Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 104

سورة النحل

اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ۙ لَا یَہۡدِیۡہِمُ اللّٰہُ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴﴾

Indeed, those who do not believe in the verses of Allah - Allah will not guide them, and for them is a painful punishment.

جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے انہیں اللہ کی طرف سے بھی رہنمائی نہیں ہوتی اور ان کے لئے المناک عذاب ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: إِنَّ الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِأيَاتِ اللّهِ لاَ يَهْدِيهِمُ اللّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ Verily, those who do not believe in Allah's Ayat (signs, or revelation), Allah will not guide them, and theirs will be a painful punishment. Allah tells that He does not guide those who turn away from remembering Him and who are heedless of that which He revealed to His Messenger, those who have no intention of believing in that which he has brought from Allah. This kind of people will never be guided to faith by the signs of Allah and the Message which He sent His Messengers in this world, and they will suffer a painful and severe punishment in the Hereafter. إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِأيَاتِ اللّهِ وَأُوْلـيِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ

ارادہ نہ ہو تو بات نہیں بنتی جو اللہ کے ذکر سے منہ موڑے ، اللہ کی کتاب سے غفلت کرے ، اللہ کی باتوں پر ایمان لانے کا قصد ہی نہ رکھے ایسے لوگوں کو اللہ بھی دور ڈال دیتا ہے انہیں دین حق کی توفیق ہی نہیں ہوتی آخرت میں سخت درد ناک عذابوں میں پھنستے ہیں ۔ پھر بیان فرمایا کہ یہ رسول سلام علیہ اللہ پر جھوٹ و افترا باندھنے والے نہیں ، یہ کام تو بدترین مخلوق کا ہے جو ملحد و کافر ہوں ان کا جھوٹ لوگوں میں مشہور ہوتا ہے اور آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مخلوق سے بہتر و افضل دین دار ، اللہ شناس ، سچوں کے سے ہیں ۔ سب سے زیادہ کمال علم و ایمان ، عمل و نیکی میں آپ کو اصل ہے ۔ سچائی میں ، بھلائی میں ، یقین میں ، معرفت میں ، آپ کا ثانی کوئی نہیں ۔ ان کافروں سے ہی پوچھ لو یہ بھی آپ کی صداقت کے قائل ہیں ۔ آپ کی امانت کے مداح ہیں ۔ آپ ان میں محمد امین کے ممتاز لقب سے مشہور معروف ہیں ۔ شاہ روم ہرقل نے جب ابو سفیان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بہت سے سوالات کئے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ دعویٰ نبوت سے پہلے تم نے اسے کبھی جھوٹ کی طرف نسبت کی ہے؟ ابو سفیان نے جواب دیا کبھی نہیں اس پر شاہ نے کہا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک وہ شخص جس نے دنیوی معاملات میں لوگوں کے بارے میں کبھی بھی جھوٹ کی گندگی سے اپنی زبان خراب نہ کی ہو وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٩] یعنی جن لوگوں نے تہیہ ہی یہ کرلیا ہو کہ وہ کسی قیمت پر بھی حق بات کو تسلیم نہ کریں گے۔ تو اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ زبردستی انھیں راہ راست پر لائے۔ ان کی موت اسی حالت پر ہوگی اور انھیں اپنی کرتوتوں کی درد ناک سزا ملے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ۔۔ : ہدایت کا معنی سیدھی راہ دکھانا بھی ہے اور اس پر چلنے کی توفیق دینا بھی۔ یہاں دوسرا معنی مراد ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اللہ تعالیٰ انھیں راہ راست کی ہدایت نہیں دیتا۔ وہی اس قسم کی بےسروپا باتیں کیا کرتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ قرآن جیسی فصیح و بلیغ کتاب کو ایسا شخص تصنیف کر ڈالے جس کی اپنی زبان عربی نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۙ لَا يَهْدِيْهِمُ اللّٰهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ١٠٤؁ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٤) جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے، اللہ تعالیٰ ان کو کبھی اپنے دین کی ہدایت نہیں کریں گے جو کہ اس کے دین کو اہل نہیں ہوگا یا یہ کہ ان کو حجت کی طرف رہنمائی نہیں فرمائے گا اور نہ ان کو دوزخ سے نجات دے گا، اور ان کے لیے دردناک سزا ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۙ لَا يَهْدِيْهِمُ اللّٰهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ) اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ کسی کو زبردستی کھینچ کر ہدایت کی طرف لے آئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :108 دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”جھوٹ تو وہ لوگ گھڑا کرتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے“ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٤۔ ١٠٥۔ جو لوگ خدا کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے ذکر سے منہ پھیرتے ہیں اور اس کے کلام کی تصدیق نہیں کرتے وہ ہرگز ہدایت نہیں پاسکتے اور نہ زبردستی خدا انہیں راہ راست پر لائے گا کیونکہ ان کی بدبختی پہلے ہی خداوند عالم کے علم ازلی میں ظاہر ہوچکی ہے۔ اس لئے آخرت میں ان کے واسطے بہت ہی درد ناک عذاب مقرر کیا گیا ہے یہ لوگ یہ جو کہتے ہیں کہ قرآن محمد نے آپ جی سے گھڑ کر بنایا ہے یا کسی بشر نے انہیں سکھلایا ہے یہ ان لوگوں کا جھوٹ ہے کہ ایسے شخص کو نہایت راست گو مشہور ہیں انہیں جھٹلاتے ہیں جس وقت ابو سفیان سے روم کے بادشاہ ہرقل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چال چلن اور صفات کو دریافت کیا اور پوچھا کہ کیا تم انہیں جھوٹ کی تہمت لگا سکتے ہو تو ابو سفیان نے جواب دیا نہیں کیونکہ کبھی ان کو جھوٹ بولتے نہیں سنا اس پر ہرقل نے کہا کہ پھر بھلا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ دنیا داری کے معاملہ میں جو شخص لوگوں کے سامنے جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور اللہ پاک پر جھوٹ بولے اپنے کلام کو اس کا کلام بتا وے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت ١ ؎ جو ابو سفیان کے حوالہ سے ہے اس میں یہ ہرقل کا قصہ تفصیل سے ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ ازلی بدبختی کے سبب سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے تھے ورنہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سچ ان لوگوں میں ایسا مشہور تھا کہ ان میں کوئی شخص اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگا سکتا تھا اسی واسطے فرمایا کہ اللہ کے رسول کی صداقت کی شہرت کے بعد پھر جو یہ لوگ ان کو جھٹلاتے ہیں تو یہی لوگ جھوٹے ہیں صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جانے کے قابل اب دنیا میں ہر شخص کو وہی کام اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں جن کو علم الٰہی کے موافق وہ کرنے والا ہے اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ مشرکین مکہ اللہ کے رسول کی صداقت کے قائل تھے مگر بد بختی ازلی کے سبب سے پھر بھی اللہ کے رسول کا جھٹلانا ان کو اچھا نظر آتا تھا اور دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا ہوئی ہے اس لئے ان لوگوں کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھا۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٤ ج ١ قبل کتاب الایمان۔ ٢ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 چناچہ وہی اس قسم کی بےسروپا باتیں بکا کرتے تھے، جلایہ بھی کوئی سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ قرآن جیسی فصیح و ملیغ کتاب کو ایک ایسا شخص تصنیف کر ڈالے جس کی اپنی زبان عربی نہیں ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن کریم ان کے ان اقوال کی وجہ یہ بتاتا ہے : ان الذین لا یومنون بایت اللہ لا یھدیھم اللہ ولھم عذاب الیم (٦١ : ٤٠١) ” حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کو نہیں مانتے ، اللہ کبھی ان کو صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے “۔ یہ لوگ جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے ، اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق نہیں دی کہ وہ اس کتاب کے بارے میں صحیح رائے قائم کریں۔ نہ وہ اصل حقیقت کی طرف راہ پاسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ کفر کریں گے ، منہ موڑیں گے اور کبھی بھی مان کر نہ دیں گے۔ اس لئے ولھم عذاب الیم (٦١ : ٤٠١) ” ان کے لئے دردناک عذاب ہے “۔ یہاں اب بتایا جاتا ہے کہ رسول امین کس طرح اللہ پر افترا باندھ سکتے ہیں۔ ایسا کام تو وہ لوگ کرتے ہیں جو بدقماش لوگ ہوں اور جو افتراء پر دازی کرتے رہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَا یَھْدِیْھِمُ اللّٰہُ وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ) (بلاشبہ جو لوگ اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اللہ انہیں ہدایت نہیں دے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے) اس میں یہ فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سنتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ واقعی اللہ کی آیات ہیں پھر بھی ضد وعناد کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نہیں دے گا۔ (فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ ) دنیا میں ان کی سزا یہ ہے کہ ایمان سے محروم رہیں گے اور آخرت میں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

87:۔ یہ معاندین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ یعنی جو لوگ محض ضد وعناد کی وجہ سے اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لانا چاہتے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت کی توفیق ہی نہیں دیتا اور آخرت میں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ” انما یفتری الخ “ یہ ظالم میرے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر افتراء کا بہتان لگاتے ہیں۔ حالانکہ مفتری یہ خود ہیں کیونکہ افترء وہی شخص کرسکتا ہے جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اس لیے جھوٹے اور مفتری یہ خود ہی ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور پیغمبر (علیہ السلام) پر قرآن اپنی طرف سے بنانے کا افتراء کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

104 ۔ بلا شبہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا اور ان کو درد ناک عذاب ہوگا ۔ یعنی جو لوگ محض ضد اور ہٹ دھرمی کرتے ہیں اور ایمان نہ لانے پر نا معقول استدلال کئے جاتے ہیں ، جیسا کہ ان لوگوں نے جن کا ذکر ہوا طریقہ اختیار کر رکھا ہے تو ان لوگوں کو کبھی ہدایت نہیں ہوگی بلکہ آخرت میں یہ عذاب کے مستحق ہونگے ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جتنا سمجھاتے دے نہیں سمجھتے بےیقین آدمی محروم ہے۔ 12