Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 111

سورة النحل

یَوۡمَ تَاۡتِیۡ کُلُّ نَفۡسٍ تُجَادِلُ عَنۡ نَّفۡسِہَا وَ تُوَفّٰی کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾

On the Day when every soul will come disputing for itself, and every soul will be fully compensated for what it did, and they will not be wronged.

جس دن ہر شخص اپنی ذات کے لئے لڑتا جھگڑتا آئے اور ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور لوگوں پر ( مطلقاً ) ظلم نہ کیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ ... (Remember) the Day when every person will come pleading, meaning making a case in his own defence. ... عَن نَّفْسِهَا ... for himself, means, no one else will plead on his behalf; not his father, not his son, nor his brother, nor his wife. ... وَتُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ ... and every one will be paid in full for what he did, meaning whatever he did, good or evil. ... وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ and they will not be dealt with unjustly. meaning there will be no decrease in the reward for good, and no increase in the punishment for evil. They will not be dealt with unjustly in the slightest way.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111۔ 1 یعنی کوئی اور کسی حمایت میں آگے نہیں آئے گا نہ باپ، نہ بھائی، نہ بیٹا نہ بیوی نہ کوئی اور۔ بلکہ ایک دوسرے سے بھاگیں گے۔ بھائی بھائی سے، بیٹے ماں باپ سے، خاوند بیوی سے بھاگے گا۔ ہر شخص کو صرف اپنی فکر ہوگی جو اسے دوسرے سے بےپروا کر دے گی۔ " لکل امرء منھم یومئذ شأن یغنیہ " ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک ایسا مشغلہ ہوگا جو اسے مشغول رکھنے کیلیے کافی ہوگا۔ 111۔ 2 یعنی نیکی کے ثواب میں کمی کردی جائے اور برائی کے بدلے میں زیادتی کردی جائے۔ ایسا نہیں ہوگا کسی پر ادنیٰ سا ظلم بھی نہیں ہوگا۔ برائی کا اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنا کسی برائی کا ہوگا۔ البتہ نیکی کی جزا اللہ تعالیٰ خوب بڑھا چڑھا کر دے گا اور یہ اس کے فضل وکرم کا مظاہرہ ہوگا جو قیامت والے دن اہل ایمان کے لئے ہوگا۔ جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْھُمْ ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٥] قیامت کے دن صرف اپنی اپنی جان کی فکر ہوگی :۔ ان مہاجرین و مجاہدین کی لغزشیں اس دن معاف کردی جائیں گی جس دن ہر شخص کو صرف اپنی ہی فکر پڑی ہوگی۔ ماں، باپ، بھائی، بہن، بیوی، اولاد کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا حتیٰ کہ اس سے بولنا بھی پسند نہ کرے گا بلکہ ان سے بچتا پھرے گا۔ ہر ایک کو یہ فکر ہوگی کہ وہ عذاب الٰہی سے کیسے نجات حاصل کرسکتا ہے اس غرض کے لیے وہ کچھ جھوٹے سچے عذر بھی تراشے گا اور سوال و جواب کرکے چاہے گا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ : یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے غفور و رحیم ہے اس دن جب۔۔ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَتُوَفّٰى ۔۔ : یعنی اس دن ہر مرد و عورت صرف اپنی جان بچانے کی فکر میں ہوگا، نہ اسے کسی کی فکر ہوگی نہ کسی کو اس کی۔ ہر ایک بس اپنی ذات کے دفاع کے لیے بحث اور عذر بہانے کر رہا ہوگا، پھر ہر ایک نے جو کیا اسے اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا، کسی پر ظلم نہ ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَتُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ١١١؁ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ وفی پورا الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء/ 35] ( و ف ی) الوافی ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء/ 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١١) یعنی قیامت کے دن ہر ایک نیک وبد اپنی ہی طرفداری میں اور اپنے شیطان یا اپنی روح کے ساتھ گفتگو کرے گا اور ہر ایک نیک وبد کو اس کے اعمال کا خواہ نیک ہوں یا بدپورا بدلہ ملے گا، یعنی نیکی کے بدلہ میں کمی نہ ہوگی اور بدی کے بدلہ میں زیادتی نہ ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا) روز قیامت ہر شخص چاہے گا کہ کسی نہ کسی طرح جہنم کی سزا سے اس کی جان چھوٹ جائے۔ لہٰذا اس کے لیے وہ مختلف عذر پیش کرے گا ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:111) یوم۔ منصوب بوجہ رحیم کا ظرف زمان ہونے کے ہے یعنی اس کی یہ مغفرت ورحمت اس روز ہوگی جس روز۔۔ یا یہ اذکر (محدوذف) کا مفعول بہٖ ہے لیکن اول الذکر زیادہ راجح ہے۔ کیونکہ خسرون کے وقت سزا کے لئے فی الاخرۃ آیا ہے۔ (فی الاخرۃ ہم الخسرون) اور یہہاں بھی یوم سے مراد یوم قیامت ہی ہے۔ تاتی۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ وہ آئے گی۔ اتیان سے ضمیر فاعل کل نفس کے لئے ہے۔ کل نفس۔ ہر جان۔ تجادل۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ مجادلۃ (مفاعلۃ) سے وہ جھگڑا کرے گی وہ جھگڑا کرتی ہے، وہ جھگڑتی ہے۔ مجادلۃ باہم جھگڑنا۔ یہاں مجادلہ عذر۔ معذرت۔ اور صفائی پیش کرنے کے معنی میں ہے۔ عن نفسھا۔ اپنی ذات کے متعلق۔ پہلا نفس (کل نفس) جان یا شخص کے مترادف ہے اور دوسرے نفس کے معنی اس جان یا شخص کی ذات ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع کل نفس ہے ۔ توفی۔ مضارع مجہول واحد مؤنث غائب۔ توفیۃ (تفعیل) سے ہے پورا پورا دیا جائے گا۔ پورا (بدلہ ) دیا جائے گا۔ وہم لا یظلمون۔ اور ان پر (ذرا بھی) طلم نہ کیا جائے گا۔ اس میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب جملہ نفوس کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی یہ بخشش اور رحمت اس دن ہوگی جب …… 5 یعنی قیامت کے دن کسی کی طرف سے کوئی نہ بول سکے گا اور نہ اس دن ظلم چل سکے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١٥) اسرارومعارف قیامت کا روز ایسا کٹھن ہوگا کہ ہر شخص اپنی جان کی فکر میں اپنے اور صرف اپنے لیے شور کر رہا ہوگا دنیا کے رشتے ناطے اور دنیا داری کی محبتیں سب کچھ کسی کو ذرہ برابر متاثر نہ کرسکے گا ، لیکن یہ شور بھی کس کام کا جبکہ بدلہ پورے انصاف اور عدل سے ملے گا اور کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہ کی جائے گی بلکہ اللہ جل جلالہ کی رحمت و بخشش سے احسان تو کیا جائے گا کہ تھوڑے عمل کا اجر زیادہ عطا کردیا جائے ، مگر گناہ اور جرم کی سزا اسی قدر ملے گی جو اس جرم پر مرتب ہوگی ، یہ الگ بات ہے کہ اللہ جل جلالہ کی نافرمانی نہ معمولی جرم ہے اور نہ اس کی سزا معمولی ہوگی ، دنیا میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں کہ کتنے ایسے شہر تھے جو بڑے مزے سے رہتے تھے اور ہر جانب سے روزی وہاں کچھی چلی آتی تھی مگر انہوں نے انعامات الہی سے کفر کیا تو اللہ جل جلالہ نے ان پر بھوک اور خوف جیسی بلائیں مسلط کردی جو ان کے کردار کا پھل تھا خود اہل مکہ اس کی بہترین مثال تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد وہاں قحط پڑگیا ، حتی کہ لوگوں نے کتے بلیاں اور مردار کیا غلاظت تک کھائی پھر ابو سفیان نے ایمان لانے سے قبل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم تباہ ہو رہی ہے جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منور سے کھانے کا سامان بھی بھجوایا اور دعا فرمائی تو انہیں قحط سے نجات نصیب ہوئی ۔ (کفر اور نافرمانی سے افلاس مسلط ہوتا ہے) یہ بات ثابت ہوئی کہ کفر اور نافرمانی سے قحط اور افلاس مسلط ہوتا ہے اور خوف کی سزا دی جاتی ہے ، ہمارے انگریزی خواں طبقے کو خصوصا یہ خیال رہتا ہے کہ پھر یہ سزا مغرب کے کافر اور بدکار معاشرے کو کیوں نہیں دی جاتی لیکن شاید وہ مغرب کی محض ظاہری چمک دیکھتے ہیں اندر سے واقف نہیں ، یورپ وامری کہ میں لوگ مہمان تک برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ، بوڑھے والدین کو کھانے کے لیے کچھ دے نہیں سکتے ، بچوں کو سرکاری وظیفہ نہ ملے تو پال نہیں سکتے ، باوجود اس کے کہ اکثر لوگ دو دو جگہ نوکری کرتے ہیں اور رات دن بھاگ دوڑ لگی رہتی ہے ، یہ تو ان کا معاشی حال ہے رہا خوف تو کافر معاشرے کی سب سے خطرناک اور لاعلاج بیماری ہی خوف ہے ، اور یہ عجیب بات ہے کہ وہ یہ تک نہیں جانتے کہ یہ خوف کس شے کا ہے یا کیسا ہے ، اس کا نام ہی انجانا خوف (FEAE OF THW UNK NOWN) رکھا گیا ہے بلکہ خود یہاں اپنے معاشرے میں بدکار کو دیکھ لیں کروڑ پتی ہے تو بھی مقروض ہی ہوگا اور خوف زدہ بھی حکومت اس کا علاج ہر طرح سے کرنے کی کوشش کرتی ہے ، کاش اس معاشرے میں حکما اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روک دیا جائے تو یہ سارا مسئلہ خود بخود حل ہوجائے ، کہ جب بھی کسی کو ایسی سزا ملی تو اس کا سبب یہی بنا کہ ان کے پاس اللہ جل جلالہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا یا اس کی تعلیمات پہنچیں ، انہوں نے ان کا انکار کیا تو گرفتار بلا ہوگئے ان پر کسی نے کوئی زیادتی نہ کی بلکہ وہ خود اپنے لیے ظالم ثابت ہوئے ۔ لہذا ضرور کھاؤ پیو کھانے پینے سے ممانعت نہیں کی گئی کہ اللہ جل جلالہ نے یہ نعمتیں اسی لیے تو پیدا فرمائی مگر حلال یعنی جائز طریقے سے حاصل کرکے اور پاکیزہ صاف ستھری اور اللہ جل جلالہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو ، اگر تمہیں اس کی عظمت کا اقرار ہے اور تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو تو ، (حلال کھانا) یہاں غذا اور کھانے کا مزاج پر اثر ہوتا ہے کہ حلال اور طیب کھانے سے شکر اور عبادت کرنے کی توفیق ارزاں ہوتی ہے اور حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق پیٹ میں حرام ہو تو نہ تو دعا قبول ہوتی ہے اور نہ گوشت کا حصہ جو حرام سے بنا دوزخ کی آگ سے بچ سکے گا ۔ اب بڑے بڑے حرام کھانے یہ ہیں کہ اللہ جل جلالہ نے ہر مردار کو حرام کردیا خواہ ویسے وہ جانور حلال بھی ہو مگر بغیر ذبح کے مر گیا تو حرام ہوگا اور خون حرام ہے ، خنزیر حرام ہے اور ایسا ذبح بھی حرام ہے جس پر بوقت ذبح اللہ جل جلالہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ، اور ان حرام اشیاء میں سے بھی مجبور ہو کر کوئی جان بچانے کے لیے کسی قدر کھالے کہ نہ تو لذت کی طلب ہو اور نہ محض پیٹ بھرنے کی تو اسے گناہ نہ ہوگا کہ اللہ جل جلالہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے یعنی مشرکین نے جو بہت سی اشیاء اپنی طرف سے حرام قرار دے رکھی تھیں ، ان میں تو صرف یہ چار چیزیں ایسی ہیں جو واقعی اللہ جل جلالہ کی طرف سے حرام ہیں باقی انہوں نے اپنی طرف سے گھڑ لی ہیں اور اپنی طرف سے یہ گھڑ لینا کہ فلاں چیز حلال یا حرام ہے ، اللہ جل جلالہ پر جھوٹ اور بہتان باندھنے والی بات ہے جو اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ جل جلالہ پر بہتان باندھنے والے کبھی بھی فلاح یعنی کامیابی کا منہ نہیں دیکھتے ، اگر چند روز دنیا کی مہلت کو وہ اپنی نادانی سے کامیابی سمجھتے ہیں تو یہ کوئی بات نہیں ، محض چند روزہ اور بہت کم فرصت ہے جس کے بعد ایسے لوگوں کے لیے بہت دردناک عذاب ہے ، اگرچہ قرآن وحدیث میں اور چیزیں حرام ہونا بھی ثابت ہے مگر مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی تفسیر کے مطابق جو چیزیں مشرکین نے حرام قرار دے رکھی تھیں ان میں سے واقعتا صرف یہ چار چیزیں ہی حرام تھیں ، ہاں یہودیوں پر بعض اور چیزیں بھی حرام تھیں جن کا بیان قبل ازیں ہوچکا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتا دیا گیا وہ بھی اللہ کریم نے زیادتی نہیں کی تھی بلکہ ان کی اپنی زیادتیوں کا نتیجہ تھا ۔ اللہ کریم تو بہت بڑی رحمت و بخشش والا ہے کہ اگر عہد جہالت میں کوئی ایسی قباحتوں میں مبتلا بھی رہا ہو یا اپنی جہالت کے باعث گناہ اور نافرمانی میں مبتلا ہو بھی جائے اور پھر توبہ کرلے نیز توبہ یہ ہے کہ اپنے کردار کی اصلاح کرلے تو اللہ جل جلالہ کی بخشش کو پالے گا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 111 تا 113 تاتی آئے گا۔ تجادل جھگڑتا ہے۔ توفی پورا دیا جائے گا۔ عملت عمل کیا۔ لایظلمون زیادتی نہ کیا جائے گا۔ ضرب اللہ اللہ نے بیان کیا۔ قریۃ بستی، شہر۔ کانت امنۃ مطمئن تھی۔ رغد سہولت سے، بافراغت۔ انعم اللہ اللہ کی نعمتیں۔ اذاق چکھایا۔ لباس الجوع بھوک کا لباس (بھوک مسلط ہوگئی) آ یصنعون وہ بناتے ہیں۔ کذبوا انہوں نے جھٹلایا۔ اخذ پکڑ لیا۔ تشریح : آیت نمبر 111 تا 113 قرآن کریم میں متعدد مقامات پر قیامت کے ہولناک دن کے متعلق بیان کرنے کے بعد یہ فرمایا ہے کہ اس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔ ہر ایک طرح طرح کے عذر و معذرت پیش کر کے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس دن ہر طرح کی معذرت کرنا بےکار ہوگی کیونکہ عمل کا وقت تو گذر گیا ہوگا۔ اب تو ہر ایک کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی۔ نہ عذاب میں کمی کی جائے گی اور نہ زیادتی کی جائے گی۔ سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرما دے تو اور بات ہے ورنہ اللہ کے اصولوں کے مطابق ہر شخص کو اپنے کئے ہوئے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ جس نے اللہ کے دین اور نعمت کی قدر کی ہوگی اس دن وہ خوش اور مسرور ہوگا۔ لیکن جو اس دنیا میں اپنے گھر والوں اور بچوں میں تو بڑی خوشیاں مناتا ہوگا۔ اور اس کو فکر آخرت نہ ہوگی تو وہ اس دن بےچین اور بےقرار ہوگا ۔ اس آیت میں اشارہ اس طرف کیا گیا ہے کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہی کفر و شرک سے توبہ کرلی جائے ورنہ جب وہ قیامت کا دن آجائے گا تو پھر عمل کا وقت نکل جائے گا۔ اس آیت کی مناسبت سے ایک پرسکون و اطمینان والی بستی کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور اللہ کی نعمت یعنی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قدر نہ کی تو اللہ نے اسی دنیا میں دکھا دیا کہ ان پر سات سال تک اتنا شدید قحط پڑا کہ وہ گھاس پھونس، پتے اور غلاظت و گندگی تک کھانے پر مجبور ہوگئے۔ فرمایا کہ یہ تو دنیا میں نافرمانی کا نتیجہ ہے کہ کوئی کسی کو نہیں پوچھ رہا ہے۔ ابھی تو توبہ کرنے اور عمل کرنے کا وقت ہے لیکن جب نتیجہ کا وقت ہوگا۔ تو وہاں عمل کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ فرمایا کہ ایک ایسی بستی تھی جس میں امن، چین، سکون اور اطمینان تھا ہر طرف سے ہر طرح کا رزق پہنچ رہا تھا۔ کھانے پینے کی چیزوں کی کمی نہ تھی۔ لیکن امن و چین نے اس شہر کے لوگوں کو اس قدر مغرور اور متکبر بنا دیا تھا کہ وہ اللہ کو بالکل بھول گئے تھے اور انہوں نے ہر نصیحت کرنے والے کی ہر نصیحت کو برا محسوس کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت انبیاء کرام ہیں ان کی بھی ناقدری کی گئی تو اللہ نے ان پر ایسا عذاب مسلط کیا جس نے ان کے اطمینان و سکون کو بےچینی، خوف اور ڈر سے تبدیل کردیا گیا۔ خوش حالی کی جگہ بھوک، قحط اور آپس کے جھگڑوں کا عذاب مسلط ہوگیا دشمن کے خوف، فقر و فاقہ اور بےسکونی کے ساتھ ساتھ قحط نے ان کی کمر دوہری کردی تھی۔ یہ کونسی بستی تھی اس کو متعین کر کے کچھ کہنا تو مشکل ہے۔ ہر ایک وہ بستی ہو سکتی ہے جہاں کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمت کی ناشکری اور ناقدری کی جس کے نتیجے میں ان پر اللہ کا عذاب آیا۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ اس آیت میں اگرچہ کسی بستی کا نام نہیں لیا گیا۔ لیکن نام لئے بغیر اس بستی سے مراد ” مکہ مکرمہ “ ہے اس صورت میں جس بھوک اور خوف کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد وہ قحط ہوگا۔ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت ایک مدت تک قحط کی شکل میں مکہ مکرمہ پر مسلط رہا۔ اس روایت کی تائید میں تفسیر مظہری کے مطابق یہ واقعہ بھی ہے کہ مکہ کے سرداروں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ کفر و نافرمانی تو ہم نے کی ہے۔ ہم قصور وار ہیں عورتیں اور بچے تو بےقصور ہیں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ طیبہ سے کھانے وغیرہ کا سامان بھجوایا۔ قرطبی میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ ابوسفیان نے بحالت کفر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ تو صلہ رحمی اور عفو و درگزر کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپ کی قوم (قحط سے) ہلاک ہوئی جا رہی ہے۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ یہ قحط ہم سے دور ہوجائے ۔ اس پر رسول اللہ نے ان کے لئے دعا فرمائی اور قحط دور ہوا۔ ان تمام حقائق و روایات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرما گئے اور تمام صحابہ کرام بھی مدینہ منورہ پہنچ گئے تب مکہ مکرمہ میں مسلسل سات سال تک ایسا شدید قحط پڑا کہ لوگ کتے، بلی اور گندگی تک کھانے پر مجبور ہوگئے۔ جب قحط نہایت شدید ہوگیا جو ان کے برے اعمال اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسی عظیم شخصیت و نعمت کی ناقدری کی وجہ سے ان پر مسلط کیا گیا تھا۔ اس وقت حضرت ابوسفیان جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے ان کی قیادت میں مکہ کا ایک وفد مدینہ منورہ آیا اور اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان حالات سے آگاہ کیا اور دعا کی درخواست کی تو آپ نے کفار مکہ کے سارے ظلم و ستم کو بھلا کر نہ صرف ان دشمنوں کے لئے بھلائی کی دعا کی بلکہ ان کی امداد بھی فرمائی۔ پیغمبر انسانیت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کا یہ عظیم پہلو ہے کہ آپ کے سامنے جب بھی انسانوں کی ظاہری تکلیفوں کا ذکر کیا گیا تو آپ اپنے مخالفوں اور دشمنوں کے لئے بےچین ہوگئے اور آپ نے دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کر کے امت کے لئے یہ اسوہ حسنہ چھوڑا ہے کہ ایک مومن کو انسانیت کا سچا خادم ہونا چاہئے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی نیکی کے بدلہ میں کمی نہ ہوگی گوزیادتی ہوجائے اور بدی کے بدلہ میں زیادتی نہ ہوگی گوکمی ہوجائے۔ 3۔ اور اس سے شفاعت کی نفی کا شبہ نہ ہو کیونکہ وہ اپنی رائے سے نہ ہوگی بلکہ بالاذان ہے پس گویا وہ شافع کی طرف منسوب ہی نہیں اور یہاں اس گفتگو کا ذکر ہے جو اپنی رائے سے ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : صبر و استقامت کے ساتھ دین پر قائم رہنے والے لوگوں کو شفقت و مہربانی اور بخشش کی نوید سنانے کے بعد ظالموں اور دین کے منکرین کو ان کے انجام سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ قرآن مجید کا یہ مؤثر اور دل ہلا دینے والا اسلوب ہے کہ وہ اکثر مقامات پر اس بات کا التزام کرتا ہے کہ نیکی اور بدی کا فرق سمجھاتے ہوئے برے لوگوں کو ان کا بدترین انجام اور دین کی خاطر قربانی دینے والوں کا بہترین انجام بیک وقت ذکر کیا جائے۔ اسی اسلوب کے پیش نظر پہلے برے لوگوں کے کردار اور ان کا انجام ذکر کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کی ایمان پر استقامت، ان کا حسن کردار اور ان کے بہترین انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ” ظالموں کو وہ وقت یاد کرنا چاہیے کہ جب وہ اپنے بارے میں جھگڑا کر رہے ہوں گے۔ اس دن نیکوں کو پوری پوری جزا اور برے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ کسی پر کسی اعتبار سے بھی ذرہ برابر زیادتی نہیں کی جائے گی۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن مجرم کا اپنے آپ سے جھگڑا کرنے کی کئی صورتیں ہوں گی : ١۔ مجرم اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کے لیے اپنے برے اعمال کا کلیتاً انکار کریں گے۔ (الانعام : ٢٣۔ ٢٤) ٢۔ مجر م اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گناہوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالیں گے۔ (الاحزاب : ٦٦۔ ٦٨) ٣۔ مجرموں سے سوال کیا جائیگا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے ؟ تو وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم سوال کریں گے کہیں گے تم تو ہمارے پاس دائیں، بائیں سے آتے تھے وہ جواب دیں گے بلکہ تم خود ہی ایمان لانے والے نہ تھے اور ہمارا تم پر کچھ زور نہیں تھا بلکہ تم خود سر کش تھے (الصٰفٰت : ٢٢۔ ٣١) ٤۔ ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے اور کہیں گے کاش ! میں نے رسول کے ساتھ ہی اپنی روش اختیار کی ہوتی۔ (الفرقان : ٢٧۔ ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوم تاتی کل نفس تحادل عن نفسھا (٦١ : ١١١) ” ہر متنفس اپنے ہی بچائو کی فکر میں لگا ہوا ہوگا “۔ انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن ہر شخص سخت ہولناک حالت میں ہوگا ، ہر شخص اپنے ہی بارے میں فکر کر رہا ہوگا ، اپنا ہی کیس لڑ رہا ہوگا۔ لیکن کسی کا جھگڑا اسے کچھ فائدے نہ دے گا۔ وہاں تو ہر کسی کو اپنی ہی کمائی ملے گی۔ وھم لا یظلمون (٦١ : ١١١) ” کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا “۔ درس نمبر ٤٢١ ایک نظر میں اس سے پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ اللہ نے اس سورة میں دو مثالوں کے ذریعے اسلامی عقیدہ توحید کو سمجھایا ہے۔ یہاں اباہل مکہ اور مشرکین قریش اور مکہ کے حالات پر ایک مثال دی جاتی ہے۔ اہل مکہ پر اللہ نے اپنے انعامات کی بارش کردی تھی لیکن انہوں نے اپنی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا۔ اس مثال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو اس انجام سے خبردار کرنا چاہتے ہیں جو مستقبل کے پردوں میں ان کا منتظر ہے۔ اس مثال میں جن نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ وافر رزق اور امن و اطمینان کی نعمت ہے جو مکہ میں موجود تھی ، اس حوالے سے پھر ان کے سامنے یہ بات بھی رکھی جاتی ہے کہ انہوں نے بت پرستی کی وجہ سے اپنے اوپر بعض طیبات اور حلال چیزوں کو خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے حالانکہ اللہ نے چیزوں کو حلال قرار دیا ہے۔ اللہ نے حرام چیزوں کو بیان کردیا ہے اور یہ چیزیں ان میں سے نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک طرح سے انعامات الہیہ کی ناشکری ہے۔ اس طرح کی ناشکری کے نتیجہ میں بھی تم پر عذاب الیم نازل ہوسکتا ہے اور یہ اللہ پر بہت ہی بڑا افتراء ہے اور اللہ نے ان اشیاء کی حرمت کا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ پھر مسلمانوں پر جو ناپاک چیزیں حرام کی گئیں اس کے حوالے سے ان اشیاء کا بھی ذکر کیا جاتا ہے جو یہودیوں پر حرام کی گئیں۔ یہ چیزیں ان پر بطور سزائوں کے بعض جرائم کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں۔ نیز یہ ان کے بعض مظالم کی وجہ سے بطور سزا حرام ہوئی تھیں۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد سے حرام نہ تھیں جو اپنی ذات میں ایک امت تھے اور اللہ کی طرف یکسو اور حنیف تھے۔ شرک نہ کرتے تھے اور اللہ نے ان کو ہدایت دی تھی۔ وہ برگزیدہ تھے اور صراط مستقیم پر تھے۔ یہ طیبات ان پر بھی حلال تھیں اور ان کی اولاد پر بھی۔ یہاں تک کہ بعد کے ادوار میں بنی اسرائیل پر بطور سزا حرام ہوئیں اور ان جہالتوں سے کوئی تائب نہ ہوجائے تو اللہ غفور ورحیم ہے۔ اس کے بعد دین ابراہیم کے تسلسل کے طور پر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین آیا ، اس میں وہ تمام طیبات از سر نو حلال کردی گئیں جو دین ابراہیم میں حلال تھیں ۔ اسی طرح یوم سبت میں یہودیوں کو شکار سے منع کیا گیا تھا ، اسے بھی حلال کردیا گیا تھا کیونکہ یہودیوں نے سبت کی پابندی کو بھی مشکوک بنا دیا تھا۔ بعض لوگ رک گئے اور بعض نے سبت کی پابندی کو توڑ دیا۔ اس لئے اللہ نے ان لوگوں کو بھی مشکوک بنا دیا تھا۔ بعض لوگ رک گئے اور بعض نے سبت کی پابندی کو توڑ دیا ۔ اس لئے اللہ نے ان لوگوں کے چہرے مسخ کردئیے اور ان کو انسانیت کے درجہ سے گرا دیا۔ اس مناسبت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ کی طرف نہایت ہی حکمت سے اور بہترین نصیحت سے دعوت دیتے ہیں اور ان کے ساتھ نہایت ہی بھلے انداز میں مکالمہ کریں۔ اگر آپ پر زیادتی ہو توق صاص اس کی سنتب سے عادلانہ ہو ، کسی صورت میں بھی حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اگر مخالف کو معاف کردیا جائے اور صبر سے کام لیا جائے تو یہ سب سے بہتر ہے۔ اس کے بعد یاد رکھو کہ اچھا انجام متقین اور محسنین ہی کا ہے کیونکہ اللہ اہل تقویٰ اور اہل احسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ ان کی امداد کرتا ہے ، ان کی نگرانی کرتا ہے اور صلاح و فلاح کی راہ کی طرف ان کو راہنمائی کرتا رہتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں قیامت کا منظر بیان فرمایا کہ اس دن ہر شخص اپنے نفس کی جانب سے جدال کرے گا یعنی دفاع کرے گا جواب دہی کی کوشش کرے گا مجرمین انکاری ہوں گے، کبھی اقراری ہوں گے وہاں اعمال کا ذرہ ذرہ موجود پائیں گے۔ خیر اور شر جو بھی کوئی عمل کیا تھا سب سامنے ہوگا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور کسی پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91:۔ یہ ظرف ” غفور رحیم “ سے متعلق ہے۔ نصب علی الظرفیۃ برحیم (روح ج 14 ص 240) ۔ اور یوم سے قیامت کا دن مراد ہے یعنی قیامت کے دن جب کہ ہر شخص اپنی نجات کے لیے کوشش کر رہا ہوگا اور اپنے دفاع میں مصروف ہوگا اور جس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کی پوری پوری جزاء و سزاء دی جائے گی اور کسی پر بھی ظلم نہیں ہوگا اس دن اللہ تعالیٰ مہاجرین و مجاہدین فی سبیل اللہ پر نہایت مہربان ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 1 ۔ اور اے مخاطب اس دن کو یاد کر جس دن ہر شخص اپنی طرف داری اور اپنی ہی جماعت میں سوال و جواب اور جھگڑتا ہوا آئے گا اور ہر شخص کو جو اس نے کیا ہے اسکے کئے کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب عام ہو جیسا کہ ہم نے اختیار کیا یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مخاطب ہو مطلب یہ ہے کہ اس دن یعنی قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہوگی کسی دوسرے کی جانب توجہ ہی نہ ہوگی اپنے ہی متعلق جواب وسوال کرتا ہوا اور اپنی ہی فکر میں مبتلاہو گا۔ لکل امری منھم یو مئذ شان بغنیہ ظلم کی نفی فرمائی، نیکی کے بدلے میں کمی نہ ہوگی اور برائی کے بدلے میں زیادتی نہ ہوگی ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کسی طرف کوئی نہ بولے گا اس دن ظلم نہ چل سکے گا۔ 12