Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 107

سورة النحل

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسۡتَحَبُّوا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا عَلَی الۡاٰخِرَۃِ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾

That is because they preferred the worldly life over the Hereafter and that Allah does not guide the disbelieving people.

یہ اس لئے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا یقیناً اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو راہ راست نہیں دکھاتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

That is because they preferred the life of this world over that of the Hereafter. And Allah does not guide the people who disbelieve. They will suffer severe punishment in the Hereafter, because they preferred this life to the Hereafter, and they left the faith for the sake of this world and Allah did not guide their hearts and help them to stand firm in the true religion. أُولَـيِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ وَأُولَـيِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

107۔ 1 یہ ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے (مرتد ہوجانے) کی علت ہے کہ انھیں ایک تو دنیا محبوب ہے۔ دوسرے اللہ کے ہاں یہ ہدایت کے قابل ہی نہیں ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٣] مہر کن لوگوں کے دلوں پہ لگتی ہے ؟ یہ اس لیے کہ ایسے لوگوں نے اسلام کو حق سمجھ کر قبول تو کرلیا & مگر اس کی حقانیت اور مصائب کے عوض اخروی اجر کی قدر و قیمت ان کی نگاہوں میں اتنی بھی نہ تھی کہ اپنے دنیوی مفادات کا وقتی طور پر کچھ نقصان برداشت کرلیتے۔ یہ دنیا طلبی اور ہوا پرستی کے نشہ میں ایسے مست ہوچکے ہیں کہ ان کے ہوش میں آنے کی کوئی امید نہیں۔ اور عقل و فکر کی جو قوتیں عطا کی گئی تھیں ان سب کو انہوں نے بیکار بنادیا۔ ایسے ہی لوگوں کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا ۔۔ : عذاب عظیم کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اور کفر اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ کی طرف سے توفیق ہدایت سے بھی محروم ہوگئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ ١٠٧؁ استحباب وحقیقة الاستحباب : أن يتحرّى الإنسان في الشیء أن يحبّه، واقتضی تعدیته ب ( علی) معنی الإيثار، وعلی هذا قوله تعالی: وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت/ 17] میں ایسا معنی تلاش کرنے کے ہیں جس کی بناء پر اس سے محبت کی جائے مگر یہ ان علی ( صلہ ) کی وجہ سے اس میں ایثار اور ترجیح کے معنی پیدا ہوگئے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْناهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمى عَلَى الْهُدى [ فصلت/ 17] کے معنی بھی یہ ہیں کہ انہوں نے اندھا پن کو ہدایت پہ ترجیح دی ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٧) اور یہ عذاب اس وجہ سے ہوگا کہ انہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں عزیز رکھا اور کفر کو ایمان پر ترجیح دی، اور اللہ تعالیٰ جو اس کے دین کا اہل نہ ہو اسے اپنے دین کی طرف ہدایت دیتا ہے اور نہ اس کو اپنے عذاب سے نجات دیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:107) طبع علی۔ مہر لگانا۔ طبع اللہ علی قلبہ اس کے دل پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی۔ یعنی وہ نیکی کی توفیق سے محروم ہوگیا۔ الغافلون۔ الکاملون فی الغفلۃ۔ نتائج و عواقب سے غفلت۔ غفلت کی انتہا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ دین کی مخالفت اور کفر کو اختیار کیے رکھنے کی بنیادی وجہ۔ دین میں داخل ہونے والا شخص سب سے پہلے اپنی ” انا “ اور نظریات کی قربانی کرتا ہے۔ بسا اوقات اسے دنیاوی مفاد، برادری اور اعزاء و اقارب یہاں تک کہ اسے سماجی اور معاشرتی سٹیٹس چھوڑنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے یہ قربانیاں وہی شخص دے سکتا ہے جو دنیا کے فوائد چھوڑ کر دین کی دعوت پر خوش اور مطمئن ہوجائے۔ یہ کام دنیا پرست شخص نہیں کرسکتا بیشک وہ اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے کتنا ہی اسلام کا پرچار کرنے والا ہو اس بات کو چند الفاظ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے ” جس نے کسی حوالے سے بھی دنیا کو آخرت پر مقدم جانا اور اسلام کی عظیم نعمت کی طرف توجہ نہ دی ایسا کرنا کفر ہے اور کافر کو اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی طرف ہدایت نہیں دیتا۔ دینوی مفاد حق کے منکروں پر اس طرح غالب رہا ہے کہ بالآخر اس جرم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا کر ان کی آنکھوں پر غفلت کا پردہ ڈال دیا۔ اسی حالت میں موت نے انھیں دبوچ لیا۔ ان کے مرنے کے بعد ان کے لیے نقصان ہی نقصان ہوگا۔ گناہ کی وجہ سے دل کا سیاہ ہونا : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُوْلِ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْٓءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ہُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَاد زیدَ فِیْہَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَہُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللَّہُ (کَلاَّ بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) )[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن، باب وَمِنْ سُورَۃِ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ (حسن )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بلاشبہ جب بندہ گناہ کرتا ہے اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے جب وہ اس گناہ کو چھوڑتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ دوبارہ گناہ کرتا ہے تو اس سیاہ نکتے میں اضافہ کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی سیاہی دل پر غالب آجاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ نے کیا ہے ” کیوں نہیں ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ پڑچکا ہے۔ “ مسائل ١۔ دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ ٢۔ اللہ کفار کو ہدایت نہیں دیتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ ٤۔ اللہ کے ساتھ کفر کرنے والے خائب و خاسر ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کے دلوں پر مہر ثبت کرتا ہے : ١۔ اللہ نے کفار کے دل، سماعت اور بصارت پر مہر لگا دی۔ (النحل : ١٠٨) ٢۔ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے مہر لگا دی۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (النساء : ١٥٥) ٣۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ (محمد : ١٦) ٤۔ اللہ زیادتی کرنے والوں کے دلوں پر مہر ثبت فرماتا ہے۔ (یونس : ٧٤) ٥۔ اللہ ہر جابر اور متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المومن : ٣٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ ) (اللہ تعالیٰ کا یہ غصہ اس لیے ہے کہ انہوں نے دنیا والی زندگی کو آخرت والی زندگی پر ترجیح دی) اصل بات یہ ہے کہ اسلام کو سچا جاننے کے باوجود اسلام قبول نہ کرنا یا اسلام قبول کرکے دوبارہ کفر میں چلا جانا یہ دنیا کی محبت ہی کی وجہ سے ہوتا ہے، عہد اول کے مسلمانوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا تو ہمارے مال چھن جائیں گے یا عہدے جاتے رہیں گے یا زمین و جائیداد سے ہاتھ دھونا پڑے گا یا عزیز و اقارب چھوٹ جائیں گے یا ہم پر مار پڑے گی یا قتل کردئیے جائیں گے، جب ان پر حق واضح ہوگیا تو دنیا اور دنیا کی زندگی اور اہل دنیا اور دنیا کے منافع ٹھکرا دئیے اس زمانہ میں جن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا اور اس کے بعد بھی جو لوگ اسلام سے بچتے رہے ان سب کے سامنے دنیاوی جاہ و مال اعزہ واقربیٰ آتے رہے اور ان کی وجہ سے اسلام سے منہ موڑے رہے، اور اب اس زمانہ میں بھی جبکہ اسلام کی حقانیت واضح طور پر سب کے سامنے آچکی ہے اور اس کے حق ہونے کے اقراری بھی ہیں پھر بھی قبول نہیں کرتے اس میں بھی وہی جاہ و مال کی محبت کام کر رہی ہے جو ان کے دلوں میں پیوست ہے، جو لوگ اسلام قبول کرلیتے ہیں وہ اپنی آخرت کو ترجیح دیتے ہیں ان کا ضمیر انہیں بتاتا ہے کہ حقیر دنیا جو چند روزہ ہے اگر تھوڑا سا مال اور ذرا سا اقتدار جاتا رہا تو آخرت کی بےنہایت نعمتوں کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں، ہندوستان جیسے ملک میں ہندو مسلمان ہوتے رہتے ہیں انہیں خاندان کے لوگ اور پولیس والے اور شہر والے طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے ہیں وہ پھر بھی اسلام پر جمے رہتے ہیں۔ جو لوگ اسلام قبول کرکے کافر ہوجاتے ہیں وہ بھی مال یا عورت یا عہدہ کی وجہ سے ایمان کو چھوڑتے ہیں، حقیر دنیا کے لیے اپنی آخرت کو تباہ کرلیتے ہیں، بعض جماعتیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں جن میں ختم نبوت کے منکر بھی شامل ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی شخص کو نبی ماننے کی وجہ سے کافر ہیں یہ لوگ اور ان کے استاد یعنی نصاریٰ (جن سے انہوں نے اہل ایمان کے دلوں سے ایمان کھرچنے کا طریقہ سیکھا ہے) یہ سب مال و جاہ اور عورتوں کی پیشکش کرتے رہتے ہیں اور دنیا سے محبت کرنے والوں کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں یہ دنیا وبال عظیم ہے۔ (وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ) (اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا) جب دنیا کی وجہ سے کفر اختیار کرلیا تو اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہدایت نہ ہوگی

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

89:۔ شرح صدر کے ساتھ کفر کو قبول کرنے پر یہ سزا اس لیے دی جائے گی کہ انہوں نے ضد وعناد کی وجہ سے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی اور بوجہ عناد انہیں ہدایت کی توفیق بھی نصیب نہ ہوگی۔ ” اولئک الزین الخ “ ان کو اللہ تعالیٰ نے سوچنے کے لیے دل، سننے کے لیے کان، اور دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں مگر انہوں نے ان سے کام نہ لیا اور ضد پر اڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کانوں اور آنکھوں پر مہر جباریت ثبت کردی اور ان سے ہدایت کی توفیق سلب کرلی۔ یہ لوگ وسائل علم کو استعمال نہ کرنے کی بنا پر حق سے بالکلیہ غافل ہیں اور آخرت میں ان کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

107 ۔ اس عذاب اور غضب الٰہی کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کو عزیز رکھا اور دنیا کی زندگی کو آرت کے مقابلے میں ترجیح دی اور نیز اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ ایسے کافر لوگوں کو ہدایت نہیں کیا کرتا ۔ یعنی جو دنیا کو آخرت پر ترجیح دیں اور کفر پر اصرار کریں اور ایمان لانے کے بعد پھر شرح صدر کے ساتھ مرتدہو جائیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اور جو کوئی ایمان سے پھرا ہے تو دنیا کی غرض کی جان سے ڈر کر یا برادری کی خاطر سے یا زر کے لالچ سے جس نے دنیا عزیز رکھی اس کو آخرت کہاں اگر جان کے ڈر سے لفظ کہے تو چاہئے جب ڈرکا وقت جا چکے پھر توبہ استغفارکر کہ ثابت ہوجاوے۔ 12