھرون ” نکالو ان کو اپنے گاؤں سے ، یہ لوگ بہت پاکباز بنتے ہیں “۔ لیکن جب عذاب الٰہی آیا تو اللہ نے انہیں اور ان کے اہل و عیال کو نجات دے دی ، ماسوائے ان کی ایک بیوی کے جو پیچھے رہنے والوں میں شامل ہوگئی۔ یہاں فرشتون کی آمد اور ان کے بارے میں قوم کی سرگوشیوں کا ذکر نہ تھا۔ سورة ہود میں یہ قصہ ذکر ملائکہ پر مشتمل ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بات کی گئی ہے لیکن انداز گفتگو ہر جگہ مختلف ہے۔ وہاں بعض تفصیلات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ مخصوص ہیں۔ آپ کی بیوی کھڑی تھی اور فرشتوں کی جانب سے بشارت سن رہی تھی۔ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت لوط (علیہ السلام) اور قوم لوط کے بارے میں فرشتوں سے تکرار شروع کردی۔ ان کڑیوں کا تذکرہ یہاں چھوڑ دیا گیا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بارے میں واقعات کی ترتیب بھی مختلف ہے۔ سورة ہود میں جو واقعات بیان ہوئے ، ان میں فرشتوں کی حقیقت کو پوشیدہ رکھا گیا۔ ان کی حقیقت ان پر اس وقت کھلی جب لوگ لوط (علیہ السلام) کے خوبصورت مہمانوں کا سن کر دوڑتے ہوئے چلے آ رہے تھے اور حضرت لوط (علیہ السلام) ان کو بےعزتی سے بچانے کی خاطر ان کی منت سماجت کر رہے تھے اور وہ آپ کی ایک بھی نہ مان رہے تھے یہاں تک کہ ان کو دل بھر آیا اور وہ یہ اندوہناک بات کرنے پر بھی مجبور ہوگئے۔ لو ان لی بکم قوۃ او اوی الی رکن شدید ” اے کاش کہ میں تمہارے مقابلے میں قوت رکھتا یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ میں اس کی پناہ لیتا “۔ یہاں قصے میں ابتداء ہی سے فرشتوں کی حقیقت بتا دی گئی ہے اور لوگوں کے مشورے اور برے ارادوں کی بات کو بعد میں لایا گیا ہے ، کیونکہ یہاں یہ مقصود نہیں ہے کہ قصہ کے واقعات کی ترتیب کیا ہے بلکہ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کا عذاب کس طرح آتا ہے اور یہ کہ جب فرشتے آتے ہیں تو پھر مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل دوزخ کے عذاب اور اہل جنت کی نعمتیں بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا (نَبِّئْ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) (میرے بندوں کو بتا دیجیے کہ بلاشبہ میں غفور ہوں رحیم ہوں) (وَ اَنَّ عَذَابِیْ ھُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ ) (اور بلاشبہ میرا عذاب وہ درد ناک عذاب ہے) صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ اوپر جنت میں جانے والے جن متقیوں کا ذکر ہے ان سے وہ لوگ مراد نہیں ہیں جو بالکل ہی گناہوں سے پاک صاف ہوں متقیوں سے بھی گناہ ہوجاتے ہیں لہٰذا اس آیت میں یہ بتادیا ہے کہ متقی تو جنت میں ہوں گے ہی مومن گناہ گار بھی جنت میں جائیں گے اگرچہ توبہ کیے بغیر ہی مرگئے ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور ہے رحیم ہے (البتہ گناہوں سے بچتے رہیں اور مغفرت کا بھروسہ کرکے گناہوں میں ترقی نہ کریں اور توبہ میں دیر نہ لگائیں کیونکہ وہ بخشنے والا مہربان تو ہے ہی گناہوں پر عذاب دینے کا بھی اسے اختیار ہے اور اس کا عذاب درد ناک ہے) بہت سے اہل ایمان اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں سزا بھگتیں گے اس کے بعد جنت میں جائیں گے جیسا کہ احادیث شریفہ میں وارد ہوا ہے لہٰذا گناہوں سے بچتے رہیں گناہ ہوجائے تو جلدی توبہ کرلیا کریں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:َ میرے بندوں کو خبردار کردو کہ وہ مایوس نہ ہوں کیونکہ میں معاف کنندہ اور مہربان ہوں لیکن انہیں یہ بھی بتا دو کہ وہ مایوس نہ ہوں اور مغفرت کے پیش نظر میری نافرمانیوں پر دلیر نہ ہوجائیں کیونکہ میں عذاب بھی دے سکتا ہوں اور میرا عذاب شدید ترین عذاب ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49 ۔ اے پیغمبر میرے بندوں کو خبر دیدیجئے اور آگاہ کر دیجئے کہ میں بڑی بخشش اور بڑی مہربانی کرنے والا ہوں۔