Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 117

سورة النحل

مَتَاعٌ قَلِیۡلٌ ۪ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۱۷﴾

[It is but] a brief enjoyment, and they will have a painful punishment.

انہیں بہت معمولی فائدہ ملتا ہے اور ان کے لئے ہی دردناک عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A passing brief enjoyment (will be theirs), but they will suffer a painful torment. As for this world, it is transient pleasure, and in the Hereafter, theirs will be a severe punishment, as Allah says: نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلً ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ We let them enjoy for a little while, then in the end We will drive them into an unrelenting punishment. (31:24) and, قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ مَتَـعٌ فِى الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ Verily, those who invent a lie against Allah, will never be successful. (A brief) enjoyment in this world! and then to Us will be their return, then We shall make them taste the severest torment because they disbelieved. (10:69-70)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٠] حلال وحرام بنانے والے خود اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں :۔ یعنی مشرکوں کا بعض جانوروں کو بتوں کے نام پر آزاد چھوڑنا، اپنی کھیتی اور مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے نام پر اور کچھ بتوں کے نام پر وقف کرنا پھر اللہ کے حصہ میں سے معبودوں کے حصہ کی کمی کو پورا کردینا وغیرہ ایسے سب افعال کا ذکر سورة انعام کی آیت نمبر ١٣٥ کے تحت گذر چکا ہے۔ اور ایسے سب افعال کا فائدہ بالواسطہ یا بلاواسطہ آستانوں کے مجاوروں یا مہنتوں کو پہنچتا تھا۔ وہی ایسی شرکیہ باتوں کو گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے تھے اور اس طرح دنیوی فائدے حاصل کرتے تھے اور اپنے چند روزہ دنیوی مفاد کی خاطر بہت سی خلقت کو شرک میں مبتلا کر رکھا تھا ایسے لوگوں کو سخت دکھ دینے والی مار پڑے گی کیونکہ انہوں نے اپنے چند روزہ دنیوی فائدہ کی خاطر بیشمار اللہ کے بندوں کو شرک جیسے گناہ عظیم میں مبتلا کیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَتَاعٌ قَلِيْلٌ ۠ وَّلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ١١٧؁ متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٧) ان کی دنیا میں یہ عیش چند روزہ ہے اور پھر آخرت میں درد ناک سزا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :117 یہ پورا پیراگراف ان اعتراضات کے جواب میں ہے جو مذکورہ بالا حکم پر کیے جا رہے تھے ۔ کفار مکہ کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں تو اور بھی بہت سی چیزیں حرام ہیں جن کو تم نے حلال کر رکھا ہے ۔ اگر وہ شریعت خدا کی طرف سے تھی تو تم خود اس کی خلاف ورزی کر رہے ہو ۔ اور اگر وہ بھی خدا کی طرف سے تھی اور یہ تمہاری شریعت بھی خدا کی طرف سے ہے تو دونوں میں یہ اختلاف کیسا ہے؟ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں سبت کی حرمت کا جو قانون تھا اس کو بھی تم نے اڑا دیا ہے ۔ یہ تمہارا اپنا خود مختارانہ فعل ہے یا اللہ ہی نے اپنی دو شریعتوں میں دو متضاد حکم دے رکھے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٧۔ اوپر ذکر تھا کہ حرام حلال میں خاص اللہ تعالیٰ کا حکم درکار ہے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کسی چیز کو حرام یا حلال ٹھہرانا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھنے والے لوگ کبھی فلاح اور بہبودی کو نہیں پہنچ سکتے۔ اب فرمایا ایسے لوگ اپنی حلال حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کی چند روز تائید کرلیں مگر آخرت میں عذاب الیم سے انہیں رہائی نہیں ہوگی وہاں ان کے کردار کی سخت باز پرس ہو کر اس کی سزا پائیں گے اور سزا بھی ایسی جو نہایت ہی درد ناک ہوگی۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے مستورد بن شداد کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آخرت کی ہمیشہ کی زندگی مانند ایک دریا کے ہے اور اس کے مقابلہ میں دنیا کی چند روزہ زندگی ایسی ہے جیسے دریا میں کوئی شخص اپنی انگلی ڈبوئے اور اس کی انگلی پر پانی کی کچھ نمی آجاوے ١ ؎ یہ حدیث متاع قلیل کی گویا تفسیر ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن کم سے کم دوزخ کا عذاب یہ ہوگا کہ دوزخی شخص کے پاؤں میں آگ کی جوتیاں پہنادی جاویں گی جس سے اس کا بھیجا پگھل کر نکل پڑے گا ٢ ؎۔ اس سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ جب کم سے کم عذاب کا یہ حال ہے تو آیت میں سخت عذاب کا جو ذکر ہے اس عذاب کا کیا حال ہوگا : ١ ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص ٣٧٠ و ٤٣٩۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٢ باب صفتہ النار واھلھا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:117) متاع قلیل۔ ذک (محذوف) مبتدائ۔ متاع خبر۔ قلیل صفت خبر۔ یہ قلیل اور چند روزہ منفعت ہے۔ ای منفعۃ قلیلۃ منقطعۃ عن قریب۔ یعنی قلیل عیش ومنفعت جو کہ عنقریب ختم ہوجانے والی ہے۔ مطلب یہ کہ اس افتراء سے ان کو کوئی طویل المدت نفع کثیر حاصل نہیں ہوگا بلکہ قلیل المدت وقلیل المقدار فائدہ ہو تو ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں سورة انعام کی ایک آیت کے مضمون کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ ان میں بعض مزید چیزیں بھی یہودیوں پر حرام کی گئی تھیں۔ ایک یہ ہے۔ وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر ومن البقر الغنم حرمنا علیھم شحومھما الا ما حملت ظھور ھما او الحوایا او ما اختلط بعظم (٦ : ٧٤١) ” اور وہ لوگ جو یہودی ہوئے ، ان پر ہم نے ہر ناخن والی چیز کو حرام کیا تھا اور گائے اور بھیڑ بکری سے ہم نے ان پر چربی حرام کردی تھی ماسوائے اس کے جو ان کی پیٹھ پر یا آنتوں کے ساتھ یا ہڈیوں سے مخلوط ہو “ تو بتایا جاتا ہے کہ یہ چیزیں ان پر بطور سزا حرام ہوئی تھیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

117 ۔ یہ تھوڑا سا فائدہ اور دنیا کا چند روزہ عیش ہے اور آئندہ آخرت میں ان کے لئے درد ناک سزا اور عذاب ہے۔ یعنی جن چیزوں کا یہ منکر ارتکاب کر رہے ہیں یہ دنیا کا چند روزہ فائدہ ہے باقی آخرت میں ان کے لئے سوائے عذاب کے اور کیا ہے۔