Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 14

سورة النحل

وَ ہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡکُلُوۡا مِنۡہُ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡہُ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا ۚ وَ تَرَی الۡفُلۡکَ مَوَاخِرَ فِیۡہِ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۴﴾

And it is He who subjected the sea for you to eat from it tender meat and to extract from it ornaments which you wear. And you see the ships plowing through it, and [He subjected it] that you may seek of His bounty; and perhaps you will be grateful.

اور دریا بھی اسی نے تمہارے بس میں کر دیئے ہیں کہ تم اس میں سے ( نکلا ہوا ) تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے اپنے پہننے کے زیورات نکال سکو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس میں پانی چیرتی ہوئی ( چلتی ) ہیں اور اس لئے بھی کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور ہو سکتا ہے کہ تم شکر گزاری بھی کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Signs in the Oceans, Mountains, Rivers, Roads and Stars Allah tells; وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُواْ مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُواْ مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيه ... And He it is Who subjected the sea (to you), that you may eat from the fresh tender meat, and that you bring forth out of it ornaments to wear. And you see the ships plowing through it, Allah tells us how He has subjected the seas, with their waves lapping the shores, and how He blesses His servants by subjecting the seas for them so that they may travel on them, and by putting fish and whales in them, by making their flesh permissible to eat - whether they are caught alive or dead - at all times, including when people are in a state of Ihram. He has created pearls and precious jewels in the oceans, and made it easy for His servants to recover ornaments that they can wear from the ocean floor. He made the sea such that it carries the ships which plow through it. He is the One Who taught mankind to make ships, which is the inheritance of their forefather Nuh. He was the first one to travel by ship, he was taught how to make them, then people took this knowledge from him and passed it down from generation to generation through the centuries, so that they could travel from country to country and from place to place, bringing goods from here to there and from there to here. Thus Allah says: ... وَلِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ that you may seek from His bounty and that you may perhaps be grateful. for His bounty and blessings. Allah says:

اللہ کے انعامات اللہ تعالیٰ اپنی اور مہربانی جتاتا ہے کہ سمندر پر دریا پر بھی اس نے تمہیں قابض کر دیا باوجود اپنی گہرائی کے اور اپنی موجوں کے وہ تمہارا تابع ہے ، تمہاری کشتیاں اس میں چلتی ہیں ۔ اسی طرح اس میں سے مچھلیاں نکال کر ان لولو اور جواہر اس نے تمہارے لئے اس میں پیدا کئے ہیں جنہیں تم سہولت سے نکال لیتے ہو اور بطور زیور کے اپنے کام میں لیتے ہو پھر اس کشتیاں ہواؤں کو ہٹاتی پانی کو چیرتی اپنے سینوں کے بل تیرتی چلی جاتی ہیں ۔ سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کشی میں سوار ہوئے انہیں کو کشتی بنانا اللہ عالم نے سکھایا پھر لوگ برابر بناتے چلے آئے اور ان پر دریا کے لمبے لمبے سفر طے ہونے لگے اس پار کی چیزیں اس پار اور اس پار کی اس پار آنے جانے لگیں ۔ اسی کا بیان اس میں ہے کہ تم اللہ کا فضل یعنی اپنی روزی تجارت کے ذریعہ ڈھونڈو اور اس کی نعمت و احسان کا شکر مانو اور قدر دانی کرو ۔ مسند بزار میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مغربی دریا سے کہا کہ میں اپنے بندوں کو تجھ میں سوار کرنے والا ہوں تو ان کے ساتھ کیا کرے گا ؟ اس نے کہا ڈبو دونگا فرمایا تیری تیزی تیرے کناروں پر ہے اور انہیں میں اپنے ہاتھ پر انہیں اٹھاؤں گا اور جس طرح ماں اپنے بچے کی خبر گیری کرتی ہے میں ان کی کرتا رہوں گا پس اسے اللہ تعالیٰ نے زیور بھی دئیے اور شکار بھی ۔ اس حدیث کا راوی صرف عبد الرحمن بن عبداللہ ہے اور وہ منکر الحدیث ہے ۔ عبداللہ بن ابی عمرو سے بھی یہ روایت مرفوعاً مروی ہے ۔ اس کے بعد زمین کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس کے ٹھہرانے اور ہلنے جلنے سے بچانے کے لئے اس پر مضبوط اور وزنی پہاڑ جما دیئے کہ اس کے ہلنے کی وجہ سے اس پر رہنے والوں کی زندگی دشوار نہ ہو جائے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَالْجِبَالَ اَرْسٰىهَا 32؀ۙ ) 79- النازعات:32 ) حضرت حسن رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ ہل رہی تھی یہاں تک کہ فرشتوں نے کہا اس پر تو کوئی ٹھہر ہی نہیں سکتا ۔ صبح دیکھتے ہیں کہ پہاڑ اس پر گاڑ دئیے گئے ہیں اور اس کا ہلنا موقوف ہو گیا پس فرشتوں کو یہ بھی نہ معلوم ہو سکا کہ پہاڑ کس چیز سے پیدا کئے گئے ۔ قیس بن عبادہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ زمین نے کہا تو مجھ پر بنی آدم کو بساتا ہے جو میری پیٹھ پر گناہ کریں گے اور خباثت پھیلائیں گے وہ کانپنے لگی پس اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کو اس پر جما دیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو اور بعض کو دیکھتے ہی نہیں ہو ۔ یہ بھی اس کا کرم ہے کہ اس نے نہریں چشمے اور دریا چاروں طرف بہا دئیے ۔ کوئی تیز ہے کوئی سست ، کوئی لمبا ہے کوئی مختصر ، کبھی کم پانی ہے کبھی زیادہ ، کبھی بالکل سوکھا پڑا ہے ۔ پہاڑوں پر ، جنگلوں میں ، ریت میں ، پتھروں میں برابر یہ چشمے بہتے رہتے ہیں اور ریل پیل کر دیتے ہیں یہ سب اس کا فضل و کرم ، لطف و رحم ہے ۔ نہ اس کے سوا کوئی پروردگار نہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت ، وہی رب ہے ، وہی معبود ہے ۔ اسی نے راستے بنا دیئے ہیں خشکی میں ، تری میں ، پہاڑ میں ، بستی میں ، اجاڑ میں ہر جگہ اس کے فضل و کرم سے راستے موجود ہیں کہ ادھر سے ادھر لوگ جا آ سکیں کوئی تنگ راستہ ہے کوئی وسیع کوئی آسان کوئی سخت ۔ اور بھی علامتیں اس نے مقرر کر دیں جیسے پہاڑ ہیں ٹیلے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ جن سے تری خشکی کے رہرو و مسافر راہ معلوم کر لیتے ہیں ۔ اور بھٹکے ہوئے سیدھے رستے لگ جاتے ہیں ۔ ستارے بھی رہنمائی کے لئے ہیں رات کے اندھیرے میں انہی سے راستہ اور سمت معلوم ہوتی ہے مالک سے مروی ہے کہ نجوم سے مراد پہاڑ ہیں ۔ پھر اپنی عظمت و کبریائی کا بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ لائق عبادت اس کے سوا اور کوئی نہیں ۔ اللہ کے سوا جن جن کی لوگ عبادت کرتے ہیں وہ محض بےبس ہیں ، کسی چیز کے پیدا کرنے کی انہیں طاقت نہیں اور اللہ تعالیٰ سب کا خالق ہے ، ظاہر ہے کہ خالق اور غیر خالق یکساں نہیں ، پھر دونوں کی عبادت کرنا کس قدر ستم ہے؟ اتنا بھی بیہوش ہو جانا شایان انسانیت نہیں ۔ پھر اپنی نعمتوں کی فراوانی اور کثرت بیان فرماتا ہے کہ تمہاری گنتی میں بھی نہیں آ سکتیں ، اتنی نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں یہ بھی تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ میری نعمتوں کی گنتی کر سکو ، اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرماتا رہتا ہے اگر اپنی تمام تر نعمتوں کا شکر بھی تم سب طلب کرے تو تمہارے بس کا نہیں ۔ اگر ان نعمتوں کے بدلے تم سے چاہے تو تمہاری طاقت سے خارج ہے سنو اگر وہ تم سب کو عذاب کرے تو بھی وہ ظالم نہیں لیکن وہ غفور و رحیم اللہ تمہاری برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے ، تمہاری تقصیروں سے تجاوز کر لیتا ہے ۔ توبہ ، رجوع ، اطاعت اور طلب رضا مندی کے ساتھ جو گناہ ہو جائیں ان سے چشم پوشی کر لیتا ہے ۔ بڑا ہی رحیم ہے ، توبہ کے بعد عذاب نہیں کرتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 اس میں سمندری تلاطم خیز موجوں کو انسان کے تابع کردینے کے بیان کے ساتھ، اس کے تین فوائد بھی ذکر کئے ہیں۔ ایک یہ کہ تم اس سے مچھلی کی شکل میں تازہ گوشت کھاتے ہو (مچھلی مردہ بھی ہو تب بھی حلال ہے) ۔ علاوہ ازیں حالت احرام میں بھی اس کو شکار کرنا حلال ہے۔ دوسرے، اس سے تم موتی، سیپیاں اور جواہر نکالتے ہو، جن سے تم زیور بناتے ہو۔ تیسرے، اس میں تم کشتیاں اور جہاز چلاتے ہو، جن کے ذریعے سے تم ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتے ہو، تجارتی سامان بھی لاتے ہو، لے جاتے ہو، جس سے تمہیں اللہ کا فضل حاصل ہوتا ہے جس پر تمہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] سمندروں کے فوائد :۔ پھر ٹھاٹھیں مارنے والے سمندر کو اور تلاطم خیز موجوں کو اپنے مخصوص قوانین کا پابند بنادیا حتیٰ کہ انسان سمندر کے پانی کے اندر اور اوپرتصرف کرنے کے قابل بن گیا۔ ورنہ ایسے وسیع اور مہیب سمندر کے مقابلہ میں بےچارے انسان کی حقیقت ہی کیا تھی۔ اب وہ سمندری جانوروں کا شکار کرکے اپنی غذائی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سمندر کا پانی تو سخت شور اور کڑوا ہوتا ہے جبکہ اس کے جانوروں اور بالخصوص مچھلی کا گوشت انتہائی لذیذ ہوتا ہے۔ اس میں شور کا اثر نام کو نہیں ہوتا پھر اس سے گھونگے، صدف اور مرجان اور کئی دوسری چیزیں نکال کر اپنے زیور اور آرائش کی چیزیں بھی بناتا ہے پھر کشتیوں اور جہازوں کے ذریعہ سمندر کی پشت پر سوار ہو کر ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور ایک ملک سے دوسرے ملک جاپہنچتا ہے اور اس طرح ایک ملک کی چیزیں دوسرے ملک پہنچا کر تجارتی فوائد حاصل کرتا ہے۔ اگر پانی اپنے مخصوص فطری قوانین کا پابند نہ ہوتا یا نہ رہے تو انسان اس سے کبھی ایسے فوائد حاصل نہ کرسکتا تھا۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے تمام اشیاء کے لیے مخصوص قوانین بنا دیئے ہیں جن کی وہ بہرحال پابند رہتی ہیں۔ اس طرح انسان ان سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ ۔۔ : اور وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے سمندر جیسی عظیم مخلوق کہ اگر ب پھر جائے تو خشکی پر چڑھ کر ہر قسم کی زندگی درہم برہم کر ڈالے، کو پابند فرما دیا کہ اپنی حدود میں رہے اور انسان کو اپنی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے دے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سمندر سے حاصل ہونے والی چار نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ وہ نعمتیں جو سمندر میں بنی اسرائیل کو راستہ دینے یا موسیٰ (علیہ السلام) کے تابوت کو کنارے پر پہنچانے کی صورت میں ہوئیں، وہ ان کے علاوہ ہیں۔ یہ چار نعمتیں درج ذیل ہیں : لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا : ” طَرِيًّا “ کا مصدر ” طَرَاوَۃٌ“ ہے، اس کا فعل ” قَرُبَ “ اور ” شَرُفَ “ کے وزن پر آتا ہے، یہ ” یَابِسٌ“ کی ضد ہے، یعنی تروتازہ۔ مراد مچھلیاں اور پانی کا ہر وہ جانور ہے جو پانی کے بغیر زندہ نہ رہ سکے۔ سمندر کا مردار بھی حلال ہے اور محرم کو بھی سمندری شکار کی اجازت ہے۔ بعض لوگوں نے تمام سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کو حلال قرار دیا ہے، جو پکڑتے وقت زندہ ہو، لیکن یہ بات درست نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٩٦) اس میں اشارہ ہے کہ سمندری جانور تازہ حالت ہی میں لذیذ اور مفید ہوتا ہے، باسی ہو تو ضرر رساں ہوتا ہے۔ علامہ قاسمی نے فرمایا : ” لَحْمًا طَرِيًّا “ سے مچھلی کی بناوٹ کا حسن، لچک، ملائمت اور تری مراد ہے، ورنہ اس کا گوشت خشک کرکے محفوظ بھی کیا جاتا ہے۔ “ میں کہتا ہوں غزوہ سیف البحر میں سمندر کے پانی کی چھوڑی ہوئی بہت بڑی مچھلی صحابہ کرام ایک ماہ تک کھاتے رہے اور بچا کر مدینہ بھی لے گئے۔ یہ اسے نمک وغیرہ لگا کر خشک کرنے کے عمل کے بغیر کیسے ممکن ہے، اسی طرح اب برف یافریزر میں مچھلی ایک عرصہ تک محفوظ رہتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کمال ہے کہ سخت نمکین کڑوے پانی میں لذیذ گوشت تیار فرمایا، بتاؤ اس میں کون سے گنج بخش یا دستگیر کا حصہ ہے اور کتنا حصہ ہے ؟ وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا : ” تُخْرِجُوْا “ کے بجائے ” ّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ “ سے کثرت کے ساتھ نکالنے کی طرف اشارہ ہے۔ ” حِلْيَةً “ جس سے آرائش و زینت حاصل ہو، تاکہ تم اس سے زیور، موتی، مرجان، سونا اور اس میں چھپے ہوئے بیشمار خزانے اور دھاتیں کثرت سے نکالو۔ اس میں اللہ کی یہ نعمت بھی آگئی کہ سمندر کو ایسا بنایا کہ انسان اس میں غوطہ لگا سکے۔ مسلمانوں کے لیے یہ ترغیب بھی ہے کہ وہ غوطہ خوری میں مہارت حاصل کریں، خود بھی اور مشینوں کے ساتھ بھی اور سمندر کے خزانوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ کفار کو کھلا نہ چھوڑیں کہ وہ اس کے خزانوں اور تیل، گیس اور دوسری معدنیات اور نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں اور مسلمان ان کی محتاجی ہی پر قانع رہیں۔ : ” وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ مَوَاخِرَ مَاخِرَۃٌ“ کی جمع ہے، اپنے سینے سے پانی کو چیرنے والی۔ اس لیے تمام بحری جہازوں کا سامنے کا حصہ نوک دار رکھا جاتا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت ہے کہ پانی جس میں ہر چیز غرق ہوجاتی ہے، حتیٰ کہ سوئی بھی اس میں ڈوب جاتی ہے، اسے اس طرح بنایا کہ جب وزن اور حجم کی خاص نسبت رکھنے والی کوئی چیز اس میں ڈالی جائے تو وہ اسے اٹھا لیتا ہے، حتیٰ کہ لاکھوں ٹن وزن اٹھانے والے بحری جہاز پانی کو چیرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر پانی اللہ کے حکم سے انھیں اٹھاتا بھی ہے، راستہ بھی دیتا ہے اور خوراک بھی مہیا کرتا ہے۔ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ : دور دراز کے کم خرچ اور آسان سفر، دنیا کی سیر، علم کا حصول، حج و عمرہ، تجارت، جہاد، مال غنیمت، الغرض کوئی ایک فائدہ اور فضل ہو تو گنا جائے، یہ سب کچھ اکیلے اللہ نے بنایا، کسی داتا یا دیوتا کا اس میں کچھ دخل نہیں اور اس نے یہ اس لیے بنایا کہ تم ان نعمتوں کی قدر کرو اور اس کے احکام پر عمل کرکے زبانی اور عملی طور پر شکر ادا کرو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After the description of things created in the heavens and the earth, and the benefits human beings derive from them, the text now turns to the high seas wherein Divine wisdom has placed many more benefits for them. Verse 14 which begins with the words: هُوَ الَّذِي سَخَّرَ‌ الْبَحْرَ‌ لِتَأْكُلُوا (And He is the One who has subjugated the sea so that you may eat) which points out to the excellent arrangement whereby they get their supply of sea food, fresh white meat from the fish. By calling the fish, fresh meat, in the sentence which follows immedi¬ately, that is: لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِ‌يًّا (so that you may eat fresh meat there from - 14), a hint has also been placed within the statement that it is free of any condition of slaughtering necessary with other animals. That is, as if, meat made ready, without having to do so. This was the first benefit. The second benefit is indentified in the sentence appearing immediately next: وَتَسْتَخْرِ‌جُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا (and may take out from it ornaments you wear - 14), that is, divers would dive in it and take out what the text calls: حِلْيَةً (hilyah: translated as ornaments). The literal meaning of hil¬yah& is زیِنَۃ zinah, that which beautifies, embellishes, adorns or ornaments. Thus, the reference here is to pearls and precious coral stones which are taken out of the sea. Women wear it as necklaces or earrings. Though these ornaments are worn by women, yet the Holy Qur’ an has used the word in the masculine gender: تَلْبَسُونَهَا talbasunaha), that is, &you wear.& What has been hinted here is that the wearing of ornaments by women is, in reality, in the interest of men. That woman looks good is, in reality, the right of man. He can even compel his wife to wear dress and orna¬ments which look good on her. Other than that, men too can use precious stones on their rings. The third benefit of the sea appears in: وَتَرَ‌ى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ‌ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ (And you see the boats cleaving through it and so that you may seek His bounty - 14). The word: فُلْكَ (fulk) means boat, and: مَوَاخِرَ‌ (mawakhir) is the plural of مَاخِرَہ : makhirah. Makhr (مَخَر) means to cleave or plough through the water. The reference is to boats and ships which traverse the sea cleaving through the waves of the waters. The sense of the verse (14) is that Allah Ta’ ala has made the sea one of the means of reaching distant countries. Thus, He has made it easy for human beings to travel by sea and bring in or send out their commer¬cial goods. The text also declares it to be an excellent means of seeking the bounty of Allah, that is, their rizq or sustenance - because, trading through the sea routes is most economical and beneficial.

(آیت) هُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا۔ آسمان و زمین کی مخلوقات اور ان میں انسان کے منافع اور فوائد بیان کرنے کے بعد بحر محیط (سمندر) کے اندر حق تعالیٰ کی حکمت بالغہ سے انسان کے لئے کیا کیا فوائد ہیں ان کا بیان ہے کہ دریا میں انسان کی خوراک کا کیسا اچھا انتظام کیا گیا ہے کہ مچھلی کا تازہ گوشت اس کو ملتا ہے۔ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا کے الفاظ میں مچھلی کو تازہ گوشت قرار دینے سے اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ دوسرے جانوروں کی طرح اس میں ذبح کرنے کی شرط نہیں وہ گویا بنا بنایا گوشت ہے۔ (آیت) وَتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا یہ دریا کا دوسرا فائدہ بتلایا گیا ہے کہ اس میں غوطہ لگا کر انسان اپنے لئے حلیہ نکال لیتا ہے حلیہ کے لفظی معنی زینت کے ہیں مراد وہ موتی مونگا اور جواہرات ہیں جو سمندر سے نکلتے ہیں اور عورتیں ان کے پار بنا کر گلے میں یا دوسرے طریقوں سے کانوں میں پہنتی ہیں یہ زیور اگرچہ عورتیں پہنتی ہیں لیکن قرآن نے لفظ مذکر استعمال فرمایا تَلْبَسُوْنَهَا یعنی تم لوگ پہنتے ہو اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ عورتوں کا زیور پہننا درحقیقت مردوں ہی کے مفاد کے لئے ہیں عورت کی زینت درحقیقت مرد کا حق ہے وہ اپنی بیوی کو زینت کا لباس اور زیور پہننے پر مجبور بھی کرسکتا ہے اس کے علاوہ جواہرات کا استعمال مرد بھی انگوٹھی وغیرہ میں کرسکتے ہیں (آیت) وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ یہ تیسرا فائدہ دریا کا بتلایا گیا ہے فلک کے معنی کشتی اور مواخر ماخرہ کی جمع ہے مخر کے معنی پانی کو چیرنے کے ہیں مراد وہ کشتیاں اور بحری جہاز ہیں جو پانی کی موجوں کو چیرتے ہوئے مسافت طے کرتے ہیں۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ دریا کو اللہ تعالیٰ نے بلاد بعیدہ کے سفر کا راستہ بنایا ہے دور دراز کے ملکوں میں دریا ہی کے ذریعہ سفر کرنا اور تجارتی مال کی درآمد وبرآمد کرنا آسان فرما دیا ہے اور اس کو حصول رزق کا عمدہ ذریعہ قرار دیا کیونکہ دریا کے راستہ سے تجارت سب سے زیادہ نفع بخش ہوتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَهُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 14؀ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ لحم اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة/ 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو : لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ: اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم : قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات/ 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ. ( ل ح م ) اللحم ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة/ 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات/ 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ طری قال تعالی: لَحْماً طَرِيًّا[ النحل/ 14] ، أي : غضّا جدیدا، من الطَّرَاءِ والطَّرَاوَةِ. يقال : طَرَّيْتُ كذا فطَرِيَ ، ومنه : المُطَرَّاةُ من الثّياب، والإِطْرَاءُ : مدحٌ يُجَدَّدُ ذِكْرُهُ ، وطَرَأَ بالهمز : طلع . ( ط ر ی ( و) الطری تروتازہ ۔ قرآن میں ہے : لَحْماً طَرِيًّا[ النحل/ 14] تازہ گوشت رکھاؤ ۔ طریا کا مصدر طواء وطراوۃ آتا ہے جس کے معنی تروتازہ ہونا کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ طربت کذا فطری میں نے اسے تازہ کیا چناچہ وہ تازہ ہوگیا ۔ اسی سے نئے اور تازہ کئے ہوئے کپڑوں کو مطراۃ کہاجاتا ہے اور اطراء اس تعریف کو کہتے ہیں جس سے ممدوح کی یاد تازہ ہوجائے اور ( طرء ) مہموز) کے معنی اطلع یعنی اچانک طلوع ہونے کی ہیں ۔ حلی الحُلِيّ جمع الحَلْي، نحو : ثدي وثديّ ، قال تعالی: مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف/ 148] ، يقال : حَلِيَ يَحْلَى «4» ، قال اللہ تعالی: يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف/ 31] ، ( ح ل ی ) الحلی ( زیورات ) یہ حلی کی جمع ہے جیسے ثدی کی جمع ثدی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف/ 148] اپنے زیور کا ایک بچھڑا ( بنالیا ) وہ ایک جسم ( تھا ) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی حلی یحلٰی آراستہ ہونا اور حلی آراستہ کرنا ) قرآن میں ہے ۔ يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف/ 31] ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان/ 21] اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ اور حلیتہ کے معنی زیور کے ہیں ۔ لبس لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی: هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله : 402- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ، ( ل ب س ) لبس الثوب ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ مخر مَخْرُ الماءِ للأرض : استقبالها بالدّور فيها . يقال : مَخَرَتِ السّفينةُ مَخْراً ومُخُوراً : إذا شقّت الماء بجؤجئها «3» مستقبلة له، وسفینة مَاخِرة، والجمع : المَوَاخِر . قال : وَتَرَى الْفُلْكَ مَواخِرَ فِيهِ [ النحل/ 14] ويقال : استمخرت الرّيحَ ، وامتخرتها : إذا استقبلتها بأنفك، وفي الحدیث : «استمخروا الرّيحَ وأعدّوا النّبل» «4» أي : في الاستنجاء، والماخور : الموضع الذي يباع فيه الخمر، ( م خ ر ) مخرالماء الارض کا پانی کا زمین کو چیرنا اور اس میں چکر لگانا ۔ محاورہ ہے ۔ مخرت السفینۃ مخرا ومخورا کشتی کا اپنے سینہ سے پانی کو چیرنا اور سمندر چیز کر چلنے والی کشتی کو سفینۃ ماخرۃ کہاجاتا ہے اسکی جمع مواخر آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَتَرَى الْفُلْكَ مَواخِرَ فِيهِ [ النحل/ 14] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ استمخرت الریح وامتخر تھا میں ہوا کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوگیا ۔ حدیث میں ہے َ ( 119) اسمتخر والریح واعدوالنبل ( رفع حاجب کے وقت ہوا کی طرف پشت کرکے بیٹھو اور استنجا کے لئے پتھر ساتھ لے جاؤ ۔ الماخور ۔ شراب کی درکان ۔ دوجگہ جہاں شراب فروخت ہوتی ہو ۔ بنات مخرسفیدابر موسم گرما میں اٹھنے والی بدلیاں ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

زیور کے بارے میں حکم قول باری ہے (وتستخرجوا منہ حلیۃ تلبسونھا۔ اور تاکہ اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو) امام ابو یوسف اور امام محمد اس آیت سے اس مسئلے میں استدلال کرتے ہیں جس میں ایک شخص نے زیور نہ پہننے کی قسم کھائی ہو اور پھر وہ موتی پہن لے تو حانث ہوجائے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے سمندر سے نکلنے والے موتی کو زیور کے نام سے موسوم کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ شخص حانث نہیں ہوگا اس لئے کہ قسموں کو ان معافی پر محمول کیا جاتا ہے جو لوگوں کے درمیان متعارف ہوتے ہیں۔ عرف میں صرف موتی کو زیور کے نام سے موسوم کرنا موجود نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ موتی فروخت کرنے والا زیورات فروخت کرنے والا نہیں کہلائے گا۔ رہ گئی آیت تو اس میں یہ بھی ارشاد ہے (لتاکلوا منہ لحما طربا تاکہ تم اس سے تروتازہ گوشت لے کر کھائو) جبکہ اس مسئلے میں فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کہ اگر کسی نے گوشت نہ کھانے کی قسم کھائی ہو اور پھر مچھلی کھالے تو حانث نہیں ہوگا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو بھی تروتازہ گوشت کا نام دیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) اور اسی ذات نے دریا کو مسخر کیا تاکہ اس میں سے تازہ مچھلی نکال کر کھاؤ اور تاکہ اس دریا میں سے موتیوں وغیرہ کا زیور نکالو اور تو کشتی کو دیکھتا ہے کہ ایک ہوا کے رخ پر اس دریا کا پانی چیرتی ہوئی چلی جارہی ہے اور دوسرے مقامات پر سے آرہی ہے تاکہ تم اس کے ذریعے سے کماؤ یا یہ کہ اللہ کا دیا رزق تلاش کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (وَهُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا) سمندری خوراک ہمیشہ سے انسانی زندگی میں بہت اہم رہی ہے۔ دور جدید میں اس کی افادیت مزید نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے جس کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ (وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا) سمندر سے موتی اور بہت سی دوسری ایسی اشیاء نکالی جاتی ہیں جن سے زیورات اور آرائش و زیبائش کا سامان تیار ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11. That is, try to get your sustenance in lawful ways.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :11 یعنی حلال طریقوں سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: مچھلی کا گوشت مراد ہے۔ 8: سمندر سے موتی نکلتے ہیں جو زیورات میں کام آتے ہیں۔ 9: یعنی سمندر میں تجارتی سفر کر کے اﷲ تعالیٰ کے شکر گذار بنو۔ قرآنِ کریم نے اللہ کا فضل تلاش کرنے کی اِصطلاح بہت سی آیتوں میں تجارت کے لئے استعمال فرمائی ہے۔ دیکھئے سورۂ بقرہ (۲:۱۹۸) سورۂ بنی اسرائیل (۱۷:۱۲ و ۱۷:۶۶)، سورۃ قصص (۲۸:۷۳)،سورۃ روم (۳۰:۴۶)،سورۃ فاطر (۳۵:۱۲)، سورۃ جاثیہ (۴۵:۱۲)، سورۃ جمعہ (۶۲:۱۰) اور سورۃ مزمل (۷۳:۲۰)۔ تجارت کو اﷲ تعالیٰ کا فضل کہنے سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر تجارت شرعی اَحکام کی پابند ہو تو وہ ایک پسندیدہ چیز ہے، اور دوسری طرف اِس اِصطلاح سے تاجروں کو یہ تنبیہ بھی کی جارہی ہے کہ تجارت میں جو نفع حاصل ہوتا ہے، وہ در حقیقت اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے، کیونکہ اِنسان کوشش ضرور کرتا ہے، لیکن اگر اﷲ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو تو کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اگر تجارت کے ذریعے مال و دولت حاصل ہوجائے تو اِنسان کو مغرور ہونے کے بجائے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤۔ اللہ پاک نے آسمان و زمین کی چیزوں کا ذکر کر کے ان فائدوں کا بیان کیا جو دریا سے لوگوں کو حاصل ہوتے ہیں فرمایا کہ دریا کو تمہارا محکوم کردیا تم اس میں سے مچھلیاں پکڑ پکڑ کر کھاتے ہو نہیں تو تمہاری کیا ہستی تھی جو دریا کے کنارے پر پیر بھی رکھ سکتے ایک موج میں کہیں کے کہیں جا رہتے یہ اسی کا حکم ہے کہ دریا اپنی حد سے نہیں بڑھ سکتا جس سے تم ڈوبنے سے محفوظ رہتے ہو اور اس میں غوطے لگا لگا کر بیش بہا موتی نکال لیا کرتے ہو اور طرح طرح کے زیورات بنایا کرتے ہو کشتیاں بنا بنا کر دریا کے رستے سے ایک ملک سے دوسرے ملک میں جایا کرتے ہو اور تجارت میں سینکڑوں روپیہ کا نفع اٹھاتے ہو اس کی شکر گزاری کرنی چاہیے نہ یہ کہ ان احسانات کو بالکل فراموش کر کے دوسروں کو اللہ کی تعظیم میں شریک کیا جاوے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث گزر چکی ہے ١ ؎۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں فرمایا اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا ہے تو اس کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرنا بڑے وبال کی بات ہے۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ١٦ باب الکبائر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:4) طربا تروتازہ۔ طراوۃ سے جس کے معنی تروتازہ ہونے کے ہیں۔ بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ تستخرجوا۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تستخرجون تھا نون اعرابی (لام محذوف) حرف عامل کی وجہ سے حذف ہوگیا۔ تم نکالتے ہو استخراج (باب استفعال) ہے۔ حلیۃ۔ بمعنی زیور پہنانا۔ عورت کے لئے زیور بنانا۔ یحلون فیھا اساور من ذھب۔ (18:31) ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ حلی زیورات حلی زیورات۔ تلبسونھا۔ تم جسے پہنتے ہو۔ تم اس کو پہنتے ہو۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب حلیۃ کی طرف راجع ہے۔ مواخر۔ صیغہ صفت جمع ماخرۃ۔ ماخر واحد مخر ومخور مصدر۔ باب فتح۔ پانی کو چیرنے والی کشتیاں۔ مخر یمخر (فتح) مخر یمخر (نصر) مخر ومخور کشتی کا پانی کو آواز کے ساتھ چیرنا سمندر کو چیر کر چلنے والی کشتی کو سفیۃ ماخرۃ کہتے ہیں۔ ولتبتغوا من فضلہ۔ تبتغوا مضارع جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تبتغون تھا۔ نون اعرابی بوجہ لام حرف عامل ) گرگیا۔ تا کہ تم اس کے فضل (رزق) کو تلاش کرو۔ (1) جملہ کا عطف تستخرجوا پر ہے۔ (2) یا اس کا عطف علت محذوف پر ہے۔ ای لتنتفعوا بذلک ولتبتغوا (تاکہ تم اس سے استفادہ کرو اور تلاش کرو۔۔ ) (3) یا یہ متعلق فعل محذوف ہے ای فعل ذلک لتبتغوا۔ اس نے ایسا کیا تاکہ تم تلاش کرو۔۔ ) فضل قرآن مجید میں مختلف معانی میں آیا ہے یہاں مراد رزق روزی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کے لئے موتی دنگا اور دوسرے سمندری جواہرات کا پہننا حرام نہیں ہے بشرطیکہ انہیں ایسے طریقہ پر نہ پہنا جائے جس سے عورتوں سے مشابہت ہوئی ہو۔ (شوکانی) ہوسکتا ہے کہ نسبت مجازی ہو اور مقصد یہ کہ تمہاری عورتیں پہنتی ہیں۔ عورتوں کے تزین سے چونکہ مرد بھی متمتع اور لذت اندوز ہوتے ہیں اس لئے پہننے کو ان کی طرف منسوب کردیا ہے ورنہ مرد کے لئے تو زیور پہننا جائز نہیں ہے۔ (روح) 9 یعنی سمندروں اور دریائوں میں سفر کر کے حلال طرقہ سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آفاق اور نباتات کے بعد سمندری انعامات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف لیل و نہار، شمس و قمر اور ستاروں کو اپنے حکم سے انسان کے تابع بنایا ہے بلکہ اس نے زمین اور سمندر کو بھی انسان کے لیے مسخر کردیا ہے۔ لیکن ان چیزوں کی تسخیر میں بنیادی فرق ہے۔ آفاق سے متعلق کائنات انسان کی خدمت میں مصروف ہونے کے باوجود اس کی دسترس سے باہر ہے۔ جہاں تک زمین سے متعلقہ چیزوں کا تعلق ہے وہ کافی حد تک انسان کی دسترس میں کردی گئی ہیں۔ زمین کو انسان جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے۔ پہاڑوں میں بڑے بڑے محل اور راستے بنا لیے جاتے ہیں، دریاؤں کے رخ موڑ دیے گئے ہیں۔ ١۔ نہروں کے ذریعے وہاں تک پانی پہنچا دیا جاتا ہے جہاں پہنچنے کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ دریاؤں کے پانی کو بڑے بڑے ڈیموں میں بند کرلیا جاتا ہے۔ ٢۔ سمندر کی سطح پر پلوں کی شکل میں بڑی بڑی سڑکیں بنا دی گئی ہیں یہاں تک کہ سمندر کے پانی کی گہرائیوں میں بحری اڈے قائم کردیے گئے ہیں۔ اس طرح مختلف سمندروں سے کروڑوں ٹن ہر روز تروتازہ مچھلی نکالی جاتی ہے۔ جسے انسان اپنی خوراک بنانے کے ساتھ ادویات اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح سمندر کی تہہ سے بڑے بڑے قیمتی ہیرے، جواہرات ہمیشہ سے نکالے جا رہے ہیں جو بالخصوص عورتوں کی حسن و زیبائش کے لیے گراں قدر قیمت کے حامل ہیں۔ معدنیات جیسی خوبصورت چیزیں زمین کی سطح پر نہیں پائی جاتیں۔ اب تو سمندر کے پانی سے تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرلیے گئے ہیں۔ نہ معلوم قیامت تک کون کون سی قیمتی اشیا سمندر کے پانی سے حاصل کرلی جائیں گی۔ ان ذخائر جن کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد سطح سمندر کی طرف آئیں تو دنیا کی تجارت کا ستر فیصد سے زائد حصہ سمندری راستوں کے ساتھ وابستہ ہے جو پرانے زمانے میں کشتیوں کے ذریعے اور آج کل آبدوزوں اور بحری جہازوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائی جا رہی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے جس پر انسان کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اگر آدمی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے کہ جو پانی سوئی کے معمولی وزن کو اپنی چھاتی پر برداشت نہیں کرتا وہ ہزاروں ٹن وزنی جہازوں کو نہ صرف اپنے آپ پر برداشت کرتا ہے بلکہ اسے اٹھائے ہوئے ہزاروں میل تک منتقل کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فائدے کے لیے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے۔ ٢۔ سمندر میں کشتیاں اللہ کے حکم سے چلتی ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر کی فضیلت : ١۔ کشتیاں پانی چیرتی ہوئی چلتی ہیں تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر کرو۔ (النحل : ١٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدردان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ شکر ادا کرنے والے کو مزید نوازتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٤۔ تھوڑے ہی بندے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ (سبا : ١٣) ٥۔ اللہ نے آنکھ، کان، دل، اس لیے دیے ہیں کہ اس کا شکر ادا کرو۔ (السجدۃ : ٩) ٦۔ اگر تم اللہ کا شکر کرو تو وہ تمہیں عذاب نہیں کرے گا۔ (النساء : ١٤٧) ٧۔ اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (آل عمران : ١٤٤۔ ١٤٥) ٨۔ شکر سے مراد اللہ کے احکام کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ (البقرۃ : ١٥٢۔ ابراہیم : ٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٤ سمندروں کی متنوع حیات بھی انسانی زندگی کے لئے مفید و ممد ہے۔ سمندروں میں انسانی زندگی کی دلچسپیوں کے دوسرے سامان بھی موجود ہیں۔ مچھلیوں اور دوسرے حیوانات بحری انسان کے لئے بہترین غذا ہیں۔ نیز سمندر کے موتی ، مونگے اور سیپ انسان کے لئے بطور زیور آج کے دور جدید میں بھی کام دیتے ہیں۔ یہاں کشتی کا فائدہ صرف سفر ہی نہیں بتایا گیا بلکہ سمندروں میں کشتیوں کے چلنے کے منظر کے حسن کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ وتری الفلک مواخر فیہ (١٦ : ١٤) ” تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے چلتی ہے “۔ لفظ تری سے کشتی ، پانی اور کشتی کی روانی کے خوبصورت منظر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سمندری جہاز پانی کو چیرتے ہوئے جا رہے ہوتے ہیں۔ اس فقرے سے ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام اس جہان کے جمالیاتی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتا۔ کائنات کی ہر چیز کو افادۂ حیات کے علاوہ انسان کے لئے حسین بھی بنایا گیا ہے۔ پھر قرآن مجید اس منظر سے انسان کو سبق سکھاتا ہے کہ یہ تمہارے لیے مفید بھی ہے ، تمہارے سفر و تجارت کا ذریعہ بھی ، اور یہ منظر تمہاری آنکھوں کے لئے خوبصورت بھی ہے لیکن ان تمام چیزوں کا تقاضا یہ بھی ہے کہ تم اللہ کا شکر بجالاؤ۔ ولتبتغوا من فضلہ ولعلکم تشکرون (١٦ : ١٤) ” یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ششم : سمندر کی تسخیر کا تذکرہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے سمندر پیدا فرمائے اور بندوں کے لیے ان میں منافع رکھ دئیے ان میں سے چار انعامات کا تذکرہ فرمایا۔ اول تو یہ فرمایا کہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاتے ہو اس سے مچھلیاں مراد ہیں سمندر سے مچھلیاں نکالتے ہیں اور تازہ بتازہ بھون کر یا پکا کر کھالیتے ہیں، دوسرا فائدہ یہ بتایا کہ تم سمندر سے زیور نکالتے ہو، اس سے موتی مراد ہیں جو سمندر سے نکالے جاتے ہیں جس کا سورة رحمن میں ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ) تیسرے کشتیوں کا تذکرہ فرمایا کشتیاں چھوٹی ہوں یا بڑی، بادبانی کشتیاں ہوں، یا پٹرول سے چلنے والے بڑے جہاز ہوں یہ سب پانی کو پھاڑتے ہوئے سمندر میں سے گزر جاتے ہیں ان کشتوں کے ذریعہ سفر بھی طے ہوتا ہے ایک براعظم سے دوسرے براعظم پہنچ جاتے ہیں، یہ اسفار تجارت کے لیے بھی ہوتے ہیں اور تعلیم کے لیے بھی، کشتیوں کے ذریعے مال کی آمد و رفت بھی ہوتی ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے کا ذریعہ ہے، ایک براعظم کے لوگ دوسرے براعظم کی پیداوار کھاتے ہیں اور بھی دوسری استعمالی چیزیں برآمد کی جاتی ہیں اس کو (وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ ) میں بیان فرمایا اور ساتھ ہی (وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) بھی فرما دیا (اور تاکہ تم شکر ادا کرو) انسانوں میں شکر گزار کم ہوتے ہیں۔ خالق کائنات جل مجدہ کی پیدا کی ہوئی نعمتیں تو استعمال کرلیتے ہیں لیکن شکر کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اس لیے بار بار شکر کی طرف توجہ دلائی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ سمندر بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہے اور اس سے تم گوناگوں فوائد حاصل کرتے ہو۔ مچھلی کا تازہ گوشت اس سے حاصل کرتے ہو، سمندر سے قیمتی جواہرات نکال کر زیب تن کرتے ہو۔ سفر کی سہولتوں کے لیے سمندر میں جہاز رانی کرتے ہو اور بغرض تجارت دور دراز ملکوں میں میں سمندری راستوں سے اپنا مال لے جاتے ہو اور دوسرے ملکوں کی مصنوعات اپنے یہاں در آمد کرتے ہو۔ ” وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ “ یہ معطوف علیہ مقدر پر معطوف ہے۔ ای لتعتبروا و لعلکم تشکرون۔ یعنی یہ شب کچھ اس لیے بنایا تاکہ تم اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی توحید پر استدلال کرو اور اس کی توحید اور اطاعت سے شکر نعمت کا حق ادا کرسکو۔ تقومون بحق نعمۃ اللہ تعالیٰ بالطاعۃ والتوحید (روح ج 14 ص 114) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14 ۔ اور وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے دریا کو مسخر کر رکھا ہے تا کہ تم اس دریا میں سے تازہ گوشت کھائو اور اس دریا میں سے گہنے اور زینت و آراستگی کا وہ سامان بھی نکالو جس کو تم پہنتے ہو اور اے مخاطب تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ اس دریا میں پانی کو پھاڑتی ہوئی چلی جا رہی ہے اور اس لئے بھی مسخر کیا تا کہ تم اللہ تعالیٰ کے فضل یعنی روزی تلاش کرو اور تا کہ تم خدا کا احسان مانو اور اس کے شکر گزار رہو۔ یعنی دریا اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی مسخر کر رکھا ہے تا کہ مچھلیوں کا تازہ گوشت کھائو اور سامان زیبائش یعنی موتی اور مونگا وغیرہ نکالو اور وہ زیور حاصل کرو جس کو تم پہنتے ہو موتیوں کی مالا اور گلو بند وغیرہ۔ کشتیاں اور جہاز پانی کو پھاڑتے ہوئے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دریا میں سفر کرتے ہو اور تجارت کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہو خدا کا فضل یعنی روزی کی جستجو کرو اور شہر در شہر سفر کرتے پھرو اور ان فوائد و منافع کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں تلاش کرو اس کے فضل سے یعنی روزی کمائو سو داگری سے دریا میں 12 ۔