Surat ul Hijir

Surah: 15

Verse: 6

سورة الحجر

وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡ نُزِّلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ اِنَّکَ لَمَجۡنُوۡنٌ ؕ﴿۶﴾

And they say,"O you upon whom the message has been sent down, indeed you are mad.

انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Accusation that the Prophet was a Madman and Demands for Him to bring down Angels Allah tells: وَقَالُواْ ... And they say: Allah tells about the disbelief, arrogance and stubbornness of the disbelievers as reflected in their words: ... يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ ... O you (Muhammad) to whom the Dhikr (the Qur'an) has been revealed! i.e., the one who claims to receive it. ... إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ Verily, you are a mad man! i.e., by your invitation to us to follow you and leave the way of our forefathers. لَّوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَليِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

سرکش و متکبر ہلاک ہوں گے کافروں کا کفر ، ان کی سرکشی تکبر اور ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ بطور مذاق اور ہنسی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اے وہ شخص جو اس بات کا مدعی ہے کہ تجھ پر قرآن اللہ کا کلام اتر رہا ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو سراسر پاگل ہے کہ اپنی تابعداری کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اور ہم سے کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے دین کو چھوڑ دیں ۔ اگر سچا ہے تو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا جو تیری سچائی ہم سے بیان کریں ۔ فرعون نے بھی ہی کہا تھا کہ آیت ( فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ 53؀ ) 43- الزخرف:53 ) اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ اس کے ساتھ مل کر فرشتے کیوں نہیں آئے ؟ رب کی ملاقات کے منکروں نے آواز اٹھائی کہ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کئے جاتے ؟ یا یہی ہوتا کہ ہم خود اپنے پروردگار کو دیکھ لیتے دراصل یہ گھمنڈ میں آ گئے اور بہت ہی سرکش ہو گئے ۔ فرشتوں کو دیکھ لینے کا دن جب آ جائے گا اس دن ان گنہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہو گی یہاں بھی فرمان ہے کہ ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں یعنی رسالت یا عذاب کے ساتھ اس وقت پھر کافروں کو مہلت نہیں ملے گی ۔ اس ذکر یعنی قرآن کو ہم نے ہی اتارا ہے اور اس کی حفاظت کے ذمے دار بھی ہم ہی ہیں ، ہمیشہ تغیر و تبدل سے بچا رہے گا ۔ بعض کہتے ہیں کہ لہ کی ضمیر کا مرجع نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یعنی قرآن اللہ ہی کا نازل کیا ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حافظ وہی ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 67؀ ) 5- المآئدہ:67 ) تجھے لوگوں کی ایذاء رسانی سے اللہ محفوظ رکھے گا ۔ لیکن پہلا معنی اولی ہے اور عبارت کی ظاہر روانی بھی اسی کو ترجیح دیتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] قریش کا آپ کو مجنوں کہنا :۔ آپ نے سرداران قریش سے کہا تھا کہ اگر تم میری ایک بات مان لو تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تم عرب و عجم کے مالک بن جاؤ گے۔ انہوں نے کہا : && ایک کیا ہم آپ کی ایسی دس باتیں بھی ماننے کو تیار ہیں تب آپ نے کلمہ ئتوحید کی دعوت پیش کی۔ اس پر یہ قریشی سردار تلملا اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ پیغمبر اور اس کے چند ساتھی عجیب طرح کے خبط اور دیوانگی میں پڑے ہوئے ہیں۔ انھیں کھانے کو ملتا نہیں، مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسلحہ جنگ نام کو نہیں اور خواب دیکھتے ہیں قیصر و کسریٰ جیسی سپر طاقتوں کو فتح کرنے کے۔ یہ اس پیغمبر کی دیوانگی نہیں تو کیا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ : وہ یہ بات بھی استہزا کے لیے کہہ رہے ہیں، یہ نہیں کہ وہ اسے مانتے تھے۔ ” الذِّكْرُ “ سے ہر وہ چیز مراد ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی، اس میں قرآن مجید بھی شامل ہے اور حدیث بھی۔ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ : پچھلی آیات میں کفار کو کتاب اللہ کے جھٹلانے پر ڈانٹا گیا تھا، اب ان کی سرکشی کا بیان ہے اور ان کے رسول کے ساتھ استہزا اور آپ کو جھٹلانے کا بیان ہے۔ وہ لوگ مذاق کے طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پاگل اور دیوانہ کہتے تھے، حالانکہ آپ سب سے زیادہ عقل مند تھے۔ یہ ان کے کفر و استہزا کی بدترین صورت تھی اور انھوں نے یہ بات اس قدر مشہور کر رکھی تھی کہ صحیح مسلم میں ضماد ازدی کا قصہ مذکور ہے کہ وہ ازد قبیلے کا ایک فرد تھا، مکہ آیا تو اس نے مکہ کے بیوقوفوں سے سنا کہ آپ مجنون ہیں، وہ آپ کے پاس آیا اور آپ کو آپ کا علاج کرنے کی پیش کش کی، آپ نے خطبہ مسنونہ پڑھا، اس نے درخواست کی کہ آپ اسے پھر پڑھیں، آپ نے تین دفعہ یہ خطبہ پڑھا، اس نے اس کی بیحد تعریف کی اور اسی پر مسلمان ہوگیا۔ [ مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ و الخطبۃ : ٨٦٨ ] سبحان اللہ ! علاج کے لیے آنے والے کا خود علاج ہوگیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ ۝ۭ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا جُنون : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان/ 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] جنون ( ایضا ) جنوں ۔ دیونگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] کہ ان کے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان/ 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦۔ ٧) عبداللہ بن امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یوں کہا اے وہ شخص جس پر تمہارے مطابق بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) قرآن کریم نازل کیا گیا ہے، تم مجنون یا دیوانے ہو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ہمارے پاس آسمان سے فرشتے کیوں نہیں لاتے جو تمہارے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کی گواہی دیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَقَالُوْا يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ) معاذ اللہ ! ثم معاذ اللہ ! ! مجنون ” جن “ سے مشتق ہے۔ عربی میں جن کے معنی مخفی چیز کے ہیں۔ اسی معنی میں رحم مادر میں بچے کو جنین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ نظر سے پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے لفظ ” جنت “ بھی اسی مادہ سے ہے اور اس سے مراد ایسی زمین ہے جو درختوں اور گھاس وغیرہ سے پوری طرح ڈھکی ہوئی ہو۔ سورة الانعام آیت ٧٦ میں حضرت ابراہیم کے تذکرے میں یہ لفظ اس طرح آیا ہے : (فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ الَّیْلُ ) یعنی جب رات کی تاریکی نے اسے ڈھانپ لیا۔ چناچہ مجنون اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جس پر جن کے اثرات ہوں آسیب کا سایہ ہو اور اس کو بھی جس کا ذہنی توازن درست نہ ہو۔ رسول اللہ کے بارے میں یہ بات وحی کے بالکل ابتدائی دور میں کہی گئی تھی اور اس کے کہنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس طرح کے خیالات کا اظہار معاندانہ انداز میں نہیں بلکہ ہمدردی میں کر رہے تھے۔ یعنی جب ابتدا میں حضور نے نبوت کا دعویٰ کیا اور بتایا کہ غار حرا میں ان کے پاس فرشتہ آیا ہے تو بہت سے لوگوں کو گمان ہوا کہ شاید آپ کو کسی بد روح وغیرہ کا اثر ہوگیا ہے۔ چونکہ نبوت ملنے اور فرشتہ کے آنے کا دعویٰ ان کے لیے بالکل نئی بات تھی اس لیے ان کا واقعی یہ خیال تھا کہ اکیلے کئی کئی راتیں غار حرا میں رہنے کی وجہ سے ضرور آپ پر کسی بد روح یا جن کے اثرات ہوگئے ہیں۔ چناچہ سورة نٓ (اس کا دوسرا نام سورة القلم بھی ہے) جو کہ بالکل ابتدائی دور کی سورة ہے ‘ اس میں ان لوگوں کے خیالات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا : (مَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُونٍ ) ” آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3. The word zikr literally means “to cause to remember”, “to caution” and “to give advice”. But the Quran has used it as a technical term for “admonition”, which comes as a precept. Thus all the Books that had been sent down to the Messengers were zikr, and the Quran is also zikr.

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :3 ”ذکر“ کا لفظ قرآن میں اصطلاحا کلام الہٰی کے لیے استعمال ہوا ہے جو سراسر نصیحت بن کے آتا ہے ۔ پہلے جتنی کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئی تھیں وہ سب بھی”ذکر“ تھیں اور یہ قرآن بھی ”ذکر“ ہے ۔ ذکر کے اصل معنی ہیں”یاد دلانا“ ” ہوشار کرنا “ اور ” نصیحت کرنا “ ۔ سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :4 یہ فقرہ وہ لوگ طنز کے طور پر کہتے تھے ۔ ان کو تو یہ تسلیم ہی نہیں تھا کہ یہ ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے ۔ نہ اسے تسلیم کر لینے کے بعد وہ آپ کو دیوانہ کہہ سکتے تھے ۔ دراصل ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ” اے وہ شخص جس کا دعوی یہ ہے کہ مجھ پر یہ ذکر نازل ہوا ہے“ ۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت سننے کے بعد اپنے درباریوں سے کہی تھی کہ اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ ، ” یہ پیغمبر صاحب جو تم لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں ، ان کا دماغ درست نہیں ہے“ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو قرآن شریف کی آیتیں پڑھ کر سنائیں اور قریش سے یہ کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں تو قریش نے یہ دو باتیں کہیں جن کا ان آیتوں میں ذکر ہے ایک تو یہ کہ اللہ کے رسول کو انہوں نے دیوانہ بتلایا دوسری بات یہ کہی جس کا ذکر آگے ہے کہ اگر تم اللہ کے رسول ہو تو تمہارے کلام کی تصدیق کو آسمان سے فرشتے ہماری آنکھ کے سامنے کیوں نہیں آتے اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر اپنے رسول کو تسلی دی اور قریش کی پہلی بات کا جواب یہ دیا کہ اے رسول اللہ کے ان لوگوں کے دیوانہ کہنے سے تم کو کچھ رنج و الم میں نہ پڑنا چاہیے یہ کچھ نئی بات نہیں ہے تم سے پہلے جو اللہ کے رسول تھے ان سے بھی مخالف لوگ اسی طرح ٹھٹھا کرتے رہے ہیں۔ دوسری بات کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہاں اور سورت انعام میں جو دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ فرشتوں کی اصلی صورت تو ان منکروں کو موت کے وقت یا عذاب الٰہی کے وقت نظر آوے گی اب بیچ میں اگر فرشتوں کو انسان کی صورت میں ان کے پاس بھیج دیا جاوے تو ان منکروں کو یہی شک ہوگا کہ یہ انسان اللہ کا رسول کیوں کر ہوا پھر فرمایا یہ لوگ تو ایسے ڈھیٹ ہوگئے کہ دن دہاڑے آسمان پر چڑھ کر سب فرشتوں کو بھی اگر یہ دیکھ لیویں تو اس کو بھی جادو بتلا دیں گے۔ ترمذی اور مسند امام احمد میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے معتبر روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب ازل میں اللہ تعالیٰ نے سب مخلوق کو پیدا کیا تو ایک نور ہدایت بھی پیدا کیا تھا اور جو شخص علم الٰہی میں بد ٹھہر چکا تھا وہ اس نور کے حصہ سے محروم رہا اس ہدایت اور گمراہی کا اثر دنیا کے لوگوں میں پایا جاتا ١ ؎ ہے۔ ان آیتوں میں آگے یہ جو فرمایا کہ جن گنہگاروں کے دل میں اللہ کی طرف سے اللہ کے رسولوں کا انکار بس گیا ہے اس طرح کے لوگ اللہ کے کلام اور اللہ کے رسول پر ہرگز ایمان نہ لاویں گے اوپر کی حدیث کے مضمون کے موافق اور فطرت اسلامی کی صحیح بخاری و مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث کے مضمون کے موافق اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو فطرت اسلام پر پیدا کرتا ہے لیکن مرتے دم تک اس فطرت اسلامی پر قائم وہی رہے گا جو علم ازلی میں نیک قرار پا چکا ہے اور نور ہدایت ازلی کا حصہ اس کو ملا ہے قریش میں کہ جو لوگ اس گروہ میں کہ نہیں ہیں ان کے دل میں حق بات کا انکار جم گیا ہے وہ مرتے دم تک اس طرح کبھی اللہ کے رسول کو دیوانہ بتلا دیں گے کبھی اللہ کے رسول کی صداقت کے لئے آسمان سے فرشتوں کے اتر نے کی خواہش کریں گے۔ سورت الاعراف میں گزر چکا ہے کہ قوم نوح نے نوح (علیہ السلام) کو { انا لنراک فی ضلال مبین } (٨/٥٩) اور قوم عاد نے ہود (علیہ السلام) کو { ان لنراک فی سفاھۃ } (٧/٦٦) اس سے معلوم ہوا کہ ہر قوم کے مشرک لوگ اللہ کے رسولوں کو اسی طرح کم عقل دیوانہ بتلاتے رہے ہیں۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٢ باب الایمان بالقدر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:6) قالوا۔ اشارہ ہے کفار مکہ کی طرف۔ الذکر۔ ذکر کے لفظی معنی تو نصیحت کے ہیں لیکن قرآنی اصطلاح میں قرآن ہی کا ایک نام ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ کفار کی تہدید کے بعد اب ان کی سرکشی کا بیان ہے۔ نیز اوپر کی آیا تمہیں کفر بالکتاب کا بیان تھا اب کفر بالرسالت کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ (شوکانی) ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استہزا کے طور پر مجنون کہتے تھے اور قرآن اور پیغمبر کے ساتھ یہ استہزا کفر کی شدید ترین قسم ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق کا انکار اور دنیا پرستی کی وجہ سے لوگ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مجنوں کہا کرتے تھے۔ حق کے منکر اور دنیا پرست لوگوں کے سامنے دنیا کی جاہ و حشمت، وسائل اور ترقی ہی سب کچھ ہوا کرتی ہے۔ وہ انبیاء (علیہ السلام) اور مصلحین حضرات کو پاگل قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ انبیاء کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو مقدم سمجھا جائے۔ ظاہر ہے یہ بات دنیا پرست شخص کو کسی صورت گوارا نہیں ہوتی۔ اس لیے حق کے منکر اور دنیا پرست لوگ درج ذیل وجوہات کی بناء پر انبیاء کرام (علیہ السلام) کو پاگل کہا کرتے تھے۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء ( علیہ السلام) دنیا میں مبعوث فرمائے وہ نبوت سے پہلے اپنی برادری اور قوم میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن جو نہی وہ حق کی دعوت لے کر اٹھے۔ معاشرے میں احترام کی بجائے انہیں نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔ اس بناء پر دنیا دار لوگ انہیں پاگل قرار دیتے کہ یہ کیسا شخص ہے ؟ کہ بنی بنائی عزت برباد کر بیٹھا ہے۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنے مشن میں انتہا درجہ مخلص ہوا کرتے تھے۔ اس لیے وہ شب و روز اس کام میں مصروف رہتے۔ جس بناء پر انہیں مالی نقصان اٹھانا پڑتا۔ یہاں تک کہ وہ کئی کئی دن بھوکے رہ کر بھی اپنا کام جاری رکھتے۔ اس وجہ سے دنیا دار لوگ انھیں مجنون کہتے تھے۔ ٣۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) دعوت حق کی خاطر کئی قسم کے الزامات برداشت کرتے۔ یہاں تک کہ بیشمار انبیاء (علیہ السلام) قتل کردیے گئے۔ دنیا پرست لوگ ان کی موت پر یہ تبصرہ کرتے کہ اس شخص نے خواہ مخواہ لوگوں کی دشمنی مول لی اور اپنے آپ کو ہلاک کرلیا۔ پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرح سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دعوت حق کی خاطر ہر قسم کا نقصان اٹھانے اور دشمنی مول لیتے ہوئے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ جس بناء پر لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پاگل کہتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ حق کے ابلاغ کے لیے دن رات کام کرتے تھے۔ جب لوگ آپ کی دعوت اور اخلاص کا مقابلہ نہ کر پائے تو انہوں نے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ ہم اس وقت اس کی نبوت کو تسلیم نہیں کریں گے جب تک کوئی فرشتہ اس کی تائید اور تصدیق کے لیے ہمارے پاس نہیں آئے گا۔ یاد رہے اس بات میں بھی کفار کا موقف ایک نہیں رہتا تھا۔ ایک وقت میں یہ مطالبہ کرتے کہ اس نبی کو انسان کے بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ جب اس کا یہ جواب دیا گیا کہ اگر زمین میں بسنے والے لوگ فرشتے ہوتے تو ان کے لیے نبی بھی فرشتہ بھیجا جاتا۔ کیونکہ زمین میں بسنے والے انسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی سہولت اور راہنمائی کے لیے انسان کو ہی نبی مبعوث فرمایا ہے جب اس دلیل کے سامنے لاجواب ہوتے تو پھر یہ مطالبہ کرتے کہ اس کی تائید کے لیے ہمارے پاس فرشتہ آنا چاہیے۔ جس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جب فرشتے نازل ہوتے ہیں تو پھر حق کا انکار کرنے والوں کو مزید مہلت دینے کے بجائے ان کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ مسائل ١۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنوں کہا کرتے تھے۔ ٢۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے تھے۔ ٣۔ جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بھیج دیتا ہے تو پھر کسی کو مہلت نہیں ملتی۔ تفسیر بالقرآن حق کا انکار کرنے والوں پر جب فرشتے نازل ہوئے تو ان کا صفایا کردیا گیا : ١۔ ہم نہیں اتارتے فرشتوں کو مگر حق کا فیصلہ کرنے کے لیے اور اس وقت ان کو مہلت نہیں دی جاتی۔ (الحجر : ٨) ٢۔ اگر ہم فرشتے اتار دیتے تو قصہ ختم ہوجاتا اور انہیں مہلت نہ دی جاتی۔ (الانعام : ٨) ٣۔ جب قوم لوط پر فرشتے آئے۔ تو اللہ نے انہیں ملیا میٹ کردیا۔ (ہود : ٨١ تا ٨٣) ٤۔ زمین پر بسنے والے انسان ہیں اس لیے ” اللہ “ نے انسان ہی پیغمبر مبعوث فرمائے۔ (بنی اسرائیل : ٩٥) ٥۔ کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا تیرا پروردگار آئے یا اس کی بعض آیات آئیں جس دن اس ہوگیا تو پھر کسی کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا۔ (الانعام : ١٥٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ یہ شکوی ہے۔ مشرکین ماننے کے بجائے الٹا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استہزاء کرتے اور آپ کو دیوانہ ہونے کا طعن دیتے اور پھر ازراہ عناد آپ سے مطالبہ کرتے کہ آپ کی تصدیق کرنے کے لیے فرشتے آئیں جو بآواز بلند آپ کی صداقت و رسالت کا اعلان کریں۔ ” مَانُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَةَ “ یہ جواب شکوی ہے۔ فرشتوں کا اتارنا ہماری حکمت بالگہ کے ما تحت ہوتا ہے اور فرشتوں کے نازل نہ ہونے ہی میں تمہارا بھلا ہے کیونکہ جب فرشتوں کی آمد کے بعد بھی تم نہ مانو گے تو پھر فوراً ہلاک کردئیے جاؤ گے اور ہرگز مہلت نہ ملے گی۔ ای لو تنزلت الملائکۃ تشھد لک فکفروا بعد ذلک لم ینظروا۔ (قرطبی ج 10 ص 4) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6 ۔ اور کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب بنا کو یوں کہا اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے اور جس کا یہ دعویٰ ہے کہ مجھ پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہے بیشک تو مجنون و دیوانہ ہے معاذ اللہ یعنی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رو در رو دیوانہ کہتے ہیں اور خطاب کرتے ہیں کہ اے وہ شخص جو اپنے پر نزول قرآن کا مدعی ہے بلا شبہ تو مجنون و پاگل ہے۔